28/3/19

اردو صحافت میں خواتین کا حصہ مضمون نگار: پروفیسر قمر جہاں


اردو صحافت میں خواتین کا حصہ
پروفیسر قمر جہاں
خواتین ہمارے سماج کا ناگزیر حصہ ہیں، جنھیں نصف بہتر کا درجہ حاصل ہے۔ آج وہ مردوں کے دوش بدوش زندگی کے تقریباً ہر شعبے میں گامزن ہیں۔ خواتین کی کارکردگی اور محنتِ شاقہ کے نقوش کہاں مرتسم نہیں ہیں؟ ایک زمانہ تھا جب صحافت انجینئرنگ اور فوج میں خواتین نہیں ہوتی تھیں، مگر عہدِ حاضر میں ہر شعبے میں وہ موجود ہیں اور اپنے فرائض بہ حسن و خوبی انجام دے رہی ہیں۔
’صحافت‘ کو جمہوریت کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے اور سچ پوچھیے تو عہدِ حاضر میں اس چوتھے ستون کی اہمیت اس قدر بڑ ھ گئی ہے کہ میڈیا ہی ’چوتھی ریاست‘ بن گئی ہے151 دنیا جو واقعی اب ایک عالمی گاؤں میں مبدل ہوچکی ہے، جہاں ان دنوں عوامی ذرائع ابلاغ یعنی ماس کمیونیکیشن کا ایک جال سا بچھ گیا ہے، انٹرنیٹ، کمپیوٹر، الیکٹرونک وسائل (E-mail)، فیکس، موبائل، فون، ریڈیو، ٹی وی، ویڈیو کانفرنسگ، سٹیلائٹ چینلوں نے پورے معاشرے کو اپنی مضبوط گرفت میں لے لیا ہے اور بچہ بچہ کھیل کھیل میں وہاں تک پہنچ گیا ہے۔ اس بدلی ہوئی صورتِ حال میں ہماری خواتین بھی یقیناًکافی ترقی یافتہ ہوگئی ہیں۔ نئی تعلیم یافتہ لڑکیاں ہوں یا لڑکے، ان میں ذہنی و تعلیمی بیداری کے لحاظ سے کوئی حدِّ امتیاز نہیں ہے۔
’صحافت‘ بھی خواتین کی دلچسپی اور کارکردگی کا محبوب و پسندیدہ موضوع ہے۔ غور کیا جائے تو عہدِ رواں میں صحافت کے بھی کئی شعبے ہیں، عام طور سے انھیں دو شاخوں میں تقسیم کیا گیا ہے یعنی پرنٹ میڈیا اور برقی میڈیا مگر حقیقت یہ ہے کہ الیکٹرونک میڈیا اور پرنٹ میڈیا ترسیل و ابلاغ کی دو علیحدہ شاخیں ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے قریب ہیں اور سچی بات یہ ہے کہ پرنٹ میڈیا کو بھی الیکٹرونک میڈیا کا ہی تعاون حاصل ہے۔ زمانۂ قدیم کی طرح اب چھاپہ خانہ یا کاتب وغیرہ کی ضرورت نہیں رہی۔ اب کمپیوٹر کمپوزنگ کا دور ہے جو خالص ترقی یافتہ شکل ہے۔ کتب و رسائل کی اشاعت کا مرحلہ ہو یا اخبارات کی طباعت کا، یہ تمام کام عہدِ حاضر میں جناتی کرشمے کی طرح تیز تر ہوگئے ہیں۔ اس نئے ماحول میں ہماری خواتین جرنلسٹ بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ خواتین صحافی خواہ پریس میڈیا میں ہوں یا نیوز چینل (برقی میڈیا میں) تعداد ان کی بڑھتی ہی جارہی ہے اور خوشی کی بات یہ ہے کہ معیار و مذاق میں بھی وہ اپنے دیگر ساتھیوں کے ہم پلہ ہیں۔
آئندہ صفحات میں چند نام درج کیے جارہے ہیں جن کی خدمات کا اعتراف کیا جانا چاہیے۔ موضوع چونکہ اردو صحافت ہے، لہٰذا ہماری نظرِ انتخاب ایسی خواتین پر ہے جو اردو صحافت میں اپنی پہچان بنا چکی ہیں۔ اس سلسلے میں ایک اہم نام جناب عبدالستار دلوی کی صاحب زادی محترمہ شیریں دلوی کا ہے۔
وہ بمبئی میں اقامت پذیر تھیں اور ’اودھ نامہ‘ بمبئی کی ایڈیٹر رہی ہیں۔ محترمہ شیریں دلویAssociate Journalist کے علاوہ ٹیلی ویژن سے بھی وابستہ رہی ہیں۔ Form against opperation of Women کی صدر کے عہدے پر فائز تھیں۔
دوسری صحافی عالیہ نازکی ہیں، جن کا آبائی وطن کشمیر ہے۔ تعلیم دہلی میں JNU سے حاصل کی تھی۔ بی بی سی (BBC) کے اردو پروگرام شہر 'B' کو پیش کرتی تھیں۔ یونیسکو سے انھیں ایک خطاب Shapping the future of Journalism کے نام سے ملا تھا۔ وہ اپنے وقت کی ایک مقبول و معروف صحافی ہیں۔
مدھیہ پردیش میں خالدہ بلگرامی کا نام اولیت کے لحاظ سے خاص امتیاز رکھتا ہے۔ شاذیہ دہلوی India Today میں اپنی نمایاں کارکردگی کے لیے پہچان رکھتی ہیں۔ اسی طرح محترمہ وسیم راشد اردو اخبار ’چوتھی دنیا‘ دہلی کی معاون مدیرہ ہیں اور اپنی صحافتی خدمات کے لیے پہچانی جاتی ہیں۔ ریشماں اختر کا تعلق مشہور ’عالمی سہارا‘ چینل سے ہے۔ نائب مدیر نازیہ نوشاد حالیہ دنوں میں پٹنہ سے شائع ہونے والے مقبول اخبار ’راشٹریہ سہارا‘ میں اپنی نمایاں کارکردگی سے اپنی شناحت قائم کرچکی ہیں۔ محترمہ اس اخبار کی نائب مدیر ہیں۔ زرّیں فاطمہ مشہور اردو اخبار ’انقلاب‘ پٹنہ سے وابستہ ہیں، موصوفہ اس اخبار میں نائب مدیر کے عہدے پر فائز ہیں اور اردو صحافت میں ان کی دلچسپی خصوصی ہے۔ عہدِ حاضر میں اردو صحافت کا نصب العین ملک کے اندر قومی یکجہتی کو فروغ دینا اور سیکولرزم کی خصوصیات کو اجاگر کرنا ہے۔ ایک وقت تھا کہ بنگلہ زبان کے ساتھ سب سے پہلے اردو اخبارات نے ہی قوم کو آزادی کے خواب دکھائے تھے اور آزاد ہندوستان کے خواب کو اپنی مسلسل کوششوں سے شرمندۂ تعبیر کیا تھا۔ جنگِ آزادی کی تاریخ میں اردو اخبارات کے نام سنہری حرفوں میں لکھے گئے ہیں۔ اس کے مشہور اخبارات میں قومی آواز، نوائے وقت، ہندوستان، ریاست، رہبر ہند وغیرہ بے شمار اردو اخبارات کے نام ہمارے ماضی کی شاندار وراثت ہیں۔
اردو اخبارات کے حوالے سے چند نام اور ذہن میں آرہے ہیں۔ ان تمام خواتین صحافی کی خدمات یقیناًقابلِ تعریف ہیں۔ اخبار ’نوائے وقت‘ کی مدیرہ عارفہ صبیحہ ’نویدِ وقت‘ کی ایمان محمد جو پہلی خاتون صحافی ہیں جنھوں نے غزہ و اسرائیل جنگ کی تصویرکشی کرکے اپنا نام War Photo Journalist میں درج کرایا ہے۔ محترمہ ثومی خاں کرائم جرنلسٹ کی حیثیت سے مشہور ہیں۔ 1948 میں فاطمہ بیگم نے لاہور سے پہلا اردو اخبار ’خاتون’ کے نام سے نکالا تھا۔ ان کے علاوہ زاہدہ حنا، پروین شاکر، عاصمہ چودھری، زبیدہ مصطفیٰ، زیب النساء، فرحت صدیقی غرض بہت نام ہیں جو اخباراتِ اردو میں خواتین صحافی کی حیثیت سے مشہور ہیں۔ ان میں ایک اہم نام محترمہ فوزیہ شاہین کا ہے جو اخبار ’جنگ‘ سے وابستہ ہیں۔ BBC on line urdu service کی اپنی کارکردگی کے لیے محترمہ فوزیہ شاہین کو ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔ یونیسکو سے Women Media of Pakistanکا خطاب حاصل کرچکی ہیں۔ مشہور افسانہ نگار زاہدہ حنا، اور شاعرہ پروین شاکر بھی ’جنگ‘ میں کالم نویس کی حیثیت سے مشہور رہی ہیں۔ یہ دونوں ممتاز و مقبول نام اپنے آبائی وطن کے لحاظ سے ہندوستانی ہیں۔ عاصمہ چودھری اخبار ’ڈان‘ میں ہیں اور جنگ گروپ میں نائب مدیر تھی۔ ثمیرہ عزیز پہلی سعودی خاتون ہیں جو میڈیا میں کام کررہی ہیں۔ ’آواز‘ میں مینیجنگ ایڈیٹر ہیں ۔ ساتھ ہی اردو نیوز (سعودی سے) کی سپروائزنگ ایڈیٹر اور گوشۂ خواتین کی انچارج ہیں۔
صوبۂ بہار میں تسنیم کوثر ایک طویل مدت تک ٹی وی پر نیوز ریڈر رہی ہیں۔ محترمہ اچھی افسانہ نگار ہیں۔ ’بونسائی‘ ان کے افسانوں کا مجموعہ ہے۔ خواتین میں بیشتر نام آج الیکٹرونک میڈیا میں چمک رہے ہیں۔ اخبارات سے وابستہ خواتین صحافی ہیں تو ضرور مگر مردوں کے مقابلے میں ان کی تعداد بہت کم ہے۔ اپنی قلمی صلاحیت کے اعتبار سے بھی یہ خواتین ایم جے اکبر اور احمد سعید خاں وغیرہ کے مقابلے میں نہیں آتی ہیں۔ دراصل اردو سے آشنا خواتین نے صحافت کو بہت بعد میں لائق توجہ سمجھا ہے۔ اس کے لیے جس آزاد ماحول اور کھلے ذہن و دماغ کی ضرورت ہے اس سے ہماری خواتین اب قریب ہورہی ہیں۔ اب تو باضابطہ صحافت کی تعلیم مختلف یونیورسٹیوں میں ہورہی ہے۔ مردوں کے ساتھ خواتین بھی صحافت میں سند حاصل کررہی ہیں۔ ویسے اس کورس کے لیے جن سہولیات کی ضرورت ہے وہ فی الحال ہر یونیورسٹی میں دستیاب نہیں ہیں۔ خاص کر اردو مضمون میں بڑی تشنگی کا احساس ہوتا ہے۔ نہ تو اس فن کے ماہر اساتذہ ہیں نہ دیگر سہولیات میسر ہیں151 برقی میڈیا میں خواتین صحافی کی تعداد دنوں دن بڑھتی جارہی ہے لیکن اردو زبان سے دوری اردو صحافت کے عمومی معیار کو مجروح کررہی ہے۔ مثل مشہور ہے کہ ’’بات کہنے کوبھی سلیقہ چاہیے۔‘‘ ہمارے خیال میں اردو ادب سے ناواقفیت نے حسنِ گفتار میں کمی پیدا کی ہے۔ جب کہ صحافت کے پیشے میں زبان دانی ایک ضروری شرط ہے، خاص کر اردو شعر و ادب سے واقفیت زورِ خطابت کے لیے ضروری ہے۔
صحافت کی ایک اہم شاخ جرائد و رسائل کی اشاعت بھی ہے۔ خواتین کی ایک بڑی تعداد زمانہ دراز سے مدیرہ یا معاون مدیرہ کی حیثیت سے مختلف و متنوع اردو رسائل و جرائد میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ یقینی طور سے ان میں سے بیشتر کے نام صرف نام تک ہی ہیں، کام کے معاملے میں ان کا صحافتی شعور ایک دم ناپختہ ہے۔
ادبی صحافت میں ہمارے پیشِ نگاہ 1910 میں مس زہرا نذر الباقر کا لیا جاتا ہے جو اخبار ’پھول‘ کی ایڈیٹر تھیں اور حقوقِ نسواں پر زوردار مضامین لکھا کرتی تھیں۔ ان کے کئی ناول بھی یادگار ہیں۔ دوسرا اہم نام محمدی بیگم کا ہے۔موصوف خود اپنے عہد کی اچھی ادیبہ اور ناول نگار تھیں۔ اردو کے ممتاز ڈرامانگار امتیاز علی تاج کی والدہ اور مولوی سیدممتاز علی کی اہلیہ تھیں۔ ان کی ادارت میں خواتین کا مقبول عام جریدہ ’تہذیب نسواں’ پنجاب (لاہور) سے نکلتا تھا۔ اس میں بیشتر خواتین قلمکاروں کی تحریریں ہوتی تھیں۔
آزادی سے قبل اگست 1943 میں بنگلور سے ’نیا دور‘ کا اجرا ہوا، جس کی ادارت ممتاز شیریں اپنے خاوند صمد شاہین کے ساتھ کرتی تھیں۔ ممتاز شیریں اردو ادب میں کئی حیثیتوں سے ممتاز ہیں۔ فکشن نگار ہونے کے ساتھ فکشن کی بہترین ناقد، اردو انگریزی دونوں زبانوں کے ادب پر یکساں دسترس، منٹو شناسی میں ماہر اور ایک دانشور خاتون صحافی کی حیثیت سے وہ ہمیشہ یاد کی جائیں گی۔
مقبول عام رسالہ ماہنامہ ’آجکل‘ دہلی میں محترمہ نرگس سلطانہ معاون مدیرہ کی حیثیت سے ایک عرصے سے کام کررہی ہیں اور اپنی اعلیٰ کارکردگی سے متاثر کرہی ہیں۔
خواتین کا رسالہ ’بزمِ ادب‘ علی گڑھ جس کی مدیرہ مشہور شاعر خلیل الرحمن اعظمی کی اہلیہ راشدہ خلیل ہیں۔ یہ رسالہ سال میں ایک بار ماہ جنوری میں منظرِ عام پر آتا ہے۔ اب تک اس کے کل 17 یا 18 شمارے آچکے ہیں۔ ادبی لحاظ سے بزمِ ادب خواتین کے ادب میں انفرادیت قائم کرچکا ہے۔ اس میں صرف خواتین کی ہی نگارشات شائع ہوتی ہیں۔
جنوبی ہند کا کثیرالاشاعت و مقبول عام جریدہ ’زریں شعائیں‘ جو ماہنامہ کی صورت پابندی کے ساتھ بنگلور سے شائع ہورہا ہے، اس میں پرنٹر پبلشر اور ایڈیٹر کی حیثیت سے محترمہ فریدہ رحمت اللہ ہیں، تقریباً 26 سال سے شائع ہونے والا دلچسپ معلوماتی مجلہ ہے جس میں مذہبی، ادبی سیاسی علمی و سائنسی غرض تمام موضوعات کا احاطہ کیا جارہا ہے۔ مجلسِ مشاورت میں بھی تمام نام خواتین کے ہیں۔ ہمارے پیشِ نظر خواتین صحافی میں محترمہ فریدہ رحمت اللہ کافی مشہور و مقبول ہیں۔
شہر الٰہ آباد سے شائع ہونے والا سہ ماہی ’پہچان‘ خاص ادبی و تنقیدی مزاج کا حامل ہے اور ادب میں اس کی واقعی ایک پہچان ہے۔ اس کی ادارت محترمہ زیب النسا اور اشفاق نعیم کرتی ہیں۔ حیدرآباد سے نکلنے والا مشہور و خالص ادبی رسالہ ’شعر و حکمت‘ کتاب دو، دورِ سوم) مرتبین میں شہریار اور مغنی تبسم کے ساتھ اختر جہاں بہ حیثیت ایڈیٹر اور شفیق فاطمہ شعریٰ معاون کی حیثیت سے جلوہ افروز تھیں۔ ایک زمانے میں ’سوغات‘ بنگلور میں محمود ایاز کے ساتھ ان کی اہلیہ مریم ایاز کے علاوہ شائستہ یوسف بھی دیکھی جاسکتی ہیں151 کتابی سلسلہ سہ ماہی ’آمد‘ پٹنہ میں مدیر اعزازی خورشید اکبر ہیں اور مدیرہ ان کی بیگم عظیمہ فردوسی ہیں۔ عہد حاضر میں اردو کا یہ ایک معیاری رسالہ ہے، جس میں ادب کے زندہ لہو کی گردش آپ محسوس کرسکتے ہیں۔
’کوہسار جرنل‘ (بھاگلپور) میں ڈاکٹر مناظر عاشق کے ساتھ نینا جوگن ’مباحثہ‘ (پٹنہ) میں پروفیسر وہاب اشرفی کے پہلو بہ پہلو محترمہ نسیمہ اشرفی کو بہ حیثیت خاتون صحافی آپ دیکھ سکتے ہیں۔ حالیہ ’بیسویں صدی‘ میں مدیرہ شمع افروز زیدی اور ’پاکیزہ آنچل‘ میں رخسانہ صدیقی بہ حسن و خوبی مدیر کے فرائض انجام دے رہی ہیں، اور عوامی ادبی حلقے میں یہ دونوں رسائل خاصے مشہور و مقبول ہیں۔ ’بانو‘ (دہلی) اب بند ہے مگر خواتین میں کئی خانے میں اپنی پہچان رکھتا تھا، اسی طرح عصمت، حریم، خاتون مشرق وغیرہ میں بھی خواتین کی صحافت کے نمونے موجود ہیں۔ شمس الرحمن فاروقی کا جدیدیت کا ترجمان رسالہ ’شب خون‘ کی مدیرہ ایک طویل عرصے تک فاروقی کی اہلیہ عقیلہ شاہین تھیں۔ کرناٹک اردو اکادمی کی سکریٹری اور اکادمی کے رسالہ کی مدیرہ محترمہ فوزیہ چودھری ہیں۔ 1966 میں بمبئی سے ’قمر‘ رسالہ نکلتا تھا جس کی مدیرہ شاعرہ مینا ناز تھیں اور معاون شاد ککرالوی تھے۔
اب ذرا عظیم آباد کی طرف آئیے اور ماضی میں جائیے۔ دسمبر 1967 میں پٹنہ شہر سے ’زیور‘ خواتین کا مقبول ترین جریدہ محترمہ سلمیٰ جاوید کی ادارت میں شائع ہوتا تھا اور 1972-73 تک باقاعدگی سے محترمہ ’زیور‘ کو آراستہ کرتی رہیں۔ سلمیٰ اردو کی اچھی اسکالر اور افسانہ نگار تھیں۔ ماہ منیر خاں کی صاحب زادی تھیں ان کے بڑے بھائی رضوان احمد خاں مدیر اعزازی کی حیثیت رکھتے تھے۔ وہ خود ایک مشہور و بے باک تھے۔ ’عظیم آباد اکسپریس‘ موصوف کی شعلہ بیانی کے لیے آج بھی مشہور ہے۔
شہر گیا سے نکلنے والا رسالہ ماہنامہ ’آہنگ‘ جس کے چیف ایڈیٹر کلام حیدری تھے۔ مدیر کے کالم میں نوشابہ حق کا نام دیکھنے کو ملتا ہے۔ روزنامہ ’پندار‘ پٹنہ جو آج بھی باقاعدگی سے شائع ہورہا ہے۔ قائم شدہ ایڈیشن 1974 میں ایڈیٹر کی حیثیت سے جہاں آرا صاحبہ تھیں۔ پٹنہ سے نکلنے والا روزنامہ ’ان دنوں‘ کی مدیرہ نکہت سلطانہ ہیں۔ 1990-91 میں یہ روزنامہ صرف ایک روپے کی قیمت میں اپنے قارئین کے ذوق کی تسکین کرتا تھا۔ ہفتہ وار ’وطن کے رنگ‘ پٹنہ میں قاضی عبدالوارث کے ساتھ خورشید جہاں ہیں۔ پندرہ روزہ اخبار ’مگدھ پنج‘ پٹنہ 1978 میں معصوم اشرفی کے ساتھ محترمہ شمشاد جہاں کو دیکھ سکتے ہیں۔ رسالہ ’مفاہیم‘ دورِ اول گیا 1979 میں افسری جبیں صاحبہ، تاج انور اور شاہین نظر کی معاون ہیں۔ ’زیب النسا‘ نام سے ایک رسالہ 1937 میں چھپرہ سے شائع ہوا تھا۔ مدیرہ کا نام بھی زیب النسا ہی ہے۔
مجھے اس بات کا احساس ہے کہ ناموں کی اس کھتونی میں خواتین صحافی کی خدمات کا عکس نمایاں نہیں ہوسکا ہے اس لیے کہ ہر نام کے ساتھ کوئی نہ کوئی اہم نام بھی سامنے آگیا ہے۔ البتہ اردو صحافت کی عام صورتِ حال کے پیشِ نظر یہ تو کہا ہی جاسکتا ہے کہ اردو صحافت کا معیار ابھی بھی بہت تسلی بخش نہیں ہے۔ یہاں ادبی و شعری حصہ ضرور بہت زرخیز ہے مگر سائنسی اور آئے دن ہونے والی نئی نئی تحقیقات سے اردو صحافت کو رنگین اور کارآمد بنانے کی ضرورت ہے۔ ہماری خواتین صحافی اس طرف آسانی سے توجہ دے سکتی ہیں۔

Prof. (Mrs.)., Quamar Jahan, 
3- Bhikhanpur Hatia, Bhagalpur - 812001 (Bihar)


ماہنامہ اردو دنیا ،مارچ 2016





قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں