12/12/18

یارِ شہریار مضمون نگار:۔ ساجدہ اشتیاق




یارِ شہریار
ساجدہ اشتیاق

خلیل الرحمن اعظمی نقاد، شاعر، استاد تین جہتوں پر مشتمل ایک ایسے وجود کا نام ہے جس نے ان تینوں جہات میں اپنی موجودگی کا احساس ہی نہیں یقین بھی دلایا، ان کو وہ عہد نصیب ہوا جب اردو کے آسمان پر چمکنے والے نقاد اور شاعر اور استاد، دور سے پہچان لیے جاتے تھے۔ ایسے ستاروں اور سیاروں کی شکل میں جن کی روشنی اور جن کی رفتار، جہانِ اردو کو روشن اور متحرک رکھنے والی بھی تھی اور راستوں کو آسان اور منزلوں کو قریب لانے میں بھی مددگار تھی، ایسے آسمان اور ایسی زمین میں خود اپنی تلاش میں اپنی ہستی کو ایسے وجود میں تشکیل دینا جس کا اعتراف بھی ہو اور جس کو سچائی سے تسلیم بھی کیا جائے نہ تب آسان تھا اور جب جب ایساعہد سامنے آئے گا تب بھی یہ آسان نہ ہوگا۔
اردو میں ایسے مصنّفین کی کمی نہیں جن کی تصنیفات کی فہرست کی لمبائی ان کے قدوقامت سے زیادہ نکلتی ہے لیکن قدر و قیمت سے وہ بے گانہ گزر جاتی ہے۔
خلیل الرحمن اعظمی کے ادبی شعری اکتسابات کا حساب لگایا جائے تو حاصل جمع بہت زیادہ نہیں، آئینہ خانہ میں، کاغذی پیرہن، نیا عہد نامہ، زندگی اے زندگی، مقدمہ کلام آتش، نوائے ظفر، ترقی پسند ادبی تحریک، نئی نظم کا سفر، فکر و فن، زاوےۂ نگاہ اور مضامین نو،یہ کل ان کا سرمایہ ہے۔ شعریات میں بعض مکررات بھی ہیں لیکن اس مختصر سرمایہ نے جس طرح اعظمی کو مایہ ناز بنا دیا اردو ادب کا قاری اس کے تعارف کا محتاج نہیں۔
تنقید ہو یا شاعری دونوں فکر و فن کی گہری رسائی کے ساتھ ذوق سلیم یا بلیغ ترین تعبیر میں قلب سلیم کے مرہون منت ہیں، نثر و شعر کی جلوہ گری قابل دید اور لائق داد اس وقت ہوتی ہے جب اس میں ادائے خاص کی آمیزش ہو۔ اعظمی کی اسی ادائے خاص نے ان کی نثر اور شعر دونوں کو اس لائق بنا دیا کہ ان کی عبارتوں کا طواف کرتی نگاہیں دل کے ساتھ ذہن کو محو نظارہ کرنے میں کامیاب ہوتی نظر آتی ہیں، الفاظ و معانی کو تاثیراور قبولیت اور احترام کا غلاف یوں ہی تو حاصل نہیں ہوتا، اس کے لیے دل کی معصومیت، نگاہوں کی پاکیزگی اور جذبوں کا بھولاپن درکار ہے۔
اعظمی کو ڈھونڈنے والے بڑی آسانی سے ان عناصر کو پالیتے ہیں،جو بڑے ہیں ان کی جستجو اور یافت بھی بڑے درجے کی ہے۔ رشید احمد صدیقی، مجنوں گورکھپوری، آل احمد سرور، ڈاکٹر سید عبداللہ، وزیر آغا، سجاد ظہیر، راجندر سنگھ بیدی، اسلوب احمد انصاری، وحیداختر، شمیم حنفی، مظہر امام، باقر مہدی، یا پھر آج کے بڑے گوپی چند نارنگ، عمیق و مظفرحنفی اور شمس الرحمن فاروقی۔ اعظمی کی فکر و فن کے نازک سے نازک گرہ کو جس خوبصورتی سے چھوا اور کھولا گیا، دیکھا اور پرکھا گیا، وہ خود ایک بڑے دلچسپ باب کا عنوان ہوسکتا ہے، اردو ادب میں خلیل صاحب کی بت شکنی اور آزر بیزاری اور شب بیداری و اختر شماری اور ہجر و ہجرت اور دل و دماغ کی ابتلاء و مصیبت اور قدم قدم پر جذبات کی قربانی یہ سب حیات خلیل کے فطری ابواب ہوسکتے ہیں۔ جو ذرا غور کرنے کی پرخلوص دعوت دیتے ہیں کہ زندگی کیا ہے ؟ موت سے اس کا رشتہ کیا ہے ؟ موت کا آنند پانے کے لیے لوگ زہرپیتے ہیں، لیکن زندگی کے لیے زہر کیسے پیا جاتا ہے، یہ جذبہ، انسان کن حالات میں اپنے اوپر طاری کرنے کے لیے آمادہ ہوجاتا ہے ؟ زندگی ان چھوٹے بڑے سوالوں کا نام ہی تو ہے، جن کے جوابات تلاش کرنے کی فرصت جس کو جتنی ملتی ہے وہی اس کی عمر کا پیمانہ ہوتا ہے۔ خلیل الرحمن اعظمی کی عمری وسعت و مدت دیکھی جائے تو اس پیمانہ کے حساب سے پیمائش سے پرے ہے۔ اعظمی 23 سال کے تھے، کھیلنے کھانے کی عمر لیکن وہ جو پندرہ سال کی عمر میں مہاجر ہوچکا ہو اس کے لیے تیئسویں منزل کی بلندی کس درجہ کی ہوسکتی ہے، اندازہ لگانا بہت مشکل نہیں، خاص طور سے تب جب خلیل صاحب خود یہ شعر دہراتے ہوں کہ ؂
باراں کی طرح لطف کرم عام کیے جا
دنیا میں جو آیا ہے تو کچھ نام کیے جا
بچپن میں سنا یہ شعر تئیس سالہ نوجوان کو یا دہے اور اس لیے یاد ہے کہ دنیا میں کچھ ایسے کام کرجائیں کہ مرنے کے بعد یادگار باقی رہ جائے۔
خلیل الرحمن اعظمی کی آرزو پوری ہوئی اور یادگاریں انھوں نے کتابوں اور اولاد کے ساتھ شاگردوں کی شکل میں اس طرح چھوڑیں کہ ان کی یہ خواہش صد فی صد پوری ہوگئی، کہ ’’ لوگ ان کا نام عزت و احترام کے ساتھ لیں ‘‘۔
لفظ’لوگ‘ میں کتنے شامل ہیں اس کا شمار ناممکن ہے لیکن اس ہجوم میں چہروں کو پہچاننا بہر حال مشکل نہیں اور جب وہ چہرہ ایسا ہو جس پر اعظمی کے ہم زاد ہونے کا احساس ہو، جس کا وجودخود اعظمی کا سایہ سا لگے، ایسا کیوں اور کیسے؟ الگ بات چیت ہی سے اس کے جوابات مل سکتے ہیں لیکن فکر وفن اور شخصیت کا عکس کسی اور ذات میں سما جائے، یہ خلیل الرحمن اعظمی کی کرامات ہے، مرشد کا فیضان نظر اور تجلی ذات ہے یا پھر اپنی شخصیت کے اصل جوہر کو کسی کے قالب میں منتقل کرنے کا ہنر ہے۔ خلیل الرحمن کا مطالعہ کرنے والوں کے لیے کچھ نہ ہو تو اس میں دلچسپی بھر ا تجسس ضرور ہے، خلیل صاحب مہاجر تھے نو عمری میں ایسے ٹوٹے کہ جڑنے کے لیے ایک عمر کا حوصلہ درکار تھا، بچپن کے سہانے سپنے ٹوٹے، بھوک کی آگ میں سارے ارمان جھلسے، قرض کے بوجھ سے امنگیں پامال ہوئیں، فطری شوخی منھ پھیرے رہی اور ایسے میں ایک نو عمر بے کس کے لبوں پر یہ حقیقت کہ ؂
راہیں دشوار مگر راہ نما کوئی نہ تھا
سامنے وسعت افلاک خدا کوئی نہ تھا
گھر چھوٹا، وطن کی ہر گلی پگڈنڈی، آنکھوں سے اوجھل ہوئی، نیا شہر، نئے لوگ اور نئی بے کسی جہاں نہ کوئی نکہت گل اور نہ کوئی موج نسیم، حیرت ہوتی ہے کہ برسوں بعد کچھ ان ہی حالات نے پھر خود کو دہرایا، اب خلیل کی جگہ ایک اور نوجوان تھا، شرمیلا، خوبصورت سجیلا، مگر اتنا ہی تنہا، اکیلا، اپنے گھر کے درو دیوار کو بھولا ہوا، کیسا عجیب اتفاق ہے کہ علی گڑھ خلیل صاحب آئے تو ان کو پناہ دی معین احسن جذبی نے، دو سال تک جذبی کے گھر رہے اور اس طرح کہ یہ محسوس ہی نہیں ہوا کہ وہ کسی اور کے گھر میں ہیں اب یہی منظر کنور اخلاق محمد خاں کو خلیل الرحمن اعظمی کے گھر میں رہتے ہوئے دکھا رہا تھا۔ 1945 اور1965 کا یہ فرق زمانہ کے فاصلے کے باوجود مکانی طور پر کتنا قریب ہے، خلیل بھی بی اے کے طالب علم تھے اور جذبی کے گھر پناہ گزیں تھے۔ کنور جی شہر یار بننے سے پہلے بی اے کے طالب علم تھے اور وہ خلیل کے گھر کے ممبر بن چکے تھے۔ خلیل اور شہر یار کی داستان دراصل زخموں کا حساب کرنے کی کہانی ہے، زندگی اپنے زخموں کا حساب کبھی نہ کبھی مانگ ہی لیتی ہے، شہر یار کی بے کسی اور غریب الدیاری نے خلیل کے زخموں کو ہرا کیاہوگا تب ہی وہ اس کے درماں کے درپے ہوگئے، سب جانتے ہیں کہ کنور اخلاق کو شہر یار بنایا خلیل صاحب نے، ایک اجنبی اور نوخیز طالب علم سے اتنی محبت کہ بقول کسے ’’ خلیل صاحب کی زبان کنور صاحب کہتے نہ تھکتی تھی، بسم اللہ محل اور آنند بھون کے قلندروں میں سب سے چھوٹا اور بانکا قلندر ‘‘شہر یار، خلیل صاحب کا سب سے لاڈلا اور چہیتا کیوں بن گیا؟ کیوں اس کی تربیت کا ذمہ اور ادبی دنیا میں متعارف کرانے کا فریضہ خلیل صاحب نے اپنے سر لیا۔ کیوں ایسا ہوا کہ محفلوں میں خلیل کا درد، شعر بن کر گونجتا رہا کہ ؂
یہ بھی ہم بھول گئے نام ہمارا کیا تھا 
پوچھ کر گردش دوراں سے بتادے ہم کو 
اور کنور اخلاق نے ہمیشہ کے لیے اپنے نام کو بھلا دیا۔ شہر یار کی چادر میں خود کو لپیٹ کر ایک نیا جنم لیا۔کہتے ہیں یہ نام بھی خلیل صاحب کا عطیہ ہے، ہوسکتا ہے کیوں کہ گردش دوراں کا دوسرا نام خلیل ہی تو تھا۔ کہتے ہیں کہ جذبی کے ساتھ رہ کر خلیل صاحب کو ان کے شعری عمل کو سمجھنے میں آسانی ہوئی، جذبی اپنی شاعری یا قابلیت اور ذہانت کا رعب نہیں جماتے تھے اگر ایک اجنبی ان کی نظر میں اچھا اور معقول ہوتا تو وہ دوستی اور برابر کی سطح پر تعلقات پیدا کر لیتے، شہر یار کے اچھے مخلص اور سچے ہونے میں شبہ نہیں اس لیے خلیل صاحب نے عمرمیں بڑے ہونے کے باوجود اگر ان سے برابری کی سطح کے رشتے استوار کیے تو یہ ایک پاکیزہ روایت کی تجدید تھی جو جذبی کے سلسلے سے ان کو ملی اور کیا پتا جذبی کا یہ شجرہ آتش سے مل جائے، شجرے تو اصلاً ذہنی مناسبت کی زمین سے جڑے ہوتے ہیں، خلیل کی محبت آتش سے تھی کہ وہی ان کی شہرت کا مطلع اول بنے، آتش کی رندی و سرمستی، قناعت و بے نیازی اور عارفانہ و جدان جذبی سے ہوتا ہوا خلیل تک دکھائی دیتا ہے تو شہر یار کی رندی و سرمستی، آرام پسندی، شاہ خرچی، بے نیازی، محبت و خلوص، رفاقت کی شہرتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ شجرہ صحیح ثابت اور نجیب الاصل ہے۔ ایک استغراقی کیفیت، تفکر سے زیادہ احساس ذات کے اظہار اور اس پر وارد ہونے والے جذبوں کے انکشاف اور شعر کی ترسیل کے وقت پوری شخصیت کو شعر کے سانچے میں ڈھال دینے کا تاثر غور سے دیکھا جائے تو یہ آتش کے سراغ، جذبی کی یافت، خلیل کی ذات اور شہریار کے واحد متکلم کا مشترکہ سرمایہ ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ خلیل صاحب نے اپنا عکس شہر یار کی شکل میں دیکھا تو تجسیم کے لیے تراش بھی دیا، کسی نے کہا کہ اعظمی شہر یار کو حقیقی بھائی کے مثل سمجھتے اور چاہتے تھے اس قول کی آنکھ بند کر کے تصدیق کی جاسکتی ہے۔ کسی نے کہا کہ ان دونوں کا مقام تو خواجہ دہلی اور ترک خسرو کا سا تھا، بات اعمال و عقائد سے دور رہ کر محض محبت و عقیدت کے حوالے سے ہو تو یہ قول بھی بڑا سچا اوربڑا پیارا ہے، عقیدت کے لیے دل کی دنیا ہر طرح کی آلودگی سے صفائی چاہتی ہے۔ خلیل صاحب کی شخصیت ایک استاد کے سانچے کے لیے قدرت نے ڈھالی تھی، شہر یارکے وہ استاد تھے، سرپرست تھے یا مربی تھے، اس کا فیصلہ تو ان دونوں کو پڑھنے والے ہی کرسکتے ہیں، ہم تو وہی کہیں گے جو خود شہر یار نے ایک بار نہیں بار بار کہا کہ ’’میں جو کچھ ہوں، جیسا بھی ہوں وہ صرف اور صرف خلیل الرحمن اعظمی کا فیضان ہے‘‘ اتنی صراحت، اتنی قطعیت لہجے میں تب ہی آتی ہے جب زبان دل کی ترجمان بن جائے، مکتب کی کرامت ہو یا نظر کا فیضان، آداب فرزندی سے آراستہ کرنے میں ان دو کے علاوہ اور کس عنصر کو تلاش کیا جائے؟ شہر یار کو خلیل صاحب کا سایہ بنتے دیکھ کر کچھ حیرانی تھی، وہ بھی شروع شروع میں جب فیصلہ کرنے کے لیے کوئی معقول وجہ سامنے نہیں تھی اس وقت بھی راہی معصوم رضا کو اطمینان تھا کہ ’’خلیل الرحمن اعظمی کے ساتھ اب تک کوئی نالائق آدمی نہیں دیکھا گیا‘‘۔ یعنی اب جو نظر آتا ہے وہ شرمیلا ہوسکتا ہے، سلونا ہوسکتا ہے، شاعری کچی ہو سکتی ہے، لیکن خلیل صاحب کی موجودگی میں وہ نا لائق نہیں ہوسکتا۔ اصل یہ ہے کہ شہریار اور ان کے یار مہرباں کی حکایت کچھ اور جاننے کی للک پیدا کرتی ہے ماضی ایسے رشتوں کا گواہ ہے جن کو آج تک کوئی نام نہیں دیا جاسکا، خواجہ دہلی اور ترک پٹیالی کی یاد تو ابھی آچکی ہے ان سے بھی پہلے خواجہ روم اور شمس تبریز کا ذکر پڑھنے اور سننے میں آتا ہے۔ اور بھی ہوں گے، مگر ہمارے لیے ماضی کی ان دو مثالوں میں جاذبیت اس لیے ہے کہ ان کی معنویت اور نسبت یہاں زیادہ راس آتی ہے۔ کیسی عجیب بات ہے کہ ایک دنیا آباد ہوتے ہوئے اس دنیا کے تازہ ترین وارد کے نام خلیل صاحب نے اپنی سب سے اہم اور شاید اکلوتی مکمل تصنیف ’’اردو میں ترقی پسند ادبی تحریک ‘‘ کا انتساب کیا۔ 57ء میں یہ کتاب چھپی یعنی علی گڑھ میں نو عمر اورکم سن شہر یار کو ابھی دو سال ہی آئے ہوئے تھے کہ وہ ایک اہم کتاب کا سرعنوان بن گئے، مقدمہ میں نظریں تلاش کرتی ہیں کہ اس انتساب کی شاید کوئی وجہ ہو، لیکن مقدمہ اور پس لفظ کیا ساڑھے چار سو صفحات میں شہریار کی کوئی جھلک کیا آہٹ تک نہیں، ایسا کیوں ہے؟ ہم نہیں جانتے لیکن جاننے کی کوشش کی جائے تو قرینے رہنمائی کرنے کے لیے تیار مل جاتے ہیں، حال کے اوپری اور سطحی سکون اور ٹھہراؤ سے مستقبل کا اضطراب، بے چینی اور کروڑوں کا بکھراؤ سمجھنے کی صلاحیت ہو تو اعتماد سے خوش خبری بھی دی جاسکتی ہے اور آگاہی بھی، 57ء کے انتساب نے شعری دنیا کو بتایا کہ جو یہ کہہ سکتا ہے وہ کر بھی سکتا ہے کہ:
وہ جو آسماں پہ ستارا ہے
اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ لو
مستقبل کے پردوں میں چھپے امکانات کے لیے بصیرت چاہیے جو اکثر نظر والوں کو آسانی سے نہیں ملتی۔ ساٹھ ستر کی دہائی میں کیسے کیسے شاعراردو کے فلک پر، نور کے رقص میں محو تھے، گردش میں تھے اورایک نسل ان کے ساتھ مصروف گردش تھی لیکن کلاسیکی اور عصری ادبی رویوں کی ترجمانی کرنے والے خلیل صاحب شہریار کے تعارف میں مصروف تھے، کہتے ہیں کہ شہریار پر سب سے پہلا تعارفی مضمون خلیل صاحب ہی کا تھا جو فنون کے غزل نمبر میں شائع ہوا۔ یہ شہر یار کا تعارف تو ہے ہی، ہم کو لگتا ہے کہیں اس پردے میں خود خلیل صاحب تو جلوہ گر نہیں ہیں، شہریار نے جب اپنی ایک نظم ’’خوابوں کا بھکاری‘‘ خلیل صاحب کی سماعتوں کی نذر کی تو کانوں کی جگہ نگاہوں نے اس طرح لی کہ سامنے سنانے والا آدمی کہیں غائب ہوگیا اس کی جگہ کوئی اور تھا، لباس تار تار، بدن زخموں سے چور اور ہاتھوں میں کشکول، یہ شہریار تھا جو موجود تھا جو چھوڑ کر چلا گیا وہ کنور اخلاق تھا اندرونی شخصیت کی تلاش کے لیے اس کنور نے شاعری کا سہارا لیا، یہی تلاش یہی جستجو اس کی پہچان ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ یہی تلاش یہی جستجو خلیل صاحب کی متاع کل تھی خواب اور حقیقت کا ٹکراؤ، دھند لکے، گم شدگی، بازیافت، کرب، موت اور زندگی دونوں کی چاہت لیکن پھر بھی قربت سے فرار، یہی سب تو خلیل صاحب کی داخلیت کا سرمایہ ہے اور یہی داخلیت شہریار کی میراث بھی ہے تو کیا عجب رہا کہ شہر یار کا سب سے پہلا تعارف خلیل صاحب نے کرایا، اپنے تعارف کی چاہت کس کو نہیں ہوتی یہ اور بات ہے کہ متکلم کا صیغہ کبھی واحد غائب بھی بن جائے۔ خلیل صاحب نے انتساب میں پہل کی تو شہریار نے جب 1965 میں ’اسم اعظم‘ سے اپنی شعری فتوحات کا آغاز کیا تو سر آغاز اسی کے نام سے کیا اور عقیدت کے سارے پھول سب سے پہلے انتساب کی شکل میں اسی پر بکھیر دیے جو ان کا سب سے زیادہ حق دار تھا، بڑا اچھا لگتا ہے آج کی ہماری جیسی جدید نسل کو، جب وہ دیکھتی ہے کہ شہریار شہرت کی بلندیوں پر پہنچنے کے بعد بھی جب جب بولے اور خوب بولے تو ان کی کوئی گفتگو کوئی انٹرویو ایسا نہیں جو ان کے خواجہ اعظمی کے ذکر سے خالی ہو، خواجہ اعظمی کی توجیہات کو بیان کرتے کرتے ان کو خود بھی تعجب ہوتا کہ اس تعلق یا ان کے الفاظ میں دوستی کی کوئی شعوری بنیاد نہیں تھی پھر بھی ایسی گہری دوستی تھی کہ خلیل صاحب کا شاعری سے گہرا تعلق ان کے (شہریار کے) تخلیقی سر چشموں تک پہنچ گیا، ایک اور گفتگو میں ہم نے بحیثیت قاری شرکت کی تو پھر یہ الفاظ ذہن کے دریچوں سے دل کے نہاں خانوں تک جانے کے لیے آنے لگے کہ ’’خلیل الرحمن اعظمی بڑے جری‘‘ نڈر اور محبت کرنے والے تھے مجھے ان جیسا کوئی دوسرا آج تک نظر نہیں آیا، بندھے ٹکے رویوں سے انہوں نے کبھی کوئی سمجھوتا نہیں کیا، ان کی زندگی کھلی کتاب تھی....... وہ میرے محسن تھے بلکہ میں جو کچھ ہوں ان کی بدولت ہوں..... آسرا دیتے وقت مجھ سے یہ نہیں پوچھا کہ میں کیا کروں گا.... میں نے ان کی بہت سی باتیں اور رویے اپنائے، ان کے کہے بغیر .... وہ استاد تھے، استاد کم دوست زیادہ، میں ان کی کم زوری تھا استاد کا شاگرد وں کے ساتھ ایک ہمدردانہ رویہ۔ میں نے ان سے سیکھا وہ لیاقت کو ترجیح دیتے تھے... وہ ذاتی منفعت اور ترقی سے بے نیاز تھے، ان کے سارے فیصلوں میں مشاغل میں فائدہ یا نقصان کا تصور نہیں، وہ فائدے کے لیے مفاہمت اختیار نہیں کرتے تھے، عہدے اور ترقی کی انھوں نے کبھی پرواہ نہیں کی، ادب اور زندگی دونوں میں انھوں نے یہی راستہ اختیار کیا۔ادب میں اس زمانہ میں ان سے سچا اور اچھا نقاد کوئی نہیں تھا‘‘۔شہریار اپنی زندگی بھر خلیل صاحب کو اسی طرح یاد کرتے رہے ادب اور زندگی دونوں حوالوں سے، خلیل صاحب نے برسوں پہلے جدید تر غزل کا ذکر کیاتو جہاں شاذ تمکنت، وحید اختر، مخمور سعیدی، شہزاد، احمد فراز، سلیم احمد، مصطفی زیدی کے اشعار نقل کیے، وہیں ان بڑوں کی صف میں وہ اس وقت بھی شہریار کو نہیں بھولے اور ایسے شعراء اور اس کے کہنے والے کو نظر انداز کوئی کر بھی کیسے سکتا ہے ؂

جدھر اندھیرا ہے، تنہائی ہے، اداسی ہے
سفر کی ہم نے وہی سمت کیوں مقرر کی
شعر کی آخری منزل تو آتی ہی ہے، خلیل صاحب نے جب منزل کو پالیا تو ان کے لیے یہ لمحہ اس لیے خوش وقت تھا کہ ’’اب اپنے آپ کو فریب دینے کی خواہش بھی نہیں رہی۔ ع
مینا اٹھاؤ وقت اب آیا نماز کا
لیکن شہریار کے لیے یہ منزل، المیہ کی منزل تھی، ان کی زندگی کے سب سے بڑے المیے کی شکل میں، وہ بقیہ زندگی خلیل صاحب کے اوراق پریشاں کو مرتب کرتے رہے اور کہتے رہے کہ ؂
ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے
وہ ڈھونڈھتے رہے اس کو جو دیر سے دھوپ میں کھڑا سایہ سایہ پکاتا رہا، اس کو جس سے ہر عہد کے لوگ اس لیے ناخوش رہتے ہیں کہ وہ ہر عہد میں خواب دیکھتا ہے،، وہ جو ایسے صحرا میں پھرتا رہا جہاں صرف وہی تھا، یا اس کے سایہ کا سایہ، اور دور تک بس خلا ہی خلا۔
شہر یار کو پھر خلیل صاحب جیسا یار مہرباں ملایا نہیں، ہم یقین سے کیسے کہہ سکتے ہیں مگر ان کی اس فریاد کے درد کو محسوس تو کر ہی سکتے ہیں کہ ؂
جستجو جس کی تھی اس کو تو نہ پایا ہم نے
اس بہانے سے مگر دیکھ لی دنیا ہم نے

Sajida Ishtiyaq
Sikandarpur Market Road, Mukeriganj
Shibli National Degree College
Azamgarh - 276001 (UP)


اردو دنیا۔ شمارہ   اگست   2018




قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں