21/12/18

علی جواد زیدی کی خاکہ نگاری. مضمون نگار گلجبین اختر انصاری






علی جواد زیدی کی خاکہ نگاری


  گلجبین اختر انصاری

خاکہ نگاری ان چند اور اہم واقعاتِ زندگی کو اس طرز میں پیش کرنے کا نام ہے،جس میں اس شخصیت کی مکمل تصویر اور مخصوص خد و خال اپنی تمام تر خوشنمائیو ں اور بد نمائیوں کے ساتھ اصلی رنگ و روپ میں نمایاں ہوجائیں۔ ان کے خیالات و افکار، عادات و اطوار، ذہن کی افتاد، زاویہ فکر اور اس کے مزاج وغیرہ کی جھلکیاں اس طرح نظر آجائیں کہ قاری کے ذہن پر یہ خیال گزرے کہ جیسے اس شخص سے اس کی قدیم شناسائی ہے۔
اچھا خاکہ وہی ہے جس میں شخصیت کے اہم گوشوں کی نقاب کشائی ایسی ماہرانہ نفاست اور سلیقے کے ساتھ کی جائے کہ اس کا تاثر خود بہ خود پڑھنے والے کے دل و دماغ میں پیدا ہو جائے۔ کتاب چند عجیب ہستیاں کے مقدمے میں جمیل جالبی لکھتے ہیں :
’’اصل میں دیکھنے کی بات یہ ہے کہ پورا خاکہ پڑھنے کے بعد قاری کے ذہن پر اس شخصیت کا کیا اور کیسا اثر قائم ہوتا ہے،کیا وہ انسان بتاشہ کی طرح بیٹھ جاتا ہے یا مینارہ کی طرح بلند و بالا نظر آنے لگتا ہے۔ اگر تاثر بتاشے کا ہے تو خاکہ نگار اپنے خاکے میں نا کامیاب ہے اگر اثر آفرینی مینارہ کی ہے تو وہ کامیاب ہے۔1
علی جواد زیدی صاحب کا خیال تھا کہ ایک عام قاری کی رسائی صرف تخلیق تک ہوتی ہے تخلیق کار تک نہیں، اسے یہ معلوم ہی نہیں ہو پاتا کہ کسی فن پارے کو اس کے انجام تک پہنچانے میں اس کے خالق کو کن مراحل سے گزرناپڑا اور اس کے پیچھے کون کون سے ذہنی عناصرکار فرما رہے۔ کیونکہ قاری ان تمام حقائق سے ناواقف ہوتاہے اس لیے وہ ادیب سے کسی قسم کی انسیت اور لگاؤ محسوس نہیں کر تا اور نہ ان کے درمیان محبت کا کوئی رشتہ قائم ہو پاتا ہے۔ ایک فنکار بھی ایک آدم زاد ہے اور اس سے بھی غلطیاں سرزد ہو تی ہیں مگر ایک عام قاری ان کوتاہیوں اور خامیوں کی تہ تک نہ پہنچ پانے کی وجہ سے اس کے خالق کے جذبات سمجھنے میں قاصر ہوتاہے اور نتیجہ میں وہ ادیب کو ہمدردی کی نگاہ سے دیکھنے یا ان غلطیوں کے تئیں ہمدردانہ رویہ رکھنے سے محروم رہتا ہے اور پھر وہ ادیب کوہوئی اپنی اس بھول کے احساس سے اس کے تئیں عزت کا جذبہ بھی پیدا نہیں ہوتا اور اس سے دونوں کے درمیاں ایک خلا پیدا ہو جاتا ہے، اسی خلا کو دور کر کے قاری کے دل میں تخلیق کار کے لیے عزت اور ہمدردی پیدا کرنے کی غرض سے بھی انھوں نے خاکے لکھے ہیں۔
خاکہ نگار کے لیے حق گو اور بے باک ہونا نہایت ضروری ہے۔ خاکے میں جو شخصیت جیسی ہوتی ہے، اسے من و عن ویسا ہی پیش کیا جاتا ہے، مصنف بذات خود اسے اچھا یا برا ثابت نہیں کر سکتا۔ بقول شمیم حنفی :
’’خاکہ نگار محتسب نہیں ہوتا۔ اسے یہ حق حاصل نہیں کہ اپنے موضوع پر اخلاقی حکم لگاے یا فیصلہ صادر کرے۔ اسے افسانہ نگار کی طرح اپنے موضوع کی طرف خاصا رواداری کا رویہ اپنانا پڑتا ہے، تاکہ اس کی بنائی ہوئی تصویر کسی ترمیم یا اضافے کے بغیر جیسی ہے اسی شکل میں سامنے آئے۔ اس کا کام نہ تو بت گری ہے نہ بت شکنی۔ افسانہ نگار کی طرح اپنے تاثرات میں وہ قدرے مبالغہ آمیز ہو سکتا ہے مگر موضوع کی طرف ہمدردی، رواداری اور انصاف پسندی کا رویہ برقرار رکھنا چاہیے۔‘‘2 
علی جواد زیدی کے لکھے خاکوں کے مجموعے آپ سے ملیے کے خاکوں میں اشخاص کے انتخاب کو لے کر ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ انھوں نے ان چیدہ ہستیوں پر ہی قلم اٹھایا ہے جو اپنی عمر کی 50 دہلیز پار کر چکی ہیں۔ اس انتخاب کے پیچھے ان کاجوازیہ ہے کی یہ شخصیتیں اب مکمل ہو چکی ہیں،شخصیت کے جس رنگ میں انھیں ڈھلنا تھا اس میں ڈھل چکی ہیں اور اب ان میں پھیر بدل کی گنجائش کم ہے، اس کے علاوہ ان ہستیوں میں تجربہ کا جو رنگ موجود ہے وہ جوانی کی رنگینی سے زیادہ کارآمدہے۔ یہ شخصیتیں ابھی اتنی قدیم بھی نہیں ہوئی ہیں کہ اس یادگار دور نے قصۂ پارینہ کی صورت اختیار کر لی ہومگر وقت کے ساتھ ساتھ روایات اور اقدار کی صورتوں میں بدلاؤ ضرور آیا ہے اور خاکہ نگار نے ان اشخاص کا جائزہ اسی دور کے پس منظر میں رکھ کر کیاہے۔اس کے متعلق لکھتے ہیں:
’’میں نے ہر شاعر یا ادیب کے بارے میں نہیں لکھا ہے۔ میں نے انہی ہستیوں کو منتخب کیا ہے جو کم از کم زندگی کی 50 بہاریں دیکھ چکے ہیں۔ ان کی شخصیتوں میں جوانی کی’ سیمابیت‘ سے زیادہ تجربہ کاری کا گداز ہے۔یہ لوگ اس دور کی یادگار ہیں جو ابھی قصہ پارینہ تو نہیں ہوا لیکن جس کی بہت سی قدریں بدل چکی ہیںیا بدلتی جا رہی ہیں اس لیے ان کو ان ہی کے ماحول میں دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔‘‘3
خاکہ نگار نے اپنے مجموعے میں کسی ایسے شخص کا مرقع نہیں کھینچا جس سے اس کی گہری شناسائی نہ رہی ہو۔محض رسمی ملاقاتوں کو انھوں نے اپنے خاکوں کا محرک نہیں بننے دیاکیونکہ ایساکرناان کی نظرمیں ان اشخاص کے ساتھ ناانصافی ہوگی،کیونکہ انسان ایک ایسی مخلوق ہے جو بہت ہی complicatedہے۔مجموعے میں افراد کے انتخاب اور ترتیب میں کسی طرح کی کوئی خاص درجہ بندی کا خیال نہیں رکھا ہے کیونکہ ان کی نظر میں ایسا کوئی پیمانہ نہیں جس سے پیش کردہ اشخاص کی درجہ بندی کی جا سکے۔ 
لیکن یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ کسی دوسری شخصیت کے احساسات و جذبات کو سمجھنا ایک نہایت مشکل کام ہے،کیونکہ انسانی ذہن اتنا پیچیدہ ہوتا ہے کہ اس کی جڑ تک پہنچناآسان کام نہیں ہے۔ انسان بذات خود ایک وسیع و عریض موضوع ہے، جس کے اندر دنیا کے تمام علوم و فنون، موضوعات و مضامین سمائے ہوئے ہیں،کیونکہ کسی انسانی شخصیت کے مطالعہ میں نہ صرف اس کی شکل و صورت اور سیرت کے بنیادی عناصربلکہ اس کے ذہن و مزاج اور اس کے افکار اور اس کی تمام داخلی دنیا کا مطالعہ بھی ہے، جو کہ بہت نازک مطالعہ ہے۔ جس کے لیے خاکہ نگار کو وسیع مطالعہ اور عمیق مشاہدے کی ضرورت ہے، کیونکہ بعض صورتوں میں انسان خود اپنی ہی پیچیدگیوں میں الجھ کر رہ جاتا ہے۔ اور اس میں پوشیدہ رازوں کو سمجھ نہیں پاتا تو دوسروں کی شخصیت کی ٹھیک ٹھیک نشاندہی مشکل کام ہے۔ یادوں کی برات میں جوش ملیح آ بادی رقم طراز ہیں:
’’شخصیت شناسی بڑی جان لیوا چیز ہے۔اورسالہا سال کی بے تکلف ہم نشینی کے بعد بھی اس کا شرمیلا پن کم نہیں ہوتا۔‘‘4
کردار کی خوبیوں اور خامیوں کے تئیں علی جواد زیدی کا نظریہ متوازن ہے۔وہ فرد کی ہر برائی کو معاف کر کے ان سے خلوص و محبت کے قائل ہیں۔ ان کی نظر برائیوں سے زیادہ اچھائیوں کی طرف گئی ہے کیونکہ اچھائی اور برائی دونوں اضافی حیثیت رکھتی ہیں،ایک ہی بات کسی خاص ماحول میں کسی کے لیے اچھائی لیے ہو سکتی ہے اور بیک وقت وہی اچھائی مختلف ماحول میں دوسرے کے لیے برائی کی حیثیت رکھتی ہو۔ ان کی نظر میں کچھ خاکہ نگار ایسے ہیں کہ جن کی نگاہ پہلے برائیوں کی طرف ہی جاتی ہے کیونکہ اس سے ان کی انا کو تسکین ملتی ہے اور وہ سوچتے ہیں کہ اگر برائیوں کو الم نشرح نہ کیا گیا تو ان کے خاکے مشکوک ہو جائیں گے اور ان کی دیانت اور غیر جانب داری پر بھی سوال کھڑا ہو جائے گا،جب کہ اچھائی و برائی، نفرت ومحبت، خلوص و وفایہ ساری صفتیں اضافی ہیں اور مقام و ماحول میں تبدیلی کے ساتھ ہی ان کے معنی و مدارج بھی بدل جاتے ہیں۔اس لیے ان کی اہمیت بھی Secondary ہونی چاہیے۔لیکن کچھ انسانی اقدار و صفات ایسی ہوتی ہیں، جو Universalہیں، اور کسی بھی حال میں بدلتی نہیں، اور صدیوں سے انسانی توجہ کا مرکز رہی ہیں۔اس لیے اشخاص کا نفسیاتی مطالعہ ان ہی اقدار کی بنیاد پر کرنا چاہیے۔لکھتے ہیں: 
’’نیکیوں کے تذکرے میں بخل زر و مال کے بخل سے بھی بڑا گناہ ہے اور برائیوں کے اظہار میں اسراف قومی بیت المال کے غبن سے زیادہ سنگین جرم ہے۔ ایک متوازن مطالعہ کے لیے دقتِ نظر کے ساتھ ساتھ وسعتِ نظر بھی لازمی و لابدی ہے۔ اس لیے میں نے برائیاں ڈھونڈ نکالنے کی کوشش نہیں کی ہے، اگر یہ قصور ہے تو میں اقبالی مجرم ہوں.... ہاں میں نے بڑے بڑے ادبا و شعراء کو بھی سطح عام پر اتارا ہے اور انھیں مندروں کی طاق پر بٹھا نے کے بجائے فرش زمین پر بیٹھنے کی دعوت دی ہے۔‘‘5
شخصیت کے مطالعہ کے لیے نظر کی وسعت اور مطالعہ کا وسیع ہونا لازمی ہے اور اس معاملے میں آپ سے ملیے کے خاکے کسوٹی پر کھرے اترتے ہیں۔ علی جواد زیدی نے وسعتِ نظر کا بہترین ثبوت دیا ہے، قاری کی ملاقات اشخاص سے اس طرح کرائی ہے کہ قاری خود کو شخصیت کے قریب محسوس کرنے لگتا ہے۔ انھوں نے شخصیت کا تنقیدی مشاہدہ و مطالعہ کیا ہے۔منتخب واقعات زندگی سے خاکوں کو دلچسپ بنایا ہے، شخصیت کے اوصاف، مزاج، عادات و اطوارغرض ان کا نفسیاتی تجزیہ کرکے شخصیت کے حسین خد و خال ابھارے ہیں۔ مثال کے طور پر بھگوتی چرن ورمامیں اسکیمیں بنانے کی عادت ہے لیکن اس پر عمل کی نوبت نہیں آنے پاتی، پورے خاکے میں ایک خاص قسم کی فضا ہے اور ابتداسے ہی یہ تاثر قاری کے ذہن پر قائم ہوجاتا ہے کہ بھگوتی چرن ورما بہت ہی زندہ دل،پر خلوص بھلے مانس،شخصیت مانند جوگی، فطرت مانند بہتا پانی،کہیں ایک جگہ نہ ٹھہرنے والے،جن کے لیے زیدی صاحب نے بہت خوب کہا ہے کہ خدا کی زمین تنگ نہیں اور ان کے پاؤں لنگ نہیں، اصل میں ترقی پسند ادیب و شاعرہیں، بناوٹی پن کا گزر نہیں سماجی اور گھریلو آدمی ہیں۔ اس مختصر سے خاکہ میں خاکہ نگار نے بھگوتی چرن ورما کی پوری زندگی ایک تھالی میں پروس دی ہے اور قاری کو صبح معنی میں ان سے رو بہ رو کرایا ہے۔خاکے کی ابتدا ہی بہت پر خلوص انداز میں کرتے ہیں:
’’آپ ہیں بھگوتی چرن ورما۔ ہندی کے مشہور ناول نگار، فسانہ نویس صحافی اور شاعر۔ سر سے پاؤں تک کھدر پوش، ہلکے فالسی رنگ کی عینک لگائے، بہت سا پان کھائے ایک خاص انداز میں مسکراتے ہوئے ابھی ابھی تو کمرے میں داخل ہوئے ہیں اور جھک کر اس فرشی سلام سے آپ کا استقبال کیا ہے جو مخصوص دوستوں کے لیے ہی مخصوص ہو سکتا ہے۔‘‘6
اور خاتمہ بھی اسی پر اسرار مگر تعریفی و توضیحی انداز میں کرتے ہیں:
’’یہ تو تھے بھگوتی بابو لیکن اگر شری بھگوتی چرن ورما ’شاعر ‘ کو دیکھنا ہو تو اس وقت دیکھیے جب وہ دنیا و ما فیہا سب کچھ بھول کر شعر سناتے ہیں۔ جذبات میں سموئی ہوئی آواز سامعین کو مسحور کر لیتی ہے اور پڑھنے کا جوش و خروش سارے مجمع میں ایک برقی لہر سی دوڑا دیتا ہے۔‘‘7
آپ سے ملیے میں شخصیتوں سے ملانے کا علی جواد زیدی کا ایک نہایت دلحسپ انداز ہے جو لوگوں کے لیے مکمل توجہ کا مرکز بنتا ہے۔ عمدہ خاکہ وہی ہے جس کو پڑھ کر افسانے جیسا مزہ آئے اور دلچسپی ابتدا تا آخر بنی رہے اس لیے ضروری ہے کہ خاکے میں وہ تمام لٹریری عناصر اس تعداد میں ہوں کہ خاکے پر بناوٹی پن کا احساس بھی غالب نہ ہونے پائے اور اس کی Orignaltiy بھی برقرار رہے:
’’ آپ سے ملیے۔ آپ کا اسم گرامی ہے علی عباس حسینی..... قد چھہ فٹ سے کچھ لمبا‘رنگ صاف‘ بدن دہرا‘ شیروانی‘پاجامہ اور کالی مخملی کشتی نما ٹوپی۔ یہ ہے آپ کا ظاہری حلیہ۔ باتیں رک رک کر کرتے ہیں لیکن کہانیاں بہت تیزی سے لکھتے ہیں اسی طرح پیسہ جمع کرنے میں سست مگر خرچ کرنے میں بیحد تیز رفتار۔‘‘8
اس پورے خاکے کو پڑھ کر یہ تاثر قائم ہوتا ہے کہ علی عباس حسینی ایک دیندار قسم کے آدمی تھے،فیاضی ان کے خمیر میں تھی اور جب یہی فیاضی ادبی صورت اختیار کر لیتی تو افسانے کی تو بات ہی نہیں پورے پورے ناول لے جا کر لوگ اپنے نام سے چھپوا لیتے تھے اور یہ سب جانتے ہوئے بھی علی عباس حسینی خاموش رہنا مناسب سمجھتے تھے یا یہ کہنا بجا ہوگا کہ حسینی کو اپنی تخلیقات دوسروں کو خیرات میں دینے کی عادت تھی، اس لیے کہ علی عباس حسینی ایک انسان دوست تھے ہر ایک سے ان کا دلی رشتہ تھا، ہرشخص ان کا دوست تھا۔ بشرطیہ کہ وہ ان کی خوداری کے پیمانے پر کھرا اترتا ہو۔
حسینی منکسر مزاج تھے مگریہ ظاہر بھی نہیں ہونے دیتے، مغرور نہیں تھے مگروضعداری اور اصولوں کے ساتھ کوئی سمجھوتا نہیں کرتے، ان کی اس وضعداری اور خوداری کے سبب ہی وہ اس جائز مقام تک نہیں پہنچ پائے جس کے وہ مستحق تھے۔ دربارداری کی اداؤں سے بالکل نا آشنا تو نہیں ہیں ’پر طبیعت ادھر نہیں آتی‘ والا قصہ تھا۔ شخصیت میں ترقی پسندی تھی، معاشرے کی ہوا جس طرف کی چلی خود بھی اسی طرف چل پڑے،بدلاؤ قدرت کا نظام ہے اور حسینی صاحب قدرت سے ا لگ کیسے رہ سکتے،دکھاوا نہ سہی مگر غیر محسوس طور پر یہ تبدیلی ان کی شعوری زندگی میں بھی نظر آتی ہے،مادی تبدیلیاں خیالات میں بھی بدلاؤ لاتی ہیں مثلا جب رومانیت حاوی تھی تو فرنچ کٹ داڑھی اور ایرانی ٹوپی میں نظر آتے تھے جب مقامی رنگ چڑھا تو داڑھی غائب اور موچھیں حاضر، جب سماجوادی سدھارک ہوئے تو وہ بچے کھچے اثرات بھی غائب ہو گئے، مدلل شخصیت ہونے کی وجہ سے سبھی حامی رہتے تھے، مولوی اس لیے خوش کہ خدا کی ذات اور روحانیت سے صاف انکار نہیں اور لا مذہب اس لیے کہ حسینی مذہبی دکھاوں اور اس کے ٹھیکیداروں کی بد اعمالیوں کے خلاف تھے، اسی طرح سرمایہ دار خوش کہ حسینی مارکسسٹ نہیں اور مزدور اس لیے خوش کہ کم سے کم وہ ان کو انسان تو سمجھتے ہیں، ترک اسلام نہ کیا تو مسلمان خوش اور ہر مذہب اور ہر فکر و فلسفہ کے حامی اس لیے غیر مسلم بھی مسرور۔ کیونکہ حسینی صاحب کی زبان میں قدیم طرز لیے ہوئے جو دل آویزی ہے وہ پرانے اسکول کے لوگوں کے لیے ان میں دلکشی کا سبب ہے اور کیونکہ افسانوں میں جو ترقی پسندی کے عنصر کار فرما ہیں اس لیے موجوہ دور بھی مطمئن ہے، زندگی کا ہر رنگ ان کی رنگین طبیعت میں موجود ہے اور وہی رنگینی ان کے افسانوں کی بھی خوبی ہے۔
مجموعے کے اگلے اور نہایت دلچسپ مگر مرعوبیت کا پرتولیے ہوئے خاکے میں جوش ملیح آبادی حاضر ہیں،علی جواد زیدی کی خاکہ نگاری کی فنکاری کا منہ بولتا ثبوت، جوش کے جن گوشوں سے انھوں نے قاری کو آشنا کرایا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ قاری ان سے انجان نہیں تھا مگر جس خوبصورتی اورمختلف نظریوں سے انھوں نے جوش کو پیش کیا ہے وہ نظریے نئے معنی اور نئی قدروں کے ساتھ سامنے آتے ہیں اور پرت در پرت جوش کھلتے جاتے ہیں اگر چہ خاکے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ علی جوادزیدی جوش سے کس حد تک متاثر تھے اور ان کے فن کے گرویدہ اورقلم کے شیدائی، اس اعتبار سے یہ خاکہ ان کے جذبات اور تاثرات کا خوبصورت سنگم ہے:
’’آپ کو توآپ جانتے ہی ہیں۔ہاں، ہاں، حضرت جوش ملیح آبادی، شاعر انقلاب و قبلہ رندان جہاں۔ یہ دونوں صفتیں آپ میں اس طرح بیک وقت جمع ہو گئی ہیں جیسے دونوں کا وجود ہی توام ہو، آپ کو ان دونوں صفتوں کے باعث ہندستان اور پاکستان میں بے شمار لوگ جانتے ہیں جن میں پڑھے لکھے لوگ بھی ہیں اور جاہل بھی، شرقی بھی ہیں اور عربی بھی، علمائے اعلام بھی ہیں اور ملحدین کرام بھی وہ بھی جو زبان و ادب کے صحیح نباض ہیں اور وہ بھی جو اردو نہیں جانتے مگر جوش کو مانتے ہیں۔‘‘9
علی جواد زیدی خاکے میں لکھتے ہیں کہ جوش کو جاننے کے بعد بھی ان کا گرویدہ نہ ہونا بہت مشکل ہے۔ یہ ان کی مرعوبیت ہی تھی جو ان کو سمجھنا مشکل ہو رہاتھا کہ آخر جوش کی تنقیص کیسے ہو سکتی ہے کیونکہ جوش جیسی انصاف پسند طبیعت کی برائی تو نا ممکن ہے مگر پھر بھی ایسے لوگ ہیں جو اس کام کو بخوبی انجام دیتے ہیں، ایک طرف جوش کے حرف آخر کا مقصد خدا شکنی ہے مگروہیں دوسری طرف جوش کے فکر و فلسفے کی تہہ میں چھپے اس معصوم ذہن کو دیکھیں تو وہاں خدا شناس دل دھڑکتا نظر آئے گا، بظاہر لامذہبیت کا لبادہ اوڑھے اس شخص کے پیچھے موجود وہ شخص لا مذہبی ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ اس کی پرورش جس ماحول میں ہوئی ہے وہاں اس کی گنجائش مشکل ہے، ہاں خدا کسی اور روپ اور شکل میں ضروردکھائی دے سکتا ہے یہاں وہ رحیم ہے رحمن ہے یاحبیب ہے۔ اس لیے نہ تو وہ لا مذہبی ہے نہ دہریہ بلکہ اس کے سینے میں ایک ہمدرد، حساس اور پر خلوص دل ہے، وہ تمام خوبیاں جن کا مجموعہ مذہب ہو سکتا ہے، جوش میں موجود ہیں اور اس کے لیے کسی مذہب کا تمغہ لگا ہونا ضروری نہیں کیونکہ وہ اتنا طاقتور بھی نہیں کہ کسی کا ضمیر بدل سکے۔اور جوش جیسا دوست رہبر، بے ریا، بے لوث، مخلص دوست،فلسفہء کائنات جس کے دل میں ہو نہ کہ دماغ میں، وہاں ایسے مذہب کی کوئی گنجائش نہیں،جودماغوں کوماؤف کرکے ان کے روشندانوں میں جالے بن دے:
’’جوش دوست ہے اور بڑا بھولا بھالا دوست، سیدھا سادہ بے لوث، بے ریا۔ نہ چلت نہ پھرت، نہ داوں نہ پینچ، نہ کاٹ نہ کپٹ۔ اسی لیے اس کی محبت کے مطالبات میں سخت گیری بھی بہت ہے۔ وہ محبت کے جواب میں ویسی ہی بے ریا محبت چاہتا ہے اور ایک بچے کی طرح معمولی بات پر روٹھ جاتا ہے اور اس طرح کہ منانا مشکل ہو جائے۔‘‘8
زیدی صاحب نے اپنے ہر خاکے میں مہر و وفا، دوستی،خلوص، اخلاق غرض کہ تمام انسانی قدرں کو پیش پیش رکھا ہے، شخصیت میں چھپی ان تمام خوبیوں کو اپنے خاکے میں پوری توجہ کی ہے، وہ چاہے بھگوتی چرن ورما ہوں یا علی عباس حسینی یا پھر جوش، ان کی نظر ان انسانی خوبیوں پر پہلے جاتی ہے، ان کو ہر کوئی ہمدرد نظر آتا تھااس کے باوجود اگر کوئی خامی ہو بھی تو وہ اسے اس انداز میں پیش کرتے ہیں کہ وہ بری نہیں لگتی اسے بھی وہ اچھائی میں لپیٹ کر اس طرح پیش کرتے ہیں کہ قاری کو گراں نہیں گزرتی۔ مثال کے طور پر ڈاکٹر عابد حسین بہت ہی شریف بالکل اللہ میاں کی گائے ہیں تو کیا یہ ان کی خامی ہے، اس لیے کہ وہ سب سے پیار کرتے ہیں، عابد حسین ماڈرن لیکن بیک وقت خاصے قدیم بھی ہیں اور اللہ میاں کی گائے ہیں تو جہاندیدہ انسان بھی تو ہیں۔ علی عباس حسینی صلح کل اور متوازن طبیعت کے مالک ہیں۔شخصیت کی جاذبیت میں زیدی صاحب کو کوئی کمی نظر نہیں آتی،پھر جو بات انسانی قدروں کی ہو تو شخصیت اور بھی نکھر جاتی ہے جیسے ان کی مہمان نوازی،بلا کے ذہین،اور بڑے سخی ۔ غرضیکہ اسی طرح انھوں نے اپنے ہر کردار کی خامیوں کو خوبیوں کی شکل میں بہت ہی دلچسپ انداز میں پیش کیا ہے۔علی جواد زیدی نے ان اشخاص کی صرف زندہ قلمی تصویریں ہی نہیں کھینچی ہیں،بلکہ ان کے علمی اور ادبی کارناوں پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ آنند نارائن ملا کی شخصیت کو اس طرح قلمبند کیا ہے:
’’ملا میں زندہ دلی ہے، اخوت ہے، ہمدردی ہے، انس و محبت ہے۔ اصل میں ملا ذرا اظہار خیالات و جذبات میں ضرورت سے زیادہ محتاط ہیں۔ وہ ہر مظاہرہ سے گھبراتے ہیں اور اس طرح ایک بہت بڑے گروہ کو ایک نا خوشگوار فریب میں مبتلا کیے ہوئے ہیں...... مانا کہ دل میں بہت کچھ ہے مگر کسی نہ کسی طرح اس کا اظہار بھی تو ہونا ہی چاہیے۔ الفاظ ساتھ نہیں دیتے تو آنکھوں سے، تکلفات سے، رسمیات سے یہ ظاہر ہو جانا چاہیے کہ اس خامشی کے پس پردہ ایک خلائے محض نہیں ہے۔ ‘‘11
شاعر، وکیل، موسیقی و رقص کے دلدادہ، کلب اور کافی ہاؤس کی نشستوں میں شرکت، مشاعرے، ادبی محفلیں، وضعدار، شریف، اصول پسند، بلند خیال، ترقی پسند اور آزاد رو یہ تھی آنند نارائن ملا کی شخصیت۔ ان میں نہ تو خلوص کی کمی تھی نہ جرات کی اور نہ دوستوں کی، بہت حساس طبیعت کے مالک تھے، اقدار کا احساس، ماحول و معاشرہ کا احساس اور اسی معاشرے میں اپنا اوراپنے دوستوں کے مقام کا احساس بہت گہراہے،ہر بات کو جانچنے پرکھنے کی عادت،دوستوں سے نزدیکی کے بعد بھی ایک دوری کا احساس، لوگوں سے دور مجمع سے دور معاشرہ سے کنارہ کشی کیے ہوئے آنند نارائن ملا، معاشرہ میں ایک حد تک ان خوبیوں کو تکبر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے مگر زیدی صاحب کی نگاہ میں اسے وضعداری کا نام دیاگیا ہے،جس میں غرور نام کا نہیں، بیزاری کا شائبہ تک نہیں اور اسے وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جنھیں ان کے قریب رہنے کا موقع ملا ہو:
’’ملا کے دوستوں کا حلقہ بہت وسیع نہیں ہے۔وہ بڑے سلجھے ہوئے لوگوں میں ہیں، غور و فکر، نقد و نظر، جانچ اور پرکھ کے قائل۔ دوستی بھی بہت جانچ اور پرکھ کر کرتے ہیں۔ ان کے ملاقاتی تو بہت سے ملیں گے لیکن دوست نسبتا تھوڑے۔ یہ تھوڑے سے دوست ملا ہی کی طرح سچے اور خیر خواہ ہیں‘‘12
علی جواد زیدی کے خاکوں کی زبان ادبی اور فنکارانہ ہے۔ لفظوں کے انتخاب میں عامیانہ پن نہیں ہے، موقع اور مناسبت سے بیچ بیچ میں اشعار کا انتخاب نہایت موزوں ہے، اشاروں اور کنایوں سے بھی کام نکالتے ہیں مگر عبارت میں جھول نہیں آنے دیتے ہیں،خاکوں میں دلچسپی پیدا کرنے کی غرض سے ڈرامائی عنصر بھی لاتے ہیں۔نیاز فتحپوری کا تعارف وہ کچھ اسی انداز میں کرتے ہیں:
’’نیاز فتحپوری کا نام آتے ہی ماہ ہ سال کے ورق پر ورق الٹنے لگتے ہیں اور واقعات و حادثات کی موافقت و مخالفت کی ہنگامہ زائی و ہنگامہ آرائی کی داستانیں تصو ر کے پرد ۂ سیمیں پر حرکت کرنے لگتی ہیں ان کی زندگی ایک کھلی کتاب ہے جسے جو پڑھنا چاہے پڑھ سکتا ہے۔‘‘13
بیسویں صدی کے نوجوانوں کے دل کی دھڑکن جگر مرادآبادی اپنے دور کے بہت ہی مقبول و مشہور شاعر گزرے ہیں اور ان کی اس مقبولیت کا سبب محض ان کی دلکش آواز ہی نہیں ان کی غزلوں کا صحتمند لہجہ بھی تھا۔ اگر چہ ان کا حلیہ اور شکل و صورت دیکھ کر لوگوں کو مایوسی ہوتی تھی، تیز پختہ رنگ اس پر چیچک کے داغ جس نے چہرے کی گلکاری میں مزید اضافہ ہی تھا مگر اس حلیہ کو بھی خاکہ نگار نے کس قدر پرکشش بنا کر پیش کیا ہے کہ اس ریگستان میں بھی خوشنما نخلستان کھلا دیا ہے۔ جگر جتنا اپنی غزلوں کے لیے ہر دل عزیز ہیں ان کی اس شہرت میں ان کی رندانہ سرمستی کا بھی اتنا ہی دخل ہے۔لوگ اپنے غموں کی آڑ میں پیتے ہیں اور غم غلط کرتے ہیں مگر جگر کی کیفیت تو پی کر اور زیادہ مغموم ہو جانے والی ہوتی تھی۔ مگر پھر جب یہ عادت چھوڑی تو پھر کبھی منہ سے نہ لگائی،جگر نے محبت کی، ٹوٹ کر کی، محبت کے دلدادہ جگر نے نہ صرف محبت کی بلکہ اسے آخری حدتک نبھایا، چوٹ بھی کھائی تڑپے بھی، مگر محبت کی ان چنگاریوں کو سینے میں سجا کر رکھا:
’’جگر اب رند نہیں‘عاشق مہجور نہیں مگر اب بھی شاعر، تاش نواز اور دوست ہیں۔ مذہب شناس پہلے بھی تھے اب عبادت گزار بھی ہیں، کل تک صرف رونق بزم تھے اب رونق محراب بھی ہیں۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ یا تو جگر کو کوئی ایسی کھوئی ہوئی چیز واپس مل گئی ہے جس کی انھیں مدتوں سے تلاش تھی اور جس میں وہ مدتوں محو سرگرداں رہے ہیں یا انھوں نے کوئی ایسی پائی ہوئی چیز کھو ڈالی ہے جس کا تعلق ظاہر سے کم باطن سے زیادہ ہے۔‘‘14
دربارداری کے ہنر سے نا آشنا جگر کبھی کسی دربار سے وابستہ نہیں ہوئے اس کی وجہ تھی ان کی وضعدار شخصیت اور اس پر مزاج میں جاگیردارانہ پن،انھیں اپنے فن اور مرتبہ کا پورا احساس رہتا تھا اور کبھی بھی کسی ایسے شخص کی رسائی ان کے دربار تک نہیں ہوئی جس نے فن کو ترجیح نہیں دی۔اسی فن کی بدولت شاعری میں انھوں نے جو نام پیدا کیا ان کے ہم عصروں میں انھیں زندہ تا بندہ کر دیا:
’’اگر زمانہ اپنی خوئے تغیر نہیں بدلتا تو جگر اپنی وضع کیوں بدلیں ؟ وہ ایسے وضعدار ہیں کہ نوجوان ان کی طرف انگلیاں اٹھاتے ہیں اور بزرگ کہتے ہیں کہ ’ اس طرح کے بندے اب خدائی میں چند ہی رہ گئے ہیں۔‘‘15
’’ گذشتہ ربع صدی میں کتنی ہی ادبی تحریکیں چلیں، قدیم و جدید کی بحثیں چھڑیں ترقی پسند و رجعت پسند کی حدیں قائم کی گئیں، شاعری کا رخ بدل گیا، تنقید کے معیار تبدیل ہو گئے لیکن جگر نے اپنے قوت بازو سے، اپنے جوہر ذاتی سے محفل ادب میں جو مختلف جگہ بنا لی تھی وہاں سے انھیں اٹھانے کی کوئی ہمت بھی نہ کر سکا۔ الفاظ کی شکل میں مخالفتوں کے طوفان بہت امڈے لیکن صفحہ تاریخ پر جگر کا نقشہ گہرا ہی ہوتا گیا۔ پوپلے منہ سے نکلی ہوئی پھونکوں سے زندہ ادب کے چراغ گل نہیں ہوا کرتے۔ متحدہ ہندستان میں کراچی سے کلکتہ تک اور کشمیر سے راس کماری تک جگر کی پکار ہوئی ہے اور دھوم مچی ہے۔ جس مشاعرہ میں بھی جگر پہنچ جاتے مشاعرہ لوٹ لے جاتے۔16
ضلع اناو کے رہنے والے سادہ اور نیک فطرت، بناوٹ اور دکھاوٹ سے دور،جامہ ذیب، لباس اور رہائش کے معاملے میں نفاست پسند، خوش خوراک، صاف ستھری طبیعت اور صاف ستھرے مزاج کے مالک اور طبیعت سے صوفیانہ پن کی طرف مائل مسعود حسن رضوی ادیب سے ملانے کے لیے خاکہ نگار نے تھوڑی مسافت اور تھوڑا صبر سے کام لینے کو کہا ہے، لکھنؤ سے والہانہ محبت رکھنے والے مسعود حسن رضوی ادیب پر یہ فقرہ صادق آتا تھا کہ لکھنؤ ہم پر فدا اور ہم فدائے لکھنؤ۔ مرثیو ں سے خاص لگاؤ تھا جب کہ وہ نہ تو مرثیہ گو تھے اور نہ مرثیہ خواں، مگر مرثیہ کی تاریخ، تفسیر اور تنقید پر آپ کا تحقیقی کام مرثیہ کا مطالعہ اور اس پر تحقیقی کام کرنے والوں کے لیے انسائیکلوپیڈیا کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان کے کتب خانے میں جو کہ ضخیم اور نادر کتابوں کا نایاب گلدستہ ہے، اس میں انھوں نے مرثیوں کے نایاب اور کمیاب نسخوں کو زمانے کی زبوں حالی اور زوال سے محفوظ کر کے رکھا ہے۔ اس کتب خانے میں مرثیوں کے علاوہ واجد علی شاہ پر بھی نایاب اور بیش بہا کتابوں کا خزانہ موجود ہیں:
’’دنیا کے سب سے بڑے مرثیہ نگار انیس کے حالات زندگی اور کلام کا تو کوئی پہلو ایسا نہ ہوگا جو آپ کی نظر تحقیق سے بچ رہا ہو۔ مشہور ہے کہ سکندر اعظم کے پہلو میں اگر مشہور رزمیہ’ الیڈ‘ کا نسخہ نہ ہو تو اسے نیند نہیں آتی تھی۔ مسعود صاحب کے پہلو میں بھی اگر انیس کے مرثیہ نہ رہتے ہوں تو ان کی آنکھیں محروم خواب رہتی ہوں گی۔‘‘17
مسعود حسن رضوی ادیب کی شخصیت بھی کم و بیش ان ہی اوصاف کا مجسمہ تھی جو خوبیاں باقی کی شخصیتوں میں موجود ہیں۔وہ سنجیدگی اور متانت کا ایک حلقہ اپنے اطراف اس طرح بنا لیتے ہیں کہ دوسروں کی ان تک رسائی ہی مشکل ہو جاتی ہے پھر بھی خاکہ نگار نے انھیں مردم بیزار یا مغرور نہیں گردانہ ہے،طبیعت سے وہ یارباش نہ سہی مگر دوستوں کا ایک جمگھٹ ان کے آس پاس موجودرہتا تھا،جس میں ہر قسم کے لوگ تھے،ایک طرف وہ نواب بھی شامل تھے جو چنیا بیگم کے عاشق تھے،تو وہیں ان میں سابق خاندان شاہی کے چشم و چراغ بھی ہیں، اخباروں کے مدیر، اسکول اور کالجوں کے مدرس بھی ہیں،طبیب، مغنی، شاعر، افسانہ نگار، نقاد، داستان گو، مرثیہ خواں بھی ہیں اور مرثیہ گو بھی۔ 
خاکوں میں مولانا عبدالماجد دریابادی کا خاکہ بھی بہت دلچسپ اور معلوماتی ہے۔مولانا دریاباد کے ایک علم دوست اور کھاتے پیتے گھرانے میں پیدا ہوئے۔ جہاں لوگ دیندار تھے، اسلامیات اور دینیات کے پابند تھے۔ ان کے متعلق زیدی صاحب لکھتے ہیں:
’’اس کے آگے ادب کی منزل ہے۔ارباب نظر گلستاں سے بہار کا اندازہ کر لیں۔ مولانا عبدالماجد کی سیرت کے ابھی کتنے ہی پہلو ہیں جو ضبط تحریر میں نہیں آسکے لیکن ایک پہلو یقیناًقابل ذکر ہے آپ کا جذبہ احتساب۔ اپنے طنز سے مولانا نے دنیا کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا۔ کسی مغربی ملک میں طلاقوں کی تعداد بڑھ جائے، پاکستان میں بے پردہ لڑکیاں اسٹیج پرآئیں، مصر میں آزاد خیالی کے مظاہرے ہوں، مولانا خوردبین لگائے سب دیکھتے رہتے ہیں اور انھیں وہ اپنے طنزیہ تیروں کا نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ اصلاح کا کام کاش اتنا ہی آسان ہوتا۔ غالبا اسی موقع کے لیے غالب نے کہا تھا ...’. نکالا چاہتا ہے کام طعنوں سے اے غالب‘۔ جذبہ احتساب سے مغلوب ہو کر مولانا نے بڑی قلمی جنگیں کی ہیں۔ کاش ان کا یہ علمی جہاد کسی ترقی پسند قومی و عالمی تحریک کو بڑھاواد ینے کے لیے ہوتا۔‘‘18
اثر لکھنوی کا پورا نام مرزا جعفر علی خاں اثر ہے۔ ماں باپ کی اکیلی اولاد تھے لہذا د ونوں کے بہت دلارے تھے۔بچپن میں اثر کو کنکوے بازی کا بہت شوق تھا لیکن علم و تعلیم کا سلسلہ بدستور جاری رہا، اور تعلیم ختم ہوتے ہی ڈپٹی کلکٹرہو گئے مگر نہ تو ان کے شغل میں کوئی فرق آیا اور نہ تو سلسلہ شاعری میں، وہ بدستور جاری رہا۔ان کی زندگی خانوں میں تقسیم تھی اور ہر خانے میں اسی مناسبت سے مہرے فٹ کیے گئے تھے اور ہر مہرا اپنی جگہ بہت ہی مکمل اور با اثر تھا۔عدالت میں وہ ڈپٹی کلکٹر، گھر میں مرزا جعفر علی خاں، مشاعروں میں اثر،ساتھیوں کے بیچ مخلص دوست، عالموں کے درمیان ایک با وقار ادیب کے رول میں رہتے تھے۔اس کے متعلق خاکے میں ایک جگہ رقم ہے:
’’اثر شاعر بھی ہیں تھے اور سرکاری عہدیدار بھی، لیکن نہ تو انھوں نے شاعری کو فرائض منصبی کا راستہ روکنے دیا اور نہ فرائض منصبی کو شاعری کی سلطنت میں دخیل ہونے دیا۔ شعر و ادب کی بھی خدمت کرتے رہے اور قانون و انصاف کی بھی۔ آپ کے ضخیم مجموعہ ہائے کلام اور ذخائر مضامین نثر کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ دن بھر کچہری کی جھک جھک اور صبح و شام سرکاری کام سے ملنے والوں کے ہجوم سے نبردآزمائی کے بعد بھی و ہ اتنا وقت کیسے نکال لیتے تھے۔ شوق مطالعہ اس پر مستزاد تھا۔ فلسفہ و ادب آپ کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔‘‘19
انیس احمد عباسی کا خاکہ اس مجموعے کا آخری خاکہ ہے جس کی ابتدا انھوں نے ان کی شکل و شباہت حلیہ و لباس اور وضع قطع سے کیا ہے۔ انیس احمد عباسی کا بچپن تنگ حالی میں گزرا، والد کی تنخواہ دو وقت کی روٹی کے لیے بھی کم پڑتی تھی۔اس تنگ دستی کے عالم میں انیس احمد عباسی اور ان کے بڑے بھائی گھر میں ٹیوشن پڑھا کر گھر اور اپنی پڑھائی کا خرچ پورا کرتے تھے۔شروعاتی پریشان حالی نے ان کامزاج ایسا بنا دیا تھا کہ دوست احباب، خاندان، آس پڑوس کسی کی بھی پریشانی ان کو اپنی پریشانی لگتی تھی اور اسے دور کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے تھے۔ان کی زندگی میں وفاداری بشرط استواری اصل ایماں تھی:
’’مذہب کے معاملے میں بہت آزادہ رو ہیں۔ جس زمانے میں لکھنؤ کے بیشتر مسلمان، کٹّر شیعہ یا کٹّر سنّی کے دو خانوں میں نبٹ گئے تھے، انیس صاحب کو دونوں اپنا جانتے تھے۔ انیس صاحب کے ساتھ سب سے بڑا مذاق کسی نے یہ کیا کہ انھیں قادیانی مشہور کر دیا۔ یہ بے چارے مرنجان مرنج قسم کے حنفی العقیدہ مسلمان ہیں، کسی بات پر انھوں نے احمدیوں کا ساتھ دے دیا ان کے کسی مقدمے کی کارروائی اپنے اخبار میں چھاپ دی بس قادیانی مشہور ہو گئے اور یہ بات الیکشن میں ان کے خلاف استعمال کی گئی۔ ‘‘20
علی جواد زیدی کے خاکوں کی سب سے بڑی خوبی ان کی زبان اور انداز بیان ہے۔زبان میں چٹخارے کا لطف موجود ہے۔اپنی کتاب ہندستانی ادب کے معمار میں وضاحت حسین رضوی ان کے اس فن کے متعلق ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’ان کے لکھے ہوئے خاکوں میں ندرت، جدت اور فیاضی سے کام لیا گیا ہے۔آپ سے ملیے کے خاکوں میں یہ اوصاف اپنی پوری جلوہ فرمائی کے ساتھ موجود ہیں۔زبان نہایت فنکارانہ اور ادبی استعمال کرتے ہیں۔ اشاروں اور کنایوں سے کام لیتے ہیں۔لفظی صنعتوں سے کام لیتے ہیں اور الفاظ کے انتخاب کاخاص اہتمام کرتے ہیں۔علامتوں کا بھی استعمال کرتے ہیں۔‘‘21
مندرجہ بالا تمام خاکوں میں کئی یکسانیت نظر آتی ہے مثلا پیش کردہ سبھی شخصیتیں ایمانداری، خلوص،مخلص دوستی، وفا شعاری، خودداری جیسے تمام انسانی اوصاف سے لبریز تھیں یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ خاکہ نگار نے ان اوصاف کو ہی پیمانہ بنایا ہواور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ خامیاں انھیں نظر ہی نہ آئی ہوں یا انھیں جان بوجھ کر نظر انداز کر دیا گیا ہو۔ دوسری بات یہ کہ تمام اشخاص بہت ہی وضع قطع والے اشراف رہے ہیں۔ کسی شخصیت میں کسی بھی طرح کا کوئی شگاف دکھائی نہیں دیتا،زیادہ تر شخصیتیں فرشتہ صورت ہیں اور کسی بھی طرح کا کوئی عیب ان میں نہیں ہے، جب کہ ہر شخصیت خوبیوں اور خامیوں کامجسمہ ہوتی ہے۔
ان کے خاکے اگرچہ تکنیکی لحاظ سے مکمل ہیں، لیکن اسلوب، واقعات کی ترتیب، اشخاص کے مطالعے اور ان کے جمالیاتی اوصاف کے نقطۂ نظر سے ان کے خاکے کمزور نظر آتے ہیں۔
حواشی
1۔ چندادبی شخصیتیں: شاہد احمد دہلوی، ص 13-14، مکتبہ جدید، نئی دہلی اشاعت 2003
2۔ آزادی کے بعد دہلی میں اردو خاکہ مرتبہ شمیم حنفی، ص11، اردو اکادمی دہلی اشاعت 1991
3۔ آپ سے ملیے،علی جواد زیدی،صفحہ9، مکتبہ شاہراہ دہلی، اشاعت 1963
4۔ یادوں کی برات، جوش ملیح آبادی صفحہ،شان ہند پبلیکیشن نئی دہلی اشاعت 1992
6۔ آپ سے ملیے،علی جواد زیدی،ص11، مکتبہ شاہراہ دہلی، اشاعت1963
6۔ ایضاً ، ص15 7۔ ایضاً ،ص21
8۔ ایضاً ، ص 23 9۔ ایضاً ،ص3
10۔ ایضاً ،ص 35 11۔ ایضاً ،ص 65-66
12۔ ایضاً ،ص 61 13۔ ایضاً ،ص 116
14۔ ایضاً ،ص 77 15۔ ایضاً ،ص75
16۔ ایضاً ،ص69 17۔ ایضاً ،ص81
18۔ ایضاً ،ص 146 19۔ ایضاً ،ص154
20۔ ایضاً ،ص174
29۔ ہندستانی ادب کے معمار:وضاحت حسین رضوی،ساہتیہ اکادمی دہلی اشاعت 2011

Dr. Guljabeen Akhtar Ansari
Assistant Professor, Dept. of Urdu
Lal Bahadur Shastri PG College
Mughal Sarai, Chandauli - 232101 (UP)






قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں