21/1/19

عصمت چغتائی کی خاکہ نگاری مضمون نگار:۔ صبیحہ نسرین




عصمت چغتائی کی خاکہ نگاری

صبیحہ نسرین
اردو کے افسانوی ادب کی بے باک ،بلند قامت اور رہنما شخصیت عصمت چغتائی کسی تعارف کی محتاج نہیں ہیں۔ اردو افسانے کو حقیقت نگاری، جرأت مندی اور صداقت کا سبق سکھانے والی ایک عہد سازخاتون جس نے گزشتہ صدی سے لے کر دور حاضر تک کئی نسلوں کو متاثر کیا۔ ان کی نگارشات آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ ثابت ہوئیں۔ اتنا ہی نہیں سماجی تاریخ کے مرتبین کے لیے وہ ایک آئینہ حقیقت ہوں گی۔ عصمت جو بلند پایہ افسانہ نگار ،ناول نگار، ڈرامہ نگار اور مکالمہ نگار ہونے کے ساتھ ساتھ فلمی کہانی کار بھی رہی ہیں ۔ انھوں نے اردو کی مقبول عام صنف ’خاکہ نگاری‘ کو بھی منفر د رنگ و ڈھنگ اور لب و لہجے سے نوازا ہے۔ آپ کا خاکہ ’دوزخی‘ دوراول کے بہترین خاکوں میں شمار کیا جاتا ہے۔عصمت کی خاکہ نگاری پر بحث کرنے سے قبل مختصر سوانحی اور ادبی جھلک پیش کرنا مناسب ہوگا۔
عصمت خانم چغتائی21اگست1915 کو بدایوں میں پیدا ہوئیں۔ ابتدائی تعلیم آگرہ کے میونسپل اسکول میں حاصل کی، میٹرک علی گڑھ میں، بی اے آئی آئی ٹی کالج لکھنؤ میں اور بی ایڈ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں مکمل کیا۔ ملازمت کے طور پر انھوں نے ہیڈمسٹریس کا فریضہ بریلی میں انجام دیا ا ور پھر سپرٹینڈنٹ آف میونسپل اسکول ممبئی کے عہدے پر فائز ہوئیں۔آپ کی ادبی و علمی خدمات کے اعتراف میں ملک کے مقبول انعامات اور اعزاز سے بھی نوازا گیا۔ عصمت نے اکتوبر1991 میں ممبئی میں وفات پائی۔
عصمت چغتائی کی ادبی زندگی کا آغاز 1938 سے ہوا۔جو آخری وقت تک جاری رہا۔ افسانوی مجموعوں میں کلیاں1941، ایک بات 1942، چوٹیں، دوہاتھ،چھوئی موئی،بدن کی خوشبو،اور آدھی عورت آدھاخواب 1986 شامل ہیں۔ ناول میں ضدی 1941، ٹیڑھی لکیر ، معصومہ، سودائی،عجیب آدمی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ڈرامے میں فسادی، سانپ، شیطان،دوزخ وغیرہ اور فلموں میں چھیڑ چھاڑ 1943 ضدی، آرزو، بزدل، سونے کی چڑیا وغیرہ شامل ہیں۔
( تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو اردو دنیا خصوصی نمبر اگست 2015 اور عصمت چغتائی شخصیت اور فن،جگدیش ودھاون) 
موضوعاتی اعتبار سے عصمت کے افسانوی ادب کا مرکزی پہلو اور بنیادی نقطہ نظر متوسط طبقے کے مسلم گھرانوں کی زندگی ہے۔ان کے معاشی ،اخلاقی اور ذ ہنی رویے ان کے طور طریقے،اخلاق وآداب، نفسیاتی اور جذباتی کیفیات کا انکشاف،تجزیہ اور بے باک تنقید عصمت کے ادب پر غالب ہیں۔ وہ سماج کی تہہ در تہہ پرتوں کو الٹتی جاتی ہیں اور مختلف سماجی اور انسانی حقائق کو واشگاف کرتی ہیں۔ خواہ یہ کسی کو پسند ہوں یا نہ ہوں۔ وہ کسی بھی طرح کی ملمع سازی ، مصلحت پسندی اور تکلف کو ٹھکرا کر سماجی حقیقت کو آشکار کرتی ہیں۔
مجنوں گورکھپوری لکھتے ہیں :
’’ زندگی کی بالیدگیوں اور اس کی پیچیدگیوں کو اس شدید اور بے باک الہامی
صداقت کے ساتھ فن میں منتقل کر دینا فن کار کا وہ اکتساب ہے جس پر وہ بجا طور سے ناز کر سکتا ہے۔‘‘ (عصمت چغتائی نقد کی کسوٹی پر ۔۔۔ ڈاکٹر جمیل اختر ص (619
عصمت نے افسانوی سرمایہ کے علاوہ اردو کو غیر افسانوی اصناف ادب کے ضمن میں قابل قدر خاکوں سے بھی نوازا ہے، جن میں وہی باغیانہ تیور، حقیقت پسندی، جذبوں کی آنچ اور زبان واسلوب کی خلاقی کار فرما ہے، جو عصمت کے افسانوں کا طرۂ امتیاز ہے۔
مگر یہاں ’حقیقت ‘تخیل سے آزاد ہو کر ’ دنیاوی حقیقت ‘ ہے۔جس میں کمی بیشی اور زیب داستاں کے لیے مبالغہ آمیزی کی کوئی گنجائش نہیں۔عصمت نے ادبی دنیا کی مشہور شخصیات پر خاکے لکھے ہیں جن میں سب سے پہلا خاکہ ’ دوزخی ‘ ہے جو آزادی سے پہلے جون 1942 کے ساقی میں شائع ہوا۔ باقی تمام خاکے 1947 کے بعد منظر عام پر آئے جو درج ذیل ہیں :
* عشق مجازی۔ ( اسرارالحق مجاز کے متعلق ) شاہراہ مجاز نمبر مارچ 1956
* اوروہ ۔ نیا دور کراچی مارچ اپریل 1956
* میرا دوست میرا دشمن۔ ( منٹو) نقوش نمبر ، مارچ 1956
* خواجہ احمد عباس ۔ اردو کے بہترین افسانے مرتبہ پرکاشن پنڈت
* چراغ روشن ہیں ۔ ( کرشن چندر )، آدھی عورت آدھا خواب 1986
* خوابوں کا شہزادہ ۔(بنے بھائی ) پندرہ روزہ چنگاری ، نومبر 1983
* کچھ میری یادیں ۔( پطرس ) نقوش پطرس نمبر ستمبر 1959
* سوکھے پتے ۔ ( میرا جی) مفاہیم گیا ستمبر اکتوبر 1979
* کانٹوں بھری وادیاں۔ ( جاں نثار اختر ) فن اور شخصیت مرتبہ صابر دت
* میں تمھیں جانتی ہوں ۔ ( مہندر ناتھ ) 1980
( بحوالہ اردو دنیا اگست 2015ص۔ 18-19)
ان تمام خاکوں میں سب سے مشہور اور کامیاب خاکہ’ دوزخی‘ ہے ۔ جو عظیم بیگ چغتائی پر ہے۔ دوسرا قابل ذکر خاکہ منٹو کے متعلق ہے۔ مجاز کے بارے میں عصمت نے تفصیلی خاکہ لکھا ہے۔ جو فنی اعتبار سے سوانحی اور علمی مضمون سے زیادہ قریب معلوم ہوتا ہے، ان تینوں خاکوں کی روشنی میں عصمت کی خاکہ نگاری کا جائزہ ذیل میں لیا جائے گا۔اس کے علاوہ انھوں نے دلیپ کمار پر بھی خاکہ لکھا ہے۔
عظیم بیگ چغتائی ، عصمت کے بڑے بھائی ، مزاح نگار اور اردو کے بلند پایہ ادیب ہیں ۔ آپ نے ناول بھی لکھے ہیں ۔جسمانی طور سے بچپن سے ہی کمزور اور لاغر ،تاعمر دمّہ کے مرض میں مبتلا رہے۔ ’ دوزخی‘ میں عظیم بیگ کی اتنی جامع اور مکمل تصویر عصمت نے کھینچی ہے کہ قاری اردو کے ایک صاحب طرز مزاح نگار کی پوری شخصیت سے متعارف ہو جاتا ہے۔ اس میں ان کی جسمانی اور ظاہری کمزوری اور بے بسی، ذہنی افتاد ، نفسیاتی پیچیدگی، اخلاقی اور معاشرتی رویہ ، مذہب اور رسم ورواج کے تئیں ان کی لا پرواہی اور باغیانہ پن اور افراد خانہ سے تعلقات کی نوعیت سبھی کو بڑی صداقت ، ہمدردی اور غیر جانبداری کے ساتھ پیش کردیا ہے۔ عصمت نے عظیم بیگ کو صرف بھائی کی نظر سے نہیں بلکہ ایک عورت کی نگاہ سے دیکھنے کا دعویٰ کیا ہے۔مگر جذبات کی سطح پر غیر شعوری طور پر ہی سہی اپنے بھائی کے لیے محبت والفت، رحم وترس اور شفقت کے جذبے سے عاری نہیں ہیں۔اس سے عصمت کے خاکے میں کوئی نقص نہیں پیدا ہوا، بلکہ اسے معروضیت کے ساتھ یک گونہ فطری صداقت سے بھی بہر ہ ور کردیا ہے۔ ’دوزخی‘ کے اسی پہلو کی طرف منٹو کی باریک بین نگاہ گئی تھی، جب اس نے یہ لکھا تھا :
’’ تاج شاہجہاں کی محبت کا برہنہ مرمریں اشتہار معلوم ہوتا ہے۔لیکن ’’ دوزخی ‘‘ عصمت کی محبت کا نہایت ہی لطیف اور حسین اشارہ ہے، وہ جنت جو اس مضمون میں آباد ہے عنوان اس کا اشتہار نہیں دیتا۔‘‘
(عصمت چغتائی ۔ نقد کی کسوٹی پر ، ڈاکٹر جمیل اختر ، ص214)
عصمت اپنے خواہرانہ جذبات کے باوجود عظیم بیگ کے ناگوار مزاج و کردار اور ان کی مفسدانہ اور شاطرانہ چال سے بھی پردہ اٹھاتی ہیں۔ جن کے ذریعے افراد خانہ کے درمیان وہ بدگمانیاں، جھگڑے اور کشمکش پیدا کر دیتے تھے۔ عصمت کے مطابق اپنی ذہانت ، زبان درازی کے بل بوتے وہ بھائی بہن اور رشتہ داروں میں جھگڑا کروا دیتے ۔ جس کی وجہ سے سب ان سے متنفر ہو گئے۔ 
عصمت لکھتی ہیں :
’’ مرنے سے پہلے قابل رحم حالت تھی۔بہن ہو کر نہیں انسان ہو کر کہتی ہوں ،جی چاہتا تھا کہ جلدی سے مر چکیں۔ آنکھوں میں دم ہے مگر دل دکھانے سے نہیں چوکتے۔ عذاب دوزخ بن گئے ہیں ، ہزاروں کہانیوں اور افسانوں کا ہیرو ایک ویلن بن کر مطمئن ہو چکا تھا۔ وہ چاہتا تھا اب بھی کوئی اسے پیار کرے۔ بیوی پوجا کرے، بچے محبت سے دیکھیں، بہنیں واری جائیں اور ماں کلیجہ سے لگائے۔ماں نے تو واقعی پھر کلیجہ سے لگا لیا۔ بھولا بھٹکا راستہ پر آن لگا۔ آخر کو ماں تھی، مگر اوروں کے دل سے نفرت نہ گئی۔
( چوٹیں ۔ ص 163)
اس مختصر سے خاکہ میں جگہ جگہ تحلیل نفسی کے ذریعے عصمت اپنے بھائی کے اندرون میں گھس کر اس کے جذبات کو ٹٹولنے کی کوشش کرتی ہیں۔
وہ ہمیشہ اس تلاش میں ہوتی ہیں کہ ایسا کیوں ہے؟ اتنا درد سہنے کے باوجود یہ ہنسی، یہ مزاح، یہ طنز کہاں سے لاتے ہیں :
’’ وہ شخص جس کے پھیپھروں میں ناسور ، ٹانگیں عرصہ سے اکڑی ہوئی، بانہیں انجکشنوں سے گدی ہوئی، کولھے میں امرود برابر پھوڑا، آخری دم اور چیونٹیاں جسم میں لگنا شروع ہوگئیں، کیا ہنس کر کہتا ہے، یہ چیونٹی صاحبہ بھی کس قدر بے صبر ہیں یعنی قبل از وقت اپنا حصہ لینے آن پہنچیں۔یہ مرنے سے دو دن پہلے کہا تھا۔ دل چاہئے پتھر کا کلیجہ ہو۔ مرتے وقت جملے کسنے کے لیے۔‘‘
( چوٹیں۔ ص، 165)
عصمت نے عظیم بیگ کے فن اور تخلیقات پر بھی اپنے مخصوص انداز میں روشنی ڈالی ہے جو نہایت بے تکلف ، بے ساختہ اور عمیق مطالعے پر مبنی تاثرات کی صورت میں پیش کیے گئے ہیں۔ عصمت ان کی موت کے بعد ان کی کتابیں پڑھنا شروع کرتی ہیں اور پھر ان کی سیرت و شخصیت کو نظر میں رکھتے ہوئے ناول کے واقعات ، کردار اور شخصیات کا مطالعہ کرتی ہیں۔ عظیم بیگ کے فن کا اس زاویے سے تنقیدی مطالعہ’ دوزخی ‘ کو ایک نیا رنگ دیتا ہے۔ عصمت نے عظیم بیگ کی ’ خانم‘ پڑھنے کے بعد جو تاثر دیا وہ نہایت ہی دلچسپ اور اچھوتا ہے :
’’ شاید اوروں کے لیے خانم کچھ بھی نہیں۔ لیکن سوائے لکھنے والے کے باقی کے سارے کیرکٹر درست اور زندہ ہیں۔ بھائی صاحب، بھائی جان،نانی اماں،شیخانی، والدصاحب، بھتیجے، بھنگی،بہشتی یہ سب کے سب ہیں اور رہیں گے۔ یہی ہوتا تھا بالکل یہی اور اب بھی سب گھروں میں ایسا ہی ہوتا ہے۔کم از کم میرے گھر میں تو تھا اور ایک ایک لفظ گھر کی سچی تصویر ہے۔‘‘ ( چوٹیں ۔ ص 161)
’ دوزخی‘ میں اگرچہ زیادہ تر تاثراتی بیانات ہیں جو شخصیت کی تہیں کھولنے کی کوشش ہے۔واقعات کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ مگر جب عصمت واقعہ بیان کرتی ہیں تو فلمی مکالمے کا سماں بندھ جاتا ہے۔ملاحظہ کیجیے درج ذیل اقتباس جس میں عظیم بیگ کی حاضر جوابی، فکری آزادی اور بے باکی کا اظہار مکالمے کی صورت میں کیا گیا ہے :
’’ ہم ان کے افسانوں کو عموما جھوٹ کہا کرتے تھے جہاں انھوں نے کوئی بات شروع کی اور والد صاحب مرحوم ہنسے ۔پھر ’ قصرصحرا‘ لکھنے لگے وہ ان کی گپوں کو قصر صحراکہتے تھے۔ عظیم بھائی کہتے تھے سرکار دنیا میں جھوٹ کے بغیر کوئی رنگینی نہیں بات کو دلچسپ بنانا چاہوتو جھوٹ اس میں ملادو۔‘‘
وہ یہ بھی کہتے تھے جنت اور دوزخ کا بیان بھی تو قصر صحرا ہے۔ 
اس پر ماموں کہتے :۔
ارے اس زندہ لاش کو منع کرو کہ یہ کفر ہے۔ اس پر 
وہ ماموں کے توہم پرست سسرال والوں کا تمسخر اڑاتے تھے۔‘‘
( چوٹیں ۔ ص 167-168)
بہر کیف ’ دوزخی‘ اپنی گوناگوں خصوصیات کے سبب اردو ادب کا عمدہ ترین خاکہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ اسلوب بیان کی شگفتگی نے اسے نہایت ہی دلنشین اور موثر بنا دیاہے۔عصمت کے دوسرے خاکوں میں منٹو کی شخصیت پر لکھا ہوا خاکہ بھی کافی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ خاکہ منٹو کی وفات کے بعد لکھا گیا۔
عصمت اور منٹو کے درمیان فنی اور شخصی طور پر بعض چیزوں میں یکسانیت نظر آتی ہے۔بے باکی، حقیقت نگاری، رسم ورواج کی مخالفت دونوں کے افسانے کا غالب رنگ ہے۔ دونوں میں اچھی خاصی دوستی اور قربت بھی ہے ۔ منٹو کی بیوی صفیہ کی عصمت سے گاڑھی چھنتی تھی اور سہیلی تھیں۔اس قربت اور دوستی کے باوجود جب عصمت نے خاکہ ’میرادوست میرا دشمن ‘ لکھا تو منٹو کی شخصیت کو نہایت ہی دیانت داری کے ساتھ جلوہ گر کر دیا۔
منٹو کی شخصی عظمت ، فنی بلندی، بلنداخلاقی کے ساتھ ساتھ اس کی رعونت،تکبر، خودستائی، درشتی اور بدکلامی کا بھی ذکر غیر جانبداری سے کیا ۔ خاکے میں منٹوایک شفیق اور دردمند باپ، مخلص شوہر اور دوست، مہذب اور شریف النفس انسان کے طور پر نمایاں ہوتے ہیں، تو دوسری طرف شراب نوشی،بے پروائی، مصلحت پسندی اور دنیاوی مفادات کے لیے نظریات اور عقائد سے روگردانی جیسی خامیاں بھی مذکور ہیں۔گویاایک ایسا انسان جو محاسن و معائب دونوں ہی کا مجسمہ ہے اور جس کی زندگی ایک کھلی ہوئی کتاب کی صورت خاکہ کے لفظوں میں ابھرتی ہے۔ جگدیش ودھاون نے بڑی معقول بات کہی ہے :
’’ عصمت کا یہ خاکہ منٹو کی شخصیت اور فن کا ایک خوبصورت جائزہ بھی ہے اور منٹو کے تئیں اظہار عقیدت بھی۔اسی کے ساتھ یہ خاکہ اس بات پر بھی روشنی ڈالتا ہے کہ خود عصمت کے ہاں مردم شناسی کا کیا پیمانہ تھا۔ گویا اس خاکے کی مدد سے ہمیں خود عصمت کی شخصیت کے نہاں خانے تک پہنچنے میں بھی مدد ملتی ہے۔‘‘
( عصمت چغتائی فن اور شخصیت۔ جگدیش ودھاون ، ص 308-)
اردو کے مشہور شاعر اسرار الحق مجاز کی شخصیت پر لکھا ہو ا خاکہ فنی اعتبار سے مذکورہ بالا دونوں خاکوں سے کمتر ہے۔ مگر اس میں بھی عصمت کی فنکاری،اسلوب کی سادگی ، قدرت کلام اور تصویر نگاری کی خصوصیات بڑی حد تک موجود ہیں۔خاکے کی ابتدا علی گڑھ کے ماحول کے ذکر سے ہوتی ہے۔ پھر آہستہ آہستہ مجاز کی صورت ، سیرت اور شاعری سب کی ہلکی ہلکی جھلکیاں پیش کی جاتی ہے۔عصمت مجاز کی ظاہری جسمانی صورت گری کے راستے ان کی نفسیاتی تحلیل کی کامیاب کوشش کرتی ہیں :
’’ مجاز کی زندگی کی طرح ان کی صورت شکل بھی کچھ الجھی الجھی سی ہے۔ لفظوں میں نقش و نگار کا ڈھالنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا ہوا میں دائرے کھینچنے کی کوشش کرنا۔تاثرات کے چہرے پر وہ ہماہمی ہے کہ نقش و نگارکچھ سے کچھ بن کر رہ گئے ہیں۔ آنکھیں تو ہیں مگر یہ اندازہ لگانامشکل ہے کہ ان کی تہہ میں کیا ڈوبا ہوا ہے۔ ایک مبہم سی یاس و ناامیدی،مگر ساتھ ساتھ کچھ بنانے کا ارمان ،کچھ ڈھانے کا حوصلہ، کچھ الجھنیں اور پریشانیاں جو آج کل کے ہر نوجوان کا آبائی حق بن کر چمٹ گئی ہے اور ایک ناک جو ستواں کی حدوں سے کب کی گذر چکی ہے، جس کی ہڈی شاید بڑھ رہی ہے ، اور چمڑہ چھوٹا پڑتا جا رہا ہے۔اور نہایت ڈرپوک قسم کا سہاہوا دہانہ جو اپنے مالک کے جذباتی ہونے کاعلمبردار ہے۔ مجاز عجب قسم کا بزدل ہے۔ ویسے تو قلم کے بل بوتے پر وہ خون کی آندھیاں چلواسکتا ہے۔ طوفان لا سکتا ہے لیکن اگر آپ اس کے سامنے ایک منی سی چوہیا کی ٹانگ میں ڈورا باندھ کر کھردری سڑک پر گھسیٹیں تو وہ رو پڑے گا۔ پچھلے دنوں جب ملک کی چیڑ پھاڑ کا جشن بڑی دھوم دھام سے سارے ملک میں منایا جانے لگا اور جیتے جی خون کی ہولی کھیلی گئی تو وہ دماغی طور پر سہم کر کونے میں دبک گیا۔ دنیا کو ایک رشتہ میں بندھا ہوا دیکھنے کی آرزو مند آنکھوں نے جب انسانی کھوپڑیاں سڑک پڑ پتھروں سے ناریل کی طرح پھوٹتے دیکھی تو اس کی روح تک لرز اٹھی۔ وہ کئی گھنٹہ بیہوش رہا اور دنوں منھ میں نوالہ نہ ڈال سکا۔ناک نقشہ کے حساب سے ہاتھ پیر بھی ہیں۔‘‘
عصمت کا اسلوب بیان انتہائی لطیف، شگفتہ اور دل کو موہ لینے والا ہے ۔ رواں دواں نثر، مختصر فقرے، آسان عبارت، جذبوں کی صداقت اور تپش کے ساتھ قاری کو مزہ بھی دیتے ہیں، اور جگہ جگہ اسے جھنجھوڑتے ہیں اور چیلنج کرتے ہیں ۔ ادیب کا اس سے بڑا اور کیا کمال ہو سکتا ہے کہ بیک وقت وہ دل اور دماغ دونوں ہی کو اپنے بس میں کر لے اور کچھ نہ کچھ سوچنے اور محسوس کرنے پر مجبور کر دے۔
خلاصہ کلام یہ کہ عصمت چغتائی نے کم سہی مگر فنی اور موضوعاتی سطح پر اردو خاکہ نگاری کو اپنے خاکوں سے مالا مال کیا ہے۔ جذبات نگاری، شخصیات کے ظاہر و باطن کی دریافت اور مرقع کشی نے زبان وبیان کی سلاست و لطافت، اور صداقت و ظرافت کے ساتھ مل کر ایسا فن پارہ ایجاد کیا ہے جو ہمیشہ ذوق سلیم اور جذبہ بے قرار کو تسلی اور اطمینان بخشے گا۔
حوالہ جات
.1اردو دنیا خصوصی شمارہ عصمت چغتائی فکر وفن،18-19،قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان اگست 2015
.2عصمت چغتائی نقد کی کسوٹی پر ، ڈاکٹر جمیل اختر ، ص 619 ، انٹر نیشنل اردو فاونڈیشن نئی دہلی، 2001
.3عصمت چغتائی نقد کی کسوٹی پر ، ڈاکٹر جمیل اختر ، ص 214 ، انٹر نیشنل اردو فاونڈیشن نئی دہلی، 2001
.4چوٹیں، عصمت چغتائی،ص ,163 ایجو کیشنل بک ہاؤس علی گڑھ, 1982
.5چوٹیں، عصمت چغتائی،ص ,165 ایجو کیشنل بک ہاؤس علی گڑھ, 1982
.6چوٹیں، عصمت چغتائی،ص ,161 ایجو کیشنل بک ہاؤس علی گڑھ, 1982
.7چوٹیں، عصمت چغتائی،ص ,167-168 ایجو کیشنل بک ہاؤس علی گڑھ, 1982
.8عصمت چغتائی فن اور شخصیت، جگدیش ودھاون ، ص 308 ، پبلیشر جگدیش چند ودھاون 1996
.9مجاز، عصمت چغتائی، ص ,17-18کتب پبلیشر لمیٹیڈ، ممبئی، 1948

Sabiha Nasreen
Research Scholar
Department of Urdu
Jamia Millia Islamia
New Delhi - 110025





قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

اردو زبان و ادب پر فارسی کے اثرات، مضمون نگار: علی زاہد ملک

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 ہندوستان کی مقامی زبانوں اور فارسی کے امتزاج سے نئی زبان یعنی اردو کا وجود عمل میں آیالیکن فارسی کے اثرات نہ صرف...