12/2/19

دبستانِ مرشدآباد: اردو زبان و ادب کا ایک حسین مضمون نگار : سیدہ جینفر رضوی





دبستانِ مرشدآباد 

اردو زبان و ادب کا ایک حسین گہوارہ

سیدہ جینفر رضوی

اردو زبان وادب کی اشاعت میں لکھنؤ، دہلی، دکن کے ساتھ ساتھ مرشد آباد کا رول بھی کم اہم نہیں ہے۔ جبکہ مرشدآباد اور اس کے اطراف میں بنگلہ زبان بولی جاتی تھی مگر بیرونی افراد کی آمد و رفت اور نوا بینِ مرشدآباد کی علم دوستی کی وجہ سے اردو کو مرشد آباد میں پر وان چڑھنے کا بہترین مو قع ملا۔ شعر و سخن اور علم و ادب کی دلچسپی کی وجہ سے مر شد آباد کا دربار دور دراز کے علماء و شعر ا سے بھرا رہتا تھا۔ انہی شعرا اورادباکی کا وشوں سے اردو بنگال کے اطراف تک پہنچی۔ 
اٹھارہویں صدی میں بنگال میں مر شد آباد اور ڈھاکہ اردو کے دو مرکز تھے۔ دہلی اور لکھنؤ کے شعرا نے ڈھاکہ کے مقا بلے میں مرشدآباد کو زیادہ تر جیح دی۔ یہی وجہ ہے کہ جب دہلی اور لکھنؤ کی محفلیں ویران ہوئیں تو اکثر شعرا نے مرشدآباد کا رخ کیا اور یہیں سکونت پذیر ہوئے۔
مغلیہ عہد میں بھی مرشدآباد کی ادبی محفلیں روشن تھیں۔ خان آرزو اور مرزا مظہر جان جاناں کے شاگردوں نے یہاں اردو کی مقبولیت میں اضافہ کیا۔ مخلص مرشدآبادی میر کے ہم نوا اور ہم عصر شاعر تھے۔ تذکر نگاروں نے مخلص مرشدآبادی کو میر کا ہم پلہ بھی قرار دیا۔ دبستانِ مرشدآباد کے کئی ایسے شاعر ہیں جنھیں اردو ادب میں غالب، آتش اور میر کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے۔ 
اردو کا مرشدآباد سے تعلق و رشتہ 
ناطق لکھنوی کے لفظوں میں’’ اردو کو ایک ایسا سر چشمہ تصور کیجیے جو شمالی ہند کے پہاڑوں سے جاری ہوا، دہلی میں آکر دریا بنا اس دریا سے بیسیوں شاخیں نکلیں ایک بنگال کو گئی، ایک بہار کو، ایک اودھ کو اور ایک گجرات کو۔ یہ تمام شاخیں دکن میں جا کر سمندر بن گئی۔‘‘ ( نظم اردو ص15)
بنگال میں سلطان حسین شاہ بڑا علم دوست اور زبان و ادب کا قدرداں تھا۔ اس کی حکومت میں اردو اور بنگلہ دونوں زبانوں نے خوب ترقی کی۔
اس کے دربار کا ایک بڑا مشہور شاعر قلنس مصنف برگاؤ نی تھا۔ اس کا کلام ابھی تک موجود ہے۔
شیخ نورا لحق پنڈویؒ نے اردو زبان کو دعوت و تبلیغ کا ذریعہ بنایا۔ ان کے صوفیانہ کلام اور اقوال سب اردو میں پائے جاتے ہیں۔
اردو کا بنگال اور مرشدآباد کی سر زمین سے بہت گہرا رشتہ ہے۔ بادشاہوں سے لے کر صوفیائے کرام تک نے بنگال میں اردو کی ترویج و اشاعت میں حصہ لیا۔ شعرا و ادبانے اپنی شاعری و کمال کے ذریعے اردو کو سب سے مقبول اور پسندیدہ زبان بنا دیا تھا۔
دبستانِ مرشدآباد کے ممتاز و نامور شعرا و ادبا :
دبستانِ مرشدآباد کو علمی وادبی سطح پر جن شعرا و ادیبوں نے شناخت دلوائی اور صدیوں یہاں کی علمی فضا کو روشن کیے رکھا ان میں سے چند کے نام درج کیے جاتے ہیں : 
میر امانی اسد:آپ کا پو را نام میر امانی اور اسد تخلص تھا۔ آبا ئی وطن شاہ جہاں آباد تھا۔ انھوں نے مرزا رفیع سودا کے آگے زانوئے ادب تہہ کیا تھا۔ شاہ عالم ثانی کے عہد حکومت میں اہل دلی پر جب زمین تنگ ہو رہی تھی تو اسد نے بھی اسی دور میں دلی کو خیر آباد کہا اور مرشدآباد کی راہ لی۔
اس زما نے میں میر محمد جعفر خان بنگال کے صوبہ دار تھے۔ میر امانی اسد کو نواب کی سر پرستی حاصل ہوئی اور انھوں نے باقی زندگی مرشدآباد ہی میں بسر کی اور یہیں پر پیوندئے خاک ہوئے۔
پی کر شراب دُردِ تہہ جام دے گیا
وہ شوخ ہم کو بوسہ بہ پیغام دے گیا
صاحب میر اَلم:نام صاحب میراو رالم تخلص تھا۔ اردو کے سب سے بڑے صوفی شاعر خواجہ میر درد کے صاحبزادے ہیں۔ 1774میں مرشدآباد تشریف لائے۔ 
الم مرشدآباد کی محفل ادب میں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ اُس وقت میر جعفر خان کے چھوٹے لڑکے مبارک الدولہ مرشدآباد میں مسند نشین تھے۔
دبستان دہلی کے کہنہ مشق استاد میر درد کے لڑکے ہونے کی وجہ سے مرشد آباد کی ادبی محفلوں میں الم کی بڑی عزت تھی۔ وہ خود بھی ایک با کمال شاعر تھے۔
ان کے نمونۂ کلام سے اندازہ ہوتا ہے کہ الم پر دبستان دلی کا اثر غالب ہے۔ فارسی کے الفاظ بے تکلف استعمال کرتے ہیں اور مشکل قوافی میں اپنے فن کا کمال دکھاتے ہیں ؂
جب نام خدا دور سے وہ جلوہ نما ہو
مر جائیں صفوں کی صفیں حیرت سے بچھڑ کر
آ جاتا ہے دکھ درد بھلانے کو الم یاں
کیا اس سے مزا تم ہو اٹھاتے بھلا لڑ کر
خواجہ امانی: آپ کا پورا نام میر امانی اور تخلص بھی امانی تھا۔ خواجہ برہان الدین آثمی ان کے والد کا نام تھا۔ اٹھارہویں صدی کے وسط میں احمد شاہ ابدالی کے حملے کی وجہ سے بہت سارے اہل فن بنگال کے صوبائی مرکز مرشدآباد میں آکر بس رہے تھے اور نوابان بنگالہ کی سرپرستی حاصل کر رہے تھے۔اسی زمانے میں آپ بھی مرشدآباد آکر بسے۔
خواجہ امانی بھی انھیں اہل فن میں سے تھے جو 1181ھ میں دلی سے کوچ کرکے نواب میرمحمد جعفر خان کے دور حکومت میں مرشدآباد آبسے تھے۔ ان کا شمار اس دور کے بلند مرتبہ شاعر اور ایک عظیم مرثیہ گو میں ہوتا ہے۔ ایام محرم میں منبر پر مرثیہ پڑھتے ہوئے شدت کے ساتھ گریہ کرتے تھے اور ایام محرم شد ت کرتے ہو ئے بیہوش ہو کر اس نیا سے رخصت ہو گئے۔
پروفیسر ڈاکٹر عبدالرؤف نے خواجہ امانی کی دلی سے مرشدآباد کی روانگی کا سال 1181ھ اور سال وفات 1187ھ لکھا ہے جب کہ ’سخن شعرا ‘ میں امانی کے مرشدآباد پہنچنے کا سال 1177ھ لکھا ہے اور ان کا تخلص امانی لکھا ہے ؂
راہ تکتے تکتے آخر جیسے آیا تنگ دل 
آنکھیں تو پتھرا گئیں پر وہ نہ آیا سنگ دل
گھیرا ہے مجھے غم نے عجب حال ہے جی کا 
اے نالہ دل وقت ہے فریاد رسی کا
چاہ میں کس کے دل ڈبو بیٹھے
آہ ہم کیسے دل کو رو بیٹھے 
کیوں امانی گیا نہ آخر دل 
کفِ افسوس اب ملو بیٹھے
سید عبدالولی عزلت: نام سیّد عبد الولی تخلص عز لت تھا۔ مشہور صوفی زاہ سعداللہ سورتی کے بیٹے تھے۔ ان کی پیدائش 1692 میں سورت میں ہوئی۔ ان کی پرورش ان کے چچا نے کی۔ عزلت نواب علی وردی خاں کے مہابت کے دور میں مرشدآباد تشریف لائے تھے۔ ا س وقت بنگال میں نواب علی وردی خاں صوبے دار تھے۔
’ دیوان عزلت ‘ کے مرتب عبد الرزّاق قریشی، عزلت کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’دہلی سے عزلت مرشدآباد گئے۔ یہ نواب علی وردی خاں مہابت جنگ کا زمانہ تھا۔ انھوں نے ان کی قدر کی اور لطف و کرم سے پیش آیا۔ 1755 میں ان کا انتقال ہو گیا تو حیدر آباد چلے گئے ........ عزلت نے محمد فقیر درد مند کے مشہور ساقی نامہ کے جواب میں ایک ساقی نامہ بھی لکھا تھا جس میں 231 اشعار تھے۔ یہ ساقی نامہ انہوں نے ایک دن میں کہا تھا۔ اس کا تاریخی نام ’ بیان ظہور‘ ( 1147ھ / 1760) ہے۔ ‘‘
عزلت کی وفات 1755میں حیدر آباد میں ہوئی۔ 
ہیبت قلی خان حسرت: آ پ کا پورا نام میر محمد حیات تھا۔ہیبت قلی خاں لقب، حسرت تخلص تھا۔ مظہر ضانِ جاناں کے شاگرد تھے۔ ’’ صاحب مسرت افزانے انھیں مرشدآبادی بتایا ہے۔ ‘‘ حسرت نواب علی وردی خان کے نواسے شوکت جنگ کی ملازمت میں تھے۔ 1756میں جب علی وردی خان کا انتقال ہوا تو تخت نشینی کی جنگ نواب سراج ا لدولہ اور نواب شوکت جنگ کے درمیان ہوئی تھی اور شوکت جنگ اسی جنگ میں مارے گئے تھے۔ 1195ھ میں سراج الدولہ کے وقت مرشدآباد پہنچے اور اس کے بعد حسرت نے نواب سراج الدولہ کی سرکار میں داروغہ اور عرض بیگی کی ملازمت حاصل کی تھی اور مرشدآباد میں سکونت اختیار کر لی تھے۔ حسرت اپنے دور کے بڑے عالم ہی نہیں بلکہ اردو کے بلند مرتبہ صاحب دیوان شاعر گزرے ہیں۔
حسرت کا شمار بنگال کے نامور و مقبول ترین انشا پروازوں میں ہوتا ہے۔ وہ اردو اور فارسی کے ایک بڑے عالم اور بلند مرتبہ شاعر گزرے ہیں۔ اپنی حاضر جوابی اور لطیفہ گوئی کی وجہ سے بے حد مقبول تھے۔ ان کے ’’ دیوان کا قلمی نسخہ کتب خانہ رام پور میں محفوظ ہے۔ جن میں تقریباً دو ہزار اشعار موجود ہیں۔ حسرت محمد حسین یاد اور زادہ مخلص کے استاد تھے۔ 1795 میں نواب ببر علی خان کے عہد نظامت میں حسرت مرشدآباد ہی میں فوت ہوئے؂
قفس میں ہمیں رہنے دے صیاد
کہاں اب اڑ سکیں جب بال و پر گئے
ہو جاوے اک توجہ ادھر بھی اگر کبھی 
اتنا بڑا یہ کام ترے رو برو نہیں
یک بیک یاد تمہاری جو مجھے آتی ہے
جی ہی جانے ہے جو کچھ دل پہ گزر جاتی ہے
میری بات سنتا ہے اس طور سے 
کہ کہتا ہوں گویا کسی اور سے 
سنا ہے آج میخانہ میں جام مے پہ مستوں نے 
لٹایا دین و دنیا دونوں ہمّت اس کو کہتے ہیں
لب بام آکے یہ تیرا کھڑے رہنا تو الفت ہے 
سوا نیزے پہ گویا آفتاب آیا قیامت ہے
حسرت اردو ادب کے ان اہم ستونوں میں ہیں جن کی ادبی خدمات نے اٹھارہویں صدی کے دوسرے نصف میں مرشدآباد کو ملک گیر شہرت بخشی تھی اور مشرقی ہند کا ایک عظیم ادبی مرکز بنایا تھا۔
سید محمد فقیہ درد مند :مرشدآباد کو ادبی دنیا میں ایک اہم مقام عطا کر نے والوں میں ایک خا ص نا م سید محمد فقیہ درد مند کا ہے۔ درد مند حیدر آباد میں پیدا ہوئے ابتدائی دور میں انہوں نے شاہ ولی اللہ اشتیاق کے سامنے زانوئے تلمند تہہ کیا لیکن جب ان کا انتقال ہو گیا تو مظہر جان جاناں کی شاگردی اختیار کرلی۔’’ مرزا جان جاناں مظہر کی اصلاح نے ان کی شاعری کو جلا بخشی۔‘‘ مرزا جان جاناں نے خود ان کی مدح سرائی کی ہے ؂ 
غا فل مباش مظہر از احوال درد مند
لعلیست آں کہ در گر ۂ روز گار نیست 
نوازش محمد خان کی سر پرستی میں دردمند نے اپنی تمام عمر مرشدآباد ہی میں گزاری ور یہیں 1763میں پیوند خاک ہوگئے۔نوازش محمد خان، ناظم بنگالہ نواب علی دردی خان کے بڑے داماد تھے اور موتی جھیل کے محل میں رہتے تھے۔ جہاں تقریباً ہر شام ادبی نشست منعقد ہوا کرتی تھی۔
درد مند فارسی کے صاحب دیوان شاعر تھے۔اردو میں ان کی مثنوی ’ساقی نامہ‘ہے جوکہ غیر معمولی شہرت کی حامل رہی ہے۔ دردمند اردو کے بھی با کمال شاعر تھے لیکن ان کے اردو دیوان کا تذکروں میں ذکر نہیں ملتا ہے۔
مختلف اصناف سخن میں انہوں نے طبع آزمائی کی اور ہر صنف میں اپنے کمال کا جوہر دکھایا ہے۔ زبان میں صفائی اور اشعار میں روانی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مرشدآباد کی تاریخِ ادب میں ان کا نمایاں مقام ہے اور یہ بعد کے شعرا کے لیے پیش رو ثابت ہوئے ؂
کہسار میں جا گرا ہے نا حق کے تئیں 
پرویز سے جا بھڑا ہے نا حق کے ئیں
کوئی فکر پہاڑ سے لیتا ہے 
فریاد کا سر پھرا ہے نا حق کے تئیں
پڑی اس کی خوبی کی از بس کہ دھوم
لیا ہاتھ قدرت کا صانع نے چوم
نواب میر محمد شرف: میر جعفر کے دور میں نواب میر محمد شرف مشہور شاعر تھے جن کا تعلق شاہی خاندان سے تھا۔ غالباً میر جعفر کے بھیتجے یا بھانجے تھے۔ نواب سیّد جعفر خاں صوبیدار مرشدآباد سب کے سب تلف ہو گئے۔ ان کی ایک رباعی زبان زد عام ہے جو سینہ بہ سینہ چلی آتی ہے۔ یہ رباعی ان کی خوشحال زندگی کی آئینہ دار ہے :
قزاق نہیں کہ لوٹ لاتے ہیں ہم
مزدور نہیں کہ روز پاتے ہیں ہم
کیا پوچھتے ہو یارو حقیقت اپنی
اللہ دیتا ہے بیٹھے کھاتے ہیں ہم
شیخ فرحت اللہ فرحت: ان کا نام شیخ فرحت اللہ اور فرحت تخلص تھا۔ان کے والد کا نام شیخ اسد اللہ تھا۔
فرحت اللہ غالبًا نواب میر جعفر کے عہد نظامت میں مرشدآباد آئے تھے۔ فرحت کا انتقال نواب مبارک الدولہ کے عہد نظامت میں 1777 میں ہوا تھا۔ نساخ نے اپنے تذکرہ سخن شعرا میں انہیں بہادر علی خان کے رفیقوں میں شمار کیا ہے۔ بہادر علی خان اٹھارہویں صدی عیسوی کے دوسرے نصف میں ناظم بنگالہ کی سرکار میں داروغہ توپ خانہ تھے۔ فرحت اردو کے ایک با کمال صاحب دیوان شاعر گزرے ہیں۔ 
فرحت ایک کہنہ مشق شاعر تھے ان کی زبان میں سادگی اور سلاست ہے ؂
زندگی میں تو رہے صدمے دلِ غمناک پر
بعد میرے دیکھیے کیا ہو قیامت خاک پر
مرنے کے بعد مجھ پر کیا کیا ستم نہ ہوں گے
دیکھیں گے غیر تجھ کو اور ہائے ہم نہ ہوں گے
کھولے وہ اگر زلفِ گرہ گیر ہوا پر 
بندھ جائے ابھی صورت زنجیر ہوا پر
آنکھوں میں اشک بھر کر بولا نہ پوچھ ظالم
ہر گز نہیں ہے دل پر کچھ اختیار اپنا
مرزا اشرف علی خان فغاں:نا م مرزا اشرف علی خان کا تخلص فغاں تھا۔فغاں اکبر قلی کے پوتے محمد ایراج خان کے بھتیجے اور مرزا علی خان کے بیٹے تھے۔
فغاں عاقل و ظریف تھے۔ فن لطیفہ گوئی میں کمال حاصل تھا اور دہلی میں احمد شاہ بادشاہ کے دربار میں عزت سے گزارا کرتے تھے مگر بادشاہ احمد شاہ کے بعد فغاں کو دلی سے نکلنا پڑا اور اپنے چچا ایراج خان کے پاس مرشدآباد پہنچے اس وقت بنگال کے ناظم علی وردی خان تھے۔ فغاں مرشدآباد میں اپنے چچا کے ساتھ عیش و آرام کے ساتھ ایک مدت تک رہے اور پھر اپنے چچا کے انتقال کے بعد عظیم آباد گئے اور وہیں 1772 میں انتقال کیا۔ 
فغاں جس دور میں مرشدآباد میں مقیم تھے اردو ادب کی تاریخ میں وہ مرشدآباد کا زریں دور کہا جاتا ہے۔
فغاں کو علی قلی خان ندیم سے شرف تلمذ تھا انہوں نے اردو کے علاوہ فارسی میں بھی طبع آ زمائی کی ہے۔ اپنے عہد کے بلندپایہ انشا پروازاور ایک باکمال شاعر تھے۔ اردو اور فارسی دونوں زبانوں پر یکساں قدرت رکھتے تھے۔ ان کو فن غزل گوئی سے بھی دلچسپی تھی۔
فغاں کا اردو دیوان غالبًا 1950میں انجمن ترقی اردو کراچی نے شائع کیا ہے۔ فغاں نے اپنی طویل مدت قیام میں دبستاں مرشدآباد کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا خاص کر غزل کو ایک اعلیٰ مقام تک پہنچایا ؂
دل بستگی قفس کی یہاں تک ہوئی مجھے
گویا مرا چمن میں کبھی آشیاں نہ تھا
کیا تو شب فراق میں جیتا رہافغاں 
یاں تک گماں نہ تھا ترے صبر و قرار کا
خط دیجیو چھپا کے ملے وہ اگر کہیں
لینا نہ میرے نام کو اے نامہ بر کہیں
قاصد جو نا امید پھرا کوے یار سے 
خفت مجھے ہوئی دل امیدوار سے
کسے تو ڈھونڈھتا پھرتا ہے اے فغاں تنہا 
کہ اس سرا کے مسافر تو گھر گئے اپنے
شب فراق نہ تنہا مجھے رلاتی ہے
یہ صبح و صل بھی آنسو سے منہ دھلاتی ہے 
اٹھ چکا دل مرا زمانے سے
اڑ گیا مرغ آشیانے سے
جا گا نہ کوئی خواب عدم سے کہ پوچھتے 
آسود گانِ خاک میں بیدار کون ہے
میں مر گیا پہ آہ نہ پوچھا فغاں مجھے
درد جگر کسے ہے یہ بیمار کون ہے 
فغاں کی شاعری اپنے عہد کی اعلیٰ فن کاری کا نمونہ ہے اور غزل کی دنیا میں اپنی ایک انفرادی حیثیت رکھتی ہے۔
میر ماشاء اللہ خان مصدر: مصدرناظم بنگالہ نواب علی وردی خان مہابت جنگ کے دور حکومت میں مرشدآباد تشریف لائے۔ علی وردی خان علما، فضلا، شعرا اور اہل رائے حضرات کی دل سے قدردانی کرتا تھا اور اپنے دربار میں اعزاز و اکرام کے ساتھ رکھتا تھا۔ ہر روز اہل علم کی صحبت میں بیٹھتا تھا اور ان سے فیضیاب ہوتا تھا۔ مصدر دلی میں شاہی طبیب رہ چکے تھے۔ علی وردی خان نے ان کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور وظیفہ مقرر کیا۔ ان کے بعد نواب سراج ا لدولہ کے عہد حکومت میں بھی بڑی شان سے زندگی گزاری۔
خدا کرے کہ مرا مجھ سے مہرباں نہ پھرے
پھر جہاں سے تو پھرے پر وہ جانجاں نہ پھرے
کافر ہو سوا تیرے کرے چاہ کسو کی
صورت نہ دکھائے مجھے اللہ کسو کی
خواجہ فدائے علی ثبت: پورا نام خواجہ فدائے علی تھا اور تخلص ثبت تھا۔ان کا وطن مرشدآباد تھا۔ نواب میر ببر علی خان اور نواب والا جاہ کے عہد نظامت میں ثبت مرشدآباد کی شاعرانہ فضا میں پروان چڑھے تھے۔ ان کا شمار مرشدآباد کے اوسط درجہ کے شاعروں میں کیا جا سکتا ہے۔
کا کلیں آپ جو آئینہ میں سلجھاتے ہیں 
موبمو پیچ میں خوبان حلب آتے ہیں 
صدقے ہو جاؤں میں اللہ رے یہ بھولا پن
گالیاں دیتے ہیں اور آپ ہی شرماتے ہیں
آسماں قدر سید اسدعلی میرزا ثریا: نواب آسماں قدر سیّد اسد علی میرزا تخلص ثریا آخری ناظم بنگالہ نواب سیّد منصور علی خان فریدوں جاہ کے لڑکے تھے۔23ْ نومبر 1855میں مرشدآباد قلعہ نظامت میں پیدا ہوئے۔ ناظم بنگالہ منصور علی خان کے دربار میں اہل فکر و فن کی خاصی تعداد موجود تھی۔ شرف النساء جیسی شاعر ہ نواب کے محل میں موجود تھیں اور مرشدآباد کی ادبی فضا میں ایک ہل چل سی مچی ہوئی تھی۔ لہٰذا ثریا کو اندرون و بیرون محل میں علم و ادب اور شعر و سخن کا ایک ایسا ساز گار ماحول ملا کہ شاعری ان کی فطرت میں رچ بس گئی۔
ان کی شاعری میں منظر کشی نمایاں خصوصیت رکھتی ہے۔ شگفتگی، درد و اثر، فصاحت و روانی ان کے کلا م میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ ثریا صاحب دیوان شاعر گزرے ہیں۔ ان کا دیوان پروفیسر ڈاکٹر جاوید نہال کے پاس محفوظ ہے۔ 
1922میں ثریا کامرشدآباد میں انتقال ہوا اور مرشدآباد کے قبرستان میں دفن ہیں۔ ثریا اپنے عہد کے ایک صاحب دیوان شاعر ہی نہیں بلکہ ادب کے سرپرست اور قادر ا لکلام شاعر گزرے ہیں ؂
درد و غم سے نکل کر مجھے تو کچھ نہ ملا
خوشی کا بھیس بدل کر مجھے تو کچھ نہ ملا
یہ اور بات ہے اوروں کے گھر ہوئے روشن
تمھاری بزم میں آکر مجھے تو کچھ نہ ملا
جب سے دل کو ہوئی اس غنچہ دھن کی خواہش
سیر دریا کی ہوس ہے نہ چمن کی خواہش
رخِ پر نور پہ زلفوں کو جو بکھراتے ہیں
آج شاید ہے انہیں چاند گہن کی خواہش
کیوں مرے اہل وطن روک رہے ہیں مجھ کو
جب کہ دیوانہ ہوں کیونکر نہ ہو بن کی خواہش
ثریا مرشدآباد کے ایک با کمال شاعر گزرے ہیں ان کے دیوان کے پہلے چند اوراق موجود نہیں ہیں۔ دیوان بارہ انچ لمبا اورپانچ انچ چوڑا ہے اس میں 77 اوراق ہیں۔ نمونے کے طور پر چند اشعار درج ہیں۔
شاہ حمزہ رند: شاہ حمزہ علی نام اور رند تخلص تھا۔ شاہجہاں آباد کے رہنے والے تھے۔ وہاں کے حالات اس قدر بگڑ چکے تھے کہ مجبور اًوطن ترک کرنا پڑا اور روزگاری کی تلا ش میں مرشدآباد پہنچ گئے۔ انھوں نے غزلوں کے علاوہ رُباعیاں بھی کہی ہیں۔ بینی نرائن جہاں اپنے تذکرہ ’دیوان جہاں ‘ میں ان کے متعلق رقم طراز ہیں :
’’ رند تخلص، نام رائے کھیم نرائن مہا راجہ لچھمی نرائن کے پوتے، عمدہ روزگار، رہنے والے دلّی کے اور اب ہوگلی تشریف رکھتے ہیں۔‘‘
( دیوان جہاں، از : بینی نرائن جہاں، قلمی نسخہ ایشیاٹک سوسائٹی، ص 67)
’ دیوانِ رند ‘ میں ان کی دس رباعیاں ملتی ہیں۔ دو رباعیاں نذر قارئین ہیں ؂
گر اس فقیر کے آنے سے منہ پھرا بیٹھے
تو کہتے اپنا منہ کے لیے دور جابیٹھے
وہ دن گئے کہ نہ اٹھتا تھا میری صحبت سے
زمانہ اور ہوا اب تیری بلا بیٹھے
حوالہ
* بنگال میں اردو زبان و ادب: شانتی رنجن بھٹا چار یہ * بنگال میں اردو : وفا را شد 
* میر با قر مخلص مر شد آباد: ڈاکٹر عبدالرؤف 1982 * بنگال کا اردو ادب : جا وید نہال 
* روح ادب: مغربی بنگال کا اردو ادب نمبر شمارہ 004 * بنگال میں اردو نثر کی تا ریخ: سا لک لکھنوی 
* بنگال میں غالب شناسی: کلیم سہسرا می * تذکرۂ گلزار ابراہیم: محمد ابراہیم خلیل
* تذکرۂگلشن ہند: مرزا علی لطف * تذکرہ ء شعرائے اردو: میر حسن 
* عبدالغفور نساخ کا تذکرہ : سخن الشعرا * عیارالشعرا: خوب چند ذکا
* شمع فروزاں : بزم ارباب ادب مر شد آباد کا تر جمان

Syeda Jenifar Rezvi 
Research Scholar 
Dept. of Arabic, Persian, Urdu & Islamic Studies
Visva-Bharati, Bhasha-Bhavana
Visva-Bharati, Santiniketan 731 235 (W.B)
Mob.-7872873542 Email-syedarezvi@yahoo.com 









قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں