20/12/18

’کتاب نما‘ کا خواجہ احمد فاروقی نمبر۔ مضمون نگار:۔ غلام نبی کمار




’کتاب نما‘ کا خواجہ احمد فاروقی نمبر

غلام نبی کمار

مکتبہ جامعہ لمٹیڈ(مرکزی دفتر) نئی دہلی ایک اشاعتی ادارہ ہے۔ جس کی شاخیں ہندوستان کے مشہور شہروں تک پھیلی ہوئی ہیں۔ یہ ادارہ اشاعت کے ضمن میں سالہاسال سے اردو زبان و ادب کی خدمت کرتا آیا ہے۔اس ادارے کا قیام 1922 میں عمل میں آیا تھا۔اب تک اس ادارے کی جانب سے ہزاروں کی تعداد میں کتابیں شائع ہوئی ہیں،جن میں شعروادب، تنقید و تحقیق اور تخلیق و ترجمہ وغیرہ ہر نوع کی مطبوعات شامل ہیں۔ ’کتاب نما‘ کے نام سے اس ادارے سے 1960 میں ادبی پرچہ جاری ہوا جس کے اوّل مدیر ریحان احمد عباسی تھے۔ مشہور شاعر غلام ربانی تاباں کی زیر سرپرستی اس ادبی مجلے نے بال و پر نکالے۔وہی اس کے منیجنگ ایڈیٹر تھے۔ اس کے صفحہ اول کے ٹائٹل کے اوپر لکھا ہے ’’نظریاتی تنازعوں کے دور میں ایک غیر جانب دارانہ روایت کا نقیب‘‘۔ ظاہر ہے کہ نظریاتی اوراصولی اختلاف کے شور شرابے میں اپنی غیر جانبداری کومحفوظ رکھنا سہل نہیں ہے۔ ’’لیکن ’کتاب نما‘ نے اس سلسلے میں بڑی جگر کاوی کا ثبوت دیا۔کتابی سائز میں علمی و ادبی مضامین کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے عرصۂ دراز سے اردو ادب کی خدمت کرنا ہی اس مجلے کا شیوہ رہا ہے۔ابتدا میں یہ رسالہ نئی مطبوعات سے روشناس کرانے کا مقصد لیے ہوئے تھا۔ بعد میںیہ پرچہ کتابوں کی دنیا میں قطب نما بن کر سامنے آیا تھا۔اس کی بساط برسوں محض کتابوں پر تبصرے تک محدود رہی یا پھرمکتبہ یا دیگراداروں کی جانب سے شائع ہونے والی کتابوں کے بارے میں اطلاعات کی فراہمی تک۔ لیکن بعد میں اس نے ایک باقاعدہ ادبی ماہنامے کی صورت اختیار کر لی، اور اس میں تنقید و تحقیق اور شعروادبی تخلیقات جیسے مضامین،گفتگو، خاکے،طنزو مزاح،انشائیہ، شاعری،افسانے،خطوط،یادیں، مانگے کا اجالا اور جائزے کے عنوانات کے تحت،مختلف النوع تحریریں اور تخلیقات شائع ہوتی رہی ہیں۔ اس کے قلم کاروں میں نئے ناموں کے ساتھ ساتھ کہنہ مشق شاعروں، ادیبوں اور نقادوں کے نام بھی شامل رہے ہیں۔ ’کتاب نما‘ میں شائع ہونے والے مضامین نے قارئین کے ادبی ذوق کی صرف تسکین ہی نہیں کی۔ بلکہ تحقیق کے طالب علموں کے لیے راستہ ہموار کیا اور تنقید کے شعبے میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔ تنقید نگار ادیب اور تخلیق دونوں کے قدو قامت کا جائزہ لیا۔
اس معیاری مجلے کو عظیم شاعر،ادیب اور صحافی وغیرہ کا تعاون حاصل رہا ہے۔مذکورہ بالا منیجنگ ایڈیٹر اورمدیر کے علاوہ اس کے منیجنگ مدیران میں مندرجہ ذیل حضرات شامل رہے ہیں۔شاہد علی خاں،حامد علی خاں اور مدیران میں ولی شاہجہان پوری،شاہد علی خاں،ظفر ہمایوں، خالد محمود اور عمران احمد عندلیب وغیرہ۔ ’کتاب نما‘ میں ایک اور خوشگوار تبدیلی اس وقت آئی جب 1987 سے اس میں ’مہمان اداریے‘ کاسلسلہ شروع کیا گیا۔اس سلسلے کے تحت بعض نامورادیبوں کو مہمان مدیرکا اعزاز دیا گیا۔ رسالے کو ترتیب دینے کے علاوہ اداریہ کے طور پر ابتدائی مضمون بھی مہمان مدیر ہی تحریر کرتا تھا۔پہلے پہل اداریہ کو ’اشاریہ‘ کے عنوان سے تحریرکیا جاتا تھا۔لیکن اب اداریہ ہی لکھا جاتا ہے۔ چند مہمان مدیران کے نام یوں ہیں: آلِ احمد سرور، علی سردار جعفری، حامدی کاشمیری، رفعت سروش، آفاق حسین صدیقی، عبدالقوی دسنوی، خلیق انجم، ظہیر احمد صدیقی، وارث علوی، عبدالمغنی، صغریٰ مہدی، شمیم حنفی، ابولکلام قاسمی وغیرہ۔مہمان مدیران کی تصویریں بھی متعلقہ پرچوں کے سرورق کی زینت بنیں۔

’کتاب نما‘ رسالہ آجکل، نقوش،نگار،سب رس، علی گڑھ میگزین،ایوانِ اردو،شیرازہ وغیرہ کی راہ پر چلتے ہوئے خصوصی شماروں میں ان سے بھی آگے نکل گیا ہے۔ ’کتاب نما‘ کے خصوصی شمارے دیگر رسالوں کی بہ نسبت اس لحاظ سے قدرے اہمیت رکھتے ہیں کہ ان کو صرف رسالے تک محدود نہیں رکھا گیا بلکہ مکتبہ جامعہ لمٹیڈ نے انھیں الگ سے کتابی شکل میں بھی شائع کر دیا ہے۔ اس کے برعکس اگر قاری باقی رسالوں کے کسی مخصوص شمارے کو حاصل کرنا چاہے تو اسے بہت سی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے کیونکہ اوّل تو کسی بھی رسالے کی پوری فائلیں ایک جگہ مل پانا بہت زیادہ مشکل ہوتاہے۔ دوّم یہ کہ اگرشمارہ مل بھی جاتا ہے تو نہایت ہی بوسیدہ حالت میں۔ جس کی فوٹو کاپی کرنا تک محال ہوتا ہے۔اس لحاظ سے ’کتاب نما‘ کو بہت بڑی وقعت اور اہمیت حاصل ہے۔
’کتاب نما‘ میں اب تک پچاس سے زائد خصوصی شمارے شائع کیے گئے ہیں۔ ماہنامہ آجکل کے بعد ’کتاب نما‘ کو ہندوستان میں دیگر رسالوں کے اعداد و شمار کے مطابق سب سے زیادہ خصوصی شمارے شائع کر نے کااعزاز حاصل ہے۔اس میں شائع شدہ خصوصی شماروں میں چند کے نام اس طرح ہیں۔نئی نظم نمبر،یادگارجوش ملسیانی نمبر، سلامت علی دبیر نمبر، محمد خان شہاب مالیر کوٹلوی نمبر، عرش ملسیانی نمبر، پریم چند نمبر، سید عابد حسین نمبر، لغت نویسی کے مسائل نمبر، محمود احمد ہنر نمبر، اجمل اجملی نمبر، آل احمد سرور نمبر، خلیق انجم نمبر، فرمان فتح پوری نمبر، اختر سید خاں نمبر، نثار احمد فاروقی نمبر، عابد علی خاں نمبر، خواجہ احمد فاروقی نمبر، اردو افسانہ ممبئی میں 1970 کے بعد، مغیث الدین فریدی نمبر، صالحہ عابد حسین نمبر، محبوب حسین جگر نمبر، علی سردار جعفری نمبر، حامدی کاشمیری نمبر، جمنا داس اختر نمبر، ابوسلمان شاہجہانپوری نمبر، رشید حسن خان نمبر، حنیف ترین نمبر، خواجہ حسن نظامی نمبر، قرۃ العین حیدر نمبر، شاد عظیم آبادی نمبر، صوفیا کا بھگتی راگ نمبر، شمس الرحمن فاروقی نمبر، ابوالکلام قاسمی نمبر،مشفق خواجہ نمبر، عبدالستار دلوی نمبر، مجتبیٰ حسین نمبر، غلام ربانی تاباں نمبر، جگن ناتھ آزاد نمبر،عبدالطیف اعظمی نمبر، عبدالوحید صدیقی نمبر، شاد عارفی نمبر وغیرہ۔
فروری1993 میں ’کتاب نما‘ میں ’خواجہ احمد فاروقی نمبر‘ کی اشاعت عمل میں لائی گئی۔خواجہ صاحب بھی بقیدِ حیات تھے، جب اس خصوصی نمبر کا ہتمام کیا گیا۔اس نمبر کو بعد میں قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے اشتراک سے بھی 2011 میں نہایت ہی اہتمام کے ساتھ دوبارہ شائع کیا گیا۔ اس خصوصی شمارے کے مرتبہ ڈاکٹر خلیق انجم تھے جب کہ مکتبہ جامعہ کے اس وقت کے منیجنگ ڈائریکٹر خالد محمود تھے۔اس خصوصی نمبر میں خواجہ احمد فاروقی کی شخصیت اور فکرو فن پراردو زبان کی ممتاز اورمعروف ترین شخصیات نے جو کہ ان کے معاصرین بھی رہے ہیں، بسیط اور بلیغ مضامین رقم کر کے خواجہ صاحب کو گلہائے عقیدت پیش کیا ہے۔خواجہ احمد فاروقی اعلیٰ پایہ کے محقق، نقاد، خاکہ نگار،صفِ اول کے انشا پردازاور مکتوب نگارتھے۔ میر’میرتقی میر:حیات اور شاعری‘ پراردو میں باقاعدہ پہلا تحقیقی مقالہ انہی کا لکھا ہوا ہے، جس کے بعد سے میر شناسی کی روایت نے طول پکڑا۔ غالب کی فارسی کتاب ’دستنبو‘ کی پیچیدہ نثر کا انگریزی میں فاروقی صاحب نے ہی بہت شاندار ترجمہ کیا۔ وہ اعلا درجے کے منتظم اور اردو تحریک کے علمبردار تھے۔پروفیسر امیر عارفی سابق صدر،شعبۂ اردو،دہلی یونی ورسٹی اردو کی بقاکے تئیں ان کی کاوشات کو ان الفاظ میں سراہتے ہیں:
’’جب اردو کے خلاف تیز تند آندھیاں چل رہی تھیں اور اردو کے چاروں طرف اندھیرا ہی اندھیرا تھاتو فاروقی صاحب نے دہلی یونی ورسٹی میں اردو کی بقا کے لیے ایک ننھا سا دیا روشن کیا،جس نے ان کے خلوص،لگن اور غیر معمولی جدوجہد سے بہت جلد مہر نیم روز کی شکل اختیار کر لی۔‘‘ 
(بیسویں صدی کی ممتاز شخصیت:خواجہ احمد فاروقی، مرتبہ از خلیق انجم،انجمن ترقی اردو ہند،نئی دہلی،2000،ص9)
ایک وقت تھا جب پوری اُردو دنیا میں دو تین ہی نام گونجتے تھے۔ان میں پروفیسر خواجہ احمد فاروقی کا نام بھی شامل تھا اور دانش گاہوں کی دنیا میں تو یہ نام سرفہرست تھا۔ دہلی یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے لیے ان کی خدمات اور کاوشات کو کبھی بھلایا نہیں جا سکتا۔پہلے اس یونیورسٹی میں اردو،فارسی اور عربی کا مشترکہ ڈیپارٹمنٹ تھا،بعد میں اُردو کو الگ ڈیپارٹمنٹ کی حیثیت دلانے میں ان کا ہی پورا کردار رہا ہے۔پیلیو گرافی (مخطوطہ شناسی)کا ایک سالہ کورس انھوں نے ہی شروع کیا تھا اور آج بھی ہندو پاک میں صرف اسی شعبے کو یہ فخر حاصل ہے۔ متنی تنقید پر پہلی باضابطہ، باقاعدہ اور معتبرکتاب لکھنے کی تحریک خلیق انجم میں خواجہ صاحب نے ہی پیدا کی تھی۔ اس کے علاوہ تحقیقی، طباعت اور ترجمے کے کاموں کی ابتدا، رسالہ اردوئے معلی کا اجرا،عظیم الشان سمیناروں، کانفرنسوں، پُروقار تقریبوں کا انعقاد ان کی زیر سرپرستی عروج پر تھا۔ دہلی یونی ورسٹی کا شعبۂ اردو واحد شعبہ ہے جس کے سمیناروں میں اس وقت کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو اور ڈاکٹر ذاکر حسین نے شرکت کی۔ ’خواجہ احمدفاروقی نمبر‘ مرتبہ ازڈاکٹر خلیق انجم ’کتاب نما ‘ کے اداریہ میں ایسی بہت سی باتوں کا نہایت ہی عمیق انداز میں تذکرہ کرتے ہیں۔
پروفیسر ارتضیٰ کریم خواجہ احمد فاروقی پر اپنے ایک مضمون ’اردو کے خواجہ :خواجہ احمد فاروقی‘ میں ان کی شخصیت کے متعلق یوں تحریر کرتے ہیں:
’’خواجہ کے لفظی معنی خداو ند، صاحب،مالک، آقا، سردار کے ہوتے ہیں۔غور کیجیے تو خواجہ احمد فاروقی کی ’خواجگی‘ ان کی حیات میں اور مرنے کے بعد بھی باقی ہے۔ لیکن ان کو یہ مقام یا مرتبہ اس لیے نہیں ملا کہ وہ کسی متمول خاندان میں پیدا ہوئے تھے یا پوتڑوں کے رئیس تھے بلکہ انھوں نے اپنی قوم، زبان اور ادب کے لیے ایسے پائیدار اور مستحکم کام کیے جنھیں’صدقہ جاریہ‘ کی حیثیت حاصل ہے جن سے تادور آفتاب ان کا زندہ رہے گا۔‘‘
اسی مضمون میں پروفیسر ارتضیٰ کریم ایک اور جگہ تحریر فرماتے ہیں:
’’خواجہ احمد فاروقی عملی انسان بھی تھے اور علمی وقار کے حامل بھی۔یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اگر ایک طرف اردو زبان و ادب کی ترقی و ترویج کے لیے ٹھوس کام بھی کیے تو دوسری جانب کئی یادگار تصنیفات اور تالیفات، مضامین اور دیگر تحریریں بھی دیں۔‘‘
اس خصوصی نمبر میں کل پندرہ مشاہیرِ ادب کے مضامین شامل ہیں۔اداریہ کے بعد خواجہ صاحب کے سوانحی کوائف کا اندراج کیا گیا ہے۔جس میں ان کی پیدائش، تعلیم (اردو، انگریزی، عربی، فارسی میں ایم۔اے، بعد میں اردو میں پی ایچ ڈی)، درجنوں تصنیفات، تالیفات جیسے مرزا شوق لکھنوی، کلاسیکی ادب، مکتوبات اردو کا ادبی و تاریخی ارتقا،ذوق و جستجو، نئی شاعری، چراغِ راہ گذر وغیرہ۔مخطوطات کی ترتیب و تدوین میں تذکرۂ سرور یا عمدۂ منتخبہ، کربل کتھا:فضلی کی قدیم نثر، گنج خوبی، دیوان بقا، دیوان میر وغیرہ۔ کتابوں کے لیے خاص ابواب، انعام و اکرام، درجنوں بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت، خصوصی اور توسیعی خطبات، درجنوں علمی و ادبی انجمنوں سے تعلق،علمی اسفار،تحقیقی اور تنقیدی مقالے جو ان کے متعلق لکھے گئے وغیرہ کا اس میں مفصل ذکر کیا گیا ہے۔ اردو کے پہلے پروفیسر ایمی ری ٹس ہونے کا فخریہ اعزاز بھی انھیں حاصل ہے۔موصوف اپنی زندگی میں کئی معزز عہدوں پر فائز رہے۔ہندوستانی ادب کے مہمان پروفیسر کی حیثیت سے انھوں نے کئی بیرونی ممالک ماسکو، تاشقند،فرانس،مغربی جرمنی وغیرہ کا سفر کیا۔
’خواجہ احمد فاروقی نمبر‘ کا پہلا مضمون پروفیسر خلیق احمد نظامی کا بعنوان ’خواجہ احمد فاروقی‘ہے۔ خواجہ صاحب ان کے معاصرین میں بھی شامل تھے اور ان سے بہت قربت بھی رکھتے تھے۔خلیق احمد نظامی صاحب نے ان کے بچپن، دورانِ طالب علمی کے زمانہ کا ذکر، ان کی تعلیمی قابلیت، ذہنی اور علمی ذکاوت، تحقیقی اور تنقیدی صلاحیت، خیالات اور فکرو احساسات وغیرہ سے خوش اسلوبی سے روشناس کرایاہے۔خلیق احمد نظامی لکھتے ہیں:
’’خواجہ صاحب ماضی کے سرمایے کے قدردان اور حال کے صحت مند رجحانات کے ہمدرد ہیں۔ان کی آنکھوں میں حال کا عزم اور مستقبل کا نور ہے۔جو لوگ ماضی سے خفا اور حال سے بیزار ہیں۔ ان کے لیے خواجہ صاحب کی تنقید صبح عید کی نوید ہے۔‘‘
(خواجہ احمد فاروقی نمبر،کتاب نما، فروری 1993،ص16)
پروفیسرخلیق صاحب کا مضمون مختصر لیکن بے حدمفید، کارآمداور جامع ہے، جس میں انھوں نے خواجہ صاحب کے تعمیری کاموں کا سرسری جائزہ لیا ہے۔ دوسرا مضمون ’شائستگی کے ڈھانچے میں ڈھلا انسان‘ سید حامد کا تحریر کردہ ہے۔اس میں بھی خواجہ صاحب کی بحیثیت ایک منتظم، ایک ادیب اورایک استاد کے ان کی خدمات اور کاوشات کا ذکر ملتا ہے۔پروفیسر محمد حسن کا مضمون’اردو خواجہ‘ معنی آفرین مضمون ہے۔جس سے خواجہ صاحب سے متعلق بہت سی نجی باتوں کا علم ہوتا ہے۔انھوں نے خواجہ صاحب سے دوسروں دوستوں کے توسط سے ملاقاتیں اور کبھی براہِ راست ہوئی ملاقاتوں کا ذکر،دلی کالج سے اپنی وابستگی، ان کے تحقیقی اور تنقیدی کارناموں کامنظرنامہ،ان کے اسلوب،ان کی برگ و بار شخصیت کا حوالہ،ان کے حیرت انگیز تجربات،ان کی وسیع النظری اور کشادہ دلی اوراردو کے فروغ کے تئیں ان کی جدوجہد وغیرہ کے متعلق اثرانگیز تحریر لکھی ہے۔ پروفیسر محمد حسن کے مضمون کا ایک اقتباس خواجہ صاحب کے آفاقی نظریہ کو سمجھنے میں ہماری بھرپور رہنمائی کرتا ہے:
’’خواجہ صاحب کے یوں تو بہت سے کارنامے ہیں لیکن سب سے بڑا اور سب سے اہم کارنامہ یہی ہے کہ انھوں نے اوّل تو 1947 کے بعد کی خون آشام دہلی میں اردو کے برگ و بار پھر سے لگا ئے اور انھیں پروان چڑھایا اور دوسرے انھوں نے اردو کو عالمی پیمانے پر دیکھے دکھانے کی کوشش کی اور اسے عالمی سیاق و سباق اور آفاقی نظر بخشی اور یہ کام جس طرح ان سے سرانجام پایا اور کسی سے نہیں ہو سکا۔‘‘
(خواجہ احمد فاروقی نمبر، کتاب نما،فروری 1993،ص27)َ
’خواجہ احمد فاروقی نمبر‘نمبر کا اگلا مضمون ’یاد نامہ: ایک مطالعہ،ایک تجزیہ‘ پرفیسر ظہیر احمد صدیقی کے نوکِ قلم کا نتیجہ ہے۔ پروفیسر ظہیر احمد صدیقی محتاج تعارف نہیں ہیں۔ خواجہ صاحب کے ساتھ دلّی کالج کے ابتدائی اساتذہ میں ان کا نام سرفہرست ہے اوران کے پہلو بہ پہلوشعبے کے کاموں میں مصروفیت اور مشغولیت کاشرف بھی انہیں حاصل ہے۔ اپنے معاصرین میں خواجہ صاحب کی اس قدر قربت شاید ہی کسی دوسرے استاد سے رہی ہو، جتنی کہ ظہیر صاحب کے ساتھ تھی،موصوف انھیں بہت عزیز تھے۔ خواجہ صاحب مہمان پروفیسر کی حیثیت سے بیرون ملک گئے تو صدر شعبے کی باگ ڈورانہی کے ہاتھوں میں تھی۔ انھوں نے خواجہ صاحب پر ایک قابلِ تعریف خاکہ قلمبند کیا ہے جوان کی کتاب’فکری زاویے‘ میں بھی شامل ہے۔ قومی کونسل کے ماہنامہ رسالہ’اردو دنیا‘ کے دسمبر 2015 شمارے میں خواجہ صاحب کو یاد کرتے ہوئے اس خاکے کو دوبارہ شائع کیا گیا۔زیرِ نظر مضمون میں انھوں نے خواجہ صاحب کے خاکوں پر مشتمل کتاب ’یادیار مہرباں‘ کا بہترین مطالعہ اور تجزیہ کیا ہے۔اس کتاب کے دوسرے حصے بعنوان ’یاد نامہ‘ میں ستّرہ مرحومین کے خاکے لکھے گئے ہیں۔ ظہیر احمد صدیقی نے اپنے مضمون میں ابتداً صنفِ خاکہ کے اوصاف پر روشنی ڈالی ہے اور بعد میں خاکہ نگاری کے فن اوراسلوب کے ذیل میں آنے والی جابہ جا خوبیوں پر اپنی مدلل آرا سے مستفید فرمایا ہے۔ چونکہ موصوف کو خود بھی فن خاکہ نگاری پر دسترس حاصل ہے، اس لیے خاکے میں پائے جانے والی خوبیوں اور خامیوں پر ان کی بصیرت افروز نظر ہے۔ ’یاد یار مہرباں‘ میں خواجہ صاحب کی خاکہ نگاری کے حوالے سے لکھتے ہیں:
’’یاد یار مہرباں‘ میں جو گرفت کردار نگاری اور حسن بیان پر ہے وہ اس عہد میں نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہے۔ اس میں جو خاکے ہیں ان کو اگر چہ خواجہ صاحب نے قریب سے دیکھا ہے مگر ان کی بزرگی نے بے تکلفی کی بجائے عقیدت کو درمیان میں لاکھڑا کیا ہے۔مگر اس عقیدت میں غیریت اور اجنبیت نہیں بلکہ محبت اور خلوص شامل ہے۔ اس کے برخلاف’یاد نامہ‘ کے تمام کردار خواجہ صاحب کے لیے ہم نشین کی حیثیت رکھتے ہیں اور خواجہ صاحب کو ع’جمال ہم نشیں درمن اثر کرد‘ کا اعتراف بھی ہے۔مگر ان کرداروں پر وہ گرفت نظر نہیں آئی جو ’یاد یار مہرباں‘ کا طغرائے امتیاز ہے۔‘‘
(خواجہ احمد فاروقی نمبر،کتاب نما،فروری1993،ص40)
متذکرہ بالا میں پیش کیے گئے اقتباس کی روشنی میں قارئین پروفیسر ظہیر احمد صدیقی کی ناقدانہ اور فنکارانہ مہارت سے بخوبی واقف ہوگئے ہوں گے۔کہ کس طرح اور کس زاویے سے انھوں نے خواجہ صاحب کے فنِ خاکہ نگاری کی خصوصیت کو سنجیدگی سے پرکھا ہے۔ ڈاکٹر کمال احمد صدیقی کا مضمون ’خواجہ احمد فاروقی کی ادبی خدمات پر ایک نظر‘ تین صفحات پر مشتمل ہے۔جس میں مضمون نگار نے سوادوصفحات میں خواجہ صاحب کے ساتھ آزادی کے فوراً بعد اپنی پہلی ملاقات، تقسیم کے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال، دلی میں اردو پر پنجابی کے اثرات،اردو اخباروں کی صورتِ حال،ہندوستانی دستور میں اردو کا مقام،ادیبوں،صحافیوں اور سیاست دانوں کا اردو کی بحالی میں رول، مرحوم دلی کالج کا سرسری ذکر اور اس سے معروف ہستیوں کے تعلق وغیرہ کا ذکر کیا ہے۔ جبکہ آخرکی بیس سطروں میں خواجہ صاحب کی ادبی خدمات کے طور پر صرف چند کتابوں کے نام گنوائے ہیں۔یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ اس مضمون سے خواجہ صاحب کی ادبی خدمات کے ساتھ مکمل انصاف نہیں کیا جاسکا ہے۔
’’پروفیسر خواجہ احمد فاروقی: جیسا میں نے انھیں پایا‘‘ ڈاکٹر اسلم پرویز کارقم کیا ہوا مضمون ہے۔ ڈاکٹر اسلم پرویز دلّی کالج میں شعبۂ اردو کے اولین طلبا میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کا داخلہ دلّی کالج میں خواجہ احمد فاروقی کے زمانے میں ہوا تھا۔انھوں نے اپنا پی ایچ ڈی کا تحقیقی مقالہ بھی خواجہ صاحب کی نگرانی میں ہی مکمل کیاتھا۔اس تاثراتی نوعیت کے مضمون میں انھوں نے خواجہ صاحب کی شخصیت اور سیرت،لیکچرر سے ریڈربننے،ریڈر سے پروفیسر اور پھر ریٹائر منٹ تک، تقرریوں کے عمل میں ان کا کردار، محنتی اور مشفقانہ شخصیت کا اثر وغیرہ کے کئی پہلوؤں سے آشکار کیا ہے۔ ڈاکٹر خلیق انجم نے ’خواجہ احمد فاروقی صفِ اوّل کے مکتوب نگار‘ کے عنوان سے ایک بیش قیمتی مضمون تحریر فرمایا ہے۔ان کے مطابق :
’’خواجہ صاحب بنیادی طور پر محقق اور نقاد ہیں، لیکن ان میں ایک تخلیق کار چھپا ہوا ہے۔ ان کی غیر معمولی تخلیقی صلاحیت کا اندازہ لگانا ہو تو ان کے خطوط اور خاکوں کا مطالعہ کیجیے۔ خواجہ صاحب اگر انشائیہ نگار ی اور خاکہ نگاری کی طرف توجہ کرتے تو صفِ اول کے انشائیہ نگاروں اور خاکہ نگاروں میں ان کا نام ہوتا۔‘‘
(خواجہ احمد فاروقی نمبر،کتاب نما، فروری1993، ص71)
’خواجہ احمد فاروقی‘ نمبر کے دیگر مضامین بھی معلومات سے مزین ہے۔ان مضمون نگاروں میں عزیز قریشی،سید ضمیر حسن دہلوی، محمد نفیس حسن، ایم حبیب خاں شامل ہیں۔اس نمبرمیں ڈاکٹر آصفہ زمانی کی خواجہ صاحب سے گفتگو،شمیم جہاں کا مضمون ’خواجہ احمد فاروقی ادیبوں کی نظر میں‘ اور نمونے کے طور پر خواجہ احمد فاروقی کے مختلف مشاہیرِ ادب کو لکھے گئے خطوط بھی شامل کیے گئے ہیں۔


Ghulam Nabi Kumar, House No.: B-20, 3rd Floor, 
Ghafoor Nagar, Jamia Nagar, 
New Delhi - 110025
Email.: ghulamn93@gmail.com


ماہنامہ اردو دنیا ، جنوری 2017

1 تبصرہ: