27/3/19

جگت موہن لال رواں کی شاعری مضمون نگار: عائشہ پروین




جگت موہن لال رواں کی شاعری
عائشہ پروین

اردو ایک ایسی زبان ہے جس کو نہ صرف مسلمانوں بلکہ بیشترہندوحضرات نے بھی اپنے پیغام اور خیالات کی ترسیل کا ذریعہ بنایا۔اور اپنی اپنی سطح پرکامیابی بھی حاصل کی۔بعض نے نثرنگاری پر توجہ دی تو بعض نے شاعری کے میدان میں قدم رکھا۔ جگت موہن لال رواں ایسے ہی اہم ناموں میں سے ایک ہیں۔
رواں کے والد کا نام چودھری منشی گنگا پرشاد ہے۔ بابو جگت موہن رواں 14جنوری 1889 میں پیدا ہوئے۔ 9سال کی عمر میں والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ ان کی پرورش ان کے بڑے بھائی کنہیالال نے کی۔ 1907 میں سوراواں ہائی اسکول سے انٹراول درجے میں پاس کیا۔ 1909 میں ایف اے اور 1911 میں بی اے کیننگ کالج لکھنؤ سے پاس کیا۔ خداداد ذہانت اور طبعی شوق سے وہ ہمیشہ درجہ اول میں پاس ہوئے۔ 1913 میں لکھنؤ یونیورسٹی سے ایم اے پاس کیا۔ 1916 میں ایل ایل بی کا امتحان پاس کرکے مستقل طور سے اناؤ میں قیام کیا اور وکالت کا پیشہ اختیار کیا۔ وہ اس پیشے کو مجبوری قرار دیتے ہیں۔ ان کی طبیعت کو خاص طور سے شاعری سے شغف تھا، اسی لیے وہ تمام آسائشوں کے باوجود مطمئن نہیں تھے۔ ان تمام واقعات وحالات کا اثر ان کی شاعری میں بھی موجود ہے۔ کہتے ہیں:
کرتے ہیں عزیز دوست عزت میری
کافی ہے ضرورتوں کو دولت میری
ظاہر میں تو کوئی وجہ کلفت کی نہیں
لیکن میں خوش نہیں یہ قسمت میری
رواں کی طبیعت میں شرافت، انکساری اور بردباری حددرجہ موجود تھی۔ وہ بااخلاق اور باادب تھے۔ انھوں نے سلجھا ہوا دماغ اور نکتہ رس طبیعت پائی تھی۔ شاعری میں انھیں بچپن سے دلچسپی تھی۔ ان کے بچپن کے حالات کا اندازہ عزیز لکھنوی کے درج ذیل اقتباس سے لگایا جاسکتا ہے۔
’’شاعری ملکہ وہبی وفطری ہے۔ رواں بھی ابجد شروع کرنے سے پہلے موزوں طبع تھے۔ اکثر بچوں سے موزوں الفاظ میں گفتگو کرتے تھے۔ خاندان کے بزرگوں کے لیے ان کی موزوں طبعی ایک مشغلہ تھا۔ اکثر فرمائشیں ہوتی تھیں کہ دیکھو یہ چڑیا دیوار پر بیٹھی ہے۔ اس پر ایک شعر تو کہو۔ یہ دو تین منٹ کے بعد ایک شعر نظم کرکے سناتے تھے اور خراج تحسین وصول کرتے تھے‘‘۔
(صفحہ12، روح رواں، اترپردیش، اردو اکادمی لکھنؤ1983)
ایک واقعہ کے مطابق رواں جب تقریباً چھ سال کے تھے، بچوں کے ساتھ کپڑے کی گیند سے کھیل رہے تھے، گیند ایک بچے سے پھٹ گیا اور چیتھڑے نکل گئے۔ اس پر انھوں نے بے ساختہ ایک شعر موزوں کردیا:
ذرا گیند میرا اٹھالایئے
پھٹے چیتھڑے مجھ کو دکھلائیے
رواں کبھی کبھی عزیز لکھنوی سے مشورۂ سخن کیا کرتے تھے۔ ان کے یہاں فطرت انسانی کی رفعتوں کا احساس ہوتا ہے۔ وہ شعر کہنے کے لیے فلسفہ کی کتاب یا کسی فارسی دیوان کا مطالعہ کرتے ہیں اور جب طبیعت آمادہ ہو جاتی ہے، اس وقت فکر کرتے ہیں۔ زبردستی شعر کہنے پر زور نہیں دیتے۔
ان کی غزلیات، منظومات، رباعیات، قطعات اور اندازِ بیان میں تازگی وندرت، سلاست وروانی بدرجہ اتم موجود ہے۔ فلک پیما تخیل لیکن شعر اغلاق سے پاک اور درد وتاثیر سے مملو ہیں۔ احساس قومیت اور اخلاقیات کے موضوعات بھی کلام میں جگہ جگہ موجود ہیں۔ ان کے یہاں شوکت الفاظ ہی نہیں بلکہ معنویت بھی موجیں مارتی ہے۔
رواں نے جدید انکشافات فلسفہ وسائنس کے مضامین اپنی شاعری میں اس طرح پیش کیے ہیں کہ وہ سائنس وفلسفہ ہوکر بھی شاعری میں اس طور سے ڈھل گئے ہیں کہ ان میں رنگینی اور اثر نمایاں طور سے جھلکتا ہے۔ خود کہتے ہیں:
جوزمانے کے خیالات ہیں کرتا ہوں ادا 
جانیے آپ مرے دور کی تصویر مجھے
رواں کے کلام ’روح رواں‘ میں 1902 سے 1926 تک کہی گئی نظمیں شامل ہیں۔ مطالعے سے ان کے خیالات کے تدریجی ارتقا کا اندازہ ہوتا ہے۔کچھ اہم نظمیں ’سرودعشق‘، ’معمائے فطرت‘، ’شاعری‘، ’لاوارث بچہ‘، ’شوہر کش حسینہ‘،’بستر بیمار‘، ’عبرت‘، ’مریضہ‘ اور ’الوداع‘ وغیرہ ہیں۔ کتاب میں بیشتر ایسی نظمیں ہیں جو حالات وواقعات سے متاثر ہو کر لکھی گئی ہیں۔ نظم ’معمائے فطرت‘ میں مناظر فطرت کے حیرت انگیز تاثرات کا اظہار شاعرانہ پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔اور حقیقت کا انکشاف نہ ہونے کے سبب شاعر کے دل میں فطرت کے رموز جاننے کی خواہش نظرآتی ہے۔ کہتے ہیں:
چل رہی ہیں ہر طرف کیوں کر عناصر کی کلیں
جل رہی ہیں کس طرح شمس و قمر کی مشعلیں
خود بخود چلتی ہیں یا ان کو چلاتا ہے کوئی؟
آپ ہی جلتی ہیں یا ان کو جلاتا ہے کوئی
رواں زبان اردو کو بہت عزیز رکھتے تھے، ان کی نظم ’شاعری‘ سے ملاحظہ کیجیے:
پیاری اردو تری محفل میں سخنور کم ہیں
سنگ ریزے تو بہت ملتے ہیں گوہر کم ہیں
چوٹ لگ جائے جن اشعار سے دل پر کم ہیں
جن میں پنہاں ہوں خیالات کے دفتر کم ہیں
میر سمجھا تھا فقط معنی اسرار سخن
ختم غالب پہ ہوئی گرتی بازار سخن
رواں نے موجودہ شاعری خاص طور سے غزل پر اپنے خیالات کو اس طرح پیش کیا ہے:
اﷲ اﷲ زہے وسعت دامان غزل
بلبل و گل پہ ہے موقوف نہیں شان غزل
ختم پہنائے دو عالم پہ ہے پایانِ غزل
پوچھیے حافظ شیراز سے امکان غزل
ضبط ہے آئینہ راز حقیقت اس میں
یہ وہ کوزہ ہے کہ دریا کی ہے وسعت اس میں
اس نظم میں انھوں نے غزل کے مضامین کی وسعت و امکان پر توجہ دلائی ہے اور اس کی وسعت کی تشبیہ اس کوزہ سے دی ہے جس میں دریا جیسی وسعت ہے۔ انھوں نے بچوں کے موضوعات پر بھی توجہ دی ہے۔ ’تتلی‘ ایک ایسی ہی نظم ہے جس میں قدرت کی کارفرمائیوں کے علاوہ بچوں کے جذبات کی ترجمانی بھی ملتی ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں:

اڑتا پھرتا ہے ہوا پر ساغر زیں کو ئی
کررہی ہے سیر یا معشوقہ رنگیں کوئی
باعث حیرت ہے رنگینی تری ہم کیا کہیں
پھول اک اڑتا ہوا یا باغ چھوٹا سا کہیں
ہلکی پھلکی گرچہ ہے تو اک ذرا سی جاندار
دیکھتے ہیں تجھ میں ہم نیرنگ قدرت کی بہار
ایک اور شعر میں جس میں بچپن کی جھلکیاں نظر آتی ہیں:
سخت کوشش پر ہمارے ہاتھ کب آتی تھی تو
تجھ تلک چٹکی پہنچتی تھی کہ اڑجاتی تھی تو
ایک اور شعرجس میں تتلی جیسے بظاہرننھے سے جاندار سے شاعر خدا کی ہستی کا انکشاف کرتا ہے:
ننھی تتلی تیری ہستی کا اگر ظاہر ہو راز
منکشف ہو رشتۂ خلق و خدائے بے نیاز
نظم ’لاوارث بچہ‘ ایک ایسی ہی نظم ہے۔ جس میں سماج پر سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ بچے کی معصومیت اور والدین کی بے رحمی کو اس کا موضوع بنایا گیا ہے۔اس نظم میں شاعر بچہ کی حالت زار پر متاسف ہو کر کہتا ہے:
آہ اے نواردِ نرم رباط روزگار
آہ اے تازہ اسیر گردش لیل و نہار
شاعر اسی طرح کے چند خطابیہ اشعار میں بچے سے سوال کرتا ہے:
سچ بتا بچے ترا وارث ترا والی ہے کون!
پھول ہے تو کس شجر کا اور ترا مالی ہے کون
سچ بتا بچے تجھے خاک وطن کا واسطہ
پھول ہے تو جس چمن کا اس چمن کا واسطہ
اور پھر افسوس کا اظہار کرتا ہے اور کہتا ہے:
حیف کیا میں مان لوں دنیا کے لوگوں کی دلیل
تجھ کو میں سمجھوں ثمرۂ بدکاریِ نفس ذلیل
دل نہیں کہتا کہ بدکاری کا ہے انجام تو
ہورہا ہے گرچہ دنیا میں یونہی بدنام تو
حیف ہے لیکن اگر لوگوں کا کہنا ٹھیک ہو
حیف ہے گر آدمی کی عقل یوں تاریک ہو
شاعر نے اس نظم میں انسان کے اشرف المخلوقات ہونے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ اس لیے کہ وہ اپنی کارگزاریوں پر نادم ہونے کے بجائے مفتخر ’ویران قصرشاہی اور ہم‘ رواں کی ایسی اہم نظموں میں سے ہے، جس سے تاریخ و تہذیب منعکس ہوتی ہے۔ یہ نظم فتح پور سیکری میں اکبر کے محل کو دیکھ کر کہی گئی ہے۔ انھیں قصور سے گزرتے ہوئے اس کی دیرینہ عظمت وشان اور گزرتے افسانوں کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ نظم میں یوں رقم طراز ہیں:
اجڑے محلوں سے جو آتی ہے صدائے بازگشت
طرفہ افسانے سناتی ہے صدائے بازگشت
پہلے کچھ احکام سلطانی سناتی ہے مجھے
قصہ شان جہاں بانی سناتی ہے مجھے
اور پھر یہاں بسنے والوں کی شجاعت وبہادری کی داستان بیان کرتے ہیں۔
اس طرح کہتا ہے اک ہڈی کا ٹکرا برملا
عالم فانی کا ہے مجھ میں تماشا برملا
میں وہ پنجہ ہوں کہ جس میں آکے تیغ آب دار
شیرافگن، صف شکن مردوں کو کردیتی تھی خوار
اور پھر آگے یہ مضمون بیان کرتے ہیں کہ زمانے کے ساتھ ساتھ لوگ ان یادوں کو بھلادیتے ہیں جو ان کے آبا واجداد سے جڑی ہوتی ہیں۔ اپنی یادوں کو محفوظ رکھنے کے لیے قبروں کی تعمیر ایک پسندیدہ آئین تصور کی گئی ہے۔ لیکن زمانے کے ساتھ ساتھ قبروں کے نشانات بھی معدوم ہورہے ہیں۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں:
ہیں یہ اجڑی بستیاں صفحات تاریخ قدیم
ان کو ویرانہ نہ سمجھو ہیں یہاں روحیں مقیم
کوئی کیف عبرت آموزی کا متوالا تو ہو
صاف آتی ہیں نظر ہاں دیکھنے والا تو ہو
رواں اپنی نظموں میں نئے نئے مضامین پیش کرتے ہیں۔ دنیاوی حقائق سے پردہ کشائی کرکے لوگوں سے روشناس کراتے ہیں، جہاں انھوں نے اعلیٰ خیالات، مضامین اور اشیا کو جگہ دی جن میں فطرت، وطن سے محبت اور انسانی زندگی میں پیش آنے والے مسائل شامل ہیں، وہیں کائنات کی ان دوسری بظاہر معمولی اشیا جیسے ’’تتلی‘، ’غبارہ‘ اور ’پپیہا‘ وغیرہ بھی ہیں جن سے بچوں کے جذبات جڑے ہوتے ہیں اور ان کی خوشیوں کا سبب ہوتے ہیں۔
جہاں رواں نے نظم نگاری میں مضامین کو تنوع عطا کیا ہے، وہیں غزل کے میدان کو بھی محدود نہیں ہونے دیا ہے۔وہ غزل گوئی سے متعلق خود رقمطراز ہیں کہ ’’یہ وہ کوزہ ہے کہ دریا کی ہے وسعت اس میں‘‘اس شعر کی حقیقی رنگت ان کی غزل گوئی میں مضمر ہے اور ان کی نظموں سے کہیں زیادہ وسعت غزلوں میں موجود ہے۔ کلام رواں میں فلسفہ واخلاق کے مسائل تغزل کے رنگ میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ کہیں تصوف وعرفان ہے تو کہیں روحانی وجدانی نغمے، جس میں سلاست وروانی، جوش وخروش اور سوزوگداز اپنی انتہا پر نظر آتے ہیں۔ عشق کی کیفیات میں سے ایک کیفیت کو دیکھیں کس لطیف پیرائے میں پیش کیا ہے:

میں یکجا ہی کرتا تھا اپنے حواس
کہ ان کا مرا سامنا ہوگیا
زندگی کے بعد موت کی حقیقت سے آشنا ہونے کے باوجود انسان اپنی دنیا میں گم ہے، اسے کسی بات کی فکر ہی نہیں ہے۔ اس مضمون کو کس دلکش پیرائے میں باندھا ہے۔ ملاحظہ ہو:
جان کے زیست کا مآل پا کے اجل کو روبرو
پھر بھی ہیں مست عیش ہم یہ بھی عجیب راز ہے
اس دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے جب اس پر دنیا کی حقیقت منکشف ہوتی ہے تو اس کے پچھتاوے کو کس طرح نظم کیا ہے:
نزع میں آکر کھلا ہے عالم فانی کا راز
اے مری جاتی ہوئی دنیا بڑا دھوکا ہوا
رواں کی شاعری میں انداز بیان کی ندرت شعر کو نیا لباس عطا کردیتی ہے:
یہ تو ہے بات ہی کچھ اور کہ میں کچھ نہ کہوں
ورنہ کیا مجھ پہ جو گزری ہے مجھے یاد نہیں
ان کے اشعار میں زبان کا لطف دیکھیں:
آخر امکان وفا کی کوئی تدبیر بھی ہے
تم تو ہر وعدہ کو کہتے ہو ہمیں یاد نہیں
دیکھیں گرتی ہے قفس پر کہ چمن پر بجلی
آج یا میں ہی نہیں یا مرا صیاد نہیں
بے بسی ونامرادی میں موت زندگی سے بہتر معلوم ہوتی ہے۔ متکلم خود کو مٹائے جانے پر احسان مند نظر آتا ہے۔ یہ خیال دیکھیں کس طرح شاعری میں پیش کرتے ہیں:
وہ مجھ کو مٹاتے ہیں احسان نہیں کرتے
میں بادل خوں گشتہ مٹنے ہی کے قابل تھا
بعض جگہ فلسفہ کے خشک مسائل بھی ملتے ہیں جو جذبات سے عاری ہیں۔
گر یہی آئین فطرت ہے تو اے طبع سلیم
کیوں کسی کی موت پر آنسو بہانا چاہیے
رواں نے دنیا کی بے ثباتی اور یہاں رونما ہونے والے حادثات کو کس طرح شعری قالب عطا کیا ہے۔ ذیل میں ملاحظہ کیجیے:
جانے والے چل بسے دنیا کی بستی چھوڑ کر
رونے والے ایک دن کیا عمر بھر رویا کریں
خلق ہے محو تماشا اور تماشا بے وجود
اپنی صیقل دیکھ اے آئینہ ساز زندگی
رواں کے کلام میں اکثر اشعار ایسے ہیں جن میں انسانی روح کے حقائق ومعارف کا اظہار ملتا ہے۔
سنگ زمین کعبہ خود بڑھ کے جبیں کو بوسہ دے
ایسے بھی چند سجدے ہیں ناصیہ نیاز میں
رواں کی غزلیہ شاعری میں جو موضوعات پیش کیے گئے ہیں، ان کی رباعیات اس حد کو توڑتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ ان کی رباعیات مضامین میں تنوع کے اعتبار سے اردو ادب میں اہم اضافہ ہیں۔ مشرق ومغرب کے ادبی مطالعے سے بہت سے خیالات وواقعات کو رباعیوں کا جامہ پہنادیا ہے۔ انسانی جذبات، درون میں موجود خواہشات اور دیگر احساسات اس خوبی سے رباعیوں میں سمو دیے ہیں کہ ان کی معنوی تہہ داری میں کمال کا حسن پیدا ہوگیا ہے۔ چند رباعیاں جن میں اسی طرح کی انسانی خواہشات کارفرما ہیں۔ ملاحظہ ہوں:
حرص و ہوس حیات فانی نہ گئی
اس دل سے ہوائے کامرانی نہ گئی
ہے سنگ مزار پر ترا نام رواں
مر کر بھی امید زندگانی نہ گئی
مر کر بھی انسان کی خواہش زیست ختم نہیں ہوتی جس کی دلیل انھوں نے قبر کے سنگ پر نام کندہ کرانے سے دی ہے:
آزاد ضمیر ہو فقیری یہ ہے
دل بے پروا ہو امیری یہ ہے
زنجیر نہیں ہے باعث قید رواں
محدود رہے خیال اسیری یہ ہے
انجام کی ہو فکر شریعت یہ ہے
جاں صرف وفا رہے ریاضت یہ ہے
زاہد سے کہو نماز و روزہ بے کار
دل خوف خدا کرے عبادت یہ ہے
درج بالا رباعیات میں انسانی فکر سے جڑے دومختلف پہلو موجود ہیں۔ کہیں خیالات کی پابندی کو زنجیر کی قید سے زیادہ تنگ قرار دیا ہے۔ کہ خیالات کی آزادی زنجیروں سے قید نہیں کی جاسکتی۔ امیری دل سے ہوتی ہے اور ضمیر کی آزادی فقیری کہلاتی ہے۔ ان خیالات کو رواں نے بہت تسلسل سے پیش کیا ہے اور دوسری رباعی میں عبادت سے متعلق خیال پیش کیا ہے کہ اگر انسان کے دل میں خدا کا خوف نہ ہو تو یہ طاعت و زہدکسی کام کے نہیں۔ ایک اور رباعی جس میں رواں انسان کی زندگی اور اس کے وجود کا سبب جاننے کی خواہش ظاہر کرتے ہیں۔ وہ حیرت زدہ ہو کر اس کا مقصد جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ کہتے ہیں:
اس دار فنا میں مقصد دل کیا ہے
کہیے تعبیر خواب باطل کیا ہے
جب قلب کو ایک دم بھی راحت نہ ملی
آخر اس زندگی کا حاصل کیا ہے
رواں کی ایک رباعی جس میں صبح کی تصویر کچھ اس رنگ میں پیش کی گئی ہے کہ تعریف کرنا محال معلوم ہوتا ہے:
فطرت کہتی ہے ظلمتوں کے پس پشت 
کیا ہوا باران نور اگر ہویک مشت
ہنگامۂ طور کررہی ہے برپا
صبح خنداں کی اک حنائی انگشت
یہاں سورج کی کرن کو صبح خنداں کی انگشت حنائی بطور استعارہ پیش کیا ہے۔ انھوں نے اپنی رباعیات میں فنا وبقا کے مضامین کثرت سے باندھے ہیں۔ ان دو متضاد کیفیتوں کو دیکھیے کس طرح انھوں نے بیان کیا ہے:
تخریب حیات میں ہے تعمیر حیات
ہے باعث انحطاط تدبیر حیات
شیرازہ دو جہاں ہے تشریح فنا
کڑیاں لاکھوں ہیں ایک زنجیر حیات
رواں کے یہاں زندگی، موت، دنیا کی بے ثباتی، عبادت وبندگی، بادہ نوشی، معرفت الٰہی، خوشی وغم، دلوں میں پنہاں جذبات و احساسات، فطرت کی رنگینیاں اور قدرت کے دلکش مناظر وغیرہ ان کی شاعری میں رواں دواں ہیں۔
انھوں نے مغرب میں رواج پانے والے اس خیال کو کہ انسان کو قوانین فطرت کے موافق زندگی گزارنا چاہیے کو بھی پیش کیا ہے، جس کی شناسائی مشرق کے لوگوں کے لیے بھی ضروری معلوم ہوتی ہے:
تابع ہمیں عقل کا کیے دیتی ہے
آزادی دل فنا کیے دیتی ہے
تہذیب کی عظمتوں سے ہم بازآئے
فطرت سے ہمیں جدا کیے دیتی ہے
انھوں نے ہندو مسلمانو ں کے مابین نااتفاقی جیسے حالات سے متاثر ہو کر اپنے احساسات کو شعری قالب عطا کیا ہے۔ کہتے ہیں:
غم شہر بشہر پھیلتا جاتا ہے
اللہ کا قہر پھیلتا جاتا ہے
اب تک تو دلوں میں حرارت تھی رواں
اب خون میں زہر پھیلتا جاتا ہے
انھوں نے اپنے وطن کے لوگوں میں قومی وملکی جذبات دیکھنے کی تمنا بھی کی۔ کہتے ہیں:
کل قوم کے دل میں درد ہر فرد کا ہو
اور دل میں ہو ہر فرد کے کل قوم کا درد
ان کی رباعیوں میں اخلاقی سبق بھی پایا جاتا ہے:
غربت اچھی نہ جاہ و دولت اچھی
حاصل جس سے ہو دل کو راحت اچھی
جس سے اصلاح نفس ناممکن ہو
اس عیش سے ہر طرح مصیبت اچھی
کلام رواں میں وہ تمام خصوصیات تہہ در تہہ موجود ہیں جو ایک اچھی شاعری کی صفات میں شمار کی جاسکتی ہیں۔ 

Aysha Parveen.,
 Research Scholar,
Dept. of Urdu,
 Jamia Millia Islamia, New Delhi - 25

ماہنامہ اردو دنیا ،جنوری 2016






قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں