21/1/19

اردو خاکہ نگاری کا نقش اول : آب حیات ۔ مضمون نگار:۔ محمد مقیم خان




اردو خاکہ نگاری کا نقش اول : آب حیات 
محمد مقیم خان
خاکہ نگاری بظاہر نہایت سادہ اور سہل صنف ادب معلوم ہوتی ہے۔ لیکن بغور دیکھا جائے تو فنی اعتبار سے یہ بڑی مشکل اور پیچیدہ صنف ہے خواہ زبان و بیان کی سطح پر ہو خواہ شخصیت کے انتخاب کے معاملے میں۔ خاکہ نگاری در اصل رمز و کنایے کا فن ہے۔ اگر یہ سوال کیا جائے کہ خاکہ اور سوانح میں کیا فرق ہے تو اس کا سیدھا اور آسان جواب یہ ہوگا کہ وہی جو اردو کی دیگر بیانیہ شاعری اور قصیدے میں ہے۔ خاکہ نگاری میں ایجاز و اختصار کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے اسے نثر میں غزل کا فن کہا گیا ہے لیکن خاکہ نگاری کے بعض اہم مطالبات کو دیکھتے ہوئے اسے نثر میں قصیدے کا فن کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کیوں کہ غزل سا ایجاز و اختصار خاکہ نگاری کے نقوش ہی ابھرنے نہیں دے گا۔

خاکہ نگاری کا اولین مقصد الفاظ اور زبان کے امتزاج سے ایسا بیان تشکیل دینا ہے کہ، جس کا خاکہ لکھا جائے اسے یا تو حیات نو مل جائے یا پھر حیات جاودانی۔ حیات نو اور حیات جاودانی بخشنے کے لیے خاکہ نگار کو چند بنیادی باتوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے، یعنی شخصیت کو اس کے اصلی خدوخال اور ماحول میں پیش کرے نیز تاریخی حقیقت، صداقت اور حق گوئی کا دامن چھوٹنے نہ پائے۔ یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ خاکہ نگاری کا مقصد تاریخ نگاری نہیں ہوتا اور نہ خاکہ نگار کا منصب مورخ کا ہے۔ اس لیے خاکہ نگاری میں جدلیاتی انداز بیان، قوت تخیل اور رنگینی بیان کے ساتھ ساتھ ہمدردانہ جذبات کی گنجائش بھی ہوتی ہے۔ بلکہ یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ متذکرہ عناصر کے بغیر خاکہ مکمل ہی نہیں رہتا بلکہ ایک تاریخی اور معلوماتی مضمون بن کر رہ جاتا ہے۔ متذکرہ عناصر کے بغیر خاکہ نگار موضوع کے متعلق وہ ہمدردانہ جذبات اور دلی لگاؤ پیدا کر ہی نہیں سکتا جن کی تحریک پر خاکہ نگار نے قلم اٹھایا تھا۔ لہٰذا خاکہ نگاری میں غیر جانبداری کا مطلب یہی ہوسکتا ہے کہ خاکہ نگار شخصیت کے ان پہلوؤں کو بھی من و عن نقل کردے جو خود خاکہ نگار یا کسی اور شخص کے نزدیک معیوب ہوسکتی ہیں۔ لیکن ایسے عیوب سے خاکہ نگار کا ذاتی طور پر واقف ہونا ضروری ہے یا کم از کم جس کا خاکہ لکھا جارہا ہے اس کی شخصیت کے تاریک یا ناگوار پہلو کو تاریخی مسلمات میں جگہ مل گئی ہو۔ اس لیے خاکہ نگاری میں وہ غیر جانبداری مطلوب نہیں ہوتی جو دو اشیا یا اشخاص کے درمیان تقابل کے لیے متقاضی ہوتی ہے۔ البتہ یہ دیگر بات ہے کہ دوران تذکرہ کسی ایسے شخص کا ذکر نکل آئے جس سے کسی مناقشے یا رنجش کے سبب تقابل ناگزیر ہوجائے۔ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ خاکہ نگار کو ذہنی طور پر اپنے موضوع کی زندگی اور اس کے عہد کے نشیب و فراز سے نہ صرف مکمل واقفیت ہونی چاہیے بلکہ اس کا رمز شناس بھی ہونا چاہیے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ بڑی سے بڑی شخصیت کی مرقع کشی اور سوانحی کوائف یا شخصیت کے وہ پہلو جو انسانی زندگی کے وجودی مسائل سے تعلق رکھتے ہیں، کے بیان کے لیے خاکہ نگار کی شخصیت بھی عظیم ہونی چاہیے۔ یہ دو پہلو یعنی جن عظیم شخصیتوں کا خاکہ لکھا جارہا ہے ان کی زندگی اور عہد کی رمز شناسی اور خاکہ نگار کی عظمت ’آب حیات‘ کا بنیادی اور سب سے اہم وصف ہے۔
محمد حسین آزاد نے جن عظیم شخصیتوں کی چلتی پھرتی اور بولتی چالتی تصویریں بنائی ہیں ان کی عظمتوں میں کون سے راز پوشیدہ ہیں؟ اور تاریخ ادب کے اوراق اور شاہراہ شعر و ادب پر ان کی کیا قدر و منزلت ہے، مولانا محمد حسین آزاد کے لفظوں میں ملاحظہ کیجیے :
تمھاری لکیروں کے فقیر تمھارے ہی ہجر و وصل اور خط و خال کے مضمون لیں گے۔ انھیں لفظوں کو الٹیں پلٹیں گے۔ اور تمھارے چبائے نوالوں کو منھ میں پھراتے رہیں گے . . . اے ہمارے رہنماؤ تم کیسے مبارک قدموں سے چلے تھے۔ اور کیسے برکت والے ہاتھوں سے رستے میں چراغ رکھتے گئے تھے، کہ جہاں تک زمانہ آگے بڑھتا ہے تمھارے چراغوں سے چراغ جلتے چلے جاتے ہیں۔ اور جہاں تک ہم آگے جاتے ہیں تمھاری ہی روشنی میں جاتے ہیں۔1
چونکہ ’آب حیات‘ تحقیق و تنقید کے نئے مزاج سے میل نہیں کھاتی، اس لیے بعض حضرات کے نزدیک یہ کتاب تذکرہ نگاری کا ایک نیا انداز ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اس حوالے سے ’آب حیات‘ تذکرہ نگاری اور تحقیق و تنقید کے نئے مزاج کے درمیان عبوری حیثیت کی حامل ہے۔ بعض ارباب فکر و فن نے ’آب حیات‘ کی رنگین بیانی، شوخی و لطافت اور ظریفانہ جملوں کی وجہ سے اس کو ایک ادبی کارنامہ سمجھا اور تخلیقی ادب کے زمرے میں رکھا ہے۔ دوسرے لفظوں میں انشا پردازی کا شاہکار سمجھتے ہیں۔ انشا پردازی کے حوالے سے ’آب حیات‘ کی حیثیت مسلم ہے اور یہی اس کی بے پناہ مقبولیت اور بقاے دوام کا سبب بھی ہے۔ ’آب حیات‘ کی بقاے دوام کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ اس میں شعراے اردو کی سیرت، عادات و اطوار، رہن سہن، مشاغل حیات اور روزگار کے آسائش و آلام کا مفصل بیان ہے۔ اس مفصل بیان کی اہمیت اور محمد حسین آزاد کی انشا پردازی نے کتاب کو آب حیات سے لبریز جام بنا دیا ہے۔ یہی وہ عناصر ہیں جنھوں نے ’آب حیات‘ کو خاکہ نگاری کا اولین اور مکمل نقش بنا دیا ہے۔ آخر ’آب حیات‘ کو خاکہ نگاری کی جھلکیاں کیوں قرار دیا جائے؟ جب کہ محمد حسین آزاد نے تالیف کتاب کے محرکات کا ذکر بڑی درد مندی سے کرتے ہوئے لکھا ہے :
جن جوہریوں کے ذریعہ سے یہ جواہرات مجھ تک پہنچے، وہ تو خاک میں مل گئے۔ جو باقی ہیں وہ بجھے چراغوں کی طرح ایسے ویرانوں میں پڑے ہیں کہ ان کے روشن کرنے کی یا ان سے روشنی لینے کی کسی کو پروا نہیں۔ پس یہ باتیں کہ حقیقت میں اثبات ان کے جوہر کمالات کے ہیں۔ اگر اسی طرح زبانوں کے حوالے رہیں تو چند روز میں صفحۂ ہستی سے مٹ جائیں گی، اور حقیقت میں یہ حالات نہ مٹیں گے۔ بلکہ بزرگان موصوف دنیا میں فقط نام کے شاعر رہ جائیں گے۔ جن کے ساتھ کوئی بیان نہ ہوگا جو ہمارے بعد آنے والوں کے دلوں پر یقین کا اثر پیدا کرسکے۔ ہر چند کلام ان کے کمال کی یاد گار موجود ہیں۔ مگر فقط دیوان جو بکتے پھرتے ہیں بغیر ان کے تفصیل حالات کے اس مقصود کا حق پورا پورا نہیں ادا کرسکتے۔ نہ اس زمانہ کا عالم اس زمانہ میں دکھا سکتے ہیں۔ اور یہ نہ ہوا تو کچھ بھی نہ ہوا۔ 2
مندرجہ بالا اقتباس سے عیاں ہے کہ مصنف موضوع کے تعلق سے قاری کے دل میں بھی ویسا ہی لگاؤ پیدا کرنا چاہتا ہے جیسا کہ خود اس کے دل میں ہے، وہی ہمدردانہ جذبات اُبھارنا چاہتا ہے جو اس کے سینے میں موجزن ہیں۔ محمد حسین آزاد ان بزرگوں کے حالات، سیرت اور عادات و اطوار کس طرح لکھیں گے؟ انھیں کے لفظوں میں ملاحظہ کیجیے :
جہاں تک ممکن ہو اس طرح لکھوں کہ ان کی زندگی کی بولتی چالتی پھرتی چلتی تصویریں سامنے آن کھڑی ہوں۔ اور انھیں حیات جاوداں حاصل ہو۔3
ان بزرگوں کی باتیں تو ان کے شعروں سے سن بھی سکتے ہو۔ مگر حیران ہوں کہ صورت کیوں کہ دکھا دوں۔ اول تو حرفوں میں تصویر کھینچنی مشکل۔ اس پر میں زبان کا اپاہج۔ اس رنگ کے الفاظ کہاں سے لاؤں جو ایسے لوگوں کی جیتی جاگتی بولتی چالتی تصویر کھینچ دکھاؤں کہ ادب کی آنکھ ان کی متانت پر نظر نہیں اٹھا سکتی۔ اور محبت کی آنکھ ان کی پیاری حالت پر سے نگاہ نہیں ہٹا سکتی۔ 4
خاکہ نگاری کے فن کے حوالے سے شمیم حنفی نے ایجاز و اختصار کے ساتھ بڑی اہم باتیں درج کی ہیں جو کہ’آب حیات‘ پر پوری طرح منطبق ہوتی ہیں:
خاکہ نگاری تاریخ اور تخیل سے یکساں تعلق رکھتی ہے۔ لکھنے والا جب کسی شخصیت کو موضوع بناتا ہے تو واقعات، سوانح، خارجی مشاہدات کے ساتھ ساتھ اپنے تاثرات اور قیاسات سے بھی مدد لیتا ہے۔ اسی لیے خاکہ ایک جیتی جاگتی، حقیقی شخصیت کی تصویر ہوتے ہوئے بھی افسانے جیسی دلکشی اور دلچسپی کا سامان رکھتاہے اور پڑھنے والا اسے گویا کہ بیک وقت واقعے کے طور پر بھی پڑھتا ہے اور کہانی کے طور پر بھی۔ چنانچہ ایک کامیاب خاکہ جو اس صنف کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو، ہماری فکر اور ہمارے احساسات، دونوں سے رشتہ قائم کرتا ہے۔ اس صنف کے مطالبات فکری بھی ہوتے ہیں اور تخلیقی بھی۔ 5
خاکہ نگاری کے حوالے سے بات کی جائے تو ہمیں ’آب حیات‘ کو جدا جدا دیکھنے کے بجاے ایک اکائی کی صورت میں دیکھنا ہوگا۔ اس طرح ’آب حیات‘ افراد کا خاکہ نہیں بلکہ ایک عہد کا خاکہ محسوس ہوگی۔ تاریخی یا سیاسی نہیں بلکہ ادبی عہد کا خاکہ، جس میں سانس لینے والے باکمال شعرا کی بدولت پورا دور ایک متنفس معلوم ہوتا ہے، جس کی دھڑکنیں ہم اپنے سینوں میں محسوس کرسکتے ہیں، جس کے تنفس کی آنچ ہم اپنے عہد میں بھی محسوس کرسکتے ہیں۔ یہ اس کتاب کا ایک ایسا بنیادی وصف ہے جس کی سمت پروفیسر شمیم حنفی نے بھی اشارہ کیا ہے۔ وہ اس بات کو کہنے میں حق بجانب ہیں کہ محمد حسین آزاد کی خلاقی مجرد خیالات کو بھی تشبیہوں میں منتقل کرسکتی ہے۔ اور ان کی اس خلاقی کا سب سے موثر اظہار’آب حیات‘ میں ہوا ہے، جہاں محمد حسین آزاد نے تصورات کی تبدیلی اور ارتقا کے مناظر کو متحرک تصویروں میں بدل دیا ہے۔ 6 یہاں اس بات کی وضاحت کردی جائے تو بہتر ہوگا کہ اس ارتقا میں تاریخ، تہذیب، ذہن و فکر اور ادبی رویے اور سروکار سبھی کچھ شامل ہے۔ اس طرح ’آب حیات‘ کی خاکہ نگاری دو سطحوں پر متشکل ہوتی ہے۔ ایک تو مختلف ادوار کے شعرا کا خاکہ اور پھر یہ مختلف خاکے مل کر ایک ادبی عہد کے خاکے کو جنم دیتے ہیں۔
خاکہ نگاری کے لیے محض اتنا ہی کافی نہیں کہ جس شخصیت کا خاکہ لکھا جارہا ہے اس کی زندگی کے تمام اسرار و رموز سے واقفیت ہوجائے۔ یہ کام تو سوانحی مضمون سے بھی بخوبی پورا ہوجاتا ہے۔ خاکہ نگار کو شخصیت کے تمام کوائف کی واقفیت کے توسل سے اپنی قوت متخیلہ کو بروے کار لاتے ہوئے خاکے میں ایک نئی روح پھونکنی پڑتی ہے جو تاریخی اور علمی سنجیدگی کے علاوہ شگفتگی کی حامل ہوتی ہے۔ موضوع کے تئیں ہمدردی اور اس کو برتنے میں شگفتگی ہی خاکے میں اس پہلو کو اجاگر کرتی ہے جس سے قاری اور کردار میں زمانی بُعد کے باوجود قاری خود کو اس ماحول میں پاتا ہے جو خاکہ نگار نے تشکیل دیا ہے یا کم از کم اس ماحول کا خود کو متمنی پاتا ہے۔ مثلاً ’آب حیات‘ کے درج ذیل اقتباسات ملاحظہ کیجیے :
نظم اردو کے عالم کا پہلا نوروز ہے۔ نفس ناطقہ کی روح یعنی شاعری عالم وجود میں آئی تھی مگر بچوں کی نیند پڑی سوتی تھی۔ ولی نے آکر ایسی میٹھی میٹھی آواز سے غزل خوانی شروع کی کہ اس بچے نے ایک انگڑائی لے کر کروٹ لی . . . گھر گھر شاعری کا چرچا ہے . . . دیکھو جلسہ مشاعرہ کا امرا و شرفا سے آراستہ ہے۔ معقول معقول بڈھے اور جوان برابر لمبے لمبے جامے۔ موٹی موٹی پگڑیاں باندھے بیٹھے ہیں کوئی کٹارہی باندھے ہے۔ کوئی سیف لگائے ہے۔ بعض وہ کہن سال ہیں کہ جن کے بڑھاپے کو سفید ڈاڑھی نے نورانی کیا ہے بعض ایسے ہیں کہ عالم جوانی میں اتفاقاً ڈاڑھی کو رخصت کیا تھا۔ اب کیوں کر رکھیں کہ وضع داری کا قانون ٹوٹتا ہے۔ اس پر خوش مزاجی کا یہ عالم ہے کہ ان کے بڑھاپے کی زندہ دلی سے آج نوجوانوں کی جوانی پانی پانی ہوتی ہے۔ ان شوخیوں سے انھیں کچھ اور مطلب نہیں ہے۔ مگر یہ کہ اپنے اوپر آپ ہنسیں اور اوروں کو خوش کریں۔7
اس فصل میں زبان کے حسن قدرتی کے لیے موسم بہار ہے یہ وہ وقت ہے کہ مضامین کے پھول گلشن فصاحت میں اپنے قدرتی جوبن دکھا رہے ہیں۔ حسن قدرتی کیا شے ہے؟ ایک لطف خدا داد ہے، جس میں بناؤ سنگھار کا نام بھی آجائے تو تکلف کا داغ سمجھ کر سات سات پانی سے دھوئیں۔ 8
ان صاحب کمالوں کی آمد آمد ہے جن کے پا انداز میں فصاحت آنکھیں بچھاتی ہے اور بلاغت قدموں میں لوٹی جاتی ہے . . .جب یہ باکمال چمن کلام میں آئے تو اپنے بزرگوں کی چمن بندی کی سیر کی۔ فصاحت کے پھول کو دیکھا کہ قدرتی بہار میں حسن خداداد کا جوبن دکھا رہا ہے۔ 9
قہقہوں کی آوازیں آتی ہیں۔ دیکھنا اہل مشاعرہ آن پہنچے۔ یہ کچھ اور لوگ ہیں ع 
ان کا آنا غضب کا آنا ہے
ایسے زندہ دل اور شوخ طبع ہوں گے کہ جن کی شوخی اور طراری طبع بار متانت سے ذرا نہ دبے گی۔ اتنا ہنسیں اور ہنسائیں گے کہ منھ تھک جائیں گے۔ مگر نہ ترقی کے قدم آگے بڑھائیں گے نہ اگلی عمارتوں کو بلند اٹھائیں گے۔ انھیں کوٹھوں پر کودتے پھاندتے پھریں گے۔ ایک مکان کو دوسرے مکان سے سجائیں گے۔ اور ہر شے کو رنگ بدل بدل کر دکھائیں گے۔ وہی پھول عطر میں بسائیں گے۔ کبھی ہار بنائیں گے کبھی طرے سجائیں گے کبھی انھیں کو پھولوں کی گیندیں بنالائیں گے اور وہ گلبازی کریں گے کہ ہولی کے جلسے گرد ہوجائیں گے۔ ان خوش نصیبوں کو زمانہ بھی اچھا ملے گا۔ ایسے قدردان ہاتھ آئیں گے کہ ایک ایک پھول ان کا چمن زعفران کے مول بکے گا۔ 10
دیکھنا ! وہ لالٹینیں جگمگانے لگیں اٹھو اٹھو استقبال کر کے لاؤ۔ اس مشاعرے میں وہ بزرگ آتے ہیں جن کے دیدار ہماری آنکھوں کا سرمہ ہوئے۔ اس میں دو قسم کے باکمال نظر آئیں گے۔ ایک وہ کہ جنھوں نے اپنے بزرگوں کی پیروی کو دین آئین سمجھا۔ یہ ان کے باغوں میں پھریں گے۔ پرانی شاخیں زرد پتے کاٹیں چھاٹیں گے اور نئے رنگ نئے ڈھنگ کے گلدستے بنا بنا کر گلدانوں سے طاق و ایوان سجائیں گے۔ دوسرے وہ عالی دماغ جو فکر کے دخان سے ایجاد کی ہوائیں اڑائیں گے اور برج آتشبازی کی طرح اس سے رتبہ عالی پائیں گے . . . بعض بلند پرواز ایسے اوج پر جائیں گے، جہاں آفتاب تارا ہوجائے گا . . . وہ اپنے آئین کا نام خیال بندی۔ اور نازک خیالی رکھیں گے۔ مگر حق یہ ہے کہ شاعری ان کی ساحری اور خود اپنے وقت کے سامری ہوں گے۔ 11
’آب حیات‘ کے پانچ ادوار سے یہ پانچ اقتباس دو مقاصد کے حصول کے لیے درج کیے گئے ہیں۔ پہلا تو یہ کہ قاری ان تحریروں کو پڑھنے کے بعد یا تو خود اس ماحول میں پہنچ جاتا ہے یا اس ماحول کا متمنی ہوتا ہے۔ دوسرا مقصد اس بات کو مدلل بنانا ہے کہ ’آب حیات‘ محض افراد کا خاکہ نہیں ہے بلکہ ایک عہد کا خاکہ ہے۔ محمد حسین آزاد اپنی تمہیدوں کے ذریعے قاری کے دل میں ہمدردانہ جذبات کو جلا بخشتے ہیں۔ قاری اس پورے عہد کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتا ہے۔ یہ پانچوں ادوار ایک اکائی معلوم ہوتے ہیں اور یہ اکائی ایک کردار کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ یہ کردار دوسروں کے لیے مثالی اور قابل تقلید ہے اور اس میں بعض ایسی باتیں ہیں جو لوگوں کے لیے دلچسپی کا باعث ہیں۔ محمد حسین آزاد اپنے اس کردار (عہد) کو فرشتہ صفت بنا کر پیش نہیں کرتے بلکہ اس کی خامیوں کے ساتھ قبول کرتے ہیں البتہ نقائص (اگر ہیں تو)پر ہمدردانہ نظر ڈالتے ہیں اور اپنے قاری سے (جس کا دماغ انگریزی لالٹینوں سے روشن ہے) بھی یہی توقع رکھتے ہیں :
ہر شے اپنی مختلف کیفیتوں میں خوبصورتی اور بد صورتی کا ایک عالم رکھتی ہے۔ پس انسان وہی ہے کہ جس پیرایہ میں خوبصورتی جوبن دکھائے۔ یہ اس سے کیف اٹھائے۔ نہ کہ فقط حسینوں کے زلف ورخسار میں پریشان رہے۔ خوش نظر اسے نہیں کہتے کہ فقط گل و گلزارہی پر دیوانہ پھرے۔ نہیں! ایک گھاس کی پتی بلکہ سڈول کانٹا خوشنما ہو تو اس کی نوک جھوک پر بھی پھول ہی کر طرح لوٹ جائے۔12
تھوڑی دیر کے لیے اگر ہم یہ تسلیم کرلیں کہ ’آب حیات‘ میں شعرا کے مرقعے، خاکے نہیں ہیں، تب بھی، یہ بات بغیر کسی تردد کے کہی جاسکتی ہے کہ کوئی مسلم الثبوت خاکہ نگار بھی ان مرقعوں اور خیالی تصویروں کے مرتبے کو نہیں پہنچا۔ یعنی باوجود مسلم الثبوت خاکہ نگار ہونے کے، قدیم و جدید طرزوں اور فکروں کا واقف کار ہونے کے، اپنے فن کا وہ اظہار نہیں کرسکا جو فن کی معراج کہلا سکے۔ ثریا کا اوج ’آب حیات‘ ہی کا حصہ ہے۔ اس کی سب سے بنیادی وجہ یہ ہے کہ آزاد شخصیت کی رعایت سے الفاظ کا انتخاب کرنے کے ساتھ ساتھ لفظوں میں بھی باہم رعایتوں اور مناسبتوں کا خیال رکھتے ہیں۔ لفظوں کے تمام انسلاکات کو پورے فنی رچاؤ کے ساتھ اپنے جملوں میں درج کرتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ محمد حسین آزاد لفظوں کو برتنے کے کسی امکان کو خالی نہیں جانے دینا چاہتے اور رعایتوں و مناسبتوں کے بغیر لقمہ نہیں توڑتے۔ یہاں میں ایک مختصر اقتباس پر اکتفا کروں گا کیوں کہ گذشتہ اقتباسات سے بھی یہ بات عیاں ہے جس کا میں نے ذکر کیا ہے :
انھوں نے اور ان کے ہم عصر خواجہ حیدر علی آتش نے خوبی اقبال سے ایسا زمانہ پایا جس نے ان کے نقش و نگار کو تصاویر مانی و بہزاد کا جلوہ دیا۔ ہزاروں صاحب فہم دونوں کے طرفدار ہوگئے اور طرفین کو چمکا چمکا کر تماشے دیکھنے لگے۔ لیکن حق پوچھو تو ان فتنہ انگیزوں کا دونوں کو احسان مند ہوناچاہیے کیوں کہ روشنی طبع کو اشتعالک دیتے ہیں۔ 13
’آب حیات‘ کے حوالے سے پروفیسر شمیم حنفی نے اپنے گراں قدر خیالات کا اظہار حسب ذیل کیا ہے: 
خاکہ نگاری کے اعتبار سے بھی آب حیات ایک اہم دستاویز ہے کہ آزاد نے تنقید و تاریخ کے ساتھ ساتھ جابہ جا شخصیتوں کے مرقعے بھی پیش کیے ہیں۔ آزاد کی علمی جستجو ایک مستقل تخلیقی جستجو بھی رہتی تھی . . . آزاد تصورات کی تبدیلی اور ارتقا کا منظر یوں پیش کرتے ہیں کہ آتے جاتے جلوس آنکھوں کے سامنے سے گزرنے لگتے ہیں . . . آب حیات میں ہر دور کی شاعری کے امتیازی نشانات کی پیش کش بھی آزاد نے اسی واقعاتی انداز میں کہی ہے۔ ان کا قلم غیر مرئی اور غیر متحرک اشیا تک کو ذی روح بنا کر سامنے لانے کی طاقت رکھتا تھا۔ چنانچہ شاعروں کے کلام سے قطع نظر، جب وہ ان کی شخصیت پر توجہ کرتے ہیں تو اس طرح کہ یہ شخصیتیں زندہ تشبیہیں بن جاتی ہیں اور پڑھنے والا ان کی قربت کی آنچ محسوس کرنے لگتا ہے. . . انھوں نے چند لکیروں سے پوری تصویر کھینچ دی ہے . . . ان میں انسانی ہستی کا ایک عجیب و غریب تماشا سمٹ آیا ہے۔ 14
خاکہ نگاری کے ضمن میں محمد حسین آزاد کے کمال کی بات کی جائے تو یہ نکتہ نہایت اہم ہے کہ خاکہ نگار اور وہ شخص جس کا خاکہ لکھا جارہا ہے دونوں میں قربتوں کا کوئی نہ کوئی رشتہ ضرور قائم ہونا چاہیے۔ یعنی دیرینہ تعلقات یا ایسی معاصرت جس میں خاکہ نگار اپنے موضوع کا مشاہدہ کرتا رہا ہو، خواہ دور ہی دور سے۔ لیکن محمد حسین آزاد نے جن ادوار اور جن اشخاص کا بیان کیا ہے، اس میں چند ہی ایسے ہوں گے جن سے ان کی ملاقات ہوئی ہو یا ہم جلیسی کا شرف حاصل ہوا ہے۔ اس کے باوجود محمد حسین آ زاد نے ان اشخاص کے خاکے، حلیے اور مرقعے اس طرح کھینچے ہیں کہ، زمانی ابعاد کے کوئی معنی نہیں رہ گئے اور وہ تمام زمانی و مکانی دوریوں سے ایسے بخیر گذر گئے گویا وہ ان راہوں کے پرانے اور مشاق راہ نورد ہوں۔
حوالے :
.1 آب حیات، محمد حسین آزاد، اتر پردیش اردو اکادمی، لکھنؤ، 2003، چھٹا ایڈیشن، ص: 527تا 528
.2 ایضاً، ص: 2تا 3
.3 ایضاً، ص:4

.4 ایضاً، ص: 81
.5 آزادی کے بعد دہلی میں اردو خاکہ نگاری، شمیم حنفی، اردو اکادمی دہلی، 1999، تیسرا ایڈیشن، ص: 9تا 10
.6 ایضاً، ص: 12
.7 آب حیات، ص: 81
.8 ایضاً، ص: 106
.9 ایضاً، ص: 123
.10 ایضاً، ص: 221
.11 ایضاً، ص: 325
.12 ایضاً، ص: 82
.13 ایضاً، ص: 341
.14 آزادی کے بعد دہلی میں اردو خاکہ نگاری، ص: 12تا13

Mohd. Mukeem Khan
A-10, Batla House Chowk
Jamia Nagar, Okhla
New Delhi - 110025 






قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں