12/12/18

خوبصورتی کا متلاشی، تنہائی کا شکار: فراق۔ مضمون نگار:۔ خان روشنی






خوبصورتی کا متلاشی، تنہائی کا شکار: فراق
خان روشنی

فراق گورکھپوری کے شاعرانہ امتیاز کا نمایاں حوالہ یہ ہے کہ انھوں نے اردو شاعری خصوصاً غزل کو نیا تخلیقی آہنگ عطا کیا۔اس آہنگ کا انفرادی وصف یہ ہے کہ اس میں اردو غزل کی کلاسیکی روایت کو برتنے کے ساتھ ہی جدت کا وہ عنصر بھی شامل ہے جو شعوری طور پر ہندوستانی تہذیب و کلچر کو خوبصورت شعری پیکر عطا کرتا ہے۔غزلوں کے علاوہ فراق نے نظموں میں بھی کچھ منفرد اور اچھوتے موضوعات کو برتنے کی کامیاب شاعرانہ کوشش کی جن میں واردات عشق کے علاوہ سماجی و سیاسی موضوعات بھی شامل رہے۔فراق کی خوش نصیبی یہ بھی رہی کہ ان کی حیات میں ہی ان کے ادبی مرتبے کو نہ صرف تسلیم کیا گیا بلکہ اس کی خاطر خواہ پذیرائی بھی ہوئی اور ساتھ ہی ان کی شخصیت اور شاعری کے متعلق کچھ ایسے تنازعات بھی پیدا ہوئے جن پر بحث و تمحیص کا ایک سلسلہ چل نکلا۔یوں تو فراق نے بے شمار موضوعات کو اپنی شاعری میں جگہ دی لیکن ’تنہائی اور خوبصورتی کی تلاش‘ ایسے موضوعات ہیں جنھیں فراق نے اپنی شاعری میں مسلسل برتاہے۔اس موضوع کو متعدد تخلیقی جہتو ں سے ہمکنار کرنے میں فراق نے جس فنکارانہ بصیرت سے کام لیا ہے اسے صرف خارجی سطح پر دیکھنے کی بجائے اس کے درون میں پوشیدہ ان حالات،مسائل و معاملات کو بھی جاننا ضروری ہے جن کے سبب ان کی زندگی اور کسی حد تک فن میں پیچیدگی اور تضادات کے عناصر نظر آتے ہیں۔فراق نے اپنی ازدواجی زندگی سے عدم آسودگی کے جواز کے طور پر جو کچھ بھی کہا اس میں سب کچھ گرچہ مبنی بر حقیقت نہ ہو لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جس رشتے کو قلب و روح کی طمانیت کا سبب ہونا چاہیے اس نے ایک مسلسل کرب اور ناآسودگی کے بھنور میں انھیں زندگی بھر الجھائے رکھا۔ان حالات نے انھیں اس قدر تند مزاج اوریاسیت کا شکار بنا دیا کہ وہ دنیا اور اہل دنیا کا مشاہدہ اور تجزیہ اپنے بنا کردہ تصورات و نظریات کی بنیاد پر کرنے لگے۔ان کی اس روش میں اس جذبے کا بھی خاصا دخل تھا جسے خود پسندی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔اس نہج سے دنیا کودیکھناان کے لیے جس قدر بھی تکلیف و اذیت کا باعث رہا ہو لیکن اس طرز مشاہدہ نے انھیں اس درد کا مداوا بھی عطا کر دیا جو انتہائی قربت والے رشتوں اور مادی آسائشوں اور سہولتوں کے ذریعے بھی نہیں حاصل کیا جا سکتا۔ان کی شاعری میں حسن سے رغبت اوراس کی تلاش کا جو ایک انہماک نظر آتا ہے وہ اسی طرز مشاہدہ کے سبب ہے جو بہ ظاہر ایک ادنیٰ سے مشہود میں بھی خوبصورتی کے وہ جلوے دیکھ لیتا ہے جہاں تک عام نظر کی رسائی نہیں ہوتی۔فراق نے شعوری طور پر یہ کوشش کی کہ ان کی زندگی جن تلخیوں اور محرومیوں کا مرقع بن گئی ہے اس کا عکس ان کی شاعری پر نہ پڑے۔فن کی سطح پر یہ کوشش فنکار کے لیے ایک ایسا سخت امتحان ہے جو اس کے ذہن و دل میں مسلسل ایک تصادم برپا کیے رہتا ہے۔اس مرحلے سے سرخرو وہی گزرتے ہیں جو فن کی عظمتوں سے واقف ہوتے ہیں۔ فراق کے درج ذیل بیان سے ان کی شخصیت کے اس تصادم کو واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے:
’’جب شاعری شروع کی تومیری کوشش یہ ہوئی کہ اپنی ناکامیوں اور زخمی خلوص کے لیے اشعار کے مرہم تیار کروں میری زندگی جتنی تلخ ہوچکی تھی اتنے ہی پرسکون اور حیات افزا اشعار کہنا چاہتا تھا۔‘‘
(شاعردانشور۔فراق گورکھپوری:پروفیسر احمد علی فاطمی، ص13)
جب یاسیت اور قنوطیت تخلیقی اور فنکارانہ صلاحیتوں میں تبدیل ہونے لگتی ہے تب زندگی کے رازہائے سربستہ طشت از بام ہونے لگتے ہیں، اور پھر اسی یاسیت اور قنوطیت کے ذریعے فنکار دھیرے دھیرے زندگی سے قریب تر ہوتا جاتا ہے۔ تمام تلخیوں کے باوجود اسے زندگی میں حلاوت اور شیرینی نظر آنے لگتی ہے۔گو کہ فراق کے یہاں یاسیت پائی جاتی ہے لیکن وہ زندگی سے مایوس بھی نہیں ہیں۔ فراق کے یہاں زندگی کی ارزانی یا رائیگانی کے ساتھ ساتھ زندگی جینے کا حوصلہ بھی ہے ؂
دل جو مارا گیا فراق تو کیا
زندگی بھر اسی کا ماتم ہو؟
اس شعر کا استفہامی لہجہ زندگی کی ان لامحدود صورتوں کی طرف اشارہ کرتا ہے جو غم جاناں میں دل کو ملول و مغموم کرنے کی بجائے غم دوراں سے دست آزمائی پر آمادہ کرتا ہے۔اسی کیفیت کو ظاہر کرنے والا یہ شعر بھی دیکھیں ؂
کچھ آدمی کو ہیں مجبوریاں بھی دنیا میں
ارے وہ دردِ محبت سہی تو کیا مرجائیں؟
اس محبت کے غم کو سہار جانے کا جو رویہ نظر آتا ہے وہ دراصل کشاکش حیات میں پیش آنے والے مختلف مسائل و مراحل پر اس قدر ثابت قدم رہنے کا عندیہ ہے جس میں غم جاناں اس طور سے مزاحم نہ ہو کہ زندگی کے دوسرے امور میں ناکامی و ندامت سے دوچار ہونا پڑے۔ اس طرح کے اشعار،شاعر کی اس قوت ارادی کا بھی پتہ دیتے ہیں جو ناامیدی اور یاسیت کو خود پر غالب نہیں آنے دیتی۔حالات کی ستم ظریفی کا فراق شکوہ بھی کرتے ہیں اور ساتھ ہی غم سے ہم آہنگ بھی نظر آتے ہیں اور غمِ اضطراب کو سنجیدگی اور متانت میں بدل دیتے ہیں ؂
دکھا تو دیتی ہے بہتر حیات کے سپنے
خراب ہوکے بھی یہ زندگی خراب نہیں
زندگی کی تلخیوں، سختیوں اور الجھنوں کے باوجود زندگی سے یہ ربط اسی وقت پیدا ہو سکتا ہے جب فنکار تاریکیوں کے بطن سے نور کشید کرنے کا ہنر جانتا ہو اور جب اس روشنی سے اس کے افکار و خیالات کا افق روشن ہو جاتا ہے تو وہ زندگی کا نوحہ وماتم کرنے کی بجائے غم و الم کو برداشت کرنے کی قوت پیدا کر لیتا ہے اور اپنی کمزوریوں کو اپنی طاقت بنا لیتا ہے۔فراق گورکھپوری اپنے مضمون ’اردو کی عشقیہ شاعری‘ میں فرماتے ہیں :
’’ہم اسے سچی عشقیہ شاعری نہیں کہتے جو ہمیں مٹا کر رکھ دے یا جو محبت و زندگی کے لیے حوصلہ شکن ہو۔ ہم اسے حقیقی شاعری کہتے ہیں جو ہماری رگوں میں خون دوڑا دے اور ہماری زندگی کو بھرپور بنا دے۔‘‘
(اردو کی عشقیہ شاعری، فراق گورکھپوری، ص18)
فراق کی شاعری میں تلاش حسن کی جو مختلف صورتیں نظر آتی ہیں وہاں زندگی سے اس ربط خاص کو بھی محسوس کیا جا سکتا ہے۔فکر و نظر میںیہ رفعت اور وسعت اس وقت تک شاعر کا مقدر نہیں بنتی جب تک کہ وہ اپنے مسائل و معاملات کو آفاقی نظر سے دیکھنے میںیقین نہ رکھتا ہو۔ 
یہاں یہ بات قابلِ تعریف ہے کہ فراق نے کبھی بھی اپنے شاعرانہ سفر میں زندگی کی مشکلات کو رکاوٹ بننے نہیں دیا۔یہ ضرور ہے کہ جب تنہائی کا احساس شدت اختیار کر لیتا تو وہ بزم آرائیوں سے اکتاہٹ محسو س کرنے لگتے اور اس کا اظہار کچھ اس طور سے کرتے ؂ 
لوگوں کی سمجھ میں آنہ سکا کچھ مجھ کو بھی ہے تعجب سا
سن میری اداسی کا کارن اے ہمدم بہت اکیلا ہوں
یہ بھی حقیقت ہے کہ فراق زندگی میں گوشہ نشینی کے قائل نہ تھے اسی لیے انھوں نے اپنے اعزا و اقربا کے ساتھ ایک معتدل تعلق بنائے رکھا اور ساتھ ہی اپنی سماجی و پیشہ ورانہ زندگی کی مصروفیتوں میں بھی اپنے ذاتی غم کو رکاوٹ نہیں بننے دیا۔اس کاروبار زیست میں کچھ لمحے ایسے بھی آتے رہے جب انھیں اپنی زندگی کی محرومی کا احساس شدت سے ہوا اور پھریہ احساس کچھ اس انداز میں شعر کا قالب اختیار کر لیتا ہے ؂ 
شامیں کسی کو ڈھونڈتی ہیں آج بھی فراق
گو زندگی میں یوں مجھے کوئی کمی نہیں
یہ فراق کا حوصلہ ہی تھا جس نے زندگی کی تلخیوں اور محرومیوں کے باوجود زندگی سے کنارہ کشی اختیار نہیں کی بلکہ اس سے دست و گریباں ہو کر سبک روی کے ساتھ اپنی منزل کی طرف گامزن رہے۔ تنہائی، درد اور تفکرات و تصورات کو اردو شاعری کے قالب میں ڈھال کر غمِ ذات کو غمِ کائنات بنا دیا۔ ان کی اسی تنہائی نے ان کے فن کو جلا بخشی ہے۔ 
تنہائی کی راتوں نے اکثر مجھ کو ملوایا ہے مجھ سے
اُس وقت یہ سمجھا میں کیا ہوں جب ہجر میں جی گھبرایا ہے
فراق بھری بزم میں بھی خود کو تنہا محسوس کرتے تھے جب تنہائی حاوی ہونے لگتی ہے تب دوسرے تمام معاملات بے وقعت نظر آنے لگتے ہیںیہی وجہ ہے کہ فراق جب بھی تنہائی کا شکار ہوتے ہیں وہ اپنے محبوب کی یادوں میں کھو جا نا چاہتے ہیں۔انھیں جب اپنے محبوب سے جدائی کا احساس ستانے لگتا ہے تب فراق یوں گویا ہوتے ہیں ؂
طبیعت اپنی گھبراتی ہے جب سنسان راتوں میں
ہم ایسے میں تری یادوں کی چادر تان لیتے ہیں
یا ؂
غرض کہ کاٹ دیے زندگی کے دن اے دوست
وہ تیری یاد میں ہو یا تجھے بھلانے میں
یا ؂
رفتہ رفتہ عشق مانوسِ جہاں ہوتا چلا
خود کو تیرے ہجر میں تنہا سمجھ بیٹھے تھے ہم 
اچھی شاعری وہی ہوتی ہے جو بہ یک وقت دل و دماغ دونوں کو متاثر کرے۔ اس میں سادگی اور نزاکت و نفاست کے ساتھ ساتھ فکر کی گہرائی اور نظر کی وسعت بھی ہونی چاہیے۔اس سیاق میں فراق کا یہ بیان ملاحظہ کریں : 
’’میری شاعری میں جمالیات کی تعریف کے علاوہ کسی اور چیز کی گنجائش ہی نہیں ہے۔اور یقیناًمیں نے جس خوبصورتی کو اپنی شاعری کا معیار بنایا ہے اسے ابھی سمجھنا باقی ہے۔ابھی اسے صرف میں سمجھ رہا ہوں مستقبل میں دنیا سمجھے گی۔‘‘
خوبصورتی کا یہ مطلب نہیں کہ اس کا اپنا ایک سراپا ہو، حلیہ ہویا مخصوص خد و خال ہوں۔ یہاں فراق نے جان کیٹس کے نظریات سے اتفاق کرتے ہوئے اندرونی خوبصورتی کی بات کی ہے۔ اس کے باوجود فراق کا یہ بھی ماننا ہے کہ شاعری کے لیے کسی محبوب یا معشوق کا ہونا ضروری ہے لیکن اس کی بھی ایک حد مقرّر ہے۔ایک وقت آتا ہے جب شخصی محبت آفاقی محبت کا روپ اختیا رکر لیتی ہے،اور شاعر دنیا کی ہر چیز میں خوبصورتی تلاش کرنے لگتا ہے۔ یہاں سے شاعر کسی فرد کے بارے میں سوچنے کی بجائے کائنات کے بارے میں سوچنے لگتا ہے۔ فراق کے اشعار میں اکثر محبوب کے حسن کا بیان کائنات کے حوالے سے ہوتا ہے ؂
حاصلِ حسن و عشق بس ہے یہی
آدمی آدمی کو پہچانے
فراق کا تصور حسن ان افکار کا زائیدہ ہے جن سے زندگی کو تابندگی اور توانائی حاصل ہوتی ہے۔انھوں نے مشرق و مغرب کی شعری روایت میں اس تصور حسن کے ان اسباب و محرکات تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی جن سے زندگی میں رفعت و عظمت کے آثار نمایاں ہوتے ہیں۔ انھوں نے شاعری کے علاوہ اپنی نثری تحریروں میں جا بہ جا اس کا ذکر کیا ہے۔اس ضمن میں ان کا یہ بیان قابل غور ہے۔’’دنیا میں ایسے بے شمار شعراء موجود ہیں جن کی شاعری خوبصورتی اور جمالیات کی عکاسی کرتی ہے۔ اپنے محبوب کے خدوخال کا احاطہ کرتی ہے لیکن نہ تو ان کا محبوب کبھی سامنے آیا اور نہ ہی کسی نے اسے دیکھا۔ یقیناًاس طرح کی خوبصورتی اور عشق، آفاقی خوبصورتی اور عشق کے زمرے میں شمار ہوتا ہے‘‘۔ایک مقام پر فراق نے کبیر کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ’’کبیر نے کہاں سے ترغیب پائی؟ ہمیں ان کی شاعری میں ایسا کوئی حوالہ نہیں ملتا۔ آپ جان کیٹس کی شاعری پڑھ لیجیے اس میں آپ کو اس طرح کے بے شمار حوالے ملیں گے لیکن وہ بھی خوبصورتی کے نظریات بیان کرنے میں صرف محبوب یا معشوق تک محدود نہیں ہیں۔ ان کے یہاں بھی آفاقیت پائی جاتی ہے۔ دراصل ترغیب ایک پیچیدہ عمل ہے۔کبھی کسی کوصنف نازک کی خوبصورتی ترغیب دیتی ہے،کبھی یوں ہی خوبصورت شعر و ادب تخلیق ہو جاتا ہے۔ جب شاعر کی فطرت ساحرانہ یا مجازانہ ہو تب محبوب کا عکس اُس کی تخلیقات سے جھلکنے لگتا ہے‘‘۔اس حوالے سے فراق ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک شاعرہ مجھ سے ملنے آئیں، اس کے ہمراہ اس کا شوہر بھی تھا۔ مجھے اس کے شوہر کی آواز پسند آگئی میں نے اس آواز کو اپنی محبوبہ کی آواز میں ملا دیا اور پھر یہ شعر تخلیق پایا کہ ؂
شام کے سائے گھلے ہوں جس طرح آواز میں
ٹھنڈکیں جیسے کھنکتی ہوں گلے کے ساز میں
فراق کے لیے خوبصورتی کا شعورآفاقی سچائی کی اسی تلاش کی علامت ہے جس طرح انسان دنیا میں اپنے وجود کا مقصد تلاش کرتا ہے۔جگر مرادآبادی سے بات کرتے وقت فراق نے ایک مرتبہ سوال کیا تھا کہ ؂
کہتے ہیں جگر حسن ہے موجِ سخن
لیکن خود حسن کیا ہے اے مشفقِ من
جذبِ پیغمبری سخن کو جو کرے
وہ حسنِ عمل ہے کہ ہے رعنائی تن
فراق کے لیے خوبصورتی تخیّل بھی ہے اور سچائی کا ادراک بھی۔کائنات بھی ہے اور اس سے وابستہ تمام محرّکات بھی۔اور یہی چیز شاعر کے جمالیات کی تسکین بھی ہے اور اس کے لیے خوش بختی کی علامت بھی۔محبت کی آفاقیت فراق کچھ اس انداز میں بیان کرتے ہیں ؂
اپنے دل سے غافل رہنا اہلِ عشق کا کام نہیں
حسن بھی جس کی پرچھائیں ہوآج وہ من کی جوت جگائیں
خوبصورتی کے اسی تصور اور ادراک نے فراق کے ذہن و دل پر کائنات کے دروبام کھول دیے وہ کہتے ہیں کہ
کوئی میری آنکھوں سے دیکھتا تری بزمِ ناز کی وسعتیں
وہ ہرایک لمحہ مکاں مکاں وہ ہرایک گوشہ چمن چمن
آفاقی محبت کی عکاسی ہمیں فراق کی نظم ’شامِ عیادت‘ کے ہر مصرعے میں نظر آتی ہے۔ اس نظم میں فراق کی محبت ہمیں شخصی محبت سے پرے کائناتی عشق کی طرف مائل ہوتی نظر آتی ہے وہ کہتے ہیں ؂
یہ کون مسکراہٹوں کا کارواں لیے ہوئے
شباب و شعر و رنگ و نور کا دھواں لیے ہوئے
دھواں کہ برق حسن کا مہکتا شعلہ ہے کوئی
چٹیلی زندگی کی شادمانیاں لیے ہوئے
وہ مسکراتی آنکھیں جن میں رقص کرتی ہے بہار
شفق کی گل کی بجلیوں کی شوخیاں لیے ہوئے
تمام قول اور قسم نگاہِ ناز یار تھی
طلوعِ زندگی نو کی داستاں لیے ہوئے
فراق کے نزدیک محبت کی کشش کے سبب ہی دنیا اپنے محور پر ٹکی ہوئی ہے ورنہ نفرت تو دنیا کو تباہ برباد کرنے کے درپے ہے۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ محبت سے محبت کرو اور ان تمام حالات سے بھی محبت کرو جو خود محبت نے تخلیق کیے ہیں۔فراق کی پوری زندگی محبت کے زیرِاثر نظر آتی ہے ؂
فضائل لاکھ ہوں لیکن محبت ہی نہیں جس میں
فرشتہ ہو، خدا ہو، کچھ بھی ہو، انساں نہیں ہوتا
یا ؂
مذہبِ عشق اہلِ دنیا کو دیا میں نے فراق
میں ایک ادنا آدمی تھا کوئی پیغمبر نہ تھا
ہندوستانی ویدک روایتوں کے تناظر میں فراق کی شاعری کو ’سوندریہ شرنگار رس'Sundarya sringar ras سے تعبیر کیا گیا ہے جہاں فارسی تراکیب نے اسے اوجِ کمال پر پہنچا دیا ہے۔بے شمار شعراء نے اپنے معشوق کی پیکر تراشی خوبصورت اور فلسفیانہ انداز میں کی ہے لیکن فراق نے بہترین الفاظ کا انتخاب کرتے ہوئے تشبیہات اور استعاروں کے سہارے اپنی شاعری میں موجزن جمالیات کو بامِ عروج پر پہنچا دیا ہے۔وہ کہتے ہیں ؂
اک معجزہ خاموش طرز رفتار
اٹھتے ہیں قدم کہ سانس لیتی ہے زمین 
فراق کی زندگی محبت کے زینوں پر ایستادگی، محبت کی مسافتوں میں عافیت گاہیں اور محبت میں درپیش ناکامیوں کے سنگلاخ دشت سے کامیابیوں کے ننھے ننھے پودے چننے میں گزری ہے۔فراق لفظوں میں سموئی خوشبو اور پتیوں پر ثبت شبنم سے شعر کشید کرنے کے ہنر سے آشنا تھے۔محبت فراق کا محبوب موضوع ہے۔ یہی وہ زینۂ اول ہے جس سے شاعر ادب کی مختلف کہکشاؤں کی طرف گامزن ہوتا ہے۔
فراق نے حسن کی مختلف صورتوں کی پیکر تراشی جس فنکارانہ بصیرت کے ساتھ منفرد اندازمیں کی ہے اس نے انھیں بہترین شا عروں کی صف میں لا کھڑا کیا۔ فراق انگریزی شعری جمالیات کو اردو میں سمونے والے ایسے شاعر ہیں جنھوں نے نئی ترکیبوں، تلمیحوں، استعاروں اور تشبیہوں کو استعمال کرکے، اردو شاعری کو نئے میلانات و رجحانات سے روشناس کرایا۔
فراق کی بیشتر شاعرانہ تخلیقات پر میر اور مومن کے نمایاں اثرات دیکھے جا سکتے ہیں۔ فراق نے قدیم ہندی اور سنسکرت روایتوں کی پیروی بھی کی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری انفرادی رنگ کی حامل نظر آتی ہے۔ وہ اپنی شاعری میں عشقِ مجازی پر اپنے جذبات کا بیباکانہ اظہار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔اس کے باوجود ان کی تخلیقات عریانیت اور فحاشی سے پاک ہیں۔ وہ اپنی شاعری کے بیباکانہ پہلو انتہائی مہارت اور نرم مزاجی سے برتنے کے عادی ہیں۔وہ صنف نازک کی خوبصورتی کو عاشق کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے فطرت کی خوبصورتی سے اس کا موازنہ کرتے ہیں۔ فراق نے محبت کو آفاقی نغمگی سے ہم آہنگ کرنے کی کامیاب فنکارانہ کوشش کی۔ اسی طرح ان کے نزدیک دوجسموں کی قربت لافانی محبت اور دائمی خوشی کی دلیل ہے۔فراق نے اردو شاعری کو ہندی سے ہم آہنگ کیا تاکہ ہندوستانی عوام بھی اس سے لطف اندوز ہوسکیں۔ فراق گورکھپوری کی فنکارانہ صلاحیتوں کا اعتراف معارف کے ایڈیٹر سید صباح الدین عبدالرحمن کچھ اس طرح کرتے ہیں کہ 
’’فراق گورکھپوری اپنے دور کے خاتم المتغزلین تھے ان کو نابغۂ روزگار، اقلیم سخن کا شہنشاہ، حسن و عشق کا پیامبر، اردو شاعری کی شاندار روایت کا وارث، ذوقِ جمال اور احساسِ جمال کا رازداں اور آفاقی بصیرت کا رمز شناس جو کچھ بھی کہا جائے صحیح ہوگا‘‘۔
(نیا دور، لکھنؤ، فراق گورکھپوری نمبر، حصہ دوم، جلد39، شمارہ 2 تا4،1984، ص58)
ان کی خلاقانہ ادبی شخصیت،فنی بصیرت اور غیرمعمولی ذہانت نے انہیں ادب میں وہ مقام عطا کیا جس کے وہ حقدار تھے۔فراق کی شخصیت و فن کو دیکھتے ہوئے اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ؂
یہ اداس اداس بجھی ہوئی کوئی زندگی ہے فراق کی
مگر آج کشتِ سخنوری ہے اسی کے دم سے چمن چمن

Khan Roshni
Dept. of Urdu, University of Mumbai
Mumbai-400098 (MS)
Mob.9967694393



اردو دنیا۔ شمارہ   اگست   2018




قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں