7/2/19

سارا شگفتہ: برصغیر کی سلویاپلیتھ مضمون نگار:۔ ترنم جبیں



سارا شگفتہ: برصغیر کی سلویاپلیتھ
ترنم جبیں
سارا شگفتہ کا شمار اردو کی جدید شاعرات میں ہوتا ہے۔ وہ31اکتوبر 1954کو گوجرانوالہ ، پاکستان میں پیدا ہوئیں۔ اردو اور پنجابی میں معتدبہ نظمیں تخلیق کیں۔نظمیہ شاعری کے لیے انھوں نے نثری نظم کا پیرایہ اختیار کیا۔ غریب اور ان پڑھ خاندانی پس منظر کے باوجود وہ پڑھنا چاہتی تھیں مگر میٹرک بھی مکمل نہ کر سکیں۔ان کی سوتیلی ماں، کم عمر کی شادی اور پھر مزید تین شادیوں نے انھیں سخت ذہنی اذیت میں مبتلا کر دیا۔نتیجتاً انھیں دماغی امراض کے اسپتال میں داخل کیا گیا جہاں انھوں نے خودکشی کی ناکام کوشش کی۔خود کشی کی یہ کوشش مختلف موقعوں پر چار بار دہرائی گئی۔ ان کی پنجابی شاعری کے مجموعے’بلدے اکھر‘،’میں ننگی چنگی‘ اور’لکن میٹی‘ اور اردو شاعری کے مجموعے ’آنکھیں‘ اور’نیند کا رنگ‘ کے نام سے شائع ہوئے۔ 4جون 1984کو انھوں نے کراچی میں ٹرین کے نیچے آکر جان دے دی۔ان کی ناگہانی موت نے ان کی زندگی اور شاعری کے مطالعے کو ایک نئی جہت عطا کی۔ وفات کے بعد ان کی شخصیت پرپنجابی کی مشہور شاعرہ اور ناول نگار امرتا پرتیم نے ’ایک تھی سارہ‘ اور انور سن رائے نے ’ذلتوں کے اسیر‘ کے نام سے کتاب تحریر کی اور پاکستان ٹیلی ویژن نے ایک ڈرامہ سیریل پیش کیا جس کا نام ’آسمان تک دیوار‘ تھا۔ہندوستان میں دانش اقبال نے ’سارا کا ساراآسمان‘ کے عنوان سے ڈراما لکھا جسے طارق حمید کی ہدایت میں ملک کے مختلف حصوں میں متعدد دفعہ پیش کیا گیا۔ شاہد انور نے بھی سارا کی زندگی سے متاثر ہوکر’میں سارا‘ نام سے ایک ڈراما لکھا تھا جو مہیش دتّانی کی ہدایت میں پیش کیا گیاتھا۔ سارا نے محض تیس برس کی عمر میں اپنی نظموں کا مجموعہ ’ آنکھیں‘ کا مسودہ تیار کرکے دنیا سے ہمیشہ کے لیے منہ موڑ لیاتھا۔ مبارک احمد کی توجہ سے احمد ہمیش کے ادارے تشکیل پبلشرز، کراچی سے جنوری 1985 میں ’آنکھیں‘ کا مسودہ کتابی صورت میں منظر عام پر آیا۔ اس مجموعے کا دیباچہ امریتا پریتم نے ’برا کیتو ای صاحباں‘ کے عنوان سے لکھاتھا۔تاثراتی نوعیت کا یہ دیباچہ دونوں کے تعلقات کی شدت کا زندہ مظہر ہے۔ سارا کی وفات کے بعد کراچی میں سارا اکیڈمی کے نام سے ایک انجمن کا قیام عمل میں آیا۔اسی اکیڈمی نے ان کا دوسرا، اردو شعری مجموعہ ’نیند کا رنگ‘شائع کیا تھا۔ 
سارا شگفتہ کو برصغیر کی Plath Sylviaکہا جاتا ہے۔ سارا کی داستان حیات زمان و مکان کی سرحدوں سے پرے اِس دھرتی پر عورت کے دکھوں کا تازیانہ ہے۔ چودہ برس کی عمر میں ان کا پہلا نکاح ہوا ، لیکن ازدواجی زندگی کا سکھ ان کے مقدر میں تھا ہی نہیں۔ پہلے بچے کی موت کے بعد انھوں نے پہلی نظم لکھی۔ اس طرح ان کی نظم کی پہلی اینٹ دکھ کے سینے پر رکھی گئی اور بقول امرتا پریتم ؛’’اس وقت سارا شاید یہ نہیں جانتی تھی کہ ایک دن اس کی نظموں کو پڑھتا ہوا وقت حیرت میں آجائے گا۔‘‘ (ایک تھی سارا، ص:10) امرتا پریتم نے ٹھیک ہی کہا تھا کہ ’’شاعری کی تاریخ میں سارا کی نظمیں ایک کنواری ماں کی حیرتیں ہیں۔‘‘(ایک تھی سارا، ص:10)مرد اساس سماجی نظام اور معاشرتی ڈھانچے نے ان کی انا کو کچلنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ ان کی تخلیقات وقت کی ساری زنجیروں کو توڑ دیتی ہیں۔ انھوں نے جو کچھ کیا ،اپنے دم خم پر کیا ، اس گھڑی اور اس مقام پر کیا ، جہاں علم پر مردوں کا مکمل اجارہ تھا۔ ان کے بے باک ، باغیانہ اور منطقی افکار کے نتیجے میں اندھے سماج نے انھیں پاگل قرار دے کر قید کردیاتھا۔انھوں نے تو دنیا کو سمجھ لیا تھا لیکن دنیا انھیں سمجھنے میں ناکام رہ گئی۔ آج بھی ناکام ہے۔ 
اردو شاعری کی تاریخ میں سارا شگفتہ نسوانی احتجاج کی سب سے طاقتور آواز ہیں۔ پروین شاکر کے یہاں رومانی لہجہ غالب رہتا ہے جبکہ سارا کا بیانیہ ادھورا، ان کہا، ان چھوا، چبھتا ، سسکتا، مچلتاہوا ذات کی شناخت پر اصرار میں سراپا احتجاج نظرآتا ہے۔ان کے سفاک اسلوب نے ان کی فکر کو اور مضبوط کردیاہے۔ پروین شاکرنے ان کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ان پر ایک مکمل نظم تخلیق کی ہے جس میں ان کی شخصیت کے اجزائے پریشاں کو سمیٹنے کی کوشش کی گئی ہے۔ نظم کا عنوان ہے ’ٹماٹو کیچپ‘۔ اس نظم کا شمار پروین شاکر کی خوبصورت نظموں میں کیا جاتا ہے۔ عذرا عباس نے بھی ایک نظم میں سارا کو خراج محبت پیش کرتے ہوئے انھیں کبھی نہ ختم ہونے والا سفر قرار دیا تھا۔ 
اردو شاعری کی تاریخ میں سارا شگفتہ نثری نظم کا سب سے نمایاں کردار ہیں۔ سارا نے نثری نظم کو اپنے اظہار کا وسیلہ بنا یا تھا۔ ان کی ذات کا بکھراؤ نظم و ضبط کی پابندی کیسے کرسکتا تھا؟ پابند شعری روایت کے اصولوں میں جکڑ کر اوزان و بحور، ردیف و قوافی اور سکہ بند تلازمات سے ہم آہنگ ہونا ان کے مزاج کے خلاف تھا۔ وہ تو ہر اصول کو توڑ دینا چاہتی تھیں۔ پدری نظام نے ادب کے جو اصول بنائے ہیں ، وہ انھیں قبول کرنے کو تیار نہیں تھیں۔ نظم کے روایتی نظام کو رد کرتے ہوئے انھوں نے ایک نظم میں اپنا تصورِ شعر واضح کیا ہے:
شاعری جھنکار نہیں جو تال پر ناچتی رہے/ گیا وقت/ جب خواجہ سرا ٹوٹی کمان ہوتے تھے/ اور موت پر تالیاں پیٹا کرتے تھے/پازیب پہن کر میدان میں نہیں بھاگ سکتے/ یہ کہیں بھی ساتھ چھوڑ سکتی ہے/غار میں چنی چنائی جگہ/ دار ہے، بامشقت قیدی ہے/ لیکن نظم میں نہ غار ہے/ نہ دار ہے، نہ مشقت/ پھربھی ایک قید ہے133/ جب ہم زمینوں کو پڑھنے نکلتے ہیں / تو چرند، پرند کی ضرورت نہیں رہتی/ انسان کی پہلی آنول نال اذیت ہے/ کھیل تو کھلنڈرا ہی کھیلتا ہے [نثری نظم]
سارا کی فکریات اور اسلوبیات اسی کھلنڈرے پن سے عبارت ہے۔ اس کھلنڈرے پن نے نظم کے روایتی آہنگ سے اپنی برأت کا اعلان کردیا ہے۔ان کے معاصرین میں پروین شاکر اور ثروت حسین اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔ پروین شاکر ایک سڑک حادثے کا شکار ہوگئی تھیں جبکہ ثروت حسین نے خود کشی کرلی تھی۔ 
شاعری کے غالب رجحان نے خواتین کی آواز کو نمایاں ہونے کا موقع بہت بعد میں دیا۔ ادب کی دنیا میں عورت کی خاموشی سماعت پر سب سے گراں گزرنے والی صداقت ہے۔ اس مابعد جدید عہد میں مرکز کی مرکزیت کو ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ آج عورت کو مرکز میں لاکر اس کا مطالعہ کرنا نسبتاًآسان ہے۔ جدید مطالعات میں تانیثی قرأت کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ سارا شگفتہ کی نظمیں تانیثی قرأت کو نہ صرف جواز عطا کرتی ہیں بلکہ اْس کی پرزور تائید بھی کرتی ہیں۔ان کی غیر معمولی تخلیقی زبان تفصیلات، درجہ بندی ، منطقی ربط اور زبان کے مرد اساس اقداری حوالوں سے تقریباًآزاد ہے۔ ان کی نظمیں ایک مخصوص عورت کی زندگی کی تخلیقی روداد بیان کرتی ہیں۔ اس روداد کا یہ وصف ہمارے لیے باعث دلچسپی ہے کہ یہ روداد جنس کی بنیاد پر متعین کردہ صنف کی بھرپور ترجمانی کرتی ہے۔ 
سارا شگفتہ کی موت کے بعد امرتا پریتم نے’ایک تھی سارا‘ کے عنوان سے ان پر بھر پور کتاب تحریر کی تھی۔ بعد میں پنجابی سے اردو میں اس کا ترجمہ کیا گیاتھا۔ اس کتاب میں امرتا پریتم نے سارا کی زندگی کے حالات و واقعات کی کڑیوں کو جوڑتے ہوئے ان کی زندگی کا دلچسپ خاکہ مرتب کیا ہے۔ سارا، امرتا پریتم کو اکثرخطوط لکھا کرتی تھیں۔امرتا پریتم کے کہنے پر انھوں نے اپنی درد بھری روداد قلم بند کرنے کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ وہ جو کچھ لکھتیں امرتا پریتم کو بھیج دیتیں۔ سارا کی اچانک موت کے بعد انھوں نے ان خطوط کو یکجا کیا۔ ماضی کے جھروکوں سے رشتے کی تخلیقیت کو داد، دینے کے لیے انھوں نے ’ایک تھی سارا‘ کے عنوان سے ناقابلِ فراموش کتاب لکھ ڈالی۔ اس کتاب کے نصف حصے کو سارا کی خود نوشت بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ سارے اعترافات اور حقائق خطوط سے حاصل کیے گئے ہیں۔ سارا سے ان کی ایک ملاقات تھی۔ اس ملاقات اور کچھ مخصوص افراد کی آرا سے اس کتاب میں استفادہ کیا گیا ہے۔ سارا کے سوانح کو سمجھنے کے لیے اس سے بہتر حوالہ نہیں ہوسکتا۔ 
کہا جاتا ہے کہ’ذلتوں کے اسیر‘سارا شگفتہ کی زندگی پر لکھا ہوا سوانحی قسم کا ناول ہے۔ اس کی اشاعت 1998 میں ہوئی۔ اس ناول میں سارا کی زندگی کو تخلیقی رنگ دیتے ہوئے اس عہدکے سماجی سروکار اور تہذیبی اقدار کو نمایاں کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ناول نگار نے سارا کو علامت میں ڈھال کر عورت پر ہورہے ظلم و زیادتی کی روداد کو تخلیقی خراج پیش کیا ہے۔2007 میں صفیہ عباد نے ’ ادیبوں میں خود کشی کے محرکات‘ کے عنوان سے نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگوئجز، اسلام آباد میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے لیے مقالہ داخل کیا تھا۔ اس مقالے کو پڑھنے کے بعد معلوم ہوا کہ اس میں سارا شگفتہ پر ایک ذیلی باب موجود ہے۔ اس باب میں سارا کی زندگی کا جائزہ لیتے ہوئے ان کی خود کشی کے محرکات پر منطقی انداز میں غور کرنے کے بعد نتائج نکالے گئے ہیں۔ نئی نسل کے سات پاکستانی شاعروں پر آصف فرخی نےAn Evening of Caged Beasts کے نام سے ایک کتاب ترتیب دی ہے۔ اس کتاب میں سارا شگفتہ بھی شامل ہیں۔ جرمن مصنفہ کرسٹینا اوسٹرہیلڈ نے اس کتاب پر تفصیلی تبصرہ لکھا ہے۔ انھوں نے اس تبصرے میں سارا کے کلام پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے خراج تحسین پیش کیا ہے۔
قمر جمیل پہلے ناقد ہیں جنھوں نے سارا شگفتہ کے کمالات کا اعتراف کیا تھا۔ ان کی ناقدانہ صلاحیتوں کا زمانہ معترف ہے۔انھوں نے خود بہت اچھی نثری نظمیں تخلیق کی ہیں۔ اس صنف کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے انھوں نے سارا کو داد سے نوازا ہے۔ انھوں نے ان کے بارے میں کسی فیشن میں کوئی بات نہیں کہی ہے۔ اس لیے کہ اس وقت تک نثری نظموں کے وجود پر سوالیہ نشان قائم کیا جا رہا تھا۔ جب صنف کی قبولیت ہی سب سے بڑا مسئلہ تھی تو شاعری کا اعتراف بھی آسان نہ تھا۔ ایسے میں انھوں نے سارا کے بارے میں کہا کہ ان کی شاعری کی رسائی ان حقیقتوں تک ہوتی ہے جہاں تک ہمارے نثری نظم لکھنے والوں کی رسائی کبھی نہیں ہوئی۔’’وہ اعلٰی ترین ذہنی اور شعری صلاحیتوں کی مالک ہے، انسانی نفس کے ادراک میں جو قدرت اسے حاصل ہے وہ ہم میں سے کسی کو حاصل نہیں۔‘‘ ( ’ آنکھیں‘ ، فلیپ کی رائے )۔سارا کے کمالات کا اس قدر بھرپور اعتراف اب تک کسی نے نہیں کیا تھا۔ سلیم احمد بھی سارا کی شاعری کو پسند کیا کرتے تھے لیکن تحریری اعتراف کا موقع کبھی نہیں آیا۔ قمر جمیل نے نئی نسل کے شعرا پر مضمون لکھا، اور سارا کی زندگی میں لکھا۔ اس مضمون میں سارا کا ذکر دیگر شعرا کے ساتھ ہوا ہے لیکن قمر جمیل نے سارا کو سرفہرست رکھا ہے۔ 
سارا کی شاعری پر مبارک احمد اور احمد ہمیش کی رائے ’ آنکھیں‘ کے فلیپ پر ملتی ہے۔ مبارک احمد نے معاصرین میں سارا کو سر فہرست رکھتے ہوئے انھیں بطور’ سُپر پوئٹس‘ اور’ کوئن آف پوئٹکس‘ معجزہ قرار دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ شاعری مغرب کی ارفع سطح کی شاعری سے کم نہیں۔ یہ شاعری مربوط نہیں لیکن اثر انگیزی میں اعلیٰ سطح کی مربوط شاعری کو پیچھے چھوڑ جاتی ہے۔ یہ شاعری غالب کے پوئٹک بَیریئر کو کراس کر کے نئی شعری روایت کو جنم دیتی ہے۔احمد ہمیش اعتراف کرتے ہیں کہ اب تک دیانت داری کے ساتھ سارا کے مرتبے کا تعین نہیں کیا جاسکا ہے جبکہ 1984 تک گزشتہ تین دہائیوں میں خلق کی گئی نثری نظموں سے ان کی شاعری بالکل مختلف نظر آتی ہے۔ ذخیرۂ الفاظ کی ساخت بے مثل ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’کم از کم بر صغیر میں سارا شگفتہ کے سِوا کوئی ایسی عورت نظر نہیں آتی، جس نے شعروادب کے میڈیم سے اِس انتہا پر سَچ بلکہ بَرہنہ سچ بولا ہو۔۔۔کہ اس سے اْس کی ذاتی دیو مالا Myth۔Self بن گئی ہو۔‘‘ ( ’ آنکھیں‘، فلیپ کی رائے)
قاضی افضال حسین نے ’میں سچی ننگی بھلی‘ کے عنوان سے سارا شگفتہ پر باقاعدہ تنقیدی مضمون لکھا ہے۔ انھوں نے اس مضمون میں جدید ادبی نظریات اور ان کے اطلاق کی روشنی میں سارا کے کلام کا مطالعہ کیا ہے۔ پہلے انھوں نے تانیثی ڈسکورس قائم کیا ہے۔ پھر سارا کی شاعری کو اس کا نمائندہ قرار دیا ہے۔ اس ضمن میں جدید تصور لسان کو مرکز عطا کر کے پہلی بار یہ احساس کرایا گیا ہے کہ سارا کی شاعری نئی لسانی تشکیلات کا مظہر ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’اردو میں سارا شگفتہ تنہا شاعرہ ہے جس نے ایک طرف تو زبان کو اس کی روایتی نحوی و صرفی پابندیوں سے آزاد کیا اور دوسری طرف زبان کے معنیاتی اقداری نظام کو تہہ و بالا (Subvert) کیا۔ تخریب سے تعمیر کی طرف اس قدم میں پہلی منزل تو روایتی آہنگ سے آزادی ہے۔‘‘ ( تحریر اساس تنقید، ص: 165)یعنی سارا نے سب سے پہلے شاعری کے لیے یہ اصول قائم کیا کہ ’’شاعری جھنکار نہیں جو تال پر ناچتی رہے۔‘‘ اس نے ذات کے کھلنڈرے پن میں اپنا فن تلاش کیا۔ روایتی آہنگ سے نجات کے نتیجے میں لسانی شکستگی کی عملی صورتیں نمودار ہوئیں۔ قاضی صاحب نے نئی لسانی تشکیلات کو موضوع بنایا اور اخیر میں اس نتیجے پر پہنچے کہ ’’معاصر تنقید کے پاس وہ معیار ہی نہیں جو سارا شگفتہ جیسی شاعرہ کے تعین قدر کی اہل ہو۔ حالانکہ مابعد جدید تناظر میں تانیثیت پر گفتگو سے رفتہ رفتہ یہ احساس عام ہونے لگا ہے کہ سارا شگفتہ نے اپنے اظہار کے لیے ایک غیر معمولی تخلیقی زبان دریافت کرلی تھی جو تعقل، درجہ بندی اور زبان کے مردانہ اقداری حوالوں سے تقریباً آزاد ہے۔‘‘(ایضاً، ص:181) قاضی صاحب نے اپنے مضمون میں جدید تصور لسان، مرد اساس لسانی نظام اور تانیثی ڈسکورس کے ضمن میں انتہائی اہم سوالات اٹھائے ہیں لیکن ایک مضمون میں ان سوالات پر سیر حاصل گفتگو ممکن نہیں۔ 

Tarannum Jabeen
123, Shipra Hostel, JNU
New Delhi - 110067
Mob.: 9870522513
Email: tarannumjnu123@gmail.com






قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

سماجی شعور: تعارف اور اہمیت، مضمون نگار: عرفان احمد گنائی

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 انسان طبعاًمعاشرت پسند اور سماجی واقع ہوا ہے۔ گرہوں اور ٹولیوں میں رہنے کی یہ خصلت ازل سے ہی اس کی گھٹی میں پڑی ہ...