19/12/18

قاضی عبدالستار: ایک منفرد فنکار. مضمون نگار:۔ محمد شارب




قاضی عبدالستار: ایک منفرد فنکار

محمد شارب
قاضی عبدالستارایک کامیاب ناول نگار تھے۔ ان کی زبان اوراسلوب تخلیقی ہے۔ اسی وجہ سے انھوں نے اپنے ناولوں میں بڑی مہارت کے ساتھ ابتدا تا انتہا باندھے رکھا ہے۔ وہ اردو کے معروف فکشن نگار اور پدم شری اعزاز یافتہ تھے جن کا گزر جانا اردو فکشن کاایک بڑا سانحہ ہے۔ فکشن کی ایسی قدآور شخصیت خال خال ملتی ہیں۔ وہ عہد حاضر کے ممتاز ، معتبر اور معمار فکشن ہونے کے ساتھ ساتھ ایسی تخلیقی قوت کے مالک تھے جن کی عظمت کا اعتراف ان کے معاصرین کرتے ہیں۔ 8فروری 1933 میں سیتا پورضلعے کے مچھریٹاگاؤں، اترپردیش میں پیدا ہوئے۔وہ لمبے عرصے سے بیمار چل رہے تھے اور علاج کے دوران ہی 28اکتوبر2018 کی رات کو سر گنگا رام ہاسپٹل، دہلی میں اپنے چاہنے والوں کو داغ مفارقت دے گئے لیکن ان کی ادبی خدمات انھیں تاحشر زندہ رکھے گی جسے فکشن کا قاری کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے منٹوسرکل قبرستان میں انھیں سپرد خاک کیا گیا۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ، شعبۂ اردو کے پروفیسر اور صدر شعبہ بھی رہے ۔ملازمت کے فرائض سے باعزت سبکدوش ہونے کے بعد بھی ادبی مصروفیات سے وابستگی رہی اور اپنے قلم کالوہا منوایا۔ 
قاضی صاحب نے جہاں کثرت سے ناول رقم کیے وہیں افسانے بھی لکھے۔ان کے افسانوں کا مجموعہ’پیتل کا گھنٹہ‘ ہے جس میں شامل افسانوں کو پڑھ کر ان کی افسانوی صلاحیت کا اندازہ بخوبی لگا یاجا سکتا ہے۔ ان کا پہلا ناول’شکست کی آواز ‘ہے جسے انھوں نے 1953 میں لکھا اور ادارۂ فروغ اردو، لکھنؤسے جنوری1954 میں شائع کیا۔ بعد میں یہ ناول ’دودِچراغ‘ کے نام سے بھی شائع ہوا۔ ہندی والوں نے ا سے ’پہلااور آخری خط‘کے نام سے شائع کروایا۔ قاضی صاحب کا دوسرا ناول ’شب گزیدہ‘ہے جو 1959 میں رسالہ’نقوش‘ میں شائع ہوا۔ اس کے بعد ان کے کئی ناول بادل، داراشکوہ (1976)، صلاح الدین ایوبی(1968) ،مجوّبھیا(1974)، غبار شب (1974)، غالب(1968)، خالد بن ولید(1995)، وغیرہ تواتر کے ساتھ منظر عام پرآئے اور انھیں فکشن کی دنیا میں حیات جاویدانی عطا کی۔ان کے اسلوب بیان نے ایک ادبی مزاج کی تعمیر وتشکیل میں نمایاں رول اداکیا ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ ان کے ناول ’حضرت جاں‘اور ’تاجم سلطان‘ نے ان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کی رفتارکو متاثر بھی کیابلکہ یوں کہا جائے کہ قاضی صاحب کے کیرئیرمیں عارضی ٹھہراؤ پیدا کیا تو غلط نہ ہوگا۔بقول خالد اشرف:
’’قاضی عبدالستار کے ناول عام طور پر دو موضوعات کا احاطہ کرتے ہیں151 اول تقسیم وطن کے نتیجہ کے طور پر یوپی کے مسلم جاگیرداروں کا زوال اور دوم مسلم فاتحین ومفکر کی تاریخ۔ اسی لیے ان کے کچھ ناول بنیادی طور پر تاریخی ناولوں کے زمرے میں آتے ہیں۔ ’آنگن‘ کی طرح قاضی عبدالستار کے یہاں بھی کہیں سیاست گھروں میں باپ بیٹوں اور بھائیوں کے درمیان دیواریں کھڑی کرتی نظر آتی ہے تو کہیں یہ نوجوان رئیس زادوں کو سب کچھ تیاگ کر گاندھی جی کے بتائے ہوئے راستے پر چل کر جدوجہد کی تلقین کرتے ہیں۔‘‘1
قاضی صاحب کا پسندیدہ موضوع اودھ کے جاگیردارانہ نظام کا زوال ہے جسے انہوں نے اپنے کئی ناولوں میں برتا ہے۔ ان کو مکمل طور پر تاریخی ناول نگار کی حیثیت سے دیکھنا میری سمجھ سے زیادتی ہوگی کیونکہ ان کے ناولوں میں تہذیبی رجحان، سماجی کیفیت، جاگیردارانہ نظام کا زوال، حالات حاضرہ کی ترجمانی گو کہ متنوع موضوعات ان کے فکشن کے ترکش میں موجود ہیں جس کے جوازمیں شکست کی آواز، شب گزیدہ، مجوّبھیا اور ’بادل‘ کو پیش کیا جا سکتا ہے۔ ناول ’شکست کی آواز‘ میں زمینداری کے خاتمے اور اس سے پیدا ہونے والے حالات کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ اس میں دکھایا گیا ہے کہ لال پور کے جاگیردار چودھری نعمت رسول کی تمام جاگیریں ختم ہوجانے کے بعد بھی وہ سابقہ آن بان اور شان و شوکت کو قائم رکھنے کا جھوٹابھرم رکھتے ہیں اور اس کو برقراررکھنے کے لیے ناجائز دولت کی حصولیابی میں منہمک ہو جاتے ہیں۔ یہ ناول اودھ کے جاگیرداروں کی کسمپرسی اور ان کے افلاس کا اظہار ہے۔ذرا دیکھیں یہ اقتباس:
’’اپنی بے کاری کا اسے بڑا غم ہے۔ مگر کیا کرے۔ نوکریاں تو موئی جیسے عنقا ہو گئیں151 اس ہندوحکومت میں کون پوچھتا ہے ہم لوگوں کو ۔ ورنہ اب تک توڈپٹی ہوگیا ہو تا میرا لال ۔ انگریزوں کے وقت معلوم نہیں تمھاری اس گڑھی میں کتنے آئے اور تحصیل دار اور ڈپٹی ہوگئے۔‘‘2
جاگیرداری ہاتھ سے نکل جانے کے بعد تعلیم یافتہ خاندانوں کے نوجوانوں نے ہندوستان ہی میں رہ کر سرکاری ملازمتیں حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن فرقہ واریت اور تنگ نظری کے اس دورمیں مسلمان امیدواروں پر ملازمتوں کے دروازے بندکردیے گئے۔اس ناول میں جاوید، اجے اورسلمیٰ کے عشق کو بھی دکھایاگیا ہے جو اقتصادی کمزوریوں کی بنا پر ناکام رہتے ہیں ۔ اس میں ایک اور جاندار کردارکنور وکرم راج سنگھ ہے جسے مصنف نے بھائی چارے کے نمائندے کے طور پر پیش کرتے ہوئے اپنے مسلم دوست کا انتقام ایک ہندو زمیندار کو قتل کر کے لیتا ہے۔ قاضی صاحب کا دوسرا ناول ’شب گزیدہ‘ کا موضوع بھی تقسیم ہند سے قبل کے اودھ کے جاگیردارانہ ماحول کی سسکتی زندگی اور اس کے خاتمے کا آئینہ دارہے جس کا ہیروجمیّ اپنے باپ کی ریاست کے نظم ونسق میں کمی لانا چاہتا ہے لیکن اس کا باپ اپنی نپی تلی زندگی اور کسی بھی طرح کی تبدیلی کے خلاف ہے کیونکہ وہ عہد جدید کے بدلتے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کی صلاحیت کھوبیٹھا ہے۔ملاحظہ ہو یہ اقتباس:
’’آپ موٹر بھی رکھ لیجیے، فرنیچر بھی خرید لیجیے، آج کل کی مٹیا چینی سے دو چار الماریا ں بھی بھر لیجیے لیکن دماغ سے یہ خناس نکال دیجیے کہ مصارف اس طرح کم ہو سکتے ہیں مصارف انہی کے ہوتے ہیں جن کو خدا مصارف کے لائق بناتاہے ۔ بدھو، خیراتی کے یہاں مصارف نہیں ہوتے ۔‘‘
’’ابو151 یہ بات میں نے اس لیے گوش گزار کی تھی کہ آئے دن اخباروں میں یہ آتا رہتا ہے کہ ہندوستان آزاد ہونے والا ہے اور ہندوستان آزاد ہونے کے بعد کانگریس حکومت جو کام سب سے پہلے کر ے گی وہ یہ کرے گی کہ زمینداری ختم کرے گی۔‘‘
’’کیا؟ ‘‘
ابو اتنے زور سے گرجے کہ جمی پریشان ہو گیا۔ 
’’میری زمینداری چٹائی ہے؟ دری ہے؟ جاجم ہے؟ آخر کیا ہے ؟ آخر کیا ہے؟۔‘3
مذکورہ بالا اقتباس سے پتہ چلتا ہے فرسودہ تصورات کو اپنائے ہوئے ہے۔ اس طبقے کی ذہنی سخت گیری ہی اس کے خاتمے کی بڑی وجہ بنتی ہے۔قاضی عبدالستارکے تخلیقی میلانات پر اس ماحول کے گہرے نشانات ہیں جس میں ان کی پرورش وپرداخت ہوئی ۔ جاگیردارانہ نظام کی دم توڑتی زندگی، بدلتے نظام کی آئینہ داری، حالات حاضرہ کی ترجمانی اور اس سے پیدا شدہ اضطراری اور ماضی کی بازیافت نے ان کے ذہنی ، فکری اور تخلیقی میلان کو توانائی عطا کی ہے۔ ناول ’غبار شب ‘ کا موضوع بھی جاگیردارانہ معاشرے کا ہی اختتامیہ ہے۔یہ ناول ہندو مسلم تنازعہ کا عکاس ہے ۔ یہ تناز عہ تعزیہ اور پیپل کے پیڑ سے شروع ہوتا ہے اور پھر پوری بستی کو اپنے نرغے میں لے لیتا ہے۔ جھام پور کا جاگیردار جمیل اس کا مرکزی کردار ہے جو ہندو مسلم کے بھید بھاؤ کو سمجھ نہیں پاتا ہے کیونکہ دونوں فرقے اس کی رعیت ہیں ۔ دونوں اس سے اور وہ دونوں سے محبت کرتا ہے لیکن چودھری اقبال نرائن اور عنایت خاں کی سازشیں پورے ماحول کو پراگندہ کر دیتی ہیں ۔
قاضی صاحب کسی خاص تحریک سے وابستہ نہیں تھے۔ ان کے یہاں زندگی کا ہر پہلو اور ہر جزو پایا جاتا ہے۔بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ ان کا ذہن اور ان کا قلم بھی تغیر پذیررہا۔ انھوں نے اپنا رشتہ زندگی سے جوڑا ہے اس لیے انسانی معاشرہ کی مکمل اور جامع تصویریں ان کے یہاں دکھائی دیتی ہیں ۔ وارث علوی نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ’’جب ہم قاضی صاحب کی ادبی تخلیقات کا ذکر کرتے ہیں تو ان میں عموماًان کے تاریخی ناولوں کا ذکر نہیں کرتے ہیں۔‘‘قاضی صاحب اس کے جواز میں کچھ یوں رقمطراز ہیں :
’’تاریخی ناول ، ناول کی ایک الگ ہی قسم ہے جس میں عموماًناول نگار اپنے بیتے ہوئے عہد کو اس کے تمام تہذیبی اور تمدنی دبدبے کے ساتھ قدآور کرداروں اور ان کی شاندار مہمات اور پُر وقار ڈرامائی مکالموں ، ان کے ہوش رُبا معاشقوں اور ان کے عروج وزوال کی ولولہ انگیز کہانیوں کو رفیع الشان رزمیہ اسلوب میں بیان کرتا ہے۔ ایسی شاندار تاریخی ناولوں پر تنقید کے اصول اور آداب بھی وہ نہیں ہوتے جو ایک عام آدمی کی زندگی کا نقشہ کھینچنے والی حقیقت نگار اور نفسیاتی یا سماجی ناول کی تنقید کے ہوتے ہیں ۔ میں ذاتی طور پر تاریخی ناولوں میں دلچسپی نہیں رکھتا اس لیے ان پر تنقید کے آداب سے واقف نہیں اور نہ چلتا ہے کہ جمّی کا باپ روایتی شان وشوکت اور وضعداری نبھانے کے نام پراپنے پچاس ہزار فولاد سواریوں کو رکاب میں لیے لوہے کالباس پہنے احکامات عالیہ کا انتظار کر رہے تھے۔‘‘6
قاضی عبدالستار کا الفاظ کا ذخیرہ انتہائی وسیع ہے، وہ الفاظ پر اس قدر قدرت رکھتے ہیں کہ اسے مختلف پیرائے میں استعمال کر لیتے ہیں ۔ انہوں نے ہرقل اعظم کے حشم جاہ وجلال اور بادشاہ کی شان وشوکت کو قائم رکھا ہے ۔یہ ناول نگار کا ہی کمال ہے کہ چند الفاظ کی وجہ سے کردار کی شخصیت پڑھنے والے قاری پر واضح کر دیتے ہیں۔ان کی تمام تصانیف کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد نورالحسنین اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ :
’’تاریخ کے جھروکوں سے عبدالحلیم شرر اور نسیم حجازی وغیرہ ادیبوں نے نیم تاریخی اور فرضی کرداروں کے حسن وعشق کی داستانوں سے قاری کی آنکھوں کو خیرہ کر نے کی کوشش کی تو قاضی عبدالستار نے تاریخ کے پردوں میں سے حقائق کو بیان کرتے ہوئے شاہی خاندانوں کی عظمتوں کے نشان ، ان کے رعب داب ، رہن سہن، جاہ ہ جلال اور زبان وبیان کے انداز کو قاری کے حافظے کا حصہ بنا دیا۔‘‘7
قاضی صاحب نے اپنی 85 سالہ زندگی میں کئی ادبی کارنامے انجام دےئے جن کی بنیاد پر انہیں اہم اعزازات سے نوازا گیا جن میں پدم شری ایوارڈ، غالب ایوارڈ، میرایوارڈ، یوپی اردو اکادمی ایوارڈ، عالمی ایوارڈ، پہلا نشانِ سرسید ایوارڈ ، بہادرشاہ ظفر ایوارڈ ، دوہا(قطر)کا بین الاقوامی ایوارڈ، قومی اقبال ایوارڈقابل ذکر ہیں۔

Mohd Sharib
Research Scholar, Dept of Urdu
Ranchi University
Ranchi (Jharkhand)





قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں