13/2/19

رامپور رضا لائبریری کا ایک فرشتہ صفت نگہبان : وقار الحسن صدیقی مضمون نگار:۔ پرویز اشرفی






رامپور رضا لائبریری کا ایک فرشتہ صفت نگہبان
وقار الحسن صدیقی


پرویز اشرفی
تاریخ کے صفحات میں بڑی بڑی شخصیتیں، فرماں روا، فاتحین، فلسفی، شعرا، ادبا اور فنکار محفوظ ہیں جن کے احترام سے آج بھی سینے معمور ہیں۔شخصیتوں کی عظمت کے اعتراف سے تاریخ کی یہ حقیقت بھی پوری طرح ابھر کر ہمارے سامنے آتی ہے کہ دنیا کی تمام عظیم شخصیتوں کے متعلق ہم بہت کچھ جاننے کے باوجود بہت ہی کم جانتے ہیں۔ نہ جانے کتنے عظیم انسان ایسے ہیں جن کے نام تاریخ میں محفوظ نہیں رہے اور جن عظیم شخصیتوں کے حالات ملتے ہیں وہ کتنے مختصر، ناکافی اور ادھورے ہیں، لیکن بعض شخصیات اتنی پرکشش ہوتی ہیں جن کے بارے میں جاننے کی خواہش پیدا ہوتی ہے اور یہی چاہت بڑھتے بڑھتے ملاقات کے دروازے پر دستک دینے لگتی ہے۔ آج میں دور جدید کی اس تاریخ ساز شخصیت اور اس کی خدمات پر قلم اٹھا رہا ہوں، جس کے متعلق کچھ کہنا سورج کو چراغ دکھانے کے متراد ف ہے۔
میں 2001 میں رامپور کے قدیمی تعلیمی ادارے مرکزی درس گاہ اسلامی جونیئر ہائی اسکول میں درس و تدریس کے فرائض انجام دے رہا تھا۔ اسی درمیان سرزمین رامپور کی معروف علمی و ادبی شخصیت جناب مرتضیٰ ساحل تسلیمی صاحب سے میری ملاقات ہوئی۔آپ کے ساتھ اکثر رضا لائبریری کے کسی سمینار یا اہم پروگرام میں جانے کا موقع ملا، وہاں جناب وقار الحسن صدیقی صاحب جو رضا لائبریری کے افسر بکار خاص تھے، اُن کو سننے کا موقع ملا۔ دل میں ان سے ملاقات کرنے کی خواہش نے کروٹ لی لیکن قسمت نے ساتھ نہ دیا۔
ایک بار رضا لائبریری میں رمضان المبارک کے موقع پر قرآن کریم کے نادر نسخوں کی نمائش کا انعقاد ہوا۔ اس وقت میں اپنے والد محترم جناب حاجی عبد الرحمن صاحب کو اس نمائش میں لے گیا۔ واپسی پر جناب وقار الحسن صدیقی صاحب سے رسمی ملاقات ہوئی۔ آپ بڑے خلوص سے ملے اور فرصت میں ملنے کی دعوت دی۔ان مختصر لمحوں میں میرے والد محترم وقار صاحب سے بے حد متاثر ہوئے اور مشورہ دیا ’بیٹا! وقار صاحب بڑے خلیق انسان معلوم ہوتے ہیں۔ انداز گفتگو سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک شخص نہیں بلکہ علم کا سمندر ہیں، میری بات مانو تم اس علمی شخصیت سے ضرور ملاقات کرو۔‘‘ والد کا حکم اور وقار صاحب کی پُر کشش شخصیت نے مجھے بے چین کردیا کہ کوئی موقع ہو اور میں ان سے ملاقات کرکے اپنی علمی پیاس بجھا ؤں۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے وہ وقت میرے حصے میں عطا فرمایا جب میں بچوں کے ایک رسالہ کے لیے ان سے انٹرویو لینے پہنچ گیا۔
ڈاکٹر وقار الحسن صدیقی صاحب سابق ڈائرکٹر محکمہ آثار قدیمہ ہند اور افسر بکار خاص رامپور رضا لائبریری، ہندوستان کی ان مایہ ناز اور ممتاز شخصیات میں تھے، جن کی ذات ملک و قوم کے لیے سرمایہ صد افتخار، خاندانوں کے لیے باعث فخر اور آئندہ نسلوں کے لیے ایک آئیڈیل کا درجہ رکھتی ہے۔
آپ ہندوستان کے ماہر آثار قدیمہ، بیدار مغز، ذہین مؤرخ، ماہر علم کتبات اور سکہ شناس تھے۔ علاوہ ازیں ایک اچھے ادیب اور باشعور شاعر بھی تھے۔ آپ نے آگرہ، فتح پور سیکری، سلطنت گجرات، سلطنت قطب شاہی، گول کنڈہ دکن اور ہندوستانی مسلمانوں کے فن نقاشی اور فن تعمیرات پر جو اہم کام کیا ہے اسے دور دور تک سراہاگیا۔ وہ ایسے شخص تھے جنھوں نے جنوبی دہلی میں باغ تغلق کا پتہ چلایا۔ جس سے جنوبی ایشیااور وسطی ایشیا کے آرائشی باغات کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوا۔ قومی آثار و عمارات خصوصاً کمبوڈیا کے مشہور انکورواٹ مندر کو جدید سائنسی تحقیق کے ذریعہ محفوظ کرنے کی ذمہ داری سنبھالی۔
وقار الحسن صدیقی نے UNESCO کی متعدد کانفرنسوں میں شرکت کی۔ ہند اور بیرون ہند میں تاریخ اور آثار قدیمہ سے متعلق ہونے والے بین الاقوامی سمیناروں میں شریک ہونے کے لیے روس، امریکہ، عراق، پاکستان، سعودی عرب، ملیشیا، مالدیپ، کمبوڈیا، سری لنکا، ویتنام اور نائیجیریا کا سفر کیا۔
ان سمیناروں میں ٹھوس معلوماتی اور بصیرت افروز تحقیقی و علمی مقالات پڑھے، جنھیں بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ اسی کے ساتھ UNESCO کے SILK ROUTE پروجیکٹ کے سلسلے میں 1985 میں الماتا (قزاقستان) میں نائب صدر کے عہدے کے لیے منتخب کیے گئے۔
تاریخ سے متعلق وقا ر الحسن صدیقی صاحب کا کہنا ہے: 
’’ تاریخ کو صحیح طور پر سمجھنے اور لکھنے کے لیے مؤرخ کو نہ صرف گہرے مطالعہ کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ وسیع النظری اور وسیع القلبی کی بھی ضرورت ہوتی ہے جس کے سبب تاریخ داں کسی بھی طرح کے تعصب سے اجتناب کرتا ہے۔‘‘(پیش لفظ: تاریخ روہیلہ) 
آپ کے تحریر کردہ تقریباً 200 علمی مقالات جو تاریخی اور آثار قدیمہ ہند و پاک کے موضوعات پر مشتمل ہیں، ملک و بیرون ملک کے مؤقر جرائد و رسائل میں شائع ہوچکے ہیں۔ ان کے علاوہ رضا لائبریری رامپور سے شائع ہونے والی تمام کتابوں پر مؤثر پیش لفظ تحریر کیے جن سے ان کی اس متعلقہ موضوع سے دلچسپی اور معلومات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔
ڈاکٹر وقار الحسن صدیقی کو اردو، ہندی، عربی، فارسی اور انگریزی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ ان کے علاوہ مراٹھی، گجراتی، سنسکرت، جرمن اور فرانسیسی زبان کا بھی گہرا مطالعہ کیا ہے۔ ڈاکٹر وقار الحسن صدیقی کی شخصیت میں سادگی تھی، ذہن ہر طرح کے مذہبی، مسلکی اور علاقائی تعصبات سے پاک تھا۔ دل شیشے کی طرح صاف و شفاف تھا، بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ موصوف کی شخصیت میں خاص قسم کے اچھوتے پن کا احساس ہوتا تھا۔
ڈاکٹر وقار الحسن صدیقی نے اپنے بے لوث قومی و ملکی جذبے کے تحت رضا لائبریری رامپور کی وہ خدمات انجام دیں جو ناقابل فراموش ہیں۔ آپ نے رضا لائبریری رامپور نامی ایک پودے کو اپنی محنت اور خلوص نیت و محبت سے ایک سدا بہار تناور درخت بنا دیا ہے۔ وقار الحسن صدیقی نے لائبریری کے ہر شعبہ میں وہ کارہائے نمایاں انجام دیے جن کی مثال رضا لائبریری کی تاریخ میں مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ 
وہ سرزمین رامپور جسے مرزا غالب نے دارالسرور کا لقب دیا تھا، وہ رامپور جو اردو کا شہر ہے۔ جہاں اردو زبان خون بن کر رگوں میں دوڑتی ہے، وہ رامپور جہاں آج بھی مسلم تہذیب و ثقافت کی وراثت نہایت آب و تاب کے ساتھ قائم و محفوظ ہے۔ اس رامپور کی رضا لائبریری میں ڈاکٹر وقار الحسن صدیقی نے نشر واشاعت کاشعبہ قائم کرکے لائبریری کے علمی وقار کو بلندی عطا کی۔ ایک اہم کارنامہ یہ ہے کہ رضا لائبریری کے لیے اپنی کارکردگی سے سالانہ گرانٹ میں معقول اضافہ کرایا اور متعدد نئے شعبہ جات کھول کر رضا لائبریری کو شہرت عام بخشی۔ انٹرویو لیتے وقت میرے ایک سوال کے جواب میں انھوں نے تاریخی عمارات سے متعلق ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا: 
’’ آثار قدیمہ کی تعمیرات و سروے کے دوران، میں راجستھان کے شہر جودھ پور گیا۔ وہاں کے لوگ یہ کہتے تھے کہ آپ اپنا برتن خود اپنے ہاتھوں سے دھوئیے تو ہم آپ کو کھانا کھلائیں گے۔ اس پر میں نے کہا کہ ایسی جگہ جہاں ایک انسان کو دوسرے انسان سے کمتر درجہ کا سمجھا جائے، میں وہاں کھانا نہیں کھاؤں گا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بائیس دنوں تک میں نے پکا ہوا کھانا نہیں کھایا اور صرف بریڈ اور انڈوں پر اکتفا کرتا رہا۔‘‘
انھوں نے یہ بھی فرمایا تھا: 
’’ اپنی تہذیب وثقافت کی معلومات تاریخ ہی سے ہوتی ہے۔ دوسری بات، کوئی غلط کام جو ہوچکا ہو اسے دہرانا نہیں چاہیے۔‘‘
پھر وہ بولے: 
’’ انسان کو انسانیت سے Define کیا جانا چاہیے۔ تاریخ خشک مضمون کبھی نہیں رہا۔ ریاضی سے زیادہ خشک کوئی مضمون نہیں اور تاریخ (History) تو بڑا ہی دلچسپ اور سبق آموز مضمون ہے، جو ہمیں بتاتا ہے کہ گزرے ہوئے وقت میں کیا کیا ہوچکا ہے۔؟‘‘
موجودہ دور میں بچوں کی تعلیم پر اظہار خیال کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں: 
’’ بچوں کے لیے دینی و عصری دونوں طرح کی تعلیم ضروری ہے۔ کوئی اسکول کس معیار کا ہے یہ دیکھنے کے بجائے وہاں کیسی پڑھائی ہوتی ہے، یہ دیکھا جائے تو بہتر ہوگا۔‘‘
اسی ضمن میں انھوں نے مسلم بچوں کو شروع کے دوچار سال مدرسہ میں تعلیم دینے کی ضرورت پر زور دیا تاکہ مسلم بچے دینیات سے واقف ہوسکیں کیوں کہ جب تک ان کے ذہن میں توحید کا تصور قائم نہ ہوجائے، اللہ کے حکم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو سمجھ نہ لیں اس وقت تک انھیں دوسری تعلیم نہ دینی چاہیے۔ اس لیے کہ بغیر دین کے دنیا بے معنی ہے۔ لہٰذا دنیا اور آخرت دونوں کی تعلیم حاصل کرنی چاہیے۔
ڈاکٹر وقار الحسن صدیقی اب اس دنیا میں نہیں، لیکن اُن کے کہے ہوئے وہ مذکورہ بالا الفاظ آج بھی میرے کانوں میں گونجتے ہیں، کیونکہ ان سے مل کر اس احساس کے ساتھ لوٹا تھا کہ انھوں نے نہ صرف ادبی بلکہ تاریخی اور ثقافتی امور پر بھی بہت کام کیا ہے۔بالخصوص رامپور رضا لائبریری ہمیشہ ان کی احسان مند رہے گی۔ شاید ایسے ہی لوگوں کے لیے شیخ سعدی ؒ نے فرمایا تھا: 
خیر کن اے عزیز غنیمت شمار عمر
زاں پیشتر کہ بانگ برآید فلاں نماند
سرزمین رامپور کی رضا لائبریری کے موجودہ در و بام اور علمی سرمائے میں اضافے کو دیکھتے ہوئے اقبال کا یہ شعرلب پر آجاتا ہے: 
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نور ی پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

Parwez Alam
D-321, Dawat Nagar
Abul Fazal Enclave, Jamia Nagar, Okhla
New Delhi-110025
Mob: 9990129128
Email: Perwezashrafi1955@gmail.com





قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

سماجی شعور: تعارف اور اہمیت، مضمون نگار: عرفان احمد گنائی

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 انسان طبعاًمعاشرت پسند اور سماجی واقع ہوا ہے۔ گرہوں اور ٹولیوں میں رہنے کی یہ خصلت ازل سے ہی اس کی گھٹی میں پڑی ہ...