7/3/19

گورکھپور میں تحقیق کی روایت مضمون نگار:۔ مشیر احمد




گورکھپور میں تحقیق کی روایت 
مشیر احمد
تحقیق کے معنی کھوج، تفتیش، دریافت یا چھان بین کے ہیں۔ صاحب نور اللغات نے تحقیق کے معنی دریافت کرنا، کھوج لگانا، حقیقت دریافت کرنا، پوچھ گچھ، جانچ ، تصدیق یا پایۂ ثبوت کو پہنچنا وغیرہ تحریر کیے ہیں۔ تحقیق سے وہ عمل مراد ہے جس میں غورو فکر کے ساتھ ساتھ کوئی معاملہ دریافت کر کے فیصلہ کیا جائے اور تفتیش صرف ابتدائی پوچھ گچھ کا نام ہے۔ ہم یہاں تحقیق کو ایک علمی اصطلاح کے طور استعمال کر رہے ہیں اور مقصد ادبی تحقیق سے ہے۔ تحقیق سے متعلق محققین کی جو آرا ہیں ان کی روشنی میں یہ نتیجہ بر آمد ہوتا ہے کہ تحقیق عربی لفظ ہے۔ اس کا مادّہ ح ق ق ہے اور تحقیق مصدر۔حقیقت محقق اس کے مشتقات ہیں۔اس کا مطلب حق کو ثابت کرنا یا حق کی طرف پھیرنا ہے۔ اصطلاح میں یہ ایک ایسے طرز معاملہ کا نام ہے جس میں موجود مواد کی صحیح یا غلط کو بعض مسلمات کی روشنی میں پرکھا جاتا ہے۔ آسان لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ تحقیق کسی امر کو اس کی اصل شکل میں دیکھنے کی کوشش ہے یعنی جب کسی امر کی شکل پوشیدہ یا مبہم ہو تو اس کی اصل شکل کو دریافت کرنے کا عمل تحقیق کہلاتا ہے۔ تحقیق دوبارہ تلاش کرنے کا نام ہے۔ جہاں دوسروں نے تلاش کی وہیں پھر تلاش کر کے ایسی نئی بات پید اکرنا جہاں دوسرے نہیں پہنچ سکے تھے۔ 
تحقیق سے واقفیت ہونے کے بعد مختلف یونیورسٹیز میں اس کی کیا نوعیت ہے، اس پر بھی ایک نظر ڈال لینا مناسب اور ضروری ہے۔ یونیورسٹیز میں تحقیق کا موجودہ رجحان بڑا تکلیف دہ ہے۔ یہ خبریں برابر آتی رہتی ہیں کہ یونیورسٹیز میں تحقیق کے نام پر سرقہ عام بات ہو گئی ہے۔ اس ضمن میں بعض مثالیں بھی سامنے آ چکی ہیں۔ دوسری حیرت انگیز بات یہ کہ ریسرچ اسکالرس پی ایچ ڈی میں رجسٹریشن کرانے کے بعد کسی پیشہ ور شخص کو معقول معاوضہ دے کر مقالہ لکھوا لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ یونیورسٹیز میں جو تحقیقی مقالات تحریر کیے جا رہے ہیں ان میں اقتباسات کی کثر ت ہوتی ہے اور حوالے بھی اصل کے بجائے ثانوی ہوتے ہیں۔ بعض مقامات پر دوسروں کی تحریروں کو بھی بغیر کسی حوالے کے نقل کر دیا جاتا ہے اور ایسا کرنے والوں کو اعلیٰ اسناد سے نوازا بھی خوب جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تحقیق کا معیار دن بہ دن گرتا جا رہا ہے۔ اس عمل میں ریسرچ اسکالرس یا طلبا کے ساتھ ساتھ اساتذہ بھی کم ذمے دار نہیں ہیں۔ ان کو بھی کسی جواب دہی کا خوف یا اندیشہ نہیں ہوتا ہے۔ ریسرچ اسکالر س کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہوتی ہے کہ انھیں تحقیق، تحقیق و تنقید کے اصول یا تدوین متن جیسی چیزوں سے بالکل واقفیت نہیں ہوتی ہے اور نہ ہی اس میدان میں ان کو کوئی تجربہ ہوتا ہے۔ ایم اے کرنے کے فوراً بعد انھیں دشوار گزار مراحل طے کرنے ہوتے ہیں جو انتہائی مشکل امر ہے۔ کچھ عرصہ قبل یونیورسٹیز میں پی ایچ ڈی سے قبل ایم فل کی ڈگری لازمی ہوا کرتی تھی۔ ایم فل میں تحقیق سے متعلق نصاب کو پڑھایا جاتا تھا جس سے طلبا کے اندر تحقیق و تنقید کا جذبہ پید اہوتا تھا اور انھیں تحقیق سے متعلق بعض امور سے واقفیت ہو جایا کرتی تھی۔ اب بیشتر یونیورسٹیز میں ایم فل کا کورس ختم کر دیا گیا ہے جس کی وجہ سے بہت ساری دشواریاں پیدا ہو رہی ہیں ۔ سب سے بڑی دشواری یہ کہ بغیر کسی تربیت کے تحقیقی مقالہ تحریر کرنا۔ طلبہ کی محنت اور توجہ کے ساتھ ساتھ اساتذہ کو بھی اپنی ذمے داری کا احساس ہونا چاہیے۔ کیوں کہ طالب علم کی ذہنی اور علمی نشو و نما کی ساری ذمے داری اس کے نگراں پر عائد ہوتی ہے۔ یہ کام نگراں کا ہے کہ اس کی تحریریں متعدد بار بالا ستیعاب پڑھے اور نقائص کی نشاندہی کرے۔ مقالہ نگار کے لیے بھی یہ ضروری ہے کہ کسی موضوع پر قلم اٹھانے سے قبل اس موضوع سے متعلق تحریروں کا عمیق مطالعہ کرے اور بار بار کرے، اس کے بعد لکھے۔ تحریر خود بخود مرتب ہوتی چلی جائے گی اور پھر نگراں سے مشورہ کرے۔ بعد ازاں اس میں ترمیم و تنسیخ کی بھرپور گنجائش رہی ہے۔ 
گورکھپور میں تحقیق کی روایت پر گفتگو کرنے سے قبل مناسب معلوم ہوتا ہے کہ گورکھپور کے ادبی پس منظر کے حوالے سے کچھ باتیں کر لی جائیں۔ شہر گورکھپور علم و ادب کا مرکز اور تہذیب کا گہوارہ سمجھا جاتا ہے۔ علمی و ادبی اعتبار سے یہ علاقہ بڑا زرخیر ہے۔ یہ شہر مہدی افادی، مجنوں گورکھپوری، فراق گورکھپوری، ریاض خیر آبادی، ساقی فاروقی، گورکھ پرشاد عبرت، پریم چند، حفیظ جونپوری، فطرت واسطی، اصغر گونڈوی، احمر گورکھپوری، عمر قریشی اور شبنم گورکھپوری وغیرہ کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ ان حضرات کے علاوہ شہر گورکھپور، پروفیسر محمود الٰہی اور پروفیسر احمر لاری وغیرہ کی آماجگاہ رہا ہے۔ اردو زبان و ادب کی ترقی میں ان حضرات کا بڑا اہم رول ہے۔
1958 میں گورکھپور یونیورسٹی میں شعبۂ اردو کا قیام عمل میں آیا۔ تعلیمی میدان میں اس شعبے کا نمایاں مقام ہے۔ اس شعبے کے بے شمار اسکالرس ہندوستان کی مختلف یونیورسٹیز میں درس و تدریس کے فرائض نہایت خوش اسلوبی سے انجام دے رہے ہیں یا دے چکے ہیں۔ مثلاً : پروفیسر فضل الحق، پروفیسر عبد الحق، پروفیسر فضل امام رضوی، پروفیسر ملک زادہ منظور احمد، پروفیسر محمد انصار اللہ، پروفیسر قاضی افضال حسین، پروفیسر قاضی جمال حسین، پروفیسر فیروز احمد اور ڈاکٹر غلام حسین وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ شعبۂ اردو گورکھپور یونیورسٹی کے بعض اسکالرس درس و تدریس کے علاوہ دوسرے میدانوں میں بھی ملک و قوم کا نام روشن کیے ہوئے ہیں۔ان میں ڈاکٹر وضاحت حسین رضوی اور ڈاکٹر سلیم احمد وغیرہ کا نام لیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اس شعبے نے بڑے بڑے فن کار اور اہل علم پید اکیے ہیں جس کا اندازہ راقم الحروف کی آئندہ تحریروں سے لگایا جاسکتا ہے۔ 
جہاں تک شعبۂ اردو دین دیال اپادھیاے گورکھپور یونیورسٹی ، گورکھپور میں تحقیق کا تعلق ہے تو اس کا آغاز انتہائی درخشندہ اور تابناک رہا ہے تحقیق کو ایک معیار اور اعتبار حاصل تھا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ استاذ الاساتذہ پروفیسر محمود الہٰی کی نگرانی ، سرپرستی اور ذہنی تربیت ہے۔ اور پروفیسر محمود الٰہی جن اوصاف و کمالات سے متصف تھے اس کا سہرا مادر علمی اور دانش گاہِ سرسید علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ کے سر ہے۔ پروفیسر محمود الٰہی نے پروفیسر محمد حسن کی زیر نگرانی اپنی علمی و ادبی صلاحیت کو نکھارا (ان کا تحقیقی مقالہ ’اردو قصیدہ نگاری کا تنقیدی جائزہ‘ ہے۔ جس کے اب تک متعدد ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں) اور پروفیسر رشید احمد صدیقی جیسی باغ و بہار شخصیت کی صحبت میں انھیں پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔ پروفیسر رشید احمد صدیقی کی خمیر میں علی گڑھ کی تہذیب رچی بسی ہوئی تھی ظاہر ہے کہ صحبت کا اثر ہونا لازمی تھا۔ لہٰذا پروفیسر محمود الہیٰ نے 1958 میں جب گورکھپور یونیورسٹی ، گورکھپور میں شعبۂ اردو کے بانی صدر کی حیثیت سے عہدے کا چارج لیا تو انھوں نے ذہین اسکالروں سے اپنی نگرانی میں نئے موضوعات پر تحقیقی مقالے لکھوائے۔ ان کی سرپرستی میں جتنے بھی تحقیقی مقالات تحریر کیے گئے ہیں تقریباً سبھی مقالات معیاری اور اعلیٰ درجے کے ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین و نمائندہ اسکالروں کے ہیں۔ تادم تحریر گورکھپور یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں مختلف اساتذہ کی نگرانی میں کم و بیش سو تحقیقی مقالات تحریر کیے جا چکے ہیں۔ بیشتر مقالے اردو کے اہم ادیبوں اور شاعروں پر لکھے گئے ہیں جن میں معاشرتی اور ثقافتی تناظر کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ جدو جہد آزادی اور قومی یکجہتی کے فروغ میں اردو ادب کی خدمات کو بھی نمایاں کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ موجودہ دور میں شہر گورکھپور کی ادبی و علمی شخصیات ، ادبی ماحول اور مشرقی یوپی و مشرقی اضلاع سے متعلق بھی بعض مقالات تحریر کیے جا رہے ہیں۔ ان میں بیشتر مقالات (خصوصاً اساتذہ کے ) زیور طباعت سے آراستہ ہو کر اہل علم و دانش سے داد و تحسین حاصل کر رہے ہیں۔ آئندہ اوراق میں ہم بعض مقالات کا مختصر اور بعض کا قدرے تفصیل سے تعارف پیش کریں گے۔ 
سب سے پہلے ہم پروفیسر محمود الٰہی کی زیر نگرانی تحریر کیے گئے مقالات پر گفتگو کریں گے بعد ازاں دیگر اساتذہ (پروفیسر احمر لاری، ڈاکٹر سلام سندیلوی، ڈاکٹر اختر بستوی، پروفیسر افغان اللہ خاں اور ڈاکٹر محمد رضی الرحمن) کی سرپرستی میں ہوئے تحقیقی کاموں پر روشنی ڈالیں گے۔ 
پروفیسر محمود الٰہی کی نگرانی میں کل چھتیس (36) پی ایچ ڈی کی ڈگری کے لیے تحقیقی مقالات تحریر کیے گئے ہیں اور ایک مقالہ ڈی لٹ کی ڈگری کے لیے لکھا گیا ہے۔ موصوف کی سرپرستی میں اولین تحقیقی مقالہ اردو کے مشہور شاعر ’میر حسن : حیات اور ادبی خدمات‘ پر تحریر کیا گیا ہے۔ یہ کام شعبۂ اردو دہلی یونیورسٹی کے سابق صدر اور سابق ڈین فیکلٹی آف آرٹس پروفیسر فضل الحق نے 1962 میں کیا ہے۔ 1965 میں پروفیسر عبد الحق نے ’اقبالیات کا تنقیدی جائزہ‘ عنوان پر تحقیقی مقالہ لکھا۔ یہ کام معیاری ہونے کے ساتھ ساتھ سند کا درجہ رکھتا ہے اور آج پروفیسر عبد الحق ماہر اقبالیات کی حیثیت سے معروف و مشہور ہیں۔ 1967 میں پروفیسر محمود الٰہی کی نگرانی میں دو اہم اور قابل توجہ موضوعات پر مقالے قلم بند کیے گئے ہیں۔ ان میں پہلا مقالہ ’ابو الکلام آزاد: فکرو فن‘ پر پروفیسر ملک زادہ منظور احمد نے مرتب کیا ہے اور دوسرا مقالہ پروفیسر محمد انصار اللہ نے ’میر علی اوسط رشک: حیات اور خدمات‘ کے عنوان پر تحریر کیا ہے۔ اول الذکر مقالہ مولانا ابو الکلام آزاد کی فکری و فنی خوبیوں پر بھرپور روشنی ڈالتا ہے۔ مؤخر الذکر مقالہ پانچ ابواب کے علاوہ ایک ضمیمہ پر مشتمل ہے۔ شاہ حاتم کے تلامذہ میں مرزا رسوا اور شیخ ناسخ کے شاگردوں میں میر رشک کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ انھوں نے زبان کے مزاج اور اس کے رجحان کو سمجھ کر اس کی فطرت کے مطابق ترقی دینے کی کوشش کی ہے۔ پروفیسر انصار اللہ کے مطابق میر رشک کا بنیادی مقصد زبان کو ترقی دینا تھا وہ اردو کو ملک کی وسیع ترین اور مقبول ترین زبان بنا دینا چاہتے تھے، بلکہ اسے فارسی کے مقابلے میں لا کھڑا کرنا چاہتے تھے۔ اس مقالے کے ذریعے میر رشک کے شخصیت اور ان کی ادبی خدمات کا پہلی مرتبہ تعارف کرایا گیا ہے۔ تذکرہ نویسوں نے بھی ان کے حالات بہت کم لکھے ہیں۔ مذکورہ مقالے کی بنیاد پر ہم رشک کی مختلف تصانیف سے آشنا ہو سکتے ہیں اور ان کی مرتبہ کتابوں کی بھی معلومات حاصل کی جا سکتی ہے۔ دونوں ہی کم یاب ہیں۔ بہر حال یہ ایک اہم مقالہ ہے اس کی اہمیت و افادیت اپنی جگہ قائم ہے۔ 
پروفیسر محمود الہیٰ کی نگرانی میں پانچواں تحقیقی مقالہ 1969 میں پروفیسر احمر لاری (نور العین ) نے لکھا ہے۔ انھوں نے حسرت موہانی : حیات اور خدمات پر غیر معمولی کام کر کے حسرت موہانی کی شاعری اور ذاتی زندگی سے متعلق بعض نئے پہلو روشن کیے ہیں۔ یہ کام مبتدی کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ مستند اور معیاری کام ہے۔ اس کے حوالے کے بغیر حسرت پر کوئی بھی تحقیق ادھوری رہے گی۔ اس مقالے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان میں اس کے متعدد اڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ حسرت کے یہاں صرف ان لوگوں کو تضاد نظر آتا ہے جس کے سامنے حسرت کی شخصیت کی گر ہیں نہیں کھلی ہیں۔ لاری صاحب نے حسرت کی شخصیت کا معروضی انداز میں جائزہ لے کر اس تضاد کو دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ حسرت کی غزلوں پر ان کی سیاسی زندگی کا گہرا اثر ہے۔ اسی طرح بعض ایسے گوشے اس مقالے میں عیاں ہوئے ہیں جن پر کسی نقاد یا محقق کی بالکل یا خاطر خواہ نظر نہیں پڑی تھی۔ اس طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ پروفیسر احمر لاری نے مولانا حسرت موہانی پر پہلی تحقیقی و تنقیدی کتاب (مقالہ ) پیش کی ہے۔ 
چھٹا مقالہ ’نذیر احمد: شخصیت اور کارنامے ‘ کے موضوع پر ڈاکٹر اشفاق احمد صدیقی نے 1971 میں تحریر کیا ہے۔ مقالہ اپنے موضوع کی مناسبت سے جامعیت لیے ہوئے ہے۔ اس مقالے سے ڈپٹی نذیر احمد کی شخصیت کے بعض نئے پہلو روشن ہوئے ہیں۔ 1974 میں پروفیسر فضل امام رضوی نے ’امیر اللہ تسلیم : حیات اور شاعری‘ پر ایک جامع مقالہ لکھا ہے۔ یہ مقالہ امیر اللہ تسلیم کی شخصیت اور شاعری پر بھرپور روشنی ڈالتا ہے۔ اپنے موضوع کے اعتبار سے یہ مقالہ اہمیت کا حامل ہے۔ 
ڈاکٹر غلام رسول مکرانی نے ’اردو میں تمثیل نگاری ‘ پر 1978میں تحقیقی مقالہ لکھ کر تمثیل کے میدان میں انقلاب برپا کر دیا۔ یہ مقالہ تمثیل کے بعض نئے پہلوؤں پر روشنی ڈالتا ہے۔ مختلف ابواب میں موضوع کو سمیٹا گیا ہے۔ مثلاً : تمثیل : لفظ و اصطلاح، تمثیل علم بیان کی رو سے، تمثیل مغرب سے مشرق تک، اردو میں تمثیل نگاری کا آغاز و ارتقا، شمالی ہند میں تمثیل نگاری، دور جدید میں تمثیل نگاری وغیرہ۔ مکرانی صاحب نے اردو ادب کی اولین تمثیل ’شکار نامہ ‘ (خواجہ بندہ نواز گیسو دراز721-825ھ) سے لے کر دوسری مستند تمثیل ’سب رس ‘ (ملا وجہی 1045ھ) تک کا احاطہ کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ تقریباً ڈھائی سو سال کا عرصہ گزرا لیکن انتہائی حیرت کا مقام ہے کہ اتنے طویل عرصے کے دوران کوئی بھرپور تمثیلی تخلیق دریافت نہیں ہو سکی۔ حالانکہ اس عرصے میں دکن میں بہمنی، عادل شاہی اور قطب شاہی حکومتوں کے کئی عہد آفریں گزرے۔ طویل درمیانی عرصے میں تمثیل کا کوئی مکمل نمونہ تو نہیں ملتا مگر تمثیل نگاری کی روایت ارتقا پذیر ہوتی رہی۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ اس عرصے میں نظم ونثر دونوں میں تصوف کے بعض ایسے رسالے ملتے ہیں جن میں جزوی طور پر تمثیل نگاری کے نقوش نظر آتے ہیں۔ 
پروفیسر محمود الٰہی کی زیر نگرانی نواں تحقیقی مقالہ پروفیسر افغان اللہ خاں نے تحریر کیا ہے۔ انھوں نے 1978 میں ’فراق کی شاعری ‘پر کام کیا ہے۔ یہ مقالہ فراق پر کام کرنے والوں کے لیے اہم معلومات فراہم کرتا ہے۔ اس میں فراق کی شاعری کے ساتھ ساتھ ان کے حالات زندگی بھی بیان کیے گئے ہیں۔ ’اردو ادب کے سیکولرزم‘ کے عنوان سے ایک تحقیقی مقالہ 1979 میں ڈاکٹر اختر بستوی نے تحریر کیا ہے۔ یہ مقالہ اردو زبان و ادب میں اضافے کی حیثیت رکھتا ہے۔ پروفیسر فیروز احمد نے 1980 میں ’مہدی افادی: حیات اور ادبی خدمات‘ پر مقالہ لکھ کر گوشۂ مہدی افادی میں غیر معمولی اضافہ کیا ہے۔ اس مقالے میں مہدی افادی سے متعلق ذاتی معلومات اور ان کے ادبی کارناموں پر بھرپور اور مکمل گفتگو کی گئی ہے۔ 1980میں ہی ڈاکٹر محمد احسن نے ’ناسخ : فکرو فن ‘ پر ایک وقیع کارنامہ انجام دیا ہے۔ مذکورہ مقالے میں انھوں نے عہد ناسخ کا معاشرتی اور تمدنی پس منظر، ان کی سوانح حیات، ناسخ پر شعراے قدیم کے اثرات، ناسخ بحیثیت شاعر، ناسخ اور تحریک زبان اردو جیسے عنوانات کے تحت ناسخ کے فکرو فن کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ 
پروفیسر محمود الٰہی کی نگرانی میں ایک اہم مقالہ ہمارے دور کے ممتاز ناقد پروفیسر قاضی افضال حسین نے میر کی غزلوں کے لسانی پیکر کا جائزہ بعنوان ’میر کی شعری لسانیات‘ (غزلوں کی روشنی میں) تحریر کیا ہے۔ پروفیسر قاضی افضال کے بقول میر نے بازاروں سے درباروں تک اردو غزل کو فارسی کا سا وقار و اعتبار عطا کیا ہے۔ اردو غزل کی تاریخ میں ان کا یہ کارنامہ اس لائق تھا کہ ان کی غزل تنقید نگاروں کے درمیان نقد و تبصرے کا موضوع بنتی لیکن بیشتر اسے خداے سخن کہنے اور اس کی عظمت کے بت تراش کر ان کی پرستش کرنے پر ہی اکتفا کیا گیا۔ میر کی شاعرانہ عظمت کو سمجھنے کے لیے اس کتاب کا مطالعہ ناگزیر ہے۔ یہ مقالہ 1981 میں تحریر کیا گیا ہے۔ 1981 میں ہی تین اور مقالات تحریر کیے گئے ہیں۔ پروفیسر قاضی جمال حسین نے ’اردو ادب کا تہذیبی و سماجی پس منظر‘ ، ڈاکٹر عبیدہ بیگم نے ’فورٹ ولیم کالج کی ادبی خدمات‘ اور ڈاکٹر محمد منور نے ’اقبال سہیل : حیات اور شاعری ‘ موضوعات پر گراں قدر مقالے لکھ کر اردو ادب کے دامن کو وسیع کیا ہے۔ قاضی جمال حسین کا مقالہ 1857 ۔ 1914 تک کے زمانے کو محیط ہے۔ اس درمیان اردو ادب کے سماجی اور تہذیبی پس منظر کو سمجھنے کے لیے یہ تحقیق اہم اور ضروری معلومات فراہم کرتی ہے۔ ڈاکٹر عبیدہ بیگم کا مقالہ فورٹ ولیم کالج کے ادبی کارناموں پر روشنی ڈالتا ہے کہ وہاں کون کون سی کتابیں تحریر کی گئی ہیں اور کن کن کتابوں کے تراجم پیش کیے گئے۔ یہ مقالہ فورٹ ولیم کالج سے متعلق اردو ادب کے طالب علموں کے لیے ایک مشعل راہ ہے اور تحقیق کی نئی جہت پیش کرتا ہے۔ اور ڈاکٹر محمد منور کی تحریروں سے اقبال سہیل کی زندگی اور ان کے شعری کارناموں کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔
1982 میں عتیق عالم خاں نے ’اردو میں مختصر افسانہ نگاری کا ارتقا‘ موضوع پر مقالہ لکھا ہے۔ یہ مقالہ افسانے کا فن اور اس کے ارتقا کو سمجھنے میں معاون ہے۔ 1982 میں ہی ڈاکٹر مسعود اختر نے ’حالی کی نثر‘ پر تحقیقی مقالہ لکھ کر حالی کے نثری ادب پر اہم کام کیا ہے۔ جدید اردو ادب میں حالی کی شخصیت ایک معمار کی سی ہے انھوں نے نظم و نثر دونوں پر اپنے اثرات ثبت کیے ہیں۔ نثر میں وہ خدمات انجام دی ہیں کہ اردو نثر ہر قسم کے مضامین بخوبی ادا کرنے کے قابل ہو گئی۔ مسعود اختر نے اس مقالے میں حالی کے نثری محاسن کو بھی پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ 
19واں مقالہ 1983 میں ’سرسید کی نثر‘ پر ڈاکٹر انعام الحق نے تحریر کیا ہے۔ اس میں انھوں نے سرسید سے قبل کی نثر، علی گڑھ تحریک ، تاریخی، سیاسی، مذہبی تصانیف، خطوط نویسی، صحافت نگاری، مقالے اور انشائیے ، سرسید کی نثر کے اثرات اور اردو نثر میں ان کا مرتبہ عنوان کے تحت سرسید کے نثری کارناموں کا بالتفصیل جائزہ لیا ہے۔ 1983 میں ہی دو اور مقالے ایک ہی عنوان اور دو الگ الگ زمانے کے پیش نظر تحریر کیے گئے ہیں۔ پہلا ’اردو افسانوں میں سماجی مسائل کی عکاسی1947تک ‘ ڈاکٹر شکیل احمد نے لکھا اور دوسرا تحقیقی مقالہ ڈاکٹر شاکری خاتون عثمانی نے ’اردو افسانوں میں سماجی مسائل کی عکاسی 1947 تا حال ‘ موضوع پر لکھا۔ 
پروفیسر محمود الٰہی کی زیر نگرانی 1986 میں ’خواجہ احمد عباس : حیات اور ادبی خدمات‘ پر ڈاکٹر غلام حسین نے تحقیقی مقالہ لکھا ہے۔ یہ مقالہ خواجہ احمد عباس کے مختلف جہات پر مشتمل ہے جن میں ان کے ادبی کارناموں کے علاوہ فلمی تذکرے بھی شامل ہیں۔ 1986 میں ہی ڈاکٹر ریاض الدین نے ’منیر شکوہ آبادی : حیات اور خدمات ‘ پر ڈاکٹر احمد بخش نے ‘ ہندوستانی اساطیر (اردو مثنویوں کے آئینے میں ) ‘ پر اور ڈاکٹر محمد عمران خاں نے ’راجندر سنگھ بیدی : حیات اور خدمات ‘ پر 1986 میں ہی تحقیقی مقالات لکھے ہیں۔ ان مقالات میں ڈاکٹر احمد بخش کا موضوع کم یاب ہے اور انوکھا بھی۔ اس میں اساطیر کا مفہوم اس کی ماہیت، ہندوستانی اساطیر، اساطیر اور ادب، دکن کی مثنویوں میں ہندوستانی اساطیر، شمالی ہند کی مثنویوں میں ہندوستانی اساطیر وغیرہ امور پر بحث کی گئی ہے۔ مقالہ نگار کے دعوے کے مطابق اس سے قبل اس موضوع پر اردو میں کوئی ایسا مکمل اور مبسوط مقالہ نہیں لکھا گیا جو ہندوستانی اساطیر کی وضاحت کرتے ہوئے اردو مثنویوں پر ان کے براہ راست اور بالواسطہ مرتب ہونے والے اثرات کا تفصیلی مطالعہ پیش کرتا ہو۔ 
1987 میں پروفیسر محمود الٰہی کی نگرانی میں دو مقالے تحریر کیے گئے ہیں۔ ان میں پہلا ڈاکٹر بشریٰ خاتون کا ’اردو کے غیر مذہبی سفر نامے ‘ پر ہے۔ دوسراں گراں قدر اور قابل توجہ مقالہ ڈاکٹر نسیم اقتدار علی نے ’تدوین تذکرۂ طبقات سخن‘ موضوع پر لکھا ہے۔ اس میں تحقیق و تدوین کی نئی مثالیں پیش کرتے ہوئے اہم اور معلوماتی مواد فراہم کیا گیا ہے۔ مقالہ نگار نے اس کا مقصد واضح کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ تذکرۂ طبقات سخن کو دنیا ے ادب سے روشناس کرانے کے علاوہ اس کی علمی، ادبی و فنی حیثیت پر بحث کرنا، اس کے مؤلف شیخ غلام محی الدین مبتلا و عشق میرٹھی کی حیات اور ادبی کارناموں پر روشنی ڈالنا، تذکرہ میں موجود متنازع امر کی نشاندہی کرنا اور نسخۂ شاہجہاں پور اور نسخۂ برلن کا تقابلی مطالعہ پیش کرنا ہے۔
پروفیسر محمود الٰہی کی نگرانی میں لکھا گیا 28 واں مقالہ ’قاضی عبد الودود : شخصیت و خدمات ‘ پر ڈاکٹر تحریر بیگ کا ہے۔ نام سے ظاہر ہے کہ یہ مقالہ مشکل موضوع پر تحریر کیا گیا ہے جو 1988 میں مکمل ہوا ہے۔ قاضی عبد الودود اردو تحقیق کی روایت میں معتبر اور محترم نام ہے۔ حافظ محمود شیرانی کی تحقیقی روایت کو انھوں نے استحکام بخشا، ادبی تحقیق کو سائنسی بنا دیا اور مغرب کی معیاری تحقیق کے مقابل لا کھڑا کیا ہے۔ تحقیق ان کا مشغلہ نہیں بلکہ مقصد حیات تھا ۔ یہ ایک قیمتی مقالہ ہے اور معیاری کام ہونے کی وجہ سے اہمیت کا حامل ہے۔ 1990 میں ’اردو کے خطبات آزادی کی تدوین‘ پر ڈاکٹر سلیم احمد نے کام کر کے آزادی سے متعلق خطبات کو یکجا کر دیا ہے۔ اس سے قبل خطبات کے تعلق سے کوئی ایسا تحقیقی کام نہیں ہوا ہے جس میں اس کی ادبی حیثیت سے بحث کی گئی ہو۔ اس لیے اس کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ا ن خطبات میں سیاسی، سماجی اور عمرانی پہلوؤں کے علاوہ ان کے اسالیب پر بھی گفتگو کی گئی ہے۔
اس سلسلے کا 30 واں تحقیقی مقالہ 1991 میں ڈاکٹر انوار احمد نے ’تحریک آزادی کے فروغ میں اردو نثر کا حصہ (1857سے 1922) ‘ موضوع پر لکھا۔ یہ مقالہ اپنے موضوع کے اعتبار سے بھرپور مواد فراہم کرتا ہے۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ تحریک آزادی اور قومی بیداری میں اردو ادب نے جتنا اہم رول ادا کیا ہے اتنا کسی دوسری زبان نے نہیں کیا ہے۔ اس مقالے سے 1857کی جنگ آزادی کا پس منظر، انڈین نیشنل کانگریس کا قیام اور اس کے مقاصد کی ترویج و تشریح میں اردو کی نثری تحریروں کا حصہ ، معروف اہل قلم کی تحریروں کا جائزہ جیسے امور پر معلومات فراہم ہوتی ہے۔ 1991میں دو اور مقالات تحریر کیے گئے ہیں۔ پہلا ڈاکٹر عبد الرحیم نے ’اردو نثر کی ترقی میں تراجم کا کردار 1725 تا1837 ‘ موضوع پر اور دوسرا مقالہ ’پنڈت آنند نرائن ملا : حیات و شاعری ‘ پر ڈاکٹر عبد الرشید نے لکھ کر آنند نرائن کی حیات اور ان کی شاعری سے متعلق بعض نئے گوشے اجاگر کیے ہیں۔ 
1992 میں ’شفیق جونپوری : حیات و خدمات ‘ پر لکھا گیا مقالہ ڈاکٹر فہمیدہ خاتون کا ہے۔شفیق جونپوری کو سمجھنے کے لیے اس سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ 1992 میں ایک اور مقالہ ڈاکٹر ظہیر احمد نے تحریر کیا ہے۔ ان کا موضوع ’نازش پرتاپ گڑھی: حیات اور شاعری ‘ ہے۔ ڈاکٹر کنیز فاطمہ نے 1993 میں ’فکر تونسوی : حیات اور خدمات‘ پر ایک بہتر کام کیا ہے پروفیسر محمود الٰہی کی زیر نگرانی پی ایچ ڈی کا آخری مقالہ (36واں) 1994 میں لکھا گیا ہے۔ یہ مقالہ ڈاکٹر رئیسہ خاتون نے ’اردو فکشن میں جنگ آزادی کی عکاسی ‘ موضوع پر لکھا ہے۔ 
جیسا کہ ذکر کیا جا چکا ہے کہ پروفیسر محمود الٰہی کی نگرانی میں ایک مقالہ ڈی لٹ کی ڈگری کے لیے بھی تحریر کیا گیا ہے۔ یہ مقالہ مشہور مرثیہ شناس پروفیسر فضل امام رضوی نے ’انیس : شخصیت اور فن‘ پر 1980 میں تحریر کیا ہے۔ اس گراں قدر اور اہم کام کی اہمیت و افادیت اس قدر ہے کہ پروفیسر فضل امام رضوی کا شمار انیس شناسی میں ہونے لگا ہے۔ 
اب ہم شعبۂ اردو گورکھپور یونیورسٹی ، گورکھپور کے دوسرے اہم استاد پروفیسر نور العین لاری (احمر لاری ) کی نگرانی میں ہوئے تحقیقی کاموں کا تعارف پیش کریں گے۔ ان کی نگرانی میں مختلف موضوعات پر 17 تحقیقی مقالات تحریر کیے گئے ہیں۔ جن سے ہم آئندہ صفحات میں متعارف ہوں گے۔
اس سلسلے کا سب سے پہلا مقالہ ڈاکٹر محمد نعیم صدیقی کا ہے۔ انھوں نے یہ مقالہ ’سید سلیمان ندوی کی ادبی خدمات‘ پر 1979 میں تحریر کیا ہے۔ پروفیسر لاری کی نگرانی میں یہ کام بہتر اور اعلیٰ قسم کا ہے۔ سید سلیمان ندوی شبلی کے دبستان تنقید کے اہم رکن ہیں۔ بلاشبہہ انھوں نے اپنے استاد کے تنقیدی افکار کی نہایت کامیاب تحقیق کی ہے۔ مقالہ نگار نے الندوۃ ، الہلال اور معارف کی روشنی میں سید سلیمان ندوی کی صحافتی خدمات کا جائزہ لیا ہے۔ دوسرا اہم مقالہ ’غالب کے نقاد‘ موضوع پر 1982 میں ڈاکٹر محمد مشتاق خاں نے تحریر کیا ہے۔ انھوں نے غالب کے اہم ناقدین کا تفصیل سے جائزہ لیتے ہوئے اسے چار ادوار میں تقسیم کیا ہے اور سیر حاصل بحث کی ہے۔ ’اردو نظم میں سماجی مسائل کی عکاسی 1870- 1935 ‘ موضوع پر 1983 میں ڈاکٹر نعمان احمد نے کام کیا ہے۔ مقالہ نگار نے ادب اور سماجی مسائل اور اردو نظم میں سماجی مسائل کی عکاسی کو مختلف ادوار میں تقسیم کر کے مفصل گفتگو کی ہے۔ اس ضمن میں انقلاب 1857 پر لکھے گئے شہر آشوبوں کا جائزہ ، پہلی جنگ عظیم، انقلاب روس، تحریک خلافت اور جدو جہد آزادی کے وسیع تناظر میں اردو نظموں کا جائزہ لیا گیا ہے۔ 
ڈاکٹر کفایت اللہ انصاری نے ’مظفر علی اسیر : حیات اور ادبی خدمات‘ پر 1984 میں مقالہ لکھا ہے۔ اسیر مختلف اصناف میں طبع آزمائی کے علاوہ علم عروض میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ اس موضوع پر انھوں نے کئی رسالے بھی تحریر کیے ہیں۔ اس مقالے میں ان تمام پہلوؤں پر اظہار خیال کیا گیا ہے۔ پروفیسر احمر لاری کی نگرانی میں 1986میں تین تحقیقی مقالات تحریر کیے گئے ہیں۔ ڈاکٹر عبد الوحید نے ’پریم چند کے افسانوں کا سماجیاتی مطالعہ ‘ موضوع پر مقالہ لکھا۔ اس میں انھوں نے پریم چند کے عہد میں سماجی اصلاح کی تحریکیں، پریم چند کے افسانوں میں نظریات کی آویزش، طبقاتی شعور اور فنی و لسانی رویے سے بحث کرتے ہوئے پریم چند کی کہانیوں کے مختلف پہلوؤں پر گفتگو کی ہے۔ دوسرا مقالہ ڈاکٹر محمد شمیم نے ’شبلی کی نثر‘ پر لکھا ہے۔ اردو نثر کی تاریخ میں شبلی ممتاز حیثیت کے مالک ہیں انھوں نے موضوع اور اسلوب دونوں اعتبار سے اردو نثر میں گراں قدر اضافے کیے ہیں۔ یہ مقالہ اہم مقام رکھتا ہے۔ تیسرا مقالہ ڈاکٹر محمد ایمن انصاری نے ’اردو ناولوں میں سماجی مسائل کی عکاسی 1935 تک ‘ کے عنوان پر لکھا ہے۔
پروفیسر احمر لاری کی نگرانی میں آٹھواں مقالہ 1988 میں ڈاکٹر افشار احمد نے ’اردو ناول 1936 کے بعد ‘ تحریر کیا ہے۔ یہ مقالہ 1936 کے بعد ناول کی صورت حال کو واضح کرتا ہے۔ 1989 میں ڈاکٹر انور حسین نے ’پریم چند کے ناولوں کا سماجی مطالعہ ‘ موضوع پر مقالہ تحریر کیا ہے۔ 1991 میں ’نشور واحدی : شخصیت اور فن ‘ پر جامع مقالہ ڈاکٹر محمد ارشد خاں نے تحریر کیا ہے۔ نشور واحدی کو سمجھنے میں مزید مدد ملتی ہے۔
پروفیسر احمر لاری کی نگرانی میں ایک اہم کام جس کا عنوان ’خرد افروز کی تدوین ‘ پر 1993 میں ڈاکٹر پرویز لاری نے مقالہ تحریر کر کے تدوین کے باب میں اہم اضافہ کیا ہے۔ چونکہ عنوان قابل توجہ ہے اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مقالے کی روشنی میں اس کا مختصر تعارف پیش کر دیا جائے۔ خرد افروز فورٹ ولیم کالج کے شعبۂ فارسی کے استاد حفیظ الدین احمد کی تالیف ہے۔ جس کا سلسلہ سنسکرت کے قدیم قصے ’کرتک دستک‘ (کلیلہ دمنہ ) تک پہنچتا ہے۔ خرد افروز ہندوستان کے قدیم کلاسیکی ادب کی نمائندگی کے ساتھ ساتھ فورٹ ولیم کالج کے نمائندہ اسلوب نثر کا اعلیٰ نمونہ بھی پیش کرتی ہے۔ بعض محققین نے خرد افروز کو تحقیق کا موضوع بنایا ہے لیکن بقول مقالہ نگار وہ ادھورا ہے۔ مذکورہ مقالہ نگار نے خرد افروز کے قلمی نسخے مملوکہ ایشیاٹک سوسائٹی کلکتہ کو اپنے متن کی بنیاد بنایا ہے۔ یہ مقالہ مقدمۂ خرد افروز کے متن، فرہنگ اور کتابیات پر مشتمل ہے۔ خرد افروز میں جس کتاب کے مطالب کو پیش کیا گیا ہے اس کا شمار دنیا کی عظیم کتابوں میں ہوتا ہے یعنی کلیلہ دمنہ۔ اس کتاب میں جانوروں کی زبان سے آداب معاشرت، تدبیر منزل اور آئین جہانداری کے اصول بیان کیے گئے ہیں اور یہی وہ کتاب ہے جو دنیا کی تمام زبانوں میں ترجمہ ہو کر ہر زمانے میں ادب کے ہر شعبے پر اور ادبی تحریکات کے تمام گوشوں پر اثر انداز ہوئی ہے۔ مقالہ نگار نے یہ بھی تحریر کیا ہے کہ خرد افروز اپنی سادگی، سلاست ، عام فہم الفاظ، روز مرہ اور محاوروں کے بر محل استعمال کے علاوہ فطری، جاندار اور رواں اسلوب کے لحاظ سے اردو نثر کی تاریخ میں ایک اہم اور نمایاں مقام رکھتی ہے۔
لاری صاحب کی نگرانی میں تحریر کیا گیا بارہواں تحقیقی مقالہ 1993 میں ہی ڈاکٹر زبیدہ خاتون نے ’مسعود اختر جمالی: شخصیت اور فن ‘ کے موضوع پر لکھا ہے۔ مسعود اختر جمالی ترقی پسند تحریک کے زیر اثر ایسے شاعر ہیں جنھوں نے نظم کے علاوہ غزل، قطعات اور گیت وغیرہ میں طبع آزمائی کی ہے۔ ان کی شاعری ترقی پسند تحریک کی بھرپور ترجمانی اور نمائندگی کرتی ہے۔ موصوفہ نے ان تمام پہلوؤں کو احاطۂ تحریر میں لانے کی کوشش کی ہے۔ 1995میں ڈاکٹر اکبر علی نے ’ترقی پسند تحریک اور اردو نظم‘ پر مقالہ لکھ کر ترقی پسنداردونظم کے دامن کو وسیع کیا ہے۔ ترقی پسند تحریک کے زیر اثر لکھی گئی اردو نظم نے مقامی اور بین الاقوامی موضوعات کو اپنے قریب جگہ دے کر اس کی افادیت میں اضافہ کیا ہے۔ اور یہ ثابت کر دیا ہے کہ جس طرح نثر میں افسانہ ترقی پسند تحریک کی دین ہے اسی طرح شاعری میں نظم بھی ترقی پسند تحریک کا ایک اہم کارنامہ ہے۔ مقالہ نگار نے ممتاز ترقی پسند نظم گو شعرا فیض، مجاز،فراق، سردار جعفری، مخدوم، جذبی، کیفی، ساحر، سجاد ظہیر، وامق، مسعود اختر جمال، جاں نثار اختر اور سلام مچھلی شہری کے فکری و فنی محاسن کا تجزیہ کیا ہے۔ 
پروفیسر احمر لاری کی نگرانی میں لکھا گیا 14واں اور آخری مقالہ ڈاکٹر ممتاز جہاں کا ہے۔ جنھوں نے ’ترقی پسند تحریک اور اردو غزل‘ پر 1995 میں تحقیقی کام کیا ہے۔ اس تحقیق میں صرف ترقی پسند غزلوں سے متعلق گفتگو کی گئی ہے۔ مقالہ نگار نے ترقی پسند تحریک کے زیر اثر اردو غزل کا تفصیل سے جائزہ لیا ہے۔ ترقی پسند تحریک نے اپنے نظریات کے تحت غزلوں میں جو تبدیلی کی ان میں خامیوں کے علاوہ مقالے میں خوبیاں زیادہ ہیں۔ پوری دنیا میں ظلم و ستم، ناروا جبر و استبداد، طبقاتی کشمکش، رنگ و نسل، آزادی اور امن، اقتدار کی رسہ کشی کے پس منظر میں یہ غزلیں دیکھی جا سکتی ہیں۔ یہ حالات آج کے دور کا المیہ ہیں اور ترقی پسند غزل ان کی بھرپور ترجمانی کرتی ہے۔
درج بالا سطور میں جن تحقیقی مقالات کا تذکرہ کیا گیا ہے ان میں سے بیشتر مقالات ایسے ہیں جن کے مطالعے سے نہ صرف اہم معلومات فراہم ہوتی ہیں بلکہ زبان و بیان کی دلکشی ، سادگی، سلاست و روانی سے بھی محظوظ ہوا جا سکتا ہے۔ 
شعبۂ اردو گورکھپور یونیورسٹی، گورکھپور کے استاد (سابق) ڈاکٹر سلام سندیلوی کی زیر نگرانی صرف ایک تحقیقی مقالہ ’ریاض خیر آبادی : حیات اور خدمات ‘ کے موضوع پر ڈاکٹر خلیل اللہ خاں نے لکھا ہے۔ ریاض خیر آبادی کی فکری و فنی خوبیوں کو سمجھنے کے لیے یہ مقالہ مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ 
معروف ادیب اور مشہور شاعر ڈاکٹر اختر بستوی نے بھی گورکھپور یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں درس و تدریس کے فرائض انجام دیے ہیں۔ ان کی نگرانی میں اردو زبان و ادب کے مختلف موضوعات پر گیارہ تحقیقی مقالات قلم بند کیے گئے ہیں۔ آئندہ صفحات میں ان کا تعارف ملاحظہ فرمائیں۔ 
1986 میں ڈاکٹر شفیق احمد نے ’کرشن چندر کی افسانہ نگاری ‘ پر ایک جامع مقالہ لکھ کر کرشن چندر کے افسانوی ادب کو وسیع کیا ہے۔ دوسرا مقالہ ڈاکٹر درخشاں تاجور نے 1988 میں ’ہندوستان کی جدو جہد آزادی میں اردو شاعری کا حصہ ‘ موضوع پر لکھا ہے۔ اور اس کا زمانہ 1857 سے 1947 متعین کیا ہے۔ یہ زمانہ ہندوستان کی تاریخ میں اس لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے کہ اسی زمانے میں ہماری آزادی کی جدو جہد حقیقی معنوں میں پروان چڑھی۔ نوے برس کا یہ طویل زمانہ اردو ادب اور خاص طور پر اردو شاعری کی تاریخ میں بھی اس لیے خصوصی اہمیت رکھتا ہے کہ اس پودے کی آبیاری کرنے اور اسے پروان چڑھانے میں اردو شاعری کی زبردست کوششیں بھی شامل رہیں۔ یہ مقالہ اس اعتبار سے اہم ہے کہ اس میں ان تمام امور پر سیر حاصل بحث ملتی ہے۔ اس کا مقصد اردو شاعری کے رول کو اجاگر کرنا ہے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ اردو شاعری نے ہندوستان کی آزادی میں کس قدر حصہ لیا ہے۔ 1988 میں ہی ڈاکٹر بشریٰ بانو نے ’اردو میں تنقید نگاری کا ارتقا ‘ موضوع پر تحقیقی مقالہ قلم بند کیا ہے۔ ڈاکٹر اختر بستوی کی زیر نگرانی 1990 میں دو تحقیقی مقالات تحریر کیے گئے ہیں۔ جس میں پہلا مقالہ ڈاکٹر خورشید عالم خاں نے ’اردو افسانوں میں گاؤں کی عکاسی ‘ اور دوسرا ڈاکٹر محمد اشرف نے ’عصمت چغتائی : حیات اور ادبی خدمات ‘ پر لکھا ہے۔ اشرف صاحب نے عصمت چغتائی جیسی بے باک خاتون کے حالات زندگی اور ان کی ادبی خدمات پر تفصیلی گفتگو پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ 
1991 میں ڈاکٹر شاہجہاں ف نے ’اردو افسانوں میں خواتین کے مسائل‘ عنوان پر تحقیقی مقالہ لکھا ہے۔ اس میں خواتین کے مسائل کو افسانے میں کس طرح پیش کیا گیا ہے اسے منظر عام پر لانے کی کوشش کی گئی ہے۔ 1992 میں ڈاکٹر فوزیہ بانو نے ’اردو تحقیق کا ارتقا 1947 تا 1975 ‘ پر کام کر کے تحقیق جیسے خشک موضوع پر بہتر کام کیا ہے۔ مذکورہ مقالے میں متنی تحقیق اہم عنوان ہے۔ مقالہ نگار نے تحریر کیا ہے کہ آزادی کے بعد تحقیق متن کی سب سے اچھی مثال مولانا امتیاز خاں عرشی نے دیوان غالب کی ترتیب کی شکل میں پیش کی ہے۔ عرشی صاحب غالب کے صرف دلدادہ نہیں تھے بلکہ انھیں اس بات کا احساس تھا کہ جب تک دیوان غالب کے سارے نسخوں کو سامنے رکھ کر غالب کا دیوان مرتب نہیں کیا جائے گا اس وقت تک غالب شناسی کا حق ادا نہیں ہوگا۔ تحقیق سے متعلق بعض امور پر اس مقالے سے رہنمائی حاصل کی جا سکتی ہے۔
آٹھواں مقالہ ڈاکٹر ذاکر حسین نے ’بیسویں صدی کے اردو ناولوں میں کسانوں اور مزدوروں کے مسائل‘ پر 1992 میں ہی لکھا ہے اور 1994 میں ڈاکٹر سیما فاروقی نے ’پریم چند کے ناولوں میں خواتین کے مسائل ‘ موضوع پر اچھا کام کیا ہے۔ ’کلیم الدین احمد: حیات اور کارنامے‘ عنوان پر 1996 میں ڈاکٹر زیبا محمود نے عمدہ مقالہ تحریر کیا ہے۔ اس مقالے میں موصوفہ نے کلیم الدین احمد کی زندگی کے اہم گوشے اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ اردو میں تنقید نگاری کا اجمالی جائزہ ، اردو تنقید پر مغربی اثرات کی نشاندہی ، کلیم الدین احمد کا تنقیدی شعور اور اردو تنقید پر ایک نظر کا تنقیدی جائزہ، اردو شاعری پر ایک نظر کا تنقیدی جائزہ، کلیم الدین احمد کی تحقیقی کاوشوں اور ان کی نثر نگاری کی خصوصیات اور کلیم الدین احمد کا شاعرانہ مرتبہ جیسے پہلوؤں پر گفتگو کی ہے۔ آخری مقالہ جو ڈاکٹر اختر بستوی کی نگرانی میں قلم بند کیا گیا ہے وہ ڈاکٹر غزالہ پروین کا ہے۔ انھوں نے یہ مقالہ 1997 میں ’نذیر احمد اور ان کے معاصرین کے ناولوں میں خواتین کے مسائل ‘ موضوع پر لکھا ہے۔ 
پروفیسر افغان اللہ خاں کی نگرانی میں کل تیرہ مقالات قلم بند کیے گئے ہیں جن کی تفصیل اس طرح ہے : 1988 میں ’اردو ناولٹ کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ‘ ڈاکٹر وضاحت حسین رضوی کا تحریر کردہ مقالہ ہے۔ ’کیفی اعظمی : فکرو فن ‘ پر 1989 میں ڈاکٹر شکیلہ رفعت علی نے کام کیا ہے۔ 1993 میں لکھا گیا تحقیقی مقالہ ’شمالی ہند کی اردو مثنویوں میں نسوانی کردار ‘ ڈاکٹر عابدہ اصغری کا ہے۔ ڈاکٹر شہناز احمد نے ’ترقی پسند تحریک اور اردو افسانہ ‘ موضوع پر 1998 میں مقالہ تحریر کیا ہے۔ 1999 میں ڈاکٹر ماہ جبیں نے ’اردو افسانوں میں قومی یکجہتی کے عناصر ‘ موضوع پر مقالہ رقم کیا ہے۔ ’ساحر لدھیانوی : حیات اور شاعری پر 1999 میں تحریر کیا گیا مقالہ ڈاکٹر پروین کا ہے۔ ’فاروق بانسپاری : حیات اور خدمات ‘ پر ڈاکٹر شبینہ خاتون نے 2000 میں تحقیقی مقالہ قلم بند کیا ہے۔ 
پروفیسر افغان اللہ خاں کی نگرانی میں آٹھواں مقالہ مشہور شاعر اور گیان پیٹھ ایوارڈ یافتہ پروفیسر شہریار پر ڈاکٹر ساجد حسین انصاری نے ’شہر یار : حیات اور خدمات‘ لکھا ہے۔ اس مقالے سے شہر یار کے خاندانی حالات کے علاوہ ان کی ابتدائی تعلم، ابتدائی شاعری، ان کی غزلوں کی قدرو قیمت ، نظموں کی انفرادیت ، نثری کارنامے اور شعرو ادب میں شہریار کا مقام وغیرہ سے متعلق اہم معلومات فراہم ہوتی ہیں۔ یہ مقالہ 2004 میں قلم بند کیا گیا ہے۔ اسی سال ڈاکٹر سلمیٰ بانو نے ’اردو تنقید : تذکروں سے تنقید تک (ایک تنقیدی جائزہ ) ‘ عنوان پر کام کر کے تذکروں اور تنقید کی اہمیت کو واضح کیا ہے۔ اس مقالے میں تنقیدی شعور اور ادبی تنقید، قدیم ہندوستانی تنقید، عربی تنقید، فارسی تنقید، مغربی تنقید، تذکروں میں تنقید، اردو تنقید کا آغاز و ارتقا حالی تک اور تنقید کے مختلف دبستان جیسے امور پر سیر حاصل گفتگو ملتی ہے۔ 2005 میں ڈاکٹر زیبا خاتون نے ’بیسویں صدی میں خطوط نگاری کی روایت اور اس کا تنقیدی جائزہ‘ لکھ کر خطوط نگاری کی اہمیت کو واضح کیا ہے۔ زیر نظر مقالے میں موصوفہ نے خطوط نگاری کی روایت کے ساتھ ساتھ اس کے آغاز و ارتقا سے متعلق مفصل بحث کی ہے۔ ادبی خطوط کے ساتھ مذہبی خطوط کا بھی جائزہ لیا ہے۔ اس کے علاوہ اس مقالے میں غالب سے لے کر اقبال، شبلی، مولانا ابو الکلام آزاد ، مہدی افادی، رشید احمدصدیقی اور فراق گورکھپوری وغیرہ کی خطوط نویسی کا تذکرہ ملتا ہے۔ 
’فراق گورکھپوری بحیثیت نقاد‘ پر ڈاکٹر ترنم حسن نے 2005میں مقالہ لکھ کر فراق کی تنقیدی بصیرت کو اجاگر کیا ہے۔ اس مقالے میں فراق کی شاعری کا اجمالی جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ فراق کی تنقید کی روشنی میں ان کا مرتبہ و مقام متعین کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ موصوفہ رقمطراز ہیں کہ فراق کو ناقدین صرف ایک تاثراتی نقاد کہہ کر آگے بڑھ جاتے ہیں حالانکہ فراق نے شعر اور فن پاروں کے تجزیے میں تقریباً وہی طریقہ اختیار کیا ہے جو سائنٹفک تنقید یا نقادوں کا ہونا چاہیے۔ فراق کی تنقیدی کتابوں میں اندازے، اردو کی عشقیہ شاعری، حاشیے ، اردو غزل گوئی، من آنم وغیرہ کے مطالعے سے کہیں بھی ان کے تاثراتی نقاد ہونے کا ثبوت نہیں ملتا ہے۔ ’فراق کی شاعری میں ہندوستانی اور ہندو دیو مالائی عناصر ‘ کے موضوع پر ڈاکٹر شگفتہ خاتون نے 2005 میں تحقیقی مقالہ لکھ کر گوشۂ فراق میں ایک اور اضافہ کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فراق نے اپنی شاعری میں انگریزی، سنسکرت اور ہندی زبانوں کے علاوہ فارسی سے بھی استفادہ کیا ہے۔ محترمہ نے تحریر کیا ہے کہ فراق کی شاعری کی جو اہمیت و افادیت ہے اس کی وجہ ان کی شاعری میں ہندستانی فلسفہ اور ہندو دیو مالائی عناصر کی اثر آفرینی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ فراق سے قبل اس کا ذکر رسمی طور پر ملتا ہے۔ فراق کی شاعری میں حیات و کائنات ، انسان، زندگی اور موت کا جو تصور ہے وہ خالص ویدک فلسفے پر مبنی ہے۔ 
پروفیسر افغان اللہ خاں کی نگرانی کا آخری تحقیقی مقالہ 2007 میں ڈاکٹر آصف زہری نے ’اختر الایمان کی نظم نگاری ‘ عنوان سے لکھا ہے۔ یہ مقالہ اختر الایمان کی زندگی کے حالات کے علاوہ ان کی فکری جہات مثلاً : رومانوی، ترقی پسندی اور جدید شعری روایات کا بھرپور احاطہ کرتا ہے۔ آصف زہری نے فنی نقطۂ نظر سے اختر الایمان کی لفظیات، تشبیہات، استعارات اور ہیئت وغیرہ سے بحث کی ہے۔ روایت سے گہرا رشتہ اور اپنے معاصرین سے اثرات قبول کرنے کے باوجود اختر الایمان کی اپنی الگ پہچان ہے۔ اس مقالے میں اختر الایمان کی بعض چنندہ اور نمائندہ نظموں کا تفصیلی تجزیہ بھی پیش کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ان کے معاصرین نظم گو شعرا کا بھی تذکرہ ملتا ہے۔ پروفیسر افغان اللہ خاں کی نگرانی میں یہ کام عمدہ ہے اور محنت سے کیا گیا ہے۔ 
پروفیسر محمود الٰہی اور پروفیسر احمر لاری وغیرہ نے ابتدائی دور میں تحقیق کا جو معیار و اعتبار قائم کیا تھا بعد میں اس میں کچھ بے توجہی نظر آتی ہے اس کمی کو موجودہ سربراہ اور شعبے کے استاد ڈاکٹر محمد رضی الرحمن دور کرنے کی سعی کر رہے ہیں۔ شعبۂ اردو کی لائبریری پر ان کی خاص توجہ ہے۔ انھوں نے بہت سی درسی و غیر درسی کتابیں ذاتی خرچ سے منگائی ہیں تاکہ طلبہ یا ریسرچ اسکالرس کو کسی طرح کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے اور طلبہ کی دامے، درمے، قدمے، سخنے مدد پہنچانے میں دریغ نہیں کرتے ہیں ۔ یہ اور بات ہے کہ شعبۂ اردو کی ساری ذمے داری انھی کے سر ہے۔ وہی تنہا شعبے کو سنبھالے ہوئے ہیں اس وجہ سے درس و تدریس کے علاوہ تحقیقی کاموں میں بھی خلل پڑتا ہے۔ آئندہ سالوں میں گورکھپور یونیورسٹی کا شعبۂ اردو تحقیق کی نئی بلندیوں کو چھوے گا اور درس و تدریس کی فضا ہموار و سازگار ہوگی۔ شرط یہ ہے کہ اساتذہ کی تقرر ی عمل میں آجائے مگر اس جانب نہ تو کسی کی توجہ ہے اور نہ ہی کوئی محنت و کوشش ہو رہی ہے۔
اب آئیے موصوف کی نگرانی میں ہوئے تحقیقی کاموں کا جائزہ لیا جائے۔ 
ڈاکٹر محمد رضی الرحمن کی نگرانی میں اب تک کل سات مقالے تحریر کیے جا چکے ہیں۔ ان میں پہلا مقالہ 2007 میں ڈاکٹر ہما نے تحریر کیا ہے۔ ان کا موضوع ’اشاریہ ہماری زبان : علی گڑھ ۔ دہلی (اگست1939 سے آج تک )‘ ہے۔ موضوع سے ظاہر ہے کہ یہ بڑی ذمے داری کا کام ہے جسے ڈاکٹر رضی الرحمن کی سرپرستی میں ہما صاحبہ نے پایۂ تکمیل تک پہنچایا ہے۔ موصوفہ نے اشاریہ سازی کے علاوہ اس مقالے میں اشاریہ سازی کے فن سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے اس کی روایت اور مختصر تاریخ کا بھی تذکرہ کیا ہے۔ مثلاً: مسعود حسن رضوی ادیب کے مطابق اب تک کا سب سے قدیم اشاریہ ’اورینٹل کالج میگزین ‘ لاہور ہے ، جسے محمد ابراہیم و سید عبد اللہ نے مرتب کیا ہے۔ عابد رضا بیدار نے ’الندوۃ‘ کا اشاریہ تیار کیا ہے، پروفیسر رفیع الدین ہاشمی نے غالب و اقبال کا اشاریہ تیار کیا اور عبد القوی دسنوی نے ’انیس نما‘ (ہندستانی رسائل کے حوالے سے ) ترتیب دے کر اہم کام کیا ہے۔ اردو زبان وا دب کی ترویج و اشاعت میں ’ہماری زبان ‘ کا اہم رول رہا ہے۔ مذکورہ مقالہ اس نقطۂ نظر سے اہم ہے کہ اس میں اگست 1939 سے 2004 تک کے مشمولات کو یکجا کر دیا ہے، جس سے اس صنف پر کام کرنے والوں کے لیے آسانیاں پیدا ہوں گی۔ اس مقالے سے ’ہماری زبان ‘ کی علمی، ادبی اور صحافتی سرگرمیوں کا اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کے اداریوں کی تنقیدی اور تاریخی اہمیت بھی واضح کی گئی ہے اور ہم عصر اخبارات سے اس کا موازنہ بھی کیا گیا ہے۔ 
دوسرا مقالہ 2010 میں ڈاکٹر ملک جاوید انور نے ’مشرقی اضلاع میں شعرو ادب کا آغاز و ارتقا‘ کے نام سے تحریر کیا ہے۔ اس مقالے میں خاص طور پر گورکھپور، بستی اور اعظم گڑھ کے حوالے سے گفتگو کی گئی ہے اور وہاں کے شعری اور نثری کارناموں پر اظہار خیال کیا گیا ہے۔ گورکھپور کی ادبی شخصیات کے ضمن میں موصوف نے میر بہادر علی وحشت کا ذکر کیا ہے جنھوں نے قیام گورکھپور کے دوران ’بکٹ کہانی ‘ لکھی۔ اس کے علاوہ مذکورہ مقالے میں یہ بتایا گیا ہے کہ مولوی احسان اللہ عباسی، قاضی تلمذ حسین، مہدی افادی، مجنوں گورکھپوری، عبد الرحیم دہریہ جیسے ادیب اور گورکھپور پر شاد عبرت ، سنت لال عنبر، مرزا عبد الحمید بیگ فہیم اور فراق گورکھپوری جیسے شاعر یہیں پیدا ہوئے، حفیظ جونپوری اور فطرت واسطی کی شاعری اسی سرزمین میں پروان چڑھی اور منشی پریم چند کی افسانہ نگاری اور ناول نگاری کو یہیں مقبولیت حاصل ہوئی۔ اعظم گڑھ کے دائرے میں علامہ شبلی نعمانی، احتشام حسین، اقبال سہیل، کیفی اعظمی، خلیل الرحمن اعظمی، عبد السلام ندوی وغیرہ زیر بحث آئے ہیں۔ بستی کا تذکرہ کرتے ہوئے قاضی عدیل عباسی اور ڈاکٹر اختر بستوی جیسے ادیب پر گفتگو کی گئی ہے۔ یہ مقالہ مشرقی اضلاع میں شعرو ادب کی سمت و رفتار کا پتہ دیتا ہے۔ 
تیسرا مقالہ ڈاکٹر اختر رضا نے ’مجنوں گورکھپوری : حیات و خدمات ‘ پر 2010 میں لکھ کر مجنوں گورکھپوری کے بعض اہم گوشوں اور تشنہ پہلوؤں کو پر کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ مقالہ مجنوں گورکھپوری کے حالات زندگی اور ان کی ادبی خدمات پر بھرپور روشنی ڈالتا ہے۔ جیسا کہ ذکر کیا جا چکا ہے کہ موجودہ دور میں گورکھپور کی بعض شخصیات پر بھی مقالے لکھے گئے ہیں۔ یہ مقالہ اسی کا ایک حصہ ہے۔ 
اس سلسلے کا چوتھا مقالہ قاضی تلمذ حسین پر لکھا گیا ہے۔ جنھوں نے گورکھپور میں ہی نہیں بلکہ ملکی سطح پر زبان کی ترقی و ترویج میں اپنی پوری زندگی صرف کر دی۔ ڈاکٹر محمد عظیم فاروقی نے ’قاضی تلمذ حسین : حیات اور خدمات ‘ کے عنوان سے 2010 میں ہی مقالہ لکھ کر قاضی صاحب کی علمی و ادبی خدمات کا بھرپور احاطہ کیا ہے۔ مقالہ نگار کے مطابق قاضی تلمذ حسین کی علمی و ادبی صلاحیت سے متاثر ہو کر نظام حیدر آباد نے انھیں حیدر آباد کی دعوت دی، جسے قبول کرتے ہوئے قاضی تلمذ حسین ایک مدت تک دارالترجمہ عثمانیہ میں ترجمے کا کام کرتے رہے۔ اس دوران انھوں نے سیاسیات کے مترجم کی حیثیت سے تقریباً انیس کتابوں کے ترجمے کیے۔ اس مقالے میں گورکھپور کی ادبی تاریخ کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ قاضی صاحب کا خاندانی پس منظر ، ان کی ازدواجی زندگی، ابتدائی تعلیم وغیرہ کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ مذکورہ مقالے میں قاضی تلمذ حسین کی صرف انھی کتابوں یا تراجم پر تبصرہ کیا گیا ہے جو سرکار عالی حیدر آباد دکن سے شائع ہو چکی ہیں۔ قاضی صاحب کی تصنیفات و تالیفات کا ذکر کرتے ہوئے انھی علمی کارناموں کو شامل کیا گیا ہے، جو انھوں نے دار الترجمہ کے باہر انجام دیے ہیں۔ ان کی غیر مطبوعہ کتابوں کا تذکرہ بھی شامل مقالہ ہے۔ مثلاً: مراۃ المثنوی، (مولانا روم کی مثنوی کو ایک خاص ترتیب کے ساتھ یکجا کیا ) صاحب المثنوی (مولانا روم کی مفصل اور محققانہ سوانح عمری) نقد المثنوی ( مولاناروم کی مثنوی پر ناقدانہ نقطۂ نظر سے تذکرہ ) ریاض رضواں (ریاض خیر آبادی کے دیوان کی ترتیب ) اور دیگر خدمات میں تاریخ ظفرہ ، حقوق المسلمین ، ترجمان القرآن اور لسان العصر وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
2010 میں ہی ڈاکٹر رضی الرحمن کی زیر نگرانی پانچواں مقالہ ڈاکٹر ممتاز ترنم نے لکھا ہے، جس کا موضوع ’ملک زادہ منظور احمد : حیات و خدمات ‘ ہے۔ ملک زادہ منظور احمد کی شخصیت متنوع ہے وہ بیک وقت اردو کے ادیب، ناقد، استاد اور شاعر ہیں ان کے علمی کارنامے اس بات کے متقاضی تھے کہ ان پر بھرپور مقالہ لکھا جائے حالانکہ اس سے قبل ناگپور یونیورسٹی میں ان کی شخصیت اور فن پر کام ہو چکا ہے لیکن موصوفہ نے دعویٰ کیا ہے کہ اس مقالے میں بعض گوشے مخفی اور تشنہ ہیں۔ مذکورہ مقالے میں ان کا سوانحی خاکہ مرتب کرنے کے ساتھ ساتھ شاعر کی حیثیت سے ان کا مرتبہ و مقام متعین کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور ’شہر ستم‘ (شعری مجموعہ) کے حوالے سے ان کی شاعری پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ان کی افسانہ نگاری، ناول نگاری، سوانح نگاری سے بھی بحث کی گئی ہے۔ ان کی خود نوشت سوانح عمری، ’رقص شرر‘ پر تفصیلی گفتگو ملتی ہے۔ ملک زادہ منظور احمد کی صحافتی خدمات بھی قابل قدر ہیں۔ اس ضمن میں مقالہ نگار نے ’نبض‘ اور ’امکان‘ کے حوالے سے گفتگو کی ہے۔ یہ گفتگو بھی ملتی ہے کہ ملک زادہ منظور احمد اچھے ناظم مشاعرہ ہونے کی وجہ سے بھی عالمی اردو ادب میں اپنی الگ پہچان رکھتے ہیں۔ 
چھٹا مقالہ 2011 میں ڈاکٹر فرحان فاطمہ نے ’قاضی عدیل عباسی : حیات اور کارنامے‘ پر لکھا ہے۔ قاضی عدیل اپنے عہد کے باکمال لوگوں میں شامل تھے۔ انھوں نے اس عہد کی تاریخ پر گہرے اثرات ثبت کیے ہیں۔ عمر بھر قوم کو تعلیم کی برکتوں سے آشنا کرتے رہے۔ عملی طور پر انھوں نے فروغ تعلیم کے سلسلے میں کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں۔ جنگ آزادی کے حوالے سے قاضی صاحب کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے۔ فرحان فاطمہ نے جنگ آزادی سے متعلق قاضی صاحب کے شب و روز تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ قاضی عدیل عباسی کی تصانیف کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کی اہم کتابوں کا تنقیدی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ ان میں اقبال کا فلسفۂ حیات اور شاعری، جرأت رندانہ، علامہ اقبال کا پیام طلبۂ عصر کے نام وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔قاضی عدیل عباسی اپنی ذات میں ایک انجمن تھے وہ بیک وقت ایک ممتاز صحافی، ادیب، سیاست داں اور جنگ آزادی کے جاں باز مجاہد تھے۔ انھوں نے اپنی ساری زندگی قوم و وطن اور علم و ادب کی خدمت میں نثار کر دی۔ ان تمام خصوصیات کو مقالے کی زینت بنایا گیا ہے۔ ساتواں تحقیقی مقالہ ڈاکٹر شجاع الحق نے ترتیب دیا ہے۔ موضوع بہت اہم ہے۔ عام طور پر اردو زبان و ادب میں اس موضوع پر کم کام ہوا ہے۔ یہ مقالہ ’اردو میں حمد و نعت گوئی کی روایت ‘ پر 2013 میں تحریر کیا گیا ہے۔ اس موضوع پر ریسرچ کرنا بڑی محنت کا کام ہے کیونکہ مواد بہت کم دستیاب ہے۔ مقالہ نگار نے مختلف عنوانات قائم کر کے حمد و نعت گوئی کی مکمل داستان بیان کر دی ہے۔ اس مقالے میں اردو شاعری کا اجمالی جائزہ ، اردو شاعری میں حمد و نعت کی روایت، حمد و نعت گوئی کا آغاز و ارتقا، حمدو نعت گوئی کے اہم شعرا ، حمد و نعت گوئی کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ اور غیر مسلم نعت گو شعرا جیسے اہم عنوانات پر تفصیلی بحث ملتی ہے۔ 
مذکورہ بالا اوراق میں جن تحقیقی مقالات کا ذکر کیا گیا ہے ان میں بعض تو ایسے ہیں جن کا صرف تعارف کرا دیا گیا ہے، کچھ مقالات پر مختصر اً اظہار کیا گیا ہے اور بعض مقالات پر قدرے تفصیل سے گفتگو کی گئی ہے۔ جن مقالوں کا صرف تعارف پیش کیا گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ مقالات شعبۂ اردو کی لائبریری میں ہیں اور نہ ہی گورکھپور یونیورسٹی کی لائبریری سے دستیاب ہو سکے ہیں۔ امید ہے کہ آئندہ اس تشنگی کو دور کرنے کی سعی کی جائے گی۔ 
موجودہ وقت میں پانچ ریسرچ اسکالرس مختلف موضوعات پر تحقیقی مقالے ترتیب دے رہے ہیں۔ ان میں جناب ریاض احمد کا موضوع ’مشرقی یو پی میں اردو صحافت ‘ ہے۔ جناب قطب اللہ ’اردو غزل 1980 کے بعد ایک تنقیدی جائزہ ‘ موضوع پر کام کر رہے ہیں، سیدہ خاتون کا موضوع ’پریم چند کی غیر افسانوی نثر کا تنقیدی جائزہ ‘ ہے، نغمہ تبسم ’مکاتیب اقبال کا تنقیدی جائزہ‘ پر تحقیقی کام کر رہی ہیں۔ اور ہیم لتا ’اردو کے غیر مسلم شعرا کا تنقیدی جائزہ‘ عنوان پر مقالہ ترتیب دے رہی ہیں۔ امید ہے کہ آئندہ سالوں میں کچھ نئے اور ان چھوئے موضوعات پر تحقیقی مقالات قلم بند کیے جائیں گے اور خوب سے خوب تر کی تلاش جاری رہے گی۔ یو پی میں اردو تنقید کی روایت، یو پی میں اردو تحقیق کی روایت جیسے موضوعات زیر غور ہیں۔
اس تفصیلی گفتگو کا مقصد یہ ہے کہ شعبۂ اردو گورکھپوریونیورسٹی، گورکھپور میں اب تک جتنے بھی تحقیقی مقالات ترتیب دیے گئے ہیں ان کا تعارف اور خاکہ پیش کر دیا جائے۔ ان مقالات کی تنقید یا اس پر تبصرے سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ مذکورہ گفتگو سے یہ نتیجہ بر آمد ہوتا ہے کہ شعبۂ اردو گورکھپور یونیورسٹی میں مختلف موضوعات پر مقالے قلم بند کیے گئے ہیں اور موضوع میں کہیں تکرار نہیں ہے۔ ان میں بعض مقالے معیاری اور اہم ہونے کے ساتھ ساتھ زیور طباعت سے آراستہ ہو کر قبول عام اور اہل ذوق سے سند حاصل کر چکے ہیں۔ بعض مقالے نسبتاً بہتر ہیں اور بعض مقالے ایسے ہیں جن پر محنت کی ضرورت ہے وہ نظر ثانی کے بعد منظر عام پر لانے کے متقاضی ہیں تاکہ طلبہ اور اہل علم و ذوق اس سے مستفید ہو سکیں۔ 

Musheer Ahmed
C-164/122, Narsinghpur (Elahi Bagh)
Gorakhpur-273005 (U,P.)





قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

1 تبصرہ:

  1. معلوماتی مضمون بہت بہت مبارکباد میں نے دو مقالے اور تحریر کیے ہیں پویسٹ ڈاکٹورل فیلو شپ کے تحت انکو بھی میں نے شعبہ اردو سے وابستہ رہتے ہوئے تحریر کیا تھا یو جی سی کی فیلو شپ کے تحت مقالے کا موضوع تھا ١٨٥٧ اردو ماخذ کی روشنی میں اور انڈین کونسل آف ھسٹا ریگل ریسرچ کی فیلوشپ کا موضوع ١٨٥٧ میں اودھ کا محاذ اردو ماخذ کی روشنی میں تھا یہ مقالے بھی شائع ہو چکے ہیں اور ادبی حلقوں میں ان کی پذیرائی بھی ہو چکی ہے

    جواب دیںحذف کریں