26/3/19

اخترالایمان کے یہاں ماضی کی بازیافت اور مراجعت مضمون نگار: انجم پروین




اخترالایمان کے یہاں ماضی کی بازیافت اور مراجعت


انجم پروین

اخترالایمان اردو شاعری کے ایک منفرد شاعر ہیں۔ جس دور میں انھوں نے فہم و ادراک کے راستے ناپنے شروع کیے، وہ ادب میں ذہنی و فکری اور جذباتی و حسّیاتی تبدیلیوں کا عہد تھا۔نثر و نظم کا سرمایہ بھی بدلتے وقت کے ساتھ تغیرات کی نئی کروٹوں سے ہمکنار ہو رہا تھا۔ نئے لکھنے والے نئی حسیت اور تازہ کار اسلوب کا پرچم تھامے سامنے آرہے تھے۔اخترالایمان اس انقلاب آفریں لشکر میں اپنے تمام تر نئے تخلیقی رویوں اور منفرد طرزِاحساس کے ساتھ پیش پیش تھے لیکن انھوں نے تقلید اور تتبع کے رجحان سے اپنی شاعری کو یکسر محفوظ رکھا۔ 
اخترالایمان نے اپنی نظموں میں مختلف النوع اور نادر تجربات کر کے اردو شاعری کو باثروت بنایا ہے۔ان کی نظمیں ایک عجیب قسم کی درد مندی،اضمحلال اور کرب کی نشان دہی کرتی ہیں۔ ’وقت‘ کو ان کے یہاں اقبال اور قرۃ العین کی طرح اختصاصی اہمیت حاصل ہے۔یہ وقت کہیں تو نقش گرِ حادثات بن کر کرب کے اتھاہ سمندر میں دھکیل دیتا اور کہیں اس درد سے نجات حاصل کرنے کے لیے قوت وشفا عطا کرکے جینے کا حوصلہ عطا کرتا ہے۔ فنّی اور تکنیکی اعتبار سے بھی ان کی نظمیں اہمیت کی حامل ہیں بیشتر نظمیں اشاراتی و علاماتی نظام اور طنزیہ اسلوب پر منحصر ہیں۔ بعض ایسی ہیں جن میں ماجراتی، حکایتی، روداد نگاری اور ڈرامائی عناصر شامل ہیں اور چندایسی عمدہ نظمیں بھی ہیں جن میں آرٹ اور فلم کی مخصوص تکنیک مثلاً فلیش بیک، مکالماتی انداز، مونتاژاور کولاژوغیرہ کے بہترین استعمال سے مختلف Scene create کیے گئے ہیں۔ داخلی خود کلامی کی مدد سے فرد کے باطن میں گھس کر اس کی اندرونی کیفیات کو آشکار کرنے کی کوشش بھی کی گئی ہے اظہار و بیان کے یہ جدید تجربے ان کے یہاں موضوع اور طرزِ ادا سے اس طرح آکرہم آہنگ ہو گئے ہیں کہ اجنبیت کا احساس نہیں ہونے دیتے۔
اختر الایمان کی شاعری کے تمام تر مجموعے ان کے روحانی کرب اور ذہنی کشمکش کے غماز ہیں۔ ان کے یہاں یہ کرب اپنے حال سے نا آسودگی کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ ان کی شاعری میں بنیادی مسئلہ اقدار کا زوال اور ان کی تلاش و جستجو ہے۔چونکہ اقدار کی جڑیں براہ راست ماضی اور حال سے وابستہ ہوتی ہیں۔ لہٰذا جب یہ قدریں اس مشینی دور میں پامال ہونے لگتی ہیں تو وہ حال سے مایوس اور نا آسودہ ہوکر ماضی میں پناہ گزیں ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس لیے درداور حزن و ملال کی یہ تمام کیفیات ان کی شاعری میں بھی در آتی ہیں۔ ان تمام نکات سے قطع نظر، قابل توجہ امر یہ ہے کہ اخترالایمان کا پہلا ہی مجموعۂ نظم ’گرداب ‘ (1943) اس ارتکاز فکر کے اعتبار سے قابل قدر ہے۔ اس میں ان کا شعوراور شدت احساس وغم ان کی مختلف نظموں سے جھلکتا ہے۔ اس مجموعے کی بیشتر نظموں میں ماضی و حال باہم دست و گریباں نظر آتے ہیں۔اس طرح کہ جب عصر حاضر کے مختلف مسائل اور حالات و وقت کے جبر سے شاعرمتصادم ہوتا ہے اور اس بھنور سے نکلنے کی اسے کوئی راہ سجھائی نہیں دیتی تو وحشت زدہ ہو کر وہ اپنے ماضی اور خوش کن گزشتہ لمحوں کی چادر تان لیتا ہے۔شکستہ آرزوؤں اور موجودہ مسائل سے بجائے مقابلہ اور دفاع کرنے کے اپنے ماضی کی جانب مراجعت کرکے ان سے فرار اختیار کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ماضی کی طرف مہاجرت کبھی تو عشق ناکام کی صورت، کبھی اقدار کے فقدان اور ذہنی وجذباتی گھٹن کی شکل،تو کبھی ایک بالک کے روپ اور تلاش سکون میں نمایاں ہوتی ہے۔اس ضمن میں گرداب کی یہ نظمیں مثلاً پرانی فصیل، جمود، تنہائی میں، مسجد قابل توجہ ہیں :
مری تنہائیاں مانوس ہیں تاریک راتوں سے 
مرے رخنوں میں ہے الجھا ہوا اوقات کادامن
مرے سائے میں حال و ماضی رک کر سانس لیتے ہیں 
زمانہ جب گزرتا ہے بدل لیتا ہے پیراہن
151151
یہاں بھٹکی ہوئی روحیں کبھی سر جوڑ لیتی ہیں 
یہاں پر دفن ہیں گزری ہوئی تہذیب کے نقشے 
151151
مری نظروں نے قتل و خوں،ہوس رانی بھی دیکھی ہے
یہاں جذبات بھی عریاں کیے ہیں کج کلاہوں نے 
یہاں لوٹی ہوئی پونجی پہ ماتم بھی کیا آکر
یہاں تھک کر سہارا بھی لیا ہے بادشاہوں نے
(پرانی فصیل)
نظم کے مذکورہ مصرعوں میں اقدار کا نوحہ،ماضی و حال کی کشمکش اور قدیم و جدید کا تصادم واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔شاعر اپنی تنہائی میں مٹتی ہوئی قدروں کو انتہائی بے بسی سے دیکھ رہا ہے اور گہرے صدمے کے باعث اس ماحول سے مغرور اپنی ذات کے خول میں سمٹ کر رہ جاتا ہے۔
اخترالایمان کے پہلے مجموعے کا نام گرداب ان کے اضمحلال او ر اندرونی کرب کی جانب واضح اشارہ ہے۔ ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ شاعر امید و بیم،زندگی و موت اور جمود و حرکت کے گرداب میں کہیں پھنس کر رہ گیا ہے۔ جبکہ دوسرا مجموعہ ’تاریک سیارہ ‘ اس اعتبار سے اہم ہے کہ اس میں ان کا وہی تصادم اور روحانی کشمکش جو ان کے داخل میں کہیں پنہاں و پوشیدہ تھی نمایاں ہے۔ جذبات و احساسات کی سیلانی جو گرداب کی نظموں میں عروج پرتھی وہ ان کی بعد کی نظموں میں قدر سست پڑ جاتی ہے۔گرداب کو شاعر کا مجموعہ اول ہونے کے باوجود دیگر شعرا کے مثل ان کے جذبات و محسوسات کی ابتدائی داستان قرار نہیں دیا جا سکتا بلکہ اس میں انھوں نے اپنی تنہائی، شکستگی،ناکامی اورنا آسودگی کے بعد کے احوال و کوائف کا برملا اظہار کیا ہے۔مسلسل کرب وانتشار اور آلام روزگار کی جو کیفیات اس میں جس شدت کے ساتھ کروٹیں لیتی ہیں اس کا اظہار نہ تو دیگر شعرا کے ابتدائی مجموعوں میں ملتا ہے اور خود اختر الایمان کی بعد کی نظموں میں بھی خال خال ہی نظر آتا ہے۔مثلاً فیض،مجاز، ساحر، جاں نثار اختر وغیرہ کی ابتدائی شاعری میں ہی محبت و الفت اور جذبات ومحسوسات کی دنیا،غم تنہائی،بے چینی اور حزن کی داستان پہلے اور اپنے ماحول اور تہذیب و معاشرت کا بیان بعد ازاں بطور تبدیلی ملتا ہے۔محبت میں ناکامی اور اپنے ماحول سے بیزاری، ہنگامہ خیزی سے تنفراور داخلی کرب اختر الایمان کی نظم ’تنہائی میں،‘ ’ محرومی‘ اور ’جمود‘ میں شدید غم کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ان دونوں نظموں سے چند مصرعے پیش خدمت ہیں جو اس حقیقت حال کو سمجھنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں:
تجھ سے وابستہ وہ اک عہد،وہ پیمان وفا 
رات کے آخری آنسو کی طرح ڈوب گیا 
خواب انگیز نگاہیں وہ لبِ درد فریب 
اک فسانہ ہے جو کچھ یاد رہا،کچھ نہ رہا 
میرے دامن میں نہ کلیاں ہیں نہ کانٹے نہ غبار
شام کے سائے میں واماندہ سحر بیٹھ گئی 
کارواں لوٹ گیا مل نہ سکی منزل شوق 
ایک امید تھی سو خاک بسر بیٹھ گئی...
(محرومی)
محرومی و نا آسودگی اور شدید کرب وانتشار کی یہ کیفیات نہ صرف چند نظموں بلکہ ان کے اولین مجموعے کی ہر نظم کے پس پردہ زیریں لہر کی مانند جاری و ساری ہیں،جس کے مطالعے سے شاعر کی روح بسمل تک بآسانی رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔گرداب کی نظموں سے ظاہر ہوتا ہے شاعر کے نازک آبگینے کو زبردست ٹھیس لگ چکی ہے اور وہ بے حد ملول و نڈھال ہو چکا ہے۔چونکہ اس کے دل کا موسم یاس انگیز اور غم میں ڈوبا ہوا ہے، جس کے باعث اسے اپنے قرب وجوار کا ماحول بھی سوگوار معلوم ہونے لگتا ہے یوں اپنے آس پاس کی ہر شے مثلاً منزل شوق، دم توڑتا سورج، سوکھی ببول، گول سا چاند، محرابیں، دیواریں، راستے اور تالاب وغیرہ پر اس کے آنسو اور غم کا پرتو نظر آتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ جب کسی انسان کو کوئی انوکھا واقعہ پیش آجائے یاکوئی ایسی اچھوتی اور انہونی بات اس کو کہی جائے جوسیدھے اس کے دل کے تاروں کو مس کر دے یا براہ راست اس کے دل پر لگ جائے تواس کے نتیجے میں جس قسم کا جذبہ یا غم پیدا ہوگا وہ اس سے دنیا کا کوئی بھی بڑا کام کروا سکتا ہے۔یہاں بھی شاعر کے شدت غم اور شدت تنہائی و محرومی اور ذات و شخصیت کو مرکز توجہ بنانے کے عمل نے اسے اعلیٰ درجے کی شاعری وجود میں لانے کا ہنر پیدا کر دیا۔جس سے ایسا شعلہ لپکتا ہے کہ وہ جس چیز کو چھو جائے کندن بنا دے۔گرداب کی نظموں سے یہ ادراک بھی ہوتا ہے کہ اس میں ماضی اخترالایمان کے ان ہی تجربات کا حامل ہے جن سے ان کا براہ راست تعلق رہا ہے۔ ماضی کے یہ تجربات ’بطورِ یاد رفتہ‘ان کے حافظے میں محفوظ ہیں جن کا ظہور ان کی نظموں میں وقتاً فوقتاً ہوتا رہا ہے۔ان یادوں میں دونوں کیفیات بیک وقت مل جاتی ہیں، کربناک لمحے بھی اور خوشگوار واقعات بھی۔یہ یادداشتیں اور ماضی کے تجربات کو اگر ان کے انفرادی اور اجتماعی شعور کا حصہ قرار دیا جائے تو مضائقہ نہیں۔ اخترالایمان اپنی شاعری اور ایام گزشتہ کے تجربات سے متعلق’یادیں ‘ کے دیباچے میں لکھتے ہیں: 
’’جو کچھ میں نے لکھا ہے وہ اس وقت نہیں لکھا جب ان تجربات اور محسوسات کی منزل سے گزر رہا تھا انھیں اس وقت قلم بند کیا ہے جب وہ تجربات و محسوسات یاد یں بن گئے تھے جب ہر نشتر کے لگائے ہوئے زخم مندمل ہو گئے تھے ہر طوفان گزر کر سطح ہموار ہو گئی تھی اور ہر رفتہ اور گزشتہ تجربے کی صدائے بازگشت مجھے یوں محسوس ہو رہی تھی جیسے میں ان سے وابستہ بھی ہوں اور نہیں بھی یہی وجہ ہے میری بیشتر شاعری میں ایک یاد کا سا رنگ ہے اور یہ شاعری بیک وقت داخلی بھی ہے اور خارجی بھی۔‘‘ 
ہر گزرنے والا پل ماضی بن جاتا ہے اور جب اس ماضی کو صفحۂ ہستی پر رقم کیا جائے تو تاریخ جنم لیتی ہے جس میں وقت کی ستم ظریفیوں اور شدید قوت عمل کی کارفرمائی شامل ہوتی ہے۔ یہی وقت اخترالایمان کی شاعری میں ایک توانا کردار کی صورت میں سامنے آتا ہے جس کے تیز و تند ریلے میں ہر ایک شے خواہ تہذیب و تمدن ہو یا سماجی اقدار بہتی چلی جاتی ہے۔یہ عدم کو وجود اور وجود کو عدم میں تبدیل کرنے کی زبردست صلاحیت رکھتا ہے۔ وہ انسان کو زیر کرکے اس کے تمام حوصلوں اور قوتوں کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے اور اسے بے بس کر دیتا ہے، جس کے باعث اس کی وقت سے ٹکرانے اور مقابلہ کرنے کی ساری صلاحیتیں مفقود ہو جاتی ہیں۔اس صورت حال سے جو کشمکش اور تصادم پیدا ہوتا ہے وہی ان کی شاعری کا علامیہ قرار پاتا ہے۔اس تصادم میں شاعر ماضی کی اقدار کے روبرو کھڑا نظر آتا ہے۔ جہاں سے وہ ماضی کی تباہی اور ا قدار کی گرتی ہوئی عمارت کا منظر دیکھ رہا ہوتا ہے لیکن اس شکستہ ماضی اوران قدروں سے وابستہ محسوسات و تصورات کے واسطے ماسوا کرب و آہ اور آنسو کے اس کے پاس کچھ نہیں۔ باوجود اس کے وہ اپنے ماضی اورعہد رفتہ سے بری طرح منسلک ہے۔ یہ انسلاک اسے ماضی و حال کے ما بین تذبذب اور الجھن کی کیفیت میں مبتلا کر دیتا ہے۔ گومگو کی یہ کیفیت ان کی نظموں میں ہے۔ بطور مثال ایک اقتباس:
ایک دوراہے پہ حیران ہوں کس سمت بڑھوں 
اپنی زنجیروں سے آزاد نہیں ہوں شاید !
میں بھی گردش گہہِ ایام کا زندانی ہوں 
درد ہی درد ہوں فریاد نہیں ہوں شاید !...
(محرومی)
گرداب کی ان نظموں کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ شاعر اپنی داخلی و خارجی زندگی کی الجھنوں میں گرفتار ہے۔ یہاں اس کے آگے بڑھنے اور واپس پلٹنے سے متعلق متضاد رویے سامنے آتے ہیں۔وہ اس مسافر کی طرح راستے کے پیچ و خم میں گھر کر رہ جاتا ہے جس کی نہ آگے کی سمت و راہ متعین ہے اور نہ ہی پیچھے پلٹنے کا راستہ سجھائی دیتا ہے۔ شدید کرب اور احساس تنہائی کے تحت شاعر ایک ایسے سفر پر گامزن ہو جاتا ہے جس کے اختتام پر فہم و ادراک کی منزلیں اس کی منتظر تھیں۔لیکن ادراک و احساس کی یہ راہیں اس کے لیے مکمل طور پر واضح نہیں تھیں یوں اسے پیچیدہ راستے پر بڑھتے رہنے میں کافی دشواری پیش آتی ہے۔ نظم پگڈنڈی سے یہ داخلی کشمکش کی کیفیات صاف مترشح ہے۔
’گرداب ‘کے بعد شاعر نے انفرادی اور شخصی شاعری سے احتراز کرنا شروع کر دیا۔غالباََ اس کی اہم وجہ یہ رہی ہوگی کہ شاعر مسلسل روحانی کرب و اضطراب، محرومی اور تنہائی کے عمیق سناٹے سے عاجز اور اوب گیا ہوگا اس لیے بغرض ذہنی کرب سے نجات حاصل کرنے اور کچھ تقاضائے فطری کے مطابق اپنی توجہ خارجی عوامل سے پر شاعری کی طرف مرکوزکردی۔یہ تبدیلی اخترالایمان کے یہاں ان کے دوسرے مجموعۂ نظم’تاریک سیارہ‘ سے اجاگر ہونے لگتی ہے۔ اب وہ غم تنہائی اور خود اذیتی کی سطح سے بالا تر ہوکر زمینی مظاہر ا ور خارجی تصورات کو اہمیت دینے لگتا ہے۔ شاعر کے اس رد عمل کے بعد ان کی نظموں سے وہ گہرائی و گیرائی اور جذبے کی شدت ناپید ہونے لگی جو اس کی شاعری کا بنیادی محرک تھا۔ اس مراجعت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اخترالایمان ’آبجو‘ کے دیباچے میں لکھتے ہیں:
’’ احباب کے ایک حلقے میں یہ غلط فہمی پیدا ہوئی کہ ’گرداب‘ کی شاعری قنوطی، یاس انگیز اورگھٹن لیے ہوئے ہے۔ اس غلط فہمی کی بنیاد یہ ہے کہ شاعری کی طرف ہمارے اکثر پڑھنے والوں کا رویہ سنجیدہ نہیں ہے... گرداب کی جن نظموں سے زیادہ غلط فہمی ہوئی وہ مسجد، موت، قلوبطرہ، پگڈنڈی، تنہائی میں وغیرہ وغیرہ ہیں۔‘‘
بعد ازاں شاعر نے مذکورہ نظموں سے متعلق اظہار خیال بھی کیا کہ یہ نظمیں بڑے بڑے موضوعات کو پیش کرتی ہیں اور انھیں کسی نہ کسی علامیہ کا نتیجہ قرار دیا۔اور انھیں شاعر کی ذاتی زندگی کی ناکامیوں، محرومیوں اور داخلی کرب سے کوئی واسطہ نہیں۔ گویا احباب نے شاعر سے کہا ہوگا کہ بڑے بڑے واقعات اور موضوعات ہی عظیم شاعری کی اصل ضمانت ہوتے ہیں۔محض ذات و شخصیت کو ہی موضوع اظہار بنایا جائے تو اس سے قنوطی اور یاس انگیز شاعری ہی وجود میں آئے گی۔گمان اغلب ہے کہ اسی وجہ سے انھوں نے اس دیباچے کے ذریعے اپنی شاعری میںیاس اور قنوطیت کی نفی کی ہوگی۔جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ دل کی گہرائیوں سے جو بات نکلتی ہے وہی فن کی معراج کو پہنچتی ہے۔ایک عظیم شاعر اگر اظہار ذات کو مظاہر دنیا اورلا محدود کائنات کے ادراک سے آمیز کرکے بصورت فن پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کے دیر پا اثرات ذہن و دل کے پردے پر مرتسم ہوئے بغیر نہیں رہتے۔ اس طرز فکر سے شعوری طور پر اجتناب کرکے اخترالایمان نے جومقبول عام اور خارجی محرکات کے زیر اثر شاعری کی اس نے ان کی شاعری کی شدت کو نقصان پہنچایا۔تاریک سیارہ میں شامل بیشتر نظمیں اسی خارجیت کے قبیل میں شمار کی جا سکتی ہیں۔مثلاً:
میں ہوں ایسا راہی جس نے دیس دیس کی آہوں کو
لے لے کر پروان چڑھایا اور رسیلے گیت بنے
چنتے چنتے جگ کے آنسو اپنے دیپ بجھا ڈالے 
میں ہوں وہ دیوانہ جس نے پھول لٹائے خار چنے!
میرے گیتوں اور پھولوں کا رس بھی سوکھ گیا تھا آج
میرے دیپ اندھیرا بن کر روک رہے تھے میرے کاج...
(انجان)
لیکن یہ طریق کار زیادہ دیر قائم نہ رہ سکا چونکہ اخترالایمان ایک منفرد لب و لہجے کا شاعر ہے وہ عام نظریات پر مبنی شاعری پر کیوں کر اکتفا کر سکتا تھا۔ غم انگیز اور داخلی کرب و گھٹن کی شدت کو کچھ حد تک کم تو کر دیا تھا لیکن مکمل طور پر ختم نہیں کیا تھا۔لہٰذا تاریک سیارہ کے بعد ازسر نو اپنے ماضی کی جانب واپسی کا سفر اختیار کرتا ہے۔ وہ یادیں جو شاعر کی زندگی کرنے کا وسیلہ تھیں جن کو گردش ایام نے دھندلا کر دیا تھا بجلی کے ایک کوندے نے ان گرد آلود یادوں کو ایک بار پھر چمکا دیا اور وہ یادیں ایک کے بعد ایک اس کے ذہن کے پردے پر نمودار ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ مراجعت کے بعد بھی اس نے ایسی عمدہ نظمیں تخلیق کیں جن میں زخمی روح،کسک اور کرب تو نہیں البتہ پہلے سا خلوص اور ایام رفتہ کی خلش ضرور ملتی ہے۔ماضی کی جانب مراجعت اور بازیافت کا یہ عمل تاریک سیارہ کے بعد کی نظموں باز آمد، واپسی، ریت کے محل، ڈاسنہ کے اسٹیشن کا مسافر ، ایک لڑکا ، یادیں ،رخصت، شفقی وغیرہ میں بخوبی دیکھا جا سکتا ہے:
مجھے اک لڑکا،جیسے تند چشموں کا رواں پانی 
نظر آتا ہے،یوں لگتا ہے جیسے اک بلائے جاں 
مرا ہم زاد ہے ہر گام پر ہر موڑ پر جولاں 
اسے ہمراہ پاتا ہوں،یہ سائے کی طرح میرا 
تعاقب کررہا ہے جیسے میں مفرور ملزم ہوں
151151
میں اس لڑکے سے کہتا ہوں وہ شعلہ مر چکا جس نے 
کبھی چاہا تھا خاشاکِ دو عالم پھونک ڈالے گا 
یہ لڑکا مسکراتا ہے،یہ آہستہ سے کہتا ہے 
یہ کذب و افترا ہے جھوٹ ہے،دیکھومیں زندہ ہوں؟...
(ایک لڑکا )
ان میں اور ان جیسی دیگر نظموں میں شاعر کی اپنے ماضی کی جانب واپسی واضح طور پر اجاگر ہوتی ہے اور یہ واپسی اس کے اپنے گزشتہ ماحول اور گزشتہ زندگی سے ازسر نو ملاقات کی صورت میں ظاہر ہوئی ہے۔ اس مراجعت میں شاعر نہ صرف ماضی قریب کی طرف پلٹتا ہے بلکہ بسا اوقات وہ اپنے ایام جوانی سے گزر کر اپنے لڑکپن تک رسائی حاصل کر لیتا ہے۔جہاں ایک لڑکا جو کہ اس کا ہم زاد ہے اس کے حافظے کے پردے سے نمودار ہو کر اس کی جگہ لے لیتا ہے۔مراجعت کا یہ جذبہ اس پر اس درجہ حاوی ہوتا ہے کہ وہ شدت احساس سے مغلوب ہو کر اپنے ماضی میں چھپنے کی شعوری کوشش کرتا ہے اور اپنے ہمزاد کو جھٹلا کر اسے یہ باور کرا دینا چاہتا ہے کہ اس کے باطن میں بھڑکتا ہوا شعلہ اب سرد پر چکا ہے جس میں کبھی ایک خاشاک دو عالم کو پھونک ڈالنے کی شدید خواہش تھی۔ لیکن اس کا ہمزاد اس سے اتفاق نہیں کرتا۔معلوم ہوتا ہے شاعر نے خود ہی ان شراروں کو راکھ تلے دفن کردیا ہے جس سے یہ دکھانا مقصود ہے کہ اب اس کوداخلی گھٹن، قنوطیت اور زندگی کی محرومیوں اور شکستگی سے کوئی علاقہ نہیں۔جبکہ وہ جانتا ہے گر چہ غیر واضح طور پر ہی سہی ذات کی پنہائیاں، روح کی کسک،زندگی کی کشمکش،کرب اور خود نفسی کی کیفیات کو نہ تو فراموش کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی نظر انداز۔ماحول چاہے جتنا بدل جائے لیکن دل کی گھٹن اور سوگواری فضاؤں میں بھی مغمومیت اور سوگواری تحلیل کر دیتی ہے۔ تاہم سلسلۂ زیست کا یہ تصور ہنوز قائم اور جاری رہتا ہے۔
اس دفعہ کی مراجعت میں اسے اپنے لڑکپن کی وہ تابندہ باتیں یاد آتی ہیں جو گزرتے وقت کے ساتھ کہیں پیچھے چھوٹ گئی تھیں جن کا احساس زیاں اسے شدید کرب میں مبتلا کر دیتا ہے۔البتہ ماضی کی بازیافت میں وہ اپنے عہد کے فکری و فنی تقاضوں کو نظر انداز نہیں کرتے۔ بلکہ اپنے تجربات و مشاہدات کو اردو کی شعری روایت سے جوڑتے ہوئے فن کے قالب میں ڈھالتے ہیں۔اس لیے ان کی تخلیقات میں جو ڈکشن جنم لیتا ہے وہ مختلف اسالیب، جدید شعری رویوں،نئی حسیت،نئے طرز احساس اور منفرد لب و لہجے کا پتا دیتا ہے۔یہی وہ نکتہ ہے جو انھیں ان کے ہم عصر شعرا میں بنیادی امتیاز بخشتا ہے۔
کتب:
.1 کلیات اختر الایمان: مرتبہ سلطامہ ایمان، بیدار بخت، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،دہلی، سنہ اشاعت2000
.2 نظم جدید کی کروٹیں: وزیر آغا، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ، سنہ اشاعت2000
.3 جدیداردو نظم: نظریہ و عمل: پروفیسر عقیل احمد صدیقی، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ،سنہ اشاعت 2012
.4 نظموں کے تجزیے:مرتبہ پروفیسر قاضی افضال حسین، مسلم ایجوکیشنل پریس، بنی اسرائیلان، علی گڑھ سال اشاعت 2009

Anjum Parveen
Research Scholar, Dept of Urdu
Aligarh Muslim University
Aligarh - 202001






قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں