ماجد الٰہ آبادی: شخصیت و شاعری
ندیم
احمد
ماجدالٰہ آبادی کااصل نام سید ماجد علی تھا۔ ان کی پیدائش 1888 میں الٰہ آباد میں ہوئی۔ ان کے والدمحترم سید صاحب علی ایک طبیب تھے۔ جن کا انتقال اس وقت ہوا جب ماجدکی عمر صرف 5سال تھی لہٰذا ماجد کی پرورش کی ذمہ داری ان کے بڑے بھائی اوربڑی بہن پر عائد ہوگئی جسے دونوں نے مل کر بحسن وخوبی انجام تک پہنچا۔1902 میں ماجدانگریزی اسکول میں داخل کرائے گئے۔ اس کے بعدانہوں نے 1912 میں بی اے اور 1914 میں وکالت کا امتحان امتیازی نمبرو ں کے ساتھ پاس کیا۔ وکالت مکمل کرنے کے بعد ایک سال تک وہ اپنے بڑے بھائی سید عابد علی کے ساتھ کام کرتے رہے مگر 1915 سے انھوں نے آزادانہ طورپر خود وکالت کرنے کافیصلہ کیا۔ جہاں قسمت نے ان کا ساتھ دیا اورماجد کو اس پیشہ میں اتنی کامیابی نصیب ہوئی کہ آپ 1929 میں الہ آبادکی ذیلی عدالت میں سرکاری وکیل مقرر ہوگئے اورتاحیات اسی عہدہ پرفائز رہے۔ مئی 1935 میں حکومت کی جانب سے آپ کو’ خاں صاحب‘ کے خطاب سے سرفراز کیا گیا اس وقت آپ یورپ کے سفر پر تھے اور9 جولائی 1935 کو ہندوستان لوٹنے پر آپ نے اپنے کام کو اوربھی تیز کردیا مگر اسی سال 12اگست کو آپ اچانک اس قدر علیل ہوئے کہ پھر بستر سے نہ اٹھ سکے، طبیعت دن بہ دن بگڑتی چلی گئی اورہائی بلڈپریشر کے موذی مرض نے 25مئی 1936 کو رات ایک بج کر 47منٹ پر اس اہم شاعر کو موت کے آغوش میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پہنچادیا۔
ماجد نے صرف ایک دیوان’ یادگار ماجد‘ کے نام سے چھوڑا ہے جس میں ان کی 148 غزلیں،چند قصائد کے علاوہ کچھ نظمیں اورایک مرثیہ شامل ہے اسے انڈین پریس الہ آباد نے بڑی آب وتاب کے ساتھ ان کے انتقال کے فوراً بعد شائع کیا تھا۔
ماجد الٰہ آبادی کے بارے میں یہ بات بھی کافی مشہورہے کہ وہ غضب کا حافظہ رکھتے تھے کالج کے زمانے میں وہ جماعت میں دیے جانے والے لیکچر کو نوٹ بک میں کبھی تحریر نہیں کرتے تھے بلکہ یوں ہی ذہن نشین کرلیا کرتے تھے اورامتحان میں جواب لکھتے وقت اسی مواد کو جوں کا توں لکھ دیا کرتے تھے اوراس میں ایک لفظ کا بھی فرق نہیں ہوتا تھا۔ شاعری میں بھی ان کایہی حال تھا وہ 100 سے زائد اشعار کی نظمیں حسب معمول سامعین کو بغیر رکے یوں ہی سنادیا کرتے تھے۔
آپ کا غزل لکھنے کا طریقہ بھی کافی جداگانہ تھا۔ کبھی کبھی تواسی مشاعرے میں بیٹھ کر ہی وہاں سنانے کے لیے پوری کی پوری غزل یا کئی قطعات بھی لکھ ڈالتے تھے اورکبھی مشاعرے کے لیے جاتے ہوئے راستے ہی میں کئی شعرکہہ ڈالتے اور انھیں جاکر ایسے ہی پڑھ دیتے تخیل کایہ عالم تھا کہ جوکچھ لکھنا یاپڑھنا ہوتا ایک آدھ گھنٹے میں تیار کرلیتے۔
ابتدا میں وہ’ میر علی عبادنیساں‘ سے اصلاح لیا کرتے تھے مگربعدمیں خودہی مشق سخن جاری رکھا اور باکمال ہوگئے۔ ماجد نے اپنی شاعری کا باقاعدہ آغاز 1914 میں مسلم بورڈنگ ہاؤس الہ آباد کے ایک مشاعرے میں پڑھی اپنی اس غزل سے کیا تھا جس کا یہ شعر الہ آباد کے لوگوں کوعرصہ دراز تک زباں زد رہا
یہ کس نے چاندنی کی سیر میں رخ سے نقاب الٹی
چکوروں کی پھری جاتی ہیں نظریں ماہ کامل سے
اسی نوعیت کا یہ شعر بھی ملاحظہ فرمائیے جس میں انتظار کی کیفیت کو کتنی خوبصورتی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے
سانس بھی جیسے ہوتھمی، تارے بھی جیسے ہوں رکے
آہ!کچھ ایسی کیفیت ہوتی ہے انتظار میں
ماجد بنیادی طورپر حسن وعشق کے شاعرہیں جو محبوب کے حسن کی جم کر تعریف کرنے کے فن سے بخوبی آشناہیں۔ ساتھ ہی معاملات عشق سے جڑی چھوٹی سے چھوٹی بات پر بھی ان کی باریک بیں نگاہ جیسے ٹکی رہتی ہے۔ وہ عشق سے متعلق ہرہرکیفیت سے لطف حاصل کرتے ہیں اور قاری کو بھی لطف بہم پہنچاتے ہیں
سارا جہان ان کو ازل سے عطا ہوا
اور ایک دل ملا ہمیں، سب کے جواب میں
کیا بات تھی معلوم نہیں ان کی نظر میں
اک پھانس سی چبھتی ہے اسی دن سے جگرمیں
وہ لڑکپن کا تھا حسن اوریہ جوانی کی بہار
تل یہی پہلے بھی تھا رخ پر مگر قاتل نہ تھا
تمنا ئے دل وحشی کی اپنے بس یہی حدہے
کہاکرتے ہم اپنا حال دل اورتم سنا کرتے
پیشوائی کو بڑھاجاتا ہے اپنا درد دل
خانہ دل میں جو آمد ہے تمہارے تیرکی
منزل عشق وہ منزل ہے کہ اس میں ماجد
ایک بس درد جگر راہ نما ہوتا ہے
ان اشعار کے مطالعے کے بعد یہ اندازہ ہوجاتاہے کہ شاعر عشق کی لذتوں کو حاصل کرنے میں کس قدر اپنے تخیل وتفکر کا استعمال کررہا ہے ساتھ ہی عشق کے حقائق اوراس کے نتائج سے وہ کس قدر آشناہے۔
علاوہ ازیں ماجد کی یہ خوبی ہے کہ انہوں نے اپنی غزلوں اورنظمو ں میں ’صیاد‘ اور’ آنکھ‘ جیسے الفاظ کا استعمال کرکے اشعار میں فکری شان، معنویت اور خوبصورتی پیدا کرنے کی باربار کوششیں کی ہیں۔ ان کی غزلوں اور نظموں کا مطالعہ کرتے وقت ہمیں درجنوں ایسے اشعارمل جاتے ہیں جن میں آنکھ اورصیاد کا ذکرہے
رات کو میں نے قفس میں چونک کر فریاد کی
کروٹیں بدلا کیا، نیند اڑگئی صیادکی
صیادمیرے پربھی رکھ دے وہیں توجاکر
جس جاچمن میں کچھ کچھ اٹھتاہوا،دھواں ہو
توکیا جانے بھلا صیاد قدر ان چار تنکوں کی
میری آنکھوں میں مرتے دم تک بھی مرا آشیاں ہوگا
ملاکر آنکھ جس کو تم اک نظر دیکھ لیتے ہو
وہ کہتا ہے قیامت تک یہی تصویر دیکھیں گے
آنکھوں سے جب قفس میں ٹپکنے لگا لہو
سمجھے یہ ہم کہ آگیا موسم بہارکا
نگاہ ناز کے جلوے سمائے ایسے آنکھوں میں
کوئی محفل بھی ہو، ہم تیری ہی محفل سمجھتے ہیں
ماجد کے نزدیک آنکھ ایک طرف تومحبوب کے حسن اوراس کی جلوہ گری کی علامت ہے اوردوسری طرف زندگی کے غموں اور مسرتوں کو عیاں کرنے کا اہم وسیلہ بھی ہے۔ جبکہ زندگی کو وہ ایک قید سے تعبیر کرتے ہیں جس میں صیاد کا وجود خالق کائنات نے الگ الگ صورتوں میں علیحدہ علیحدہ کام لینے کے لیے پیش کیا ہے۔
ماجد کی نظموں کے بیشتر اشعار میں انانیت سے متعلق موضوعات کی بھی کثرت رہی ہے مگران کی یہ انانیت کسی قسم کا کوئی مستند دعوی پیش نہیں کرتی لیکن ان کی شاعرانہ عظمت اورصاف گوئی کی جانب ہماری توجہ ضرور مبذول کراتی ہے ساتھ ہی ان کے شعروسخن کو ادبی معیاروتناظر کے تحت باریک بینی سے مطالعہ کرنے کی مسلسل ترغیب بھی دیتی ہے
مختصر لفظوں میں کہہ دینا تیرا ہی کام تھا
بات بھی ہوتی تھی اور پیغام کا پیغام تھا
لوگ آیا کرتے تھے تجھ ہی سے سننے کے لیے
جوکہا تونے زباں سے وہ صلائے عام تھا
یوں توکل دیوان گویا ایک سراپا دردہے
سمجھے گا اتنا وہ جس کے دل میں جتنا درد ہے
لوگ سب چیزوں سے پیاری جانتے ہیں جان کو
جان سے بڑھ کر وہ جانیں گے تیرے دیوان کو
ماجد نے فارسی میں بھی چند غزلیں کہی ہیں اور ایک نظم بعنوان’ منصوری ‘ لکھی ہے۔ ان کے فارسی کلام میں بھی وہی سادگی، سلاست وروانی موجودہے جو ان کی اردو شاعری میں ملتی ہے۔ مثال کے طورپر ان کی فارسی نظم کے یہ اشعار دیکھیے
چوں ابر گہہ گریاں، چوں برق گہہ خنداں
لغذیدہ قدم آید دیوانہ بہ کوے تو
ازہستی عالم چیز نہ جبر دارم
قلب من دیار تو، چشم من وروے تو
بہ نازاں چوں سربالیں من بے آمددوست
دہن ببستم وہر موے راز داں کردم
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ماجد کی شاعری حقیقی معنوں میں پراثر شاعری ہے۔ حالانکہ ان کے یہاں موضوعاتی طورپر فلسفیانہ یا پھر حکیمانہ نقطہ نظرکا فقدان توہے مگرپھر بھی ماجد نے اپنی غزلوں اورنظموں میں فنی اعتبار سے لکھنؤکے روایتی اورقدیم شعراکی پاسداری کی ہے۔ مناظر فطرت کی تصویر کشی ماجد نے بہت ہی موثر اندازمیں کی ہے۔ انسانی جذبات ونفسیات پر ان کی گہری نظرہے آپ کی زبان صاف ستھری اورشائستہ ہے جولگاوٹ وبناوٹ سے عاری ہے۔ تشخص الفاظ کا ہنر وہ بخوبی جانتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کی بیشتر غزلوں میں نغمگی کا احساس ہوتا ہے۔ ماجدؔ ایک بے باک شاعر تھے جس نے کبھی صنعتی بازی گری سے کام نہ لیا اورنہ ہی شعر میں خوبصورتی پیدا کرنے کی غرض سے وہ مشکل زمینوں کی تلاش میں سرگرداں رہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تمام ترشاعری مرصع سازی سے باز رہی مگرآپ نے وزن وتاثر کا دامن کبھی نہ چھوڑا۔ آخرمیں یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ ماجدکی شاعری پرلکھنوی رنگ کا اثرہونے کے باوجودبھی یہ موضوعاتی طورپر اپنے معاصرین سے منفرد ہے۔ انھوں نے اپنی مشاہدانہ کاوش اور فنکارانہ بصیرت کا استعمال کرتے ہوئے شاعری میں مقبول ہونے کا وہ فارمولہ یاطریق کاربہت پہلے ہی سیکھ سمجھ لیاتھا جس سے کبھی میر اور نظیر نے شاعری کے میدان میں پذیرائی حاصل کی تھی یعنی سادگی اورروانی کے ساتھ مقامی رنگ کویکجا کرکے عوام کے لیے شاعری کرنا۔ لہٰذا ماجد نے بھی عوام کی نبض، اس کی پسند، اس کی نفسیات اوراس کی ضروریات کا خیال کرتے ہوئے اپنی شاعری کوموضوعاتی اورفنی اعتبار سے آسان ہی نہیں بلکہ آسان تربنادیا جسے ان کی شاعری کا جزواعظم اورمقبولیت کا ضامن قرار دیا جاسکتا ہے۔ اپنی انھیں شاعرانہ خوبیوں کی بناپر وہ اردو کے کامیاب شعرا کی صف میں شامل کیے جاتے رہے ہیں اورآئندہ بھی شامل کیے جاتے رہیں گے۔
C-36/5, Lane No:2, R.K. Marg
Chauhan Banger
Delhi - 110053
Mob: 9136162160
Email: nadeemahmad_162@yahoo.co.in
قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں