‘اسلم پرویز کے خاکوں کا مجموعہ ’گھنے سائے
نوشاد منظر
اسلم پرویز کے خاکوں اور شخصی تحریروں پر مبنی ان کی کتاب ’ گھنے سائے‘2010 میں دلی کتاب گھر سے شائع ہوئی۔اس کتاب کا انتساب معروف افسانہ نگار ’ نیر مسعود‘ کے نام ہے۔اس کتاب کا پیش لفظ صدیق الرحمن قدوائی نے لکھا ہے۔وہ لکھتے ہیں۔
’’ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جن سے مصنف کا نجی رشتہ رہا ہے اور ایسے بھی ہیں جنھوں نے اس عہد کے ہر شخص، کم از کم باشعور شخص کو اپنی طرف اس لیے متوجہ کیا کہ وہ ان سے اپنے طور پر ایک خاص قرب محسوس کرتا ہے۔ ان کی تحریروں کے ذریعے بھی اور خبروں اور افواہوں کے ذریعے بھی ہوسکتا ہے اور ان واقعات کے اثرات کے طور پر بھی ہوسکتا ہے جن کے وارد ہونے میں ان کے کارناموں، سرگرمیوں یا حکمت عملی کا اثر ہو۔ یہی سبب ہے کہ اس کتاب میں چچی، استاد رسا، ظ انصاری، خلیق انجم کے بارے میں مضامین میں بے تکلفی کی جو نوعیت ہے، وہ مولانا ابو الکلام آزاد، آنند نرائن ملّا،وغیرہ کے بارے میں مضامین میں نہیں، کہ یہ اس عہد کی وہ شخصیتیں ہیں جن تک مصنف کی شخصی رسائی ان کی تحریروں کے ذریعے ہوتی ہو اور اسی اعتبار سے اس کتاب کے مضامین میں مصنف کے اسلوب میں ایک تنوع اور رنگا رنگی ہے۔‘‘
(پیش لفظ۔ گھنے سائے۔ اسلم پرویز۔ ص 12)
خاکہ نگاری کوبطور ایک صنف مقبولیت بیسویں صدی میں ملی۔ اس کے ابتدائی نقوش داستانوں ، کہانیوں، خطوط اور سفر نامے وغیرہ میں دیکھے جاسکتے ہیں۔خاکہ نگار اپنی تحریر میں ایک خاص اسلوب اختیار کرتا ہے تاکہ جس شخص کا خاکہ لکھا جارہا ہے، اس کی جیتی جاگتی تصویر سامنے آجائے۔اردو میں کئی ایسے خاکے ہیں جنھیں پڑھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے گویا وہ شخص ہماری آنکھوں کے سامنے ہے۔ اسلم پرویز کے خاکوں سے متعلق صدیق الرحمن قدوائی نے لکھا ہے کہ انھیں دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔پہلے حصے میں ان لوگوں کے خاکوں کو شمار کیا جاسکتا ہے جن سے مصنف کے ذاتی تعلقات تھے، اور دوسرے حصے میں ان خاکوں کورکھا جاسکتا ہے، جن سے مصنف کے تعلقات تو نہیں تھے، مگر ان کی علمی، ادبی اور سیاسی خدمات کی وجہ سے ان کی شناسائی رہی یا دوسرے لفظوں میں جن سے اسلم پرویز متاثر ہوئے۔یہی وجہ ہے کہ اسلم پرویز کے خاکوں میں کہیں کہیں بے تکلفی کا رنگ غالب آجاتا ہے اور کہیں ان کی تحریر کو پڑھ کرایک خاص قسم کے احترام کا جذبہ ابھرتا ہے۔اس لحاظ سے خاکوں کا یہ مجموعہ کافی اہم ہے۔
اس کتاب کا پہلا خاکہ’ میں اور شیطان: خلیق انجم‘ ہے۔اسلم پرویز نے لکھا ہے کہ شیطان کا جو تصور ہمارے ذہن میں ہے اس کا اس خاکے سے کوئی تعلق نہیں۔دراصل انھوں نے اپنے دوست کی شرارتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے انھیں شیطان کہہ کر مخاطب کیا ہے۔جیسے ہم شرارتی بچوں کو بھی اکثر شیطان کہہ کر پکارتے ہیں۔ظاہر ہے شیطان کو اردو شاعری میں علامت کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔اسلم پرویز نے راجا مہدی علی خاں کی نظم ’ میں اور شیطاں‘ کو بھی پیش کیا ہے۔وہ نظم یوں ہے۔
میں اور شیطاں دیکھ رہے تھے
جنت کی دیوار پہ چڑھ کر
جنت کے دلچسپ مناظر
نیارے نیارے پیارے پیارے
میں اور شیطاں دیکھ رہے تھے
موٹی موٹی توندوں والے
لمبی لمبی ڈاڑھی والے
خوف زدہ حوروں کے پیچھے
چٹکی بجاتے ناچتے گاتے
دوڑ رہے تھے بھاگ رہے تھے
میں اور شیطاں دیکھ رہے تھے
شیطان کو کہیں شر کی علامت کے طور پر پیش کیا گیااور کہیں زندگی کے تحرک کے طور پر۔اسلم پرویز نے شیطان کا لفظ ایک بے تکلف دوست کے طور پر استعمال کیا ہے۔ خلیق انجم سے اپنے تعلقات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انھوں نے لکھا ہے :
’’۔۔۔نظم ’ میں اور شیطاں‘ میں شاعر اور شیطان دونوں ہی ایک ساتھ ’مولوی کی جنت ‘کا مضحکہ اڑا رہے ہیں تو اس کا مطلب گویا یہی ہوا کہ راجا مہدی علی خاں کے رو سے زندگی کی اس تگا پوئے دمادم میں شاعر اور شیطان دونوں ہی ایک دوسرے کا ہم رتبہ اور ہم پلّہ ہیں۔ اپنے اپنے شخصی امتیازات کے ساتھ۔ یعنی یہ کہ اگر کوئی مجھ سے میرے ’ میں‘ کے تشخص پر سوال کرے تو میں جواب دوں گا:’میں کہ خود اپنے ہی مذاق طرب آگیں کا شکار‘ جب کہ شیطان اسی سوال کے جواب میں کہے گا:’میرے طوفاں یم بہ یم دریا بہ دریا جو بہ جو۔یہ بات بھی اپنی جگہ ہے کہ مجھ میں اور خلیق انجم میں بہت سی خصوصیات مشترک ہیں تب ہی تو ہم اتنا لمبا ساتھ نبھاتے چلے آرہے ہیں لیکن ان مشترک خصوصیات کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ ہم میں سے کوئی ایک دوسرے کی کاربن کاپی ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ کوئلہ اور پانی دونوں کی ایک مشترکہ خصوصیت بجلی پیدا کرنا پھر بھی کوئلہ کوئلہ ہے اور پانی پانی۔ ہاں آپ مجھے اور خلیق انجم کو ایک ہی سکّے کے دو رخ کہہ سکتے ہیں۔‘‘
(میں اور شیطان : خلیق انجم ۔ گھنے سائے، اسلم پرویز۔ ص : 18-19)
ایک اور اقتباس دیکھیے:
’’اب وہ دنیا جس میں، میں اور خلیق انجم رہتے ہیں، یہ بات تو بخوبی جانتی ہی ہوگی کہ اس سکّے کا ہیڈ تو خلیق انجم ہی ہیں اور ٹیل اسلم پرویز۔‘‘ (ص: 19)
ہیڈ اور ٹیل انگریزی کے لفظ ہیں جس کا مطلب سر اور دم ہوتا ہے۔ سر کاذکر ہمیشہ ابتدائی سرے کے طور پر کیا جاتا ہے، یعنی آگے رہنے والی چیز، اور دم ظاہر ہے کہ پیچھے یا نیچے کی طرف ہوتی ہے۔اسلم پرویز نے نہایت لطیف پیرائے میں خلیق انجم کی شخصیت کو اپنی ذات پر ترجیح دی ہے۔اسلم پرویز نے ہیڈ اور ٹیل کی اس بحث کو خوبصورت انداز میں پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ چونکہ ذہانت، فطانت یا شیطانیت کا تعلق سر سے ہوتا ہے اس لیے خلیق انجم سر ہیں اور وہ دم۔خلیق انجم سے اپنی پہلی ملاقات کے سلسلے میں اسلم پرویز نے جو واقعہ بیان کیا ہے وہ بھی دلچسپی سے خالی نہیں:
’’خلیق انجم کلاس میں پہلی بار قدم رکھتے ہیں تو ایک دوست عشرت پوچھتا ہے،’ ابے یہ بھی یہاں آگیا۔‘ میں نے پوچھا، ’ کون؟‘ وہ بولا،’جو ابھی آیا ہے۔ خلیق ہے اس کا نام ۔ ‘‘ (ص: 11)
اسلم پرویز نے خلیق انجم کی ان خوبیوں کی جانب بھی اشارہ کیا ہے جسے عموماََ منفی معنوں میں استعمال کیا گیا۔
’’میں جانتا ہوں کہ خلیق انجم ہائپر ٹنشن کے مریض نہیں ہیں۔ میں یہ بات بھی وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ تخریب پسند بھی نہیں۔ ان کے ہاں مخالف کو نیست و نابود کردینے کا نہیں اس پر سبقت لے جانے کا جذبہ کار فرما رہتا ہے۔ ہر محاذ پر مقابلے کے لیے ڈٹے رہنا ان کا مزاج ہے۔‘‘ (ص 33-34)
اپنے دشمنوں کو زیر کرنے کا سب سے اچھا راستہ یہ ہے کہ اس کی خوبیوں کو اپنایا جائے اور اپنی خامیوں کو دور کیا جائے۔ خلیق انجم کی ایک اور خوبی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اسلم پرویز نے لکھا ہے کہ وہ اپنے دشمنوں کو زیر کرنے کے لیے پینترے بدلتے رہتے تھے، یعنی کسی بحث کے آغاز میں اپنی بات زور و شور سے کہہ دیتے اور اس سے پہلے کہ مد مقابل اپنی بات رکھے کوئی نیا پہلو نکال کر نئی بات کا آغاز کردیتے۔
گھنے سایے میں شامل دوسرا خاکہ’ نامور جی‘ ہے۔ نامور سنگھ ہندی کے اہم اور بڑے لکھنے والوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔انھیں اردو شاعری سے ایک لگاؤ تھا حالانکہ اردو زبان و ادب پر انھوں نے متنازعہ بیانات دیے ۔ اسلم پرویز نے لکھا ہے کہ میر و غالب کے ساتھ نامور سنگھ فیض کے بڑے مداح تھے۔نامور سنگھ کے متعلق اسلم پرویز لکھتے ہیں۔
’’ٹھاکر نامور سنگھ کی سنگھ ہونا تو ان کے نصیب میں لکھا تھا اور نامور بنے وہ اپنے کرم سے۔ چونکہ وہ مارکسی نظریات میں یقین رکھتے ہیں اس لیے وراثت میں ملی سنگھ نام کی دولت کا انھوں نے عملی زندگی میں ناجائز تو کیاکبھی جائز استعمال بھی نہیں کیا۔ یہ وجہ ہے ان کے ماتھے پر سامنے والے کو خوش آمدید کہنے جیسی چمک ہے۔ باتوں میں بنارس کے لنگڑے آم کی سی کھٹی میٹھی چسک اور شخصیت میں رشتوں کی نرمی اور گرمی سے پیدا ہونے والی گدگداہٹ۔ان کے خون پسینے کی کمائی ہے ان کی بے پناہ علمیت جس کے سبب وہ نامور ہیں۔ ‘‘ (ص 43)
لنگڑے آم سے کون واقف نہیں ، اس کی مٹھاس آم کے شوقین کو اپنی طرف متوجہ کرتی رہی ہے، اسلم پرویز کا خیال ہے کہ نامور سنگھ کی شخصیت میں وہ مٹھاس ہے، یہی نہیں ان کا لہجہ نرم اور شگفتہ ہے۔ اسلم پرویز نے نامور سنگھ کے متعلق لکھا ہے کہ وہ اپنی انہی خوبیوں کی بنا پر محفل پر چھا جاتے تھے۔اسلم پرویز نے یہ بھی لکھا ہے کہ نامور سنگھ ایک بار کسی کام کو کرنے کا ارادہ کرلیں تو پھر وہ اسے پورا کیے بغیردم نہیں لیتے۔نامور سنگھ کا تعلق بھی جے این یو کے ہندوستانی زبان کے مرکز سے تھا، اور اسلم پرویز بھی اسی درس گاہ سے وابستہ تھے۔ اسلم پرویز لکھتے ہیں۔
’’اردو کے بے شمار ادیبوں کے ساتھ ان کے اپنے خاص مزاج کے سبب اور انجمن ترقی پسند مصنفین کے ذریعے بھی نامور جی کے گہرے تعلقات رہے ہیں۔ اردو ادب کی باریکیوں کو جتنا نامور جی سمجھتے ہیں ایسے شاید ہندی میں چند ہی لوگ ہوں گے۔ اور اردو والوں میں بھی بہت سے لوگ ایسے ہوں گے جو شاید اردو کے بارے میں اتنانہ جانتے ہوں۔ میر اور غالب جیسے شاعروں کا نہ صرف انھوں نے غائر مطالعہ کیا ہے بلکہ انھیں اچھی طرح رچایا بچایا بھی ہے۔‘‘ (ص:48)
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے ہندوستانی زبان کے مرکز کی یہ ایک بڑی خوبی ہے جس کی وجہ سے یہاں کا شعبہ دوسرے شعبوں سے ممتاز نظر آتا ہے۔یہاں اردو کے طالب علموں کے لیے ہندی زبان و ادب کا ایک پرچہ لازمی ہے، اسی طرح ہندی کے طلبہ کے لیے اردو زبان و ادب کا ایک پرچہ لازمی ہے۔ بلکہ ایک ایسا پیپر بھی بنایا گیا ہے جس میں اردو اور ہندی کا مشترک نصاب شامل ہے۔اسلم پرویز نے اس جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اردو اور ہندی کے اس نصاب کی وجہ سے بچوں کے ساتھ اساتذہ کی بھی تربیت ہوجاتی تھی۔ انھوں ایک دلچپ واقعہ بیان کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
’’۔۔۔جب میں[ اسلم پرویز] دلّی کالج سے نیا نیا جواہر لال نہرو یونیورسٹی آیا تو اس کے کچھ دنوں بعد نامور جی کی ملاقات ڈاکٹر ہلدر سے ہوگئی جو اس وقت دلّی کالج کے وائس پرنسپل تھے۔ ڈاکٹر ہلدر مجھ سے کچھ زیادہ ہی خوش تھے، اس لیے انھوں نے نامور جی سے میری اتنی تعریف کردی کہ آج اکیس برس بعد بھی اس تعریف کا رنگ پھیکا نہیں پڑا ہے۔ ڈاکٹر ہلدر سے نامور جی کو یہ بھی پتہ چل گیا کہ اسلم پرویز پڑھاتا چاہے جیسا بھی ہو لیکن آدمی ذمے دار ہے اور پڑھانے کے علاوہ بہت سی تنظیمی کاموں میں بھی جی لگا کر حصہ لیتا ہے۔ بس پھر کیا تھا، نامور جی نے مرکز کے ٹائم ٹیبل اور امتحانات کا بکھیڑا میرے حوالے ایسا کیا کہ پھریہ دونوں میٹھے آم چوستے ہوئے مجھے آج پورے اکیس برس ہوگئے ہیں۔ ‘‘ (ص52)
اسلم پرویز نے نامور سنگھ کی شخصیت اجاگر کرنے کے لیے ان کے اس خط کو بھی اس خاکے میں شامل کیا ہے، جو نامور سنگھ نے اپنی بیٹی کو لکھا تھا، اس خط سے نامور سنگھ کی شخصیت اور ان کے طرز تحریر کا اندازہ ہوتا ہے، انھوں نے خط میں گفتگو کا اندا ز اختیار کیا ہے۔
’گھنے سائے‘ میں شامل ایک خاکہ’ چچی ‘ ہے۔ یہ خاکہ محلے کی اس عورت کا ہے جسے محلے والے چچی کے نام سے پکارتے تھے، ان کا نام محمد النساء تھا، حالانکہ بقول اسلم پرویز انھوں نے اپنا نام کبھی صحیح تلفظ کے ساتھ ادا نہیں کیا وہ خود کو ممّن نساں یا ممد نساں کہتی تھیں، گھریلوں کاموں میں جتنی ماہر تھیں اس کے برعکس تعلیم کے میدان میں وہ بالکل ان پڑھ تھیں۔ اسلم پرویز چچی کے متعلق لکھتے ہیں:
’’ہم نے جب سے ہوش سنبھالا ، چچی کو رانڈ ہی دیکھا۔ لیکن انھوں نے اپنا رنڈاپا جس کرّوفر سے گزارا، اسے دیکھ کر سوچنا پڑتا ہے کہ اگر کہیں ان کی جگہ ان کے میاں رنڈوے ہوگئے ہوتے تو شاید ایسی نہ گزار پاتے جیسی چچی گزار گئیں۔ چچی کے میاں ان کی جان پہ چار لڑکیوں کو چھوڑ کر سینتالیس سے پہلے ہی اللہ کو پیارے ہوچکے تھے۔ ‘‘
(ص: 62)
اسلم پرویز نے لکھا ہے کہ جب چچا کا انتقال ہوا تو گھر میں کوئی بھی قابل ذکر اور قیمتی اشیا موجود نہ تھیں۔ چچی کی خود نمائی کا ذکر کرتے ہوئے اسلم پرویز نے لکھا ہے۔
’’سائنس کی نئی نئی ایجادات نے جیسے نظام فطرت کا توازن بگاڑ کر رکھ دیا ہے، ویسے ہی چچی کے اعصاب کو بھی متاثر کردیا ہے۔ بس اور موٹر کی گھوں گھوں سے چچی کو چکر آتے تھے اس لیے وہ ان سواریوں میں کبھی نہیں بیٹھتی تھیں۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ ریل میں کبھی بیٹھی تھیں یا نہیں۔‘‘ (ص: 66)
چچی پرانے خیالات کی تھیں مگر انھیں باتیں کرنے کا بڑا شوق تھا، ایسی عورتیں آج شہروں میں تو نہیں ملتی مگر گاؤں میں آج بھی نظر آجاتی ہیں۔جو بنا مانگے اپنے مشوروں سے نوازتی رہتی ہیں۔
’’ ادھر شام کو گھر میں ٹیلی ویژن کھلا اور ادھر چچی نے اپنا برقع اٹھا کسی ایسے گھر کا رخ کیا جہاں ٹیلی ویژن نہیں تھا۔‘‘
دراصل چچی کی یہ پہچان بن گئی تھی کہ وہ دوسروں کے ہرمعاملے میں دلچسپی لیتی۔ اسلم پرویز نے لکھا ہے کہ انھیں کھانا بنانے کا بڑا شوق تھا، وہ اکثر اپنے اس شوق کو پور ا کرتے۔اگر ایسے وقت چچی وہاں آجاتی تو پھر کیا تھا ۔چونکہ چچی کو مردوں کا کھانا بنانا پسند نہیں تھا یا یوں کہیں کہ اپنی محرومیوں کا بدلہ لینے کی خاطر وہ ایسی بیویوں سے لڑتیں جن کے خاوند گھریلوں کاموں میں ان کا ہاٹھ بٹاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اسلم پرویز کو باورچی خانے میں کھانا بناتے ہوئے دیکھ ان کی بیگم سے الجھ جاتیں اور انھیں برا بھلا کہتیں۔چچی کی بھی اپنی دلیل تھی، وہ ہر بات کا جواب کچھ یوں دیتی کہ سامنے والا، لاجواب ہوجاتا۔اسلم پرویز نے ان کے آخری دنوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جب ان کی آنکھوں کی روشنی کم ہوگئی تو انھوں نے برقع پہننا چھوڑدیا تھا ، کسی نے اس کی وجہ پوچھی تو کہنے لگیں پردہ تو آنکھوں کا ہوتا ہے جب آنکھیں ہی نہ رہیں تو بھلا پردہ کس چیز کا۔چچی جب دوسروں کے گھر جاتیں تو ان کی خواہش ہوتی کہ لوگ ان کی خاطر تواضع کریں ، مگر اپنی زبان سے کچھ نہ کہتیں۔ اسلم پرویز نے خوبصورت انداز میں اس جانب اشارہ کیا ہے۔
’’چچی چا پئیں گی؟
’بو اتم پی رہی ہو تو ذری سی مجھے بھی بنادو۔‘
’چچی کھانا کھائیں گی؟‘
’ لاو کہتی ہو تو کھا لیتی ہوں، کیا پکایا ہے؟‘
’ اروی کا سالن۔‘
’ دے دو ذرا سا۔ نیبو اور گرم مسالہ بھی ہے؟‘
اب چچی کے سامنے کشتی میں کھانا لگا ہوا ہے، چچی کھاتی جارہی ہیں اور کھانے پر بے لاگ تبصرہ کرتی جارہی ہیں۔‘‘ (ص 70)
بہرکیف اسلم پرویز نے چچی کی جو تصویر پیش کی ہے وہ خاصی دلچسپ ہے۔ پروفیسر شمیم حنفی نے اپنی کتاب ’ آزادی کے بعد دہلی میں اردو خاکی‘ میں بھی اس کو شامل کیا ہے۔اس سے بھی اس خاکے کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
اسلم پرویز کی کتاب ’ گھنے سایے‘ میں ایک خاکہ استاد رسا دہلوی کا ہے۔استاد رسا دہلوی کا تعارف پیش کرتے ہوئے انھوں نے ابتدا میں ہی لکھا ہے۔
’’ استاد رسا کے بارے میں معلومات بھی اس خوشبو جیسی ہی ہیں۔چھریرا بدن، نکلتا ہوا قد، سانولا رنگ، سر پر پوری طرح منڈھی ہوئی ململ کی ٹوپی، پیشانی پر عین وسط میں ٹوپی کے کنارے کو چھوتا ہو ادہکی ہوئی رات جیسا نماز کا گٹا، ستواں ناک، ہر وقت پان کھاتے رہنے کی وجہ سے لب اور دہن گلنار، سامنے کے دانت پان کی زیادتی سے قدرے سیاہی مائل، با شرع مسلمانوں کی طر ح ترشی ہوئی لبیں، کھچڑی ڈاڑھی مگر ایسی کھچڑی جس میں چاول کی مقدار کچھ زیادہ ہو، ڈاڑھی کے بیچوں بیچ پان کی پیک کی سرخ لکیر، چہرہ لمبوترا جو سوا مٹھی ڈاڑھی سے کچھ اور لمبوترا دکھائی دیتا تھا، کالی واسکٹ اس کے نیچے معمولی سی سوتی کپڑے کی قمیض، گردن میں لٹکا ہوا بڑا سا رومال یا چادر جس کے دونوں سرے سامنے کی جانب دائیں اور بائیں طرف لٹکے ہوئے، ذرا چوڑی موری کا گاڑھے یا گزی کا اٹنگا پاجامہ، ایک بغل میں کاغذوں کا پلندہ اور دوسرے ہاتھ میں ایک چھوٹی سی چھڑی، یہ تھے، استاد رسا دہلوی۔‘‘ (ص: 73)
استادرسا دہلوی کا اصل نام سید رفیق احمد رسا دہلوی تھا۔ انھیں دہلی سے بہت محبت تھی ۔مگرانھوں نے فصیل بند علاقے کے علاوہ کسی بھی علاقے کو دہلی تسلیم نہیں کیا، یہی نہیں اسلم پرویز نے لکھا ہے کہ اس خاص علاقے یعنی فصیل بند شہر میں بولی جانے والی زبان کو ہی وہ مستند تسلیم کرتے تھے۔خود کو سید کہتے تھے، اس لیے سیدوں سے انھیں بے پناہ لگاو بھی تھا۔ اسلم پرویز نے لکھا ہے کہ سیدوں سے شاید محبت اور عقیدت ہی تھی کہ انھوں نے سائل کے بجائے بیخود کی شاگردی اختیار کی ۔ ان کی شادی ہوئی یا نہیں اس میں تو تضاد ہے مگرانھوں نے اپنے والدین اور رشے داروں کی خدمت کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔خاص طور پر اپنی ماں کی خدمت کا موقع۔
حالانکہ استاد رسا کی شخصیت کا ایک اور پہلو بھی تھا۔ اسلم پرویز لکھتے ہیں :
’’استاد رسا دہلوی کی چال اور مزاج دونوں میں بلا کا بانکپن تھا۔ وہ کڑی کمان کے تیر کی طرح چلتے تھے۔ وہ بلا کے شدت پسند تھے۔ان کے ہاں دوستی اور دشمنی کے درمیان بیچ کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ ان کے طرز زندگی پر ان کے اس اسلامی عقیدے کا پرتو تھا جہاں کفر اور ایمان کے درمیان کسی شرک، کسی بدعت کی گنجائش نہیں ہوتی۔مخالفوں کا شجرۂ نسب انھیں زبانی یاد رہتا تھا چنانچہ ایک مرتبہ استاد رسا کے ساتھ کچھ چھیڑ چھاڑ کرنے کی اسکیم بن رہی تھی۔ کسی صاحب نے کہا، خلیق انجم صاحب یہ کام آپ کریں، لیکن خلیق انجم صاحب نے ہنستے ہوئے یہ کہہ کر معذرت چاہ لی کہ حضرات میرے شجرۂ نسب میں پہلے ہی خرابی ہے، میں اسے الم نشرح نہیں کرانا چاہتا۔‘‘ (ص:76)
اسلم پرویز نے استاد رسا دہلوی کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو پیش کیا ہے۔ ان پہلوؤں کی پیش کش کا انداز خاکہ نگاری کے فن کو اعتبار بخشتا ہے۔رسا دہلوی مذہبی ہونے کے ساتھ ساتھ نیشنلسٹ بھی تھے۔ اسلم پرویز نے لکھا ہے کہ بیماری اورطبعی عمر کے باجود انھوں نے حوصلے کے ساتھ زندگی گزاری۔ پاکیزگی اور احتیاط کا یہ عالم تھا کہ اپنے مرض کا علاج ہاسپٹل میں نہیں کرایا۔ استاد رسا دہلوی کی سخاوت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اسلم پرویز نے لکھا ہے کہ حاجی میاں نے جب سردی میں انھیں ایک کمبل پیش کیا تو اسے وہ شیخ کلیم اللہ کے مزار پرسردی سے کانپ رہی ایک عورت کو دے دیا، حالانکہ انھیں خود بھی اس کمبل کی ضرورت تھی۔ممکن ہے مگر استاد رسا دہلوی جیسے لوگ ہر جگہ موجود ہوتے تھے، جن میں کم و بیش یہی خوبیاں ہوا کرتی تھیں۔استاد رسا دہلوی کے خاکے پر گفتگو کرتے ہوئے صدیق الرحمن قدوائی لکھتے ہیں۔
’’استاد رسا ادبی تاریخ میں دہلی کے ان نامی گرامی استادوں میں نہیں تھے جن کے نام سے ادب کے دبستان بن گئے بلکہ وہ جن استادوں کی آنکھیں دیکھے ہوئے تھے وہی ان کے لیے مایۂ فخر تھا۔ ان میں ایک استادانہ تمکنت تھی، رکھ رکھاؤ، برتاؤ اور خود اعتمادی کی بنا پر وہ شاعری سے دلچسپی کی بدولت بھی انھیں کوئی اپنے عہد کے استاد سے کم نہیں سمجھتا تھا۔‘‘ (ص: 14)
اسلم پرویز کی کتاب میں شامل ایک خاکہ ’ پنڈت سری واستو: ودیا پرکاش سری واستو‘ کاہے۔ پنڈت سری واستو سے اسلم پرویز کے گہرے تعلقات رہے ہیں ۔اپنے تعلقات کے متعلق خود اسلم پرویز نے خود وضاحت کی ہے۔ دونوں نے دہلی میونسپل کارپوریشن میں ایک ہی شعبے میں پانچ سال تک کام کیا تھا۔اسلم پرویز نے پنڈت سری واستو کے متعلق لکھا ہے کہ وہ ایک سچے انسان تھے۔ اسلم پرویز نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ پنڈت سری واستو جیسا شخص ہی ہندو مسلم اتحاد کا علم بردارہے۔
اسلم پرویز نے اپنی کتاب میں اردو اور دیگر زبانوں کے ماہرین پر شخصی مضامین بھی لکھے ہیں۔جن شخصیات کا ذکر انھوں نے اپنی کتاب میں کیا ہے، ان میں ایک اہم شخصیت پروفیسر مسعود حسین خان کی ہے۔ ان کے علاوہ نثار احمد فاروقی، رشید حسن خان، آل احمد سرور، پنڈت آنند نرائن ملا، گلزار دہلوی، رشید احمد صدیقی، ابو الکلام آزاد، ظ انصاری، بسمل سعیدی، خواجہ غلام السیدین،اوکتاویوپاز ، جگن ناتھ آزاد اور محی الدین قادری زور پر لکھی گئی ان کی تحریر جن میں خاکے کے ساتھ شخصیت پر مبنی مضامین شامل ہیں۔
اسلم پرویز کی زبان میں ایک فطری بہاؤ ہے۔ وہ خاکوں کو انشائیہ نہیں بناتے۔اسلم پرویز مزاح کا پہلو تلاش نہیں کرتے، بلکہ مزاح کا پہلو پیدا ہوجاتا ہے۔ یہ ایک ایسی خوبی ہے جو خیال اور نثر کے فطری اظہار سے پیدا ہوتی ہے۔پروفیسر صدیق الرحمن لکھتے ہیں :
’’اسلم پرویز کے اسلوب کا قدرتی حسن وہیں نمایاں ہوتا ہے جہاں وہ اپنی وابستگی کی بدولت اپنے تخیل کے بنائے ہوئے منظر نامے میں پورے کے پورے ڈوب جاتے ہیں۔ ان کی یہ کیفیت وہیں ہوتی ہے جہاں ان کا سابقہ ایسے لوگوں سے ہوتا ہے جو سچے، بے لاگ اور کھلی ہوئی آب و ہوا میں پھلنے پھولنے والے سدا بہار پیڑوں کی طرح ہوتے ہیں۔‘‘ (ص: 13)
پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے اسلم پرویز کی جن خوبیوں کی جانب اشارہ کیا ہے وہ مشکل سے پیدا ہوتی ہے۔آج کے قاری کے لیے یہ کتاب اس لیے بھی اہم ہے کہ اس کے ذریعے ایک ایسی نثر سے ہم واقف ہوتے ہیں، جو وقت کے ساتھ سمٹتی جارہی ہے۔ ایک طالب علم کی حیثیت سے میں نے اس کتاب کا مطالعہ کیا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ’ گھنے سایے‘ کی نثر کو اچھی نثر کہہ کربات ختم نہیں کی جاسکتی، یہ خوبیاں تو اوروں کے یہاں بھی موجود ہیں، اسلم پرویز کی نثر کی ساخت کو دہلی کی تہذیبی زندگی کا نام دینا چاہیے۔
Research Scholar
Department of Urdu
JMI, New Delhi-110025
قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں