27/3/19

روہیل کھنڈ کے مسلم معاشرہ میں لوک گیتوں کی روایت مضمون نگا: محمد فرقان سنبھلی


روہیل کھنڈ کے مسلم معاشرہ میں لوک گیتوں کی روایت

محمد فرقان سنبھلی

مافی الضمیر کا اظہار اور اس سے جمالیاتی انبساط حاصل کرنا انسانی فطرت کا خاصہ ہے۔ فطرت انسانی اسے ماضی کے خوش آہنگ ترانے گانے کے لیے مجبور کرتی رہی ہے۔ لوک گیت نہ صرف یادماضی کو تازہ کرنے کا وسیلہ ہیں بلکہ قدیم تہذیب اور رسم و رواج کے بارے میں معلومات کی حصولیابی کا اہم ماخذ بھی ہیں۔ لوک گیت سنیے یا پڑھیے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ گیت سادہ لوح دیہاتیوں کے جذبات کے آئینہ دار ہیں۔ لوک گیت رواں دواں زندگی کی بازگشت ہوتے ہیں۔ وہ عوامی احساسات کا نغماتی پہلو ہوتے ہیں اور خود بخود روانی کے ساتھ عوام کے دلوں سے بہہ نکلتے ہیں ان میں قدیم تہذیب اور تمدن کے محاسن و معائب کی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔ 
لوک گیت کی تعریف کے سلسلے میں ماہرین کے درمیان اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ عام طور پر لوک گیت دیہی زندگی کے ترجمان اور دیہی سماج کی نمائندگی کرتے ہیں اور شہری تمدن اور سماج کی چھاپ سے آزاد ہوتے ہیں۔ 
لوک گیتوں پر تحقیقی کام کرنے والے اڑیسہ کے بی داس نے لوک گیت کی تعریف کچھ اس طرح بیان کی ہے :
’’عوام کے دلوں سے نکلے ہوئے وہ بول جو غیر اختیاری طور پر اضطراری حالت میں کسی المناک یا طربناک جذبے سے تاثر کے بعد نکل جاتے ہیں۔ ‘‘
بیشتر مواقع پرلوک گیتوں کے خالق کا پتہ نہیں چل پاتا ہے۔ایسے گیت کے کسی مصرعے میں گیت کے خالق کا تخلص بھی نہیں ہوتا ہے جب کہ شاعری کی طرز پر بننے والے لوک گیتوں میں اکثر تخلص کا اہتمام مل جاتا ہے۔ یہاں تخلص کو چھاپا کہا جاتا ہے۔ زیادہ تر گیتوں کی تخلیق میں اجتماعی کوششیں شامل ہوتی ہیں۔یہ گیت پشت در پشت یاد داشتوں میں محفوظ رہتے ہیں اور سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے رہتے ہیں۔ ان گیتوں میں لطف اور جاذبیت پڑھنے سے زیادہ گانے پر منحصر ہے۔ ہندوستان کے بعض قبائل کا عقیدہ ہے کہ گیت خواب میں لوگوں پر نازل ہوتے ہیں۔
ادیبوں نے لوک گیتوں کی پیدائش کے متعلق کئی نظریات پیش کیے ہیں اور اس کی پیدائش کے مختلف وجوہ بھی بیان کیے ہیں۔ کوئی لوک گیتوں کو ایک مخصوص شخص کا کارنامہ مانتا ہے تو کوئی اسے پورے معاشرے کی کوششوں کا نتیجہ تسلیم کرتا ہے۔ جرمنی کے معروف لوک ادیب جیکب گِرم کے "Grimm's Law"کو بہت شہرت حاصل ہوئی تھی جس کے مطابق لوک گیتوں کی تخلیق خود بہ خود ہوتی ہے اس کے پیچھے کسی ادیب یا شاعر کی خدمات شامل نہیں ہوتیں بلکہ لوک گیتوں کی تخلیق میں پورا معاشرہ شامل ہوتا ہے۔
ہندوستانی تناظر میں گِرم کا نظریہ کافی حد تک مقبول نظر آتا ہے مثلاً اہیر ذات کے لوگ جو ’برہا‘ گیت گاتے ہیں اس میں دو گروہوں کے درمیان سوال و جواب کا سلسلہ لوک گیت کی تخلیق کر دیتا ہے۔ اسی طرح ’جھومر گیت‘ میں بھی خواتین اسی طرح گیت بناتی اور گاتی جاتی ہیں۔ ایک خاتون کوئی مکھڑا گاتی ہے تود وسری اس پر جوابی مصرع گانے لگتی ہے۔اس طرح کئی خواتین مل کر نیا گیت تخلیق کر دیتی ہیں۔ باوجود اس کے ہندوستان میں بہت سے لوک گیت کسی خاص شخص سے منسوب ملتے ہیں۔ بھوجپوری لوک گیتوں میں ’بلاکی داس‘، بندیل کھنڈ میں ’ایسوری‘، برج میں ’اسینہی‘‘ اور ’مداری رائے ‘ اس کی مثال ہیں۔ اسی طرح زراعت، فصل اوربارش وغیرہ سے متعلق گیتوں میں ’گھاگھوں‘ اور ’بھانڈری‘ کے نام مشہور ہیں۔ 
روہیل کھنڈ صوبہ اتر پردیش کے شمال مغربی خطے میں واقع ہے۔ زمانہ قدیم میں یہ علاقہ پانچال اور کٹھیر جیسے ناموں سے مشہور رہا۔ سمراٹ اشوک، مِتر راجاؤں،گپت خاندان، ہرش وردھن، پریہار راجاؤں سے ہوتا ہوا یہ علاقہ تومروں کے قبضے میں چلا گیا۔ مسلمانوں کے فتح دہلی کے بعد عرب، ایران، افغانستان، ترکستان وغیرہ سے بڑی تعداد میں مسلم خاندان شمالی ہند میں آکر آباد ہوگئے تھے۔ ان میں اسلامی مبلغین کی خاصی بڑی تعداد بھی تھی۔ حالانکہ اس سے قبل سید سالار مسعود غازی ؒ کی روہیل کھنڈ میں آمد ہوچکی تھی۔ 1742 میں نواب سید علی محمد خاں نے روہیلہ فوج اور افغان سرداروں کے دم پر کٹھیر یہ راجپوتوں کے جس علاقے پر قبضہ کرکے اپنی خود مختار حکومت کے قیام کا اعلان کیا اس کو روہیل کھنڈ کے نام سے موسوم کیا گیا۔ یہ نام علاقے میں روہیلوں کی کثیر جمعیت کی بنیاد پر رکھا گیا تھا۔ دور حاضر میں روہیل کھنڈ بریلی مراد آباد کمشنریوں کے 9اضلاع پر مشتمل ہے۔ ان اضلاع میں بجنور، بریلی، امروہہ، مرادآباد، سنبھل، رامپور، بدایوں، پیلی بھیت اور شاہ جہانپور شامل ہیں۔ 
روہیل کھنڈ کی قدیم تہذیبی اور معاشرتی زندگی مدتوں تک خانہ بدوشوں اور آدی واسیوں کی زندگی رہی۔ گھنے جنگلات اور قبائلی طرز کے معاشرہ میں ساتھ مل بیٹھنے کے بہانے تلاش کیے جاتے۔ یہاں تک کہ بارش ہونے اور شکار ہاتھ لگنے پر خوشیاں منانے، کھانے پینے اور مختلف جسمانی مقابلوں کے ساتھ رقص و سرود کی محافل کے لیے میدانوں میں جمع ہونے کا رواج زور پکڑتا گیا۔ آمد و رفت میں آسانی کے بعد قوموں اور نسلوں کے درمیان اختلاط پیدا ہوا۔ سماجی نظام اور زبان میں تبدیلیاں پیدا ہوئیں۔ ترکوں اور صوفیوں کی آمد سے علاقے میں سماجی روابط مضبوط ہوئے۔ ترکوں کے طرز فکر اور نظریۂ حیات نے یہاں کے عوام کو بہت متاثر کیا۔ محمد بن قاسم کے زمانے سے ہی روہیل کھنڈ علاقے میں صوفیوں وغیرہ کی اقامت و ہجرت کا عمل شروع ہوچکا تھا۔ سید سالار مسعود غازی کی علاقے میں آمد اور ان کے ساتھ آئے رفقا کی اقامت کے بعد علاقے میں لوک گیتوں کے ارتقاکا عمل تیزی کے ساتھ جاری ہوا ۔ حضرت نظام الدین کی بدایوں ضلع میں 1233 میں پیدائش، سنبھل میں مقامی اور بیرونی طلبا کے پہلے تعلیمی مرکز (روہیل کھنڈ کے پہلے )کا قیام، 1253 میں ایٹہ ضلع میں امیر خسرو کی پیدائش وغیرہ کچھ ایسے واقعات تھے جنھوں نے علاقے میں مشترکہ تہذیب کوفروغ دیا۔ اسی کے ساتھ علاقے میں لوک گیتوں کو بھی فروغ حاصل ہوا۔ صوفیا کے جذبات اخوت اور خدا پرستی کی تعلیمات نے یہاں کے غیر مسلم عوام کو اس حد تک متاثر کیا کہ انھوں نے اسلام قبول کر لیا۔ یہ لوگ اسلام میں شامل تو ہوئے لیکن بہت سا سماجی اور تہذیبی ڈھانچہ ویسا ہی رہا۔ اس طرح علاقے کے لوک گیت مسلم معاشرہ میں شامل ہوگئے۔ گیارہویں صدی کے بعد روہیل کھنڈ میں نقالیوں، نندنہ کھیلنے والوں، رام لیلا کرنے والوں،اور سوانگ دکھانے والوں کی زبان میں تبدیلی آنا شروع ہوئی۔ دراصل یہ تمام کھیل دکھانے والے دیکھنے والوں کو زیادہ سے زیادہ اپنی طرف متوجہ کرنے اور رجھانے کی کوشش کرتے تاکہ انھیں زیادہ سے زیادہ انعام و اکرام حاصل ہوں۔ زبان کی تبدیلی سے شائقین کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ان کے ذریعے ادا ہونے والے جملوں میں تک بندی پر مشتمل الفاظ کے ایسے مجموعے ہوتے تھے جن سے لَحن (سریلی آواز)بھی پیدا ہوتا تھا۔ ساتھ ہی ان جملوں کی ادائیگی بھی گیت گانے کے انداز میں ہوتی تھی۔ موسیقی اور رقص کا بھی اہتمام ہونے لگا تھا۔ عرصۂ دراز تک پیروں فقیروں کے عُرس میں یہی کھیل تماشے چندآداب ملحوظ رکھتے ہوئے دکھائے جاتے رہے۔ دھیرے دھیرے سماجی نظام،تہذیب و ثقافت پر مسلم کلچر کے اثرات نمایاں ہونے لگے تھے۔ مشترکہ تہذیب مسلم معاشرے میں لوک گیتوں کے فروغ میں اہم کردار نبھانے لگی تھی۔ 
روہیل کھنڈ کے مسلم معاشرے میں گائے جانے والے لوک گیتوں کو مندرجہ ذیل زمروں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
(1)خانگی زندگی کے گیت (2)اعتقاد پر مبنی لوک گیت (3)موسمی لوک گیت (4)رزمیہ لوک گیت
(1) خانگی زندگی کے لوک گیت:
معاشرے کی سب سے اہم اکائی گھر ہوتا ہے اور خانگی زندگی انسانی مشاغل کا اولین مرحلہ ہے۔ ان مشاغل کی ابتدا پیدائش سے ہوتی ہے۔ دنیا بھر میں پیدائش کے متعلق رسم و رواج میں احساسات اور جذبات کی کیفیتیں تقریباً یکساں ہوتی ہیں لیکن ان کے اظہار میں جغرافیائی ماحول، جداگانہ لب و لہجے کے اثرات انفرادیت پیدا کر دیتے ہیں۔ انسان کی خانگی زندگی مجموعی طور پر پیدائش، شادی اور انتقال کے محوروں پر گردش کرتی محسوس ہوتی ہے۔ زندگی کے نشیب و فراز بھی اسی کا حصہ ہیں۔ 
روہیل کھنڈ کے مسلم معاشرے میں نومولود کی پیدائش کے تعلق سے مختلف تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ان تقاریب میں حمل کے دوران گود بھرائی، پیدائش، چھٹی، چھوچھک، ستارہ شماری، منڈن، ختنہ، عقیقہ پالنا اور بسم اللہ وغیرہ کی رسوم کی ادائگی پر اہتمام کے ساتھ لوک گیت گائے جاتے ہیں۔ یہ چلن خطے کے دیہات سے نکل کر شہر تک میں رواج پاگیا ہے۔ 
حمل کی علامتیں ظاہر ہونے پر حاملہ کی گود بھرائی کی رسم ادا کی جاتی ہے۔ اس موقعے پر پاس پڑوس، کنبے، خاندان اور رشتے کے لوگوں کو جمع کر کے نہ صرف لذیذ کھانوں اور تحفے لینے دینے کا اہتمام کیا جاتا ہے بلکہ گیت بھی گائے جاتے ہیں۔ روہیل کھنڈ کے ضلع پیلی بھیت میں حمل ٹھہرنے اور گود بھرائی کے موقع پر گائے جانے والے ایک گیت کا مکھڑا ملاحظہ کیجیے۔ اس گیت میں دوران حمل کی کیفیتوں اور حاملہ کی خواہشات کا اظہار کیا گیا ہے :
راجا رتنا رے، کنور رتنا رے/جامن موہے لادو
پہلا مہینہ جب لاگے زچہ رانی
پھول گئے پھل لاگے 
میں واری جاؤں رے واری رے واری 
جامن موہے لادو
روہیل کھنڈ میں بچے کی پیدائش پر رشتوں کے اعتبار سے خوشیاں منانے مبارکبادیاں دینے اور رشتوں کی مناسبت سے عائد ہونے والی ذمے داریوں کو منکشف کرنے والے گیت محلے، کنبے کی خواتین، ڈومنیاں اور مراثنیں گاتی ہیں۔ 
پیدائش کے تعلق سے منعقد ہونے والی تقریبات میں ’چھٹی‘کو بڑی اہمیت حاصل ہے اس دن زچہ کو نندیں غسل کراتی ہیں اور اپنا نیگ وصولتی ہیں۔ ضلع شاہجہاں پور کے دیہاتوں میں ’چھٹی‘ کا یہ گیت بہت گایا جاتا ہے:
اِدھر بیٹھی نند اُدھر بیٹھی بھاوج
دونوں منھ دھوویں
بھاوج جی جایا للنا، کنگن میں تو لے لوں گی
شام ہوئی رین بیتی پو پھاٹی 
بھاوج جایا للنا، کنگن میں تو لے لوں گی
اسی روز شام کو نومولود کے ننیہال سے ’چھوچھک‘ آتا ہے تمام رشتے دار جمع ہو کر کھانا کھاتے ہیں اور گیت گاکر خوشی مناتے ہیں :
نانی بی لائی ہیں چھوچھک، دادی لے لو بلئیاں
چھوچھک میں آئے ہیں کپڑے لتّے اور آئے کھلونے
دادی لے لو بلئیاں۔۔۔
ماما مامی لائے ہیں چھوچھک،تائی لے لو بلئیاں 
چھوچھک میں آئے کھیل کھلونے اور آئے تکیے
تائی لے لو بلئیاں۔۔۔
لوریا ں گا کر بچے کو سلانے کی روایت نہایت قدیم ہے لوریاں محض بچے کو سلانے کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ ماں کی ممتا کے اظہار کا وسیلہ بھی ہیں۔ روہیل کھنڈ میں مسلم گھروں میں یہ لوری عام طور پر گائی جاتی ہے:
آجاری نندیا تو آکیوں نہ جا
میرے بچے کی آنکھوں میں گھل مل جا
آتی ہوں بی بی میں آتی ہوں
دوچار بچے سلاتی ہوں 
دو چار بچے تو پیچھے سلا 
میرے بچے کی آنکھوں میں پہلے آ
بچے کو کچھ بڑا ہونے پر اس کی پڑھائی خصوصاً قرآن پاک کو پڑھانے کا انتظام کیا جاتا ہے اور آغاز استاد کے ذریعے’’بسم اللہ‘‘ سے کیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں یہ گیت ملاحظہ فرمائیں جس میں ایک ماں اپنے بچے سے قرآن پڑھنے کو کہتی ہے:
چندا میرے قرآن پڑھ لے
بھولے بھالے قرآن پڑھ لے
تیرے مکتم پہ پھول گلاب کا
ترے بکتم پہ پھول گلاب کا 
تیرے نائی پہ نور برسے 
تیرے بھائی پہ نور برسے
چند ا بنڑے قرآن پڑھ لے
بھولے بھالے قرآن پڑھ لے
بچہ جب زندگی کی ارتقائی منازل طے کرتے ہوئے سن بلوغت کو پہنچتا ہے تو اس کے اندر جنس مخالف کی طرف اٹریکشن پیدا ہونے لگتا ہے۔ اس فطری عمل کے زیر اثر وہ وصل اور ہجر جیسی کیفیات سے آشنا ہوتا ہے۔ روہیل کھنڈ علاقے میں رومانس سے بھرپور گیتوں میں انسانی جذبات کی عکاسی بہ خوبی محسوس کی جاسکتی ہے۔ مندرجہ بالا گیت کے مکھڑے پر ذرا غور فرمائیں :
دوشیزہ اپنے محبوب کے لیے :
سانورے تورے کارن ہوئی بدنام
سانورے تورے کارن ہوئی بدنام
کبھی ہمری گلی ماں آؤ سانورے 
سانورے تورے کارن ہوئی بدنام
جیسے کڑھیا ماں تِلوا جلت ہے 
ویسے جلوں میں تورے سنگ
سانورے تورے کارن۔۔۔
اور اب ایک نوجوان کے رومانس کا حال ملاحظہ فرمائیں:
میں گیا پلنگ پر لیٹ نیند جب آئی
سپنے میں مری دلبر پڑی دکھائی
وہ کھڑی تھی مرے پاس کہہ رہی تھی جگاکے 
جلدی سے پکڑا ہاتھ کہ لیا اٹھا کے 
سپنے میں دیکھا کہ حال کارستانی ہے 
دل جان ملے تو یار زندگانی ہے
شادی انسان کی سماجی زندگی کا اہم مرحلہ ہے۔سماجی اورمذہبی طور پر شادی کو انسانی زندگی کا لازمی عمل تصور کیاگیا ہے۔ روہیل کھنڈعلاقے کے مسلم معاشرے میں شادی سے پہلے اور بعد میں بہت سی رسوم ادا کی جاتی ہیں۔ ان رسوم کی ادائگی کے ساتھ گیت بھی گائے جاتے ہیں۔ مندرجہ ذیل لوک گیتوں میں شادی کی تقاریب او ررسوم کی ادائگی کو دلچسپ اور موثر انداز میں بیان کیاگیا ہے۔ 
روہیل کھنڈ علاقے میں شادی کی تقریب کے تعلق سے ’ٹونا گیت‘ مشہور ہے اس میں لڑکی والوں کی طرف سے بزرگ خواتین ٹونا بھیجتی ہیں جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جس طرح ان بزرگ خواتین نے اپنے شوہر پر حکومت چلائی ہے اور اسے پوری طرح اپنے وَش میں کیا اسی طری نئی دلہن بھی اپنے شوہر کو وَش میں کر لے:
اماں کا ٹونا بھیجوری، تائی کا ٹونا بھیجو
مت والا ہوکے آوے گا لاڈو کا بننا
لاڈو کا بننا آوے گا لاڈو کو ساتھ لے جانے 
خالہ کا ٹونا بھیجو ری پھوی کا ٹونا بھیجو 
اب ذرا منگنی کے گیت پر بھی ایک نظر ڈال لیں:
لاڈو کھڑی کمرے میں،ہنسے من من میں
سجن گھر جانا ہے 
لاڈو کے دادا وَر ڈھونڈن کو نکلے 
مڈل پاس لاڈو وَر مانگتی ہے 
’جھومر گیت‘ مضمون کے اعتبار سے لڑکی اور اس کے منگیتر کے درمیا ن مکالمے پر مبنی گیت ہوتا ہے جس میں اظہار عشق کے ساتھ ساتھ ملاقات کی جستجو،ملنے کی تدابیر اور بعد از شادی کے رنگین تصورات کی منظرکشی کی جاتی ہے :
کچی کلی توڑ لانا /سجن بن کے آجانا
ملنا ہو تو راہوں میں ملنا/میں راہی بن جاؤں گی
سجن تم رہبر بن کے آجانا/ساجن بن کے آجانا 
رشتہ طے ہوجانے اور شادی کی طے شدہ تاریخ سے پانچ چھ دن پہلے ’اللہ میاں‘ گیت سے شادی کی رسوم کا آغاز ہوتا ہے۔ مثلاً :
اے اللہ باغوں پہ اترے/اب سویرا ہے رے
مرادیں حاصل ہورہی ہیں
مانگ لو جس کادل چاہے رے 
شادی کے موقع پر ’بننا گیت‘ خاص طور پر گایاجاتا ہے :
بننا میرا لاوے گا باشاہ جادی
بننے تیری انکھیا سُرمے دانی
بننے تیرے دادا کھوب ہی کھوبا
بننے تیری دادی لال بہاری 
روہیل کھنڈ کے مسلم معاشرے پر ہندوستانی کلچر کے اثرات نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔ ہندوستانی سماج کی بہت سی رسمیں مسلمانوں کے یہاں بھی رواج پاگئی ہیں۔ مہندی اور ابٹن کی رسمیں مسلم گھروں میں خوب نبھائی جاتی ہیں۔ مہندی لگانے کے موقع پر گیت بھی گائے جاتے ہیں:
آجا بنو تیرے مہندی لگائیں
مہندی لگا کے تجھے دولہن بنائیں
مہندی تیرے دادا شوق سے لائے
دادی تیرے ہاتھوں میں رچائیں 
زمانہ قدیم میں بھائی اپنی بہن کے بچو ں کی شادی میں مالی امداد کرتے تھے لیکن اب یہ بھائی کے لیے ’فرض‘ اور بہن کے لیے ’حق‘ بن چکا ہے۔یہ بھی مانا جاتا ہے کہ عام طور پر بھائی جائداد میں سے بہنوں کو حصہ نہیں دیتے اس لیے وہ بہن کے بچوں (خصوصاً بڑی اولاد)کی شادی میں ’بھات‘ دے کر فرض کی ادائگی کر دیتے ہیں۔بھات کے مطالبے، بھات دینے اور بھات کے بدل پر ڈھیروں گیت گائے جاتے ہیں۔ بھات کا ایک گیت وہ ہوتا ہے جس میں بہن بھائی سے زیادہ سے زیادہ بھات دینے کا مطالبہ کرتی ہے جبکہ دوسرا وہ گیت ہوتا ہے جس میں بھائی کی بیوی اسے کم سے کم بھات دینے کا مشورہ دیتی ہے۔جب بھائی ’بھات‘ کے روپ میں کپڑے، زیور لے کر بہن کے گھر پہنچتا ہے تو کچھ اس طرح کے گیت گائے جاتے ہیں :
کالی گھٹا دھوم سے بھتئیا آیا ری
ٹیکا لایا ری بہن میں جھومر لایا ری
تیرے منھ دیکھن کا درپن بھول آیا ری
بیرن بھابھی کا سکھایا تیری اکل بگڑ گئی رے
اپنا اُلٹا لے جابھات بیرن
نادی دی نائیں ری
(کنڈل،پینڈل، ہروا نکلس، گھڑیاں، پوڑیاں،پائل لچھے )
دولہا جب سج دھج کر دلہن لینے کے لیے نکلتا ہے یعنی بارات کی روانگی کے وقت اسے سہرا پہنایاجاتا ہے اکثر یہ سہرا پھولوں کا بنا ہوتا ہے اسے پہنانے کے وقت رشتے دار خواتین جن میں جوان اور بزرگ سبھی شامل ہوتی ہیں ’سہراگیت‘ گاتی ہیں :
سنبھل والوں نے بریلی سے منگایا سہرا،منگایا بریلی منگایا سہرا 
دادا کہتے ہیں میرا نور الٰہی سہرا، دادی کہتی ہیں میرے گھر کا اجالا سہرا 
نیند کے جھونکے میں پریوں نے سنوارا سہرا،واہ واہ صلی علی خوب سجایا سہرا 
سنبھل والوں نے بریلی سے منگایا سہرا،منگایا بریلی منگایا سہرا ۔ 
یا پھر یہ گیت:
اڑی خوشبو جو جا پہنچی سربازار سہرے کی 
وہ بولے دولہا کے دادا ہوئی ہے اک ہزاروں میں لڑی تیار سہرے کی ۔
اسی طرح دلہن کی رخصتی کے موقع پر بابل گیت گائے جاتے ہیں :
دو ہنسوں کی موٹر دروازے کھڑی رے 
آج میری بٹیا سسرال چلی رے
ابا کو روتا ہوا چھوڑ چلی رے
اماں کوروتا ہواچھوڑ چلی رے 
دو ہنسوں کی موٹر دروازے کھڑی رے 
(2) اعتقاد پر مبنی لوک گیت:
سید سالار مسعودغازی کی روہیل کھنڈ میں آمد کے بعد اکابرین سے عقیدت پر مشتمل لوک گیت سامنے آئے۔بے شک اس وقت کے لوک گیتوں کی زبان کچھ بھی رہی ہو لیکن ان میں مسلم معاشرے کی جھلک ملتی ہے۔ ان گیتوں میں جو جذبہ اور تاثر پایا جاتا ہے وہ دور حاضر میں بھی قابل قدر تصور کیا جاتا ہے۔کلام خسرو نے اس روایت کی توسیع میں نمایاں کردار ادا کیا۔ علاقے میں عقیدت مندانہ جذبات کے ترجمان منقبتی گیت بھی رائج رہے ہیں۔ اقوام اور فرقوں کے درمیان مشترک تہذیب کے پیدا ہونے سے رسم و رواج کی منفرد قدریں بھی مشترک ہوگئی ہیں۔ عید، ہولی، دیوالی، شب برأت وغیرہ کے مواقع پر یہ نظارہ عام ہوتا ہے۔ شب برأت، واقعہ معراج، رمضان، کونڈوں کی نیاز،واقعہ کربلا وغیرہ کے تعلق سے بہت سے عوامی گیت علاقے میں رائج ہیں مثلاً:
تو ہی رب تو ہی رب تو ہی جگ سارا 
توہی لے ہے تو ہی دے ہے تو ہی میرا کرے گذارا
تو ہی رہے گا، توہی ہے، ربا تیرا نام
ہاں میرے ہردے بسا بس تیرا نام 
یا پھر یہ عوامی مرثیہ:
لکھوں تو کیا لکھوں میں اس میدان جنگ کا حال 
تھا چرخ کوبھی ان کی تنہائی کا ملال
آقا کے دل میں امت عاصی کا تھا خیال
گھر بھی لٹایا سر بھی کٹایا حسین نے 
(3) موسمی لوک گیت:
موسمی لوک گیتوں کی لوک زندگی میں بڑی اہمیت ہے۔موسموں کے رنگ و روپ اور ہوائیں انسانی زندگی پر خاص اثر ڈالتی ہیں۔انسانی ذہن میں افکار و خیالات کی نشو و نما موسمی مزاج کے زیر اثر ہوتی ہے۔ برسات کا موسم لوک زندگی خصوصاً خواتین کے لیے رشتوں میں جذبات کی شدت بھرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ تہذیب کی مشترکہ روایت نے مسلم معاشرے میں بھی ساون گیت، کجری، ساونی، جھولے اور چوماسی وغیرہ گیت گانے کا رواج پیدا کر دیا ہے۔ فطرت انسانی اور قدرتی موسم کے اثر سے پیدا ہونے والے جذبات کا اظہار ان گیتوں کا وصف ہے : 
آئی کالی گھٹا بادل گرجے 
چلے ٹھنڈی پون مورا جیا ترسے
تھی پیا ملن کی آس سی
پردیس گئے مورے سانوریا 
کجری گیتوں میں بہت سی ان باتوں کو بھی بیان کر دیاجاتا ہے جو عام طور پر پردۂ خفا میں رکھی جاتی ہیں۔ مثلاً:
ہے نار کیسی عجب دو رنگی ہوا میں لہراتی جائے 
نہ شرم آتی کسی کی دل میں وہ لعل و گوہر دکھاتی جائے
اٹھاتی چہرے سے جب وہ پردہ اُدھر قیامت ڈھاتی جائے
ذراسی باتوں میں رنج ہو کر کسی کی ہستی مٹاتی جائے
اسی طرح قدرتی ماحول کی عکاسی کرنے والے گیت بھی علاقے میں منفرد شناخت رکھتے ہیں :
گھٹا آن کر مہینہ جو برسا گئی 
تو بے جان مٹی میں جان آگئی
جڑی بوٹیاں پیڑ آئے نکل 
عجب بیل پتے عجب پھول پھل
’بارہ ماسہ‘ موسمی گیتو ں کی اہم شاخ ہے۔ سال کے بارہ مہینوں سے متعلق جذبات کی عکاسی کرنے والے مجموعے کو بارہ ماسہ کہہ سکتے ہیں۔ ہر مہینے موسم کی مطابقت سے انسان میں جو فطری جذبات رونما ہوتے ہیں۔بارہ ماسے انہی کے ترجمان ہوتے ہیں۔ روہیل کھنڈ میں حفظ اللہ قادری کا بارہ ماسہ کافی مشہور ہے جس میں انتہائی مہارت کے ساتھ موسمی کیفیات کے مد نظر ہجر و وصال کے معاملات کو بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً:
آیا ماس اساڑھ کا پیتم ناہیں پاس 
گھٹا گھائیں دیت ہیں سو پی درسن کی آس
سگرا ماس اساڑھ کا روئے بھانا چین 
ساون کا آون سنا سو دونوں امڈے نین 
یا پھر یہ دیکھیں:
لاگا جیٹھ کا مہینہِ تر تِر چوائے پسینہ
بلموا کی یاد ستائے ہوگیا ہے مشکل جینا
(4) رزمیہ لوک گیت:
روہیل کھنڈ میں اشفاق اللہ خاں، شہید نجوخاں، علی برادران، علی محمد خاں وغیرہ عظیم مجاہدوں نے انگریزوں کے دانت کھٹے کیے تھے۔ علاقے میں جنگ آزادی کے دوران یہاں کے رزمیہ لوک گیتوں نے بھی عوام میں جوش بھرنے کا کام کیا تھا۔ علاقے کی عام زبان میں رزمیہ گیت تخلیق ہوتے اور انھیں عوام کے سامنے سنایا جاتا۔ دیکھتے ہی دیکھتے عوامی خون ابلنے لگتا تھا۔ روہیل کھنڈ میں رزمیہ گیت ’ساکھا‘ کے نام سے مشہور ہیں۔ عوامی اصطلاح میں ’ساکھا‘ ان لوک گیتوں کو کہتے ہیں جن میں کسی مشہور لڑائی کے واقعات کی تُک بندی پیش کی گئی ہو۔ علاقہ کا سب سے مشہور رزمیہ لوک گیت ’نجوخاں کا ساکھا‘ہے:
اول نام کھدا کا لیجیے دوجے نبی رسول
تیجے نام برہی کا لیجیے بات جاؤں نہ بھول
کنٹھ سرسوتی میں تو کنٹھ بیٹھ جائے میرے
نجوخاں کا ساکھا کتیا سرن جاؤں میں رے 
لوک گیتوں کی زبان مقامی بولیوں پر منحصر رہی ہے۔ روہیل کھنڈ کے دیہی علاقوں سے ملحق علاقوں کی بولیوں کے اثرات پائے جاتے ہیں۔ جیسے پیلی بھیت کے کچھ دیہات کمایونی، بریلی اور شاہجہاں پور کے دیہات پوربی اودھی اور بھوجپوری،بدایوں اور امروہہ کے دیہات برج، مرادآباد،سنبھل اور بجنور میں کھڑی بولی ہریانوی اور پنجابی کا اثر غالب ہے۔ ماہر لسانیات مسعود حسین خاں نے روہیل کھنڈ کو کھڑی بولی کا علاقہ مانا ہے۔روہیل کھنڈ علاقے کی بولی کو ’روہیلی‘ کہا جاتا ہے۔ روہیلی کو کھڑی بولی کی شاخ بھی مانا جاتا ہے۔ روہیل کھنڈ میں جو لوک گیت مسلم معاشرے میں رائج ہیں ان میں انگریزی، بھوجپوری، راجستھانی اور اودھی وغیرہ کے الفاظ بھی استعمال ہوتے ہیں۔ جیسے مڈل، اسٹیشن،موٹر، لین، دین، ہری، سدھی اور بھوجی وغیرہ۔ بہرحال روہیلہ لوک گیت جو مسلم معاشرے میں رائج ہیں ایک طرف تو بہت صاف واضح اور آسان زبان میں ہیں دوسری طرف ان میں اطراف کا لہجہ اور الفاظ بھی شامل ہیں۔ 
روہیل کھنڈ علاقے میں یوں تو لوک گیتوں کو بنا کسی موسیقی کے گانے کا رواج ہے لیکن پھر بھی ڈھولک، دف، ہارمونیم،یک تارا، چمٹا، مٹی کا گھڑا اور جل ترنگ (پانی بھرے گلاس)وغیرہ کااستعمال دیکھنے کومل جاتا ہے۔ 
لوک گیتوں کو جمع کرنے سے یہ توممکن ہے کہ اس عوامی تہذیب کے سرمائے کو نیست و نابود ہونے سے بچا لیاجائے۔ لیکن وہ جذبہ تب تک حاصل نہیں ہوسکتا جب تک کہ کھلے ماحول میں اسے سننے کا لطف نہ ملے۔ چونکہ یہ لطف پڑھنے سے زیادہ سننے میں ہے۔اس لیے ضروری ہوجاتا ہے کہ جس طرح لوک گیتوں کو کاغذ پر لکھ کر محفوظ کرلینے کی کوششیں ہورہی ہیں اسی طرح عوامی گیتوں کے اجتماع کا انعقاد مشاعروں کی طرز پر کیا جائے۔ تاکہ اس تجربے سے بھی آشنا ہواجاسکے جو لوک گیتوں کو سن کر ہی حاصل ہوسکتا ہے۔ اہل علم اور لوک گیتوں سے شغف رکھنے والوں کو اس طرف توجہ مرکوز کرنے کی خاص ضرورت ہے۔ 

Er. Furqan Sambhali, 
Mohalla Deepa Sarai Chowk, 
Sambhal - 244301 (UP)


ماہنامہ اردو دنیا ،جنوری 2016







قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں