انگریزی
ادب کے شاہکار فن پارے
دور
شیکسپیئر اور اس سے قبل
ذاکر
انعامدار
انگریزی ادب کا شمار دنیا کے قدیم ادبی ذخیروں میں ہوتا ہے۔انگریز ی انگلستان کے عہد وسطیٰ کے ابتدائی دو رمیں ایک جرمن قبیلے ’اینجلس‘کی زبان کے طور پر سامنے آئی جو پانچویں صدی عیسوی میں جرمنی سے نقل مکانی کر کے انگلستان کے کسی علاقے میں آباد ہوا تھا۔ انگلینڈ کی دفتری اور سرکاری زبان کے طور پر اس کا ارتقا ہوا اور جب سترہویں صدی سے بیسوی صدی کے وسط کے دوران کرۂ ارض کا ایک بڑا علاقہ برطانوی سامراج کے زیر نگیں آگیا تو یہ زبان بھی دنیا کے ایک بڑے حصے تک پھیل گئی۔ اقوام متحدہ کی چھ دفتری زبانوں میں اس کا شمار ہوتا ہے۔باقی پانچ زبانیں عربی، چینی، فرانسیسی، روسی اور اسپینی ہیں۔ انگریزی رابطہ عامہ کی زبان ہے۔ چودھویں صدی عیسوی سے انگریزی ادب میں اہم تخلیقات کے نمونے ملتے ہیں۔ ملکہ الزبیتھ اول کا دور انگریزی ادب کا دور زریں سمجھا جاتا ہے۔ زیر نظر مضمون میں ہم انگریزی ادب کے اہم فن پاروں کا مختصر جائزہ لینے کی کوشش کریں گے۔
کینٹر بری ٹیلس (Canterbury Tales):
کینٹر بری ٹیلس کا شمار انگریزی ادب کے اولین فن پاروں میں ہوتا ہے۔ یہ 1387 سے 1400 کے درمیان لکھی گئی۔ اس کا مصنف جیفری چاسر تھا۔ ’چاسر‘ کو بابائے انگریزی ادب کہا جاتا ہے۔ وہ دوروسطی کا عظیم شاعر تھا وہ اپنے دور کا عظیم ادیب،فلسفی اور ہیئت داں تھا۔ چاسر کا دور دو اہم واقعات کے لحاظ سے انگریزی ادب میں شہرت رکھتا ہے،پہلا ’سو سالہ جنگ‘ جو انگلستان اور فرانس کے درمیان لڑی گئی اور دوسرا ’بلیک ڈیتھ ‘جس میں پلیگ جیسی وبائی بیماریوں سے انگلستان اجڑ گیا تھا۔ چاسر کو ’نشاۃ الثانیہ کی صبح کا ستارہ ‘کہہ کر یاد کیا جاتا ہے۔ مشہور اطالوی مفکرین پیٹرارچ اور بکاشیو سے اس کی ملاقات ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ چاسر نے بکاشیو کی ’ڈیکا میرین‘ سے متاثر ہوکر ’ کینٹر بری ٹیلس‘ لکھی جس کا مطالعہ وہ اپنے اٹلی کے پہلے سفارتی دورے کے دوران 1772 میں کر چکا تھا۔ انگریزی ادب میں کینٹر بری ٹیلس کو اس لیے بھی خاص اہمیت حاصل ہے کہ اس کتاب نے اپنے دور کے رواج کے برعکس اد ب کے لیے اطالوی، فرانسیسی اور لاطینی زبانوں کو چھوڑ کر دیسی انگریزی زبان کو ترجیح دی۔اس دور کے لحاظ سے یہ ایک انقلابی قدم تھا جس میں چاسر کو کامیابی حاصل ہوئی۔یہ ٹھیک ویسی ہی بات ہوئی جیسا ولی دکنی کے دیوان کو دلی پہنچنے کے بعد وہاں لوگوں کو پتہ چلا کہ شاعری اور ادب صرف فارسی میں ہی نہیں اردو میں بھی پیش کیا جاسکتا ہے اور لوگ فارسی چھوڑ کر اردو میں شاعری کرنے لگے۔اس کا اثر یہ ہوا کہ چاسر کے ہم عصر جان گوور،ولیم لینگ لینڈ،جولین آف نارویچ نے بھی اہم ادبی تخلیقات انگریزی میں لکھی۔یہ چوبیس کہانیوں کا مجموعہ ہے۔ جو سترہ ہزار سطروں پر مشتمل ہے۔ اکثر کہانیاں منظوم ہیں کچھ نثر میں بھی لکھی گئی ہیں۔ اس کی ابتداء کچھ اس طرح ہوتی ہے کہ29 زائرین ’سینٹ تھامس بکیٹ‘ کے مزار کی زیارت کے لیے جو کینٹر بری کیتھڈرل میں ہے ایک ساتھ سفر کے لیے نکلتے ہیں۔ سفر سے ایک دن قبل وہ سب ’ٹیبارڈاِن‘ نامی سرائے میں جو ساوتھ وارک میں واقع تھا جمع ہوتے ہیں اور وہاں ان کا میزبان کہانیوں کے مقابلے کا اعلان کرتا ہے۔کہانی گوئی کے اس مقابلے میں ہرایک کو چار چار کہانیاں سنانی تھیں۔دو کہانیاں سفرکے دوران جاتے وقت اور دو واپسی کے سفر میں اور سب سے اچھے کہانی گو کو واپسی میں اسی سرائے میں مفت کھانے کا انعام مقرر کیا جاتا ہے۔ چاسر چاہتا تھا کہ اس کتاب میں کل 120 کہانیاں لکھے لیکن 24 کہانیاں ہی لکھ پایا تھا کہ اس کا انتقال ہوگیا۔ کینٹر بری ٹیلس میں جو چوبیس 24کہانیاں ہیں وہ درج ذیل ہیں۔
1: نائٹ کی کہانی
2: کارخانے کے مالک کی کہانی
3: صدر بلدیہ ؍حاکم شہر کی کہانی
4: خانساماں کی کہانی
5: قانون داں کی کہانی
6: وائف آف باتھ کی کہانی
7: راہب کی کہانی
8: کاہن کی کہانی
9: منشی کی کہانی
10: تاجر کی کہانی
11: زمیندار کی کہانی
12: نودولتیے زمیندار کی کہانی
13: طبیب کی کہانی
14: معافی دینے والے راہب کی کہانی
15: جہاز راں کی کہانی
16 : کلیسا کی صدر راہبہ کی کہانی
17: چاسر کی سرٹوپا س کی کہانی
18: میلبی کی کہانی
19: سنیاسی کی کہانی
20: راہبہ کی کہانی
21: دوسری راہبہ کی کہانی
22: کیتھولک چرچ کے نمائندے کی کہانی
23: داروغہ کی کہانی
24: گرجا کے پادری کی کہانی۔
چاسر نے ان کہانیوں کے پس منظر میں اس وقت کے حالات خاص طور سے مذہبی پیشواؤں کے ذریعے عوامی استحصال اور گرجا گھروں کی اخلاقی گراوٹ پر شدید تنقید کی ہے۔چاسر کے انداز بیان کی جدت نے اسے نہ صرف انگریزی ادب بلکہ عالمی ادب میں بے مثال داستان گو کی حیثیت عطا کردی۔
یوٹوپیا (UTOPIA):
سرتھامس مور کے ذریعہ تصنیف شدہ یہ کتاب 1516 میں لکھی گئی۔ تھامس مور انسان دوستی اور انسانیت نوازی کے جذبہ سے سرشار تھا۔اس نے اپنے خوابوں کی ایسی سلطنت کا نقشہ کھینچاجس کا قیام اس کرۂ ارض پر عملی طور پر ممکن نہیں تھا۔اس کتاب میں سر تھامس مور نے ایک ایسے تصوراتی سماج کا خاکہ پیش کیا ہے جو مثالی ہو۔ ایک افسانوی جزیرے کے مثالی سماج کا اس کتاب میں تصور پیش کیا گیا ہے۔ دراصل یہ لاطینی زبان میں لکھی گئی کتاب ہے،جس کا بعدمیں اطالوی،فرانسیسی اور انگریزی زبان میں ترجمہ ہوا۔ اس کے اہم کرداروں میں پہلا کردار خودمصنف کا ہے دوسرا کردار پیٹر گلس جو مصنف کا دوست ہے اور تیسرا کردار رافیل ہائیتھلوڈے ایک پرتگیز ی مسافر ہے۔ کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے کتاب کے پہلے حصے میں اس کا مرکزی کردار رافیل ہائیتھلوڈے اپنے سمندری سفر کا احوال بیان کرتا ہے جو اس نے امریگو کے ساتھ کیا تھا۔ اور دوسرے حصے میں وہ یو ٹوپیا دیش کے بارے میں بیان کرتا ہے۔
یو ٹوپیا دیش کی اہم خصوصیات:
(1) یہ ایک جمہوری ملک ہے۔
(2) یہ ایک ایسا سماجی معاشرہ ہے جہاں دولت پر عوامی کنٹرول ہے۔
(3) جہا ں مذہبی رواداری ہے۔
(4) معاشی برابری ہے۔
(5) جہاں امن اور خوش حالی ہے۔
(6) جہاں فطرت سے لگاؤ ہے۔
(7) جہاں لوگ حسن کے دلدادہ ہیں۔
(8) جہاں عام انسانوں سے پیا ر ہے۔
(9) جہاں انسانی عزت و وقار کا احترام ہے۔
جس وقت تھامس مور نے یہ کتاب لکھی وہ یورپ کا وہ دور تھا جب یورپ میں نشاۃ الثانیہ اپنے پورے بہار پر تھی۔
گاربوڈیک(Gorboduc):
یہ تھامس نارٹن اور تھامس ساکو ل کے ذریعے پیش کردہ ایک المیہ ڈرامہ ہے جو 1562 میں پہلی بار ملکہ الزابیتھ اول کی موجودگی میں اسٹیج پر پیش کیا گیا۔ ولیم شیکسپیر کی پیدائش سے دو سال قبل یہ المیہ ڈرامہ دور نشاۃ الثانیہ کے ڈرامہ نگاروں کے لیے ایک مثالی نمونہ بن گیا۔
اس ڈرامے کے اہم کردار :
(1) بادشاہ گاربوڈیک (2) بڑا شہزادہ فیرکس
(3) چھوٹا شہزادہ پوریکس (4) رانی ویڈینا
(5) راجا اور رانی کے قاتل (6) امراء و شرفاء
(7) عوام
یہ ڈرامہ پانچ مناظر پر مشتمل ہے۔اس ڈرامہ کامرکزی تھیم ’جذبہ انتقام‘ ہے۔اس ڈرامے کی کہانی کچھ اس طرح ہے کہ راجا اپنی سلطنت کو دونوں شہزادوں کے درمیان برابر تقسیم کر دیتا ہے۔ دونوں کے درمیان لڑائی شروع ہوجاتی ہے اور پوریکس کے ہاتھوں بڑے بھائی فیرکس کا قتل ہو جاتا ہے ملکہ کو بڑے شہزادے سے بہت محبت تھی جس کی وجہ سے وہ پوریکس کو قتل کر دیتی ہے۔ لوگ بغاوت کرتے ہیں اور راجا اور رانی دونوں کو قتل کر دیتے ہیں۔ بعد میں امراء قاتلوں کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں جنھوں نے راجا اور رانی کا قتل کیا تھا۔جس کے نتیجہ میں خانہ جنگی شروع ہوجاتی ہے اور ہر طرف بد نظمی اور انتشار پھیل جاتا ہے۔
اسٹروفیل اور اسٹیلا (Astrophel and Stella)
یہ سر فلپ سڈنی کی نظموں کا مجموعہ ہے۔ سر فلپ سڈنی کی حیثیت ایک شاعر سے زیادہ ایک نقاد کی ہے۔جب گوسن نے ’اسکول آف ابیوز ‘کے عنوان سے شاعری پر حملے کیے تو اس کے جواب میں سر فلپ سڈنی نے ’ڈیفنس آف پوئٹری ‘ لکھ کر ان حملوں کا موثر جواب دیا تھا۔فلپ سڈنی کی یہ کتاب انگریزی ادب میں تنقید کا اہم نمونہ تصور کی جاتی ہے۔شاعر کی حیثیت سے بھی سڈنی کو انگریزی ادب میں بہت اونچا مقام حاصل ہے۔اس کی شاہکارتخلیق ’اسٹروفیل اور اسٹیلا ‘ ہے جو 1591 میں شائع ہوئی۔ جس میں 108 سانیٹ اور 11 گیت ہیں۔
اسٹروفیل ستاروں کا عاشق ہے جو خود سڈنی ہی ہے اور اسٹیلا اس کا ستارہ ہے جس کی نسبت پینی لوپ کی طرف کی جاتی ہے۔سڈنی،پینی لوپ سے محبت کرتا تھا لیکن اس کی شادی 1581 میں کسی رئیس سے ہوگئی۔اسی اظہار محبت کو سڈنی نے اپنی ان سانیٹ کی شکل میں پیش کیا جو بعد از مرگ 1591 میں شائع ہوئی۔یہ فن پارہ اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ یہ انگریزی ادب کی اولین تخلیق ہے جس میں شاعر نے اپنے ذاتی تجربات کو پیش کیا ہے۔ سڈنی نے اپنے عشق کی داستان پیش کرنے کے لیے ستاروں کا سہارا لیا اور حسن اتفاق سے ٹھیک اسی دور میں اردو کے قرون اولیٰ کے شاعر ملا اسد اللہ وجہی نے قلی قطب شاہ اور بھاگ متی کی داستان عشق ’قطب مشتری ‘ مثنوی کی شکل میں تخلیق کی جس کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے تمام ہی کردار ستاروں اور سیاروں کے نام پر رکھے گئے ہیں۔
ڈاکٹر فاسٹس(Doctor Faustus):
’ ڈاکٹر فاسٹس‘کا شمار انگریزی ادب کے اولین المیہ ڈراموں میں ہوتا ہے۔اس ڈرامہ کا پورا نام ’ڈاکٹر فاسٹس کی حیات اور موت کی المیہ تاریخ‘ ہے۔ جسے مختصراً ’ڈاکٹر فاسٹس‘ کہا جاتا ہے۔یہ دور الزابیتھ کا المیہ ڈرامہ ہے جس کامصنف کرسٹوفر مارلو ہے۔ یہ 1592 میں پیش کیا گیا۔ ابتدا میں فاسٹس مختلف تعلیمی شعبوں مثلاً منطق، طب،قانون، مذہبی علوم وغیرہ کو پرکھنے کے بعد آخر کار اس نے طلسم ؍جادو کو اختیار کیا۔ تب ایک نیکی کا فرشتہ اور ایک بدی کا فرشتہ ظاہر ہوتے ہیں۔ نیکی کے فرشتے نے اسے طلسمی کتابوں کے مطالعے پر خبردار کیا اور مقدس کتابیں پڑھنے کی تلقین کی لیکن بدی کے فرشتے نے جادو کی کتابیں پڑھنے کے لیے اس کی حوصلہ افزائی کی۔ جب دونوں فرشتے غائب ہو جاتے ہیں تو فاسٹس خود کلامی کے انداز میں جادوئی کتابوں کے مطالعے کی اہمیت کو محسوس کرتا ہے۔ اور ویلڈس کے مشورے پر فاسٹس روحوں کو بلانے کے لیے غیر آباد جنگل میں چلا جاتا ہے۔ ویلز اور کارنیلیوس دو دانشور عالم فاسٹس کی تلاش میں آتے ہیں۔ فاسٹس درختوں کے جھنڈ میں ایک جگہ گھیرا ڈال کر منتر پڑھتا نظر آتا ہے۔نیکی اور بدی کے فرشتے پھر سے اس پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک اصرار کرتا ہے کہ وہ خدا کی طرف پلٹ جائے جبکہ دوسرا اسے بے انتہا دولت، عزت، علوم اور طاقت کا بھروسہ دلاتا ہے۔ فاسٹس اپنے منتروں کے زور سے ایک بد روح ’میفسٹو فلیس‘ کو بلاتاہے۔اور اس پر قابو پانے کی کوشش کر تا ہے۔ لیکن وہ کہتا ہے کہ وہ پہلے سے ہی جنوں کے شہزادے لوسی فر کا غلام ہے۔ فاسٹس’میفسٹو فلیس‘ کے ذریعے لوسی فر سے ایک معاہدہ کرتا ہے جس کی رو سے وہ اپنی زندگی کے 24 سال لوسی فر کو اس زمین پر رہنے کے لیے اپنا جسم دے دے گا لیکن ایک خاص مدت تک ’میفسٹو فلیس‘ کو اس کے تابع کر دیا جائے اور دونوں کے درمیان یہ معاہدہ طے ہوجاتا ہے جو فاسٹس کے خون سے لکھا جاتا ہے۔ ’میفسٹو فلیس‘ اسے جادو کی ایک کتاب دیتا ہے جس میں انسان اور اشیا پر قابو کا علم ہوتا ہے۔ نیکی کا فرشتہ پھر سے اصرار کرتا ہے کہ وہ اپنے گناہوں پر توبہ کر لے اور ندامت اختیار کر لے۔لیکن بدی کا فرشتہ اسے متنبہ کرتا ہے کہ اگر وہ ایسا کرے گا تو چیر کررکھ دیا جائے گا۔ اس طرح سے وہ اپنے جادو اور طلسمی طاقتوں کی بدولت دنیا بھر میں عزت اور شہرت حاصل کرتا ہے۔ لیکن جب اس کا وقت قریب آتا ہے اور معاہدہ کے لحاظ سے اسے اپنی زندگی سونپنی پڑتی ہے تو بدروحیں اسے کھینچ کر جہنم میں لے جاتی ہیں۔
اوتھیلو(Othello)
ولیم شیکسپیئر کے نام کے بغیر انگریزی ادب کی کوئی بھی تاریخ ادھوری ہی کہلائے گی۔شیکسپیئر انگریزی ادب کے آسمان پر چمکنے والا سب سے تابدا ر ستارہ ہے جو انگلینڈ کا ’قومی شاعر‘ کہلاتا ہے۔انگریزی زبان میں دنیا کے عظیم ترین مصنّفین اور ڈرامہ نگاروں میں ولیم شیکسپیئر کا شمار ہوتا ہے۔یہ ایک عظیم ڈرامہ نگار، شاعر اور اداکار تھا۔ اس کی پیدائش 1564 میں ہوئی اور وفات 1616 میں ہوئی۔اس کی تصانیف میں 38ڈرامے 154گیت اور دو طویل نظمیں ہیں۔اس کے ڈراموں کے دنیا کی سبھی بڑی زبانوں میں ترجمے ہوچکے ہیں۔
اوتھیلو ولیم شیکسپیئر کا 1603 میں لکھا ہوا المیہ ڈرامہ ہے۔ جس کی بنیاد ’ایک بربر کپتان‘نامی کہانی پر رکھی گئی ہے جسے بوکاشیو کے شاگرد ’ ینتھیو‘ نے 1565میں لکھا تھا۔ اوتھیلو کی کہانی اس کے دو مرکزی کرداروں کے گرد گھومتی ہے۔ اوتھیلو جو بربر سردار ہے اور وینس کی فوج کا سپہ سالار ہے جبکہ لاگو اس کا بھروسے مند لیکن حاسد اور غدار علم بردار ہے۔ کہانی میں نسل پرستی، حمیت، رقابت، دھوکہ، انتقام، توبہ سے بھر پور جذبات کی عکاسی ہے۔ روڈرگو ایک مالدار اونچے خاندان کا بد چلن شخص تھا۔ جو اپنے دوست لاگو سے شکایت کر تا ہے کہ اس نے برین ٹیو کی بیٹی ڈیسڈومینو اور بربر جنرل اوتھیلو کی خفیہ شادی کی خبر اسے نہیں دی۔ روڈرگو مغموم ہے کیو نکہ وہ ڈیسڈومینو سے محبت کرتاتھا اور اس نے برین ٹیو سے اس کا ہاتھ مانگا تھا۔ لاگو، اوتھیلو سے اس لیے نفرت کرتا ہے کہ اس نے ایک نوجوان کیسیو کو اس پر ترجیح دی جسے بطور سپاہی وہ اپنے سے کم تر سمجھتا تھا۔ لاگو، ریڈریگو کو اس بات کے لیے آمادہ کر تاہے کہ وہ برین ٹیو کو اس کی بیٹی کے بھاگنے کی اطلاع دے۔ ریڈریگو برین ٹیو کو اکساتا ہے اور وہ غصے میں کہتا ہے ’’ جب تک اوتھیلو کا سر قلم نہیں کرونگا آرام سے نہیں بیٹھوں گا‘‘۔لیکن جب وہ اوتھیلو کی رہائش گاہ پر پہنچتا ہے تو وہاں، ڈیوک (امیر ؍حاکم)کے سپاہی موجود ہوتے ہیں۔ وینس سے یہ خبر آتی ہے کہ ترک سائپرس پر حملہ کرنے والے ہیں۔ اس لیے اوتھیلو کو ڈیوک کے پاس مشورے کے لیے طلب کیا جاتاہے۔ اس لیے مجبوراً برین ٹیو کو بھی ڈیوک کی رہائش گاہ پر جانا پڑھتا ہے۔ جہاں برین ٹیو اوتھیلو پر اپنی بیٹی کو کالے جادو کے ذریعے ورغلانے اور دھوکہ دینے کا الزام لگاتا ہے۔ اوتھیلو اپنی صفائی پیش کرتا ہے۔ جب ڈیسڈی مینو، اوتھیلو سے محبت کااقرار کرتی ہے تو تمام سینٹیر اوتھیلو کی باتوں سے مطمئن ہو جاتے ہیں۔ اوتھیلو وینس سے وداع ہوتا ہے تاکہ ترک فوج کے مقابلے وینس کی فوج کی قیادت کرسکے۔اس کے ساتھ میں لاگو، کیسیو، ڈیسڈمینو اور امیلیا بھی ہوتے ہیں۔سائپرس جانے پر پتہ چلتا ہے کہ ترک فوج کا بحری بیڑہ طوفان کی وجہ سے تباہ ہوچکا ہے۔وینس کی فوج جشن مناتی ہے اس دوران لاگو،کیسیو اور ریڈرگو کے درمیان جھگڑا کرادیتا ہے۔جب اوتھیلو واپس آتا ہے تو ا س بات سے ناراض ہوکر کیسیو کے رتبہ کو گھٹا دیتا ہے۔لاگو،کیسیو کو اس بات کے لیے آمادہ کرتا ہے کہ وہ اوتھیلو کی بیوی کو سفارش کے لیے کہے۔اس طرح لاگو کیسیو اور ڈیسڈی مینو کے بارے میں اوتھیلو کو شک میں مبتلا کردیتا ہے۔لاگو ان کے درمیان ایسے حالات پیدا کردیتا ہے کہ اوتھیلو اپنی بیوی کو قتل کرنے کی ٹھان لیتا ہے اور لاگو سے کہتا ہے کہ وہ کیسیو کو قتل کردے۔اوتھیلو وینس کے شرفا کی موجودگی میں اپنی بیوی کو مارنے کی کوشش کرتا ہے۔لاگو ریڈریگو کو پھنسانے کے لیے کیسیو پر حملہ کرواتا ہے۔اوتھیلو کو آخر اپنی بیوی کی بے گناہی کا احساس ہوتا ہے جب امیلیا اپنے شوہر کے راز فاش کرتی ہے۔اوتھیلو خود کشی کرلیتا ہے۔کیسیو کو اوتھیلو کا جانشین مقرر کیا جاتا ہے۔اور اس سے لاگو کو سزا دینے کے لیے کہا جاتا ہے۔
میک بیتھ(Macbeth):
ولیم شیکسپیئر کا1606 میں لکھا ہوا ایک المیہ ڈرامہ ہے جو ایک بہادر اسکاٹش جنرل میک بیتھ کا المیہ ہے۔ میک بیتھ کو تین کاہن جادوگرنیاں پیشن گوئی کرتی ہیں کہ وہ ایک دن اسکاٹ لینڈ کا بادشاہ بنے گا۔اپنے بلند عزائم سے مغلوب ہوکر اور اپنی بیوی کی حوصلہ افزائی پاکر وہ اسکاٹ لینڈ کے راجا ڈنکن کا قتل کردیتا ہے۔اور اسکاٹش تخت و تاج پر قبضہ کرلیتا ہے۔اس کے بعد وہ ندامت اور جنون کی وجہ سے برباد ہوجاتا ہے۔شک اور شبے کی بنیاد پر وہ بے دریغ قتل کیے چلا جاتا ہے۔اور ایک ظالم حکمرا ن بن جاتا ہے۔خون کی اس ہولی کی وجہ سے خانہ جنگی پھیل جاتی ہے اور میک بیتھ اور لیڈی میک بیتھ کو قتل کردیا جاتا ہے۔
ڈرامہ اس طر ح ہے : میک بیتھ گلیمس کا حاکم ہے۔ اور اسکاٹ لینڈ کے بادشاہ ڈنکن کی فوج کا سپہ سالار رہا تھا۔ڈرامہ کے آغاز میں میک بیتھ دوسرے جنرل بانکو کے ساتھ کاڈر کے حاکم کی بغاوت کچلنے کے بعد واپس ہوتا ہے۔واپسی کے دوران ان کی ملاقات تین کاہن عورتوں سے ہوتی ہے۔ جن میں سے ایک میک بیتھ کو کاڈر کا حاکم کہہ کر مخاطب کرتی ہے۔ میک بیتھ ان سے یہ پیشن گوئی سن کر خوش ہوجاتا ہے کہ وہ اسکاٹ لینڈ کا بادشاہ بنے گا اور اس کے کچھ دیر بعد میک بیتھ کو اس بات کی اطلاع ملتی ہے کہ اسے اسکاٹ لینڈ کے بادشاہ نے کاڈر کا حاکم مقرر کردیا ہے۔جس کی وجہ سے میک بیتھ کو کاہنوں کی پیشن گوئی کے سچ ہونے کا یقین ہوجاتا ہے۔اسے بادشاہ بننے کی چاہت اور خواہش اس قدر ہوتی ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ دوسری پیشن گوئی بھی بہت جلد پوری ہوجائے۔بادشاہ ڈنکن میک بیتھ کو اعزاز بخشنے کے لیے اس کے قلعہ میں جانا چاہتا ہے۔ اسی دوران میک بیتھ اپنی بیوی کو بذریعہ خط کاہنوں کی پیشن گوئی کی خبر پہنچاتا ہے۔لیڈی میک بیتھ کو اپنے شوہر سے زیادہ تجسس ہوتا ہے کہ وہ راجا بن جائے۔ جیسے ہی میک بیتھ گھر پہنچتا ہے اس کی بیوی بادشاہ ڈنکن کو قتل کر کے بادشاہ بننے کی پیشن گوئی پورا کرنے کے لیے اصرار کرتی ہے۔ میک بیتھ تھوڑا ہچکچاتاہے۔ بادشاہ میک بیتھ جوڑے کے استقبال سے خوش ہو جاتاہے اور گھر کے پر سکون ماحول سے متاثر ہوکر ایک رات وہیں گذارنے کا ارادہ کر تا ہے۔ لیڈی میک بیتھ کا اصرار بڑھتا جاتا ہے اور جب وہ مہمان کو اور وہ بھی ایسا مہمان جو اس کا بادشاہ بھی ہے،قتل کرنے سے ہچکچاتا ہے تو لیڈی میک بیتھ اسے بزدل کہہ کر خود ہی اسے قتل کے لیے جاتی ہے لیکن راجا کا چہرہ اسے اپنے باپ کی طرح نظر آتا ہے تو واپس آجاتی ہے۔ آخرمیک بیتھ راجا کے کمرے میں جاکر اس کے سینے میں خنجر گھونپ دیتا ہے۔ اور اپنی بیوی کو اس کی اطلاع دیتا ہے۔ اسی وقت ایک آواز آتی ہے کہ ’’میک بیتھ اب آگے کبھی سو نہیں پائے گا‘‘۔ اور ڈر اور خوف اس پر طاری ہو جاتا ہے۔ لیڈی میک بیتھ اس موقع پر ہمت کا ثبوت دیتے ہوئے وہ خنجر نکال کر محافظوں کے پاس رکھ دیتی ہے اور خون کے چھینٹے بھی ان پر ڈال دیتی ہے تاکہ ان پر الزام لگایا جاسکے۔ دروازے پر دستک دینے پر جیسے ہی حاجب دروازہ کھولتا ہے بادشاہ کے دو مصاحب بادشاہ کے کمرے میں داخل ہوتے ہیں اور اسے مردہ پاتے ہے۔ جیسے ہی یہ خبر میک بیتھ کو پہنچائی جاتی ہے۔ وہ دونوں محافظوں کو قتل کر دیتا ہے۔ اور یہ خبرجب اسکاٹ لینڈ میں شہزادوں تک پہنچتی ہے تو وہ اپنی جان بچانے کے لیے بھاگ جاتے ہیں۔ بڑا شہزادہ ملکم انگلینڈ فرار ہو جاتا ہے۔ اس طرح سے میک بیتھ اسکاٹ لینڈ کی بادشاہت کا دعوی کرتاہے۔ اب میک بیتھ کو بانکو کا خوف رہتا ہے کیونکہ کاہنوں نے یہ بھی پیشن گوئی کی تھی کہ بانکوکی نسل سے بھی راجا ہوگا۔ اس لیے میک بیتھ سوچ لیتا ہے کہ وہ نہ صرف بانکو کو قتل کرے گا بلکہ اس کے لڑکے فلینس کو بھی قتل کر دے گا میک بیتھ ایک منصوبہ تیا رکرتاہے اور تمام امراء اورشرفاء کو ضیافت پر بلاتا ہے۔ جب بانکو اور اس کا بیٹا میک بیتھ کے قلعے کی طرف روانہ ہوتے ہیں تو دو فدائین کی خدمت حاصل کی جاتی ہے تاکہ ان دونوں کو راستے ہی میں قتل کر دیا جائے۔ اس حملے میں بانکو قتل ہو جاتا ہے لیکن اس کا بیٹا بچ نکلتا ہے۔ ضیافت کے دوران بانکو کا بھوت میک بیتھ کو کرسی پر بیٹھا نظر آتا ہے اور اس بھوت کی سرگوشیاں بھی اسے سنائی دیتی ہیں۔ حاضرین میک بیتھ کے اس عجیب و غریب رویے سے حیرت زدہ رہ جاتے ہیں۔ تھوڑی دیر کے لیے بھوت غائب ہو جاتا ہے لیکن پھر نظر آتا ہے۔ میک بیتھ پر لرزہ طاری ہوجاتا ہے اور وہ چیخ چیخ کر رونے لگتا ہے۔ اس کے اس رویے کی وجہ سے وہ حاضرین کے درمیان شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ میک بیتھ پھر سے کاہنوں کے پاس جاتا ہے جو اسے مزید تین پیشن گوئیاں کرتے ہیں۔ (1) میک بیتھ، میک ڈف سے چوکنا رہے، (2) کوئی بھی شخص جسے کسی عورت نے جنم دیا ہو وہ میک بیتھ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا (3) میک بیتھ کو اس وقت تک شکست نہیں ہو سکتی جب تک دنسنین کی اونچی پہاڑی چوٹی سے بر نم کے شاہ بلوط کے درخت نہیں آجاتے۔ لیڈی میک بیتھ بہت زیادہ افسردہ اور پریشان ہو جاتی ہے اور خودکشی کرلیتی ہے۔ میک ڈف انگلینڈ فرار ہو جاتا ہے۔ ملکم کے سپاہی برنم کے شاہ بلوط کے درخت لے کر میک بیتھ کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔ میدان جنگ میں میک بیتھ اور میک ڈف ایک دوسرے کے مد مقابل آتے ہیں۔ جن کے اطراف ان کے سپاہی لڑ رہے ہیں۔ میک ڈف کہتا ہے کہ وہ اپنی ماں کا پیٹ چیر کر نکالا گیا ہے۔ اس بات کو سن کر میک بیتھ اتنا پس ہمت ہو جاتا ہے کہ وہ بغیر لڑائی کیے قتل کر دیا جاتا ہے۔
Near Ameer Ali Masjid Main Road
Ardhapur Tq Ardhapur
Dist. Nanded - 431704 (MS)
Mobile :9860413977
E-mail: zaker.inamdar@gmail.com
قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں