28/3/19

شکیب جلالی کی غزلوں میں عصری حسیت مضمون نگار: سلیم انور


شکیب جلالی کی غزلوں میں عصری حسیت

سلیم انور

بیسویں صدی کے نصف اول میں چند ایسے شعرا ابھرے جنھوں نے غزل کی شاہراہ پر قدم رکھا اور مشعل غزل کو از سر نوتجلی بخشی اور اسے اپنے خیالات و تجربات سے ایک ممتاز اور بلند مرتبے سے ہمکنار کیا۔ ان شعرا میں ناصر کاظمی، خلیل الرحمن اعظمی، احمد ندیم قاسمی، ظفراقبال، عرفان صدیقی، احمد مشتاق، احمد فراز اور شہزاد احمد وغیرہ اہم ہیں۔انھیں کے درمیان ایک ایسا جواں مرگ شاعر بھی تھا جس کی عمر انتہائی قلیل تھی، میری مراد اردو غزل کی امید گاہ اور عصررواں کی روح تصور کیے جانے والے شاعر شکیب جلالی سے ہے۔ان کا اصل نام سید حسن رضوی تھالیکن شاعری میں شکیب تخلص کرتے تھے۔ یکم اکتوبر 1934 کو اترپردیش کے شہر علی گڑھ کے ایک قصبے میں پیدا ہوئے۔لیکن بعدمیں پاکستان چلے گئے جہاں محض 32 برس کی عمر میں12نومبر 1966 کوراہی ملک عدم ہوئے۔قلیل عمر میں انھوں نے شعرو ادب کی دنیا میں بڑا کارنامہ انجام دیا اور سرمایۂ غزل کونہ صرف وسعت بخشی بلکہ نئے نئے شعری تجربے بھی کیے، جس کے باعث ان کا شمار نئی شاعری کے چند اہم اور معتبر شعرا میں کیا جاتا ہے۔ ابوالکلام قاسمی لکھتے ہیں:
’’بر صغیر کی تقسیم کے بعد ہندو پاک میں جن معدودے چند غزل گو شعرا نے اپنے لہجے اورفکری رویوں سے تازگی اور سلیقۂ اظہار کا ثبوت فراہم کیا ان کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔ شکیب جلالی کا شمار یقینی طور پر ایسے ہی ممتاز غزل گو شاعروں میں کیا جاسکتا ہے۔ شکیب جلالی، ناصر کاظمی اور خلیل الرحمن اعظمی کے نسبتاً کم عمر معاصرین میں تھے۔ ان کی ابتدائی غزلوں نے ہی ادبی جرائد کے قارئین کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی تھی، یہ محض سوئے اتفاق تھا کہ قدرت نے ان کو طویل عمر سے نہیں نوازا۔ مگر دو دہائی کے عرصے میں انہوں نے جو کہا، اسے انتخاب کا نام دیا جانا چاہیے۔‘‘ 
(شکیب جلالی کی غزل کے امتیازات: پروفیسر ابوالکلام قاسمی، مشمولہ:کلیات شکیب جلالی،فرید بک ڈپو نئی دہلی2007،ص82)
15برس کی عمرمیں شکیب جلالی کے شعری سفر کا آغاز ہوگیا تھا۔ ان کا مکمل سرمایۂ سخن محض 17سال کی ریاضت کا ثمرہ ہے۔ انھوں نے اردو شاعری کی جملہ اصناف سخن غزل، نظم، قطعہ اور رباعی میں طبع آزمائی کی ہے۔ لیکن اصلاً وہ غزل کے شاعر ہیں۔ ان کی اکثر نظمیں نہ صرف غزل کی ہیئت میں ہیں بلکہ ان میں غزل سا رنگ و آہنگ اور غنائیت بھی موجزن ہے جس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ صنف غزل سے انھیں کس قدر انسیت تھی۔ انھوں نے احساسات و جذبات اور تجربات کی سنگلاخ گھاٹیوں کی بادیہ پیمائی کی، اس کے بعد دنیائے شاعری میں ورود فرمایا اور غزل کی ایسی آبیاری کی جو ضرب المثل ہے، اس میں ایسی رنگ آمیزیاں اور ایسی کشش پیدا کی جو دلنشیں ہے،وہ مزاج اور وہ ساز و آہنگ عطا کیا جو لوگوں کے داخلی جذبہ و احساس کا بوسہ لیتے ہیں۔ اپنے افکار و خیالات، جدید رجحانات، شعوری وجدان، گہرے فنی رچاؤ، ادراک و آگہی کی بالیدگی سے غزل کے سرمایہ میں وہ بیش بہا اضافہ کیا کہ اس سے غزل نے ایک سنبھالا لیا اور اس میں ابدی عظمت و وقعت کے امکانات روشن ہوگئے اور تھوڑے ہی عرصے میں قارئین غزل کے دلوں کی دھڑکن بن گئے اور ان کے بے شمار اشعار زباں زدِ خاص وعام ہوگئے۔ اس جانب اشارہ کرتے ہوئے شمس الرحمن فاروقی لکھتے ہیں:
’’شکیب جلالی کے کلام کو پڑھیں تو ہمیں جگہ جگہ ایسے شعر نظر آتے ہیں جو ضرب المثل کی حد تک مانوس ہو چکے ہیں اور نئی شاعری کی پہچان بیان کرنے کے لیے اکثر مذکورہوتے ہیں۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ شکیب جلالی کے سوا کوئی جدید شاعر نہیں ہے جس نے اتنی کم عمر پائی ہو او رجس کا کلام اتنا مختصر ہو اور پھر بھی جس کے شعر اتنی کثیر تعداد میں مقبول خاص و عام ہوچکے ہوں۔ شکیب جلالی کی اکثر غزلوں کا ایک شعر، بلکہ بعض غزلوں کے تو دو دو شعرآج بھی ہماری زبان پر ہیں۔‘‘
( معرفت شعر نو: شمس الرحمن فاروقی،مرتب: سید ارشاد حیدر، الانصار پبلی کیشنز، حیدرآباد2010، ص237)
شکیب جلالی کی غزلیہ شاعری کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد یہ اندازہ ہوا کہ ان کی غزلیں کثیر الجہات اور گونا گوں کیفیات کی حامل ہیں۔ کہیں پر غم عشق اور غم روزگار ہے تو کہیں پر آرائش خم و کاکل اور اندیشہ ہائے دور دراز، کسی جگہ پر قومی ناآسودگی ہے تو کسی مقام پر قومی افراط و تفریط او رعصری جذبہ احساس کی جلوہ سامانی ہے۔ بات جب احساسات و جذبات کی آتی ہے تو شاعر کا عہد و ماحول اور اس کا سماج پردۂ ذہن و ادراک پر رقص کرنے لگتاہے۔ کہا جاتا ہے کہ شاعر اپنے عہد و ماحول کا آئینہ دار ہوتا ہے۔سماج میں وہ جو کچھ مشاہدہ کرتا ہے اسے جذبہ و احساس کی آنچ میں پگھلا کر شعری پیکر میں ڈھال دیتا ہے، اس سے اس عہد و ماحول اور سماج کی تصویر شفاف اور روشن آئینے کی طرح عیاں ہوجاتی ہے۔ شکیب جلالی بھی اس سے اچھوتے نہیں تھے۔ انھوں نے بھی اپنے عہد و ماحول کے شب و روز پر بڑی باریک اورعمیق نگاہ ڈالی، اس کے نشیب و فراز میں غوطہ زنی کی، اس کے وسیع و عریض صحرا کی خاک چھانی، تب جا کر ان کا ذوق اتنا نکھرا ہوااور اپنے عہد و ماحول سے ہم آہنگ نظر آتا ہے۔ جب جب مسرت و شادکامی کے مواقع آئے ہیں انھوں نے اپنی غزلوں میں ایسی گل کاریاں کیں کہ اس سے ایک مترنم اور فرحت بخش فضا پیدا ہوگئی اور جب زمانے کے اوراق بکھرے، رنج و آلام اور اجاڑ کے دن آئے تو غزل کی زمین کو اپنے خونیں مضامین سے لالہ زار کردیا۔ چند اشعارقابل توجہ ہیں ؂
موسم گل ہے، بھری برسات ہے
جام چھلکاؤ، اندھیری رات ہے
مانند صبا جدھر گئے ہم
کلیوں کو نہال کر گئے ہم
مستی سی چھارہی ہے فضائے حیات پر
کوئی شراب گھول رہا ہے نگاہ سے
ساغر چشم سے سرشار نظر آتے ہیں
بہکے بہکے جو یہ مے خوار نظر آتے ہیں
تم نے تقدیر جگا دی مرے ارمانوں کی 
رشک کرتی ہیں فضائیں بھی شبستانوں کی
دیکھ کر اپنے در و بام لرز جاتا ہوں
میرے ہم سائے میں جب بھی کوئی دیوار گرے
آکر گرا تھا کوئی پرندہ لہو میں تر
تصویر اپنی چھوڑ گیا ہے چٹان پر
ساحل تمام اشک ندامت سے اٹ گیا
دریا سے کوئی شخص تو پیاسا پلٹ گیا
شکیب نے کربِ ذات، داخلی رنج و الم اور شوق تنہائی کو بے شمار اشعار میں جگہ دی ہے۔ بیشتر شعرا نے اپنے فکری محرکات کو جدید رنگ و آہنگ کا پیراہن عطا کرنے اور اسے عصری محاکات سے منضبط کرنے کے لیے روایتی غزل کے مضامین اوراس کے لوازمات سے یکسر انحراف کیا ہے۔ لیکن شکیب جلالی ان تمام شعرا سے مختلف اور منفرد خصوصیت کے پروردہ ہیں۔ وہ روایتی طرز اظہار کے پابند ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی غزلوں کو جدید رنگ و آہنگ سے بڑے استقلال سے مربوط کرتے ہیں جس سے ان کی غزلوں میں ندرت اورمعنوی تہہ داری جیسے اوصاف پیدا ہوجاتے ہیں اور یہ اوصاف ان کی شاعری کو آفاقیت کے حامل بناتے ہیں:
’’شکیب جلالی کا کلام عصری حسیت سے بھرپور ہے۔ ان کے لہجے میں کلاسیکیت ہے اور جدیدیت بھی۔ فنی بالیدگی بھی ہے اور انسان دوستی بھی۔ شکیب جلالی کی طرح کے شاعر اپنے کلام کی تہہ داری اور معنویت کے اعتبار سے ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ ‘‘
(احساس ناآسودگی کا شاعر: پروفیسر جعفر رضا، مشمولہ: کلیات شکیب جلالی،فرید بک ڈپو نئی دہلی2007، ص101)
نئی غزل کے اکثر شعرا کے یہاں تنہائی کے مضامین کثرت سے دیکھنے کو ملتے ہیں۔نئی تہذیب کے رونما ہونے سے مشترکہ خاندان انتشار سے دوچار ہورہے ہیں جس کے سبب تنہائی کی کیفیت رواج پا رہی ہے، تہذبی قدریں پامال ہورہی ہیں،ہر طرف اداسی اور ناامیدی اپنا قبضہ جمارہی ہے جس سے نئے دور کا انسان ذہنی انتشار، کشمکش، کرب، بے چینی، چڑچڑاہٹ،الجھن کے حصار میں مقید ہوتاجارہا ہے۔ شکیب جلالی نے بھی کچھ اسی طرح کے معاشرے میں اپنی زندگی بسر کی جس کا عکس ان کی غزلوں سے عیاں ہے۔تبھی تو وہ کہتے ہیں ؂
جہاں تلک بھی یہ صحرا دکھائی دیتا ہے
مری طرح سے اکیلا دکھائی دیتا ہے 
میں وہ آدم گزیدہ ہوں جو تنہائی کے صحرا میں
خود اپنی چاپ سن کر لرزہ براندام ہوجائے
قریب تیر رہا تھا بطوں کا اک جوڑا
میں آب جو کے کنارے اداس بیٹھا تھا
کنارِ آب کھڑا خود سے کہہ رہا ہے کوئی
گماں گزرتا ہے، یہ شخص دوسرا ہے کوئی
تونے کیا کیا نہ اے زندگی، دشت و در میں پھرایا مجھے
اب تو اپنے در و بام بھی جانتے ہیں پرایا مجھے
کیا واقعی نہیں ہے یہ موسیقیوں کا شہر
کیوں چپ ہیں نغمہ کار، کہاں آگیا ہوں میں
ہر عندلیب مرگِ تبسم پہ نوحہ خواں
ہر پھول سوگوار، کہاں آ گیا ہوں میں
شکیب جلالی کی فکری دنیا کو عصری سماج اور اس سماج کے افراد سے گہری وابستگی تھی۔ان کی شعوری کوشش یہ تھی کہ جہاں تک ممکن ہوسکے ان کا فکری میلان افرادِ سماج کی جبلت سے آشنا ہو۔ لہٰذا انھوں نے ان سے قرب حاصل کیا اور دیکھا کہ سماج میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو پسماندگی کا شکار ہے جن کی دنیا میں سورج طلوع تو ہوتا ہے لیکن اس کے پرتو سے وہ خاطر خواہ مستفیض نہیں ہوپاتے۔ فراوانیِ نعمت اور آرائش دنیا سے قدرے غافل ہیں۔ اس پر محن اور تلخ کام زندگی کو شکیب محسوس کیے بنا نہ رہ سکے۔ اپنے پڑوسیوں کی رنجیدہ خاطر طبیعت کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے کہتے ہیں ؂
رہتے ہیں کچھ ملول سے چہرے پڑوس میں
اتنا نہ تیز کیجیے ڈھولک کی تھاپ کو
شکیب کی غزلوں میں منفی رجحانات کی فراوانی نظر آتی ہے۔ دراصل یہ محض شاعر کا رجحان نہیں ہے بلکہ یہ اس دور کے فرد، معاشرے اورسماج کا رجحان بن چکا ہے جس کی جانب دور جدید کا انسان تیزی سے گامزن ہے۔ جذبۂ انسانیت کا فقدان ہورہا ہے، ہر طرف جھوٹ، فریب، ریا کاری، عیاری، مکاری، بے غیرتی اور بے حسی کا بازار گرم ہے۔لوٹ مار، قتل و غارت، ہوس پرستی، درندگی عام ہورہی ہے جس کے نتیجے میں لوگوں کا سکون و قرار چھن رہا ہے اور وہ رنج والم کی پرپیچ وادیوں میں بھٹکنے کو مجبور ہیں ؂
یہ آدمی ہیں کہ سائے ہیں آدمیت کے 
گزر ہوا ہے مرا کس اجاڑ بستی میں!
زمانے میں انساں ہے انساں کا دشمن
یہاں اب خلوص و محبت نہیں ہے
مفلسوں کی پکار ہے دنیا
رنج و غم کی شکار ہے دنیا
اُنس والفت، خلوص و غیرت کا
دامنِ تار تار ہے دنیا
حال باطن کسی کو کیا معلوم
ظاہراً دوست دار ہے دنیا
انھوں نے اپنے ذاتی رنج والم اورجدید انسان کی مایوسیوں اور سوزو گداز کو بڑے حسین اور شاداب شعری پیکر میں ڈھالا ہے جس میں بلا کی اثر آفرینی ہے جو قارئین ادب کے سینوں میں اتر کر ان کے نرم گوشوں کو سہلاتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ ہونٹوں پر نرم تبسم کی برقی لہر دوڑادیتی ہے۔ اس جہت کے اشعار جہاں فکر و عمل کے جذبات سے معمور ہیں، وہیں جدید معنویت اور عصری حسیت کے خوشگوار امکانات سے پر ہیں ؂
میں گھٹا ہوں، نہ پون ہوں، نہ چراغ
ہم نشیں میرا کوئی کیا ہوتا
کیا جانے کہ اتنی اداسی تھی رات کو 
مہتاب اپنی قبر کا پتھر لگا مجھے
ستارے سسکیاں بھرتے تھے، اوس روتی تھی
فسانۂ جگرِ لخت لخت ایسا تھا
شکیب جلالی نے اپنی غزلوں میں سیاسی صورت حال کا بھی حقیقی نقشہ کھینچا ہے۔ سماج کے وہ افراد جن کے سر پر اولیت کا تاج ہے، جن کو لوگوں نے اپنا رہنما اور پیشوا تسلیم کیا ہے، وہ اپنی ذمہ داریوں سے کہاں تک عہد برآہو رہے ہیں؟ شکیب ان سے کلی طور پر متفق نظر نہیں آتے کیونکہ انھوں نے ان کی سیاسی چالوں اور ریشہ دوانیوں کو محسوس کیا ہے اور ان کی انسانیت سوز چنگھاڑ کو سناہے اور ان کے جبر و ستم کی گرم بازاری کو بھی دیکھا ہے۔اسی سبب ایسے لوگوں کو ہدف تنقید بنایا اور ان پر تیر ملامت چلائے اور طعن و تشنہ اور طنز کے شعلے برسائے ہیں ؂
چلتے ہو سینہ تان کے دھرتی پہ کس لیے
تم آسماں تو سر پہ سنبھالے ہوئے نہیں 
ایک دوسرے شعرمیں تقریباً اسی مضمون کی بازگشت محسوس کی جاسکتی ہے ؂
عشق پیشہ نہ رہے داد کے حق دار یہاں
پیش آتے ہیں رعونت سے جفا کار یہاں
نئی غزل کے متعدد شعرا نے روایتی غزل کے مضامین اور اس کے لوازمات سے یکسر انحراف کیا ہے لیکن شکیب نے کلاسیکی روایت اور جدید طرز اسلوب اور لوازمات کو اس طرح مدغم کیا ہے کہ دونوں حلقوں میں اس کی پذیرائی ہوتی ہے۔انھوں نے شعری کائنات کی تخلیق میں اس کے دروبست کا بھی خیال رکھا ہے۔ ان کی غزلوں کی زبان اپنے دور سے ہم آہنگ ہے اور یہ ہم آہنگی اپنے دور کی آواز بن گئی ہے۔
مختصر یہ کہ شکیب کی غزلیہ شاعری جملہ عصری تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے جدید انسان کی طرز حیات اور کشمکش کی سچی مرقع سازی کرتی ہے۔ ان کی غزلوں میں اتنے رنگ، اتنے پہلو، اتنے تیور اور اتنی جہات ہیں کہ سب کو اپنی گرفت میں لینا دشوار کن امر ہے، پھر بھی عصری حسیت کے تعلق سے بیشتر محاکات کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ آخر میں شمس الرحمن فاروقی کے اس اقتباس پر اپنی بات مکمل کرتا ہوں:
’’شکیب جلالی نے ہمارے زمانے کا درد اور کائنات کی وسعت میں ہاتھ پاؤں مارتے ہوئے جدید انسان کے المیے کو اپنے ہی رنگ اور اپنی ہی زبان میں بیان کیا ہے۔ ‘‘
( معرفت شعر نو، شمس الرحمن فاروقی،مرتب: سید ارشاد حیدر، الانصار پبلی کیشنز، حیدرآباد2010، ص242)

Saleem Anwar
Research Scholar, Dept of Urdu
Allahabad University
Allahabad - (UP)
ماہنامہ اردو دنیا ،اپریل 2019





قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں