6/3/19

ولی دکنی مضمون نگار:۔ پروفیسر ابن کنول



ولی دکنی
ابن کنول
کبھی کبھی یوں ہوتا ہے کہ کسی زبان، کسی مذہب یا کسی تہذیب کی ابتدا ایک خاص مقام یا علاقہ میں ہوتی ہے، لیکن بعض وجوہات کی بنا پر اسے فروغ دوسرے مقام پر ملتا ہے۔ اردو کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ شمالی ہند میں اس کی ابتدا ہوئی، لیکن فروغ دکن میں ملا۔ کئی صدی بعد اردو کی وطن واپسی ہوئی اور وہ بھی ایک دکنی کے دوش پر۔ ڈاکٹر محی الدین قادری زور لکھتے ہیں:
’’دکن میں نثر کی ابتدا کو چار سو سال سے زیادہ گزر جاتے ہیں اور اس عرصہ میں وہ دو منازل ارتقا بھی طے کرلیتی ہے مگر شمالی ہند اس سے بے خبر رہتا ہے، صرف یہی نہیں کہ شمال والوں نے اس میں کوئی کام نہیں کیا بلکہ وہ اس امر سے بھی ناواقف رہے کہ اردو نثر میں کتابیں لکھی گئی ہیں یا لکھی جاسکتی ہیں۔‘‘ 1
دکن میں نثر سے زیادہ اردو شاعری مقبول ہوئی۔ بہمنی سلطنت کے دور میں ’مثنوی کدم راؤ پدم راؤ‘ لکھی گئی، پھر عادل شاہی، قطب شاہی ادوار میں اردو شاعری نے زرّیں تاریخ رقم کی۔ اٹھارہویں صدی عیسوی کے اوائل میں جب اورنگ زیب کی وفات کے بعد مغلیہ سلطنت کا زوال شروع ہوگیا، دکن کے ایک باشندے نے شمال والوں کے سامنے اپنا کلام پیش کیا جس کو سن کر اہل شمال اپنی کھوئی ہوئی زبان کی طرف متوجہ ہوئے۔ دکن کے اس باشندے کا نام ولی تھا۔ ولی کا تعلق گجرات سے تھا جو اس وقت دکن ہی کہا جاتا تھا۔ میر نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے ؂
خوگر نہیں کچھ یوں ہی ہم ریختہ گوئی کے
معشوق جو تھا اپنا باشندہ دکن کا تھا
ریختہ گوئی یعنی اردو کی جانب شمالی ہند کے شعراء کی توجہ مبذول کرانے والا باشندہ ولی دکن ہی کا تھا۔ ولی خود بھی اپنے آپ کو دکنی کہتے ہیں ؂
ولی ایران و توراں میں ہے مشہور
اگرچہ شاعر ملک دکن ہے
یہ شعر یوں بھی ہے ؂
ولی ایران و توراں میں ہے مشہور
وطن گو اس کا گجرات و دکن ہے
بہرحال یہ بات تو ثابت ہے کہ اٹھارہویں صدی میں اردو کو شمالی ہند میں دوبارہ متعارف یا مقبول کرانے میں ولی یا ان کے کلام نے اہم کردار ادا کیا۔ 
نظامی سے ولی اور سراج تک آتے آتے دکنی زبان میں کافی تبدیلیاں آگئیں، اس کی وجہ اکبر، جہانگیر، شاہ جہاں اور اورنگ زیب کی مسلسل دکن میں مہمات جاری رکھنا تھیں۔ شمالی ہند کی فوج کے طویل قیام کے سبب دکنی زبان میں دکنیت کم ہوتی چلی گئی اور اس پر شمال کا اثر نمایاں ہونے لگا، جس کی مثال ولی اور سراج کے کلام میں نظر آتی ہے۔ ولی کے کلام ہی سے متاثر ہوکر اردو کو ریختہ کہنے والے اس زبان میں شاعری کرنے لگے۔ بقول ڈاکٹر جمیل جالبی:
’’ولی کا کارنامہ یہ ہے کہ اُس نے شمال کی زبان کو دکھنی ادب کی طویل روایت سے ملاکر ایک کردیا اور ساتھ ساتھ فارسی ادب کی رچاوٹ سے اس میں اتنی رنگارنگ آوازیں شامل کردیں اور امکانات کے اتنے سرے بھی اُبھار دیے کہ آئندہ دو سو سال تک اردو شاعری انہی امکانات کے ستاروں سے روشنی حاصل کرتی رہی، اس لیے ولی آئندہ دو سو سال کی شاعری کے نظام شمسی کا وہ سورج ہے جس کے دائرۂ کشش میں اردو شاعری کے مختلف سیارے گردش کرتے ہیں۔‘‘ 2
بلاشبہ ولی نے اردو کے لیے دکن اور شمال کے مابین ایک سفیر کا کام کیا، اسی لئے وہ اردو شاعری کے ’بابا آدم‘ بھی کہلائے۔ 
ولی کی زندگی سے متعلق صرف تذکروں کے بیان ہی پر اعتبار کرنا ہوگا جہاں ان کے اصل نام اور سفر دہلی یا تاریخ وفات پر بھی اختلافات ہیں۔ ولی کا نام کہیں ولی محمد لکھا ہوا ہے کہیں محمدولی اور کہیں ولی اللہ۔ تمام مآخذ کے مطالعہ سے یہ بات یقینی ہے کہ تخلص ولی ہے جو نام کا حصہ بھی ہے، گجرات سے تعلق ہے۔ بعض مآخد کی بنیاد پر ان کا وطن اورنگ آباد بھی کہا گیا ہے۔ 
ولی کا زمانہ سترہویں صدی کے اواخر اور اٹھارہویں صدی کے اوائل کا ہے۔ ولی کی تعلیم احمد آباد میں حضرت شاہ وجیہ الدین کی خانقاہ کے مدرسے میں ہوئی، جہاں شیخ نورالدین سہروردی موجود تھے۔ ولی کو ان کی سرپرستی حاصل ہوئی۔ ولی کا انتقال احمدآباد ہی میں ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ اورنگ زیب کی وفات کے بعد ولی دہلی آئے اور ان کی سعداللہ گلشن سے ملاقات ہوئی، جنھیں شاعری میں ولی نے اپنا استاد لکھا ہے۔ شاہ گلشن کا وطن بھی گجرات ہی تھا، لیکن دہلی میں سکونت اختیار کرلی تھی۔ ولی کی دلّی آمد کے متعلق مختلف روایتیں ہیں۔ یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ ولی دوبار دہلی آئے، پہلی بار اورنگ زیب عالمگیر کے زمانے میں، دوسری بار محمد شاہ کے عہد میں۔
ولی کے وطن، نام، تاریخ ولادت یا وفات وغیرہ میں کتنا ہی اختلاف سہی، لیکن اس صداقت سے نہ کسی کو انکار ہے اور نہ کوئی اختلاف کہ شمالی ہند میں اردو شاعری کے فروغ میں ولی نے سب سے اہم کردار ادا کیا۔ اٹھارہویں صدی کے اوائل میں اہل شمال فارسی ہی کی طرف راغب تھے، لیکن ولی کے کلام کی سادگی، سلاست، نفاست اور شستگی دیکھ کر اردو شعرگوئی کی جانب متوجہ ہوئے۔ اردو کو اپنے جذبات و احساسات کے اظہار کے لیے بہتر پایا۔ دکن کے بیشتر شعرا نے مثنویاں لکھیں۔ ولی نے مثنوی کی جگہ غزل کی طرف توجہ دی اور اپنا تمام تر وقت اور صلاحیت غزل کے فن پر قدرت حاصل کرنے میں صرف کردی۔ ولی کی غزل نے صفائی اور سادگی کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں ایسی جگہ بنائی کہ وہ فارسی غزل کے رواج پر اثرانداز ہوئی۔ غزل شاعری کی وہ صنف ہے جس میں ہر طرح کے جذبات و احساسات کو پیش کرنے کے مواقع زیادہ ہوتے ہیں۔ ولی کی شخصیت کے متعدد پہلو تھے، ان کی شاعری کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا مطالعہ و مشاہدہ نہایت وسیع تھا۔ ایک جانب وہ صوفیانہ سلسلہ سے قریب ہونے کے سبب انسانی افکار و اقدار کا بخوبی علم رکھتے تھے، دوسری طرف عوامی رابطوں کی وجہ سے ہندوستانی تہذیب سے بھی انھیں بھرپور واقفیت تھی۔ ہندوستانی تہذیبی عناصر کی جس قدر مختلف شکلیں ولی کے کلام میں نظر آتی ہیں وہ کسی دوسرے کے یہاں کم ہی دکھائی دیتی ہیں۔ ان کی شاعری عشق مجازی و حقیقی کا حسین امتزاج ہے جس عقیدت کا اظہار وہ خالق کائنات کی ثنا کے لیے کرتے ہیں اسی صداقت کے ساتھ صمیم قلب سے دنیاوی محبوب کی تعریف کرتے ہیں۔
دکن کی شعری روایت پر اگر غور کیا جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ شاعری میں عشق کا تصور اور اس کا اظہار شمال کے مقابلے میں مختلف ہے۔ اوّل تو دکن میں عشق کے موضوع کو فوقیت رہی ہے، ان کا محبوب بھی ہندوستانی ہے۔ دکن کی شاعری میں مقامی رنگ زیادہ نمایاں ہے، جبکہ شمال میں فارسی زبان و ادب کا غلبہ ہونے کی وجہ سے یہاں کی تہذیب، زبان اور ادب پر وسط ایشیا یا ایرانی تہذیب و ادب کے اثرات واضح نظر آتے ہیں۔ دکنی شعراء کا عشق بھی ہندوستانی ہے اور محبوب بھی۔ ولی کے یہاں جس قدر ہندوستانیت موجود ہے وہ بہت کم اردو شعرا کے یہاں دکھائی دے گی۔ ولی نے اگر ابوالمعالی کے لئے شعر کہے ہیں تو امرت لال، گوبند لال اور کھیم داس کو بھی اپنی شاعری میں یاد کیا ہے ؂
شمع بزم وفا ہے امرت لال
سرو باغ ادا ہے امرت لال
ماہ نو کی نمن ہے سب کوں عزیز
اس سبب کم نما ہے امرت لال
جوں شمع گل پڑیں گے شرمندگی سے گل رو
جس انجمن میں حاضر گوبند لال ہوگا
151151
ہے بس کہ آب و رنگ حیا کھیم داس میں
آتا نہیں کسی کے خیال و قیاس میں
ولی اپنی مٹی سے جڑا ہوا شاعر ہے، اس کی غزل میں اس کی مٹی کی خوشبو محسوس ہوتی ہے۔ اس کی شاعری وطن پرستی کی مثال ہے، ولی کا عشق بھی ہندوستانی ہے اور معشوق بھی ہندوستان ہی کا ہے۔ ظہیرالدین مدنی لکھتے ہیں:
’’ولی نے ہندی مستعملہ عنصر یعنی ہندوستان کی مذہبی، معاشرتی، تاریخی تلمیحوں، تشبیہوں اور استعاروں، دریاؤں، پھلوں، پھولوں، موسیقی کے سازوں، راگوں، مذہبی زیارت گاہوں کے ناموں وغیرہ کو ہی قائم نہیں کیا بلکہ اپنے انداز میں تشبیہاً و رعایتاً اس طرح کام میں لیا کہ ان کی شاعرانہ اہمیت واضح کردی اور دوسری طرف اپنی وسیع المشربی، حب الوطنی اور دوربینی کا ثبوت دے دیا۔‘‘ 3
ولی نے اپنے کلام میں ہندی الفاظ کا استعمال انتہائی خوبی کے ساتھ کیا۔ اٹھارہویں صدی کے بیشتر شعراء فارسی سے متاثر تھے، فارسی لفظیات ہی کے استعمال کو ترجیح دیتے تھے۔ اٹھارہویں صدی تک نثر تو فارسی ہی میں لکھی جاتی تھی۔ فضلی نے ضرورتاً ’کربل کتھا‘ کا ترجمہ کیا، نوطرز مرصع فارسی آمیز لکھی گئی۔ اردو شعرا نے اردو شاعروں کے تذکرے بھی فارسی میں لکھے، لیکن ولی کے مقامی لفظیات کے استعمال نے غزل کو نیا آہنگ عطا کیا۔ ولی اپنے کلام کو فارسی غزل سے کمتر نہیں سمجھتے تھے۔ خود کہتے ہیں ؂
ہم پاس آگے بات نظیری کی مت کہو
رکھتے نہیں نظیر ریس کی سخن میں ہم
151151
یہ ریختہ ولی کا جاکر اُسے سناؤ
رکھتا ہے فکر روشن جو انوری کے مانند
جس طرح غالب یا دیگر شعراء نے عموماً اپنی شعرگوئی پر ناز کیا ہے، وہ اپنے آپ کو دوسرے کے مقابلے میں افضل سمجھتے ہیں۔ مثلاً غالب نے کہا ؂
ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور
ولی بھی اپنے کلام کو نہ صرف فارسی شعرا سے بلکہ اپنے معاصرین کے کلام سے بہتر سمجھتے ہیں، اس احساس کو وہ بار بار ظاہر کرتے ہیں ؂
دکھنی زباں میں شعر سب لوگاں کہے ہیں اے ول
لیکن نہیں بولا کوئی یک شعر خوشتر زیں نمط
151151
شاعروں میں اپس کا نام کیا
جب ولی نے کیا یو دیوان جمع
151151
ولی تجھ شعر کو سن کر ہوئے ہیں مست اہل دل
اثر ہے شعر میں تیرے شراب پرتگالی کا
یہ شاعرانہ تعلّی عام طور پر سبھی شعرا کے یہاں نظر آتی ہے، لیکن غالب کے دعوے کی طرح ولی کا دعویٰ بھی صحیح معلوم ہوتا ہے۔ جس طرح غالب اپنے منفرد انداز کے سبب ممتاز نظر آتے ہیں اسی طرح ولی کے منفرد انداز بیان کی وجہ سے اردو شاعری میں ایک نئے طرز کا آغاز ہوتا ہے۔ ولی کا کلام اردو شاعری کی تاریخ کا ایک تاریخی موڑ ہے، جہاں سے ایک نیا باب وا ہوتا ہے۔ ولی کے کلام کی دلکشی معاصرین کو مسحور کرلیتی ہے۔ ولی نے دکنی شاعری کی روایت کے مطابق عشق ہی کو شاعری کا مرکز بنایا، لیکن ان کا عشق، عشق صادق نظر آتا ہے۔ بیان کی سادگی، نزاکت، لطافت اور غنائیت متاثر کیے بغیر نہیں رہ پاتی۔ احساس اور جذبے کی گرمی، لہجہ کی نرمی کلام میں بے جا حسن پیدا کردیتی ہے، جس کا سننے والے پر دیرپا اثر ہوتا ہے۔ دکن کی شاعری میں عورت سے عشق کا تصور واضح نظر آتا ہے۔ ولی کو صوفی مشرب ہونے کے باوجود عشق مجازی کے بیان میں کمال حاصل ہے۔ حسن و جمال کی جو کیفیات اور جزئیات ولی پیش کرتے ہیں وہ احساس میں نغمگی پیدا کردیتی ہے۔ وہ ابتذال اور عامیانہ پن سے گریز کرتے ہوئے انتہائی چابک دستی سے دل پر گزری ہوئی کیفیت کو شعری پیکر عطا کرنے کے ہنر سے بخوبی واقف ہیں۔ محبوب کے حسن کے بیان میں جو نزاکت اور نفاست ولی کے یہاں نظر آتی ہے شاید ہی اردو شاعری میں اس کی دوسری مثال موجود ہو ؂
تجھ لب کی صفت لعل بدخشاں سوں کہوں گا
جادو ہیں ترے نین غزالاں سوں کہوں گا
151151
دونوں جہاں کی عید کی ہے آرزو اگر
پیتم کے ابرواں میں دو شکل ہلال دیکھ
151151
تری زلفاں کے حلقے میں رہے یوں نقش رخ روشن
کہ جیسے ہند کے بھیتر لگیں دیوے دوالی میں
151151
کتاب الحسن کا یہ مکھ صفا تیرا صفا دستا
تیرے ابرو کے دو مصرعے سوں اس کا ابتدا دستا
151151
مت آئینے کوں دکھلا اپنا جمال روشن
تجھ مکھ کا آب دیکھے آئینہ آب ہوگا
151151
دیکھا ہے جس نے تیرے رخسار کا تماشا
نئیں دیکھتا سُرج کی جھلکار کا تماشا
151151
جب لٹک چال سجن کی مجھے یاد آتی ہے
دل مرا رقص میں آتا ہے مثال رقاص
151151
موج دریا کو دیکھنے مت جا
دیکھ اس زلف عنبریں کی ادا
ولی کی غزلوں میں حسن و جمال کا بیان شدت سے موجود ہے۔ لفظوں کا استعمال اور لہجہ کی نزاکت و معصومیت اسے دلکش و دلفریب بنادیتی ہے۔ سراپا کے بیان میں ولی پاکیزگی کو ملحوظ رکھتے ہیں۔ اردو کے بیشتر شعراء ایسا نہیں کرسکے ہیں۔ ولی صرف محبوب کے قد اور چہرے پر نظر رکھتے ہیں، جس کے لیے انھوں نے اچھوتی تشبیہات اور استعارات کا سہارا لیا۔ نئی نئی تشبیہات و استعارات وضع کرنے میں ولی کو کمال حاصل ہے۔ محبوب کے حسن کی تعریف میں جن تشبیہات و استعارات کو ولی نے پیش کیا وہ کسی شاعر کے یہاں نظر نہیں آتیں ؂
ترا مکھ حسن کا دریا و موجاں چین پیشانی
اُپر ابرو کی کشتی کے یو تل جیوں ناخدا دستا
151151
ترے لب ہیں برنگ حوضِ کوثر مخزنِ خوبی
یہ خالِ عنبریں تس پر بلال آسا کھڑا دستا
151151
یوتل تجھ مکھ کے کعبے میں مجھے اسود حجر دستا
زنخداں میں ترے مجھ چاہ زمزم کا اثر دستا
151151
مرے دل کوں کیا بے خود تری انکھیاں نے آخر کوں
کہ جیوں بے ہوش کرتی ہے شراب آہستہ آہستہ
151151
زلف و رخ ہے ترا جو لیل و نہار
مجھ کوں واللیل والضحیٰ کی قسم
ولی کے کلام کا حسن صنائع بدائع کے استعمال میں پوشیدہ ہے۔ وہ بڑے فنکارانہ انداز میں مختلف صنعتوں کی مدد سے اشعار کو اس قدر دلکش بنادیتے ہیں کہ سماعتوں پر موسیقی کی ترنگ محسوس ہونے لگتی ہے۔ غزل کی خوبی یہ ہے کہ وہ ہر ایک کے جذبات و احساسات کی نہ صرف ترجمانی کرتی ہے بلکہ روح میں اتر جاتی ہے۔ ولی کی غزل انسانی محسوسات کی مکمل ترجمان ہونے کے سبب ایک کیف پیدا کرتی ہے۔ ولی کی مقبولیت کی وجہ ان کی غزل کی وہ زبان بھی ہے جسے انھوں نے اپنے اظہار کا ذریعہ بنایا ہے۔ ان کی زبان سادہ اور سلیس بھی ہے اور اس پر مقامی رنگ بھی نمایاں ہے۔ وہ بڑی روانی سے ہندی الفاظ کا استعمال غزل میں کرتے ہیں، جو کلام میں مقامیت اور شعریت پیدا کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ ہندی کے الفاظ غزل میں ناگوار نہیں گزرتے، بلکہ گیت کی سی جھنکار کا لطف دیتے ہیں ؂
مت غصے کے شعلے سوں جلتے کوں جلاتی جا
ٹک مہر کے پانی سوں یہ آگ بجھاتی جا
اس رین اندھاری میں مت بھول پڑوں تس سوں
ٹک پاؤں کے جھانجھر کی جھنکار ستاتی جا
تجھ مکھ کی پرستش میں گئی عمر مری ساری
اے بت کی پجن ہاری ٹک اس کو پجاتی جا
151151
مانند اس ولیؔ کے ہوا مست و بے خبر
تجھ نین سوں پیا ہے جو پیمانہ آئینہ
151151
سجن مکتب میں جب آیا ہر اک کوں
ہورہے شوق تعلیم و تعلّم
151151
جودھا جگت کے کیوں نہ ڈریں تجھ سوں اے صنم
ترکش میں تجھ نین کے ہیں ارجن کے بان آج
ولی کے یہاں بار بار مکھ، نین، جگت، بھوں، سجن وغیرہ کا استعمال ہوا ہے۔ ان کی غزلیں سادہ اور سلیس ہونے کی وجہ سے عام فہم اور مقبول ہوئیں:
مفلسی سب بہار کھوتی ہے
مرد کا اعتبار کھوتی ہے
151151
عجب کچھ لطف رکھتا ہے شب خلوت میں گل رو سوں
خطاب آہستہ آہستہ جواب آہستہ آہستہ
151151
ہم کو برداشت نہیں غصے کی
بے سبب غصے میں آیا نہ کرو
خوب رو خوب کام کرتے ہیں
یک نگہ میں غلام کرتے ہیں
ناز مت کر تجھے ادا کی قسم
بے تکلف ہو، مل خدا کی قسم
ہے جدائی میں زندگی مشکل
آ جدائی نہ کر خدا سوں ڈر
ٹک ولی کی طرف نگاہ کرو
صبح سوں منتظر ہے درشن کا
دیکھنا ہر صبح تجھ رخسار کا
ہے مطالعہ مطلع انوار کا
یاد کرنا ہر گھڑی اس یار کا
ہے وظیفہ مجھ دل بیمار کا
آہ پر آہ کھینچتا تھا میں
آج کی رات کچھ حساب نہ تھا
ولی نے چھوٹی چھوٹی بحروں میں انتہائی سادگی کے ساتھ اپنے جذبات کا اظہار غزل کے پیرائے میں کیا ہے۔ وہ فارسی اور عربی الفاظ و تراکیب کا بھی استعمال کرتے ہیں، لیکن وہ نہ ثقیل معلوم ہوتے ہیں نہ سماعت پر گراں گزرتے ہیں۔ ولی کی غزل شمال اور جنوب کی زبانوں اور تہذیبوں کا سنگم ہے۔ ڈاکٹر تبسم کاشمیری ولی کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ولی وہ شاعر ہے جو شمالی ہند اور دکن کے دوراہے پر کھڑا ہے۔ شمالی ہند کی فارسی روایت اسے چکاچوند کررہی ہے اور دکن کی مقامی عشقیہ روایت اُسے اپنی طرف کھینچ رہی ہے۔ وہ شمال کی فارسی روایت کی شعری تاب ناکیوں سے اثر پذیر ہوتا رہا مگر اس کا مقامی شعور مغلوب نہ ہوسکا۔ جنوب کی شعری روایت کے آخری بڑے شاعر نے مقامی شاعری کے حسن کو اپنی غزل میں اس طور پر مرتعش کیا کہ اس کی جلوہ افروزی آج بھی اس کی غزل میں موجود ہے۔ ولی دکن کے لوک حسن، لوک عشق اور لوک کرداروں کا آخری شاعر بھی تھا۔ شمال کے تہذیبی اور ادبی غلبہ کے ساتھ یہ روایت غزل سے معدوم ہوجاتی ہے۔‘‘4
یوں تو اردو غزل ولی سے پہلے بھی تھی، لیکن ولی کی غزل یا ان کے تغزل نے اردو غزل کی تاریخ میں انقلاب بپا کیا۔ غزل کو نئے رنگ و آہنگ سے روشناس کرایا۔ اردو غزل کی تاریخ میں ولی کی اہمیت کو کسی طرح نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
حواشی:
1۔ اردو کے اسالیب بیان، ص 33,294
2۔ تاریخ ادب اردو، جلد اوّل، ص520
3۔ انتخاب ولی، ص 13، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ دہلی
4۔ اردو ادب کی تاریخ، ص 240، ایم آر پبلی کیشنز دہلی

Prof. Ibne Kanwal
Dept. of Urdu
Dehli University
Delhi - 110007

ماہنامہ اردو دنیا   شمارہ  مارچ 2019




قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں