14/1/19

فلمی و ادبی دنیا کی مشترکہ وراثت: ندا فاضلی مضمون نگار:۔ معصوم زہرا






فلمی و ادبی دنیا کی مشترکہ وراثت: ندا فاضلی


معصوم زہرا


اردو کے بغیر ہندوستانی فلم کی تاریخ مکمل نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ اردو واحد ایسی زبان ہے جو ہر ماحول و حالات میں خود کو ڈھالنے کی صلاحیت رکھتی ہے اگر اردو زبان میں یہ صلاحیت نہ ہوتی تو فلموں اور فلمی نغموں کے فروغ میں اردو زبان کبھی قابل قدر نہ سمجھی جاتی۔یہ حقیقت ہے کہ اردو کے استعمال کے بغیر کامیاب فلموں کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کیونکہ جب بھی فلموں کے مکالمے، کہانیاں، نغمے، تحریر کیے گئے تو اردو زبان کو ہی فوقیت حاصل رہی ۔ اردو شعرا و ادبا کی ایک طویل فہرست ہے جنھوں نے ہندوستانی فلموں کو اپنی نثری و شعری تخلیقات سے فروغ بخشا۔اگر فلموں میں فکشن کی بات کی جائے تو پریم چند ،بیدی، اور منٹوسے لے کر سلیم جاوید تک فکشن نگاروں کاایک طویل سلسلہ ہے۔ اسی طرح اگر فلموں میں نغمہ نگاروں کو پیش نظر رکھیں تو آرزو لکھنوی،مجروح سلطانپوری، راجہ مہدی علی خاں، ساحر لدھیانوی، قمر جلال آباد ی، شکیل بدایونی، کیفی اعظمی، حسرت جے پوری، شہریار، گلزار، جاوید اختر وغیرہ نے پوری اردو شاعری اور فلمی نغمہ نگاری کے ما بین بہت مستحکم رشتہ استوار کیا ہے۔ان نغمہ نگاروں کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ انھوں نے بہت ہی سادہ اور عام فہم زبان میں عوام کی دلچسپی کو پیش نظر رکھتے ہوئے نغمے تحریر کیے،ان شعرا کی کاوشوں کو اتنا فروغ ملا کہ ان کے نغمے زبان زد خاص وعام اور ضرب المثل بن گئے۔
ان شعرا میں ندا فاضلی کی آواز عصر حاضر کی مقبول اور معتبر آواز ہے ان کی شاعری ذاتی تجربات کے ساتھ عوام و خواص کے بھی جذبات و احساسات کی ترجمان ہے جو ان کے شعری مجموعے لفظوں کا پل، مور ناچ، آنکھ اور خواب کے درمیان، کھویا ہوا سا کچھ، شہر تو میرے ساتھ چل، زندگی کی طرف، میں بخوبی سنائی دیتی ہے۔جن میں غزل ،نظم،دوہے،گیت،وغیرہ جیسی اصناف میں ان کے تصورات و ذاتی تجربات کی دنیا آباد ہے۔
جدید لب و لہجہ کے ممتاز شاعر اور نامور فلمی نغمہ نگار ندا فاضلی 12اکتوبر 1938 کو دہلی میں پیدا ہوئے ان کے والد میر مرتضیٰ حسن دعا اپنے عہد کے نمائندہ شاعر تھے۔ چونکہ ندافاضلی ایک ادبی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور اسی ماحول میں ان کی پرورش ہوئی یہی وجہ ہے کہ کم عمری میں ہی شاعری کا آغاز کر دیا تھا۔ ان کے شعری میلان کی محرک سور داس کی نظم ہے جو انھوں نے ایک مندر کے پاس سے گزرتے ہوئے سنی جس میں رادھا اور کرشن کی علیحدگی کا بیان تھا۔نظم سن کر ندا فاضلی بہت متأثر ہوئے اور اسی وقت بطور شاعر اپنی شناخت قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔
ندا فاضلی کا آبائی وطن جموں کشمیر تھا لیکن ان کا خاندان گوالیار آکر بس گیا تھا تقسیم ہند کے بعد فرقہ وارانہ فسادات نے کئی شہروں کو تباہ کر دیا تھا اسی دوران گوالیار بھی ہندو مسلم فساد کی زد میں تھا۔اسی سبب ندا فاضلی کے والدین نے پاکستان ہجرت کا فیصلہ کیا مگر ندا فاضلی نے ہندوستان میں ہی قیام کو ترجیح دی اس وقت ندا فاضلی وکرم یونیورسٹی اجین میں ایم۔اے(اردو) سال آخر کے طالب علم تھے ایم ۔اے کرنے کے بعد مسلسل تلاش معاش میں سر گرداں رہے کبھی کلکتہ کبھی دہلی اور کبھی راجستھان کا سفر کیا بالآخر ممبئی پہنچے۔قیام ممبئی کے ابتدائی ایام میں ندا فاضلی نے بہت عسرت، تنگدستی اور کسمپرسی کی زندگی گزاری ان دنوں وہ ہندی میگزین دھرم یگ اور ہندی ،اردو ہفتہ واراخبار ’ بلٹز‘ میں کالم لکھتے تھے اور اخبار کے دفتر میں ہی چادر بچھا کر سو جاتے تھے۔غالباً انھوں نے اسی پس منظر میں یہ شعر کہا تھا ؂
تنہا تنہا بھٹک رہا ہے انجانی سی راہوں میں
شاید اپنے ساتھ وہ اپنے شہر کو لانا بھول گیا
رفتہ رفتہ جب ادبی رسائل و اخبارات میں کلام شائع ہونے لگے تو ندا فاضلی کی شہرت بڑھتی گئی اور مزید شہرت اس وقت حاصل ہوئی جب ان کی غزل مایہ ناز گلوکار جگجیت سنگھ اور ان کی بیگم چترا نے اپنی خوبصورت آواز میں عوام تک پہنچائی۔غزل کا مطلع ہے ؂
دنیا جسے کہتے ہیں جادو کا کھلونا ہے
مل جائے تو مٹی ہے کھو جائے تو سونا ہے
یہ غزل اتنی مقبول ہوئی کہ ندا فاضلی فلمی ہدایت کاروں کی توجہ کا مرکز بن گئے۔ اسی دوران فلم ’رضیہ سلطان‘ کے اصل نغمہ نگار جاں نثاراختر کے انتقال کے بعد فلم کے ہدایت کار کمال امروہوی ایک اچھے شاعر کی تلاش میں تھے۔ ندا فاضلی کے گیت سے متاثر ہو کر انھوں نے ندافاضلی سے رابطہ کیا اور فلم کے باقی نغمے لکھنے کی ذمہ داری سونپ دی اور ہدایت دی کہ موسیقار خیام کے ساتھ مل کر ایسا نغمہ رقم کیجیے جو فلم کی شان کو دو بالا کر دے۔ اس فلم کے لیے ندا فاضلی نے دو نغمے’آئی زنجیر کی جھنکار خدا خیر کرے‘ او’ر ترا ہجر ہی مرا نصیب ہے‘ لکھے۔اور لکھنؤ سے تعلق رکھنے والے آ ل انڈیا ریڈیو کے ہوسٹ کبن مرزا کی آواز نے نغمے کے حسن کو دوبالا کر دیا۔اس فلم میں ہیما مالنی اور دھرمیندر نے اہم کردار ادا کیا اور یہی فلم ندا فاضلی کے کیریئ کے آغاز میں معاون ثابت ہوئی۔اس فلم کی کامیابی کے بعد ندا فاضلی نے بہت سی فلموں میں نغمے لکھے جن میں فلم آہستہ آہستہ، سر فروش، اس رات کی صبح نہیں، نا خدا، آپ تو ایسے نہ تھے، یاترا، سُروغیرہ قابل ذکر ہیں۔
فلم ’آہستہ آہستہ’ کا نغمہ کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا‘نے نہ صرف لاکھوں دلوں کو جیت لیا بلکہ یہ نغمہ شہرت کی اس منزل تک پہنچا کہ فلم کی مقبولیت کا سبب بن گیا۔ اس نغمہ کی موسیقی خیام نے مرتب کی اورمشہور گلوکارہ آشا بھوسلے اور بھوپیندر سنگھ نے اپنی مترنم آواز سے نغمہ کو دلکشی بخشی جو فلمی ہدایات کے ساتھ ساتھ ادبی تقاضوں کو پورا کرتا ہوا نظر آتا ہے ؂
کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا
کہیں زمیں تو کہیں آسماں نہیں ملتا
کہاں چراغ جلائیں کہاں گلاب رکھیں
چھتیں تو ملتی ہیں لیکن مکاں نہیں ملتا
جسے بھی دیکھیے وہ اپنے آپ میں گم ہے
زباں ملی ہے مگر ہم زباں نہیں ملتا
اس طرح فلم ’سرفروش‘ کا نغمہ’ہوش والوں کو خبر کیا بے خودی کیا چیز ہے‘ کو جگجیت سنگھ نے اپنی آواز دی اور اس غزل نے بھی لا زوال شہرت حاصل کی اور عامر خان، نصیر الدین شاہ اور سونالی بیندرے پر فلمایا گیا ہے۔دو شعر ملاحظہ ہوں جو پورے نغمے کی جان ہیں ؂
ان سے نظریں کیا ملیں روشن فضائیں ہو گئیں
آج جانا پیار کی جادو گری کیا چیز ہے
ہم لبوں سے کہہ نہ پائے ان سے حال دل کبھی
اور وہ سمجھے نہیں یہ خامشی کیا چیز ہے
اور فلم ’آپ تو ایسے نہ تھے‘ کا نغمہ بہت دلکش و پسندیدگی کی سند بنا ہوا تھا اورمحمدرفیع کی آواز نے اس نغمہ کے حسن میں چار چاند لگا دیا، اس کا تغزلانہ اور رومانوی آہنگ اپنی مثال آپ ہے جو عام روش سے ہٹ کر ہے اور سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ادبی پیرائے میں اور عام فہم زبان میں لکھا گیا ہے۔ 
ندا فاضلی نے ادبی اور معیاری فلمی نغمے لکھے، ان لازوال شہرت یافتہ فلمی نغموں سے قطع نظر ندا فاضلی نے چند فلمیں بھی لکھیں جن میں وجے، ہر جائی اور’فلک ‘کے نام قابل ذکر ہیں ۔انھیں بڑے کمال کے موسیقار بھی ملے جن میں خیام، آر۔ڈی ۔برمن وغیرہ موسیقی کے بڑے نام ہیں۔ ندا فاضلی کے فلمی نغموں کے علاوہ کچھ غزلیں بھی مشہور زمانہ گلوکاروں نے گائی ہیں مثلاً۔لتا منگیشکر اور جگجیت سنگھ کی آواز میں اس غزل نے بہت شہرت پائی۔ چند اشعار ملاحظہ ہو ں ؂
ہر طرف ہر جگہ بے شمار آدمی
پھر بھی تنہائیوں کا شکار آدمی
صبح سے شام تک بوجھ ڈھوتا ہوا
اپنی ہی لاش کا خود مزار آدمی
زندگی کا مقدر سفر در سفر
آخری سانس تک بے قرار آدمی
شاعر شہری زندگی سے نالاں ہے۔انسان اتنا خود غرض اور مفاد پرست ہو گیا ہے کہ آج کا انسان ہزاروں لاکھوں آدمیوں کے بیچ میں تنہائی محسوس کرتا ہے۔کیونکہ شہروں میں خلوص اور انسانی رشتوں کا پاس ہی نہیں رہا۔ ریا کاری، مکاری، جھوٹ،فریب، بے حسی اتنی بڑھ چکی ہے کہ ندا فاضلی آدمی کو اپنی لاش کا مزار کہنے پر مجبور ہوگئے جو صبح سے شام تک بدن کا بوجھ لیے پھرتا ہے۔چھوٹی بحر اور سیدھے سادے اور آسان الفاظ میں بڑی ہی سادگی اور خوبصورتی سے لفظ ’آدمی‘ کو بطور ردیف پیش کر کے بے حس آدمی کی آدمیت پر گہرا طنز کیا ہے۔
تنہائی پر ندا فاضلی کی دوسری غزل جسے غلام علی نے اپنی آواز دے کرلافانی بنا دیا ہے وہ یہ ہے ؂
تنہا تنہا دکھ جھیلیں گے محفل محفل گائیں گے
جب تک آنسو پاس رہیں گے تب تک گیت سنائیں گے
یہ پوری غزل ندا فاضلی کے ذاتی تجربات کا مظہر ہے جو ممبئی جیسے شہر میں عالم تنہائی میں زندگی گزار رہے تھے۔ عالم تنہائی میں انسان کن کن حالات سے دو چار ہوتا ہے، کتنی صعوبتیں برداشت کرتا ہے ساری کیفیات کا اظہار ہمیں ندا فاضلی کی شاعری میں ملتا ہے۔ ان نغموں کے علاوہ ان کے کچھ نغمے اور اس کے گلوکاروں کے نام درج ذیل ہیں جنھوں نے فلمی دنیا کے ساتھ ساتھ ادبی دنیا میں بھی ندا فاضلی کی ایک الگ شناخت قائم کی ؂
بہت خوبصورت ہیں آنکھیں تمھاری
(جگجیت سنگھ)
بے نام سا یہ درد ٹھہر کیوں نہیں جاتا
(جگجیت سنگھ)
ہر ایک گھر میں دیا بھی جلے اناج بھی ہو
(جگجیت سنگھ)
چاند سا چہرہ رات سی زلفیں ہرنی جیسی چال
(محمد رفیع)
چاہت ندیا چاہت ساگر
(الکا یاگنک،فلم چاہت) 
ایسا ہو تو کیسا ہو
(کشور کمار ،سوپنا،فلم گہرا زخم)
گھر سے مسجد ہے بہت دور چلو یوں کر لیں
(سونو نگم، فلم تمنا)
ہر ایک راستہ سجا کے چل
( آشا بھوسلے،فلم امیر آدمی غریب آدمی)
زندگی یہ زندگی دو گھڑی کی زندگی
( لتا منگیشکر۔فلم دولت)
کس کی صدائیں مجھ کو بلائیں 
(آشا بھوسلے،کشور کمار۔فلم ریڈ روز)
تم سے مل کر زندگی کو یوں لگا
( لتا منگیشکر،فلم چور پولیس)
ندا فاضلی کی فلمی شاعری کی زبان سہل ممتنع کی بہترین مثال ہے،کہیں بھی پیچیدگی یا الجھاؤ کا احساس نہیں ہوتا۔انھوں نے جن مسائل و موضوعات کو اپنی شاعری کا محور بنایا وہ دوسرے معاصرین شعرا ء میں خال خال ہی نظر آتا ہے۔انھوں نے دور حاضر کے حقائق کو اپنی شاعری کا ترجمان بنایا جسے ہر شخص اپنی زندگی میں محسوس کر سکتا ہے۔
ندا فاضلی کی انھیں خدمات کے سلسلے میں 1998میں سا ہتیہ اکادمی ایوارڈ اور2004 میں مدھیہ پردیش حکومت نے اپنے سب سے بڑے اعزاز شکھر سمان سے بھی سرفراز کیا اور 2003 میں فلم ’ سُر ‘کی بہترین نغمہ نگاری کے لیے اسٹار اسکرین ایوارڈ،بالی ووڈ مووی ایوارڈ اور مہاراشٹر حکومت کی جانب سے میر تقی میرایوارڈ اور 2013 میں ہندوستان حکومت نے پدم شری جیسے اعزاز سے مفتخر کیا۔
8؍فروری 2016 کو فلمی و ادبی شاعری کا درخشندہ آفتاب غروب تو ہو گیا مگر اس کی روشنی شعری افق پر آج بھی جلوہ گر ہے۔

Masoom Zohra
Research Scholar, Dept of Urdu
Aligarh Muslim University
Aligarh - 202001






قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

1 تبصرہ: