7/2/19

پرندوں کی تعداد پر مادّی ترقی کے منفی اثرات مضمون نگار:۔ سعد بن ضیاء



پرندوں کی تعداد پر مادّی ترقی کے منفی اثرات

سعد بن ضیاء

بلا شبہ اِنسان نے آج مادّی طور پر بے تحاشہ ترقّی کر لی ہے۔ بر و بحر کی عمیق گہرائیوں سے وہ نا یاب خزانوں کو دریافت کر لیے ہیں جن کا تصور نا ممکن ہے۔خلا و سماء میں موجود اجرامِ فلکی کو تسخیرکرنے میں اپنی تمام ترصلاحیتیں اور قوتیں صرف کر رہا ہے۔ یہ سب مادی ترقی کے ہی ثمرات ہیں کہ آج ہمیں زندگی بسر کرنے کی آسائشیں میسر ہیں۔مگر اِس مادّی ترقّی کا منفی پہلو یہ بھی ہے کہ اِنسانی اَقدار پامال ہو رہے ہیں اور اِنسان نفسی نفسی تک ہی محدود ہو گیاہے۔ اُسے اپنی ذات کے سوا کچھ نظر نہیں آرہاہے۔وہ اپنے ذاتی مفاد کے لیے سارے رشتے داؤں پر لگانے کے لیے تیار ہے۔اُسے اپنے ماحول کی ذرّہ برابر بھی فکر نہیں۔ وہ ماحول کو آلودہ کرنے کی نِت نئی ترکیبیں اِیجاد کر رہا ہے جس سے اِس کرّۂ اَرض پر بسنے والے چَرِند، پرَِند، حیوانات اور نباتات بُری طرح متاثر ہو رہے ہیں اوراُن کی تعداد میں مسلسل تیزی سے کمی ہو رہی ہے۔بلکہ بعض تو صفحہ ہستی سے ہی مٹ گئے ہیں۔
خالق کائنات کی بے شمار مخلوقات میں سے ایک نہایت ہی دلکش مخلوق پرندے ہیں۔ پرندوں کا نام آتے ہی ذہن میں ایسی دیدہ زیب مخلوق کی شکل اُبھر آتی ہے جو نہ صرف یہ کہ ہماری آنکھوں کی راحت کا سامان ہوتی ہے بلکہ ہمار ے ماحول کو بھی صاف ستھرا اور صحت مند رکھنے میں بھی معاون و مددگارہو تی ہیں۔ قدرت نے نہ جانے کتنے ہی انواع و اقسام کے پرندوں کو پیدا کیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اِس وقت دنیا میں تقریباً 200 سے 400بلین پرندے پائے جاتے ہیں۔ مگر افسوس صد افسوس کہ اِنسان کی خود غرضانہ مادّی ترقّی کے سبب پرندوں کی تعداد میں مسلسل کمی واقع ہوتی جا رہی ہے۔اگر اِسی رفتار سے پرندوں کی تعداد میں کمی آتی رہی تووہ دن دور نہیں جب پرندے اِس دنیا سے ختم ہی ہو جائیں۔ 15ویں صدی عیسوی سے اب تک پرندوں کی تقریباً 500 اقسام فنا ہو چکی ہیں جبکہ تعداد میں 20-25فی صدتک کمی واقع ہوئی ہے۔اِنسانوں کے ذریعہ اپنے مادّی فائدے کے لیے پیڑوں کی بے دھڑک کٹائی،جنگلات کی کٹائی، آبی آلودگی، ماحولیاتی آلودگی، پراگندہ پانی، ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے پرندے اپنا قدرتی مسکن کھو رہے ہیں نتیجتاً اُن کی تعداد میں بہت تیزی سے گراوٹ آرہی ہے۔ اب تک پرندوں کی129اقسام فنا ہو چکی ہیں۔ Bird Life Internationalکی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ دو صدیوں میں اِنسان کی مادّی کارستانیوں کے سبب پرندوں کی 100اقسام فنا ہو چکی ہیں۔ جبکہ مزید 1200گویا کہ زمین پر بسنے والے 10-12فیصد پرندے بہت جلد فنا ہونے کی کگار پر کھڑے ہیں۔
شمالی امریکہ میں چالیس برس قبل کوئی ساڑھے گیارہ بلین پرندے ہو ا کرتے تھے جو اب گھٹ کر محض دس بلین رہ گئے ہیں۔ ماہرین کے مطابق امریکہ میں پائی جانے والی پرندوں کی ساڑھے چار سو اقسام میں سے86اقسام پر خطرے کی گھنٹی ہے۔ Environment and Climate Changeکے جائزے کے مطابق 1970سے 2014تک کے عرصے میں بعض پرندوں جیسے Sprague's pipit،The Oak Bobolink, Titmouse, اور اُلّو کی آبادی میں عالمی سطح پر تقریباً 64 فی صد تک کمی آئی ہے۔ Chimney swifts، گوریا،اور چھوٹے اُ لو کی تعداد تقریباًآدھی ہو گئی ہے۔امریکہ اور کناڈا میں بجلی کے تاروں، عمارتوں اور گاڑیوں سے ٹکرانے کے نتیجے میں ہر سال تقریباً 900پرندے جاں بحق ہو جاتے ہیں۔محض مادّی ترقّی پرندوں کے قدرتی مسکن پر قبضہ،ماحولیاتی تبدیلی،پرندوں کا شکار،کان کنی، گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں، سمندروں میں Toxic Industrail, Oil Spills Wastes وغیرہ نے پرندوں کی تعداد پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ یورپ میں اِنسان کی مادّی ترقّی کا سب سے زیادہ اثر Bustard پرندے پر پڑا ہے۔اِس خوبصورت پرندے کی گھٹتی آبادی پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے 18ویں صدی میںOliver Goldsmithنے لکھا تھا:
’’آج یہ پرندہ یعنی Bustard جتنی پائی جاتی ہے اُس سے کہیں زیادہ اِس قبل پائی جاتی تھی۔ لیکن حال میں بڑھتی زراعت،اور اِس کے ذائقے دار گوشت کے سبب اِس کا بے دھڑک شکار کی وجہ سے Bustardچڑیا کی تعداد میں بے تحاشہ کمی واقع ہوئی ہے۔ اور آنے والے وقت میں جب یہ معدوم ہو جائے گی تو ہمیں تعجب ہوگا کہ اِتنا قد آور پرندہ ہمارے بیچ تھا‘‘اور ہوا بھی کچھ ایسا ہی کہ 19صدی آتے آتے Oliver Goldsmith کی پیشن گوئی واقعی سچ ثابت ہوئی اور Bustard پرندہ اِس کرۂ ارض سے فنا ہو گیا۔
بارن اُلّو ایک ایسا پرندہ ہے جو کہ زراعت میں مفید ہے۔کیوں کہ اِس کی خوراک کیڑے مکوڑے ہوتے ہیں لہٰذا یہ فصلوں کو کیڑا لگنے سے محفوظ رکھتا ہے۔ اِس طرح مہنگی جراثیم کُش ادویہ سے بچا جا سکتا ہے اور یہ ماحولیات دوست طرزِ عمل بھی ہے۔ کرۂ ارض کے وہ خطے جہاں اِنسان کی مادّی ترقّی اپنے عروج و شباب پر ہے یعنی شمالی امریکہ، برطانیہ،کناڈا اور دیگر ممالک میں مطالعات سے یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ گزشتہ نصف صدی میں بارن اُلّوؤں کی تعداد میں اچھی خاصی کمی واقع ہوئی ہے۔ اِس کی اصل وجہ ترقی کے نام پر زرعی زمینوں پر تعمیرات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔اِن تعمیرات کی وجہ سے بارن اُلّوؤں کا قدرتی مسکن ختم ہو گیا۔ جس کے سبب اُن کو آپس میں جنسی تعلق پیدا کرنے کے مواقع نہیں مل سکے لہٰذابارن اُلّوؤں کی تعداد میں بتدریج کمی واقع ہوتی چلی جا رہی ہے۔ فصلوں اور کھیتوں میں بارن اُلّو مستی سے گھومتے پھرتے ہیں اور لکڑی کے بنے خاص ڈبوں میں جنسی عمل کرکے اپنی نسل کی افزائش کرتے ہیں۔ مگر آج کے اِس ترقّی یافتہ دور میں اِنسان نے لکڑی کے ڈبوں کی جگہ اِسٹیل کے چھوٹے چھوٹے دربے خانے رکھ دیے ہیں۔ اور بد قسمتی سے بارن اُلّوؤں کو اِسٹیل کے اِن چھوٹے دربہ خانوں میں جنسی عمل کرکے اپنی نسل کو آگے بڑھانا کافی دشوار ہو رہا ہے۔ امریکی ریاست فلوریڈا میں کھیتوں میں آبکاری کے لیے پمپ ہاؤ س ہو ا کرتے تھے جہاں بارن اُلّو رہتے تھے اور افزائشِ نسل کرتے تھے۔ مگر آج کے اِس تکنیکی دور میں آبکاری خود کار ہو گئی ہے۔ جس کی وجہ سے پمپ ہاوس ختم ہو گئے ہیں اور ساتھ ہی بارن اُلّوؤں کا محفوظ مسکن بھی ختم ہو گیا ہے۔ اِس ٹکنالوجکل ترقّی نے بے شک اِنسان کو بہت راحت پہنچائی ہے مگر دوسری جانب بارن اُلّوؤں کی تعداد پر منفی اثرات بھیُ مرتّب کیے ہیں۔ 
2016میں شائع ہوئی ایک رپورٹ کے مطابق 1966سے اب تک پرندوں کی تعداد میں خطرناک گراوٹ آئی ہے۔2015 میں International Union for Conservation of Nature (IUCN)نے ایک لال فہرست جاری کی تھی جس میں بتا یا گیا تھا کہ2014میں 173پرندوں کی اقسام پر خطرہ تھا اور2015میں اِس میں اضافہ ہو کر یہ اب 180تک پہنچ گئی ہے۔ در اصل مادی ترقی کی وجہ سے فطرت میں اِنسانی دخل اندازی کے سبب پرندوں کو مختلف النوع پریشانیوں کو سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔جن مسائل سے پرندے دو چار ہیں اُن میں سب سے اہم مسئلہ پرندوں کے قدرتی مسکن کا بہت تیزی سے ختم ہونا،ماحولیاتی آلودگی، چراگاہوں اورآبی ذرائع کا ختم ہونا، جنگلات کو کاٹ کر تعمیرات کرنا وغیرہ شامل ہیں۔ مثلاًRed Knot پرندہ جو کہ بالعموم ساحلی علاقوں اور ریگستانی بیچوں میں پایا جاتا ہے اُس کو ساحلی اِکو سسٹم کے خراب ہونے سے اور ارضی بحالی ہو نے کی وجہ سے جینا دشوار ہو گیا ہے۔ آبی ذرائع میں خرابی پیدا ہوتی جارہی اور وہ Great Knot کی بقاء کے لیے دن بہ دن ناموزوں ہوتے جا رہے ہیں۔ Curlew Sandpiper پرندہ بھی زندہ رہنے کی تگ ودو میں ہے کیوں کہ اِس کے قدرتی مسکن کو نمک بنانے والی کمپنیاں اپنے مفاد کے لیے برباد کر رہی ہیں جس کے نتیجہ میں بارش کا اوسط گرتاجا رہا ہے۔
سائنس کو نہ صرف اِنسان بلکہ اِس زمین پر بسنے والی ہر مخلوق کی حیات کی بقا و تحفظ کا ضامن تصور کیا جاتا ہے۔ یقیناًاِنسان نے سائنسی بنیادوں پر آج ایسی ایسی دوائیں بنا لی ہیں جن سے مہلک سے مہلک تر امراض پر قابو پایا جا سکتاہے۔مگر مقامِ افسوس ہے کہ اِس نوبل کاز میں بھی اِنسان کی مادّی جبلّت غالب ہے۔ اور اُس نے فلاح کے پہلو کو پسِ پُشت ڈال کر اپنے مادّی مفاد کو فوقیت دی۔ نتیجتاً ایسی اینٹی بائیو ٹک وجود میں آرہی ہیں جن سے نفع کم اور نقصانات زیادہ ہو رہے ہیں۔ اِسی طرح کی اینٹی اِن فلیمٹری دوا Diclofenac ہے جس کا اِستعمال نہ صرف اِنسانوں میں بلکہ پرندوں میں بھی درد کے علاج کے لیے ہوتا ہے۔یونائٹڈ کنگڈم کی تنظیم رائل سوسائٹی فار پروٹکشن آف برڈز، ممبئی میں واقع بامبے نیچرل ہسٹری سوسائٹی،اور صوبہ اُتّرپردیش میں واقع اِنڈین ویٹرنری اِنسٹی چیوٹ کے مشترکہ مطالعہ میں اِس امر کا اِنکشاف ہوا کہ دراصل Steppeچیل کی تعداد میں کمی کی بہت اہم وجہ ویٹرنریDiclofenac دوا کا بے دریغ اِستعمال ہے۔North American Bird Conservation Initiativeکے سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے 2014میں 33اقسام کے پرندوں کی نشاندہی کی تھی جن کی تعدادبہت تیز رفتار سے تنزل پزیر ہے۔ Costa Rica, Carribea اورمیکسکو میں جنگلات کی بے تحاشہ کٹائی کی وجہ سے کیڑے کھانے والی چھوٹی چڑیا، پیلے گلے والی چھوٹی مہاجر چڑیا،میٹھی اور سریلی آواز والی چھوٹی کالی سفید چڑیا، ٹوپی دارچڑیا تو جناب صفحہ ہستی سے بالکل مٹ گئی ہیں۔ مادّی ترقی پرندوں کے لیے موسمِ سرما گزارنے،افزائشِ نسل کے عمل کے دوران، ہجرت کے دوران،اور چارے کی تلاش اور چارہ چگنے کے دوران پریشانیاں پیدا کرنے کا اہم سبب ہے۔ 
برطانوی تنظیم Royal Society for Preservation of Birdsنے گوریا کی نشاندہی کی ہے کہ اگر فوری طور پر اِقدامات نہیں کیے گئے تو گوریا تو بس ختم ہی ہے۔ ہماری آئندہ آنی والی نسل تو گوریا کے دیدار سے بالکل محروم ہو جائے گی۔شمالی امریکہ میں پرندوں کے تحفظ کے لیے کام کر رہے اِدارہ The Institute for Bird Populations 150 پرندوں کے متعلق مختلف اعدادوشمار فراہم کیے ہیں اور پرندوں کی تعداد میں تغیرات پر مسلسل نظر رکھتا ہے۔Mel White نے National Geographic Channel کے لیے جون 2013میں تحریر کردہ ایک مضمون میں پرندوں کی کم ہوتی تعداد کی چار اہم وجوہات بیان کی تھیں جن میں گلوبل وارمنگ،قدرتی مسکن کا ختم ہونا،ہوائی ٹربائن اور بلِّیاں شامل ہیں۔ دراصل ہوائی ٹربائن کے بہت بڑے بڑے بلیڈس ایک طرح سے دو دھاری تلوار کا کام کرتے ہیں۔
مادّی ترقّی کا بہت ہی شاندار مظہر اونچی اونچی عمارتیں ہیں۔مگر یہ عمارتیں جہاں ہمیں محفوظ مسکن عطا کرتی ہیں وہیں پرندوں کے لیے موت کا پیغام لے کر آتی ہیں۔ امریکی فِش اور وائلڈ لائف سروے کے مطابق عمارتوں میں موجود کھڑکیوں سے ٹکرانے کے سبب ہر سال تقریباً1000ملین پرندے جاں بحق ہو جاتے ہیں۔ مواصلات اور ٹیلی مواصلات میں Communication Towers کا کلیدی رول ہے۔جہاں یہ ہمارے لیے پیغام رسانی میں مدد کرتے ہیں وہیں پرندوں کے لیے مہلک ثابت ہوتے ہیں۔ Communication Towersسے ٹکرانے کی وجہ سے کوئی 500 ملین پرندے مرتے ہیں جبکہHigh Tension Linesکے قریب اُڑنے سے ہر سال 180ملین پرندے مر جاتے ہیں۔ کار کی زد میں آنے سے ہر سال 60ملین پرندے مرتے ہیں۔ جراثیم کُش دواؤں میں مہلک اشیا ء سے ہر سال 75ملین پرندے مر جاتے ہیں۔سمندروں میں تیل کے رِساؤ سے ہر سال سیکڑوں ہزاروں پرندے مرتے ہیں۔
مادّی ترقّی کرنا کوئی بُری بات نہیں ہے۔مگر اِس کے قطعاً یہ معنیٰ نہیں ہیں کہ ہم دوسری مخلوقات کو مصیبت میں ڈال دیں۔ہماری خودغرضانہ مادّی ترقّی پرندوں کے لیے آفتِ جاں نہ بن جائے۔ہم خود اپنی زندگی کی آسائشوں کے حصول کے لیے پرندوں کی زندگیوں کو داؤں پر نہ لگائیں۔آئیے ہم سب مل کر عہد کریں کہ آج سے بلکہ ابھی سے ہم پرندوں کے تحفظ کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔ ہم ہر وہ قدم اُٹھائیں گے جو پرندوں کے حق میں بہتر ہو۔ 

Dr. Saad Bin Zia
Hamdard Nagar 'B' Jamalpur
Aligarh - 202002 (UP)
Mob.: 8860612267
Email: drsaadbinzia@gmail.com






قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں