8/2/19

پروفیسر عبدالمغنی مضمون نگار:۔ منظور احمد






پروفیسر عبدالمغنی
منظور احمد

ڈاکٹر عبدالمغنی نقاد بھی، مفکر بھی ہیں اور مدبر بھی، مبصر بھی اور مقرر بھی، ماہر اقبالیات بھی ہیں اور ماہر اسلامیات بھی، ان سب خوبیوں کے علاوہ زبردست تحریکی و تنظیمی خوبیوں کے مالک بھی۔ ریاست بہار میں اردو کو جو مقام و مرتبہ ملا، اس کے لیے انھوں نے جو جدوجہد کی، اس کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ اگر انجمن ترقی اردو کی ہر ریاستی شاخوں کو ان جیسا فعال، سرگرم، متحرک اور دوراندیش قائد مل جائے تو وہ دن دور نہیں کہ اکثر ریاستوں میں اردو زبان کو دوسرا درجہ مل جائے گا۔
لیکن اس مضمون میں آپ کی قلمی کاوشوں اور تخلیقی و تنقیدی بصیرت کے تعلق سے کچھ نہیں لکھوں گا۔ اس کام کو دوسرے اہل قلم پر چھوڑتا ہوں۔ یہاں صرف چند واقعات اور تاثرات کو سپرد قلم کرتا ہوں، جن کا تعلق ان کی باغ و بہار شخصیت سے ہے۔
ڈاکٹر صاحب کی گراں قدر تخلیقات پڑھ کر اور اس سے زیادہ آپ کے تحریکی و تنظیمی کارنامے بلکہ کرامات کو سن کر آپ سے ملنے کی بڑی تمنا تھی۔ 1988 میں انجمن کی کل ہند کانفرنس دلی میں منعقد ہوئی تو شرف نیاز حاصل کرنے کی سعات نصیب ہوئی۔ حسن اتفاق کہ افتتاحی اجلاس میں میرے بالمقابل جو شخصیت جلوہ افروز ہوئی، وہ پروفیسر عبدالمغنی کی تھی۔ صورت اور سیرت دونوں کے لحاظ سے بے نظیر اور قد آور پایا۔ چہرے سے عظمت و جلال، چشمے کے فریم سے جھانکتی ہوئی روشن آنکھیں، بلکہ نورانی داڑھی، قیمتی شیروانی، سر پر اسی رنگ کی ٹوپی، پاؤں میں انگریزی جوتے، مزاج مولویانہ مگر ذوق مجتہدانہ ، حق گو بے باک، علم و وقار کا پیکر، خلوص و محبت کی جیتی جاگتی تصویر، اردو کا بے تاج بادشاہ۔
ڈاکٹر صاحب بی این کالج، پٹنہ میں انگریزی کے پروفیسر تھے، جن کو کوئی عربی کا پروفیسر سمجھتا ہے تو کوئی اردو کا ریڈر، جنھوں نے ساری عمر روٹی انگریزی کی کھائی مگر اردو زبان و ادب کی خدمت میں ہمہ تن مصروف تھے۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ انھوں نے انگریزی ادب کو کچھ نہیں دیا۔ انگریزی زبان میں تین چار کتابوں کے علاوہ بے شمار مضامین سپرد قلم کیے۔ ملک کے موقر انگریزی روزنامہ ’ٹائمز آف انڈیا‘ میں آئے دن ان کے مضامین شائع ہوتے رہتے۔ ایک زمانے میں تو ہفت روزہ ’ریڈینس‘ کا ہر شمارہ ان کے مضمون سے مزین ہوتا تھا۔ ’ریڈینس‘ اور ’دعوت‘ میں شائع شدہ مقالات کو یکجا کرکے کتابی شکل دے دی جائے تو ایک اہم علمی خدمت ہوگی۔ 
ایک اچھے معلم میں جن خوبیوں کا ہونا ضروری ہے وہ ان میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ معلم کو اپنے پیشے سے لگاؤ نہیں رہتا تو پھر طلبہ میں علم و لیاقت کہاں رہے گی۔ ویسے مجھے ان کے کسی طالب علم سے ملنے کا اتفاق نہیں ہوا، مگر میں یہ بات پورے وثوق کے ساتھ لکھ سکتا ہوں کہ ان کی تدریسی زندگی یقیناًبے نظیر ہوگی اور ان کے بے شمار شاگرد آپ پر فخر کرتے ہوں گے۔ 
ادیب کو چاہیے کہ ادب کے معیار کو اتنا نہ گھٹا دے کہ وہ چوراہے کی چیز بن جائے۔ ادیب کو چاہیے کہ وہ ہر حال میں ایسا ادب تخلیق کرے جو معاشرے کے لیے باعث مسرت و افتخار ہو، ڈاکٹر صاحب کی تحریریں یقیناًہمیں افکار کی بلندی اور ادب کی چاشنی عطا کرتی ہیں۔
ڈاکٹر صاحب کے قلم میں بڑی روانی ہے، تقریر تو ٹھہر ٹھہر کر کرتے ہیں مگر قلم کی روانی حیرت انگیز ہے، اردو بھی، انگریزی بھی، صفحات کے صفحات ایک نشست میں روشن کردیتے ہیں۔ نظر ثانی کی ضرورت تک نہیں پڑتی۔ چاہے کوئی اخباری بیان ہو یا ادبی مضمون فرفر لکھتے ہیں۔ خط بھی بڑا عمدہ اور قابل رشک ہے۔
ڈاکٹر صاحب کی زودنویسی کا ایک واقعہ سنیے ’فکر و آگہی‘ کا رفعت سروش نمبر کتابت و طباعت کے آخری مرحلے میں تھا۔ میں ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ایک تقریب میں ہماچل بھون نئی دلّی میں بیٹھا ہوا تھا۔ سروش مرحوم تشریف لائے، علیک سلیک کے بعد کہا کہ آپ نے سروش نمبر کے لیے کچھ نہیں لکھا۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا۔ مجھے نہ مدیرہ کی طرف سے کوئی خط ملا اور نہ آپ نے کبھی اس کا ذکر کیا۔ موصوف نے کہا کہ اگر اب بھی لکھیں تو شامل اشاعت ہوسکتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ آپ اپنی چند غزلیات اور منظومات (نثری اور آزاد نظم کے سوا) مجھے کل صبح دیجیے۔ میں پرسوں پٹنہ جانے سے قبل مضمون آپ کے حوالے کردوں گا۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہمارے اکثر اہل قلم فرمائشی مضامین کے لیے تاخیر یا تساہل سے کام لیتے ہیں، جس سے ہمارے اخبارات اور رسائل کے مدیروں کا وقت اور روپے برباد ہوتے ہیں اور خصوصی نمبروں کی اشاعت میں خاصی تاخیر ہوتی ہے۔
ڈاکٹر صاحب کے تبصرے بھی بڑے لاگ ہوتے تھے۔ وہ مصنف یا مولف کے منصب یا مسلک کو نہیں دیکھتے بلکہ تخلیق کو دیکھ کر بڑے جاندار غیرجانب دار تبصرے ’مریخ‘ میں شائع کرتے تھے۔ بات کہاں سے کہاں جاپڑی، میں کیا لکھنا چاہتا تھا اور کیا لکھ گیا۔ باتیں ان کی شخصیت کے تعلق سے قلمبند کرنا چاہتا تھا، فن پر آگیا151 خیر، آئیے اب آپ کی پروقار اور پرکشش شخصیت کے تعلق سے کچھ باتیں عرض کروں۔ بڑے ہمدرد اور مہمان نواز ہیں۔ ان کی ہمدردی اور مہمان نوازی مجھے ہمیشہ یاد رہے گی۔
دلّی میں عبدالمغنی صاحب سے کئی ملاقاتوں کا شرف رہا، جو بڑی پرتکلف اور دلچسپ ہی نہیں بلکہ یادگار بھی ثابت ہوئیں۔ پھر بھی آپ سفر میں اور میں بھی مسافرت میں۔ اب وہ وقت آیا کہ آپ حضر میں اور میں سفر میں151 میں پہلی بار پٹنہ اس وقت پہنچا جب بھاگلپور (نومبر 1989) میں آزادہند کا بدترین فساد بلکہ نسل کشی نقطہ عروج پر تھی۔ اس فساد میں جو جانی مالی نقصان ہوا اس نے تمام سابقہ ریکارڈز کو مات دے دی ہے جس سے دنیائے انسانیت تہہ و بالا ہوگئی تھی۔ ’اردو بھون‘ کے معمار کو اردو بھون کے باہر بارہا دیکھ چکا تھا، اردو بھون میں فروکش ہوتے ہوئے دیکھنے کی آرزو لیے ہوئے فسادات کی پروا کیے بغیر ایک صبح پٹنہ پہنچ گیا، پھر اردو بھون151 معلوم ہوا کہ آپ دفتر میں شام چار بجے آتے ہیں۔ اردو بھون سے سیدھے ان کے دولت کدے بمقام وارثی گنج، عالم گنج جانا چاہا تو اطلاع ملی کہ اب ان کا قیام وہاں نہیں رہا، بلکہ اردو بھون کے قریب ہی سائنس کالج کے احاطے میں ہے۔
بھاگلپور کے فسادات کے اثرات کی وجہ سے پٹنہ کی فضا بھی مکدر تھی اور الیکشن کے ہنگامے بھی اپنے شباب پر، بقول شخصے آزادی کے بعد پہلی بار عظیم آباد میں بھگدڑ مچی تھی۔ اس ماحول کی پروا کیے بغیر آپ کے در دولت پر پہنچا تو بڑا پرتپاک استقبال کیا اور میری غیرمتوقع آمد پر مسرت اور حیرت کا اظہار کیا۔ ناشتے کا اہتمام کرایا اور کہا کہ یہ فی البدیہہ ناشتہ ہے، کرلیجیے۔ پھر شام میں پرتکلف عشائیہ کا اہتمام بھی کیا۔ دیر تک گفتگو کی، اردو کی صورتِ حال، انتخابات، فسادات وغیرہ پر پر بڑی گہری تشویش ظاہر کی۔ سوء اتفاق کہ آپ کے آفس سکریٹری جناب افتخار عظیم چاند بھی بھاگلپور گئے ہوئے تھے اور واپس نہیں ہوئے تھے جس کی وجہ سے بار بار آپ کے چہرے سے بے اطمینانی اور پریشانی کا اظہار ہورہا تھا۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ آپ کے رشتہ دار بھی وہاں موجود ہیں مگر آپ کی زبان پر صرف عظیم صاحب کا نام بار بار آرہا ہے۔
ہمارے کچھ قائدین نے اردو تحریک کے نام پر اپنی سیاسی دکان چمکائی۔ اردو کے پلیٹ فارم کو غلط استعمال کیا۔ اردو کے نام پر ذاتی منفعت حاصل کی، نام اردو کا لیا، کام اپنا کرتے رہے، عہدے اور کرسی کے پیچھے دوڑتے رہے، اردو تحریک کا دم بھرتے رہے اور عین وقت پر حکومت اور حکام سے سودے بازی کرکے تحریک کو سخت نقصان پہنچایا، مگر ڈاکٹر عبدالمغنی کی شخصیت اس طرح کی کسی بھی بددیانتی اور فرض ناشناسی سے مستثنیٰ ہے۔ آپ چاہتے تو بڑا سے بڑا عہدہ ملتا۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ بڑے بڑے عہدے آپ کو پیش کیے گئے، کبھی اردو اکادمی کی صدارت تو کبھی اردو بھون سے نکال کر ہندستان کے کسی بھی راج بھون میں گورنر کی کرسی پر فائز کرنے کا منصوبہ ان کے سامنے رکھا گیا مگر انھوں نے ان سب عہدوں کو ٹھکرا دیا اور انجمن کی قیادت کو ان سب عہدوں پر اہمیت دی، اس کی صدارت کے لیے باقاعدہ جمہوریت کے دائرے میں رہ کر الیکشن لڑا اور ہمیشہ بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے ؂
وہی بشارت منزل ملی مرے دل کو
خلوص دل سے اٹھایا قدم جہاں میں نے
صوبۂ بہار کی اردو تحریک کو ایک طرف رکھیں، ملک کی دوسری ریاستوں کی تحریکوں کو ایک طرف تو بہار کی تحریک کی کامیابی و کامرانی ہی زیادہ نظر آتی ہے۔
مختلف ریاستوں کی انجمن کی شاخوں کی سرگرمیوں اور کارناموں کا جائزہ لیا جائے اور بہار (سوائے آندھراپردیش انجمن کے) شاخ کی سرگرمیوں اور کارنامو ں کا جائزہ لیا جائے تو بہار کی انجمن ہی سبقت لے جائے گی۔ ممبر سازی کے معاملے میں تو بہار کی شاخ سب سے آگے ہے۔ اتنی بھاری تعداد میں ممبرسازی کسی ریاست میں نہ ہوسکی۔ انجمن کی ممبرشپ سیاسی جماعتوں کی ممبرشپ سے زیادہ ہے۔ یہ سب دراصل ڈاکٹر صاحب کی دوراندیشی، قائدانہ، جدوجہد اور سعی پیہم کا نتیجہ ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے جب بھی حکومت سے کوئی مطالبہ کیا، تو عاجزی یا جی حضوری سے نہیں بلکہ پرزور اور پراثر انداز ہی سے اپنا حق طلب کیا۔ جب کبھی حکومت نے دیر سویر سے کام لیا تو بڑے سخت احتجاجی بیان جاری کیے۔ انھوں نے انجمن کے پلیٹ فارم سے نہ صرف اردو زبان و ادب کے مسائل، بلکہ ملی و قومی مسائل کو ایوانِ حکومت تک بڑی گھن گرج کے ساتھ پیش کیا۔
ڈاکٹر صاحب خوش پوشاک ہی نہیں خوش خوراک بھی تھے اور خوش مزاج بھی۔ ایک مرتبہ ہم دونوں کا قیام جماعت اسلامی کے مہمان خانے (چتلی قبر دلی) میں تھا۔ صبح کی نماز کے فوراً بعد آپ نے پرتکلف ناشتے کا اہتمام کیا اور مجھے بھی دعوت دی۔ میں نے کہا علی الصباح میرا ناشتہ بقدر بادام ہوتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ برہمن ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی زبان سے لفظ برہمن مجھے بڑا ناگوار گزرا، ڈاکٹر صاحب نے میری ناگواری کو بہت جلد محسوس کیا اور کہا کہ جناب اقبال نے بھی برہمن زادہ ہونے پر فخر کیا ہے۔ پھر علامہ کے مشہور فارسی اشعار پڑھ کر میری ناگواری دور کردی ہے ؂
میر و مرزا بہ سیاست دل و دین باختہ اند
جز برہمن پسرے محرم اسرار کجا است

مرا بنگر کہ در ہندوستان دیگر نمی بینی
برہمن زادہ رجز آشنائے روم و تبریز است
ماہر اقبالیات سے اقبال کے اشعار سن کر محظوظ ہوا۔ ڈاکٹر صاحب نے میری ایک شکایت کو دور کردی، تاہم آپ کی ذات سے مجھے ایک اور شکایت ضرور ہے اور وہ جائز بھی ہے اور برحق بھی۔ آپ نے اپنی تمام تر صلاحیت، قوت، لیاقت اور طاقت کو صرف اور صرف صوبہ بہار کے لیے مختص کردیا۔ آپ بہت ہی کم عمری میں انجمن سے وابستہ ہوئے۔ آپ کے بے شمار تجربوں، مشاہدوں اور جذبوں کے پیش نظر کاش آپ کل ہند انجمن کے صدر منتخب ہوتے یا صدارت کی پیش کش آپ کو کی جاتی تو آج بہار کے علاوہ ملک کی دیگر شاخیں بھی یقیناًبہتر طریقے پر اپنے فرائض انجام دیتیں اور زیادہ فعال اور سرگرم نظر آتیں۔ اردو کے چرچے بہار کے ساتھ ساتھ ملک کی بہت سی ریاستوں میں بھی ہوتے۔
ہمت کے دھنی جب الجھیں گے دریا کی تلاطم خیزی سے
موجوں کے تھپیڑے کیا ہوں گے، طوفان کا دھارا کیا ہوگا؟
ڈاکٹر عبدالمغنی کو شان دار مجاہدے، ریاضت اور ملازمت میں پوری پوری ایمانداری، قابل فخر حب الوطنی، قابل تقلید کارناموں کے باوجود جیل کی ہو ابھی کھانی پڑی مگر یہ تو ایک طرح سنت یوسفی تھی اور ان کی بے گناہی ثابت ہوئی اور ہر طرح کے الزام سے بری ہوئے۔ ان کا جیل جانا شاید چند دوست نما دشمنوں کے اور منافقوں کے کارنامے تھے۔ انھوں نے بڑی دوراندیشی اور اولوالعزمی سے کام لیا۔
اردو تحریک کا یہ بے مثال قائد، نامور ادیب، دیدہ ور نقاد، انگریزی زبان کے مایہ ناز استاد، جب ملک بھر میں یوم اساتذہ 5 ستمبر کو منایا جارہا تھا تو داعی اجل کو لبیک کہا، جس کے کارنامے نہ صرف ریاست بہار میں بلکہ پورے ملک کے لیے ناقابل فراموش اور یادگار ہیں۔

Syed Manzoor Ahmad
H.I.G-2, Bada Makan Layout
Mysore - 57007 (Karnataka)
Mob.: 09731634434 





قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

سماجی شعور: تعارف اور اہمیت، مضمون نگار: عرفان احمد گنائی

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 انسان طبعاًمعاشرت پسند اور سماجی واقع ہوا ہے۔ گرہوں اور ٹولیوں میں رہنے کی یہ خصلت ازل سے ہی اس کی گھٹی میں پڑی ہ...