7/2/19

مہجری ادب، برطانیہ اور حبیب حیدرآبادی مضمون نگار:۔ عزیز سہیل


مہجری ادب، برطانیہ اور حبیب حیدرآبادی

عزیز سہیل
تاریخ شاہد ہے کہ اردو زبان و ادب کے ابتدا سے ہی ہر دور میں کچھ نہ کچھ تبدیلیاں وقوع پذیر ہوتی رہی ہیں اور ادب ترقی کرتا رہاہے۔ انیسویں صدی کے اوائل میں فورٹ ولیم، فورٹ سینٹ جارج کالج،دلی کالج کے قیام نے اردو زبان وادب کی وسعتوں میں اضافہ کیا وہیں سرسید تحریک نے اردوکو ایک نئے ماحول اور نثری اصناف سے آشنا کیاسرسید تحریک نے زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کیا،سائنٹفک سوسائٹی کے ذریعے دیگر زبانوں کے ذخیرہ کو اردو میں منتقل کرنے کا اہم کام انجام دیا گیا۔ بیسویں صدی میں حیدرآباد میں اردو ذریعہ تعلیم کی پہلی درس گاہ جامعہ عثمانیہ کے نام سے قائم کی گئی اور اس جامعہ کے تحت دارالترجمہ قائم کیا گیا جہاں دیگر علوم کی اہم کتابوں کے اردو میں ترجمے کیے گئے، بیسویں صدی میں ہمارے ملک سے باہر تعلیم کے لیے ہجرت کرنے والے طلبہ نے لند ن میں ترقی پسند تحریک کی بناء ڈالی جو آگے چل کر ہندوستان کی ادبی تاریخ کا ایک اہم باب بن گئی۔ترقی پسند تحریک کے زیر اثرہماراادب فروغ پانے لگا، اس کے ساتھ ساتھ حلقہ ارباب ذوق کا قیام عمل میں آیا اور بیسویں صدی کے تیسرے دہے میں جدیدیت کی تحریک بھی پروان چڑھی۔ آزادی سے قبل اور بعد ہجرت کا سلسلہ چل پڑا،جس کے بعد اردو ادب میں مہجری ادب کا تصور پیدا ہوا۔ اردو، انسائیکلوپیڈیا میں مہجری ادب کے معنی اس طرح بیان کیے گئے ہیں کہ ’’وہ ادب جو ہجرت کے بعد تخلیق ہوا، بالخصوص برصغیر میں آزادی کے نتیجے میں ہونے والی ہجرت سے متعلق ادب‘‘ مہجری ادب میں وطن کی محبت اور تہذیبی تبدیلی کے باوجود بھی اپنی مادری زبان ووطن سے محبت اور حب الوطنی کے جذبہ کو بیان کیا جاتا ہے۔
ہجرت سے دراصل مہجری ادب، نے جنم لیا ہے مہجری ادب میں ہجرت کرنے والوں کا اپنی زمینوں سے بچھڑنے اور ٹوٹنے کا کرب نمایاں پایا جاتا ہے ہمارے جن شعرا کے یہاں اس کرب کا تصور نظرآتا ہے ان میں ناصر کاظمی، عمیق حنفی، اخترا لایمان، من موہن تلخ، اور ظفر اقبال وغیرہ کے نام شامل ہیں جن کی شاعری میں مہجری ادب کے ابتدائی نقوش ملتے ہیں،ان کے علاوہ نثر نگاروں کی تخلیقات میں بھی مہجری اد ب کی خوب نشاندہی ہوتی ہے، ماہرین ادب نے مہجری ادب کے تعلق کو زبان سے نہیں بلکہ اہل زبان سے بتایا ہے۔مہجری ادب میں وطن سے نقل مقامی کے باوجود وطن کی یاد اوراپنے وطن سے انسیت کا بیان ہوتا ہے جو اکثرہجرت کرنے والے شعرا اور ادبا کے یہاں نظر آتا ہے۔ 
بیسویں صدی کے دوسرے تیسرے دہے میں عرب کے باشندوں کے لیے بہت مشکلات اور مصائب بھرے رہے عرب کے باشندوں کو اپنی آزادی سے محروم ہونا پڑا،بہت سی قربانیاں دینی پڑی جس کے ساتھ ساتھ انھیں ہجرت کرنے کے لیے مجبور ہونا پڑا،عربی ادب کے قلمکار جنھوں نے آخری دور میں عرب سے ہجرت کرکے امریکہ میں قیام پذیر ہوگئے اور انھوں نے وہاں عربی زبان و ادب کی خدمات انجام دیں،اسی لحاظ سے عرب کے ان ادبا کو مہجری ادبا کہتے ہیں اور ان کا ادب ادب المہجر کہلاتا ہے ان ادبا نے سماجیات، تعلیم، اور تاریخ پر حد سے زیادہ توجہ دی، انھیں ادبا میں ایک نام’جبران خلیل جبران‘ کا بھی ہے انھوں نے امریکہ میں عربی زبان و ادب کی اشاعت میں اہم کردار ادا کیاتھا۔
اشفاق احمد ندوی عربی میں مہجری ادب کے آغاز سے متعلق رقمطراز ہیں ’’مہجری شعروادب کاجنم بیسویں صدی میں وطن سے دورایک اجنبی ماحول میں انتہائی تکلیف دہ اور کسمپرسی کے حالات میں اس طرح ہوا کہ برسوں اس پرظلمت وجمودکے سائے لہراتے رہے اس کی آوازبے حد پست اور اس کی رفتاربے انتہاسست رہی۔ درصل ہجرت کا جب طوفان تھما توکچھ مہاجرین اپنے وطن واپس آگئے مگر ان کی ایک بڑی تعدادنے دیار غیرکوہی اپنا مستقر بنالیا جہان وہ زندگی کی مختلف مصرفیات میں مشغول ہوگئے۔ جس کے نتیجہ میں کچھ جرائدورسائل وجودمیں آئے اور چندانجمنوں اور سوسائٹیوں کا قیام بھی عمل میں آیا۔‘‘1
ہندوستان کی آزادی اور تقسیم ملک کے بعد برصغیر سے کافی تعداد میں لوگ فکر معاش کے لیے خلیجی ممالک، یورپ، امریکہ اور آسٹریلیا گئے اور ان میں سے اکثر بیرون ملک ہی مقیم رہے۔ ایسے لوگ تارکین وطن کہلاتے ہیں۔ تارکین وطن اپنے ساتھ اپنی زبان اپنی تہذیب لے گئے اور جس جگہ بسے وہاں انھوں نے اپنی زبان و تہذیب کے نقوش چھوڑے۔ برطانیہ تارکین وطن کا اہم ملک رہا۔ یہاں ہندوستانیوں اور پاکستانیوں کی بڑی آبادی ہے۔ اور وہاں اردو زبان و تہذیب نے بھی جڑ پکڑنا شروع کیا۔ برصغیر سے جانے والوں نے برطانیہ میں اردو کے فروغ کی شعوری کوشش کی جس کی بنا برطانیہ برصغیر کے بعد اردو کی دوسری بڑی بستی بن گیا۔ حیدرآباد دکن سے برطانیہ میں مستقل قیام کرنے والے اور اردو زبان و ادب کے فروغ میں بے پناہ خدمت انجام دینے والے جو ادیب و شاعر مشہور ہیں ان کا نام عبدالقادر حبیب حیدرآبادی ہیں۔ ڈاکٹر اسلم فاروقی نے حبیب حیدرآبادی کاتعارف اور ان کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’حیدرآباد سے برطانیہ منتقل ہونے والوں میں ایک نام حبیب حیدرآبادی کا ہے جنھوں نے اپنے قیام برطانیہ کے دوران نہ صرف وہاں اردو زبان اور ذریعہ تعلیم کو فروغ دیا بلکہ اپنی تصانیف کے ذریعے برطانیہ میں اردو کی ترقی اور وہاں کی تہذیب وتمدن کو بھی محفوظ کیا،عبدالقادر صاحب حبیب حیدرآبادی کے نام سے مشہور ہوئے اور ان کا مقبول عام تعارف یہ ہے کہ وہ اردو کے نامور محقق،نقاد،شاعر اور پروفیسر مغنی تبسم کے بہنوئی رہے ہیں،ان کی اہلیہ صدیقہ شبنم ایک اچھی شاعرہ ہیں اور نامور افسانہ نگار عوض سعید ان کے ہم زلف رہے ہیں،حبیب حیدرآبادی 1960 کی دہائی میں حصول معاش کے لیے برطانیہ منتقل ہوئے اور وہ اپنی حیات کے باقی ایام میں انھوں نے وہاں فروغ اردو کے بے شمار کام انجام دیے۔2
حبیب حیدرآبادی نے برطانیہ میں قیام کے دوران فروغ اردو کی جو شعوری کوشش کی اس سے وہاں اردو کے مہجری ادب کو پروان چڑھانے میں بھی مدد ملی۔ 
حبیب حیدرآبادی 29اپریل 1929 کو حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے وہ متوسط اور ایک شریف گھرانہ سے تعلق رکھتے تھے،ابتدائی تعلیم گھر پر اپنے والد محترم سے حاصل کی، اردو، عربی، فارسی اور دینیات پر عبور رکھتے تھے۔انھوں نے کامرس سے گریجویشن نظام کالج حیدرآباد سے کیا،ان کی شادی اپریل 1952 کو پروفیسر مغنی تبسم کی ہمشیرہ سے انجام پائی انھوں نے 1955 کو ہندوستان سے پاکستان ہجرت کی،1957 میں انھوں نے پاکستان سے انگلستان کوہجرت کی۔انگلینڈ میں انھوں نے اکاونٹس کی تعلیم حاصل کی اور وہیں سکونت اختیار کی حبیب حیدرآبادی نے لند ن کی ایک کمپنی میں ڈائرکٹر اور چیف اکاونٹنٹ کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔انگلینڈ میں ابتدائی قیام کا دور ان کی مشکلات سے بھرا رہا،وہ ایک محنتی شخص تھے ابتدا سے ہی وہ سخت محنت کیا کرتے تھے،وہ ایک ملنسار،خوش مزاج،مخلص انسان تھے۔ہر ایک کا درد وغم ان کاپنا درد ہوتا تھا،بڑوں سے ادب اور چھوٹوں سے شفقت کے ساتھ پیش آتے دوستو ں سے ہمیشہ خوش مزاجی اور گرم جوشی سے ملا کرتے تھے۔ان کے ادبی سفر کا آغاز 12سال کی عمر سے ہوا،ابتداء میں وہ ایک روزنامچہ لکھا کرتے تھے۔بچپن سے ہی شعر وادب سے لگاؤ رہا اس سے متعلق عوض سعید نے اپنی تصنیف خاکے میں لکھا ہے کہ :
’’آپ کو یہ جان کر شاید حیرت ہوکہ حبیب صاحب نے آنجہانی مہاراجہ کرشن پرشاد شاد کی شعری محفلوں میں شرکت کی ہے انھیں کلام سناتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔ جب یہ باتیں حبیب صاحب مجھے سنارہے تھے تو میں فرطِ حیرت میں ڈوبا ہوا تھا،اس وقت آپ کی کیا عمر رہی ہوگی۔میرے سوال پر حبیب صاحب نے کہا ’یہی کوئی پانچ برس‘3
حبیب حیدرآبادی نظام کالج کی اردو میگزین ’نظام ادب ‘کے مدیر بھی رہے ہیں،حیدرآباد دکن میں بچوں کی ادبی کانفرنس 1948 میں انھوں نے خصوصی طور پر منعقد کی۔ ان کی نگرانی میں حیدآباد میں کئی کل ہند مشاعروں کا انعقاد بھی عمل میں آیا تھا۔حبیب حیدرآبادی کو اپنے استاد محترم ڈ اکٹر محی الدین قادری زور سے بڑا گہرا لگاؤ رہا۔ اس عرصے میں ادارہ ادبیات اردو کی جانب سے بچوں کے لیے رسالہ ’سب رس ‘ جاری ہوا تو اس کے مدیر کی حیثیت سے انھوں نے خدمات انجام دیں، انھوں نے حضرت خواجہ حسن نظامی سے بھی استفادہ کیا 1967 میں وہ اپنے دورہ حیدرآباد کے موقع پر مخدوم محی الدین،سلیمان اریب،ڈاکٹر وحید اختر،شاذ تمکنت،عوض سعید،مغنی تبسم اور زبیر رضوی سے خصوصی ملاقات کی ان لوگوں نے بھی حبیب حیدرآبادی کا استقبال کیا۔ 
برطانیہ میں حبیب حیدرآبادی کے ایام مشکلات بھرے رہے وہ کئی دنوں تک غم روزگار سے پریشان رہے، جب ان کے حالات زندگی میں کچھ اطمنان آیا تو انھوں نے برطانیہ میں اردو زبان و ادب کی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ انھوں نے ناٹنگھم میں اپنی نوعیت کی پہلی اردو لائبریری قائم کی۔ 1966میں انھوں نے ناٹنگھم میں اردو کا پہلا آل انگلینڈ مشاعرہ منعقد کیا۔ اس کے بعد ناٹنگھم میں مشاعروں کا باضابطہ آغاز ہوگیا اور ہر سال مشاعرہ کا پابندی سے انعقاد عمل لایا جاتا رہاانھوں نے ڈارٹ فورڈ میں اکیڈیمی آ ف اردو اسٹڈیز قائم کی۔ان کا سرطان جیسے موذی مرض سے لڑتے ہوئے 7مارچ 1989 میں انتقال ہوگیا۔
جب ایک فرد اپنے وطن عزیز سے ذریعے معاش یا حالات کی پریشانی کے باعث ہجرت کرتا ہے تو ہمیشہ اس کا دل وطن کی یاد اور تڑپ میں سرگرداں رہتا ہے۔ہجرت کوئی معمولی بات نہیں ہے جب کسی نئے مقام پر ہم ہجرت کرتے ہیں تو وہاں ہمارا کوئی مددگار نہیں ہوتا ہر مسئلہ کا حل ہم کو ہی تلاش کرنا ہوتا ہے،اس کرب کو حبیب حیدرآبادی نے اپنی تحریروں میں بیان کیا ہے۔ 
حبیب حیدرآبادی نے اپنی کتاب’انگلستان میں‘ برطانیہ میں اپنے ابتدائی ایام کے بارے میں لکھا ہے جس سے ان کے کرب بھرے حالات زندگی کا اندازہ ہوتا ہے وہ لکھتے ہیں ’’یہاں آنے کے بعد بڑے پاپڑ بیلنے پڑے، مزدوری کرنی پڑی،گوداموں میں کام کرنا پڑا،بس کنڈیکٹری کی،ٹیکسی چلائی،کوئی کام ایسا نہیں ہوگا جو میں یہاں آنے کے بعد نہ کیا ہو،صبح چار بجے سے رات کے بارہ بجے کئی کئی مہینوں مسلسل کام کرنا پڑا،موزوں مکان آسانی سے نہیں ملتے تھے اور اگر ملتے بھی تھے تو ان کا کرایہ میری استطاعت سے بہت زیادہ ہوتا تھا‘‘4
حبیب حیدرآبادی نے اپنی کتاب میں ان پر ہونے والے جان لیوا حملہ کا ذکر بھی کیا ہے۔جس میں ایک انگریز نے سفر کے دوران ٹرین میں ہندوستانی ہونے کے ناطے حملہ کردیا اس کا منشا تھا کہ ٹرین سے ان کوپھینک دیں لیکن حبیب حیدرآبادی نے اپنا دفاع اچھے سے کیا اور ٹرین کی چین کھینچنے میں کامیاب ہوگئے۔اس واقعہ کو عوض سعید نے اپنی کتاب خاکے میں نقل کیا ہے۔حبیب حیدرآبادی اپنے ایک انشائیہ ’ہماری ہجرت ‘ میں برطانیہ کے ماحول اور صحافت کے رویہ سے متعلق لکھتے ہیں:
’’انگلستان میں ہم گزشتہ تیس برس سے ہیں،سوٹ پہنتے ہیں،ٹائی باندھتے ہیں،کبھی کبھی چھری کانٹنے اور چمچے کابھی استعمال کرتے ہیں،مقامی لوگوں کی بری باتوں کوزیادہ اور اچھی باتوں کو کم اپنائے ہوئے ہیں پھر بھی یہاں کی صحافت ہم کومہاجر سے مخاطب کرتی ہیں۔5
حبیب حیدرآبادی کی پہلی کتاب ’انگلستان میں‘ کی اشاعت کے دشوار مراحل کا ذکر کرتے ہوئے وطن عزیز میں اس کی اشاعت سے متعلق لکھتے ہیں’’انگلستان میں کتابت و طباعت کی دشواریوں کی وجہ سے اس کتاب کو حیدرآباد دکن میں چھپوانا پڑا،کسی بھی کتاب کی اشاعت کے لیے جن دشوار گزار مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے ان سے دور دور تک بھی میری آشنائی نہیں،ا س جان لیوا کام کے لیے میں نے اپنے عزیز ترین دوست اور میری رفیق حیات صدیقہ کے بڑے بھائی ڈاکٹر مغنی تبسم کا انتخاب کیا جو ادبی دنیامیں اپنا ایک مقام رکھتے ہیں۔‘‘6
حبیب حیدرآبادی کی پہلی تصنیف ’انگلستان میں‘ کے عنوان سے شائع ہوئی جس میں مضامین،انشائیے اور شاعری کا انتخاب شامل ہے۔اس کے علاوہ ان کے انشائیوں کا مجموعہ ’رہ رسم آشنائی‘، برطانوی اقتدار کے بارے میں معلوماتی کتاب ’برطانیہ کی سیاسی جماعتیں اور پارلیمنٹ‘ اور ایک کتاب’محمد الرسول اللہ‘ کے عنوان سے شائع ہوئی ہے حبیب حیدرآبادی کی دیار غیر میں اردو خدمات کوبیان کرتے ہوئے عوض سعید لکھتے ہیں :
’’حبیب صاحب جملے بازی کے دوش بہ دوش لطیفے بازی پر اتر آتے ہیں تو سامع کے ساتھ ساتھ لطیفہ کا انگ انگ بھی ہنسنے لگتا ہے میںیہ یہاں کہہ کر ان کے رتبے اور مرتبے کو کم کرنا نہیں چاہتا کہ وہ محض ایک لطیفہ باز آدمی ہیں وہ شاعر بھی ہیں اور ادیب بھی۔انگلینڈ کے سارے ادبی ماحول کو سنوارنے اور بگاڑنے میں ان کا زبردست ہاتھ رہا ہے۔کتنے ایسے انگریز تھے جنھوں نے حبیب صاحب سے اردو سیکھی اور اپنی مادری زبان بھول بیٹھے، اردو کی اس سے بڑی اور کیا خدمت ہوسکتی ہے‘‘ 7
حبیب حیدرآبادی نے ہماری ہجرت کے عنوان سے ایک انشائیہ لکھا تھا جس میں اپنے وطن سے محبت اور وطن کی یاد کو تازہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ہمارے اپنے وطن میں ہمارا اپنا مکان تھا، ملازمت تھی،ماں باپ،بھائی بہن،رشتہ دار،دوست احباب ہم کو قرض دے کر ہم سے دعوتیں کھانے والے،ہم سے قرض لے کر ہم سے روپوش ہونے والے۔ان سب کو چھوڑ چھاڑ کر ہم لندن جیسی اجنبی سرزمین پر پہنچ گئے۔جو ہمارے لیے ایک تاریک کنویں کے برابر ثابت ہوئی۔ یہاں کی مشکلات کا علم ہمیں یہیں آنے کے بعد ہوا۔8
حبیب حیدرآبادی نے مضمون نگاری، انشائیہ، سیرت نگاری، مزاح نگاری،تنقید،خاکہ نگاری کے ساتھ ساتھ انھوں نے شاعری بھی کی ہے ان کا کوئی دیوان تو شائع نہیں ہوا لیکن ایک شعری مجموعہ جو ان کی تصنیف ’انگلستان میں‘ کے آخر میں میری شاعری کے عنوان سے شائع کیا گیا ہے،جس میں چند ایک غزلیں،نظمیں، قطعات شامل ہیں۔حبیب حیدرآبادی کے ساتھ ساتھ ان کی اہلیہ صدیقہ بھی ایک اچھی شاعرہ ہیں۔حبیب حیدرآبادی کی شاعری میں ایک طرف وطن سے محبت کا اظہار دکھائی دیتا ہے تو دوسری جانب کرب کا احساس بھی ہے۔ 
حبیب حیدرآبادی کی شاعری میں ایک طرف تو انگلستان کا ذکر نظر آتا ہے وہیں وطن کی یاد بھی محسوس کی جاسکتی ہے۔یہ دوشعر ملاحظ کریں:
شام لندن ہو یا صبح دکن
یادان کی بہت ستاتی ہے 
مشینی زندگی میں بھی ہے باقی زندگی دل کی 
ہم انگلستان میں شعر و سخن کی بات کرتے ہیں
حبیب نے غزلیں لکھی ہیں ان کی شاعری میں پختگی نظر آتی ہے ان کا انداز بیان سیدھا سادہ اور اثر دار ہوتا ہے، انھوں نے شاعری میں چھوٹی بحریں بھی استعمال کی ہے۔ ان کے یہ اشعار جس میں زندگی کا فریب،زخموں کاذکر اور ہجرت کاتذکرہ ملتا ہے دیکھیں:
مسکراتی ہے گیت گاتی ہے
زندگی فریب کیا کھاتی ہے
زخم کچھ اور بڑھ گئے ہیں یہاں
ہم تو آئے تھے کچھ کمی کے لیے 
حبیب حیدرآبادی نے خود کے ٹوٹنے بکھرنے کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنی کیفیت کو ان اشعار میں بیان کیا ہے ملاحظہ ہوں:
خود کو تقسیم کر چکا ہوں میں
دل یہ کہتا ہے مر چکا ہوں میں
بٹ چکا ہوں میں کتنے حصوں میں 
ایک تھا اب بکھر چکا ہوں میں
بہرحال حبیب حیدرآبادی کی شاعری میں وطن سے محبت اور دیار غیر میں زندگی کا تصور اور کرب کی کیفیت کی نشاندہی ہوتی ہے حبیب حیدرآبادی کی شاعری میں بھی نثر کی طرح ہجرت کا تصور نمایاں طور پرمحسوس کیا جاسکتا ہے۔
اردو میں مہجری ادب کا تصور اور اس کے خدوخال سے متعلق کوئی واضح منظر نامہ نظر نہیں آتا ضرورت اس بات کی ہے کہ اردو میں مہجری ادب پر سنجیدگی سے تحقیق کی جاتے تاکہ مہجری ادب کا مفہوم عام ہو اور وطن سے دوررہنے والے شعراء وادبا کے مسائل اور وطن کی یاد میں لکھا جانے والا ادب منظر عام پر آئے۔
کریں ہجرت توخاک شہر بھی جزدان میں رکھ لیں
چلیں گھر سے تو گھرکی یاد بھی سامان میں رکھ لیں 
(اقبال کوثر) 
حوالے:
1۔ اشفاق احمد ندوی،جدیدعربی ادب کے ارتقا میں مہجری ادبا کی خدمات، ص38,39 
2۔ ڈاکٹر اسلم فاروقی، برطانیہ میں اردو اور حبیب حیدرآبادی، ص12
3۔ عوض سعید،خاکے،حبیب حیدرآبادی،ص130
4۔ حبیب حیدرآبادی،انگلستان میں،ص51
5۔ ڈاکٹر اسلم فاروقی، برطانیہ میں اردو اور حبیب حیدرآبادی، ص54
6۔ ڈاکٹر اسلم فاروقی، برطانیہ میں اردو اور حبیب حیدرآبادی، ص67
7۔ عوض سعید،حبیب حیدرآبادی،ص126,127
8۔ ڈاکٹر اسلم فاروقی، برطانیہ میں اردو اور حبیب حیدرآبادی، ص98

Dr. Azeez Sohail
Lecturar, M V S Govt Degree 
wa P G College 
Mahboob Nagar-509001 (Telangana)





قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

1 تبصرہ:

  1. ماشاء اللّٰہ، نہایت عمیق اور معلوماتی سلیس اور سادہ زبان میں تحقیق کو پیش کیا ۔
    اللّٰہ کرے زور قلم اور بھی زیادہ
    ماشاء اللہ
    احقر
    شاداب احمد، فوکس اسکول ، حیدرآباد

    جواب دیںحذف کریں