28/3/19

احتشام حسین کا تنقیدی نظریہ مضمون نگار: شاہد پٹھان




احتشام حسین کا تنقیدی نظریہ
شاہد پٹھان
اردو تنقید کے اصول ساز نقادوں میں مولانا حالی اور شبلی کے بعد پروفیسر احتشام حسین کو نمایاں مقام حاصل ہے، جس طرح مولانا حالی نے مغربی علمائے ادب اور سرسید تحریک کے اجتماعی وافادی تصورات کے حسنِ امتزاج سے اپنے اسلوبِ نقد کی شیرازہ بندی کی بعینہٖ احتشام حسین نے بھی اپنے عرصہ کار میں ترقی پسند تحریک کے بنیادی اصول وافکار کے استخراج واستنباط سے مارکسی، سماجی اور ترقی پسند تنقید کی اصول سازی کافریضہ انجام دیا ہے۔ اردو کے1936 سے 1972 تک کے ادبی وتنقیدی منظر نامے پر نظر ڈالی جائے تو نظریاتی تنقید کی حنابندی کرنے والے نقادوں میں نمایاں کام اور مقام احتشام حسین کا نظرآتا ہے، شمس الرحمن فاروقی نے اپنے جدیدیت آمیز تصورِ نقد کے پیشِ نظر لکھا ہے: 
’’حالی کے بعد ہمارے یہاں جو تنقید لکھی گئی اس میں نظریے کی اہمیت کا احساس کبھی غائب تو کبھی موجود رہا، اس وجہ سے تنقیدی نظریات کے چھینٹے تو پڑتے گئے، لیکن مشرح اور منضبط نظریہ سازی نہ ہوسکی صرف ترقی پسندوں نے اس سلسلے میں کاوش کی لیکن ان کے اپنے تضادات اس قدر تھے کہ کوئی سیر حاصل نقشہ نہ بن سکا۔‘‘ 
(تنقیدی افکار،ص:52، اشاعت1983 الٰہ آباد)
ادب کا باشعور طبقہ اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ ’رومانیت‘ سے لے کر ’جدیدیت‘ تک ہر تحریک ورجحان کے افکار ونظریات میں’ تضادات‘ کے عناصر دیکھے اور محسوس کیے جاسکتے ہیں، جس طرح سے بین الاقوامی سطح پر ’رومانی تحریک‘ کے الگ الگ ملکوں کے ادبا ومفکرین کے یہاں رومانیت کے مختلف ومتضاد رنگ اور رویے بروئے کار آئے ہیں، بعینہٖ یہی صورت وکیفیت’ ترقی پسندی‘ اور پھر’ جدیدیت‘ سے وابستہ ادیبوں اور نقادوں کے یہاں بھی بآسانی محسوس کی جاسکتی ہے، اختر حسین راے پوری، احمد علی اور احتشام حسین کی ترقی پسندی میں فرق ہے، اسی طرح سے خلیل الرحمن اعظمی، شہر یار، گوپی چند نارنگ کے تصورِ جدیدیت اور شمس الرحمن قاروقی کے ’ مسلکِ جدیدیت‘ میں بھی کافی فرق اور فصل ہے، ترقی پسندوں کے باہمی اختلاف( معمولی سے) کو اصلاً سب سے پہلے خود ثقہ ترقی پسند ادبا مثلاً سجاد ظہیر، ممتاز حسین، آل احمد سرور اور خود احتشام حسین ہی نے محسوس کیا اور جذباتی وانتہا پسند ترقی پسندوں کی تنبیہ بھی کی۔ احتشام حسین صاحب کے مضامین سے ایک دو مثالوں سے اس امر پر مزید روشنی پڑسکے گی، احتشام حسین نے اپنے ایک مضمون’ادبی تنقید کے مسائل‘ (1944) میں ادب وانتقاد کے بہت سے اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے اور آخر میں ’اشتراکی حقیقت نگاری‘ کی اصطلاح کے مبادیات کی صراحت کرتے ہوئے لکھا ہے : 
’’ تنقید جب حقیقت کے عام اور سطحی مفہوم سے گزرکر حقیقت کے ہر شعبے کو، اس کے مثبت اور منفی اثرات کو، اس کے مادی، اور نفسیاتی وجود اور تعلق کو گھیر لیتی ہے تو اسے اشتراکی حقیقت نگاری کا نام دیا جاتا ہے، اس میں فرد کا تجزیہ ایک باشعور سماجی انسان کی حیثیت سے کیا جاتا ہے اور شاعر یاادیب الہام و القا کی اونچی سطح سے اتر کر نقادکے روبرو پیش ہوتا ہے، ایسے تنقیدی تجزیہ سے لوگ گھبراتے ہیں کیوں کہ یہ طریقہ ادیب کو اس کے سماجی روابط کی روشنی میں پیش کرتا ہے۔۔۔رجعت پسند اور انحطاط پذیر تصورات کا پول کھولتا ہے۔ یہ ادب برائے ادب کے گول گنبد میں پناہ لینے والوں کی خالص جمالیاتی تخلیق سے پردہ ہٹاکر ان کے معاشرتی رجحان کا تجزیہ کرتا ہے‘‘ مگر انھیں یہ بھی احساس ہے کہ بہت کم نقاد (مارکسی) ابھی اس طریقِ نقد سے کما حقہ آگاہ ہوسکے ہیں۔‘‘ چنانچہ احتشام حسین مزیدلکھتے ہیں :
’’ایسی تنقید جو حقیقت کو اس کے ہر مادی روپ میں تلاش کرلے اور تجزیے کی مدد سے شعر وادب میں حسن کی جستجو کر لے، اردو میں ابھی نہ ہونے کے برابر ہے، اس لیے ضرورت ہے کہ نقاد کے لیے بعض فرائض کی طرف اشارہ کردیا جائے۔‘‘
(روایت اور بغاوت ص:40-41، اشاعت 1972 لکھنؤ)
چنانچہ انھوں نے نقاد کے لیے بہت سی ہدایات دی ہیں، ان میں سے ایک ہدایت یہ بھی ہے:
’’ نقاد کو فطری اور سماجی علوم، انسانی تمدن کی تاریخ، زبان کی پیدائش اور نشو ونما کی تاریخ کا مطالعہ کیے بغیر تنقید کے میدان میں قدم نہ رکھنا چاہیے ورنہ وہ اس دشوار گزار منزل سے گزر نہ سکے گا۔‘‘ (روایت اور بغاوت:ص،45)
لہٰذا احتشام حسین خود ترقی پسند نقادوں کے طریقِ کار اور تصورِ نقد میں پائے جانے والے باہمی اختلاف (جسے غیر ترقی پسند ’ تضاد‘ سے موسوم کرتے رہے ہیں)کی نشان دہی کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’جو نقاد ادب کو زندگی کا عکس قرار دیتے ہیں، زندگی کو تغیر پذیر سمجھتے ہیں اور اس تغیر کے وجوہ کو مادی مانتے ہیں، جو ادب کو ادیب کے شعور کا نتیجہ کہتے ہیں اور اس شعور کو زندگی کی کشمکش اور تجربوں سے مشکل ہوتاہوا تسلیم کرتے ہیں، جو یہ مانتے ہیں کہ انھیں تبدیلوں کی وجہ سے زبان اور اسا لیب بیان، ہیئت اور طریقۂ اظہار میں بھی تبدیلی کے نتائج کی جستجو کرنا چاہیے، جو ادب کو ارتقائے تہذیب کا ایک جز قراردیتے اوراسے انسانی سماج کو بہتر بنانے کی آرزو ؤں کا آلہ سمجھتے ہیں، سب ترقی پسند نقاد تسلیم کیے جائیں گے، اگر چہ ان میں بعض محض ’روح عصر‘تک آکر تھم جائیں گے، بعض ادب اور معاشی زندگی میں مکمل ہم آہنگی کی جستجو کرتے نظر آئیں گے، بعض طبقاتی آویزش کو نمایاں جگہ دیں گے، بعض عمرانی نفسیات کے اصولوں کو اپنا رہنما بنائیں گے، اور بعض ادیب کی ذمے داری پر زور دے کر اس سے واضح افادی نقطۂ نظر کا مطالبہ کریں گے۔
ان چھوٹے بڑے اختلافات کے باوجود یہ وہ نقاد ہیں جو تنقید کے سائنٹفک ہونے کے قائل ہیں یہ اپنے اپنے انداز میں میتھوآرنلڈ، سینٹ بیو، لینن، مارکس، کاڈوِل وغیرہ سے متاثر ہیں لیکن اردو ادب کا مطالعہ کرتے ہوئے اصولوں کی یگانگت سے بچ کر ادبی شعور کی روح تک پہنچنا چاہتے ہیں، مجنوں، اختر رائے پوری (شروع کے) سجاد ظہیر، احمد علی(شروع کے) ڈاکٹر علیم، سرور، سبط حسن، ڈاکٹر اعجاز حسین، ممتاز حسین، عبادت بریلوی، ڈاکٹر محمد حسن، مجتبیٰ حسین، سردار جعفری، اختر انصاری، ظہیر کاشمیری، عابد حسن منٹو، خلیل الرحمن، باقرمہدی، سب اسی دائرے میں آجاتے ہیں۔۔۔ڈاکٹر علیم، ممتاز حسین، سردار جعفری، مجتبیٰ حسین، عابد حسن منٹو، مارکس کے نظریات کو پورے تنقیدی شعور کے ساتھ استعمال کرتے ہیں، سرور، محمد حسن اور عبادت مارکسی اصولوں سے سو فی صدی متفق نہ ہوتے ہوئے بھی ان اہم نتائج کو نظر انداز نہیں کرتے جن کی طرف مارکس نے متوجہ کیا تھا۔‘‘ (روایت اور بغاوت ص:249-50)
غرض کہ اردو میں نظریاتی تنقید یا تنقیدی اصول سازی کی جتنی اور جیسی تدابیر کی گئی ہیں وہ ترقی پسند تحریک سے وابستہ ادبا وناقدین ہی نے کی ہیں اور ان سب کی اجتہادی کو ششوں سے ’ ترقی پسند دبستانِ نقد‘ کی بنیاد قائم ہوئی ہے، اس بنیاد پر جن ترقی پسند نقادوں نے عمارت قائم کی ان میں احتشام حسین کی نظری وعملی تنقیدوں کو امتیازی حیثیت حاصل ہے۔
احتشام حسین صاحب نے اگر چہ ادب اور تنقید (نظری تنقید) پر کوئی مبسوط و مستقل تصنیف یادگار نہیں چھوڑی، خود انھیں بھی اس بات کا احساس واعتراف رہا ہے، تاہم انھوں نے اپنے دیباچوں، مضامین اور مقالات مثلاً: ’ادبی تنقید کے مسائل‘، ’اصولِ نقد‘، ’تنقیداور عملی تنقید‘، ’ ادبی تنقید:قد اور معیار کی جستجو‘،’ مشرق اور مغرب کے اصولِ تنقید‘، ’ تنقید اور ادبی تنقید‘،’ اردو تنقید اور جدید ذہن‘، ’ ادب اور اخلاق‘، ’ مواد اور ہیئت‘،’ اردو تحقیق وتنقید‘،’ اردو ادب میں ترقی پسندی کی روایت‘، ’قدیم ادب اور ترقی پسند نقاد‘،’ ترقی پسند ی کے مسائل‘، ’افسانہ اور حقیقت‘،’اردو ادب میں آزادی کاتصور‘،’ جدید روسی ادب کا نظریاتی ارتقا‘،’ ادب میں جنسی جذبہ‘،’ادب کا مادی تصور‘،’ادب اور افادیت‘،’ امریکی تنقید کے چندنئے تنقیدی ردِ عمل‘، ’ تنقیدکے ایک نئے نقطۂ نظر کی ضرورت‘، ’نئے تیشے نئے کوہکن‘ مغربی، ’جمالیات، فن اور قاری‘، ’نیا ادب اور ترقی پسند ادب‘ ( ایک مباحثہ) ’حالی اور پیرویِ مغربی‘(ایک مباحثہ)،’ ادب اور تہذیب‘،’میں کیوں لکھتا ہوں‘، ’اردو تنقید کا ارتقا (دو اقساط میں)‘، ’پریم چند کی ترقی پسندی‘، اور شعر فہمی‘ وغیرہ میں نظریاتی تنقید(اور عملی تنقید) پر جتنا اور جو کچھ لکھ دیا ہے، اس سے سائنٹفک تنقید کے بنیادی فکری وفنی منہاج ومبادیات پر بھر پر روشنی پڑتی ہے۔ انھوں نے ادب وشعر کے اسرار وحقائق، انفرادی واجتماعی معنویت اور تہذیبی سروکاروں سے متعلق جن تصورات کا اظہار کیا ہے، ان میں آئندہ کے لیے بھی انتقادی بصریت وہدایت کے سامان موجود ہیں، یہ سچ ہے کہ احتشام حسین نے اپنی تنقید نگاری میں ’مارکسزم‘ سے کافی استفادہ کیا ہے، مگر ساتھ ہی انھوں نے دوسرے مغربی علمائے ادب کے ادبی انتقادی تصورات سے بھی حسبِ ضرورت کسبِ فیض کیا ہے، ان کا اصرار ہے کہ :
’’ اگر تنقید کوئی علمی کام ہے اور محض تاثرات کا بیان نہیں ہے تو ان تمام جدید علوم سے کام لینا ہوگا جن سے زندگی اور ادب کو سمجھا جاسکتا ہے‘‘ 
(ذوقِ ادب اور شعور ص:254، اشاعت:1955)
احتشام حسین فنِ تنقید کو محض ذوقی اور وجدانی نہیں سمجھتے ان کے نزدیک ’ مروجہ علوم اور تربیتِ ذوق، قومی شعور اور سماجی فضا، مطالعہ اور خواہش اکتساب سے اس میں اتنے عناصر شامل ہوجاتے ہیں کہ تنقید صرف ذوقی نہیں رہ جاتی، علم وحکمت کے دائرے میں داخل ہوکر سخن سنجی اور ادب فہمی کے بعض اصولوں کامجموعہ نظر آنے لگتی ہے، اس حالت میں تنقید انفرادی تاثر پذیری کے باوجود ایسے سانچوں میں ڈھلنے کی کوشش کرتی ہے جن سے ادبی تخلیقات کے زیادہ سے زیادہ پہلوؤں کی قدر وقیمت متعین کرنے میں مدد لی جاسکے،تنقید کی یہ کوشش ہر ملک، ہر ادب اور ہر عہد میں ان علوم کی سرحدوں کے اندر جاری رہتی ہے، جن تک ذہن انسانی کی رسائی ہوتی ہے، محض فطری ملکہ کی بنیاد پر نہیں شعور اور علوم کے اضافے کی بنیاد پر ان کوششوں کی نوعیت بھی بدلتی رہتی ہے اور ناپ کے پیمانے بھی۔اسی لیے ہر ملک میں ان کا ظہور یکساں نہیں ہوا ہے، جس زمانے میں، جس جگہ، جیسا ادبی اور فکری ماحول ہوتا ہے اس سے مطابقت رکھنے والا تنقیدی نقطۂ نظر وجود میں آتا ہے، اورا س ماحول کو جن انسانی علوم نے روشنی پہنچائی ہے انھیں سے تنقید میں بھی مدد لی گئی ہے، اس حقیقت کو تاریخ اور سماجی اضافیت کے آئینے میں دیکھا جاسکتا ہے۔‘‘(جدید ادب: منظر اور پس منظر ص: 117، اشاعت 1996 ناشر یو۔پی، اردو اکادمی لکھنؤ)
احتشام حسین’ تنقید‘ کا ایک علمی اور فلسفیانہ تصور رکھتے ہیں، اپنے ایک مضمون ’مشرق ومغرب کے اصولِ تنقید: بعض مماثلتیں‘ میں وہ ’ تنقید‘ کے مفہوم کی صراحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’ اس کا (تنقید) مقصد محض تاثراتی رد عمل نہیں ہے جو ہر ادب پارے کے متعلق زیادہ غوروفکر کے بغیر پیدا ہو جاتا ہے یا اس کی تشریح تک محدود رہتا ہے، بلکہ تجزیہ، پرکھ، تقابل، تاثرپزیری، معنوی عظمت اور فنی تکمیل کے اہم اور لطیف پہلوؤں کا علمی جائزہ ہے جس سے شعر وادب کے فنی اور فکری سبھی محاسن اور معائب پیش نگاہ ہوجائیں اور دوسرے بھی اسی طریق کار سے استفادہ کرسکیں، اس کو تنقید کا علمی نقطہ نظر کہہ سکتے ہیں۔‘‘
(جدید ادب:منظر اور پس منظرص:119)
احتشام حسین نے اپنے کئی دیباچوں اور مضامین میں مشرق ومغرب کے انسانیت پسند اور اجتماعی مقاصد کے حامل افادی ادبی و انتقادی نظریات سے استنباط استفادہ پر زور دیتے ہوئے لکھا ہے: ’ مشرق ومغرب کے تنقیدی افکار پر غور کرتے ہوئے مجھے اکثر خیال آتا ہے کہ چاہے دوسری زبانوں کے مطالعے میں اس سے زیادہ مدد نہ مل سکے لیکن گوناگوں تاریخی اور لسانی اسباب کی بنا پر اردو کے مطالعے میں تنقید کا ایک ایسا ترکیبی اور امتزاجی نظریہ قطعاً مفید ہوسکتا ہے جو زبان وبیان ہی کے نہیں، عملِ تخلیق کے اکثر پہلوؤں پر حاوی ہو جو صرف مصنف کی جستجو نہ کرے، تصنیف کا تجزیہ وتحلیل بھی پیشِ نگاہ رکھے، محض قاری کی ضروریات سخن فہمی کو نہ دیکھے نقاد کی قوت محاکمہ اور فکری وفنی بصیرت کا اشاریہ بھی فراہم کرے، ایسا نظریہ وہی ہوسکتا ہے جو اردو کے لسانی، ادبی، تہذیبی اور فکری مزاج سے ہم آہنگ ہو۔‘‘
(جدید ادب: منظر و پس منظر: ص:119)
’’ اس وقت تنقید کا مسئلہ محض ادب کی پرکھ کا مسئلہ نہیں اپنی زبان اور اپنے ادب سے دل چسپی لینے کا مسئلہ بھی نہیں ہے بلکہ ادب کے عالمی معیاروں کو پیش نظر رکھ کر اس علم وفن سے کام لینے کا مسئلہ ہے جن سے انسانی ذہن، عمل اور محرکاتِ عمل کو سمجھا جاسکتا ہے، ادب کی تنقید زندگی اور زندگی کی قدروں کی تنقید ہے، کیا ہے اور کیا ہونا چاہیے کی تنقید ہے، ادب کے اندر عقیدے اور بہتر نظامِ زندگی کی تلاش ہے، تنقید نہ تاریخ ہے نہ فلسفہ، سیاسیات ہے نہ سائنس لیکن یہ علوم جس حدتک انسانی ذہن میں داخل ہوتے اسے متاثر کرتے اور شعور کا جز بنتے ہیں اس کی جستجو ہے۔‘‘ 
(ذوق ادب اور شعور ص:254، اشاعت 1955 لکھنؤ)
احتشام حسین کے نزدیک تخلیق کا ر کی طرح سے نقاد بھی سماج وقوم کا ایک ذمے دار فرد ہوتا ہے اور وہ غیرجانب دار نہیں رہ سکتا، سماج کے تئیں اس کی کچھ ذمے داریاں بنتی ہیں، جنھیں اسے نبھانے کی سعی کرنا ضروری ہے، وہ لکھتے ہیں : 
’’ میرے خیال میں ادیب اور نقاد حقائق کی ایک ہی دنیا میں بستے ہیں اوار ان میں اتنا بعد نہیں ہوتا جتنا ظاہر کیا جاتا ہے، ان کارشتہ دشمنی اور اختلاف کا نہیں بلکہ تعاون اور اتحاد کا۔‘‘ (ذوقِ ادب اور شعور،ص:22)
چنانچہ خود انھوں نے بھی فن تنقید کا سماجی، افادی اور ترقی پسند نقطۂ نظر اپنایا ہے۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ: 
ایک قادر القلم فن کار کی تحریر کوئی نہ کوئی منفی یا مثبت سماجی مقصد رکھتی ہے، بحیثیت نقاد کے میں ادراکِ حقیقت کے عام اصولوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے (جو متعدد علوم کی مدد سے ہاتھ آئے ہیں) اس کی جستجو کرتا ہوں تا کہ کسی تصنیف کی اہمیت واضح کرسکوں خود سمجھ اور دوسروں کو سمجھا سکوں کہ ادبی روایتیں کس طرح بنتی ہیں، اس کا تسلسل کس طرح قائم رہ سکتا ہے۔‘‘ (ذوقِ ادب اور شعور ص:22)
احتشام حسین کے مذکورۂ بالا ادبی وانتقادی اصول وتصور کا تفاعل ایک طرف جہاں ان کی شاعری اور افسانوں میں محسوس ہوتا ہے وہیں ان کی عملی تنقیدوں میں بھی نمایاں طور دیکھنے کو ملتا ہے، اپنی تصنیفی زندگی کے آغاز میں احتشام حسین پر نیازفتحپوری کے رومانی اسلوب کا اثررہا، اس کا اعتراف خود انھوں نے ’ویرانے‘(1943) کے ’ دیباچے‘ اور اپنے ایک مضمون’ نیاز فتحپوری چند تاثرات‘(مشمولہ: ’ اعتبار نظر‘)میں کیا ہے، مگر ترقی پسند تحریک کی عمل آوری کے ساتھ ہی وہ نیاز فتحپوری کے رومانی سحر سے نکل کر اس تحریک کی ’ حقیقت نگاری‘ کے حلقۂ اثر میں آگئے اور پھر تاحینِ حیات’ ترقی پسند‘ ادب اور تنقید کو پروان چڑھاتے رہے، اس اجتہادی مہم میں وہ ’ جدیدیت‘ کے مؤیدین ومبلغین سے کہیں زیادہ کامیاب ہوئے، احتشام حسین کی ادبی وانتقادی بصیرت سے ترقی پسند ادبا وناقدین ہی نہیں ’ مابعد جدیدیت‘کے علمبرداربعض ناقدین بھی استفادہ کرتے اور اس استفادہ واثر پزیری کا کھلے دل سے اعتراف بھی کرتے ہیں۔
احتشام حسین کے تصنیفی وتنقیدی کاموں کی شروعات’ ترقی پسند تحریک کی ابتدا کے ساتھ ہی ہوئی۔ انھوں نے اپنے آغاز کار ہی سے اس تحریک کے مضمرات ومبادیات کو سمجھنے اور سمجھانے کی ناقدانہ سعی کی، انھوں نے اپنے اصولی ونظریاتی مضامین ومقالات کے ذریعے ’مارکسزم‘ اور’ ترقی پسندی‘ کی معقول ومعروضی صورت وکیفیت ظاہر کی وہیں اشتراکی حقیقت نگاری کے ادبی نقطۂ نظر کی روشنی میں اپنے قدیم اور عصری ادبیات کی تفہیم وتعبیر میں کوشاں رہے، احتشام حسین نے ’ مارکسزم‘ کے تصورات کو صرف سماجی اور ادبی سطح پر ہی قبول کیا اس کے ’ سیاسی‘ رنگ ورویہ سے وہ بڑی حدتک محفوظ رہے چنانچہ ان کے ادبی وانتقادی سرمایے میں احساس وتفکر کی سطح پر وہ جذباتیت، ادعائیت، فحاشی، انتہا پسندی، ابتذال واشتعال، اورمذہب بیزاری جیسی قباحتوں کے لیے کبھی گنجائش نہیں نکل سکی، چنانچہ پروفیسر شمیم حنفی (جوکہ احتشام صاحب کے شاگرد رشید بھی ہیں)نے احتشام حسین کی صالح وسالم ترقی پسندی کی نشاندہی کرتے ہوئے صحیح لکھا ہے کہ:
’’ احتشام حسین ادبی ترقی پسندی کے علاوہ جمالیاتی مادیت اور کمیونسٹ انقلاب سے بھی متاثر تھے، مگر تاریخ کے عمل سے آگہی نے انھیں اپنی روایت کے تسلسل کا، اور فلسفہ، نفسیات، مذہبیات کی بخشی ہوئی بصریت نے انھیں انسانی تجربوں کی ہمہ جہت سچائی کا ایک ایسا شعور عطا کیا تھا جس میں فیشن ایبل اور مقبولِ عام قسم کی ترقی پسندی کے مقابلے میں کہیں زیادہ وسعت تھی، غالی ترقی پسند آج کی طرح اس زمانے میں بھی دو اور دو چار قسم کی باتیں کرنے کے عادی تھے اور سماجی زندگی کے عام معیاروں کی طر ح ادب کی معیار بندی کے معاملے میں بھی خاصے سادہ لوح تھے‘‘۔ (بحوالہ،احتشام حسین: مرتب : پروفیسر نذیر احمد،ص:30، اشاعت 1917 ناشر، غالب انسٹی ٹیوٹ دہلی)۔ 
احتشام حسین نقاد سے پہلے ایک تخلیق کار تھے، انھوں نے ’ فن تنقید‘ کو نہیں اپنایا ہوتا تو یقیناوہ اچھے افسانہ نگار اور شاعر کی حیثیت سے ادبی تاریخ میں اپنا مقام محفوظ کرنے میں کامیاب رہتے، ان کے افسانوں کا مجموعہ ’ویرانے‘ 1943کو اور تنقیدی مضامین کا پہلا مجموعہ ’تنقیدی جائزے‘ 1944 کو اشاعت پذیر ہوا، لہٰذا اس سے بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ احتشام حسین کی نگاہ میں تخلیقی کار گزاری تنقیدی کاوشات سے زیادہ وقیع ہے، یوں بھی تحقیق وتنقید ہمیشہ تخلیق کے پیچھے رہی ہے، البتہ انگریزی میں زیادہ دستگاہ رکھنے والے بعض ادبا و ناقدین اردو کے سادہ لوح اہالی قلم پر اپنی ناقدانہ حیثیت کا رعب دکھاتے رہتے ہیں اور بعضوں کو ناقدوں سے مرعوب ہونے یا رہنے کی عادت بھی ہوتی ہے، جس سے نقادوں کا حوصلہ(یا غلط فہمی) بڑھتی رہتی ہے اور ایسے نقاد ہی’ تخلیق‘ پر’ تنقید‘ کو حاوی کرنے کی تدابیر کرتے ہیں، یہ رجحان عصری تنقید میں زیادہ نمایاں ہے، جن قارئین اور ناقدین نے احتشام حسین کی تنقیدی تصانیف کا بغور مطالعہ کیا ہے، اور جنھوں نے مختلف ادبا وشعرا کی تصانیف پر احتشام صاحب کے لکھے ہوئے دیباچے یا مقدمے وغیرہ پڑھے ہیں وہ محسوس کریں گے کہ احتشام حسین کا تخلیق اور تخلیق کار کے ساتھ ہمیشہ ہی مخلصانہ وہمددرانہ رویہ رہا ہے۔
احتشام حسین تقریباً 35 برسوں تک اردو تنقید کے منظر نامے پر اپنی موثر اور نمایاں موجودگی کا احساس دلاتے رہے، شروع کے برسوں میں انھوں نے نظریاتی تنقید پر زیادہ لکھا جبکہ آخر کے دو، دہوں میں ان کی توجہ عملی تنقید پر مرکوز رہی۔ نظریاتی تنقید پران کے یہاں’ مارکسزم‘ کا اثر نمایاں رہتا ہے مگر عملی تنقیدوں میں اعتدال، توازن، ادبیت اور امتزاج وجامعیت نظر آتی ہے، یہی سبب ہے کہ انھوں نے ترقی پسند ادبا وشعرا کے علاوہ قدیم، کلاسیکی اور رومانی ادیبوں اور شاعروں مثلاً انیس، غالب، اقبال، حالی، جوش، جگر، فانی، نیاز فتحپوری، مجاز، حسرت موہانی، اختر شیرانی وغیرہ پر نظریاتی سطح سے بلند ہوکر تنقیدی مضامین لکھے ہیں، احتشام حسین نے بیشتر مروجہ ادبی اصناف(نثر ونظم) غزل، نظم، مثنوی، افسانہ، ناول، ڈرامہ، سوانح نگاری پر اپنے جو تنقیدی مطالعات پیش کیے ہیں وہ بڑی حد تک معروضی اندازِ نظر کے مظہر ہیں۔

Mr. Mohd. Shahid Pathan, 
Bhasha Vidyapith, Mahatma Gandhi International Hindi University,
 Gandhi Hill, Wardha 442005 (MS)
Mob: 09372843907


ماہنامہ اردو دنیا ،جنوری 2016




قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں