20/12/18

رسالہ ’شاہراہ‘ کا ناولٹ نمبر. مضمون نگار:۔ نوشاد منظر








رسالہ ’شاہراہ‘ کا ناولٹ نمبر

نوشاد منظر



رسالہ’شاہراہ‘ میں ادب کے تمام اصناف شائع ہوا کرتے تھے،مگر اس کی انفرادیت یہ ہے کہ دوسرے رسالوں میں جہاں مضامین،شاعری اور افسانے وغیرہ ہی شائع ہوتے ہیں وہیں شاہراہ نے اپنے صفحات پر ناولوں کو بھی زینت بخشا۔رسالوں میں ناول شائع نہ کرنے کی وجہ اس کی طوالت ہے اگر کسی رسالے نے ناول کو شائع کیا بھی تو قسطوں میں اور اس کی وجہ رسالوں کی محدود ضخامت اور اس کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں۔شاہراہ اس اعتبار سے دوسرے رسالوں سے مختلف ہے کہ اس نے جہاں کچھ ناولوں کو قسطوں میں شائع کیا وہیں چند ناولوں کو مکمل شائع بھی کیا ۔شاہراہ کا ناولٹ نمبر دو جلدوں میں شائع ہوا۔حالانکہ مجھے ناولٹ نمبر حصہ ایک ہی مل سکا۔ شاہراہ کا’ناولٹ نمبر حصہ1‘ فروری 1958 میں منظر عام پر آیا۔ شاہراہ کے ناولوں کی ایک خاص بات یہ بھی رہی کہ اس نے غیر ہندوستانی زبانوں کے ناولوں کا ترجمہ شائع کیا ان ناولوں میں تورگنیف،چیخوف،ماؤتون،میکسم گورکی،نکولائی گوگل اور دستو وسکی کے علاوہ ہندوستان کی دیگر زبانوں کے ناولوں کے تراجم بھی شائع ہوئے۔جس وقت شاہراہ کی اشاعت عمل میں آئی تب تک اردو ناول نے ادب میں اپنا مقام مستحکم کرلیا تھا،کئی اچھے ناول منظر عام پر آچکے تھے۔محمد یوسف ناولٹ نمبر حصہ اول کے اداریے میں لکھتے ہیں:
’’اردو ادب میں آج نظم و افسانہ کو وہ فروغ حاصل نہیں جو ناول کو ہے۔یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے یہاں ناول پر ابھی کمسنی کا عالم ہے۔ناول نگاری ابھی گھٹنوں چل رہی ہے۔یوں تو اردو میں سماجی،سیاسی اور تاریخی ناول کثرت سے لکھے جارہے ہیں لیکن ابھی تک ایسا ناول تخلیق نہیں کیا گیا جسے ہم دوسری زبانوں کے مقابلے میں اپنی فخریہ پیش کش کہہ سکیں۔‘‘
(محمد یوسف، ادایہ، ناولٹ نمبر، حصہ اول،فروری 1958)
یوسف جامعی نے اپنے اداریے میں ناولٹ نمبر کو شائع کرنے کا جواز پیش کیا ہے۔محمد یوسف کے مذکورہ اداریے سے اختلاف ممکن ہے کیونکہ انھوں نے جس وقت یہ اداریہ تحریر کیا اس وقت تک اردو میں’امراؤ جان ادا‘ ،’گؤ دان‘ اور’ آگ کا دریا‘ وغیرہ جیسے اردو کے بڑے ناول منظر عام پر آچکے تھے۔ ان ناولوں کو ہم دنیا کے بڑے اور اہم ناولوں کے مد مقابل بھی رکھ سکتے ہیں۔ اب ایسے میں اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر محمد یوسف نے یہ کیوں کہا کہ اردو میں ایسے ناول نہیں جو دنیا کے دوسرے ناولوں سے مقابلہ کرسکیں؟ممکن ہے محمد یوسف کا اشارہ ترقی پسند ناولوں کے فقدان کی طرف ہو، کیونکہ محمد یوسف خود ترقی پسند ادب کے حامی تھے اور شاہراہ ایک ترقی پسند رسالہ۔یوسف جامعی نے گرچہ اپنے اداریے میں اس بات کی وضاحت تو نہیں کی کہ آخر اردو میں اچھے ناول کی کمی سے ان کی مراد کیا ہے ؟یا وہ ترقی پسند ناول کی کمی کی طرف اشارہ کررہے ہیں مگر اتنا ضرور ہے کہ محمد یوسف نے ہمیشہ اچھے ادب کی اشاعت پر زور دیا۔شاہراہ کے ناولٹ نمبر کو شائع کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ مدیر دوسری زبانوں کے ناولوں کو اردو میں شائع کرکے ایک مثال قائم کرنا چاہتے ہوں یا دوسری زبانوں کی سرگرمیوں سے اپنے قارئین کو واقف کرانا چاہتے ہوں۔
شاہراہ میں شائع ہونے والے بیشتر ناول دوسری زبانوں سے تراجم کیے گئے ہیں۔یہ میرے لیے انتہائی افسوس کی بات ہے کہ میری تمام کوششوں کے باوجود شاہراہ کا ناولٹ نمبر دو، دستیاب نہیں ہوسکا جس کی وجہ سے شاہراہ میں شائع ہونے والے ناولوں کی صحیح تعداد کا علم نہیں ہوسکا مگر جن شماروں تک میری رسائی ہوئی ان کی ورق گردانی کرتے ہوئے مجھے اُنیس ناولیں ملیں (شاہراہ میں یقیناًاس سے زیادہ ناول شائع ہوئے تھے)۔شاہراہ کے ناولٹ نمبر اول میں محمد یوسف نے ناولٹ نمبر دوم کے بارے میں ان لفظوں میں اظہار خیال کیا ہے:
’’دوسرا حصہ اردو میں طبع زاد ناولٹوں پر مشتمل ہوگا۔ ناولٹ نمبر کا دوسرا حصہ جولائی کے پہلے ہفتہ میں پیش کیا جائے گا۔ناولٹ نمبر کے دوسرے حصے میں کیونکہ طبع زاد ناولٹ ہوں گے اس لیے ہم اسے مواد اورطباعت کے اعتبار سے ایک بے مثال صحیفہ بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں،کم و بیش بیس ناولٹ قارئین کی نذر پیش کیے جائیں گے۔‘‘
(اداریہ، محمد یوسف،فروری 1958)
محمد یوسف کے مذکورہ بالا اداریے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ شاہراہ میں کم سے کم چالیس ناولٹ شائع ہوئے،ان ناولوں میں کچھ غیر ملکی زبانوں کے ناول کے تراجم تھے اور کچھ طبع زاد ناول۔یہاں ان ناولوں کا مطالعہ پیش کرنے کی ایک طالب علمانہ کوشش کی ہے جن تک میری رسائی ہوئی۔ظاہر ہے تمام ناولوں پر اظہار خیال کرنا ممکن نہیں لہٰذا چند ناولوں کے حوالے سے یہ جاننے کی میری ایک کوشش ہے کہ شاہراہ میں شائع ہونے والے ناولوں کے موضوعات کیا تھے؟
رسالہ شاہراہ کاناولٹ نمبر اول ان معنوں میں بھی اہم ہے کہ یہ سارے ناولٹ تراجم ہیں، ان میں سات غیر ملکی زبان کے ناولٹ کے تراجم ہیں اور آٹھ ناولٹ ہندوستانی زبان (اردو کے علاوہ)کے ناولٹ ہیں۔ چونکہ مدیر نے اس جانب اشارہ کیا تھا کہ شاہراہ کے ناولٹ نمبر کا دوسرا حصہ تخلیقی ناولوں پر مشتمل ہوگا،غالبا یہی وجہ ہے کہ اس شمارے میں اردو ناولٹ کو شامل نہیں کیا گیا ہو۔ مدیر نے ناولٹ نگار کے ساتھ مترجم کی تصویر بھی لگادی، ساتھ ہی ابتدا میں ناول نگاروں کا مختصر تعارف بھی پیش کیا ہے ، جس سے قاری اس تخلیق کار سے واقف ہونے کے ساتھ ساتھ فن کار کے نظریات سے بھی واقف ہوسکے۔ میں نے ان ناولوں کا مختصر تعارف پیش کیا ہے تاکہ شاہراہ کے ناولٹ نمبر میں شائع ہونے والے ناولٹ کے موضوعات، مصنف کا تعارف اورناول کی مختصر کہانی قاری کے سامنے آجائے۔
ناولٹ نمبر میں شامل پہلا ناولٹ دستووسکی کا ناول ’غریب لوگ‘ ہے۔دستووسکی کا تعلق روس کے اس عہد سے ہے جب وہاں جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ اور سرمایہ داری کے دور کا آغاز ہو رہا تھا۔ دستووسکی نے اس پوری تبدیلی کو اپنے آنکھوں سے دیکھا اور محسوس کیا تھا، یہی وجہ ہے کہ ان کے ناولوں میں اس دور کی ترجمانی نظر آتی ہے۔دستووسکی کے کرداروں پر گفتگو کرتے ہوئے مترجم نے لکھا ہے۔
’’دستووسکی کے ناولوں میں ہمیں دبے کچلے سرکاری ملازم، چھوٹے دوکاندار، اوباشی کی زندگی بسر کرکے تنگ دست ہوجانے والے جاگیردار، بھٹکے ہوئے نوجوان، امراض سے جھلائے ہوئے انسان اپنے دلوں میں جرائم، نفرت اور غلاظتوں کی پرورش کرتے ہوئے افراد ملتے ہیں۔
دستووسکی کے ناولوں کے ہیرو فرار کے قائل ہیں۔ وہ اپنے سینے پر زخم کھا سکتے ہیں مگر احتجاج نہیں کرسکتے۔ وہ اپنی زندگی کو بدلنے کے لیے انقلابی راستہ اختیار نہیں کرتے۔‘‘
مترجم کے مذکورہ خیالات کا اطلاق دستووسکی کے بیشتر ناولوں پر کیا جاسکتا ہے۔دراصل دستووسکی کے متعلق ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس نے اپنے عہد کی سچائیوں اور انسانی مصائب کو کھلی آنکھوں سے دیکھا اور اس کو اپنی تخلیقات میں پیش کیا ہے۔
ناولٹ ’ غریب لوگ‘ ایک ایسا ناول ہے جسے خط کے اسلوب میں لکھا گیا ہے۔ پورے ناول میں ایک شخص اپنے جذبات و احساسات کو پیش کرنے کے لیے خطوط کا سہارا لیتا ہے۔ اس ناول کے تین کردار ہیں، ’ماکارو میوشکن‘، ’واروارا‘ اور ’تھریسا‘۔ حالانکہ پورا ناول ’ماکارو میوکشن‘ کے ارد گرد ہی گھومتا نظر آتا ہے۔ناولٹ کا آغاز ان خطوط سے ہوتا ہے جو ماکارومیوکشن اور واروارا نے ایک دوسرے کو لکھے تھے۔ ان خطوط میں ان دونوں کے جذبات و احساسات کی ترجمانی ملتی ہے اور ساتھ ہی اسے ناولٹ کا ابتدائیہ بھی کہا جاسکتا ہے۔ماکارومیوکشن اور واروارا دونوں دوست ہیں اور ایک دوسرے کے ماضی اور حال سے واقف ہونا چاہتے ہیں۔ واروارا کا ماضی ہی اس ناولٹ کا مرکزی واقعہ ہے۔ناولٹ ’غریب لوگ‘ میں ماکارومیوکشن اور واروارا کی محبت اور ان کے ماضی و حال کی کشمکش کو پیش کیا گیا ہے۔اس ناول کے کرداربدلتے ہوئے وقت کے ساتھ انسانی رشتے میں آرہی تبدیلی اور گراوٹ ، انسان کی بیماری ، ذہنی اور جسمانی الجھنوں کے ساتھ ساتھ سسک سسک کر زندگی جینے پر مجبور ہونے والے انسانوں کی ترجمانی پیش کرتے ہیں۔دستووسکی کے ناولوں کے بارے میں مترجم نے لکھا ہے کہ چونکہ وہ خود بیماری کا شکار تھا، شاید یہی وجہ تھی کہ ان کے ناولوں میں بھی مختلف بیماریاں اور اس کی غلاظتوں کا ذکر دیکھنے کو ملتا ہے۔مترجم نے لکھا ہے:
’’دستووسکی کا مشاہدہ بہت تیز تھا۔ اس کی نگاہ ہمیشہ انسان کی فطری غلاظتوں کو چنتی رہتی تھی۔ وہ ہمیشہ گھناؤنے اور نفرت انگیز واقعات کی ٹوہ میں رہتا تھا۔ دستووسکی کے ناول پڑھنے سے ہمیں زندگی کے علم پر عبور حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے۔ زندگی کے ہزاروں ڈھکے چھپے پہلو ہم پر بے نقاب ہوتے ہیں اور ہم سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ صدیوں کی لوٹ کھسوٹ اور بربریت نے انسان کے باطن میں کتنی تلخیاں، کتنی غلاظتیں اور کتنی ذلتیں سمو دی ہیں۔‘‘
دستووسکی کے ناولوں کو پڑھتے ہوئے ہمیں اس جانب بھی اشارے ملتے ہیں کہ کس طرح جاگیر داروں اور سرمایہ داروں نے انسانوں کے جذبات و احساسات کے ساتھ ساتھ ان کی خوشیوں کو بھی کچل دیا ہے۔ناولٹ ’غریب آدمی‘ کی کہانی دراصل محبت اور اس سے متعلق جذبات و احساسات کو پیش کرتی ہے مگر اس کے پس پردہ ان حقائق کو بھی پیش کرتی ہے جس سے اس وقت کی انسانی زندگی کراہ رہی تھی۔
ناولٹ نمبر میں میکسم گورکی کا ناولٹ ’اے غم دوراں‘ بھی شامل ہے۔ اس ناول کا اردو ترجمہ خلیل احمد نے کیا تھا۔ میکسم گورکی کا تعلق روس کے ان ادیبوں میں ہوتا ہے جس نے اپنی تخلیقات سے حقیقت پسندی بلکہ کمیونسٹ فکر کو فروغ دیا، ان کے بارے میں یہاں تک کہا جاتا ہے کہ میکسم گورکی نے روسی عوام کے انقلابی شعور کو اور بھی پختہ کیا ہے۔میکسم گورکی کے تعارف میں مترجم نے لکھا ہے۔
’’حقیقت پسندی کی حامل تمام ادبی تخلیقات کی بنیاد زندگی پر ہوتی ہے۔ اس اعتبار سے گورکی نہ صرف بڑا حقیقت پسند تھا بلکہ زندگی کا عظیم معلم بھی تھا۔ انشا پردازی ایک بہت پیچیدہ عمل ہے۔ اس کے لیے ایک ادیب کو اپنے تجربوں، اپنی معلومات، اپنے مشاہدوں ، اخلاقی قدروں، اپنے جمالیاتی ذوق اور زبان و اظہار پر اپنے عبور کی مدد سے حقیقت کی ایک جھالر بننا پڑتی ہے۔ میکسم گورکی نے اپنی تمام تخلیقات میں حقائق کو کچھ ایسے ہی رنگ میں پیش کیا ہے۔‘‘ 
(شاہراہ ناولٹ نمبر حصہ اول ، ص 79)
میکسم گورکی کے یہاں مایوسی نہیں، وہ اپنی کہانیوں سے زندگی اور اس کے نشیب و فراز پر کامیابی اور نصرت پانے کا خواہش مند ہے۔خود گورکی کی پوری زندگی دشواریوں میں گزری تھی، مگر اس نے اس پر ہار نہیں مانی۔ گورکی نے اپنے ناولوں سے روسی عوام کے اندر انقلابی شعور پیدا کرنے کی پوری کوشش کی۔ ان کے ناولٹ کو پڑھتے ہوئے قاری بقول مترجم’’زندگی کی نیرنگیوں پر حیران بھی ہوتا ہے اور زندگی سے محبت بھی کرنے لگتا ہے‘‘۔میکسم گورکی کا یہ ناولٹ’اے غم دوراں‘ میں ان کا فن اپنے عروج پر نظر آتا ہے۔ انھوں نے اپنے ناولوں کے ذریعے فسطائی طاقتوں ، بورژواری نظام، سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ نظام کی زیادتی اور اس کے استحصال کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی، وہ ان طاقتوں سے دبنے کے بجائے ان سے نبرد آزما ہونے کی ترغیب دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انقلابی ذہنیت رکھنے والے تخلیق کاروں نے میکسم گورکی کے اسلوب کی نہ صرف پیروی کی بلکہ ان کی تخلیقات کو مشعل راہ بھی بنایا۔
تورگنیف نے اپنے ناولوں میں روس کی عورتوں کے مسائل کو مرکزیت کے ساتھ پیش کیا ہے۔تورگنیف نے اپنے ناولوں میں وہاں کی عورتوں کے جذبات و احساسات کو بہت خوبصورت پیرائے میں پیش کیا ہے۔ رسالہ شاہراہ میں تورگنیف کے کئی ناولٹ شائع ہوئے۔ شاہراہ کے ناولٹ نمبر میں تورگنیف کا ایک ناولٹ یوسف جامعی نے’پھرتے ہیں میر خوار‘ کے نام سے ترجمہ کیا تھا۔
تورگنیف کی پیدائش جس گھرانے میں ہوئی وہ کئی معنوں میں اچھا اور تعلیم یافتہ تسلیم کیا جاتا تھا اور تورگنیف کی شخصیت پر بھی اس ماحول کا اثر خوب ہوا۔ تورگنیف ایک سماجی شخص تھا اس کی تحریروں سے اس زمانے کی سیاسی،سماجی اور معاشی صورت حال کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ تورگنیف نے اپنے ناول میں حقیقت نگاری پر زور دیا ہے۔ان کا کمال یہ ہے کہ وہ زندگی کے مسائل کو فوراََ سمجھ لیتا تھا، ان کے نزدیک قومیت کے بغیر کوئی بھی فن پارہ اگر تخلیق کیا جائے تو اس کی مثال بے روح انسان کی سی ہوتی ہے۔
نکولائی گوگل کا ناول ’نفیسکی پراسپکیٹ‘ کا اردو ترجمہ ’دیار جاناں‘ کے عنوان سے دلیپ سنگھ نے کیا تھا، جو رسالہ شاہراہ کے ناولٹ نمبر میں شامل ہے۔۔ نکولائی گوگل کا بچپن وسطی یوکرین میں گزرا۔نکولائی کے والد ایک اچھے اداکار ہونے کے ساتھ ساتھ، انھوں نے کچھ عربیہ ناٹک لکھے تھے، نکولائی نے بھی اپنے والد کے اثرات قبول کیے۔ مگر اسے کامیابی نہیں ملی،اس نے کئی پیشہ کو اختیار کرنا چاہا مگر ہر جگہ نا کامی کے سبب وہ دل برداشتہ ہوگیا، آخر میں انھوں نے ادب کی طرف توجہ کی اور ناول نگاری کو اپنے اظہار کے وسیلے کے طور پر استعمال کیا۔ نکولائی گوگل نے طنز و مزاح نگار کے طور پر بھی اپنی ایک شناخت قائم کی۔ جہاں تک ان کے مذکورہ ناولٹ ’دیار جاناں‘ کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں مترجم نے لکھا ہے کہ وہ انسانوں میں مضحکہ خیز باتوں کا خاص طور پر مشاہدہ کرتا، اس نے ان لوگوں کو اپنے طنز کا نشانہ بنایا ہے جس نے اس کو تکلیف پہنچائی تھی۔ مترجم کا خیال ہے گوگل کا مضحکہ خیز کردار اور عجیب و غریب واقعات ایجاد کرنے میں کوئی ثانی نہیں ہے۔ناولٹ ’دیار جاناں ‘ کے متعلق مترجم کا خیال ہے۔
’’سینٹ پیٹرس برگ میں نکولائی گوگل نے ایک نہایت اندوہناک زندگی بسر کی تھی۔ اس نے اپنے اس ناولٹ ’نفیسکی پراسپکیٹ‘ میں سینٹ پیٹرس سے انتقام لیا ہے۔ جن لوگوں نے اسے رنج پہنچایا تھا، اس نے اس ناولٹ میں ان کا مضحکہ اڑایا ہے۔ مگر اتنا خوش اسلوبی کے ساتھ کہ اس نے حقیقت کو کہیں مسخ نہیں ہونے دیا۔ ‘‘
نکولائی گوگل کی یہی خوبی ہے کہ وہ سچائی اور حقیقت کو طنزیہ اور مزاحیہ انداز میں پیش تو کرتا ہے مگر فنی اصولوں کی پابندی کچھ اس طرح کرتا ہے کہ نہ فن مجروح ہو اور نہ حقیقت بدلے۔ ’ دیار جاناں‘ اس کی بہترین مثال ہے اور بقول مترجم ’’ یہ ناولٹ اس کی جدت و اختراع کا منہ بولتا ثبوت ہے۔‘‘
شاہراہ کے ناولٹ نمبر میں ’سومرسٹ مام‘ کے ناول کا ترجمہ ’ تسخیر‘ کے عنوان سے شامل ہے۔یہ ترجمہ اے نصیر خان نے کیا ہے۔مترجم نے سومرسیٹ اور ان کے فن پر گفتگو کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’مام کا مرتبہ آج وہی ہے جو موپاساں اور دیگر انفرادیت پسند ادیبوں کا ہے۔اس کا شمار آج چوٹی کے ادیبوں میں ہے۔ اس نے ادب کے ذریعے لاکھوں روپے کمائے، وہ امیرانہ ٹھاٹھ باٹھ سے زندگی گزارتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ وہ اونچے طبقے کا نمائندہ ادیب ہے تو کسی حد تک بے جا نہ ہوگامگر اس کے لیے ہم اس کی سرزنش نہیں کرسکتے۔ وہ زندگی کے حسن اور قبح کی طرف بے نیاز رویہ رکھتا ہے۔ وہ ٹھوس حقیقتوں کو جوں کا توں اپنی کہانیوں میں سمو دیتا ہے اور پھر تجزیہ و تبصرہ کا فیصلہ قاری پر چھوڑ دیتا ہے۔ وہ اپنے کرداروں سے بے رحمانہ سلوک کرتا ہے۔ ان کے آلام اور مصائب پر نہ روتا ہے اور نہ ہنستا ہے۔مام نے دنیا کو خوب چل پھر کر دیکھا ہے اور سیاحت اس کا محبوب مشغلہ ہے۔ مام ادب برائے ادب کا قائل ہے۔ مگر اس کے باوجود اس کے ادب میں زندگی کی جھلک ہے۔‘‘
سومرسیٹ مام نے تقریبا دس ناول اور کئی اچھے ڈرامے بھی لکھے۔ان کی تحریروں کی خاصیت یہ ہے کہ ان کے کرداروں میں کسی بھی قسم کی یکسانیت بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے ۔ سومرسیٹ کی کہانیوں میں جنس اور نفسیاتی کشمکش بھی دیکھنے کو ملتا ہے، جہاں تک ناولٹ ’تسخیر‘ کی بات ہے تو اس میں ناول نگار نے عورت اور مرد کے رشتے اور اس سے متعلق کئی دلچسپ پہلوؤں کو بے نقاب کیا ہے۔
اس کے علاوہ پرل ایس بک کا ناولThe God Earthکا اردو ترجمہ محمد قاسم نے ’سفر حیات‘ سے کیا جب کہ جان اسٹین بیک کے ناول کا ترجمہ عبد الطیف اعظمی نے ’یہ گلیاںیہ کوچے‘ کے نام سے کیا ہے جو شاہراہ کے ناولٹ نمبر میں شامل ہے۔
جیسا کہ میں نے مضمون کی ابتدا میں عرض کیا تھا، شاہراہ کا ناولٹ نمبر دو حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلا حصہ عالمی ادب یا عالمی ناولٹ کے انتخاب اور دوسرا حصہ اردو کے علاوہ ہندوستان کی دیگر زبانوں میں لکھے گئے ناولٹ کے تراجم پر مبنی ہے۔اس حصے میں شامل پہلا ناولٹ پریمندر متر کا ’ مچھل‘ہے۔ جسے اردو میں شیام سندر نے ’جلوس ‘کے نام سے ترجمہ کیا ہے۔
پریمندر مترا کی شناخت کئی حوالوں سے قائم ہوسکتی ہے، وہ فلمی دنیا سے وابستہ رہے، کہانیاں لکھیں، فلمیں بنائی، وہ اچھے صحافی، عمدہ شاعر اور ایک اچھے تخلیق کار تھے، انہوں نے ناول اور افسانہ دونوں ہی اصناف میں زور آزمائی کی۔ان کا شمار بنگال کے اہم ترین تخلیق کاروں میں کیا جاتا ہے۔یہ ناولٹ ان نوجوانوں کی زندگی اور ان کے کارنامے اور جذبے کی کہانی بیان کرتی ہے جس نے حصول آزادی میں اپنا سب کچھ کھو دیا ہے، مگر انہیں کسی قسم کا کوئی افسوس کوئی ملال نہیں ہے۔ناولٹ’جلوس‘ میں شیچین اور روین کا کردار کافی متحرک اور جاندار ہے۔ شیچین بنیادی طور پر آزاد خیال بلکہ عاشق مزاج اور زندہ دل اور بہادر نوجوان ہے، جو ہر بات کو ہنسی مذاق میں اُڑادینے اور زندگی کے مسائل پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے اس کو ہلکے پھلکے انداز میں لینے کا عادی ہے۔اس کا خیال ہے کہ جب زندگی ضائع ہی کرنی ہے تو کیوں نہ چالاکیوں کے ساتھ ختم کی جائے۔وہیں اس ناول کا دوسرا کردار روین ہے ،جسے ناول کا ہیرو بھی کہا جاسکتا ہے۔ روین نہایت سنجیدہ اور دنیا داری سے بے خبر ہے۔ اسے شیچین کی چالاکیاں پسند نہیں، باجود اس کے وہ اس کی دوستی اور اس کے شخصی دباو سے باہر نہیں نکل پاتا۔شیام سندر نے لکھا ہے 
’’ملک کی آزادی کی جنگ میں اپنا سب کچھ قربان کرکے شامل ہونے والے نوجوانوں کی اس جماعت کی داستان جتنی دلچسپ ہے اتنی ہی سبق آموز ۔آپ دیکھیں گے کہ انھوں نے جس میس کی داغ بیل ڈالی ہے ملک کی خدمت کو بھول کر اسی کے ہوکر رہ جاتے ہیں لیکن لاکھ کوشش کرنے پر بھی میس کو خوبی سے نہیں چلا سکتے۔‘‘
اس ناول کا ایک کردار منو کا ہے، جو ایک راہبہ ہے۔ منو دراصل ایک ایسے کردار کے روپ میں ہمارے سامنے آتی ہے جس نے ہمیشہ لوگوں کی مدد کی ہے کسی سے کبھی کچھ لیا نہیں مگر مترجم نے اسٹیشن ماسٹر کے کردار کو بڑا کردار کہا ہے جو ناول کے اختتام پر سامنے آتا ہے۔
شاہراہ میں جے نیندر کمار جو کہ ہندی کے مشہور ناول نگاروں میں شمار کیے جاتے ہیں ان کے ناولٹ کا ترجمہ ’ استعفا‘ کے نام سے شائع ہوا، یہ ترجمہ شریف احمد نے کیا تھا۔ اس ناول کو ہندی میں خاص طور پر بہت مقبولیت ملی۔ جے نیندر کمار نے اس وقت لکھنا شروع کیا جب اردو میں ترقی پسند تحریک کی ابتدا نہیں ہوئی تھی۔ 1929 میں ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ’پھانسی ‘ کے نام سے شائع ہوا تھا۔ پریم چند نے لکھا ہے کہ ’’ تم گورکی کو ڈھونڈنا چاہتے ہو ؟ہندوستان میں کوئی گورکی ہے یا ہوسکتا ہے تو وہ جے نیندر ہے ۔‘‘ جے نیندر کمار کے متعلق مترجم کا خیال ہے:
’’جے نیندر کمار ادب میں داخلیت پسندی کے زیادہ قائل ہیں۔ آپ ہند ی کے صاحب طرز انشا پرداز ہیں اور آپ ایک منفرد اسلوب کے مالک ہیں۔ آپ چونکہ ایک غیر ریاستی سماج کے حامی ہیں اس لیے آپ کی تخلیقات میںآپ کے اس نظریے کی نمایاں جھلکیاں ملتی ہیں۔‘‘
جے نیندر کمار کا سیاسی نظریہ گاندھی جی سے ملتا ہے جبکہ ادب میں وہ پریم چند سے متاثر نظر آتے ہیں۔ انھوں نے فرقہ پرستی کے خلاف بہت کچھ لکھا یہی نہیں اردو اور ہندی زبانوں کے درمیان پیدا ہورہی خلیج کے خلاف بھی انھوں نے اپنے خیالات پیش کیے۔ان کا خیال ہے کہ سیاست کو ادب کی بلندی عطا کرنی چاہیے۔ گویا ادب اور سیاست کے درمیان ایک مضبوط رشتے کے خواہاں تھے۔ حالانکہ وقت کے ساتھ ان کے خیالات و نظریات میں تبدیلی آئی اور مذکورہ ناولٹ اس کی عمدہ مثال ہے۔ بقول مترجم ’’اس ناولٹ میں خارجیت اور داخلیت کا حسین امتزاج ملتا ہے۔‘‘
پنجابی زبان کے معروف فکشن نگار لوچن بخشی کا ناولٹ’بھرے میلہ میں‘ بھی شاہراہ میں شائع ہوا۔ اس ناولٹ کا اردو ترجمہ مخمور جالندھری نے کیا ہے۔لوچن بخشی کا تعلق متوسط گھرانے سے تھا اور ان کی تخلیقات میں بھی اس کی تصویر کشی ملتی ہے۔مخمور جالندھری لکھتے ہیں:
’’لوچن بخشی کا فنی کمال یہی ہے کہ وہ زندگی کے نگار خانے میں بیشتر الٹی ہوئی تصویروں کو نہ صرف سیدھا دیکھتا ہے بلکہ انھیں سیدھا کرکے دوبارہ لٹکا دیتا ہے۔اس کے ناولٹ’بھرے میلہ میں‘بھی بعض تصویریں الٹی لٹکی ہوئی ہیں جنھیں وہ چابکدستی سے آہستہ آہستہ سیدھا کرتا چلا جاتا ہے۔ اور آپ کو آخرمیں ہر تصویرسیدھی لٹکی ہوئی نظر آتی ہے۔لوچن بخشی کی سحر نگاری کا ایک پہلو اور بھی ہے وہ ایک توانا زندگی کے کردار چنتا ہے اور ماحول میں کچھ توانائی سرایت کردیتا ہے کہ کہانی کا ماحول بھی بجائے خود ایک کردار بن جاتا ہے۔ اس کے ناولٹ میں ’بنتو‘ جس عورت کے روپ میں پیش کی گئی ہے وہ عورت میں چھپی ہوئی عظیم عورت کی ایک انمٹ اور جاوداں شبیہ ہے۔‘‘
لوچن بخشی نے اپنے مشاہدات اور تجربات سے ان موضوعات کو اپنایا جو ہماری زندگی سے تعلق رکھتی ہیں، پھر اس نے اپنے کمال فن سے اس کو ایک نئی جہت عطا کی۔ گاؤں اور شہر کی زندگی اور اس کے مسائل کا بیان لوچن بخشی کی تخلیقات میں جابجا نظر آتا ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ اس ناولٹ کو ’ بھرے میلہ میں‘ کا نام دیا گیا۔
سندھی زبان کی ادیبہ ’سندری اُتم چندانی‘ کے ناولٹ کا اردو ترجمہ’گرتی دیواریں‘ کے عنوان سے شاہراہ میں شائع ہوا۔ اس کے مترجم درباری لعل اجوانی ہیں۔وہ ترقی پسند نظریے کی حامی تھیں، یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اردو، مراٹھی اور بنگالی زبانوں میں لکھے گئے افسانوں کا سندھی ترجمہ کیا۔اس ناولٹ میں وہ ایک خاص نقطہ نظر کو پیش کرتی ہیں۔ وہ خود ایک خاتون ہیں مگر عورتوں کے تعلق سے ان کا نظریہ ہے کہ عورتوں کو عیش و عشرت کی زندگی سے زیادہ اپنے شوہر اورگھریلو زندگی پر توجہ دینی چاہیے۔ ناول گرتی دیواریں میں ان کا نظریہ واضح ہوجاتا ہے۔ اس ناول کے دو اہم کردار ہیں ’ ریکھا‘ ، اور’ چندن‘۔ دونوں کے خیالات ایک دوسرے سے بے حد مختلف اور الگ ہیں۔ریکھا زندگی کو عیش و عشرت میں گزارنا چاہتی ہے مگر چندن اس کے برعکس اپنی زندگی کو سماج اور عوام کی زندگی کو بہتر بنانے کی کوشش میں صرف کیے ہوئے ہے۔ پوری کہانی ان کے متضاد رویے کے ساتھ آگے بڑھتی ہے آخر میں ریکھا کو اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے اور وہ سمجھ جاتی ہے کہ زندگی میں خوشیوں کے لیے ضروری ہے کہ شوہر اور بیوی کے درمیان محبت اور یقین کا رشتہ قائم ہو ، یہی نہیں وہ ایک دوسرے کے جذبات و احساسات کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھیں۔
ہندی کی ادیبہ رجنی پینکرکا ناولٹ’کالی لڑکی‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ اس ناولٹ کا اردو ترجمہ پرکاش نگائچ نے کیا ہے۔رجنی پینکر نے ہندی میں وہی کام کیا جو اردو میں قرۃ العین حیدرنے کیا تھا۔ یعنی اعلی متوسط عوام کی زندگی اور ان کے مسائل کو اپنی تخلیقات میں پیش کیا ۔وہ چونکہ خود بھی اسی طبقے سے تعلق رکھتی ہیں لہٰذا ان کے بیان میں ایک قسم کی حقیقت نظر آتی ہے۔ناولٹ’کالی لڑکی‘ کی کہانی ایک ایسی غم زدہ لڑکی کی کہانی ہے جو سماج میں اپنا مقام اور اپنی حیثیت تلاش کررہی ہے۔ 
ادب کی دنیا میں کئی نام ایسے بھی ہیں جنھوں نے بہت کم لکھا باوجود اس کے ان کی حیثیت ایسی ہے کہ ان کے بغیر ادب کی تاریخ مرتب نہیں کی جاسکتی۔مراٹھی زبان کے ادیب شری پات شیودایا چوگلے کا شمار بھی انہی ادیبوں میں کیا جاسکتا ہے۔ انھوں نے محض ایک ناولٹ ’پاٹلاچی ایک‘ تصنیف کیا، مگر مراٹھی ادب میں اپنی ایک ایسی چھاپ قائم کی کہ ان کا ذکر کیے بغیر مراٹھی ادب مکمل نہیں ہوسکتا۔اس ناول کا اردو ترجمہ ’زمیندار کی بیٹی ‘ کے نام سے ’نور نبی عباس ‘ نے شائع کیا۔اس ناول میں ناول نگار نے دیہی زندگی ، وہاں کے لوگ، ان کے مسائل، ان کی زندگی کی دشواریاں ، ان کی جہالت ، ان کی سادگی، ان کے یہاں موجود سچائی اور بھولے پن کو نہایت خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔اس ناول کے دو اہم کردار دیال اور کنول ہیں۔ دیال کا تعلق اچھوت خاندان سے ہے۔ دیال اپنی محنت لگن اور سچے عزائم کی بدولت تعلیم حاصل کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ اس کو گاؤں کے اسکول میں ہیڈ ماسٹر بنادیا جاتا ہے، وہیں دوسرا کردار زمیندار کی بیٹی کنول کا ہے، جس کی پرورش تو عیش و عشرت میں ہوئی، مگرتعلیم حاصل کرنے کے بعد اس کو زندگی کی حقیقت کا علم ہوتا ہے اور وہ ان اچھوت اورغریب لوگوں سے نفرت کرنے کے بجائے ان سے محبت کرتی ہے ، ان کی اصلاح اور ان کی تعلیم پر توجہ مرکوز کرتی ہے۔مگر گاؤں میں ان لوگوں کی بھی کمی نہیں جو غریب عوام کو لوٹنے کھسوٹنے کی دن رات جتن میں لگے رہتے ہیں۔ان کی ایسی حرکتوں سے گاؤں کے لوگ بھی پریشان ہیں مگر ان کے خلاف جانے کی ان میں ہمت نہیں۔یہ ایک اچھا ناولٹ ہے، جس میں زندگی کی سچائیوں اور زندگی کے مقاصد کے ساتھ ساتھ سچے عزائم کے ساتھ محنت کرنے والوں کی کامیابی کا ذکر کیا گیا ہے۔مترجم نے ناولٹ’زمیندار کی بیٹی‘ کو مراٹھی زبان کا شاہکار ناولٹ بتایا ہے۔
شاہراہ کے ناولٹ نمبر میں ایک ایسے ناولٹ کا ترجمہ بھی شائع کیا گیا جس کے بارے میں مترجم کا خیال ہے کہ یہ ناولٹ اس وقت لکھا گیا جب اردو کیا انگریزی میں شاید ناولٹ کا کوئی تصور نہ رہا ہوگا۔تامل زبان میں لکھا گیا یہ ناولٹ’لاکھ بلائیں ایک نشیمن‘ ہے جس کا اردو ترجمہ خلیق انجم نے کیا ہے۔ناولٹ کے متعلق مترجم کا خیال ہے:
’’یہ ناولٹ ایک عظیم ترین کارنامہ ہے جس پر سترہ سو سالوں نے اپنا کوئی نقش نہیں چھوڑا۔ آج بھی اس میں تازگی ہے۔ یقین ہی نہیں آتا کہ یہ ناول اتنی مدت پہلے لکھا گیاتھا۔ ناول پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ اتنی مدت میں سماجی اور سیاسی شعور کوئی ترقی نہیں کرسکا۔‘‘
یہ ناولٹ جنوبی ہند کے بادشاہ شیرا لاون کے چھوٹے بھائی ایلنگو وادیگل نے لکھا ہے، جو حکومت کا وارث تھا، لوگ اس سے نفرت کرتے تھے۔ مگر ایلنگو وادیگل کی دلچسپی موسیقی اور شاعری میں تھی، یہی وجہ ہے کہ وہ حکومت کے بجائے اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کی خاطر جنگلوں میں چلا جاتا ہے ، جس کے متعلق مترجم کا خیال ہے کہ جنگل میں بسنے والے لوگوں کی کہانی سے متاثر ہوکر اس نے یہ ناولٹ تخلیق کیا۔ ناولٹ’لاکھ بلائیں ایک نشیمن‘ کا مطالعہ کرتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ مصنف کا نظریہ ترقی پسند تھا ، وہ انسانی نفسیات سے اچھی طرح واقف تھا۔
شاہراہ کے ناولٹ نمبر میں گجراتی زبان کے ادیب ’پنّا لال پٹیل‘ کا ناولٹ ’ کاہے کو بیاہی بدیس۔۔۔‘‘ ہے۔ اس کا اردو ترجمہ نثار احمد فاروقی نے کیا ہے۔ انہوں نے اس بات کی وضاحت کردی ہے کہ یہ ناول براہ راست گجراتی سے ترجمہ کی بجائے انھوں نے اس کے ہندی ترجمہ کو سامنے رکھا ہے۔انھوں نے اس بات کی بھی وضاحت کردی ہے کہ چونکہ ہندی کے مترجم نے مبہم زبان کا استعمال کیا تھا جس کی وجہ سے مفہوم تک رسائی میں دشواری پیدا ہورہی تھی، موصوف نے اسے آسان اردو میں ترجمہ کیا ہے۔ناولٹ ’کاہے کو بیاہی بدیس۔۔۔‘ کا پس منظر دیہات ہے۔ مصنف نے دیہات کی زندگی اور اس کے حسن بلکہ اس کی حقیقت کو بیان کیا ہے۔اس ناولٹ پر گفتگو کرتے ہوئے نثار احمد فاروقی نے لکھا ہے۔
’’۔۔۔اس میں گاؤں کی روح بول رہی ہے۔ گاؤں کی ضرورتیں، جھگڑے، قصے، ماحول ، مسائل، مصروفیات، پنچایت اور برادری کی تصویریں دیکھ کر قاری اسی ماحول میں گم ہوجاتا ہے۔ دوسری خوبی یہ ہے کہ پٹیل نے اس چھوٹے سے ناول میں قصے کی ترتیب فنکارانہ انداز سے کی ہے کہ ، اس کا قلم بہکتا بھٹکتا نہیں ، صرف ایک چھوٹے سے مسئلے کے گرد پورا ناول چکر لگا رہا ہے۔ لیکن ہر سطح پر دلچسپی میں اضافہ ہوجاتا ہے،اورآخری باب تک پہنچتے پہنچتے بھی suspense باقی رہتا ہے۔‘‘
رسالہ شاہراہ کا ناولٹ نمبر حصہ اول میں شامل ناولٹ پر یہ کوئی تنقیدی تحریر نہیں ہے۔ میں نے اس شمارے میں شائع ہوئے ناولٹ کا مختصر تعارف پیش کیا ہے تاکہ قارئین کو اندازہ ہوسکے کہ شاہراہ کی ترجیحات کیا تھیں۔ یوں تو شاہراہ میں کئی دیگر ناولٹ بھی شائع ہوئے مگر میں نے محض ناولٹ نمبر کو اپنے مطالعہ کے لیے منتخب کیا ہے۔ شاہراہ کے ناولٹ نمبر کا جائزہ تفصیل سے لینے کی ضرورت ہے تاکہ اس میں شائع تخلیقات پر بھی گفتگو کی جاسکے۔



Naushad Manzaar
Research Scholar, Dept of Urdu
Jamia Millia Islamia
New Delhi - 110025



ماہنامہ اردو دنیا، مئی 2018

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں