28/3/19

قومی یکجہتی کے فروغ میں اردو کا حصہ مضمون نگار: پی کے عبدالحمید کاراشیری


قومی یکجہتی کے فروغ میں اردو کا حصہ
پی کے عبدالحمید کاراشیری

ہے ضرورت دیس میں سب لوگ مل جل کر رہیں
بوئے یکجہتی سے مہکے دیس کی رنگیں فضا
باہمی ہمدردیاں ہوں دوستی ہو پیار ہو
متحد ہوکر رہیں ہم بھائے سب کو ایکتا
دھرم کا شیوہ نہیں غارت گری قتل و فساد
دھرم تو کہتا ہے سب دھرموں کے انساں ایک ہیں
جو ستم مجبوروں پہ ڈھاتا ہے وہ شیطان ہے
اور جو سب کے کام آتے ہیں وہ بندے نیک ہیں
پاک ہو کر ہر تعصب سے ہمیں رکھنا ہے یاد
ہندو مسلم سکھ عیسائی سب کے سب یک رنگ ہیں
سب ہی بندے رب کے ہیں ہے جینا مرنا ایک سا
سب ہمارے اپنے بھائی ہیں ہمارے سنگ ہیں
رئیس الدین رئیس
ہندوستان کی مخلوط گنگا جمنی تہذیب کی پروردہ زبان، مادرِ وطن کی ادبی عظمت کا نشان، قومی یکجہتی کی روشن مثال یہ وہ دلفریب و دلنشین زبان ہے جس نے ہندوستان کی مقدس سرزمین میں یہیں کے مختلف النسل اور مختلف باشندوں کی ہم نشینی کی کوکھ سے جنم لی۔ یہیں کے کھیتوں، کھلیانوں، گھروں اور بازاروں میں پلی بڑھی۔ یہیں کی درس گاہوں، دفتروں اور عدالتوں میں پروان چڑھی۔ میر، غالب، پنڈت برج نارائن چکبست اور منشی پریم چند جیسی مایہ ناز شخصیتوں کے ہاتھوں پھلی پھولی ۔ یہ وہ حسین عوامی زبان ہے جو آزادی کی لڑائی میں طبل جنگ بنی جس نے آزادی کے متوالوں کو سرفروشی کی تمنا اور انقلاب زندہ باد کا نعرہ دیا۔ جس نے مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا کے ذریعے ہندوستانیوں کو مشترکہ تہذیب کا ترانہ گایا۔
قومی یکجہتی پر سلام مچھلی شہری کے اشعار ہیں ؂
قومی یکجہتی ایک تقاضا ہے آج کے حالات کا
قومی یکجہتی ایک نغمہ ہے آج کے حالات کا
قومی یکجہتی ایک نعرہ ہے آج کے حالات کا
اردو زبان کی تاریخ قومی یکجہتی کی تاریخ ہے۔ اردو زبان و ادب میں قومی یکجہتی کی تلاش ایسی ہے جیسے آفتاب میں روشنی کی، نغمہ میں نغمگی کی۔ اس زبان کی بناوٹ اور سجاوٹ میں ہندوستان کے مختلف فرقے اور مذہب شامل رہے ہیں۔ اردو قومی یکجہتی کی روحِ رواں ہے۔ صنفی کا مشہور شعر ہے ؂
لفظ ہم میں جس طرح ’ہ‘ ’م‘ ہیں شیر و شکر
چاہیے ہندو مسلماں یوں ہی مل جل کر رہیں
اردو زبان کی پرورش میں تمام ہندوستانیوں کا برابر حصہ رہا ہے ؂
انجیل کی نہ قرآن کی نہ پران کی
مذہب کی نہ ملت کی نہ صوبوں کی
واللہ ہر دل کی زبان ہے اردو
آج جس طرح ہم تاج محل پر فخر کرتے ہیں اسی طرح اردو زبان بھی ہماری تہذیبی وراثت کا ایک اہم حصہ ہے اور اس زبان پر ہم تمام ہندوستانیوں کو فخر ہونا چاہیے۔ یہ وہ واحد زبان ہے جو بغیر کسی ترجمان کی مدد کے دلوں میں سیدھے اتر جاتی ہے۔ درحقیقت یہ ہندوستانی زبانوں کا زندہ تاج محل ہے۔
ہماری زبانیں اور ہماری عبادتوں کے طریقے ایک دوسرے سے مختلف ہوسکتے ہیں لیکن یہ اختلاف نہیں بلکہ ہماری تہذیبی رنگارنگی ہے۔ پنڈت نہرو کے لفظوں میں کثرت میں وحدت اور رنگارنگی میں یک رنگی ہی ہندوستانیت ہے۔
قومی یکجہتی کا سچا تصور اسی کثرت وحدت سے عبادت ہے۔ ہندوستان میں مختلف قوموں، ذاتوں اور مختلف مذاہب کے ماننے والے لوگ آئے مگر یہ سب ہندوستانی ثقافت میں ایسے صنم ہوگئے کہ انھیں کوئی طاقت الگ نہیں کرسکی ؂
تمھارا جسم میرا جسم الگ الگ
تمھارا رنگ میرا رنگ الگ الگ
یہ سب الگ الگ مگر یہ بات بھولتے ہیں ہم
لہو تمھارے جسم میں ہو یا ہمارے جسم میں
لہوکا رنگ ایک ہے
ہمارا ذہن ایک ہے
ہماری فکر ایک ہے
ہماری راہ ایک ہے
مغلیہ سلطنت کے دور میں ہندوؤں اور مسلمانوں میں ایک دوسرے رسوم و رواج اور تہذیب و ثقافت کو جاننے کی رفتار کافی تیز ہوچکی تھی۔ اکبر بادشاہ نے دو قوموں کو ملانے اور قریب لانے کی حتی المقدور کوشش کی۔ مشہور اردو شاعر اور مغلیہ سلطنت کے آخری تاجدار بہادر شاہ ظفر کے دور میں مذہبی رواداری اور انسان دوستی کو بہت زیادہ فروغ ملا۔ شہنشاہ، امرا، نوابیں اور عوام سب مل کر ہولی، دیوالی اور دیگر مذہبی تقریبات میں حصہ لیتے ؂
کہتے ہیں جسے ہند لمانی سنگم
تہذیب وہ اردو کی ہے گنگا جمنی
اردو زبان ہندوستان کی مشترکہ تہذیب کی وراثت ہے۔ یہ زبان گنگا جمنی تہذیب، یہاں کے جہانِ رنگ و بو کی ندرتوں اور نگہتو ں کی حقیقی نمائندہ ہے۔
اردو شاعری میں ہندو دیومالا کا دو طرح سے استعمال ہوا۔ ایک تو راست دیوی دیوتاؤں کے قصے کہانیاں وغیرہ۔ دوسرے ان دیوی دیوتاؤں کی تمثیلات و تلمیحات وغیرہ۔
ابراہیم عادل شاہ ثانی کی مشہور شعری تصنیف کتاب ’نورس‘ ہے۔ ہندو دیومالائی عناصر کے تعلق سے اسے اردو کے دکنی عہد کی نمائندہ شاعری قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس کے بیشتر گیت ہندو دیومالا سے بھرے ہیں۔ شیو، پاورتی، سرسوتی، گنیش اور اندر جیسے دیوی دیوتاؤں کا ذکر اس میں بڑے ادب و احترام کے ساتھ بار بار آتا ہے۔
اردو کے مشہور شعرا میں جنھوں نے ہندو دیومالا کو بھرپور طریقے سے برتا ہے۔ نظیر اکبرآبادی اپنی نظیر ہیں۔ 
نظیر اردو میں عوامی شاعری کے داعی و نقیب ہیں۔ ان کی شاعری میں ہندو دیومالائی عناصر اور ہندو مذہب کا ذکر و بیان صرف تشبیہ وج ستعارے کی صورت میں ہی نہیں بلکہ ایک طرح کے عقیدے اور طرزِ زندگی کے طور پر ملتا ہے۔
علامہ محمد اقبال نے ایک نئے نصب العین اور ایک نئے نظامِ زندگی کا پیغام سنایاتھا۔ مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا کی بنیاد پر ایک نیا شوالہ تعمیر کرنے کی دعوت دی۔ گوتم، گرونانک اور سوامی رام تیرتھ کو بھی خراجِ عقیدت پیش کیا ؂
چشتی نے جس زمیں پر پیغامِ حق سنایا
نانک نے جس چمن میں وحدت کا گیت گایا
ہے رام کے وجود پہ ہندوستان کو ناز
اہلِ نظر سمجھتے ہیں اس کو امامِ ہند
تلوار کا دھنی تھا شجاعت میں فرد تھا
پاکیزگی میں جوش محبت میں فرد تھا
سردار جعفری نے بھی اپنی شاعری کے ذریعے قومی یکجہتی کا پیغام دیا۔ ان کی نظم ’نئی دنیا کو سلام‘ کے چند اشعار ہیں ؂
نغمہ عصر کہن ہے زندگی کے ساز میں
آج ہے اک درد سا پھر رام کی آواز میں
بانسری کے زمزوں پر رقص کرتی ہے فضا
آرہی ہے آسمانوں سے کرشن جی کی صدا
ہر طرف بکھرا ہوا ہے چاند سے ماتھے کا نور
موج جمنا میں ہے رادھا کی نگاہوں کا سرور
آج پھر کاشی کی پیشانی پہ رقصاں نور ہے
آج پھر تلسی کے نغموں سے فضا معمور ہے
اخترالایمان اور کیفی اعظمی کے یہاں بھی اسی طرح کی متعدد مثالیں ملتی ہیں۔ فیض احمد فیض کی شاعری میں ہندو عقائد، رسم و رواج کی جھلکیاں ہیں۔ سلام مچھلی شہری، جگن ناتھ آزاد، جان نثار اختر وغیرہ شعرا کے یہاں اس قسم کے اساطیری عناصر کے نقوش ملتے ہیں۔ اردو مسلمانوں کی زبان ہرگز نہیں بلکہ مشترکہ تہذیب کی زبان ہے۔
اردو کے مشہور کہانی کار منشی پریم چند قومی یکجہتی کے متمنی ہی نہیں مبلغ بھی تھے۔ اپنے ناول میدانِ عمل میں انھو ں نے حصولِ آزادی کے لیے قومی یکجہتی اور ہندو مسلم اتحاد کی اہمیت پر نہایت دلکش اندازمیں زور دیا ہے۔ اس ناول میں آزادی کی جدوجہد میں مسلمانوں کی شمولیت پر تفصیل سے تصویرکشی کی گئی ہے۔ پریم چند یہ بات ایمان داری سے سوچتے اور سمجھتے تھے کہ جب تک ہندو مسلم اختلاف کی خلیج نہیں پاٹی جائے گی ممکن نہیں۔
پریم چند نے ہندوؤں کی سماجی اخلاقی اور مذہبی برائیوں پر دل کھول کر لکھا ہے۔ پریم چند قومی یکجہتی کی اہمیت پر زور دینے کے لیے مسلمانوں کا کردار تخلیق کیا ہے۔
اردو زبان کی آرائش و زیبائش میں صوفیوں اور سنتوں کا بہت بڑا حصہ رہا ہے۔ ان لوگوں نے انسان دوستی اور پریم کی تعلیم دی۔ اردو کے پہلے صاحب دیوانِ شاعر قلی قطب شاہ کی شاعری ہندوستانی، تہذیبی عناصر کا بیش بہا خزانہ ہے۔ قلی قطب شاہ کا کلام ان کی حب الوطنی اور قوم پرستی کا ثبوت ہے۔ محمد قلی ہند لمانی تہذیب کے پروردہ تھے۔ وہ ہندوستانیت کے سچے پرستار تھے۔
قلی قطب شاہ وطنیت اور قومی یکجہتی کے جذبے سے سرشار نظر آتے ہیں۔ قطب شاہیوں کی تہذیب صحیح معنی میں گنگا جمنی تہذیب تھی۔ محمد قلی نے اس گنگا جمنی اور ہند لمانی تمدن کو جلا بخشی تھی۔ رسومات، رہن سہن اور روزمرہ زندگی میں محمد قلی نے جس قومی یگانگ اور ہم آہنگی کو تقویت پہچائی تھی اس کی بہت سی مثالیں ان کے اشعار میں موجود ہیں۔ ان کی شاعری میں ہندوستان کی سرزمین کی خوشبو بسی ہے۔
اردو ذرائع ابلاغ نے ہمیشہ قومی یکجہتی کے فروغ میں نمایاں رول ادا کیا ہے۔ اردو صحافت نے جدوجہد آزادی میں ہی نہیں بلکہ عوامی اور سیاسی بیداری پیدا کرنے میں بھی اہم رول ادا کیا ہے۔ سرسید احمد خان کی ادارت میں شائع ہونے والے سائنٹفک گزٹ اور تہذیب الاخلاق میں قومی یکجہتی سے متعلق موضوعات کو خصوصی اہمیت کے ساتھ شائع کیا جاتا تھا۔ ملاپ، پرتاپ، تیج اور دیگر متعدد اردو اخبارات نے جدوجہد آزادی میں برطانوی سامراج کے خلاف آواز اٹھائی۔ سچ بات تو یہ ہے کہ اگر برطانوی نظام کسی چیز سے خوف زدہ تھا تو وہ اردو صحافت ہی تھی۔
اردو صحافت نے تحریک آزادی کے دوران عوام کے دلوں میں حب وطن کے جذبے کو فروغ دیا۔ آزادی کے بعد ملک کی تعمیر نو میں تقسیم وطن کے دل دہلانے دینے والے واقعات کو درکنار کرتے ہوئے ہمیشہ سماجی ہم آہنگی کی جانب پیش پیش رہ کر ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے سماج کی رہنمائی کی۔
آج دنیا ایک عالمی گاؤں کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس لیے اردو ذرائع ابلاغ کو بھی اسی زاویہ نگاہ سے برتنے کی ضرورت ہے۔ جذبۂ اتحاد سے قوم کی تعمیر ہوتی ہے۔ قومی یکجہتی کی ایک نمایاں خصوصیت اس کا ایک دوسرے کے تئیں دوستانہ سلوک اور ذات پات کی سطح سے بلند ہونا بھی ہے۔ قومی یکجہتی کے معنی و مفہوم کی وضاحت کے لیے قومی سطح پر مفاد عامہ سے متعلق فکر و ہم آہنگی کیجذبے کو فروغ دیا جائے حالانکہ اردو ذرائع ابلاغ اپنے ابتدائی زمانے سے ہی انھیں خطوط پر گامزن ہیں۔ 
ہندوستان کی تقسیم اور فرقہ وارانہ فسادات کی اس منحوس گھڑی میں اردو ادب نے قومی یکجہتی کو برقرار رکھا۔ ایک طرف فقہ، حدیث، تاریخ اسلام وغیرہ موضوعات پر بہت کچھ لکھا گیا تو دوسری طرف ہندو، عیسائی، بدھ اور سکھ مذہب پر سیکڑوں کتابیں لکھی ہیں ہندوؤں کی مقدس کتابیں رگ وید، یجروید، سام وید، اتھروید وغیرہ کا اردو ترجمہ ہوچکا ہے۔ رامائن، مہابھارت، گیتا کے بھی مختلف ورژن (Version) ہیں۔ انجیل کے کئی ترجمے ہوچکے ہیں۔
ہندوستان ایک کثیر لسانی اور کثیر ثقافتی (Multi lingual & Multi Cultural) ملک ہے۔ اس ملک کے ہر صوبے کی زبان الگ ہے اور ان کے تہذیبی رنگ بھی مماثلتوں کے باوجود ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ ان اختلافات میں بھی ایک تہذیبی وحدت ہے جسے مشترکہ تہذیب بھی کہا جاسکتا ہے۔ اردو زبان و ادب مشترکہ تہذیب کی دین ہے۔ اردو سارے ہندوستان کی مشترکہ قومی تہذیب کی نمائندگی کرتی ہے۔
اردو ہندو مسلمان کے مابین معاشرتی اختلاط کی وجہ سے وجود میں آئی اور یہ ان دونوں کے درمیان باہمی اور سگالی کی یادگار ہے اور انہی جذبات کے تحت ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں نے اپنی اپنی زبانوں کو اس نئی خالص ہندوستانی زبان میں صنم کردینے کا فیصلہ کیا اور دونوں نے دوش بدوش اسے پروان چڑھایا اور اس کی نشو و نما میں بھرپور حصہ لیا۔
مسلمان کی طرح غیرمسلم شاعروں، نثرنگاروں اور ادیبوں کا اردو زبان کی ترقی دینے اور پروان چڑھنے میں بڑا ہاتھ رہا ہے۔ ان میں رتن ناتھ سرشار، دیا شنکر نسیم ، لالہ شری رام، تلوک چند محروم، برج نارائن چکبست، دیانارائن نگم، مہیش پرساد، فراق گورکھپوری، امرناتھ ساحر، آنند نارائن ملا، بیشور پرساد منور، پنڈت کرشن پرشاد کول، جگر بریلوی، تیج بہادر سپرو، میلارام وفا، مہاشے سدرشن، مالک رام، جگن ناتھ آزاد، گلزار دہلوی، ڈاکٹر گیان چند جین، کمار پاشی، مہندر سنگھ بیدی، راجندر سنگھ بیدی، کرشن چندر، اپیندر ناتھ اشک، رام لال کرشن سہائے وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ 

PK Abdul Hameed, Karassery
'Ghazal' Karassery (Po), Mukkam (Via)
Kozhikkode- 673602 (Kerala)
ماہنامہ اردو دنیا ،اپریل 2019






قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں