28/3/19

عربی و اردو میں فکشن کا آغاز اور ترجمے کی افادیت مضمون نگار: حدیث انصاری




عربی و اردو میں فکشن کا آغاز اور ترجمے کی افادیت
حدیث انصاری
بعثت محمدؐ سے پہلے عربی ادب بھی مافوق الفطرت واقعات، عشقیہ، جنگی قصص اور قصائد پر مبنی تھا جو صرف تفنن طبع کا سامان بہم پہنچاتا تھا اور زندگی کی حقیقی تصویر پیش کرنے سے قاصر تھا۔ قرآن کریم اور نبیؐ کی اخلاقی و معاشرتی تعلیمات سے نیا اسلامی ادب وجود میں آیا۔ اس نے عربی ادب کو یکسر بدل دیا۔ زندگی اور معاشرے کو صالح فکر و شعور کی حرارت اور جوش عمل کا جذبہ عطا کیا۔ قرآن میں قدیم اقوام اور انبیاء کے واقعات کو قصص کے جس انداز میں عبرت اور نصیحت کے لیے بیان کیا گیا اس میں نفس مضمون اور طرزِبیان کی جامعیت اور اختصار کی دلکشی عدیم المثال ہے۔ قرآن نے ماضی کی اقوام کے قصص کو جس طرز پر پیش کیا اس وقت تک دنیا کا نثری ادب اس طرز سے غافل تھا۔ ایک طویل عرصے کے بعد انھیں قصص کے طرز بیان سے متاثرہوکر مغربی اقوام نے ناول اور افسانے کی نثری اصناف کو وجود بخشا۔ یہ عربی ادب کا مغربی ادب پر اثر کا نتیجہ تھا۔ یہ عمل بھی ترجمے کے استفادے سے ممکن ہوا۔ مغربی ادیبو ں کی خوبی یہ ہے کہ انھوں نے عربی ادب سے استفادہ تو کیا لیکن اپنی ریاضت اور تجربے سے اس میں اضافہ بھی کیا اور یہ حقیقت ہے کہ انھوں نے موجودہ ناول اور افسانہ اپنے تمام تر عناصر اور صفات کے ساتھ عربی ادب کو لوٹایا۔ صرف عربی ہی نہیں بلکہ اردو اور دنیا کی دیگر زبانوں میں ناول اور افسانے کی اصناف مغربی ادب کے اثر سے وجود میں آئی ہیں۔
تاریخی اعتبار سے عباسی دورِ حکومت کو علم و ادب کے فروغ کا عہدزریں کہا جاتا ہے۔ قدیم عربی ادب میں قصہ گوئی کا فن اسی دور میں جدت سے آشنا ہوا۔ عبداللہ ابن مقفع اس دور کا مشہور عربی ادیب تھا۔ اسے عربی اور فارسی دونوں زبان و ادب پر کامل دست رس حاصل تھی۔ اس نے فارسی کی کہانیوں کا شاندار عربی میں ترجمہ کیا جو ’کلیلہ و دمنہ‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ اسی دور کا مشہور ادیب ابن الفارس ہے۔ اس کی مشہور زمانہ کتاب ’مقامہ‘ ہے۔ اس کی کہانیوں کو موجودہ افسانے کی عمدہ ابتدائی شکل کا نام دے سکتے ہیں۔ ہمدانی اور حریری بھی اسی دور کے ادبا میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کی تحریریں بھی مثالی درجہ رکھتی ہیں۔ یہ تمام تر تحریریں زبان کے لحاظ سے فصاحت و بلاغت لغت و معانی کا ایک مرقع کہی جاسکتی ہیں جس میں الفاظ کی شیرینی، مسجع، مقفیٰ عبارتوں کی تراکیب محض عوام کی ذہنی تسلی اور لغوی تعلیم کا سامان تھیں۔ یہ قصے کہانیاں پلاٹ کے لحاظ سے نہ تو عوامی زندگی سے مربوط ہوا کرتے تھے نہ ان میں روزمرہ کے معمولات کی عکاسی پائی جاتی ہے۔
عربی قصہ گوئی کا دوسرا دور جس میں قصہ عنترہ، ہلالیہ، بیبرس، اور فیروز شاہ، کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ اسی دور میں الف لیلہ کا عربی ترجمہ ہوا۔ کچھ نئے طبع زاد قصے علی زیبق اور احمد دنف لکھے گئے۔ لیکن یہ تمام تر قصص بھی ماضی کی منقش روایتی چادر میں لپٹے ہوئے ہیں۔ یہ رنگ واثر ایک طویل عرصے تک قائم رہا۔ یہ قصص بھی زندگی اور سماج میں جوش عمل کا جذبہ پیدا کرنے سے یکسر خالی تھے۔ انھیں ایام میں 1798 میں مصر پر نپولین کا حملہ ہوا۔ یہ پہلا موقع تھا جب مصری عوام یورپی اقوام اور ان کی تہذیب سے قریب ہوئے اور یورپ کے جدید علم و فن اور طرز تعلیم سے متعارف ہوئے۔ اس کے بعد مصر میں علم و فن کو فروغ دینے میں ترکی حکمراں محمد علی کی خدمات بھی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہیں۔ اس کے دور حکومت (1803 سے 1849) میں کیا شہر، کیادیہات، مصر کا ہر خطہ جدید علوم و فنون سے جگمگا اٹھا۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے مصری طلبا کا وفد بیرونِ ملک جانے لگا۔ مصر میں نئی تعلیمی بیداری نے کروٹ لی اور مصری ادیب ادب کے میدان میں نئے گوشے تلاش کرنے لگے۔ حصول تعلیم کے سلسلے میں طلبہ کا پہلا وفد جو مصر سے فرانس گیا۔ اس میں مصری ادیب فلاح رافع رفاعہ طہطاوی بھی شامل تھے۔ ان کی ابتدائی تعلیم و تربیت جامعہ ازہر میں ہوئی تھی۔ فرانس سے واپسی کے بعد طہطاوی نے مصر میں طریقۂ تعلیم کی نئی تنظیم پر زور دیا۔ طہطاوی نے 1871 میں یونانی قصہ ’معاصرات تلیماک‘ کا ’مواقع الافلاک فی اخبار تلیماک‘ کے نام سے ترجمہ کیا۔ چند خامیوں کے باوجود اسے عربی ناول کا پیش خیمہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ یہیں سے مغربی ناولوں کو عربی میں منتقل کرنے کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ تراجم میں مصری ماحول اور حالات کو ڈھالنا اولین مقصد بن گیا۔ ترجمے کے ذریعے عربی زبان میں مصری ماحول کو ڈھالنے کی جن لوگوں نے خدمات انجام دیں ان میں محمدعثمان جلال، مارون نقاش، فرح انطون، نجیب حداد وغیرہ کے نام غیرمعمولی اہمیت کے حامل ہیں۔
اس دور کے مصری ناولوں میں ’زینب‘ کو جو ادبی وقار ملا وہ دوسرے ناولوں کو نہیں مل سکا۔ محمد حسین ہیکل کا ناول ’زینب‘ 1914 میں منظرعام پر آیا۔ اس کا دوسرا ایڈیشن 1929 میں آیا۔ اس ناول کے متعلق عبدالمحسن طٰہٰ بدر کا خیال ہے کہ یہ ناول فرانسیسی ادیب ژاک روسو کے ناولوں سے متاثر ہوکر لکھا گیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ناول مصر کی دیہاتی زندگی کے خد و خال کو پیش کرنے والا اولین ناول ہے۔ اس طرح فرانسیسی ادب اور انگریزی ادب سے استفادے کی ہوڑ لگ گئی۔ جرجی زیدان، مصطفےٰ لطفی المنفلوطی، فرید ابوحدید، محمود تیمور، ڈاکٹر طٰہٰ حسین، ابراہیم عبدالقادر المازنی، عباس محمود العقاد، احسان عبدالقدوس اور 1952 کے انقلاب کے بعد نجیب محفوظ، یوسف السباعی، محمد عبدالحلیم عبداللہ، توفیق الحکیم وغیرہ ادیبوں نے عربی ادب کو نئے فکر و شعور اور نئے طرز اسلوب سے آشنا کیا۔ اس طرح یہ واضح ہوجاتا ہے کہ عربی زبان کا جدید ادبی سرمایہ جو آج ہمیں ناول، افسانے، اور خودنوشت کی صورت میں نظر آتا ہے اس کا بنیادی ماخذ فرانسیسی اور انگریزی ادب ہے۔
اٹھارہویں اور انیسویں صدی کو انقلاب کی صدی کہا جائے تو بجا ہوگا۔ یہ ہر دو صدی علمی، تہذیبی اور سیاسی انقلاب کی صدی ہے۔ یہ صدی یوروپی اقوام کے عروج کی صدی ہے۔ یورپی اقوام کے علم و ہنر کی بالادستی کی صدی ہے۔ ان کے جدید علمی اور ادبی تجربات کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔
افادہ اور استفادہ کے اس تاریخی سلسلے میں اردو زبان و ادب کا سرمایہ بھی کچھ اسی طرح ترتیب پایا ہے۔ بری اور بحری راستے سے ڈچ، پرتگالی، فرانسیسی اور انگریزی اقوام برصغیر ہند کی سرزمین پر اورنگ زیب کے عہد حکومت میں ہی آچکی تھیں۔ آخری کامیابی انگریزی اقوام کے ہاتھ آئی۔ 1857 میں مغل سلطنت کا آخری چراغ ہمیشہ کے لیے گل ہوجاتا ہے اور حکومت کی زمام انگریزوں کے ہاتھ میں آجاتی ہے۔ ہندوستانی عوام غلامی کی چکی میں پسنے لگتے ہیں۔ انھیں ایام میں سرسید احمد خاں اپنے فکر و شعور اور رفقا کے ساتھ منتشر ہندی عوام کی رگو ں میں حرارت اور جوش عمل کا نیا لہو دوڑانے کے لیے عملی کوششیں شروع کردیتے ہیں۔ ان کی مساعی جمیلہ کے نتیجے میں نوے سال بعد برصغیر ہند کو آزادی اور خودمختاری پھر حاصل ہوئی لیکن تقسیم ہند و پاک کی صورت میں۔
1857 سے 1947 کے درمیانی عرصے میں اردو زبان و ادب نے جو انقلابی تبدیلیاں اور ترقی کی منزلیں طے کی ہیں وہ ادبی تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں۔ ہند کی سرزمین پر مسلمانوں کی آمد 6ھ سے شروع ہوجاتی ہے لیکن یہ آمد ایک طویل عرصے تک تبلیغ دین اور تجارت تک محدود رہی۔ اسلام کی اخلاقی اور معاشرتی تعلیم سے یہاں کی فضا ہموار ہوتی رہی۔ اس سرزمین کو علمی، تہذیبی، تمدنی، ثقافتی، سیاسی اور معاشرتی استحکام شرقی سلطنت، لودی حکومت اور تیموری حکومت کے زیرسایہ ملا۔ ان حکمراں طبقے کی زبان ترکی، عربی اور فارسی تھی۔ کیونکہ ان کا تعلق انھیں علاقوں سے تھا جہاں یہ زبانیں اپنے عروج و کمال کا سکہ رائج کرچکی تھیں۔ اس طرح عربی، فارسی اور ترکی کا اثر دربار سے لے کر عوام و خواص تک رہا اور یہ حقیقت ہے کہ اکبر کے عہد حکومت کے بعد تک عربی اور فارسی کا ہی غلبہ رہا۔ یہاں کی عوام اور حکمراں اور ان کے لشکری میل جول سے اردو وجود میں آئی اور تناور درخت بن گئی۔ اردو کی آبیاری اور پرورش عربی اور فارسی کے زیرسایہ ہونے کا نتیجہ یہ ہوا کہ اردو نے ادبی سطح پر جو پہلا اثر قبول کیا وہ انھیں کا اثرہے۔ اس میں بھی عربی کے مقابلے میں فارسی کا اثر زیادہ ہے۔ عربی سے استفادے کا دائرہ مذہبی نوعیت کا ہے اور یہ جامع اور وسیع پیمانے پر ہے۔ قرآن، حدیث، فقہ، تاریخ، فلسفہ، تصوف، منطق اور دیگر دینی علوم و فنون کا عربی سے ترجمہ جس قدر وسیع پیمانے پر اردو میں ہوا ہے شاید ہی کوئی دوسری زبان اس کے مقابل آئے اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ عربی ادب سے ترجمہ اور استفادہ فارسی کے مقابلے میں بہت کم ہے۔
جس طرح مصر پر 1798 میں نپولین کے حملے سے قبل عربی ادب اپنے ماضی کے روایتی نقش قدم پر ہی چل رہا تھا لیکن اس کے حملے کے بعد یورپی اقوام کے میل جول سے عربی ادب میں جدید رجحانات پیدا ہوئے۔ ٹھیک اسی طرح اردو ادب بھی 1857 سے قبل ماضی کے روایتی حصار میں پڑا ہوا تھا۔ اردو ادب میں بھی نئے رجحانات، تجربات اور طبع آزمائی کا آغاز 1857 کے بعد انگریزی اور فرانسیسی ادب کے مطالعے اور ترجمے سے ہوا ہے۔ جس طرح ناول اور افسانے کی صنف عربی میں فرانسیسی اور انگریزی ادب کے ترجمے اور مطالعے سے آئی ہے اسی طرح اردو میں بھی ناول اور افسانے کی صنف انھیں متذکرہ یورپی ادب سے قربت کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے۔ اس کی پہلی مثال میں ڈپٹی نذیر احمد کے ناول ’مرأۃ العروس‘ 1869 کو پیش کیا جاسکتا ہے۔ نذیر احمد کی ذہنی اور علمی تربیت دلی کالج کی ہے۔ دلی میں اس کالج کا قیام ہندوستانیوں میں انگریزی فکر و شعور کو پروان چڑھانے کی غرض سے ہوا تھا۔ اردو کا دوسرا ناول پنڈت رتن ناتھ سرشار کا ’فسانہ آزاد‘ 1880 ہے اور تیسرا ناول عبدالحلیم شرر کا ’ملک العزیز ورجینا‘ 1888 ہے۔ والٹراسکاٹ نے مسلمانوں کے خلاف جو تعصب اپنے ناولو ں میں برتا تھا عبدالحلیم شرر نے اسے شدت سے محسوس کیا اور اس کے جواب میں ’ملک العزیز ورجینا‘ لکھا۔ اردو کے یہ تمام ناول کسی نہ کسی صورت میں انگریزی ناولوں سے متاثر ہیں۔ اردو ناول نگاری میں ایک شعوری تبدیلی پہلی جنگ عظیم کے بعد نظر آتی ہے۔ اور دوسری فکری تبدیلی دوسری جنگ عظیم اور تقسیم ہند کے بعد کی ہے۔ اس عہد میں بھی اردو ناول اور افسانے میں انگریزی اور فرانسیسی ادب کے ترجمے کے ذریعے خوب خوب استفادہ کیا گیا۔
اردو زبان و ادب 1857 سے قبل ہی یورپی حکمراں، ادبا اور عوام کا محبوب نظر بن چکا تھا۔ انتظامی امور کو انجام دینے کے لیے اس وقت یوروپی اقوام میں اردو تدریس کا لازمی حصہ بن چکی تھی۔ کسی حد تک لسانی اور ادبی سطح پر آج بھی وہ رشتہ قائم ہے۔ ایشیا اور افریقہ کے وہ ممالک جہاں عربی ملکی اور قومی زبان ہے اردو کا ان سے وجودی رشتہ ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے موقعے پر ہندوستانی فوجوں کے مصر میں قیام کے دوران یہ رشتہ اور مضبوط ہوگیا۔ اس کا براہِ راست اثر یہ ہوا کہ اردو زبان ایک ادبی، علمی اور ثقافتی زبان کی حیثیت سے جنگ کے زمانے میں ہی 7مارچ 1939 کو شاہی فرمان کے ذریعے قاہرہ یونیورسٹی کے نصاب میں داخل کردی گئی اور اولاً پروفیسر حسن الاعظمی کو اس کی تدریس کے لیے مقرر کیا گیا۔ اس کے بعد دنیا کی سب سے قدیم یونیورسٹی جامعہ ازہر نے 1979 میں فیکلٹی آف لینگویجز اینڈ ٹرانسلیشن (Faculty of Languages and Translation) میں الگ سے شعبۂ اردو قائم کیا۔ جامعہ ازہر میں اس شعبے کے تحت اردو ادب کے معیاری سرمائے کو عربی میں ترجمے کے ذریعے منتقل کرنے کا کام چل رہا ہے۔ یہاں پر عین شمس یونیورسٹی اور اسکندریہ یونیورسٹی میں بھی شعبۂ اردو قائم ہے اور ڈاکٹریٹ تک کی اعلیٰ تعلیم دی جارہی ہے۔ ان یونیورسٹیز میں اردو پڑھنے والے مصری طلبا کی سالانہ تعداد تقریباً سو ہوتی ہے۔ یہ تعداد کسی زبان کو سیکھنے کے لیے طلبا کی ایک معیاری تعداد مانی جاتی ہے۔
مصری طلبا اور اسکالروں نے عربی میں بہت سی اردو کتابوں، نظموں، ناولوں اور افسانوں کا ترجمہ کیا ہے۔ مثلاً علامہ اقبال کی تخلیقات کے تراجم کے علاوہ جلال نے حالی کے ’مقدمہ شعر و شاعری‘ اور شبلی کی ’سیرت النعمان‘ ’عجائب القصص‘ اور سودا کے بہت سے قصیدے اور خواجہ میر درد کے دیوان کا عربی میں ترجمے ہوئے۔ اسی طرح اردو ادب کے سرمائے کو مختلف موضوعات کے تحت عربی مقالے کی صورت میں لکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ان تحریری کوششوں نے ان ہر دو زبانوں کو ادبی سطح پر ایک دوسرے کے قریب ہونے اور استفادہ کرنے کے مواقع وسیع اور عام کردیے ہیں اور یہ دونوں زبانوں کے مشترکہ فروغ کے روشن مستقبل کا اشاریہ ہے۔
ادھر ادبی سطح پر ترجمے کے ضمن میں ہندوستانی یونیورسٹیز کے شعبۂ عربی کی توجہ اور کوششوں کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اس کی رفتار کم ہے لیکن مستقبل میں آہستہ آہستہ اس سرمائے میں اضافے کے امکانات کی گنجائش زیادہ ہے کیونکہ ان سے وابستہ اساتذہ اور طلبا کا تعلق بنیادی طور پر ہندوستان کے معروف عربی مدارس سے ہے اور آج بھی یہ مدارس خاموشی سے عربی زبان کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ ان میں طلبا کی تعداد اطمینان بخش ہے۔ یونیورسٹیز میں شعبۂ عربی کا وجود انھیں مدارس کے طلبا سے باقی ہے اور یہ خوش آئند بات ہے کہ یہی طلبا اور اساتذہ جدید عربی زبان و ادب کی شمع کو فروزاں کیے ہوئے ہیں۔ تحقیق، تدوین اور تالیف بھی انھیں کے قلم سے خال خال وجود میںآرہے ہیں۔ بنارس ہندویونیورسٹی کے سابق صدر شعبۂ عربی پروفیسر بدرالدین الحافظ کی کتاب ’چند مصری ناول اور افسانے‘، ’توفیق الحکیم، ناول نگاری کا ایک جائزہ‘ مصری فکر و شعور اور طرز اسلوب کو اردو میں متعارف کرانے میں اہم رول ادا کررہی ہیں۔ اسی طرح جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے استاد ڈاکٹر ضیاء الحسن نے چند عربی افسانوں کا اردو ترجمہ ’سرخ کتاب‘ کے نام سے کیا ہے۔ لیکن اس میدان میں مزید توجہ کی ضرورت ہے۔
اس مختصر سے تاریخی جائزے کے پس منظر میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ عربی اور اردو کا نثری ادب خاص کر ناول اور افسانہ کم و بیش ایک ہی عہد میں مغربی ادب سے متاثر ہوئے اور دونوں میں ابتدائی طبع آزمائی ترجمے کے زیرسایہ ہی پروان چڑھی ہے۔ 

Dr. Hadees Ansari, 
L: 1-4, Staff Quaters,
 University Campus, Mohan Lal Shkhadia University,
 Udaipur - 313001 (Raj)

ماہنامہ اردو دنیا ،جنوری 2016





قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں