اردو
طنز و ظرافت کا یوسفِ گم گشتہ یوسف ناظم
اردو کے طنز یہ و مزاحیہ ادب میں یوسف ناظم کی علمی وادبی شخصیت محتاج تعارف نہیں آپ کا نام سید محمد یوسف اور تخلص ناظم تھا اد بی حلقوں میں یوسف ناظم کے نام سے مشہور و مقبول ہیں ادبی زندگی کا آغاز شعر و شاعری سے ہوا مگر اس وادیِ پُرخار میں زیادہ دیر تک ٹہر نہ سکے اور نثر نگاری کو مستقل طور سے وسیلہ اظہار بنایا 1944 میں باقاعدہ طور پر طنز و مزاح نگاری کے کوچہ میں قدم رکھا ابتداء میں محتاط رویہ کے ساتھ لکھتے رہے مگر آ گے چل کر بہتات نویسی کا شکار ہو گئے اور بادلِ ناخواستہ بسیار نویسی کے چکر میں پڑ کر اپنی تحریروں میں اعتدال و توازن کو زیادہ دیر تک قا ئم نہ رکھ سکے اور زیادہ لکھ کر کم شہرت و مقبو لیت پانے والوں کی صف میں شامل ہو گئے۔
اردو زبان و ادب میں عام دانشوروں اور شاعروں کی طرح یوسف ناظم کی تاریخ ولادت میں بھی معمولی سا الٹ پھیر ہوا ہے اس سلسلے میں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ بنیادی ماخذ کا سہارا لیتے ہوئے خود یوسف ناظم کے حوالے سے ان کی تاریخِ پیدائش کو پیش کیا جائے تاکہ تحقیق کی راہوں میں حائل دشواریاں خود بخود کا فور ہو جائیں اس سلسلے میں یوسف ناظم نے اپنے مزاحیہ مضامین کے مجموعے ’سائے ہمسائے‘ مطبوعہ 1975 کے گرد پوش والے صفحہ میں لکھا ہے ‘‘۔
میری تاریخ پیدائش نومبر1921بتائی جاتی ہے لیکن اپنی درج شدہ پیدائش کے حساب سے نومبر 1918 میں نمودار ہوا ‘‘۔
واضح رہے کہ اتر پردیش اردو اکادمی لکھنؤ سے ایک مستند و معتبر کتاب ’دستاویز‘ کے نام سے 1983 میں شائع ہوئی تھی جس میں ادیبوں، دانشوروں اور نثر نگاری کی خود نوشت سوانح شامل ہے مذکورہ کتاب کے صفحہ381 پر یوسف ناظم اپنی خود نوشت میں اس طرح رقم طراز ہیں:
’’ میری سوانح حیات بڑی آسان سی ہے میرا وطن جا لنہ ہے جو پہلے ضلع اور نگ آباد کا تعلقہ تھا اب بجائے خود ایک ضلع ہے (اس ترقی کا میری ولادت سے بھلا کیا تعلق ہوسکتا ہے ) 7 نومبر 1921 کی پیدائش ہے سن پیدائش سر کاری ریکارڈ میں 1918 درج ہے جس کا مجھے کبھی افسوس نہیں ہوا بلکہ خود کو کافی بڑا محسوس کرتا رہا،جالنہ ہائی اسکول سے میٹرک اور نگ آباد انٹرمیڈیٹ کالج سے انٹر کے امتحانات کامیاب کرنے کے بعد جامعہ عثمانیہ حیدر آباد میں داخلہ لیا 1942 میں بی .اے اور 1944 میں اردو میں ایم.اے کیا ایم.اے کے لیے اردو میں ظرافت نگاری پر ایک طویل مقالہ (275) صفحات کا لکھا، 1944 ہی میں ریاست حیدر آباد کے محکمۂ لیبر میں مترجم کی حیثیت سے ملازمت مل گئی 1946 میں شادی ہوئی اور اس کے ساتھ ہی اصل ملازمت کا سلسلہ شروع ہوا ریاست حیدر آباد کی تقسیم کے بعد کچھ دنوں میسور میں بھی رہا اور 1957 میں ریاست مہاراشٹر کے لیے نامزد ہوا، 1960میں اسسٹنٹ لیبر کمشنر کی حیثیت سے ممبئی (Transfar)تبادلہ ہوا۔ اور دسمبر 1976 میں یہیں ملازمت اختتام کو پہونچی ادبی زند گی کا آغاز شاعری سے ہوا، نثر نگاری 1944سے شروع ہوئی ‘‘۔
عہد حاضر کے نامور دانشور اور مزاح نگار نامی انصاری نے یوسف ناظم کے بارے میں لکھا ہے :
’’سینئر مزاح نگار یوسف ناظم 7 نومبر 1920 کو جالنہ ضلع اور نگ آباد آندھرا پردیش میں پیدا ہوئے گذشتہ 40 سال سے بمبئی میں مقیم ہیں اور وہاں کی ادبی و ثقافتی محفلوں میں نمایاں حیثیت رکھتے ہیں دہلی کے غالب ایوارڈ اور مدھیہ پردیش کے جوہر قریشی سمّان سے نوازے جا چکے ہیں طنز و مزاح پر ان کی تقریباً دس کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔مزاحیہ مضامین کے علاوہ ان کے لکھے ہوئے خاکے بھی بہت پر لُطف اور خیال انگیز ہوتے ہیں ان کا ایک مزاحیہ سفر نامہ ’امیریکہ میری عینک سے‘ منظرِ عام پر آچکا ہے، ان کا مزاح بڑا شائستہ اور لطف انگیزیز ہو تا ہے لیکن شخصیت پر لکھے گئے خاکوں میں ذرا بھی رعایت نہیں برتتے اور جس کو جس طرح محسوس کرتے ہیں اسی طرح صفحۂ قرطاس پر پیش کردیتے ہیں، ان کے مزاح میں شگفتگی کے ساتھ ساتھ متانت بھی موجود ہوتی ہے وہ طنز کے نشتر بھی آزماتے ہیں مگر اس کی دھار اکثر کند کرکے پیش کرتے ہیں تاکہ قاری اس کو ہنس کر سہہ لے ۔‘‘
(بیسویں صدی میں طنز و مزاح: نامی انصاری، ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی، 2002ص 244)
یوسف ناظم کی تاریخ ولادت کے تعلق سے نامی انصاری کا بیان محلِ نظر ہے کیو نکہ ان کی صحیح تاریخ پیدائش سرکاری ریکارڈ کے مطابق نومبر 1918 ہے جس کا تذکرہ یوسف ناظم نے اپنی خود نوشت سوا نحی مضمون میں کیا ہے یوسف ناظم صرف میدان ظرافت کے شہسوار ہی نہیں تھے بلکہ انھوں نے عمدہ خاکہ نگاری بھی کی ہے ان کے لکھے خاکوں میں حقیقت نگاری کے ساتھ عدل و انصاف کو مدِّنظر رکھتے ہوئے صحیح معنوں میں خاکہ اڑانے کا کار ہائے نمایاں انجام دیا گیا ہے ان کو خاکہ نویسی پر قُدرتِ کاملہ حاصل ہے انھوں نے جو خاکے لکھے ہیں ان میں صداقت بیانی کا عکس صاف نظر آتا ہے ان کے خاکے فنِ خاکہ نگاری کے اصول و ضوابط اور تقاضوں کو پورا کرتے ہیں۔
یوسف ناظم نے جن شخصیات پر خاکے لکھے ہیں ان میں کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، سلیمان، اریب اور باقر مہدی وغیرہ قا بل ذکر ہیں۔ اردو میں جدید لہجہ کے نمائندہ شاعر باقر مہدی بڑی اہمیت کے حامل ہیں ان کے شعری مجموعہ ’ٹوٹے شیشے کی آخری نظمیں‘ کی اشاعت پر 10دسمبر 1972 میں بمبئی کے ادیبوں اور سخن وروں نے ایک ادبی تقریب کا اہتمام کیا تھا اس مجلس میں یوسف ناظم نے باقرمہدی پر لکھا ہوا اپنا خا کہ پیش کیا تھا، اس خا کہ کے چند جملے ملاحظہ ہوں :
باقر مہدی شاعر ہیں، نقاد ہیں، مقرر ہیں ان کی شاعرانہ صلاحیتوں اور تنقیدی شعور کے بارے میں میرا کچھ عرض کرنا سراسر نا انصا فی ہو گی یوں ناانصافی سے باقر مہدی صاحب کو شغف رہا ہے، پورا ہندوستان یعنی غیر منقسم ہندوستان اس بات پر متفق ہے کہ باقر مہدی جتنے عالم ہیں اس سے زیادہ ظالم ہیں، باقر مہدی صاحب روایت سخن آدمی ہیں اتنے روایت سخن کہ ان کی پیشانی ہمیشہ شکن آلودہ رہتی ہے، باقر مہدی کی خاصیت کا کمال یہ ہے کہ وہ ادب کے کسی موضوع پر مدلل اور مبسوط مضمون لکھ کر اس کی مخالفت میں دوسرا مدلل مضمون لکھ سکتے ہیں، وہ ایک محفل میں ایک ہی موضوع کی تائید اورمخالفت میں گھنٹوں بول سکتے ہیں ۔‘‘
(بیسویں صدی میں طنز و مزاح: نامی انصاری، صفحہ 249)
اردو کے نامور دانشور اور تنقید نگار پرو فیسر محمد حسن نے اس خاکہ کا تذ کرہ ان الفاظ میں کیا ہے :’’باقر مہدی ہمارے دور کے آتش گر شخصیتوں میں سے ہیں جنہیں برتنے کے لیے سخت احتیاط کی ضرورت ہے، یوسف ناظم نے جرأتِ ر ندانہ کے ساتھ ان کی شخصیت پر قلم اٹھا یا اور ایسے ایسے خوبصورت جملے صَرف کیے جو صِرف ان ہی کا حصہ تھے ۔‘‘
(طنز و مزاح کے نئے رجحانات : مطبوعہ ماہنامہ ’آجکل‘ اپریل 1974 )
ابنِ اسماعیل نے یوسف ناظم کے اسلوبِ تحریر کی خوبیوں کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے :
’’یوسف ناظم کی انفرادیت اس بات میں مضمر ہے کہ وہ خیال اور واقعہ ہی سے جملوں کی تراش و خراش اور جملوں کے باہمی تضاد سے مزاح پیدا کرنے میں بے نظیر ہیں، ان کا اسلوب اردو مزاح میں قطعی نیا اور منفرد ہے، مزاح کا اچھوتا پن ان کے مضمون کے ہر سطر کے ہر لفظ میں رگوں میں دوڑتے خون کی طرح نظر آتا ہے، بلا شبہ ناظم کی نثر اردو کے مزاحیہ ادب میں وہی در جہ رکھتی ہے جو در جہ انسان کے جسم میں دوڑتا لہو رکھتا ہے ‘‘۔
( اردو طنز و مزاح، اختصار و انتخاب، ابن اسماعیل، ص 121)
یوسف نا ظم کی کچھ تحریریں فن انشا ئیہ نگاری کے تقا ضوں کو بھی پورا کرتی ہیں اس سلسلے میں ان کا مشہور انشائیہ ’بارات‘ اور ’دستِ راست‘ بطور مثال پیش کیا جاسکتا ہے۔ مجموعی طور پر عصر حاضر میں ان کی تخلیقات کو ناقدینِ ادب نے معیاری و مستند قرار دیا ہے یہ الگ بات ہے کہ بسیار نویسی کے باعث یوسف ناظم کی وہ پذیرائی نہیں ہوسکی جس کے وہ مستحق تھے پھر بھی انھوں نے اردوطنز و ظرافت کے میدان میں اپنے وقار کو مجروح ہونے سے بچائے رکھا اور اپنے منفرد اسلوب نگارش کے ذریعہ اردو مزاح نگاری کو جدید طرز کی شاہ راہ پر گامزن کیا ہے۔
یو سف ناظم نے کالم نگاری بھی خوب اچھے ڈھنگ سے کی ہے اور اس منزل میں بھی وہ بہتات نویسی کا شکار ہیں۔ ہفت روزہ ’بلٹز‘ بمبئی کا کالم ’باتیں ہماری‘ اس فہرست میں شامل ہے اس کالم میں وہ طوالت سے اپنے آپ کو محفوظ نہ رکھ سکے علاوہ ازیں موجودہ دور کے مشہور نیم ادبی اور علمی و مذہبی مجلہ ’البلاغ‘ بمبئی کا مشہور کالم ’ادب لطیف‘ تاحیات لکھتے رہے ادبی دنیا میں ’البلاغ‘ کو متعارف کرا نے میں اس کالم نے جو رول ادا کیا ہے وہ کسی سے مخفی نہیں۔
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یوسف ناظم کی مطبوعہ تصنیفات و تخلیقات میں سے چند کا تجزیہ کیا جائے تاکہ ان کے اسلوب کو سمجھنے میں دشواری کا سامنا قارئین کو نہ کر نا پڑے اس سلسلے میں سر دِست کچھ کتابوں کے نام یہاں درج کیے جارہے ہیں۔
طنز و مزاح کے موضوع پر یوسف ناظم کی سب سے پہلی اولاد ( کتاب) ’کیف و کم ‘ کے نام سے 1963 میں منظرِ عام پر آئی اس کتاب کا پہلا ایڈیشن ادارہ ادبیاتِ اردو حیدر آباد نے شائع کیا تھا پہلی اولاد سب کو عزیز ہوتی ہے قارئین نے ہاتھوں ہاتھ لیا ادبی مارکیٹ میں یوسف نام کے اس چہیتے کی مانگ بڑھی تو دو بارہ میر اینڈ کمپنی دہلی نے 1964 میں شائع کیا یوسف ناظم کی اس پہلی کتاب کا مقدمہ اردو کے مستند و معتبر دانشور اور افسانہ نویس کرشن چندر نے لکھا تھا۔
یوسف ناظم کی دوسری کتاب ’فٹ نوٹ ‘ کو عصر حاضر کے نامور ادیب اور فکشن رائٹر عابد سہیل صا حب نے اپنے ادارہ نصرت پبلشرز لکھنؤ سے 1969 میں شائع کیا تھا۔ ایک سو ساٹھ صفحات پر مشتمل اس کتاب میں یوسف ناظم کی کل بیس عدد طنز یہ و مزاحیہ تحریریں شامل ہیں کتاب کے آخر میں ان کا لکھا ہوا مزاحیہ شکریہ نامہ بڑا دلچسپ ہے۔مزاحیہ تحریر ’لقمانیات‘ کے چند جملے ملاحظہ ہوں :
’’ زند گی ایک گیت ہے، فلمی گیت اس گیت میں صرف شروع کے دو بول مرد کے ہوتے ہیں باقی سارا گیت عورت کا ہوتا ہے بیک گراؤنڈ میں بچوں کی موسیقی ہوتی ہے‘‘۔ ’’عورت کا دل و ہ تجوری ہے جسے کوئی نہیں کھول سکتا ایک مرتبہ کسی نقب زن نے یہ لا کر کھول لیا تھا اس نے پایا کچھ نہیں اس میں صرف میکے کی باتیں تھیں۔ جن مردوں کو بیویوں کی عادت ہوجاتی ہے وہ کسی کام کے نہیں رہتے۔‘‘
(فٹ نوٹ، یوسف ناظم، نصرت پبلشرز لکھنؤ 1969،ص 64)
’فٹ نوٹ ‘کے مشمولات پر ہم نگاہ ڈا لتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ یوسف ناظم نے طنز و مزاح کے اس چھوٹے سے گلدستہ میں رنگ برنگ کے پھول کھلا رکھے ہیں یہ وہ پھول ہیں جن کو ہم بآسانی اپنے ڈرائنگ روم کی زینت کے طور پر استعمال کرسکتے ہیں اس کتاب کے اہم مزاحیہ مضامین میں چہرے اور ترکاریاں، خلعتِ فاخرہ، مقابلۂ حسن ، علم سے قلم تک ، گداگری، موازنۂ قیس و فرہاد، اور ’مرد کی پسلی‘ وغیرہ اپنے طرزِ تحریر اور بیان کی شگفتگی کے اعتبار سے بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ ’دیواریے‘ یوسف ناظم کی تیسری تصنیف ہے جسے نقش کوہکن پبلی کشنز نے 1971میں شائع کیا تھا۔
فن صحافت کی ابتدائی تاریخوں میں ’دیواریے‘ (Wall Magzeen) کو بڑی اہمیت حاصل ہے دیواریہ ہر اس تخلیق اور تحریر کو کہا جاسکتا ہے جسے دیوار سے لٹکا دیا جائے یا دیوار پر چسپاں کرد یاجائے پرنٹ میڈیا اور برق رفتار الکٹرانک میڈیا کے اس عہدمیں بھی دیوار پر لکھی تحریروں کو عوام بڑی توجہ سے پڑھتے ہیں عام حالات میں بھی دیوار یں اشتہار اور پرچار کا کارنامہ انجام دیتی ہیں الیکشن کا پر چا ہو یا حکیموں کے قوتِ مردانگی والے نسخوں کی تشہیر ہر ایک کے لیے ’دیواریے‘ بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں یوسف ناظم نے اپنی کتاب ’دیواریے‘ میں جو تحریر یں شامل کی ہیں ان کے مطالعہ سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنی اس کتاب کے ذریعہ معاشرے کے تعلیم یافتہ طبقہ میں ادیبوں،دانشوروں اور شاعروں کو طنزکا نشانہ بنا یا ہے اس کتاب میں تین مضامین صرف جدید شاعری پرطنز یہ و مزاحیہ انداز میں لکھے گئے ہیں ایک طویل مضمون ’نئی یادگار غالب‘ کے موضوع پر ہے جس میں غالب کے اشعار کی طنزیہ و ظریفانہ شرحیں کی گئی ہیں ’نئی شاعری ‘ کے نام سے انھوں نے جو شوخی آمیزمزاحیہ لکھا ہے اس میں خاص طور سے عہد جدید کے شاعروں، مشاعرۂ شاعرات اور مشاعروں کو ہدفِ تنقید بنایا ہے۔
’ زیر غور‘ کے نام سے یوسف ناظم کے اٹھارہ مزاحیہ مضامین کا مجموعہ بنتِ حوا پبلی کیشنز بمبئی سے1973 میں شائع ہوا۔اس چوتھی کتا ب میں جو مضا مین شامل ہیں وہ ’زیر غور‘ سے شروع ہوکر ’غور کرنے کے بعد‘ پر ختم ہوتے ہیں یہ کتاب مبالغہ آرائی اور بسیار نویسی کی اچھی مثال ہے اس میں زبانی جمع خرچ اورلفاظی اپنے عروج پر ہے اس کے چند اہم مضامین میں الیکشن، ہوئے اس قدر مہذب، آج کا جغرافیہ اور ’سیر کر دنیا کی‘ وغیرہ اپنے اسلوب کے لحاظ سے قابلِ مطالعہ ہیں۔
ادبِ اطفال کے موضوع پر یوسف ناظم نے بچوں کے لیے ایک کتاب ’پلک نہ مار‘ کے نام سے لکھی جسے مکتبہ جامعہ لمٹیڈ دہلی نے 1974 میں شا ئع کیا تھا۔اس کتاب کا تعلق بچوں کے مزاحیہ ادب سے ہے یوپی اردو اکادمی لکھنؤ سے انعام یافتہ کتاب ہے۔عمرمیں اضافہ کے ساتھ یوسف ناظم کے کتابوں کی تعداد میں بھی اضافہ بڑی تیزی سے ہورہا تھا ’سائے ہمسائے‘ ان کی ایک ایسی ہی کتاب ہے جسے1975 میں زندہ دلانِ حیدر آبادنے شائع کیا تھا اس کے دیباچہ میں یوسف ناظم لکھتے ہیں : ’’اس کتاب سے کتابوں کی تعداد میں تو یقیناً اضافہ ہوگا لیکن اس کی وجہ سے ادب میں کسی خاص اضافے کی بات کرنا بلکہ سوچنا بھی بجائے خود مزاح ہے ۔‘‘
اس کتاب میں یوسف ناظم نے یار لوگوں کا خاکہ اڑانے کے ساتھ ہی بمبئی کی ادبی زندگی کے تعلق سے نیم تنقیدی مضامین مزاحیہ انداز بیان میں پیش کیا ہے اس سلسلے میں ڈاکٹر حامد اللہ ندوی نے اپنے مضمون ’آج کے مزاح نگار‘مطبوعہ شاعر ممبئی فروری 1980 کے شمارہ میں لکھا ہے کہ ’’ یوسف ناظم کو شخصیات سے بے حد دلچسپی ہے لیکن محض ان کے خط و خال تک ہی،وہ گہرے پانی میں کبھی نہیں اترتے کنارے کھڑے ہوکر جال پھینکتے ہیں اور چھوٹی چھوٹی رنگ برنگ مچھلیاں پکڑ کر خوشی کے مارے ناچتے اور شور مچاتے رہتے ہیں۔‘‘
’سائے ہمسائے‘ کہنے کو تو شخصیات کے خاکوں پر مشتمل کتاب ہے مگر حقیقت میں اس میں نہ تو مرقع نگاری پائی جاتی ہے اور نہ ہی خاکہ نگاری کے اصولوں اور تقاضوں کے معیار پر یہ کتاب پوری اتر تی ہے یہ کتاب خاکہ نماانشائیوں کی فہرست میں شمار کی جاسکتی ہے۔مزاح کے نام پر یوسف ناظم بہت سی غیر مزاحیہ باتیں اور طول طویل داستانیں لکھ جاتے ہیں جن کا حقیقت میں موضوع سے کوئی دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا مثلاً انھوں نے ’زیرغور ‘ ادھر ادھر کی تیر ‘‘ کے عنوان سے لفاظی اور مبالغہ آرائی اور عبارت آرائی میں دس صفحات سیاہ کرڈالے ہیں۔ اس کتاب کے مقدمہ میں وہ اپنی مزاح نگاری کے بارے میں یوں اظہار خیال کرتے ہیں :
’’میں کوئی پچیس سال سے مزا ح کے نام سے نثر لکھ رہاہوں اب اتنے لمبے عرصے تک خود کو مزاح نگار کہنے کے بعد جی نہیں چاہتا کہ اپنے مضامین کسی اور عنوان سے پیش کروں فلسفیوں نے متفقہ طور پر رائے دی ہے کہ جھوٹ اتنا بولو کہ سچ معلوم ہونے لگے معلوم نہیں اس جھوٹ کو ثابت کرنے میں کہاں تک کامیاب ہوا ہوں ۔‘‘
یونس اگا سکرنے یوسف ناظم کے اسلوبِ تحریر کے بارے میں لکھا ہے کہ : ’’یوسف ناظم بات سے بات پیدا کرتے ہیں سنجیدہ بات کہہ کر اس کے ساتھ( Anti Climax) قسم کے جملہ چپکا دیتے ہیں۔ الفاظ سے کھیلتے ہیں بیان میں مبالغہ کرتے ہیں اور سب سے بڑھ کر پیرا گراف کے آخر میں وہ جملہ بازی جسے انگریزی میں (Punch Line)کہتے ہیں سے کام لیتے ہیں،یوسف ناظم کے انشائیے بھی اچانک اختتام کو پہنچتے ہیں اور دیر پا اثر چھوڑ جاتے ہیں ۔‘‘
( ماہنامہ شاعر،ممبئی دسمبر 1976، بحوالہ ’اردو ادب میں طنز و مزاح ‘ آزادی کے بعد:ڈاکٹر صادق ص 453)
’سا ئے ہمسائے‘ کے بعد یوسف ناظم کے جو طنزیہ و مزاحیہ مجموعے منظر عام پر آئے ہیں ان میں ’فقط‘ اور ’ذکرِخر‘ 1977 میں حیدر آباد سے شائع ہوئے بچوں کے مزاحیہ ادب سے متعلق ان کی ایک اور کتاب ’الف سے بے تک ‘ شائع ہوچکی ہے ’پلک نہ مارو‘ بھی اس سلسلے کی کڑی ہے ا ن دونوں کتابوں پر آندھرا پردیش، اتر پردیش اور مہاراشٹر کی اردو اکادمیوں سے ایوارڈ مل چکے ہیں۔ 1981 میں ان کی ایک طنزیہ کتاب ’البتہ‘ کے نام سے شائع ہوکر مقبول ہوچکی ہے اس کے علاوہ بہت سے مزاحیہ مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں، طوالت کے باعث جن کا ذکر ممکن نہیں ہے اردو طنز و ظرافت اور مزاح نگاری کے حوالے سے یوسف ناظم کی ہشت پہلو شخصیت اس قا بل ہے کہ ہمارے تحقیق نگار اس پر خصوصی توجہ صرف کریں تاکہ اردو والوں کی آنے والی نسلیں اس کے طنز یہ و مزاحیہ ادبی کارناموں سے بآسانی واقفیت حاصل کرسکیں۔
Dept of Urdu
D.C.S.K.(Post Graduate) College
Maunath Bhanjan
Mau 275101 (U.P.)
Mob : 09236126977
E-Mail : rafique.mau@gmail.com
قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں