1/3/19

اردو میں رپورتاژنگاری کا فنی جائزہ مضمون نگار:۔ ارشاد احمد خاں



اردو میں رپورتاژنگاری کا فنی جائزہ


ارشاد احمد خاں
رپورتاژ نگاری اردو نثر کی جدید ترین صنف ہے جس میں فنی طور پر علمی مجلسوں ، ادبی محفلوں، سیمیناروں، کانفرنسوں اور اجتماعات کی روداد پیش کی جاتی ہے۔ لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ یہ صنف طویل وقت گزر جانے کے بعدبھی ایک تجربہ کا درجہ رکھتی ہے۔ جس میں افسانوی انداز کی جذباتیت اور غیر افسانوی طرز کی روداد نگاری کار فرما نظر آتی ہے۔ عام طور پر چشم دید واقعات کو خیال آرائی اور زبان کی چاشنی کے ساتھ بیان کرنا رپورتاژ سمجھا جاتا ہے۔ ایک لحاظ سے رپور تاژ میں جہاں واقعہ کا تفصیلی ذکر ہوتا ہے وہیں احساسات اور تاثرات کو بھی روداد کی شکل میں بیان کیا جاتا ہے۔ جس کے پس منظر میں رپورتاژ ایک ایسی صنف قرار پاتی ہے جس میں صحا فتی انداز اورا مورخانہ شعور کے ساتھ ساتھ تاثرات اور احساسات کا اظہار کچھ اس انداز سے ہوتا ہے جس کی وجہ سے بیان میں ادبیت اور رومانیت کی روداد ایک جذباتی تصویر کو ابھارتی ہے۔ اسی خصوصیت کی وجہ سے رپورتاژ ایک غیر افسانوی صنف نثر ہونے کے با وجود افسانوی انداز کی کارفرمائی کے ذریعے اپنی انفرادیت کا لوہا منواتی ہے۔
رپورتاژ کی پہچان اس کی اپنی ہیئت سے زیادہ اس کے اظہار میں پوشیدہ ہے۔ اس صنف میں کوئی بھی گزرا ہوا واقعہ اظہار کی تہوں تک پہنچتا اور تخلیق کا ر کے اندر چھْپے ہوئے رومانوی احساس کو جگاتا اور پھرمصّورانہ چابکدستی کے ساتھ ایسی تخلیق کو اْجاگر کرتا ہے جو واقعات کی لپیٹ میں مرقع کاری کا درجہ رکھتی ہے۔رپورتاژ کو ایک غیر افسانوی صنف کا درجہ حاصل ہے جس میں افسانویت اور کہانی پن کا وجود نہیں ہوتا۔بلکہ گزرے ہوئے واقعات کی دلچسپ انداز میں تصویر کشی ہوتی ہے۔احتشام حسین نے رپورتاژ کی صنفی حیثیت کو قبول کرتے ہوئے یہ لکھا ہے۔۔۔
’’رپورتاژ کو ہم واقعات کی ادبی اور محاکاتی رپورٹ کہہ سکتے ہیں۔‘‘1
احتشام حسین نے رپورتاژ کو ایک صنف تو قبول کیا ہے لیکن اس حقیقت کا اعتراف نہیں کیا کہ اس کی حیثیت رپورٹ سے قطعی مختلف ہے۔رپورٹ میں تاثرات اور واقعات کی عکاسی ہوتی ہے جس کی وجہ سے اس صنف میں جذبات اور احساسات کا گزر نہیں ہوتا۔ان خصوصیات کی وجہ سے رپورٹ کو بہر کیف رپورتاژ سے ایک علیحدہ صنف ہی تصّور کیا جائے گا۔اس اعتبار سے رپورتاژ ایک ایسی صنف ہے جس میں رپورتاژ نگار عینی شواہد کے طور پر ٹھوس اور صحیح واقعات اور گزرے ہوئے حادثات کا بیان کچھ اس انداز سے کرتا ہے کہ اس میں اس کے جذبات اور احساسات کی شمولیت بھی ہوتی ہے اور اسی کارفرمائی کی وجہ سے رپورتاژ اور نامہ نگاری (Reporting) میں فرق پیدا ہوجاتا ہے۔عام طور پر رپورتاژ میں بیتے ہوئے گزرے ہوئے واقعات کی سرگذشت اور حقیقی گزرے ہوئے واقعات کا ایک خاص رنگ اور مخصوص اسلوب میں بیان کیاجاتا ہے۔چنانچہ رپورتاژ اسی سچائی کا واضح اعتراف ہے۔رپورتاژ میں واقعات کے بیان کے دوران ایسا انداز اختیار کیاجاتا ہے کہ واقعیت میں کوئی فرق نہ آئے اور پڑھنے والا انھیں پوری دلچسپی اور انہماک کے ساتھ پڑھے اور یہ محسوس کرے کہ وہ ان واقعات کا عینی شاہد ہے۔رپورتاژ کی رپورٹ ،روزنامچہ اور دیگر نثری اصناف سے ممتاز اور مہمیز کرنے کے لیے کسی بھی متن میں حسب ذیل اْصولوں کی جانچ ضروری ہے۔بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ رپورتاژ نگاری کا فن اور اس کا اظہار حسب ذیل عنوانات کے ساتھ ممکن ہے۔
(1) اسلوب (2)ہیئت (3) صحافت (4)رومانیت (5) افسانویت (6) واقعیت 
(7) قوت تحریر (8) اقتباسی عمل ( 9) جبریہ انداز۔ 
.1اسلوب: رپورتاژ میں مخصوص خبریہ اور جزیات کی شمولیت کی وجہ سے اس صنف کی تخلیقی حیثیت ایک آزاد صنف کی ہوجاتی ہے۔ خاص قسم کی لفظیات جو عمیق مشاہدہ کے نتیجے میں فنکار پر اثر انداز ہوتی ہیں اور رپورتاژ کے اْسلوب کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔چونکہ رپورتاژ کا ایک مخصوص ڈکشن ہوتا ہے اس لیے اس کا اسلوب دوسری اصناف نثر سے بالکل مختلف ہے۔ بقول سید عابد علی عابد : 
’’اسلوب کے معانی یہ ہیں کہ فنکار کسی سلسلہ فکر کے اظہار کے وقت وہ تمام کوائف شامل کرے جو سلسلہ فکر کے کامل ابلاغ کے لیے ضروری ہیں۔‘‘2
یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ بیشتر رپورتاژ نگار اپنے اسلوب میں افسانوی طرز کو شامل کرکے اس صنف کو دلکش اور دلچسپ بنادیتے ہیں۔شاید یہی وجہ ہے کہ اردو کے بیشتر رپورتاژ نگار یا تو ناول نویس ہیں یا پھر افسانہ نگار۔ چونکہ افسانے کے اسلوب میں دلکشی اور جا معیت ہوتی ہے اس لیے اردو کے اکثر رپورتاژ نگار واقعہ کے بیان کے لیے اسلوب کا سہارا لیتے ہیں۔ کسی بھی بیانیہ کو واقعہ سے مربوط کرنے کے لیے نثر کے مختلف اسالیب موجود ہیں۔ لیکن رپورتاژنگاری میں موجود واقعہ کو بیان کرنے کے لیے غیر افسانوی اسلوب کی وجہ سے دلکشی میں فرق پیدا ہونے کا اندیشہ رہتا ہے۔ اسی لیے اکثر رپورتاژنگار افسانوی اسلوب کے ذریعے اس صنف کے فروغ میں حصّہ لیتے ہیں۔
اسلوب کا تعین الفاظ کے محل استعمال اور جملوں کی ساخت پر ہوتا ہے۔ اسی لیے رپورتاژنگار کو بیانیہ کے دوران وہی لفظیات اور پیرایۂ اظہار سے کام لینا پڑے گاجو واقعہ کی سطح کو دلچسپ انداز میں پیش کرسکے۔ ایسے مشکل اسلوب کے کھردرے پن کی دوری اسی وقت ممکن ہے جب کہ واقعہ کی کرختگی کو سبک اور رواں لفظوں کے ذریعے نمایاں کیا جاسکے۔ چنانچہ رپورتاژنگار اسلوبیاتی سطح پر اسی لیے افسانوی طرز کا سہارا لیتے ہیں کہ واقعہ میں موجود حقیقت کا بیان لفظوں کے پیرہن کی وجہ سے اصل کی نقل ہوجاتا ہے اور کسی فن کا جز نہیں بن سکتا۔ اس نقلی سطحیت کو دور کرنے کے لیے افسانوی اسلوب ہی کار آمد ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رپورتاژنگاری میں اختیار کیا جانے والا اسلوب غیر افسانوی نثر سے دور اور افسانوی نثر سے قریب ہوتا چلا جاتا ہے، جس کی نشاندہی منظر عباس نقوی اس انداز سے کرتے ہیں:
’’ کسی اسلوب کی تشکیل میں یوں تو مصنف، ماحول، موضوع، مقصد اور مخاطب سب ہی عناصر کارفرماہوتے ہیں لیکن عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ ان میں سے کوئی ایک عنصر دوسرے پر غالب آجاتا ہے جس کی وجہ سے اسلوب میں ایک امتیازی شان پیدا ہوجاتی ہے۔‘‘3
رپورتاژ نگاری میں افسانوی اسلوب کی جھلک کو مناسب قرار دیتے ہوئے عبدالعزیز اس طرح فیصلہ سناتے ہیں۔
’’ رپورتاژ کے ارتقا کا عہد افسانوی ادب کے عروج کا زمانہ ہے۔ناول کی شہرت اور قبولیت کا زمانہ ہے۔ لا محالہ ان اصناف کی ہئیت و اسلوب کا اثر رپورتاژ پر پڑنا ایک فطری عمل تھا۔‘‘4 
اس طرح یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ رپورتاژ ایک غیر افسانوی نثر ہونے کے باوجود اس میں افسانوی اسلوب کا اختیار کرنا ایک موزوں و مناسب اقدام ہے۔
.2ہیئت: واقعہ کی ہمہ گیری یا اس کی وسعت کے بیان کے لیے رپورتاژ نگاری میں جو طرز اختیار کیاجاتا ہے اسے ہیئت کہا جاتا ہے۔رپورتاژ کا وہ ظاہری ڈحانچہ جسے بنیاد بنا کر اس صنف کی شناخت ہوسکتی ہے وہی ہیئت طوالت ،ایجاز و اختصار،تاثر اور ہمہ گیری سے مربوط ہے۔اگرچہ رپورتاژ کی نوعیت ایک واقعہ کے دلچسپ بیان میں ہے اور اس واقعے میں حقیقت کا ظہور ہونے کی وجہ سے وہ مبالغہ یا من گھڑت(فکشن) سے بے نیاز ہوتا ہے۔اس لیے رپورتاژ کی ہیئت افسانوی نثر سے مختلف ہونی چاہیے لیکن رپورتاژ نگار واقعہ کی حقیقت کو دلچسپ انداز میں پیش کرنے کے لیے افسانوی طرز کا سہارا لیتا ہے اور واقعہ کی جزئیات کے بیان کے معاملے میں تمام افسانوی لوازمات کو بروئے کارلاتے ہوئے وہی نہج اپناتا ہے جو افسانوں کے کرداروں کے بیان میں لازمی ہے۔اس لیے رپورتاژ نگاری میں ایجاز و اختصارکا معاملہ مبالغہ کے بغیر حقیقت کا عکاس بن جاتا ہے۔جس میں فرق یہ ہے کہ رپورتاژ کی ہیئت میں نقطہ عروج،کشمکش اور انجام افسانوی نوعیت کا نہیں ہوتابلکہ ان پر حقیقت کا گہرا اثر ہونے کی وجہ سے رپورتاژ کی ہیئت اور افسانویت سے استفادے کے باوجود بھی حقیقت پسند اور غیر افسانوی طر ز کی نمائندہ ہوتی ہے۔موجودہ واقعات کا بیان رپورتاژ نگاری کی ہیئت کے اعتبار سے افسانے اور ناول جیسی اصناف سے مختلف کردیتا ہے۔
رپورتاژ نگاری کی ہیئت کے تعیّن کے لیے ایک نقاد کو افسانوی اور غیر افسانوی دونوں اصناف نثر سے واقفیت رکھنا ضروری ہے اور یہی حال رپورتاژ نگار کا ہوتا ہے ۔اردو میں رپورتاژ نگاری مکمل طور پر کامیاب نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہی رہی کہ افسانوی اور غیر افسانوی ہیئت سے واقف قلمکار اردو میں بہت کم ہیں اسی لیے رپورتاژ نگاری میں افسانویت در آئی ہے۔ہیئتی اعتبار سے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ رپورتاژ میں افسانوی اور غیر افسانوی اصناف کا ایک حسین امتزاج پایا جاتا ہے جس کے ذریعے واقعے کی سطح کو افسانوی اسلوب دے کر ہیئت کو معتبر بنایا جاتا ہے۔ اس کی مثال کڑوی دوا کو شکر میں لپیٹنے سے دی جاسکتی ہے۔یعنی رپورتاژ نگار واقعے یا حادثے کا عینی شاہد ہونے کے باوجود اس کی حقیقت کو ہیئت کے اعتبار سے روداد نہیں بننے دیتا بلکہ افسانوی ایجاز و اختصار اور تاثر کے ذریعے اس میں وحدت تخیل پیدا کر دیتا ہے اور اگر یہ طرز اختیار نہ کیا جائے تو رپورتاژ کا فن مجہول ہوکر رہ جائے گا۔ایک اعتبار سے رپورتاژ کی ہیئت واقعہ کے بیان اور طرز اسلوب کے اعتبار سے بدلتی اور واقعہ کو دلچسپیوں میں لپیٹتے ہوئے آگے بڑھتی ہے ۔ اس لیے کامیاب رپورتاژ کو کسی ایک ہیئت میں قید کرنا ممکن نہیں ہے۔ہیئت اور اس کی بدلتی ہوئی حالتوں سے متعلق ڈاکٹر عنوان چشتی اس طرح رقمطراز ہیں۔
’’ کسی فن پارہ میں ایک سے زیادہ ہیئتیں ہوتی ہیں۔ ہیئت بہت سے ہیئتی عناصر کا مجموعہ ہوتی ہے۔یعنی ساخت،معنی اور اظہار معانی وغیرہ کا مجموعہ ہوتی ہے وہ فنّی کل جس کو ہیئت کا نام دیا جاتا ہے۔ساخت،معنی اور خصوصیات کا مجموعہ ہوتا ہے۔جو کسی فن پارہ پر بحیثیت ہیئت غالب رہتا ہے ۔ اس طرح ہر ایک فن پارہ تمام تر معنی اور تمام تر ساخت ہے اور اس میں وہ عنصر بھی شامل ہے جس نے اسے معانی اور ساخت عطا کی ہے۔چونکہ مواد اور ہیئت ہر فن میں موجود ہیں اس لیے کوئی بالغ نظر نقاد کسی فن پارہ کو محض اس نظر سے نہیں دیکھتا کہ اس کا مواد کیا ہے۔بلکہ وہ یہ بھی دیکھتا ہے کہ اس مواد کو کیا شکل دی گئی ہے؟یا اسے کون سی ساخت اور کون سے معنی عطا کیے گئے ہیں۔جہاں مواد ہے وہاں ہیئت ہے۔جہاں ہیئت ہے ،وہاں مواد ہے۔ان دونوں کو جداکرنے کے لیے ذہنی تجرید کی ضرورت ہوتی ہے۔عملاً ان کی جدائی ممکن نہیں۔اس وحدت کے سہارے مواد اور ہیئت اپنا وجود باقی رکھتے ہیں۔‘‘5
ڈاکٹر عنوان چشتی کی اس بحث سے واضح ہوجاتا ہے کہ ساخت،معنی،اور اظہار کے ذریعے کسی فن پارے کا وجود عمل میں آتا ہے۔چنانچہ رپورتاژ کی صنف بھی ایک ہیئتی اکائی رکھنے کے باوجود معنی اور اظہار کے معاملے میں افسانوی اور غیر افسانوی دونوں طر ز اسلوب سے استفادہ کرتی ہے۔جس سے رپورتاژ کے طرز بیان میں حسن پیدا ہوجاتا ہے۔
.3صحافت: مبصر انہ شان اور روداد نگاری کی خصوصیت ایک رپورتاژ میں صحافت کے ذریعے پیدا ہوتی ہے۔صحافت کا مقصد ترجمانی ،اظہار واقعہ اور اطلاع دینا ہوتا ہے جس کے لیے موزوں اور مناسب الفاظ کے سہارے صحافی اصل واقعے یا حادثے کی رپو رٹنگ کرتا ہے ۔اگرچہ صحافت کی جملہ ضروریات کی تکمیل رپورتاژ نگاری میں ہوتی ہے لیکن رپورتاژ اور صحافت میں بنیادی فرق یہی ہے کہ ایک صحافی واقعے کی روداد بیان کرنے کے دوران معروضی طریقہ اختیار کرتا ہے اور اپنی شخصیت کو روداد سے علیحدہ رکھ کر صحافت کی رپورٹنگ کا حق ادا کرتا ہے۔ جب کہ رپورتاژ نگار کے لیے لازمی ہے کہ وہ واقعہ کے بیان اور تصویر کشی کے دوران اس قدر ڈوب جائے کہ اس کی شخصیت واقعہ سے منسلک ہوکر واقعہ کے ایک جز کا درجہ حاصل کرلے ۔ اس عمل سے گزرنے کے بعد لکھا جانے والا رپورتاژ ہی حقیقی روداد پیش کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔اور رپورتاژ نگاری صحافت سے قریب ہوتے ہوئے بھی صحافت سے بڑی صنف کا درجہ حاصل کرلیتی ہے۔ ایک صحافی واقعہ کے بیان سے دلچسپی رکھتا ہے جب کہ رپورتاژ نگار واقعہ میں پوشیدہ پہلوؤں کو اپنی ذات سے وابستہ کرکے لفظوں کی بندش میں قید کرتا ہے۔ جس کی وجہ سے اظہار کا ایک نئی زندگی کی حیثیت سے جنم ہوتا ہے۔ اس انفرادیت کی وجہ سے رپورتاژ کو صحافت سے بالکل مختلف اور مورّخ کے انداز سے قریب رکھنے والی صنف کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ادبی رپورتاژ کے نام سے پہچانے جانے والی یہ صنف صحافتی خصوصیت کی بھی آئینہ دار ہوتی ہے۔
صحافت میں رپورٹنگ ۔ایڈیٹنگ اور تسلسل کا عمل دخل ہوتا ہے۔ عام طور پر صحافی اہم جملوں یا فقروں سے اطلاع کا آغاز کرکے اس کی تزئین میں اضافہ کرتا ہے جسے لیڈنگ (Leading) کا نام دیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے کسی اطلاع کی رتیب کو آگے پیچھے کرنے کا حق صحافی کو حاصل ہے۔ رپورتاژ نگار بھی روداد بیان کرنے کے دوران اس صحافتی طریقے سے استفادہ کرتا ہے اور اسے مناسب ترتیب میں لانے کے لیے لیڈنگ کا سہارا لے کر رپورتاژ کی تزئین میں چار چاند لگا دیتا ہے یہی وجہ ہے کہ صحافت کی لیڈنگ کا عمل رپورتاژ کی صنف پر اثر انداز ہوتا ہے ۔اسی لیے رپورتاژ کی صنف کے لیے صحافت کے اصولوں کو بروئے کار لانے اور اسے استعمال کرنے سے کسی صورت انکار نہیں کیا جاسکتا۔ صحافت میں استعمال ہونے والی انٹرولیڈ جس کا استعمال رپورتاژ میں بھی کیا جاتا ہے۔ اس کی تعریف و توصیف کرتے ہوئے سید ضیاء اللہ لکھتے ہیں۔۔۔
’’ انٹر ولیڈکسی خبر کے پہلے پیراگراف کو کہتے ہیں۔ یہ پیراگراف خبر میں سب سے اہم رول ادا کرتا ہے۔ اس کے لکھنے پر جتنا وقت صرف کیا جائے خبر اتنی ہی دلچسپ بنتی ہے اور قاری کو پڑھنے کی ترغیب دیتی ہے ۔ بھارت میں یواین آئی اور پی ٹی آئی کی انگریزی خبریں لکھنے کا قاعدہ یہ ہے کہ انٹرولیڈ میں چالیس سے زیادہ الفاظ استعمال نہ کیے جائیں۔ بیرونی ممالک کی ایجنسیوں نے تیس(30) لفظوں کی قید لگارکھی ہے۔ انگریزی اخبارات کے خصوصی نامہ نگار انٹرولیڈمیں ایک تا چالیس لفظ کی پابندی نہیں کرتے۔اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ خصوصی نامہ نگاروں کی رپورٹیں ٹھوس خبریں نہیں تجزیے ہوتے ہیں۔انٹرولیڈ میں استعمال ہونے والے تیس چالیس الفاظ انتہائی اہم ہوتے ہیں۔ اگر ان لفظوں نے قاری کو خبر پڑھنے پر مجبور نہ کیا تو انٹر ولیڈ نا کام سمجھا جاتا ہے۔ اس پیراگراف میں ساری خبر کا مُلخّص ہوتا ہے ۔ اگر پوری خبر سب ایڈیٹر نے پڑھی نہیں اور سطحی باتوں پر انٹرولیڈ لکھا گیا تووہ پھُسپھُسا اور کمزور ہوتا ہے۔ اور قاری کو راغب نہیں کرتا ۔ لہذا سب ایڈیٹر کو پوری خبر غور سے پڑھ کر اس کی روح تک پہنچنا چاہیے ۔ اصولی بات تو یہ ہے کہ لیڈ پیرگراف میں اتنی تفصیلات دی جائیں کہ خبر کی باقی ساری عبارت بہ شرطِ ضرورت حذف بھی کردی جائے تو اس ایک پیراگراف کے پڑھنے سے خبر کی اصل بات قاری تک پہنچ جائے۔‘‘6
اردو کے بیشتر رپورتاژ نگاروں نے اپنے رپورتاژ کی تحریر کے دوران صحا فت کے انٹرولیڈ کے طریقے کو اختیار کیاجس سے یہ ثبوت ملتا ہے کہ رپورتاژ نگار نے صحافت کے جدید طریقے سے بھرپور استفادہ کیا ہے۔ جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے علی سردار جعفری یہ لکھتے ہیں۔
’’یہ صنف ادب بالکل نئی ہے لیکن ہے انتہائی اہم۔ یہ صحافت اورافسانے کی درمیانی کڑی ہے اور اس سے ہمارے ادب کو بے انتہا فائدہ مل سکتا ہے۔‘‘7
.4 رومانیت : عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ جنس اور جذبے کا اظہار رومانیت ہے۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ خاص قسم کی لفظیات اور یکساں طرز اور جذباتی وابستگی کو مخصو ص انداز میں بیان کرنا بھی رومانیت ہے۔ ڈاکٹر محمد حسن نے اقبال کی شاعری میں الفاظ کے مخصوص استعمال کو رومانویت سے تعبیر کرتے ہوئے لکھا ہے۔
’’ اس طرح اقبال کی شاعری میں رومانوی اثرات بہت نمایاں طورپر نظر آتے ہیں۔ ان کے یہاں جذبات اور وجدان کی افراط اور غلبہ اس قدر زیادہ ہے کہ اگر ان کو رومانوی شاعر کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ اقبال نے عقل اور عشق کے لفظوں سے نیا جہاں بسایا ، اس جہاں کی تعمیر میں جذبہ اور وجدان کی اہمیت بنیادی ہے گو اس کی تکمیل کے لیے اطاعت اور جماعتی احساس کی ضرورت ہے۔ یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ اقبال، روسو کی طرح خودی کے بے پناہ جذبے کی شدت پر عقل کے ذریعے نہیں عشق یعنی شدید تر جذبے کی مدد سے قابو حاصل کرنے کامشورہ دیتے ہیں۔‘‘8
ڈاکٹر محمد حسن کے بیان سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ لفظوں کے استعمال کے وقت جذبے کی شدت اور وجدان کا غلبہ حد درجہ شدید ہوتو لفظوں کا محل استعمال بھی اسے رومانویت میں جگہ دیتا ہے جو کسی بھی تحریر کو رومانی بنانے کے لیے کافی ہے۔ اس لحاظ سے رپور تاژ میں بھی لفظوں کے دروبست اور اس کی شدت اور وجدانیت کے ذریعے رومانیت پیدا کی جاتی ہے جو اس صنف میں رومانیت کی کارفرمائی کا ثبوت ہے۔
رپورتاژ نگاری میں اس قسم کی رومانیت کا سہارا لیا جاتاہے۔ لفظوں کا تسلسل احساسات کی بر انگیختگی اور جذبات کی بر افرختگی کے ساتھ ساتھ تاثر اور تعیّن کا ایک ایسا جادوئی سلسلہ جو واقعہ یا روداد بیان کرنے کے دوران اختیار کیا جاتا ہے وہ رپورتاژنگاری کی روح ہے۔ اگر اس رومانیت کو بروئے کار نہ لایا جائے تو رپورتاژ ایک بے جان لاش کی طرح ہوجائے گی ۔ لیکن اس کی گرفت اس قدر پختہ ہوتی ہے کہ رپورتاژنگار اس کے جادو سے باہر نہیں نکل سکتا۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ یہ صنف تبصرہ کے حدود سے نکل کر تفسیر عمل کی علمبردار ہوجاتی ہے۔ رپورتاژنگار اگر چہ واقعہ کو حقائق کے ساتھ پیش کرتا ہے۔ لیکن اس کے اندر کا فنکار اپنی تیسری آنکھ سے لفظوں کے ایسے تانے بانے بنتا ہے جس کی وجہ سے یہ صنف ایک رومانی فضا میں آگے بڑھتی اور قاری کو متاثر کرکے اپنے تاثر کو دیر پا بنادیتی ۔ رپوتاژنگاری کی یہ خصوصیت کسی حد تک ادب لطیف میں دکھائی دیتی ہے جس میں جمالیاتی احساس نمایاں ہوتا ہے۔ رپورتاژنگار جمالیاتی احساس کی شدّت کو محسوس کرکے اسے لفظوں میں بیان کرنے پر پوری قدرت رکھتا ہے جس کی وجہ سے رپورتاژنگاری کی صنف ایک قسم کے رومانی احساس کو جگاتی ہے۔ جس میں جنس کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا بلکہ فنکارکے الفاظ کا دروبست فطرت کا دلنشیں اظہار نہ صرف واقعہ کے بیان سے مربوط ہوکر ایک ایسی فضا تیار کرتا ہے جو رمزیت اور اشاریت سے بالکل بے نیاز اور حقیقت کے اظہار کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رپورتاژنگاری کی رومانیت میں تشنگی کی بجائے تازگی اور زندگی کی نمایاں جھلک دکھائی دیتی ہے۔
.5افسانویت : واقعات ،پلاٹ،کردار اور آغاز و انجام سے مربوط من گھڑت واقعہ کو افسانہ میں شامل کیا جاتا ہے۔چونکہ افسانے میں کردار حقیقی نہیں ہوتے اور واقعہ بھی خیالی ہوتا ہے اس لیے اس کے بیان کرنے کے لیے اختیار کیا جانے والا طرز مخصوص لفظیات اور جمالیاتی احساس کی وجہ سے افسانویت کی دلیل سمجھا جائے گا۔افسانویت کا اطلاق جہاں افسانوی تحریر پر ہوتا ہے وہیں ناول کی تحریر میں بھی نمایاں دکھائی دیتا ہے ۔اس افسانویت کی وجہ سے کسی بھی تحریر میں متاثر کرنے کی صلاحیت اور جذباتی وابستگی کا وقار پیدا ہوجاتا ہے۔یہ انداز دوسری غیر افسانوی اصناف میں دکھائی نہیں دیتا لیکن رپورتاژ نگاری میں اس کا دخل حد درجہ نمایاں ہے۔شاید اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ رپورتاژ نگار حقیقی واقعہ کو افسانویت کے ذریعے دلفریب بناکر جذباتی تاثر پیدا کرنا چاہتا ہے اس کیفیت کی وجہ سے رپورتاژ کی صنف میں جمالیاتی احساس اور رومانوی فضا بندی اپنا اثر دکھاتی ہے ۔رپورتاژ میں افسانویت کے اثر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے طلعت گل یہ لکھتی ہیں۔۔۔
’’رپورتاژ میں افسانے اور ناول کی طرح کہانی پن ہوتا ہے لیکن پہلے سے گھڑا ہوا یا تیار کیا ہوا پلاٹ نہیں ہوتا۔پلاٹ یہاں واقعات اور کرداروں کے ذریعے خود بہ خود بنتا چلا جاتا ہے۔‘‘9
رپورتاژ میں افسانویت کا عمل اظہار کی حد تک روا رکھا جاتا ہے اور اسے روبہ عمل لانے کے لیے رپورتاژنگار حقیقی روداد کو افسانوی ماحول کے سہارے ایک ایسی جنّت کی سیر کراتا ہے جو حقیقی ہونے کے باوجود افسانوی لگتی ہے۔یہاں پر رپورتاژ نگار کا یہ کمال ہوتا ہے کہ وہ اپنے بیان کو افسانوی پرتوں میں چھپائے رکھتا ہے جس کے باوجود بھی واقعہ کی حقیقت ان پرتوں سے چھن چھن کر سامنے آنے لگتی ہے ۔ رپورتاژ نگاری میں افسانویت کا ایک یہی ایسا کمال ہے جس کی وجہ سے یہ صنف مکمل طور پر افسانوی نثر سے اپنا رابطہ توڑ کر غیر افسانوی ہوجاتی ہے۔لیکن اس میں افسانوی فضا کی کارفرمائی بہر حال محسوس کی جاسکتی ہے۔بقول ڈاکٹر صبیحہ انور : 
’’رپورتاژ بیک وقت کئی چیزوں کا مرکب ہوتا ہے۔لیکن رپورتا ژ نگار کو یہ آزادی بہر حال ہوتی ہے کہ وہ واقعات کا بیان کرنے کے ساتھ ان جذبات کو بھی سمیٹ لے جن پر عام طور سے لوگوں کی نظر نہیں گئی ہے یا جن کودرخود اعتنا نہیں سمجھا گیا ہے۔‘‘10
رپورتاژ میں اگرچہ افسانویت کا غلبہ زائد ہوتا ہے اور افسانوی ماحول کی کارفرمائی دکھائی دیتی ہے۔لیکن عبدالعزیزکے مطابق یہ کہنا بھی مناسب ہے۔
’’فنی ساخت کے اعتبار سے ابتدا ہی سے رپورتاژ کو ناول، ناولٹ اور مختصر افسانہ کی قبیل کا سمجھا گیا ہے۔افسانہ، ناولٹ ،ناول کی طرح رپورتاژ میں بھی ایک ارتقائی عمل، کرداروں کی تشکیل اور تہذیب ہوتی ہے۔نقطہ نظر کامجموعی تاثر ،مکالمہ،پلاٹ ،ارتقا ابتدا اور انتہاو انجام سب کچھ افسانے کی طرح ہوتا ہے۔اس لیے عموماً نقاد افسانے کی تکنیک و تنقید کے تمام اصول و ضوابط رپورتاژ پر منطبق کرتے آئے ہیں۔‘‘11
ان حوالوں کی روشنی میں یہ نتیجہ اخذ کرنا آسان ہوجاتاہے کہ رپورتاژ میں افسانویت کا تعلق نہ تو ہیئت سے ہے اور نہ ہی اسلوب سے ۔لیکن اس صنف میں افسانویت کا داخل ہوجانا ایک ایسا عمل ہے جس کی وجہ سے مواد اور ساخت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی بلکہ اس کے اظہار میں حسن اور جمالیاتی کشش پیدا ہوجاتی ہے۔ اسی وجہ سے رپورتاژ نگاری میں موجود افسانویت کو خارجی عمل کا درجہ نہ دیتے ہوئے اسے اس صنف کی حْسن کاری میں شامل کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔
.6واقعیت: کسی حادثہ، واقعہ یا پروگرام کا ظہور پذیر ہونا ایک ایسا عمل ہے جو حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے چنانچہ کسی واقعہ یا حادثہ سے روداد بیان کرتے وقت اس کے لوازمات اور جزئیات کو اپنی قوت تمیز سے پیش کرنے کا عمل ایک علیحدہ صنف تو قرار دیا جاسکتا ہے لیکن سماجی،معاشی ،ادبی ، معاشرتی سطح پر ظہور میں آنے والا کوئی بھی مرحلہ بہر حال واقعیت کی دلیل ہوتا ہے۔اس واقعیت کے اسرار و رموز اس کے مختلف پہلوؤں کو جدّت تخیل و شعور اور فہم و دانش کے سہارے سے بیان کرنا رپورتاژ نگاری ہے ۔یہ بات ممکن ہی نہیں کہ کوئی واقعہ ظہور پذیر نہ ہوا ہو اور اس کے بارے میں رپورتاژ لکھ دی جائے۔یعنی رپورتاژ کی اولین شرط واقعہ کا ظہور پذیر ہونا ہے۔اور یہی ظہور پذیری رپورتاژ کی صنف میں واقعیت کا درجہ رکھتی ہے۔رپورتاژنگاری کی واقعیت کا ثبوت فراہم کرنے کے لیے ڈاکٹر اعجاز حسین کی تصنیف ’ نئے ادبی رجحانات‘ سے یہ اقتباس پیش کیا جاسکتا ہے۔
’’رپورتاژ نگاری میں کردارفضا،ماحول کرداروں کے عمل، مکالمہ،واقعہ نفس مضمون ، موضوع سب کچھ حقیقی ہوتا ہے ۔اور کوئی شخص متذکرہ مقام پر پہنچ کر اس کی تحقیق کرسکتا ہے اور متذکرہ اشخاص کو رپورتاژکے خاکے کے ذریعے پہچان بھی سکتا ہے۔‘‘12
اس پہچان کے ذریعے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ رپورتاژ میں افسانویت کا عمل اظہار کی حد تک محدود ہے جب کہ واقعیت رپورتاژ کی صنفی اور حقیقی ضرورت ہے۔جس سے اجتناب رپورتاژ کی بنیاد کو کھوکھلا کردیتا ہے۔اس لیے رپورتاژ نگار کو واقعیت پر توجہ دینا اور واقعہ کو جزئیات کے ساتھ بیان کرنا ضروری ہے تاکہ اس صنف کی بنیادی ضرورت کی تکمیل ہوسکے۔
.7قوّت تحریر: ترسیل کے لیے اختیار کی جانے والی زبان نہ صرف الفاظ و معانی اور مفہوم کو ادا کرتی ہے بلکہ پیکریت ،ایمائیت یا پھر جمالیاتی احساس کے ذکر کا ذریعہ اظہار بنتی ہے جس کی وجہ سے ذوق سلیم کی تربیت اور مفہوم کی ادائیگی کا حق ادا ہوتا ہے ۔ہر فن پارہ کے اظہار کے لیے قوّت تحریر اس کی صنفی حیثیت کے لحاظ سے مختلف ہوجاتی ہے۔چنانچہ مقالہ نگاری کے دوران قوت تحریر کا انداز توصیفی یا تہنیتی نہیں ہوگا بلکہ موضوعی یا حوالہ جاتی حیثیت اختیار کرے گا۔ اسی طرح سے افسانوی تحریر نہ تو حوالہ جاتی ہوسکتی ہے اور نہ ہی حقیقت پسند۔اس طرح سوانحی نثر اور خاکہ نگاری کی نثر میں بھی قوّت تحریر کا عمل ایک دوسرے سے مختلف ہوگا۔یہی حال وقائع نگاری،سفر نامہ نویسی اور خود نوشت سوانح کی تحریروں کا ہے۔انشائیہ کی قوت تحریر بھی دوسری نثری اصناف سے مختلف ہوتی ہے جس سے یہ ثبوت ملتا ہے کہ ہر صنف کی قوت تحریر کے تقاضے دوسری صنف کی تحریروں کے تقاضوں سے بالکل مختلف ہیں۔اس بیان سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ رپورتاژ نگاری کی قوّت تحریر بھی دوسری نثری اصناف سے بالکل مختلف ہے۔
عام طور پر رپورتاژ نگار کسی واقعہ کی ترجمانی کا ایک مربوط خاکہ مرتب کرلیتا ہے اور اس خاکے کو حقیقی کرداروں اور ان کے عمل سے مالا مال کرکے ایسے الفاظ میں مرقع کاری کرتا ہے کہ واقعات اور حالات کی سطح ، ربط و تسلسل اور قوت اظہار کی تمام ضرورتیں ادبی رنگ و آہنگ سے وابستہ ہوجاتی ہیں۔اسی وجہ سے رپورتاژ نگاری کی قوّت تحریر حقیقتوں کی عکس کشی،شعوری روّیوں کی دل بستگی کے علاوہ شخصی اور اجتماعی کیفیتوں کی معرکہ آرائی سے اس طرح کار فرما نظر آتی ہے جس سے قوّت تحریر کا ایک اچھوتا انداز نمایاں ہوتا ہے۔اسی لیے رپورتاژ نگاری میں جہاں سرگرمیوں کا احاطہ ہوتا ہے وہیں مصروفیات اور مشاغل کی تصویر کشی ممکن ہے۔اور اس تصویر کشی کے دوران جو قوّت تحریر رونما ہوتی ہے۔اس میں ادبیت،صحافت،رومانویت اور افسانویت کا حسین امتزاج ہوتا ہے۔جس کی وجہ سے رپورتاژ کی قوّت تحریر اظہار کی تمام ترلذت اور ادبی مذاق کی آئینہ دار ہوجاتی ہے۔رپورتاژ کی قوّت تحریر کی انفرادیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے طلعت گْل یہ لکھتی ہیں۔۔۔
’’زبان اتنی صاف شستہ اور رواں ہوکہ پڑھنے والے کی نظروں کے سامنے واقعات کی تصویر سی کھنچ جائے۔قاری ہر بات کو صاف دیکھنا اور سننا چاہتا ہے۔ اس لحاظ سے رپورتاژ میں فلسفیانہ خیالات کے بیان کی گنجائش نسبتاً کم ہوتی ہے۔اس میں جذبات ،واقعات کی جیتی جاگتی تصویریں ہونی چاہیے۔ اس قسم کی زبان ،مشاہدے ، تجربے ،ادبی روایات کی آگہی اور علوم کی روشنی سے بنتی ہے۔یہاں طرز نگارش میں سچائی کے ساتھ ،شرارت معصومیت اور بھولپن بھی جائز ہے۔‘‘13
اس حوالے سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ رپورتاژ نگاری میں قوّت تحریر نہ تو خطیبانہ ہوسکتی ہے اور نہ ہی تفہیمانہ بلکہ رپورتاژ نگار کو گذشتہ واقعات بیان کے موقع پر منصفانہ طرز اختیار کرتے ہوئے نہ تو جذباتی ہونا چاہیے اور نہ ہی زور بیان کے سہارے قاری کو جذبات سے بوجھل کرنے کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔رپورتاژ نگار کی قوّت تحریر کا مقصد قاری کو متوجہ کرنا اور واقعہ سے دلچسپی برقرار رکھنا ہے۔رپورتاژ نگاری کی قوّت تحریر میں زور بیان کا کام نہیں ۔سادہ انداز کے ذریعے حقیقت کی پیش کشی مقصود ہے چنانچہ رپورتاژ میں بھاری بھر کم الفاظ اور تحکمانہ روّیہ اس صنف کو بوجھل کردیتا ہے۔رپورتاژ نگار کو اپنی قوّت تحریری میں جامعیت اور رمزیت کا سہارا لینا چاہیے تاکہ قوّت تحریر میں تنوع پیدا ہوسکے اور الفاظ کے آہنگ سے ایسے ساز پیداہوں جس کی وجہ سے الفاظ و حروف مترنم دکھائی دیں۔یہ اسی وقت ممکن ہے جب کہ رپورتاژ نگار دیانت داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی تحریر میں توازن برقرار رکھے اور مذاق سلیم کی آبیاری کی طرف توجہ دے۔
.8اقتباسی عمل: دیگر نثری اصناف کے مقابلے میں رپورتاژ نگاری ایسی منفرد اور جامع صنف نثر ہے جو دوسری نثری اصناف سے استفادہ کرتی اور ان سے اثرقبول کرکے خود توانا ہوتی ہے اور اپنے طرز میں نکھار بھی پیدا کرتی ہے۔اردو کی دوسری نثری اصناف میں اس رویے کی کارفرمائی خال خال نظر آتی ہے۔چونکہ رپورتاژ نگاری واقعہ یا حادثے کی سطح سے ابھرتی ہے اسی لیے اس صنف میں سوانحی انداز، خاکہ کی کیفیت ،انشائیہ کا درو بست،ڈرامے کی مکالماتی روش کے ساتھ ساتھ سفر نامے کی حقیقت، صحافت کی مبصرانہ شان اور روداد رپورٹنگ کی ہمہ گیری کا ایسا تسلسل پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے اس صنف میں دیگر نثری اصناف کی جھلکیاں نمایاں ہونے لگتی ہیں۔اسی لیے ڈاکٹر سید اعجاز حسین نے کہاہے۔۔۔
اس(رپورتاژ) کا تعلق براہ راست تاریخ سے ہے اور تاریخ کا پیٹ صرف وہی حالات بھر سکتے ہیں جو ظہور میں آچکے ہوں جن سے لوگ متاثر ہوئے ہوں اور رپورتاژ نگار کے لیے مورخ کا حکم ادیب کا دماغ اور مصّور کی نظر چاہیے۔‘‘14
رپورتاژ کا تعلق تاریخ کے ساتھ ہونے کے علاوہ خاکہ نگاری سے بھی بڑا گہرا ہے۔خاکہ نگاری میں جس حقیقت بیانی کی ضرورت ہوتی ہے اور شخصیت کی مختلف خوبیوں اور کمزوریوں کو ذاتی مشاہدے کی آمیزش کے ساتھ جیتا جاگتا مرقع بنایا جاتا ہے وہی انداز رپورتاژ نگار اختیار کرتا ہے۔عصمت چغتائی کا رپورتاژ ’دوزخی‘ اور کرشن چندر کا رپورتاژ ’پودے‘ عظیم بیگ چغتائی اور سجاد ظہیر کے خاکے کھینچنے میں پوری طرح کامیاب ہیں۔اس لیے یہ ثبوت ملتا ہے کہ رپورتاژ میں خاکہ نگاری کی صنف بھی اپنا اثر دکھاتی ہے۔رپورتاژ سے سفرنامے کا ربط بھی بڑا دلچسپ ہے۔اگرچہ سفرنامہ روداد سفر پر مبنی ہوتا ہے لیکن روداد سفر بیان کرنے کے دوران رپورتاژ کی فضا اور کیفیت جب اپنا اثر دکھائے تو سفر نامہ بھی رپورتاژ بن جاتا ہے۔جس کی تفصیل پیش کرتے ہوئے طلعت گْل یہ لکھتی ہیں۔۔۔
’’ سفرنامے اور رپورتاژ میں اکثر لوگ زیادہ فرق نہیں کرتے شاید ایسا اس لیے کہ اردو میں ابتدا میں لکھے گئے رپورتاژ روداد سفر پر ہی مبنی تھے۔مثلاً ’پودے‘ کا آغاز سفر سے ہوتا ہے تو’یادیں‘ کا اختتام سفر پر ہوتا ہے۔ان کے علاوہ’صبح ہوتی ہے‘کرشن چندر ’بمبئی سے بھوپال تک‘اور عصمت چغتائی ’دو ملک ایک کہانی‘از ابراہیم جلیس’دِلی کی بیپّتا‘از شاہد احمد دہلوی’ستمبر کا چاند‘ از قرۃالعین حیدر وغیرہ مشہور رپورتاژ ہیں جن میں سفر کے حالات قلمبند کیے گئے ہیں۔‘‘15
سفر نامے کے علاوہ صنف انشائیہ کی پذیرائی بھی رپورتاژ نگاری میں دکھائی دیتی ہے ۔اگرچہ انشائیہ ایک وضاحتی صنف ہے لیکن رپورتاژ میں اس کا عمل بعض اوقات بنیادی منصب کے طور پر دکھائی دیتا ہے ۔اگرچہ آپ بیتی،سوانح ،روزنامچہ،ڈائری اور خطوط کی جھلکیاں بھی رپورتاژ کا حصہ بنتی ہیں لیکن انشائیہ ایک صنف کی حیثیت سے نہیں بلکہ اظہار کے طور پر رپورتاژ میں جامعیت پیدا کرتا ہے۔
رپورتاژ نگاری میں اقتباسی عمل غیر افسانوی نثر سے زیادہ افسانوی نثر سے مستند ہوتا ہے۔ صرف داستان نگاری کو چھوڑ کر افسانہ ،ناول اور ناولٹ کی بے شمار خصوصیات رپورتاژ میں دکھائی دیتی ہیں۔اگرچہ رپورتاژ افسانے کی طرح اپنی صنف میں قصے کا عروج و زوال اور کشمکش کے لمحات کا ذکر نہیں کرتا لیکن افسانوی اسلوب اور ناول کی بے شمار خصوصیتوں کو واقعاتی سطح پر قبول کرتا ہے اور انھیں رپورتاژ میں شامل کرتا ہے جس کی وجہ سے اس صنف میں بے شمار خوبیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔جس کا ثبوت پیش کرتے ہوئے عبدالعزیز لکھتے ہیں : 
’’ با صلاحیت ادیبوں نے ایک مشنری جذبہ کے تحت اس تحریک کے ادبی جلسوں کا حال لکھنا شروع کیا اور اس طرح اردو میں ایک نئی اور خوبصورت صنف ادب کی بنیاد پڑی۔انھوں نے شہر شہر کانفرنسوں جلسوں کی روداد کو اخبار کی خبر کے بجائے ایک تخلیقی تجربہ بناکر پیش کیا۔تاکہ دور دراز کے علاقوں میں رہنے والے لوگ خود بھی اس میں شریک محسوس کرسکیں۔یہ صحافت کی ترقی اور فن افسانہ کے عروج اور بہترین عناصر کے امتزاج سے ممکن ہوسکا جو رپورتاژ کے نام سے معروف ہوا۔‘‘16
اور ایک جگہ رپورتاژ کے تعلق کو افسانوی اصناف سے جوڑتے ہوئے عبدالعزیز لکھتے ہیں:
’’فنی ساخت کے اعتبار سے ابتدا سے ہی رپورتاژ کو ناول ناولٹ اور مختصر افسانے کی قبیل کا سمجھا گیا ہے۔ افسانہ، ناولٹ ،ناول کی طرح پورتاژ میں بھی ایک ارتقائی عمل کردار وں کی تشکیل اور تہذیب ہوتی ہے ۔ نقطۂ نظر کا مجموعی تاثر مکالمہ، پلاٹ، ارتقا، ابتدااور انتہا سب کچھ افسانے کی طرح ہوتا ہے۔ اس لیے عموماً نقاد افسانے کی تکنیک و تنقید کے تمام اصول و ضوابط رپورتاژ پر منطبق کرتے آئے ہیں۔‘‘17
ان حوالوں کے توسط سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ رپورتاژ ایسی واحد صنف ہے جو بیک وقت افسانوی اصناف نثر کے ساتھ ساتھ غیر افسانوی اصناف نثر کے ساتھ بھی استفادہ کرتی ہے۔ یعنی یہ صنف بذاتِ خود اپنی کوئی حیثیت نہیں رکھتی بلکہ دوسری اصناف سے استفادہ کرتے ہوئے اپنا وصف اور مزاج بناتی ہے۔ ایک لحاظ سے یہ ایک مشترکہ صنف کا درجہ رکھتی ہے۔ چنانچہ اس صنف کی حیثیت متعین کرنے میں ایک بہت بڑی دشواری ہے اور اس کا تنقیدی جائزہ بھی اسی لیے متعین نہیں ہوسکتا کہ رپورتاژ کے تجزیے کے لیے ایک نقاد کو تمام اصناف نثر پر دسترس رکھنی ہوتی ہے۔ اردو کے بیشتر افسانہ اور ناول نگاروں نے بھی بہترین رپورتاژ لکھے۔ اس لیے اس صنف کے تجزیے کے لیے افسانوی نثر سے مکمل واقفیت ضروری ہے۔ عبدالعزیز اور طلعت گل نے اپنی کتابوں میں رپورتاژ کا تعلق دیگر نثری اصناف سے ثابت کرتے ہوئے یہ بات تو لکھ دی کہ دوسری اصناف سے اس صنف کے ربط کی وجہ سے اس کی حیثیت بڑی ہمہ گیر ہوجاتی ہے۔ لیکن ہر صنف سے اقتسباس قبول کرنے کی وجہ سے اس صنف کی پیچیدگی کے بار ے میں اظہار خیال نہیں کیا۔ اگر دیکھا جائے تو رپورتاژ کا تعلق قصے کی پرت کو چھوڑ کر دیگر معاملات میں اردو کی مشہور صنف داستان سے جوڑا جاسکتا ہے۔ جس طرح داستان میں کئی کردار اور ان کے عمل کے ساتھ ساتھ اس دور کی تہذیب و شائستگی کو نمایاں کیا جاتا ہے، اسی طرح ترقی پسند مصنفین نے اس صنف میں ترقی پسند تحریک کے عوامل اور عناصر کو نمایاں کیا۔ اگر داستانوں میں جاگیر دار انہ نظام امیر و امرا اور ان کی زندگیوں کا عمل دکھائی دیتا ہے لیکن عام انسان کی زندگی کا عمل دخل دکھائی نہیں دیتا تو یہ کہنا بھی بے جانہ ہوگا کہ رپورتاژ میں بھی ترقی پسندوں کی حرکات و سکنات اور ان کے روّیوں کی کارفرمائی دکھائی دیتی ہے۔ چونکہ یہ ترقی پسند مصنفین کی رپورٹوں پر مشتمل ہے اس لیے ان میں سامع کا عمل دخل مفقود نظر آتا ہے ۔ اس کے علاوہ چونکہ رپورتاژ میں ایک گزرے ہوئے واقعہ کی تصور کشی کا عمل نہیں کیا جاتا ہے اس لیے اس صنف کو ایک اقتباسی عمل کا آئینہ دار قرار دیتے ہوئے اس کی حیثیت داستان سے ہم آہنگ کی جاسکتی ہے۔ صرف فرق یہ ہے کہ داستان میں مافوق الفطرت عناصر ہوتے ہیں جب کہ رپورتاژنگاری میں اس پہلو کو نظر انداز کرکے داستان کی طرح مخصوص تحریک سے وابستہ افراد کی کار فرمائیوں کا جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔ اس لیے رپورتاژ نگاری اقتباسی عمل سے وابستہ ایک نثری صنف کا درجہ رکھتی ہے۔
.9جبریہ انداز: کسی بھی صنف کی فطری ضرورت کا لحاظ کیے بغیر اس صنف میں ذیلی یا وصفی طور پر دوسری چیزیں شامل کردی جائیں تو اسے بلاشبہ جبریہ انداز قراردیا جائے گا۔ اردومیں کئی افسانے، خطوط، ڈائری اور سفر نامے کی شکل میں لکھے گئے لیکن انھیں مقبولیت حاصل نہ ہوسکی ممکن ہے کہ افسانوی صنف میں یہ انداز بعض ناقدین کے لیے اختراع کا درجہ رکھتا ہو لیکن وہ فطری ہونے کے بجائے جبری تھا۔ اس نئے پن کی وجہ سے وقتی طور پر افسانے کی صنف میں کوئی اضافہ نہیں ہوالیکن اچھوتے انداز کا اضافہ ضرور ہوا۔ یہ اچھوتا انداز افسانے میں جبریہ انداز کا علمبردار بن جاتا ہے کیونکہ اس کو مقبولیت حاصل نہ ہوسکی ۔ اس دلیل کے بعد جب رپورتاژ کی صنف کا تجزیہ کیاجاتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ اس صنف میں بھی کئی جبریہ انداز کا ر فرما نظر آتے ہیں جنھیں ناقدین نے کوئی علاحدہ نام نہیں دیا۔ اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ رپورتاژ نگار اس صنف میں لوگوں کی توجہ کو مرکوز کرنے کے لیے مختلف قسم کی کرتب بازیاں دکھاتاہے۔ کسی صنف ادب میں کسی مخصوص گروہ یا طبقہ یا جماعت کا لحاظ کرکے ادب تحریر کرنا اس صنف کو مجروح کردینے کے مترادف ہے۔ ناول، افسانہ یا کوئی بھی صنف کسی بھی مخصوص گروہ کو سامنے رکھ کر تحریرنہیں کی جاتی ۔لیکن رپورتاژ نگاری میں یہ جبری انداز دکھائی دیتاہے کہ اس صنف میں قاری اور اس کی توجہ کو پیش نظر رکھ کر تمام فنّی اور لفظی کرتب بازیاں دکھائی جاتی ہیں جن کا ذکر کرتے ہوئے عبدالعزیز لکھتے ہیں۔۔۔
’’ چونکہ اخبار کی خبر تخلیقی اُپج سے عاری اور تاثیر سے مجروح ہوتی ہے اس لیے بے جان ہوتی ہے۔اسی خبر کو موضوع بناکر ،ایک تخلیق کے درجہ تک پہنچادیا جائے تو بلاشبہ اس میں Realblity پیدا ہوجاتی ہے اور وہ ناولٹ یا افسانہ کے قریب ہوجاتی ہے۔‘‘18
اس حوالے سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ رپورتاژ کی صنف کو قابل مطالعہ یا Realiblity سے ہمکنار کرنے کے لیے رپورتاژ نگار کو ایک تخلیقی مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے کوئی بھی صنف تخلیقی مرحلے کے بغیر پروان نہیں چڑھ سکتی۔کسی خبر یا واقعہ کو تخلیق کا ذریعہ بنانے اور اس میں مطالعے کی صلاحیت پیدا کرنے کے لیے اختیار کیا جانے والا عمل جو الفاظ کے دروبست اور اظہار کے طرز سے وابستہ ہوتا ہے اسے جبری انداز کہا جائے گا۔اخبار کی اطلاع میں یہی فنّی خامی ہوتی ہے یعنی اگر تخلیق کار اپنی ذہنی اپج کو قاری کی ضرورت کے اعتبار سے قابل مطالعہ بنانے کے لیے غیرتخلیقی روّیہ اختیار کرے تو اس سے تخلیقی ذہن کو بروے کار لانے کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ کسی خبر کو پھیلانے اورسکیڑنے کے ذریعے تخلیق کار اپنی فنّی آزادی کو نظر انداز کرکے ایک ایسے ادب کی تخلیق کرتا ہے جس میں قاری کی توجہات ملحوظ ہوتی ہیں۔لازمی طور پر ایسے روّیے یا ایسی اصناف کا شمار پاپولر لٹریچر یا مقبول ادب میں تو ہوسکتا ہے لیکن اسے کلاسیک یا فن پارے کا درجہ حاصل نہیں ہوسکتاکیونکہ تخلیقی آزادی پر کسی قسم کی پابندی عائد کرنا در حقیقت فنکار کی ذہنی اپج کو جبر سے ہم آہنگ کرنے کے مترادف ہے اور یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ رپورتاژ کی صنف میں یہ جبری روّیہ کار فرما ہے یہ صنف نہ صرف ترقی پسند تحریک کی نمائندگی کرتی رہی بلکہ اسی تحریک نے رپورتاژ کی صنف کو ایک وسیلے کے طور پر استعمال کیا جس کا مقصدترقی پسند تحریک کی مصروفیات کی خبر دینا تھا اس لیے رپورتاژ میں ترقی پسند تحریک کی خبریا اطلاعات کا انداز اس صنف کو بوجھل کردیتا ہے۔
ترقی پسند تحریک کے قلمکاروں نے رپورتاژ میں جبریہ انداز اختیار کیا اور جان بوجھ کر ترقی پسند تحریک کی تشہیر کے لیے ایسی رپورٹیں اور روداد تیارکی گئیں جن کو پڑھ کر قاری افسانویت کا مزہ لے سکے اور رپورٹ اپنے حدود سے متجاوز ہوکر ایک دلچسپ مرقع بن جائے۔چنانچہ اس مرقع کاری کے جبر نے رپورتاژ کی صنف پر وہی کام کیا جو اردو مرثیے نے واقعہ کربلا کے بیان میں مبالغے کے ذریعے کئی نئے گوشے وا کردیے جس کی وجہ سے مرثیے کی صنف تاریخ سے ہٹ کر ادب کی کئی خوبیوں سے وابستہ تو ہوگئی لیکن تاریخ کربلا نہ بن سکی۔ٹھیک اسی طرح رپورتاژ میں جبریہ انداز کی شمولیت سے اس صنف میں کئی ادبی خوبیاں نمایاں ہوئیں لیکن رپورتاژ ایک خالص ادبی صنف کا درجہ حاصل نہ کرسکی۔یہی وجہ ہے کہ رپورتاژ میں در آنے والے جبریہ انداز کی وجہ سے کبھی رپورتاژ افسانوی طرز کا علمبردار ہوجاتا ہے۔تو کبھی اس کی حیثیت سفرنامے سے قریب ہوجاتی ہے کئی قلمکار نے رپورتاژ کی صنف کو روزنامچہ کی شکل میں استعمال کیا تو کسی ادیب نے اس صنف کے ذریعے ناو ل اورڈرامے کی خصوصیات کو روا رکھ کر اپنی جدّت طرازی اور اچھوتے پن کی دلیل پیش کی جس کا نتیجہ یہ رہا کہ رپورتاژ نگاری کسی ایک صنف کی آئینہ دار قرار دیے جانے کے بجائے مختلف اصناف کا ایک ایسا چربہ بن گئی جس میں اس کی اپنی شناخت کے بجائے جبریہ انداز کی کارفرمائی نمایاں ہونے لگی۔۔
انگریزی میں استعمال ہونے والے لفظ "Reportage"کی جو خوبیاں بیان کی گئی ہیں اور انگریزی ادب میں رپورتاژ کو جس قسم کی صنفی حیثیت حاصل ہے وہی درجہ اردو رپورتاژ کو ملنا اس لیے ممکن نہیں ہے کہ رپورتاژ نگاروں نے اس صنف کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کیا ۔ اگرچہ یہ لفظ انگریزی زبان میں لاطینی اور فرانسیسی کے توسط سے اس قدر عام ہوا کہ اسے گذارشِ امر یا پھر اخباری رپورٹ میں ذات کے خوشگوار اور امتزاج کو شامل کرنے کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔ جس میں جزئیات کی شمولیت اور تخیّل کی آزادی کو ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ اردو کے رپورتاژ نگاروں نے جزئیات کی شمولیت کو تو قبول کیا لیکن تخیّل کی آزادی کے تخلیقی پردوں کو مختلف اصناف کے زیر اثر اس قدر برتا کہ رپورتاژ ایک علیٰحدہ صنف ہونے کہ بجائے کئی نثری اصناف کا ایک ایسا ملغوبہ بن گئی جسے ہر تخلیق کار اپنی مرضی کے مطابق مختلف انداز اور معنی و مفاہیم کے طور پر استعمال کرنے لگا۔ صنف رپورتاژ میں تخلیق کار کی اپنی پسند کا شامل ہوجانا اس صنف پر جبریہ انداز کی کارفرمائی کا ثبوت دیتا ہے اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اردو کے بیشتر نقاّدرپورتاژ کو ایک نئی صنف تو قرار دیتے ہیں لیکن اس نئی صنف کے ابعادقائم کرنے کے لیے ان کے پاس حقیقی نقوش نہیں ہیں۔ اس لیے اس کا تعلق مختلف افسانوی اور غیر افسانوی اصناف سے جوڑ کر اس حقیقت کو نظر انداز کر جاتے ہیں کہ رپورتاژ ایک مخصوص خبریہ مواد ہے۔ اور اردو کے رپورتاژنگاروں نے اس خبر یہ مواد میں ہر صنف نثر کو شامل کرکے ایسا جبریہ روّیہ اختیار کیا ہے جس کی وجہ سے نام کے لحاظ سے رپورتاژ جیسی ایک نئی صنف تو ایجاد ہوگئی لیکن شناخت Identity کے اعتبار سے اردو میں اس صنف کی پیدائش ہی نہ ہوسکی۔ اس طرح اردو نثر میں رپورتاژ کی صنف اردو کے قلمکاروں کے جبر کا شکار رہی۔ اسی لیے یہ صنف زیادہ عرصے تک ادب کو متاثر کرکے اپنی صنفی حیثیت برقرار نہیں رکھ سکی اور اس کا عہد ایک محدود دور کی نمائندگی کرتے ہوئے گمنامی سے ہمکنار ہوجاتا ہے۔


حواشی: 
.1 ’جب بندھن ٹوٹے‘ تاجور سامری ۔ تعارف و احتشام حسین ،ص۔5
.2 ’اسلوب‘ سید عابد علی عابد، ص۔43
.3 ’نثر، نظم اور شعر‘۔ منظر عباس نقوی، ص۔ 26
.4 ’ اردو میں رپورتاژنگاری ‘ عبدالعزیز ،ص۔ 27
.5 ’ اردو شاعری میں ہئیت کے تجربے‘ ڈاکٹر عنوان چشتی، ص۔20
.6 ’ اردو صحافت ترجمہ و ادارت‘، سید ضیاء اللہ، ص۔243
.7 پیش لفظ علی سردار جعفری ’ خزاں کے پھول ‘از عادل رشید بحوالہ اردو ادب کی تاریخ ،
مرتبہ: عظیم الحق جنیدی، ص۔ 288
.8 ’ اردو ادب میں رومانوی تحریک ‘، ڈاکٹر محمد حسن، ص۔ 25
.9 ’ اردو میں رپورتاژ کی روایت‘ ، طلعت گل، ص۔ 27
.10 ’ اردو میں خود نوشت سوانح حیات‘ ڈاکٹر صبیحہ انور، ص۔ 160
.11 ’ اردو میں رپورتاژ نگاری‘ عبدالعزیز ،ص۔24
.12 ’ اردو ادب کی تاریخ‘عظیم الحق جنیدی ،ص۔ 288
.13 ’ اردو میں رپورتاژ کی روایت ‘ طلعت گل، ص۔25-26
.14 ’ اردو ادب آزادی کے بعد‘ ڈاکٹر سید اعجاز حسین، ص۔ 280
.15 ’ اردو میں رپور تاژ کی روایت‘ طلعت گل ،ص۔ 44
.16 ’ ترقی پسند ادب پچاس سالہ سفر‘ مرتّبہ: پروفیسر قمر رئیس ؍ سید عاشور کاظمی بحوالہ مضمون ’ ترقی پسند تحریک اوررپورتاژ‘ از عبدالعزیز، ص۔517-518
.17’اردو میں رپوتاژ نگاری ‘ از عبدالعزیز ،ص۔23-24
.18 ’ ترقی پسند ادب پچاس سالہ سفر‘ مرتّبہ: پروفیسر قمر رئیس ؍ سید عاشور کاظمی بحوالہ مضمون ’ ترقی پسند تحریک اوررپورتاژ‘ از عبدالعزیز ،ص۔ 517-518



Dr. Irshad Ahmad Khan
Head Department of Urdu
N.S.B. College, Nanded-431601
(Maharashtra), Mob:-09922043593






قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

شاد عظیم آبادی اور ان کے ناول، مضمون نگار: شہاب ظفر اعظمی

  فکر و تحقیق، جولائی – ستمبر 2024 تلخیص           شاد عظیم آبادی صرف ایک شاعر نہیں بلکہ ایک نابغۂ روزگار دانشور تھے۔انھوں نے نثر اور ...