19/12/18

سندی تحقیق کے ارکانِ ثلاثہ.....!!! مضمون نگار:۔ شاذیہ تمکین








سندی تحقیق کے ارکانِ ثلاثہ.....!!!
شاذیہ تمکین
تحقیق ایک ایسا عمل ہے جس کے ذریعہ صحیح اور غلط میں تمیز اور نامعلوم سے معلوم تک رسائی حاصل کی جاتی ہے۔جس شے کی حقیقت یا اس کے وجود سے انسانی شعور نابلد ہے،اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ موجود تو ہے مگر انسانی پہنچ کے دائرے سے بالاتر ہے۔مگر تحقیق کا ایک سرا جب اس کے وجود تک رسائی حاصل کر لیتا ہے تونامعلوم کے بحرِظلمات سے نکل کر معلوم کے بحرِبے کراں میں اس کا وجود ایک شناخت قائم کر لیتا ہے۔انسان کی محققانہ فطرت کا یہی وہ طریقۂ عمل ہے جس نے انسان کی رہائش گاہ کو دشت و بیاباں سے تہذیب یافتہ سماج میں منتقل کیا۔
ڈاکٹر جمیل جالبی کا کہنا ہے کہ تحقیق زندگی کی ہر سطح پر ایک زندہ معاشرے کی بنیادی ضرورت ہے۔
(ادبی تحقیق: ڈاکٹر جمیل جالبی، ص 11)
عصرحاضر میں ہم ارتقا پذیرمعاشرے کو مردہ تو نہیں کہہ سکتے،گر معاشرہ زندہ ہے تو اس کے بین السطور میں تحقیق کی منظّم کارفرمائی موجود ہے۔تحقیق ہر فرد کو غور و فکر کی طرف مائل کرتی ہے۔کیوں کہ انسانی فطرت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ وہ ہمیشہ کم ہو یا زیادہ،اپنی مقدار بھر غور و فکر میں مبتلا رہے۔یہی وہ تجسّس کا مادّہ ہے جس نے انسان اور جانور میں فرق کو ظاہرکرکے،انسان کو دیگر جاندار وں سے ممتاز کیااور اشرفیت بخشی۔
یہاں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ انسانی ارتقا کا دارومدار تحقیق پر مبنی ہے۔تحقیق جیسا کہ سب جانتے ہیں نامعلوم حقائق کی تلاش و دریافت کرنا یا معلوم شدہ حقائق کی تجدید کرنا،اُسے نئے انداز سے پیش کرنااور کسی نئے پہلو کا انکشاف کرنا تحقیق کہلاتا ہے۔مولانا کلب عابد، پروفیسر شعبۂ دینیات،مسلم یونیورسٹی،نے اپنی کتاب ’عمادالتحقیق‘ میں ’تحقیق ‘لفظ کی تشریح اس طرح کی ہے۔
’’تحقیق عربی زبان سے اسم مشتق ہے۔یہ باب تفعیل سے مصدر ہے۔اس کے اصلی حروف ح،ق،ق ہیں۔اس کا مطلب ہے حق کو ثابت کرنا یا حق کی طرف پھرنا۔‘‘ (تحقیق کا فن،ڈاکٹر گیان چند جین،ص9)
یوسف سر مست اپنے ایک مضمون ’ادبی تحقیق کا طریقۂ کار‘میں لکھ رہے ہیں کہ :
’’فارسی میں تحقیق کے لیے ’پژوہش ‘کا لفظ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنیٰ کھوج کرنے اور تلاش کرنے کے ہیں۔جستجو کا لفظ بھی فارسی میں تحقیق کے لیے استعمال ہوتا ہے۔‘‘ (ادبی تحقیق کا طریقۂ کار،یوسف سرمست،ص45)
ہندی میں اس لفظ کے لیے ’انوسندھان‘ استعمال کیا جاتا ہے۔جس کے معنی کسی مقررہ نشانے کو حاصل کرنے کے لیے اس کا تعاقب کرنا۔ انگریزی میں تحقیق کے لیے ’’Research‘‘لفظ مستعمل ہے جو مڈل فرنچ (Middle french)’’Recherche‘‘سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ’’To go about seeking‘‘ ہے۔ ’’Recherche‘‘ قدیم فرنچ لفظ ’’Recerchier‘‘سے اخذ کیا گیا ہے جو دو لفظ ’’Re+cerchier/sercher‘‘کا مرکّب ہے۔اور جس کا مطلب ’’Search‘‘یعنی تلاش کرنا ہے۔
مجموعی طور پر تحقیق کا مطلب صرف حقائق کی دریافت نہیں ہے،بلکہ اس کا از سرِ نو جائزہ لے کر نئے نتائج تک پہنچنا ہے۔کسی مسئلے کا تجزیہ کرکے اس کے حل تک پہنچنے کی کوشش کرنا ہے۔کسی شے کی حقیقت کا پتہ لگانا ہے۔حقائق کی بازیافت پوری صداقت کے ساتھ کرنا اور اس کے نتیجے کو مدلل طریقے سے پیش کرنا ہے۔چونکہ تحقیق کا مادہ انسان میں فطری طور پر پایا جاتا ہے اس لیے زندگی کے ہر شعبے میں تحقیقی عمل کی کار فرمائی نظر آتی ہے۔اس مضمون کا تعلق علمی تحقیق خصوصاً سندی تحقیق سے ہے اس لیے دیگر شعبہ جات سے تحقیق کی اہمیت سے قطع نظر کر کے علمی تحقیق کی طرف رجوع کرتے ہیں۔معروف محقق محمد جمال ا لدین قاسمی نے علمی تحقیق کے اغراض و مقاصد کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے : 
’’علمی تحقیق کے مقاصد کسی معدوم شے کو ایجاد کرنا، کسی متفرق کو یکجا کر نا،ناقص کو مکمل کرنا مجمل کو تفصیل سے بیان کرنا، مطول کی کانٹ چھانٹ کرنا،کسی بے ترتیب چیز کو مرتب کرنا،مبہم کی تعین کرنا اور غلطی کو آشکار کرنا قرار دیے گئے ہیں۔‘‘
(تحقیق و تدوین کا طریقۂ کار،پروفیسر ڈاکٹر خالق داد ملک،ص24)
سندی تحقیق کواگر ہمDiagramکی صورت میں پیش کریں تو وہ ایک مثلث کی شکل اختیار کرے گا۔ محقق، نگراں اور موضوع ارکانِ ثلاثہ ہوں گے۔ان تین ارکان کی شمولیت سے ہی تحقیقی کام پایہ تکمیل کو پہنچے گا۔اس درمیان تحقیق مختلف مراحل سے گزرتی ہے۔مثلاً مواد کی فراہمی، وسیع مطالعہ،خاکہ تیار کرنا،مقالے کی تسویدوغیرہ مگر محقق، نگراں اور موضوع تحقیق میں بنیادی رول ادا کرتے ہیں۔محقق تحقیق کا مرکز ہوتا ہے۔موضوعات اور مسائل تو لاتعداد ہیں مگر بغیر محقق کے ان کا وجود صفر ہی ہے۔ چونکہ انسان بنیادی طور پر ترقی پسند واقع ہوا ہے۔ ہمیشہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں منہمک رہتا ہے۔ اس لیے نئے نئے مسائل اس کے دماغ میں پیدا ہوتے رہتے ہیں یا پُرانے مسائل سے متعلق نئے نئے پہلو اور شکوک اُجاگر ہوتے ہیں۔وہ ان مسائل کے حل کرنے اور شکوک کو دور کرنے میں لگا رہتا ہے۔ ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کی رائے میں دنیا کا سب سے بڑا محقق ایک بچّہ ہو تا ہے۔اس کے اندر تجسس کا مادّہ ا س قدر موجزن رہتا ہے کہ وہ اپنے سامنے آنے والی ہر شے کی حقیقت جاننے کی کوشش کرتا ہے۔تو تحقیق کی ابتداء زندگی کی ابتدا کے ساتھ ہی وقوع پذیر ہوتی ہے۔اور جوں جوں عمر کا کارواں آگے بڑھتا ہے تحقیقی صلاحیت میں نکھار پیدا ہوتا ہے۔کسی کسی میں یہ صلا حیت خدا داد ہوتی ہے اور کہیں کہیں اکتساب اور مسلسل محنت سے حاصل کی جاتی ہے۔ ایک باکمال اور معیاری تحقیق کے لیے محقق کے اندر درج ذیل اہم خصوصیات کا ہونا لازمی ہے۔ 
1۔ تحقیق کے تئیں محقق میں میلان و رغبت کا ہونا لازمی عنصر ہے۔اس کے بغیر تحقیق کے میدان میں قدم رکھنا صرف وقت کا ضائع کرنا ہے،تحقیق کی راہیں بڑی پُر خار ہوتی ہیں۔طالب علم کارجحان اور دلچسپی ہی اس کے اندر بلندہمّتی پیدا کرتی ہے کہ اس معرکہ کو مکمل کامیابی کے ساتھ سر کر لیتا ہے۔عبدالرزّاق قریشی لکھتے ہیں کہ فارسی ادب نے اِڈورڈ براؤن کو اس قدر متاثر کیا کہ انھوں نے طب کے پیشے کو چھوڑ کر اپنی زندگی کا بیشتر حصّہ فارسی ادب کی تحقیق میں گزارا اور اتنی دسترس حاصل کر لی کہ ایران کے علمائے ادب نے بھی ان کی استادی کو قبول کیا۔ (مشمولہ، مبادیاتِ تحقیق: عبدالرزاق قریشی، ص 23) ایک اور جگہ لکھتے ہیں کہ سید سلیمان ندوی نے کالج کی آرام دہ زندگی اورمعقول تنخواہ کو خیرباد کرکے پوری زندگی دارالمصنّفین کی علمی خانقاہ میں ایک معمولی تنخواہ پر گزاردی۔ (ایضاً 23)، یہی وہ ذوق و شوق کا جذبہ ہے جو انسان کو جنون کی حد تک مائل کر دیتا ہے کہ وہ اپنی پوری زندگی ادب کی تحقیق کے لیے وقف کر دیتا ہے۔ 
2۔ محقق کا مطالعہ بہت وسیع ہونا چاہیے۔ تحقیقی موضوع پر دسترس کے ساتھ ساتھ مختلف علوم و فنون سے واقفیت بھی ضروری ہے۔مثلاً ہر شاعر و ادیب کے فن پارے اس دور کی عکّاسی کرتے ہیں جس دور میں اس نے اپنی زندگی گزاری ہے۔بعض دفعہ ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ ان فن پاروں سے چند ایک تاریخی حقیقت کی تصدیق بھی ہوئی ہے اور کسی اہم تاریخی واقعے کے رونما ہونے کی وجوہات کا بھی پتہ چلا ہے۔ایک بار میرے محترم استادپروفیسر نسیم الدین فریس صاحب نے دورانِ درس و تدریس متن کی عصری معلومات اور تہذیبی کوائف کی ایک دلچسپ مثال اس طرح پیش کی کہ میر نے ’نکات الشعرا‘میں بے نوا کے حالات میں لکھاہے کہ محمد شاہ بادشاہ کے دور میں ایک جوہری نے ایک موچی کو قتل کیا۔مقتول کی حمایت میں دلّی کے موچیوں نے ہنگامہ مچایا اور جامع مسجد میں جمعہ کے دن خطبے میں خلل ڈالا۔محمد شاہ کے ایک امیر ظفر خاں روشن الدولہ نے جوہری کو پناہ دی۔اس کی مخالفت دوسرے امرا نے کی۔نتیجتاً فساد برپا ہوگیا۔تلواریں چلیں کئی آدمی قتل ہو گئے۔اس واقعے پر بے نوا نے ایک مخمّس لکھا۔اس طرح ’نکات الشعرا‘سے ہمیں نہ صرف بے نوا کے مخمّس کی شانِ نزول کا پتہ چلتا ہے بلکہ عہدِ محمد شاہ میں امرائے سلطنت کے باہمی اختلافات کا بھی علم ہوتا ہے۔مذکورہ مخمّس ملاحظہ ہو:
یہ کیا ستم ہے اے فلک ہر زہ نابکار
مریخ پھر کے تیز کیا ہے خنجر کی دھار
جوتی فروش مردمسلماں دین دار
مردود جوہری نے لیا ہے ستم سے مار
سنگ جفا سے چور کیا لعلِ آبدار
جوتی فروش بیچ پڑی آکے کھلبلی
کئیوں کی کشتی ڈھیلی ہوئی اور عقل ٹلی
بے حدشمار مرحلہ سے جوتیاں چلی
کیا نئی و کیا پُرانی پشوری و گھیتلی
لاہوری،سیف خانی،چرن مُنڈی،پٹّی دار
کتنوں کو مار جی سے قضا نے گرادیا
کتنوں کو جی بچا کے بہت ہڑبڑادیا
کاغذ پہ بے نوا نے یہ سُن کر چڑھا دیا
لگتے ہی مار جوتیوں طرّہ گِرادیا
تا حشر ہر زباں پہ رہے گا یہ یادگار
محمد حسین آزاد ’آبِ حیات‘ میں فرماتے ہیں کہ میر کے لکھنؤ آنے سے قبل یہاں ان کی شاعری کا طوطی بول رہا تھا۔ لوگ ان کے کلام کے مدّاح تھے۔مگر میر کی شخصیت اور شکل و صورت سے نا واقف تھے۔ جب میر پہلی بار لکھنؤ آئے اور ایک مشاعرے میں شرکت کی،شہرِ لکھنؤ کے بانکے ٹیڑھے،نئی تراش اور نئے انداز کے نوجوانوں نے زمانے کے ہاتھوں دل شکستہ،غریب الوطن میر کی قدیمانہ وضع پر ہنسی اڑائی اور ان کا وطن پوچھا تو میرنے مذکورہ قطع فی البدیہہ کہہ کر غزل کی ابتدا کی:
کیا بود و باش پوچھو ہو پُورب کے ساکنو
ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے
دلّی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے
اس کو فلک نے لوٹ کے ویران کر دیا
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے
میرکے مذکورہ قطعے کی تشریح تاریخ طلب ہے۔ اس دور کی تاریخ کا مطالعہ کیے بغیر ان اشعار کو نہیں سمجھا جا سکتا۔اسی طرح غالب کے خطوط سے دہلی کی تاریخ اور تہذیبی صورتِ حال کا پتہ چلتا ہے۔ہر لکھنے والے کی تخلیق کے بین السطور میں اس دور کی تاریخ مضمر رہتی ہے۔بنا تاریخی شعور کے ایسے فن پاروں پر تحقیق کا حق ادا نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح صرف تاریخ سے ہی نہیں بلکہ مختلف علوم وفنون مثلاًفلسفہ، عمرانیات، نفسیات، لسانیات و سائنس وغیرہ سے بھی واقفیت ہونی چاہیے۔ 
3۔ ہر زبان و ادب کے محقق کے لیے ضروری ہے کہ دیگر زبان و ادب سے بھی واقفیت رکھتا ہو۔مثلاًاردو ادب کا طالب علم اگر فارسی،عربی،ہندی،انگریزی وغیرہ زبان سے واقف ہے تو دورانِ تحقیق ضرورتاًوہ ان زبانوں میں تحریر کردہ بنیادی ماخذ ات سے مستفید ہو سکتا ہے جو مصنف کی اصل تخلیق ہوتے ہیں ورنہ ترجمہ پر انحصار کرنا پڑے گا جو ثانوی ماخذ کا درجہ رکھتا ہے۔ جس میں غلطیاں سرزد ہونے کے امکانات قوی ہوجاتے ہیں۔اس لیے محقق کو چاہیے ان تین چار زبانوں میں بولنے، لکھنے، پڑھنے اورسمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ کیونکہ محقق کا وسیع ذہنی پس منظر اس کے اظہار کو جامعیت،اس کے خیالات کو وسعت اور اس کی تحریر کو وقارعطا کرتا ہے۔
(نئی تنقید، ڈاکٹر جمیل جالبی، ص 63)
4۔ محقق کو ہمیشہ غیر جانبدار ہونا چاہیے۔موضوع کے تئیں اپنے ذاتی عقائد،ذاتی رجحانات ومیلانات،شخصی خیالات و نظریات اور ذاتی جذبات کو یکسر فراموش کر نے کے بعدتحقیق کی ابتدا کرنی چاہیے،کیونکہ تحقیق کی بنیاد ذاتی عقائد اور خواہشات پر نہیں بلکہ منطقی دلائل اور حقائق پر مبنی ہوا کرتی ہے۔ اگر آپ کی ذاتی رائے حقائق سے مطابقت رکھتی ہے تو بلا چوں و چرا اُسے شامل کرنا چاہیے۔ ورنہ ممکن ہے کہ محقق بڑی حد تک بے راہ رو ہو جائے۔ 
5۔ محقق کو چا ہیے صبر و تحمل کے ساتھ اپنے موضوع سے متعلق مصادر و مراجع کو بار بار پڑھے۔جب تک منزل مقصود تک نہیں پہنچ جائے تب تک مطالعہ کے تئیں اکتاہٹ و بیزاری نہیں پیدا ہونی چاہیے۔صبر و تحمل اور ا حتیا ط کے ساتھ بہتر سے بہتر مواد تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کرے۔اپنے مقالے کو جہاں تک ممکن ہو زیادہ سے زیادہ تخلیقی اور مکمل کرنے کی سعی کرے۔ذہنی طور پر یہ سوچ پیدا کرنی چاہیے کہ مقالہ علمی دنیا میں ایک قابلِ قدر اضافے کی صورت میں سامنے آئے۔
۶۔ محقق میں دیانتداری اور ایمانداری کی تمام خصوصیات بدرجۂ اتم موجود ہونی چاہیے۔علمی امانت داری کے بغیر تحقیق کے آداب و اخلاقیات کے ساتھ انصاف نہیں کیا جا سکتا۔ہر نقل و اقتباس کا حوالہ محقق کو ضرور دینا چاہیے۔ عبارت و اقتباس کے نقل میں کسی قسم کا اضافہ یا تحریف نہیں کر نی چا ہیے اور ہر عبارت کو اس کے کہنے والے کی طرف منسوب کرنا چاہیے۔نہ کہ محنت کسی اور کی ہو اور آپ اس پر پوری عمارت سجالیں۔یہ تحقیقی آداب کے خلاف ہے۔بقول ڈاکٹر جمیل جالبی:
’’آپ کی تحریر چبائے ہوئے لقموں کی طرح نہیں ہونا چاہیے۔اس میں ایک زاویہ ہونا چاہیے جوآپ کا اپنا زاویہ ہو.....اس مخصوص زاویے کی اہمیت ہی آپ کی تحریر کو وہ قوت اور زور عطا کرے گی جس سے دوسرے متاثر ہوں گے۔‘‘ (نئی تنقید،ڈاکٹر جمیل جالبی،ص58)
7۔ تکبّر،غرور اور خودسری کے جذبے سے محقق کو چاہیے کہ ممکنہ حد تک اجتناب کرے۔کسی کے آرا و نظریات کوگھٹیا سمجھ کر ان پر کیچڑ نہیں اچھالنا چاہیے۔یہ تحقیق کے آداب کی خلاف ورزی ہوگی۔ایسے ناگوار عوامل تحقیق کے حسن اور محقق کی محنت و کاوش پر خاک ڈال دیتے ہیں۔ایسی صفات کے حامل محقق کے نظریات چاہے سو فیصدی درست ہی کیوں نہ ہوں قاری ان کے مطالعے سے متنفر ہو جاتا ہے۔اس لیے محقق کو چاہیے کہ وہ آداب تحقیق کا خیال رکھے۔
8۔ محقق ا گر ایک اچھا منتظم ہوتا ہے تو تحقیقی کام بڑے ہی منظّم انداز میں تکمیل تک پہنچتا ہے۔اس لیے محقق کو چاہیے کہ نظم و نسق اور تنظیم و ترتیب کا خاص خیال رکھے۔ اپنی سوچ و فکر کو منتشر نہ ہونے دے۔ایک وقت میں کسی ایک نقطے پر ہی غور کریں،چونکہ موضوع کے انتخاب کے بعد تحقیق کا سب سے پہلا مرحلہ خاکہ تیار کرنا ہوتا ہے۔ ایک منظّم خاکہ محقق کی بہترین رہنمائی کرتا ہے۔محقق کو چاہیے مذکورہ خاکے کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے بڑی احتیاط، تنظیم و ترتیب کے ساتھ تحقیقی مراحل طے کرے۔
9۔ محقق کو ذہین اور حاضر دماغ ہونا چاہیے۔اگر وہ ایک اچّھے حافظے اور روشن دماغ کا مالک ہوتا ہے تو تحقیق کے درست نتائج حاصل ہو سکتے ہیں۔مختلف افکار کا ترتیب کے ساتھ موازنہ کرکے ایک نتیجہ خیز نقطے پر پہنچ سکتا ہے۔مگرحافظے اور یادداشت پر مکمل طور پر منحصرنہیں ہونا چاہیے۔کسی بھی ایک نقطے پر نظریہ قائم کرنے سے پہلے متن اور مواد کا کئی بار مطالعہ کرنا ضروری ہے۔تبھی کسی کامل نظریے تک پہنچنا ممکن ہے۔اگر یادداشت پر انحصار کر کے قلم چلانا شروع کر دیا جائے تو لغزش کے امکانات بڑھ جاتے ہیں جس کے نتائج زیادہ تر کار آمد ثابت نہیں ہوتے۔
تحقیق طالب علم کے لیے ایک کوہِ قاف کی وادی کی طرح ہے جس میں نگرانِ تحقیق یعنی Supervisor محقق کے لیے مشعلِ راہ بن جاتے ہیں۔تحقیق کی اوبڑ کھابڑ،نوکدار پتھریلی زمین پر تحقیقی مراحل طے کرنے میں محقق کے لیے آسانیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ہندو پاک کی چندیونیور سیٹیوں میں ایم۔اے کی سطح پر ہی مختصراً مقالہ پروجکٹ ورک یا تھیسس کی شکل میں تحریر کروایا جاتا ہے۔ کہیں کہیں اس مقالے کے لیے نگرانِ تحقیق عام طور پراسی مضمون کے استادکو منتخب کیا جاتا ہے جس میں طالب علم تحقیق کرنا چاہتاہے۔اور کہیں ایسا بھی ہوتا ہے استاد کی عدم موجودگی کی بہ نسبت سارے طلبا و طالبات ایک ہی نگراں کے حوالے کر دیے جاتے ہیں۔ایم۔فل اور پی ایچ۔ڈی کی سطح پر کوئی مخصوص قاعدہ موجود نہیں ہے۔ کہیں بذریعہ صدرِ شعبہ نگراں کی تقرری عمل میں آتی ہے،تو کہیں نگراں ہی اس کا فیصلہ کرتا ہے کہ وہ کس کا Supervisor بنے اور کہیں ایسا بھی ہوتا ہے کہ طالب علم خود اپنے نگراں کا انتخاب کرتا ہے۔بلکہ احسن طریقہ یہ ہونا چاہیے کہ طلباء کے ادبی میلان کو مدّ نظر رکھتے ہوئے جس صنف میں طلبا کی رغبت موجود ہواُسی صنف کے ماہر استاد کے حوالے طالب علم کو کیا جانا چاہیے۔بحر حال نگراں میں درجِ ذیل اوصاف لازماًہونا چاہیے۔
1۔ نگرانِ تحقیق فنِ تحقیق میں مہارت رکھتا ہو۔تحقیق کے اصول اور قاعدے و قوانین،تحقیقی آداب و اخلاقیات اور تحقیق میں درپیش مسائل سے مکمل طور پر روشن دماغ کا حامل ہو اور تحقیق کے میدان میں گراں قدر خدمات سر انجام دے چکا ہو۔بذاتِ خود اس کے اپنے تحقیقی مقالے تحقیقی معیار پر کھرے اُترتے ہوں۔اپنے آپ کو ہمیشہ تحقیق میں مشغول رکھتا ہو۔تبھی وہ ایک اچھا Supervisor ثابت ہو سکتا ہے۔ طالب علم میں تحقیقی شعور پیدا کر سکتا ہے۔اور اس کی نگرانی میں سارے تحقیقی کام کامیابی کے ساتھ پایۂ تکمیل تک پہنچ سکتے ہیں۔
2۔ نگراں کو اسی موضوعِ تحقیق پر کام کروانا چا ہیے جس پر وہ خود دسترس رکھتا ہو۔موضوع پر جتنی اچھی پکڑ ہوگی کام اتنا ہی معیاری ہوگا۔ورنہ محقق کو مختلف دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔کیونکہ عدم معلومات کی وجہ سے نگراں مذکورہ موضوع کا کامل رہبر نہیں بن سکتا۔
3۔ Supervisorکو چا ہیے کہ وہ ایک اچھا رہنما اور رہبر ثابت ہو۔تحقیق میں محقق کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت صرف کر پائے اس کے تحقیقی مصادرو مراجع کے بارے میں رہنمائی کرتا رہے اور وقتاً فوقتاً اس کے کام کا عمیق معائنہ کرتے ہوئے اپنی تنقیدی آرا سے محقق کو روشناس بھی کراتا رہے۔اس سے کام وقت پر ختم ہو سکتا ہے اور دو لوگوں کی محنت اور کاوش سے ایک معیاری تحقیق منظرِ عام پر آسکتی ہے۔
4۔ نگراں اور محقق کے درمیان ہم آہنگی ہونی چاہیے کیونکہ،ذہنی مناسبت اور ایک پُر خلوص رشتہ رہنابرائے تحقیق ایک مثبت پہلو کا حامل ہے۔ورنہ اس کے منفی اثرات تحقیق کے لیے مضر ثابت ہو سکتے ہیں۔نگراں کے دل میں اپنے محقق کے تئیں خیر خواہی کا جذبہ رہنا چاہیے۔نہ زیادہ سختی سے پیش آئے اور نہ ہی زیادہ نرمی کا برتاؤ رکھے۔محقق کا کام کتنا ہی ناقص کیوں نہ ہو نگراں کو چا ہیے اس کی حوصلہ شکنی کے بجائے مفید مشورے کے ساتھ ساتھ اس کی حوصلہ افزائی بھی کرے۔نگراں کی شخصیت ایسی ہونی چاہیے کہ محقق کے اندر اس کے تئیں خوف و ہراس کا جذبہ پیدا نہ ہو۔اگر ایسا ہو تو نہ ہی Supervisor محقق کی راہ میں درپیش مسائل کا مطلق اندازہ لگا سکتا ہے اور نہ ہی محقق اپنی پریشانیوں سے نگراں کو واقف کروا سکتا ہے۔ دونوں کی شخصیت ایک دوسرے کے لیے مبہم بن جاتی ہیں اور تحقیق پر براہِ راست اس کا بُرا اثرپڑتا ہے۔
5۔ ڈاکٹر گیان چند جین لکھتے ہیں کہ نگراں میں یہ سیر چشمی ہونی چاہیے کہ اسکالر کو خود سے اختلاف کی آزادی دے۔ (فن تحقیق: ڈاکٹر گیان چند جین، ص 47) اور یہ سو فیصدی درست بھی ہے۔کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ عمیق مطالعہ،کڑی محنت اور تلاش و جستجو سے موضوعِ تحقیق پر محقق اتنی دسترس حاصل کر لیتا ہے کہ چند ایک نکات پر نگراں کے آراء اُسے موزوں نہیں لگتی۔اگر نگراں کی طرف سے اختلاف کی آزادی رہے تو محقق کو اپنی رائے ثابت کرنے میں جھجک یا ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوتی ہے۔اگر محقق کی موزوں آرا تھیسس کے ابتدائی مراحل میں ہی نگراں کی ذریعہ لائقِ تحسین یاقابلِ قبول ہو تو یہیں سے محقق کے حوصلے پست ہو جاتے ہیں اور مزید کام کے لیے جوش و خروش میں کمی پیدا ہو جاتی ہے۔اس لیے نگراں کو چاہیے کہ اپنی ذاتی آرا محقق پر مسلّط کرنے سے اجتناب کرے۔
سندی تحقیق کا ایک اور اہم رکن’موضوع‘ ہے۔ کسی مسئلے یا موضوع کے بغیر تحقیق کا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔موضوعِ تحقیق کی تلاش و جستجواور انتخاب و تعین تحقیقی عمل کا سب سے پہلا مرحلہ اور سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ بڑی ہی عرق ریزی اور باریک بینی سے یہ مرحلہ طے کیا جانا چاہیے۔کیونکہ محقق و نگراں کی دلچسپی و رغبت اور موقع و محل کی مناسبت سے موزوں موضوع کا انتخاب عمل میں آئے تو تحقیق کا نصف کام ختم ہو جاتا ہے۔عموماً موضوع کا انتخاب دو طرح سے عمل میں آتا ہے پہلا نگراں کی طرف سے موضوع کا انتخاب اور دوسرا محقق کی طرف سے موضوع کا انتخاب۔
چند جامعات میں ایسا ہوتا ہے کہ صدرِ شعبہ اور دیگر اساتذہ کرام کی آپسی سمجھ بوجھ سے محقق کے رجحان و فکری میلان پر غور کیے بغیر کسی ایک موضوع کا انتخاب کر لیا جاتا ہے اور اس موضوع پر کام شروع کرنے کی ہدایت بلکہ فرمان جاری کر دیا جاتا ہے۔ممکن ہے محقق ذہنی طور پر مذکورہ موضوع کے لیے اپنے آپ کوتیار نہیں کر پائے اور موضوع طالبِ علم کے رجحانِ طبع کے مطابق نہیں ہوگا تو تحقیق میں دشواریاں پیدا ہو جائیں گی۔عدم دلچسپی کے سبب محقق دل جمعی اور لگن سے کام نہیں کر پائے گااور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ درمیان میں ہی تحقیق کا کام ترک کردے۔مثلاً طا لب علم گر موزوں طبع نہیں ہے یا فنِ عروض اور لوازماتِ شاعری سے بہ خوبی واقف نہیں ہے تو اشعار کی تدوین میں غلطی کے امکانات پیدا ہو جاتے ہیں۔ 
بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ کچھ جامعات میں موضوع کے انتخاب کا فریضہ مکمل طور پر طالب علم کو سونپ دیا جاتا ہے۔عین ممکن ہے کہ کارِ تحقیق کی اس پُر خار وادی کی دشوار گزار راہوں میں ناتجربہ کار طالب علم بھٹک بھی سکتا ہے۔کیونکہ مختلف جامعات میں ایم۔فل کی سطح سے ہی طالب علم کو محقق بننے کے خوش آئندمواقع فراہم کر دیے جاتے ہیں اور چند ایک جامعات میں ایم۔فل کی بھی سہولت موجود نہیں ہے۔ ایم اے کے بعد ہی براہِ راست پی ایچ ڈی میں داخلہ مل جاتا ہے۔ششماہی کورس ورک میں فنِ تحقیق یا اُصولِ تحقیق کے متعلق مکمل معلومات حاصل نہیں ہو پاتی۔ایک تو تحقیق پر اردو میں کتابیں نہ کے برابرہیں جو بھی ہیں وہ اُصول سے زیادہ مسائل پر مبنی ہیں۔طالب علم انھیں مسائل میں الجھ جاتا ہے اور چھ ماہ کا وقت پلک جھپکتے نکل جاتا ہے۔ایسے میں گر طالب علم کو موضوع کے انتخاب کا اہم اور نازک فریضہ سونپ دیا جائے تو اس سے کیا حاصل ہو سکتا ہے۔اس مسئلے کے حل کے لیے موزوں طریقہ اختیار کیا جانا چاہیے۔یہ بہتر ہوگا کہ شعبے کے تمام اساتذہ اور طلبا و طالبات میں عام بحث و مباحثے سے یہ پتہ لگانے کی کوشش کی جائے کہ جتنے بھی امیدوار موجود ہیں ان میں سے ہر ایک کی دلچسپی یا اس کی رغبت زیادہ شاعری سے ہے یا نثر سے۔گر کسی طالب علم کا رجحان شاعری کی طرف ہے تو کس صنفِ شعر سے اور اگر نثر کی طرف میلان ہے تو کس صنفِ نثر سے ہے۔گر اس بات کا پتہ چل جائے تو چند ایک سوالات سے اس صنف میں طلبا کی حقیقی دلچسپی اور وسعتِ مطالعہ کا بھی پتہ لگایا جا سکتا ہے۔پھر صدرِ شعبہ کومذکورہ صنف میں دلچسپی رکھنے والے امیدوار کو اسی صنف میں مہارت رکھنے والے استاد کی نگرانی میں رکھنا چاہیے۔نگراں اور امیدوار آپسی گفت و شنید سے ایک ایسے موضوع کا انتخاب کریں جس کے ساتھ وہ پورا پورا انصاف کر پائیں۔ اگر نگراں اور محقق دونوں مخالف جنس ہیں تواس بات کا خیال رکھا جانا چاہیے کہ ایسے موضوع کا انتخاب ہو جس میں تباد لۂ خیال میں مشکلات پیش نہ آئیں۔
ہندوپاک کی اکثر جامعات کے اردو شعبوں میں موضوعات کی تنگی کا مسئلہ درپیش آتا ہے۔ عصرِ حاضر میں ادبی تحقیق کا دائرہ بہت وسیع ہو گیا ہے۔مختلف اصناف، مختلف شاعروں، مصنفوں، نقّاد، تحریکات و رجحانات، مختلف ادوار کوموضوعِ تحقیق بنایاجاتا ہے۔پہلے تحقیق و تنقید کی راہیں الگ تھیں۔اب تحقیق میں تنقید کی شمولیت کا رجحان بڑھ رہا ہے۔بقول ڈاکٹر جمیل جالبی:
’جدید رجحان یہ ہے کہ تنقید کی بنیاد تحقیق پر رکھی جائے تاکہ جو بات کہی جائے پہلے اس کی صحت ہو جائے۔ اس عمل سے جو نتیجہ اخذ ہوگا وہ بھی درست ہوگا۔‘‘
(ادبی تنقید،ڈاکٹر جمیل جالبی،ص17)
اس لیے اب مختلف طرح کے موضوعات پر تحقیقی کام کیے جا سکتے ہیں اور کیے جا رہے ہیں۔ہند وپاک کی تمام جامعات کو یہ کرنا چاہیے کہ آج کے اس Technological دور میں جدید Technologyسے مستفید ہوتے ہوئے اپنی یونیورسٹی کی ویب سائٹ میں ہر شعبے کے لیے ایک مخصوص گوشہ قائم کرکے تحقیق شدہ اور زیرِ تحقیق موضوعات کی فہرست Upload کی جائے اور اُسے ہر سال مستعدی سے Updateکیا جاتا رہے۔ ایسی فہرست سے ہمارے اردو شعبوں کو اس بات کی موزوں جانکاری مل پائے گی کہ کن کن موضوعات پر کام ہو چکا ہے یا ہو رہا ہے۔اس سے تکرارِ موضوع کے مسئلے سے بھی بچا جا سکتا ہے۔اور تحقیق شدہ موضوعات پرغور و خوض سے کسی نئے پہلو کی تلاش کرکے ایک نئے زاویے سے تحقیق کی جا سکتی ہے۔جناب ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب نے اپنے مضمون’’موضوعِ تحقیق کی تلاش و تعیین اردو میں ادبی تحقیق کے تناظر میں‘‘میں موضوع کی تنگی کے مسئلے کا حل اس طرح پیش کیا ہے:
’’جہاں کسی جامعہ کے اردو شعبے کو’موضوع نہیں ملتے‘کا مسئلہ درپیش ہو،وہاں وہ شعبہ،تحقیق و تدوین کا ذوق اور نسبتاً زیادہ معلومات اور تجربہ رکھنے والے پانچ سات پروفیسر حضرات کو اپنی جامعہ میں مدعو کرے،باہمی مشاورت سے تحقیق و تدوین کے لائق نئے موضوعات کی ایک فہرست زیرِ غور لائی جائے،اس پر بحث و مبا حثہ اورتبادلۂ خیال ہو۔اس عمل کے نتیجے میں آئندہ پورا سال شعبہ،تحقیق کراتا رہے۔‘‘ (مشمولہ،تحقیق شمارہ نمبر16،ص8)
جناب ہاشمی صاحب کی یہ تجویز تمام جامعات کے لیے کار آمد ثابت ہو سکتی ہے۔یہ تو تھا کہ موضوع کا انتخاب کیسے کیا جائے،اب ایک بڑامسئلہ سامنے آتا ہے کہ کس طرح کے موضوع کا انتخاب کیا جائے۔ذیل میں انتخابِ موضوع کے متعلق چند تجاویزدرج ہیں۔
1۔ سب سے پہلے نگراں اور محقق کو یہ دیکھنا چا ہیے کہ ایسا موضوع تحقیق کے لیے تلاش کیا جائے جو دونوں کے لیے دلچسپ ہو۔(جس کا ذکر پہلے کیا جا چکا ہے)۔جس کام کو انسان پوری دل جمعی اور دلچسپی کے ساتھ کرتا ہے تو تا حدِّ امکان اُسے کامیابی ضرور ملتی ہے۔اگر محقق شاعری سے زیادہ فکشن میں دلچسپی رکھتا ہے تو اسے فکشن کی ہی کسی ایسے صنف پر تحقیق کرنی چاہیے جس میں اس کا مطالعہ وسیع ہو۔یہ زیادہ مفید ثابت ہو سکتا ہے۔
2۔ ڈاکٹر گیان چند جین کی رائے میں موضوع خالص تنقیدی نہ ہو کیونکہ یہ تحقیق و تنقید دونوں کی حق تلفی ہے۔ (مشمولہ، فنِ تحقیق: ڈاکٹر گیان چند جین، ص 80) جمیل جالبی بھی فرماتے ہیں کہ موضوع اگر تنقیدی ہے تو اس کی بنیاد تحقیق پر رکھی جائے۔ (ادبی تنقید، جالبی، ص 17) تحقیقی مقالوں کے لیے ایسے موضوعات کا انتخاب نہیں کیا جانا چاہیے جن کا تحقیق سے دور دور تک کوئی سروکار ہی نہ رہے اور وہ خالص تنقیدی موضوعات کے زمرے میں آجائیں۔ موضوع کو تحقیقی ہونا چاہیے اور دورانِ تحقیق اس میں از خود تنقیدی پہلو آتے جائیں تو کوئی مضائقہ نہیں۔
3۔ اپنی استطاعت کے باہر ناموزوں موضوعات متعین نہیں کیا جانا چاہیے۔مثلاً ایک شمالی ہند سے تعلق رکھنے والا طالب علم دکن کی کسی تخلیق پر تحقیق شروع کرے جبکہ دکنی زبان پر کوئی مہارت نہیں رکھتا ہو تو تحقیق میں حد درجہ رکاوٹ پیدا ہونے کے امکانات رہتے ہیں۔اگر محقق اور نگراں ایسے موضوع کا بھی انتخاب کرتے ہیں جو کسی غیر ملکی زبان پر دسترس کا متقاضی ہو مگر تحقیق کار اور راہِ نما اس زبان پر اتنی مہارت نہیں رکھتے تو تحقیق کے آداب اور معیار کو ملحوظِ خاطر رکھ پانا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہو جاتا ہے۔
4۔ ایسا موضوع اختیار کیا جانا چاہیے جس سے معلومات میں اضافہ ہو نہ کہ صرف وقت کا ضائع کرنا مقصود ہو۔ موضوع سے متعلق چند ایک کتابوں کو سامنے رکھ کر انھیں کتابوں میں موجود مواد کو اپنے مقالے میں شامل کرلیا اور کوئی نیا پہلو یا کوئی نئی بات کا انکشاف نہیں ہوا تو اس سے کچھ حاصل نہیں ہو سکتا ہے۔مواد سے استفادہ تو کیا جاتا ہے مگر کوئی نیا پہلو بھی تو سامنے آنا چاہیے جس میں بحیثیت محقق آپ کی انفرادیت جھلکے۔بقول شیر یڈن بیکر:
’’ریسرچ کے معنی دوبارہ تلاش کرنا ہیں یعنی جہاں دوسروں نے تلاش کی وہیں پھر تلاش کر کے ایک نئی بات کھوج نکالنا جو دوسرے نہیں ڈھونڈ پائے تھے۔ ‘‘
(مشمولہ،آزادی سے قبل اردو تحقیق،ڈاکٹر محمد اکمل،ص21)
5۔ سندی تحقیق میں ایسے موضوع کو ترجیح دی جانی چاہیے جس میں زیادہ سے زیادہ تحقیقی مواد حاصل ہو سکے۔سندی تحقیق میں معین وقت میں مقالہ مکمل کرنے کی قید رہتی ہے۔معین مدّت کی حصّار میں قید محقق اگر ایسا موضوع اختیار کر لے جس میں پورا وقت مواد کی تلاش میں صرف ہو جائے تو اس سے دو باتیں سامنے آسکتی ہیں یا تو ایک ادنیٰ درجے کا مقالہ ہی منظرِ عام پر آئے یا بے مواد کے موضوع سے گھبرا کر محقق میدان چھوڑنے پر مجبور ہو جائے۔
۶۔ ایسے موضوع کو بھی ترجیح نہیں دی جانی چاہیے جس پر مواد تو زیادہ رہے مگر مواد تک رسائی کے ذرائع اوروسائل کی عدم موجود گی محقق کی راہ میں دشواریاں کھڑی کر دے۔مثلاًاگر کوئی ہندوستانی طالب علم اردو کی خواتین افسانہ نگاروں پہ کام کرنا چاہتا ہے تو اس موضوع کے تحت ہندوستان اور پاکستان دونوں ملکوں کی خواتین افسانہ نگاروں کو اپنی تحقیق میں شامل کرنا پڑے گا۔مگر دورِ حاضر میں دونوں ملکوں کی سیاسی نا مطابقت کی بدولت آمد و رفت کی دشواریاں محقق کی راہ کا پتھر بن سکتی ہیں،نہ اسے پاکستان جانے کا کبھی موقع مل سکتا ہے اور نہ ہی وہاں سے کسی بھی طریقے سے وہ مواد حاصل کر سکتا ہے۔اسی طرح کبھی کبھی مالی دشواریاں بھی بڑھتے ہوئے قدم روک لیتی ہیں۔اگر محقق سرکاری وظیفے کا اہل نہیں ہے اور موضوع سے متعلق مواد بیرونِ ممالک میں موجود لائبریریوں کی سیرکا تقاضا کرتا ہے تو محقق کے لیے پریشانیاں لاحق ہو جاتی ہیں۔اور آخر میں معاملہ یہ درپیش آتا ہے کہ یا تو وہ موضوع بدلنے پر مجبور ہو جاتا ہے یا تحقیق سے رشتہ منقطع کر لیتا ہے۔
7۔ مشہور و معروف نقّاد اور محقق شمیم حنفی صاحب بجا فرماتے ہیں کہ :
’’زندہ ادیب پر کام نہیں ہونا چاہیے،تاوقتیکہ وہ اپنا سارا کام کر چکا ہو اور اس کی گنجائش نہ رہ گئی ہو کہ وہ مزید کوئی کام کرے گا۔‘‘ (مشمولہ،تحقیق شمارہ نمبر16،ص6)
چونکہ ادیب ابھی با حیات ہے محقق کے لیے آسانیاں فراہم ہو سکتی ہیں کہ مواد کے لیے اِدھرُ ادھر کی دوڑ دھوپ سے نجات مل جائے گی۔مگر ایسا تحقیقی کام مکمل نہیں ہوتا ہے۔کیونکہ جب تک وہ زندہ ہے اس کی تخلیقات منظرِعام پر آتی رہیں گی اورنظریات اور خیالات کو لے کر نئے نئے انکشافات ہوتے رہیں گے۔اورعین ممکن ہے کہ آئندہ آنے والے نظریے سابق آراء کی تردید بھی کرتے ہوں،اور کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی ذاتی مفاد کی غرض سے کسی زندہ شخص کو موضوع بنا لیا جاتا ہے جو سراسر تحقیقی آداب کی خلاف ورزی ہے۔گیان چند جین درست فرماتے ہیں کہ:
’’تحقیق میں مصلحت کی آلائش شامل ہو جائے تو وہ حق کی تلاش نہیں رہتی۔‘‘ 
(تحقیق کا فن،ڈاکٹر گیان چند جین،ص85)
8۔ ایسے موضوع کو ترجیح نہیں دینی چاہیے جس سے محقق جذباتی طور پر جُڑا ہوا ہو اور احتیاط کے تقاضوں کو ملحوظِ خاطر نہ رکھ پائے اور نہ ہی ایسا موضوع اختیار کیا جائے جس سے شدید قسم کا عناد ہو کہ محقق تحقیق کا حق ادا نہیں کر سکتا ہے۔
9۔ اگر محقق اردو کے علاوہ دیگر زبانوں سے ناواقف ہے تو اسے ایسے موضوع سے پرہیز کرنا چاہیے جس میں کسی دوسری زبان کی معلومات کے بغیرکام مکمل ہی نہ ہو پائے۔مثلاًایسا موضوع جس کے زیادہ تر مواد انگریزی، فارسی یا عربی زبان میں ہی دستیاب ہیں اور اس کے تراجم اردو زبان میں موجود نہیں ہیں تو ایسی حالت میں محقق تحقیق کا حق ادا نہیں کر سکتا۔ 
المختصر تحقیق کے مذکورہ تین بنیادی مراکز تحقیقی عمل میں اہم رول ادا کرتے ہیں۔چونکہ تحقیق سچ یا حقیقت کی دریافت کا عمل ہے جس میں کسی شے کی حقیقت کا پتہ لگایا جاتا ہے، صحیح و غلط کے بعض مسلمات کی روشنی میں تفتیش کی جاتی ہے اورکسی مسئلے کی حقیقت تک پہنچنے کی کوشش میں جد و جہد کی جاتی ہے، اس لیے ابتداء سے لے کر خاتمے تک سندی تحقیقی عمل(Verb) میں جہاں فاعل کی حیثیت سے محقق (Subject)پورے جوش وخروش کے ساتھ متحرّک رہتا ہے وہیں کوئی موضوع یا مسئلہ(Predicate) بحیثیتِ مفعول بڑی ہی باریک بینی اور عمیق تجزیاتی عمل سے گزرتا ہے اور ان دونوں کے درمیان نگراں (Helping verb) بحیثیتِ مددگارِ فعل مذکورہ عمل کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے میں ایک رہبر، رہنمااور ہادی کااہم کردار نبھاتا ہے۔ نتیجتاً ایک کامل،جامع اور معیاری مقالہ یا تھیسس علمی دنیا میں ایک کار آمد اضافے کے طور پر منظرِ عام پر آتا ہے جس پر مشہور محقق آرتھر کول(Arthor Cole) کی جدید و جامع تعریف یقینی طور پر صادق آتی ہے:
’’مقالہ سے مراد ایک مکمل رپورٹ ہے جسے محقق ایسے کام کے بارے میں پیش کرتا ہے جسے اس نے اپنے ذمّے لیا ہو اور مکمل کیا ہو۔اور وہ رپورٹ اس انداز میں ہو کہ مطالعہ کے تمام مراحل پر مشتمل ہو اس وقت سے کہ جب وہ کام محض ایک سوچ تھا یہاں تک کہ وہ سوچ تدوین شدہ اور دلائل و براہین سے تائید شدہ نتائج کی صورت اختیار کر گئی۔‘‘
(مشمولہ،تحقیق و تدوین کا طریقۂ کار،ڈاکٹر خالق داد ملک،ص22)




Shazia Tamkeen C/o Dr. Shah Nawaz Alam
156-Wasi Abad, Noorullah Road
Allahabad - 211003 (UP)





قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں