21/1/19

ہندوستانی جامعات میں فن خاکہ نگاری پر تحقیقی مقالات مضمون نگار:۔ شاہانہ مریم شان



ہندوستانی جامعات میں فن خاکہ نگاری پر تحقیقی مقالات


شاہانہ مریم شان
اردو ادب کی اصطلاح ’خاکہ‘ انگریزی لفظ’Sketch‘ کا متبادل ہے۔تنقیدی اصطلاحات کے مطابق ’ ادب کی جس صنف کے لیے انگریزی میں اسکیچشاہانہ مریم شان
ہندوستانی جامعات میں فن خاکہ نگاری پر تحقیقی مقالات
اردو ادب کی اصطلاح ’خاکہ‘ انگریزی لفظ’Sketch‘ کا متبادل ہے۔تنقیدی اصطلاحات کے مطابق ’ ادب کی جس صنف کے لیے انگریزی میں اسکیچ یا پن پورٹریٹPen Portrait کا لفظ استعمال ہوتا ہے،اردو میں اسے خاکہ کہتے ہیں۔لفظ’Sketch‘ کے مترادف کے طور پر انگریزی میں Portrait مستعمل ہے۔تاہم دونوں کے مترداف میں کافی تفاوت ہے۔کچھ وضاحت کے ساتھ یوں کہا جاسکتا ہے کہ’اسکیچ مختلف خطوط کی مدد سے کسی شخصیت کے خط و خال ابھارنے کو کہا جاتا ہے جبکہ Portrait سے مراد کسی واضح شبیہ کی عکاسی ہے‘المختصر خاکہ کے لفظی معنی ’ڈھانچہ بنانا یا مسودہ تیار کرنا ہے‘ادبی نقطہ نظر میں ’خاکہ‘ شخصیت کی ہو بہ ہو عکاسی کا نام ہے،جس میں ظاہری تصویر کشی کے ساتھ ساتھ باطن کی بھی عکاسی کی جاتی ہے۔اردوادب کی نثری اصناف میں صنف خاکہ نگاری کا شمار ہوتا ہے،جو ادب کی جداگانہ اور منفرد صنف ہے۔
اس فن کو ابتدا میں شخصیت نگاری سے موسوم کیا گیا۔بعد میں اس کی کئی اصطلاحیں سامنے آئیں۔ اس کو خاکہ نگاری،مرقع نگاری،،قلمی تصویریں،شخصی خاکہ نگاری بھی کہا گیا۔ادب میں خاکوں کے کئی اقسام بیان ہوئے ہیں جیسے تعارفی خاکہ،سوانحی خاکہ،تاثراتی خاکہ،مزاحیہ خاکہ،اجتماعی خاکہ،سرسری خاکہ،تعزیتی خاکہ،مداحیہ خاکہ،توصیفی خاکہ،خود نوشت خاکہ، معلوماتی خاکہ،بیانیے خاکہ، سنجیدہ خاکہ،قلمی خاکہ ،غائبانہ خاکہ وغیرہ وغیرہ۔
خاکہ کو مختلف اقسام میں تقسیم تو کیا جاتا ہے لیکن مجموعی طور پر دیکھا جائے تو بہترین خاکہ وہ ہوتا ہے جس کا کوئی نام نہیں ہوتا۔بلکہ وہ صرف خاکہ ہوتا ہے۔بہتریں خاکہ جذبات کو برانگیختہ کرتا ہے، قابل تقلید ہوتا ہے،جو قاری کو متاثر کرتا ہے ۔جس میں کسی شخصیت کے پہلو کھلی کتاب کی طرح سامنے آتے ہیں۔جس میں شخصیت کی کھلی اور بے باک عکاسی کی جائے۔جس میں شخصیت کا جیتا جاگتا روپ نظر آئے۔جس کو پڑھنے کے بعد قاری موضوع خاکہ سے اچھی طرح واقف ہو جائے۔گویا اس نے شخصیت سے ملاقات کی ہو۔
خاکہ اردو ادب کی ایک جدید صنف ہے ،اس کا شمار ادب کی مقبول دلچسپ اور اہم اصناف میں ہوتا ہے۔یہ ایک ایسا فن ہے جس کے نقوش ادب کے دوسرے اصناف میں بھی نظر آتے ہیں۔جیسے ناول ،افسانہ ،سوانح،تذکرے وغیرہ۔جس میں فنکار اپنے ز ور بیان سے خیالی کردار کو حقیقت کا جامہ پہناتا ہے لیکن خاکوں میں حقیقی افراد اپنی پوری حقیقت کے ساتھ سامنے آتے ہیں۔چنانچہ ہم ایک انسان کا مطالعہ ایک نئے زاویے اور انداز سے کرتے ہیں اس کو نئے ڈھنگ اور نئے روپ میں دیکھتے سمجھتے اور محسوس کرتے ہیں۔
المختصر میرا مقصد یہاں خاکے کی تاریخ ، تعر یف ،تنقید بیان کرنا نہیں ہے بلکہ جامعات میں فن خاکہ نگاری پر لکھے گئے تحقیقی مقالات کے موضوعات کی فہرست پیش کرنا مقصود ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ یونیورسٹیوں میں معیاری تحقیقی کاموں کی بہ نسبت سطحی اور غیر معیاری کاموں کی تعدادزیادہ ہے۔آج کل یونیورسٹیوں میں تحقیق کا اہم مقصد تحقیق برائے علم نہیں رہا بلکہ تحقیق برائے ڈگری ہے۔یعنی جلد از جلد ڈگری کے حصول کے لیے طلبا تحقیق کر رہے ہیں۔اس جلد بازی میں تحقیق کا حق ادا نہیں ہو رہا ہے۔۔یونیورسٹیوں میں تحقیقی کاموں میں معیار کی پستی کا اہم سبب جلد بازی یعنی وقت کی کمی ہے۔ 
یونیورسٹیوں کے درمیاں تا حال آپس میں کوئی تال میل،رابطہ اور مشترکہ پروگرام نہ ہونے کی وجہ سے ایک ہی موضوع پر کئی جگہ تحقیق ہو رہی ہے۔ایک یونیورسٹی میں جن موضوعات پر کام ہو رہا ہے دوسری یونیورسٹی والے اس سے لا علم ہیں۔ جس کی وجہ سے مختلف یونیورسٹیوں میں ایک ہی موضوع پر،ایک ہی وقت میں کئی کئی کام ہو رہے ہیں۔بقول پروفیسر گوپی چند نارنگ :
’’ایک ہی موضوع پر دو دو تین تین جگہ کام ہو تا رہتا ہے،اور اکثر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ایک دوسرے کے کام پر چھاپا مارا جاتا رہا ہے۔یعنی اگر کسی کو معلوم ہوجائے کہ فلاں شخص ایک نسخے پر کام کر رہا ہے تو دوسرا اس کی دریافت سے فائدہ اٹھائے گا اور اس کتاب کو اس سے قبل چھپوانے کی کوشش کرے گا ۔‘‘
(اردو تحقیق کا معیار (مذاکرہ)مشمولہ رہبر تحقیق اردو سوسائٹی،شعبہ اردو لکھنؤ یونیورسٹی ،ص 143)
اگر ایک موضوع پر کسی یونیورسٹی میں کام ہو رہا ہے اور اسی موضوع پر دوسری یونیورسٹی میں بھی کام ہو تو ضروری نہیں کہ دونوں مقالوں کے خاکے ایک ہی طرح کے ہوں۔یہ بات ذہن نشین ہونی چاہیے کہ کوئی بھی مقالہ یا تحقیقی کام حرف آخر نہیں ہوتا،ہر مقالے میں کچھ نہ کچھ کمی موجود رہتی ہے۔کوئی اسکالر کسی ایک پہلو کو زیادہ اجاگر کرتا ہے تو دوسرا پہلو نظر انداز کر جاتا ہے۔
الغرض اگر ایک سے زیادہ اسکالرس ایک ہی موضوع پر کام کر رہے ہوں تو اس بات کو مد نظر رکھا جائے کہ تحقیق کرنے والا ہر محقق کوئی نئے گوشے تلاش کرئے،کوئی نیا پہلو اس موضوع سے نکالے۔ مقالے میں یکسانیت نہ ہونے دیں۔بلکہ مقالے کو مستند اور معیاری بنانے کی کوشش کریں،یعنی نقش ثانی کو نقش اوّل سے بہتر اور مکمل ہونے کی ضمانت دیں،تو اس تحقیقی کام کو زیادہ وقیع اور معتبر سمجھا جائے گا۔ ورنہ تحقیق کے مقاصد اور تقاضوں کی تکمیل نہ ہو سکے گی۔بلکہ موضوعات کی تکرار ہوگی۔
اس مقالے میں اس اشاریہ کی ترتیب کے اس کام سے کم از کم اتنا فائدہ ضرور ہوگا کہ اساتذہ اور نئے محققین کو بیک وقت ہندوستان میں کیے ہوئے ریسرچ کے کاموں کا صحیح اندازہ ہو سکے گا۔اور یہ معلوم ہوگا کہ کن کن موضوعات پر تحقیق ہو چکی ہے،اور کون کون سے گوشے تحقیق طلب ہیں۔اب تک کی عدم آگہی کے سبب کئی جگہ ایک ہی موضوع پر تحقیق کی تکرارہوئی ہے اس کا اندازہ آپ بخوبی لگا سکتے ہیں۔ان موضوعات کی تکرارسے نہ صرف ریسرچ اسکالر کا وقت وتوانائیاں ضائع ہوتی ہیں بلکہ ادب کی وسعت میں اضافہ کے بجائے موضوعات کی تکرار سے ریسرچ کا دائرہ محدود ہو جاتا ہے۔
مجھے قوی امید ہے کہ اس مقالے کے مطالعے سے موضوعات کی تکرار سے بچنے اور نئے موضوعات کے انتخاب اور دوسری یونیورسٹیوں کے ذمے دار اصحاب کے درمیان اشتراک و تعاؤں کو فروغ دینے میں بڑی مددمل سکتی ہے۔
جامعات میں فن خاکہ نگاری پر لکھے گئے تحقیقی مقالات کی اس فہرست میں جامعات کا نام ،ریسرچ اسکالر(محقق )کا نام ،تحقیقی موضوع(عنوان)، نگراں کار، اور سنہ ایوارڈ کو پیش کیا گیا ہے۔
فہرست جامعات ملا حظہ ہوں :
جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی (دہلی )
فہرست پی ایچ ڈی
.1 ڈاکٹرابراراحمد /اردو خاکہ نگاری کا تنقیدی مطالعہ1947 تا حال/ڈاکٹرقاضی عبید الرحمن ہاشمی 
.2 ڈاکٹرمصلح الدین /دہلی میں اردو خاکہ نگاری کی اہمیت:ابتدا تا حال/ڈاکٹرقاضی عبید الرحمن ہاشمی 
.3 ڈاکٹرنسرین عقیل/اردو ادب میں خاکہ نگاری1947 تا حال/ڈاکٹر صادقہ ذکی/2005
جموں یونیورسٹی ( جموں)
فہرست پی ایچ ڈی 
.1 ڈاکٹرمحمد اسد اللہ وانی /اردو میں خاکہ نگاری کا ارتقا/ڈاکٹرشیام لال کالڑا 
جواہرلال نہرو یو نیورسٹی‘( دہلی)
فہرست ایم فل
.1 محمد حسین جامی /ادبی خاکہ نگاری بیسویں صدی کے آخری دہے میں/ڈاکٹر مظہر حسین/ 2003
حیدرآباد یونیورسٹی(آندھراپردیش)
فہرست ایم فل
.1 گل رعنا/حیدرآباد میں اردو خاکہ نگاری1947 کے بعد/ڈاکٹر رحمت علی خان/1997
.2 شیخ محمد رفیع/مجتبیٰ حسین بحیثیت خاکہ نگار/ڈاکٹر عرشیہ جبین /2010
حید رآبادیونیورسٹی(آندھرا پردیش)
فہرست پی ایچ ڈی
.1 ساجدہ بیگم/حیدرآباد میں اردو خاکہ نگاری کا آغاز و ارتقا/ڈاکٹر انور الدین/جاری.......
.2 تسلیم بیگم/دکن میں خاکہ نگاری آزادی کے بعد/پروفیسرمحمد انور الدین جاری.......
دہلی یونیورسٹی
فہرست ایم فل
.1 محمد عبدالخالق /پروفیسر خواجہ احمد فاروقی کی خاکہ نگاری/پروفیسر امیر عارفی 
ڈاکٹر ہری سنگھ گروساگر یونیورسٹی (مدھیہ پردیش)
فہرست پی ایچ ڈی
.1 ڈاکٹرسید فاروق حسینی/اردو خاکہ نگاری کاتحقیقی و تنقیدی جائزہ/ڈاکٹر ایم۔ایس۔ صدیقی/1986
سری وینکٹیشور یونیورسٹی(آندھرا پردیش)
فہرست پی ایچ ڈی
.1 ڈاکٹرایس۔زیب النسا/ محمد مجیب بحیثیت خاکہ نگار/پروفیسر رضی الدین احمد/ 1990
عثمانیہ یونیورسٹی( آندھرا پردیش)
فہرست پی ایچ ڈی
.1 ڈاکٹر صابرہ سعید /اردو ادب میں خاکہ نگاری/پروفیسرغلام عمر خان/1975
کشمیر یونیورسٹی(سری نگر،کشمیر)
فہرست ایم فل
.1 سید مصطفی شاہ/منٹو کی خاکہ نگاری۔ ایک مطالعہ/پروفیسر مجید مضمر/2004
گلبرگہ یونیورسٹی(کرناٹک)
فہرست ایم فل
.1 سردار پاشا/مجتبیٰ حسین بحیثیت خاکہ نگار/ڈاکٹر لئیق خدیجہ/ 1996
ناگپوریونیورسٹی (مہاراشٹرا)
فہرست پی ایچ ڈی
.1 سعید احمد خاں/آزادی کے بعد اردو میں خاکہ نگاری/ڈاکٹر عنیق الرحمن 
مندرجہ بالا موضوعات کی فہرست کو دیکھتے ہوئے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اردو ادب کی اس صنف خاص خاکہ ،خاکہ نگاری،اور خاکہ نگاروں پر بہت کم تحقیقی کام ہوئے ہیں وقت کا تقاضا ہے کہ ہماری جامعات میں اساتذہ اپنے ریسرچ اسکالرز کو اس صنف کی اہمیت کا احساس دلاتے ہوئے اس صنف کے تحت مختلف موضوعات پر مقالات قلمبند کروائیں۔
مندجہ بالا ان خاکہ نگاروں کے علاوہ اور بھی بہت سے خاکہ نگارگمنام ہیں جنھوں نے خاکہ نگاری کے فن کو بڑی ہی خوش اسلوبی سے برتا ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ خاکہ نگاری کے اس فن پر تحقیقی کاموں کو مزید آگے بڑھایا جائے۔تحقیقی و تنقید ی نقطہ نظر سے اس فن کو موضوع بحث بنایا جائے۔


Shahana Maryam Shaan
63B, Near U-Block, Shakarpur Khas
Opp: Laxmi Nagar
Metro, Shakarpur, Delhi - 110092 





قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

سماجی شعور: تعارف اور اہمیت، مضمون نگار: عرفان احمد گنائی

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 انسان طبعاًمعاشرت پسند اور سماجی واقع ہوا ہے۔ گرہوں اور ٹولیوں میں رہنے کی یہ خصلت ازل سے ہی اس کی گھٹی میں پڑی ہ...