6/3/19

سیماب اکبرآبادی: ایک فراموش کردہ انقلابی شاعر مضمون نگار: پروفیسر اسلم آزاد


سیماب اکبرآبادی: ایک فراموش کردہ انقلابی شاعر
پروفیسر اسلم آزاد

ہرادب اپنے عہد کا ترجمان اور مفسر ہوتاہے۔ وہ انسانی زندگی کاآئینہ دار ہوتاہے اور تہذیب و ثقافت کا عکاس۔ ادب ایک بحربیکراں ہے جس میں اس عہد کی ساری متلاطم اور متصادم لہریں ایک دوسرے سے باہم دست و گریباں ہوتی ہیں۔ وہ اس کائنات کے لولو و مرجان اور سنگ وخشت سبھوں کو اپنے دامن میں سمیٹ لیتاہے۔ حسن وقبح کا فرق ہو یا خیر وشر کی آویزش، حق و باطل کی جنگ ہو یا امار ت و غربت کا امتیاز، فنکار جو کچھ دیکھتاہے جوبھی محسو س کرتاہے بے کم وکاست اسے اپنے فن پارے میں پیش کردیتاہے۔ تخلیق میں فنکار کا سوز دروں اور خون جگر شامل ہوتاہے۔ اس کے دل کی بیتاب دھڑکنیں ہوتی ہیں۔ مضطرب روح کی جلن اور پکار ہوتی ہے۔ فنکار فطرتاً حسن وجمال کا شیدائی ہوتاہے اور لالہ و گل کا متوالا۔ وہ امن وانسانیت کاپیامبر ہوتاہے اور حسرت وانبساط کا داعی۔ وہ دنیا کو بہشت برروئے زمیں کے روپ میں دیکھناچاہتاہے۔ جہاں حسن ہو، سکون ہو اور خوشیاں ہوں۔
سیماب اکبرآبادی(1880-1957) کا دور بڑا پرفتن اور پرآشوب تھا۔ ہر طرف انتشار اور افراتفری تھی۔ چہار سمت آہ وبکا اور شور وشغب تھا۔ ہر سوویرانی اور تاریکی تھی۔ان حالات و عوامل سے فنکار کا متاثر ہونا فطری امر ہے۔ لہٰذا شاد عظیم آبادی، الطاف حسین حالی، ظفر علی خاں، اکبر الہ آبادی، حسرت موہانی، مسرور جہان آبادی، برج نرائن چکبست اور مولانا اسماعیل میرٹھی نے حب الوطنی کے جذبات سے سرشار ہوکر ہندوستان کی آزادی کے لیے جدوجہد کی، قربانیاں دیں اپنے گیتوں اور نغموں سے خواب خرگوش میں پڑے ہندوستانیوں کو جگایا، ان میں انقلاب کی روح پھونک دی، حریت کا جذبہ رگ و پے میں سرایت کردیا۔ سیماب اپنے معاصرین سے پیچھے نہیں رہے۔ وہ اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ گلستان میں بہار کیوں کرآتی ہے۔ پھولوں میں رعنائی اوررنگینی کہاں سے آتی ہے۔ دلکشی اور زیبائی کیسے پیداہوتی ہے ؂
درائے کارواں میں اس توازن کی ضرورت ہے
صدائیں متفق ہوں گی تو گونج اٹھے گی ہر وادی
لہو کی چند بوندیں چاہئیں عنوان افسانہ
کہیں سرخ اشتہاروں سے ملا کرتی ہے آزادی
ہر بڑے شاعر کی نظر مستقبل پرہوتی ہے۔ اس کی نگاہیں دور بہت دور افق سے پار چلی جاتی ہیں۔ ماہ ونجوم کی پہنائیوں سے آگے شمس وقمر کی دنیا سے پرے عرش بریں سے بھی ماورا اس کاذہن سوچنے لگتا ہے۔ جہاں فرشتوں کے بھی پرچلنے لگتے ہیں۔ سیماب نے پیش گوئی کی ؂
دفعتاً اک روز بدلے گی غلامی کی فضا
منتظر اک آہ کا ہے انقلاب انجمن
ظلم سے بڑھتا ہے سوز زندگی مظلوم میں
رفتہ رفتہ صید کو صیاد ہونا چاہیے
سپرد خاک ہیں پھولوں سے کھیلنے والے
چمن فروش بھی اندیشۂ بہار میں ہے
حقیقت کی پردہ دری کب تک کی جاسکتی ہے۔ جس طرح خوشبو کے جھونکوں کو مقید نہیں کیاجاسکتا، حسن بے نقاب کی شعاعوں کو روکا نہیں جاسکتا، چشم سیاہ اور دراز پلکوں کی افسوں طرازی پابند نہیں کی جاسکتی، چپکے سے اپناکام کرجاتی ہے، اس شہاب ثاقب کے مانند جو خلا کی بیکراں وسعتوں میں چند لمحے کے لیے روشنی کی تابناک لکیر چھوڑ جاتاہے،اسی طرح حقیقت کی نقاب سرک ہی جاتی ہے۔ جس گلستان کا محافظ پھولوں کی نکہتیں چرالے، نوخیز کلیوں کی دوشیزگی مجروح کردے، معصوم غنچوں کی شادابی ختم کردے، توان کو حق ہے کہ اس سفاک اور بے رحم باغباں کو کیفر کردار تک پہنچادیں۔اس ضمن میں سیماب کے درج ذیل اشعار ملاحظہ ہوں ؂
غبار اندوزی آئینہ صبح چمن کب تک
گوارا، مضطرب نسرین و نسترن کب تک
خلاف باغباں اہل چمن نے ایک سازش کی
کہ ہم تاراج دیکھیں گے یونہی اپنا چمن کب تک
اٹھا اک شور اے روح گلستاں لوٹنے والو
بنے گا پھول کے دامن سے گلچیں کا کفن کب تک
یہ جذبہ لے کے اٹھے چوڑیاں تھیں جن کے ہاتھوں میں
کہ اب اندیشۂ ہنگامۂ دار و رسن کب تک
آزادی انسانوں کا فطری حق ہے۔ اس سے محرومی انسان کی موت ہے۔ اگر آزادی نہ ہو تو ساری تہذیبی اور شخصی قدریں مٹ جاتی ہیں۔ زندگی کے سارے آ ثار ختم ہوجاتے ہیں۔ سارا سکون اور ساری مسرتیں چھن جاتی ہیں۔ انفرادی احساس جب اجتماعی شکل اختیار کرلیتاہے تو وہ کائنات کی دل کی دھڑکن بن جاتاہے۔ نیلگوں آسمان کے اس مہر درخشاں کی مانند جورات کی خاموشی اور تنہائی میں ساری دھرتی پرسیمیں کرنیں بکھیرتا ہے۔ کہسار،آبشار، ریگزار و لالہ زار، وادی و صحرا، شجر وحجر، خار وگل، سنگ وسمن کسی کی قید نہیں رہتی کسی کاامتیاز نہیں رہتا۔ سیماب کہتے ہیں ؂
ہمارا ہر نفس ہو ترجمان گرمی محفل
ہماری ہر ضرورت انجمن کی ہی ضرورت ہے
یہ’ضرورت‘ فرد واحد کی ضرورت نہیں، ساری انجمن کی رگ جان ہے، منبع جہاں ہے۔مغربی مفکر ٹینی سن نے کہاہے کہ:
’’جس شاعری سے ملت کا دل قوی ہو، اس کی ہمتیں بلند ہوں اس کو اعلیٰ درجہ کے اعمال حسنہ میں شمار کرناچاہیے۔‘‘
اس قول کے پیش نظر ہم سیماب کی شاعری کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمارے دلوں میں ان کے لیے قد رومنزلت اور عقیدت وا حترام کا جذبہ ہی پیدانہیں ہوتا بلکہ انھیں محسن قوم وملک کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
دورافترا میں لب و رخسار، کاکل وگیسو، رنگ و رامش، فرہاد وشیریں، جام وسبو اور گل وبلبل کی مدح سرائی حقیقت سے اغماض کرتاہے۔ ایسے شعرا کو کذاب، بہروپیے اور باطل پرست کہنے سے بھی دریغ نہیں کیا ؂
باش اے کذاب اے بہروپیے باطل پرست
میں ترے پندار کو دیتا ہوں پیغام شکست
تو کبھی محفل میں آیا ہے رجز گاتا ہوا؟
گونجتا روتا گرجتا آگ برساتا ہوا؟
حشر اٹھا ہے کہیں اک نغمۂ بیتاب سے
کیا رباب دل کو چھیڑا ہے کسی مضراب سے
کیا رلایا ہے لہو تو نے کسی مضمون سے
نظم آزادی کبھی لکھی ہے اپنے خون سے
ان کاتیور یہاں بھی دیکھیے ؂
اے سخن دشمن اگر حاصل نہیں یہ مرتبہ
خون کیوں کرتاہے پھر بکواس سے الفاظ کا
درد کا حامل نہیں اصرار کا ماہر نہیں
آج میں اعلان کرتا ہوں کہ تو شاعر نہیں
فنکار تعصب وتنگ نظری سے بہت بلند ہوتاہے۔ اس کے یہاں مذہب و ملک، رنگ ونسل، امیر وغریب اور حاکم ومحکوم کی تفریق نہیں ہوتی، وہ اخوت و مساوات کامبلغ ہوتاہے اور انسانیت کا علمبردار۔ امن اور شانتی کا امین ہوتاہے اور مسرت، چاند و نغمہ، بہار اور حسن کامحافظ ؂
قومیت، فرقہ پرستی اور نسلی امتیاز
پیکر انسانیت پر اک طرح کا ہے عذاب
صرف تم انسان بن کر اپنی دنیا میں رہو
پرسکون،آزاد، یکسو، کامگار و کامیاب
سیماب اکبرآبادی ایک قادرالکلام شاعر تھے اورشاعری ان کووراثت میں حاصل ہوئی تھی۔ عربی اور فارسی زبانوں پر ان کو دست رس تھی۔ طالب علمی کے زمانے میں ہی فارسی کے اشعار کو اردو کے قالب میں ڈھالنے لگے تھے۔ مولوی سید بدرالدین قریشی اور مولوی تحقیق علی اجمیری جیسے ذی علم اسا تذہ نے ان کے ذوق شعری کو پروان چڑھانے میں ان کی رہنمائی کی۔ نتیجتاً 17 سال کی عمر میں فارسی کلام کواردو میں ترجمہ کرنے میں ان کو مہارت حاصل ہوگئی تھی، لیکن نامساعد حالات کے باعث ان کاتعلیمی سلسلہ ختم ہوگیا۔
قیام لکھنؤکے دوران سیماب اکبر آبادی ادبی محافل میں پابندی سے شریک ہوتے۔ ان دنوں لکھنؤ میں جلال لکھنوی کاطوطی بولتاتھا، لیکن ان کامزاج لکھنؤسے نہیں بلکہ دبستان دہلی سے زیادہ مطابقت رکھتاتھا۔ یہی وجہ ہے کہ1898میں انھوں نے داغ دہلوی کے سامنے زانوے تلمذ تہہ کیا اور جب تک زندہ رہے یہ رشتہ برقرار رہا۔ ان کی شاعری میں خوش آئند تبدیلیاں آئیں۔ شاعری کے سلسلے میں ان کا نقطۂ نظر بالکل واضح ہے۔ وہ غزل پر نظم کو ترجیح دیتے تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ شعرا غزل کی بجائے نظم پر اپنی توجہ مرکوز کریں۔ کیوں کہ قدامت اور کہنگی کے باعث غزل اپنی معنویت کھوچکی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’1918 میں میرا رنگ تغزل بالکل بدل گیا۔ میں اب شاعری میں بلند خیالات اور بلند انسانی جذبات کا حامل ہوں میں شاعری میں فلسفہ، حقائق اور معارف کے نکات پسند کرتا ہوں...میں نظم کو غزل پر ترجیح دیتاہوں اور چاہتاہوں کہ شعرا غزل سے زیادہ نظم گوئی کی طرف متوجہ ہوں۔‘‘
سیماب اکبرآبادی کرشن جی سے عقیدت رکھتے تھے۔ ’ کرشن گیتا‘ میں شامل نظموں سے بھی اس کا اندازہ ہوتاہے۔ قرآن کریم اور مولانا روم کی شخصیت کے گہرے اثرات بھی ان کے کلام میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ کانپور کے دوران قیام وہ دیواشریف میں ولیِ کامل حضرت شاہ وارث علی سے بیعت بھی ہوئے۔ یہی وہ اسباب ہیں جن کے باعث ان کی شاعری میں معرفت، ربوبیت اور وارفتگی کے علاوہ عرفان وآگہی کی مثالیں بھی ملتی ہیں۔
سیماب ’شاعر‘ کے بانی مدیر رہے ہیں۔ ’شاعر‘ آگرہ سے قبل انہوں نے ’مرصع‘، ’ اخبارآگرہ‘، ’پیمانہ‘ اور ’تاج‘ کی ادارت کی۔اس سے ان کی صحافت سے فطری اور جذباتی وابستگی کا اندازہ ہوتاہے۔ ’پیمانہ‘ کاا ختصاص تھا کہ اس رسالے میں جدید رجحانات اور میلانات کی حامل تخلیقات کو اولیت دی جاتی تھی۔ انھوں نے نئی نسل کی ذہنی تربیت اور ان کے کلام کی اصلاح کے لیے ’قصر ادب‘ کی بنیاد ڈالی اور یہ ادارہ شعر وادب کے فروغ میں میل کاپتھر ثابت ہوا۔
فلسفۂ حقائق، محاکات، متانت اور سنجیدگی پران کاانقلابی اورسیاسی رنگ زیادہ گہراہے۔ تاہم ان کے ہاں ایسے اشعار بھی ملتے ہیں جو زبان زدعام ہیں ؂
محبت میں اک ایسا وقت بھی آتاہے انساں پر
ستاروں کی چمک سے چوٹ لگتی ہے رگ جاں پر
سیماب اکبرآبادی کی قادرالکلامی کااندازہ ان کی نظموں کے عنوانات سے بھی لگایاجاسکتاہے۔ اپنے عہد کے اہم مسائل پر انہوں نے خامہ فرسائی کی ہے۔ یہ صحیح ہے کہ عربی اور فارسی کے الفاظ ان کی شاعری کی سلاست اور روانی میں حارج ہوتے ہیں، لیکن آج سے تقریباً اسّی سال قبل انھوں نے اپنی شاعری خصوصاً نظموں کے لیے جن موضوعات کاانتخاب کیا ان کی مناسبت سے پرشکوہ اور ادق الفاظ کااستعمال ناگزیر تھا۔
’کارامروز‘(1934) میں حریت پرستی، حب الوطنی اور انقلاب پسندی سے متعلق متعدد نظمیں ملتی ہیں۔ سری کرشن، گوتم بدھ اور رسول کائناتؐ پرلکھی گئی ان کی نظمیں ان شخصیتوں سے ان کی بے پناہ عقیدت کا مظہر ہیں۔ ’ارض تاج‘ کے عنوان کے تحت سیماب کی سولہ نظمیں بارہ ذیلی عنوانات کے ساتھ چالیس صفحات پر محیط ہیں۔ یہ نظمیں ’تاج محل‘ سے متعلق مختلف پہلوؤں کی دل آویز تصویر کشی کرتی ہیں۔ ان نظموں میں عظمت رفتہ کادردبھی پنہاں ہے اور رجائی انداز بھی ؂
فضا اے تاج تیری دلنشیں معلوم ہوتی ہے
میں سچ کہہ دوں مجھے جنت یہیں معلوم ہوتی ہے
تری معصومیت، جس کو تصور چھو نہیں سکتا
مجسم ایک خواب مرمریں معلوم ہوتی ہے

آمسافر کچھ مناظر پھر دکھاؤں میں تجھے
گوشے گوشے میں وطن کے لے کے جاؤں میں تجھے
اخذ کی جاتی ہے ظاہر سے حقیقت کس طرح
سیرکرنا بزم عبرت کی سکھاؤں میں تجھے

گردش عالم کبھی رہتی نہیں اک حال پر
جس نے پھیری ہے نظر وہ رحم بھی فرمائے گا
تاج کے مینار سے ہوگا نیا سورج طلوع
مدفن اکبر سے ماہ نو کرن چمکائے گا
نظم ’جنگی ترانہ‘ دراصل چھوٹی بحر میں ایک قومی رجز ہے۔ نظم پرجوش اور ولولہ انگیز ہے۔ اس کا تاثر قارئین کے دلوں پر گہرا اوردیرپاہوتاہے ؂
دلاوران تیزدم 
بڑھے چلو بڑھے چلو
بہادران محترم 
بڑھے چلو بڑھے چلو
یہ دشمنوں کے مورچے 
فقط ہیں ڈھیر خاک کے
تمہارے سامنے جمے 
کہاں کسی میں حوصلے
نہیں ہوتم کسی سے کم
بڑھے چلو، بڑھے چلو
’ساز وآہنگ‘(1941) سیماب اکبر آبادی کا گراں قدر شعری مجموعہ ہے۔پانچ ابواب پرمشتمل اس مجموعے میں ان کی ایک سوانتالیس(139) مختصر اور طویل نظمیں شامل ہیں۔ ندائے عصر، صلائے تہذیب، حدیث ادب، سرود روح، اور نغمۂ معصوم، کے عنوان سے قائم ابواب میں آخری باب، نغمۂ معصوم، میں بچوں سے متعلق نظموں کا التزام ہے۔ پہلے باب ’ندائے عصر‘ میں قومیت، سیاست اور وطنیت کے موضوعات پر سینتالیس نظموں میں ہندوستان، اذان ہمالہ، جرس کارواں، قومی ترانہ، ہندوستان کا پیغام، بہ نژاد نوا، ایوان آزادی، صنم کدۂ جمہوریت، دعوت انقلاب، اے نوجوانان وطن، مسلمانوں سے، نوحہ وطن، کوس رحیل، سیاسی قیدی، کانگریس سے خطاب، اے وائے وطن صد وائے وطن، خواب آشنا کے جمود سے، اے اسیران وطن، تشدد اور عدم تشد، ’شیون دریائے شور، خواتین وطن سے، اہل کشمیر کوایک پیغام موضوعات اور مسائل کے اعتبار سے بے حد اہم اور قابل ذکر ہیں۔ ساز وآہنگ میں نسبتاً حریت پسندی کی شدت زیادہ ہے۔ کیونکہ ’ساز و آہنگ‘ کی اشاعت ’کار امروز‘ کے تقریباً آٹھ سال بعد ہوئی، جب صبح آزادی کی پوپھٹ رہی تھی اور حریت پسندوں نے اپنے سر سے کفن باندھ لیاتھا۔ قومی اور بین الاقوامی موضوعات اور مسائل پر لکھی گئی نظموں نے سیماب کے قد کواپنے ہم عصروں میں سب سے نمایاں کردیاہے۔ ان نظموں سے ان کے تبحر علمی کااندازہ ہوتاہے اوران کے جذبۂ وطن پرستی کابھی۔
سیماب کے عہد کو اردو شاعری کا نشاۃ ثانیہ کہاجاسکتاہے، کیونکہ سیماب کے علاوہ حفیظ جالندھری، جوش ملیح آبادی، افسر میرٹھی، چکبست لکھنوی اور اختر شیرانی نے غزلیں بھی کہیں اور نظمیں بھی، لیکن ان شعرا کا مرتبہ غزل گو کی حیثیت سے نہیں بلکہ نظم نگار کے طو رپر مسلم ہے۔ ان کے پیش رو الطاف حسین حالی اور محمد حسین آزاد نے اردو شاعری خصوصاً نظم نگاری کی سمت میں منظم اور منضبط قدم اٹھایا جس کے نتیجے میں غزل کی بجائے نظم نگاری کی طرف اپنی توجہ مرکوز کرنے والے سیماب اپنے ہم عصروں میں سب سے نمایاں اور ممتاز ہیں۔ پروفیسر کلیم الدین احمد لکھتے ہیں:
’’سیماب غزل میں پاکیزہ تغزل کے خلاف نہیں، لیکن وہ شاعری کو محض تغزل تک محدود رکھنا نہیں چاہتے۔ وہ چاہتے ہیں کہ شعرا غزل گوئی کے علاوہ اصلاحی، اخلاقی، قومی، ملکی اور سیاسی نظمیں کہنے کی عادت ڈالیں۔ وہ اس مشورے پر خود بھی عمل کرتے ہیں۔‘‘
( اردو شاعری پرایک نظر۔ جلد دوم، ص302)
اپنے پیش رو اقبال، حالی اور آزاد سے وہ متاثر تھے۔ سیماب نے روایت سے ہٹ کر اردو نظم کو جدتوں سے نہ صرف ہم کنار کیا بلکہ اس کونئی سمت بھی عطا کی۔ انہوں نے اردو شاعری میں ہیئتی تجربے کیے بلکہ یہ کہاجائے کہ سیماب اکبرآبادی نے اجتہاد کیا اور اردو نظم کے ارتقا میں اہم کردار اداکیاتوغلط نہ ہوگا، لیکن ناقدین ادب نے سیماب کی شاعری کے اس وصف سے صرف نظر ہی نہیں کیا بلکہ ان کے ساتھ ناانصافی بھی کی ہے۔
سیماب کا عہد سیاسی، سماجی، معاشی اور تہذیبی اعتبار سے بہت اہم کہا جاسکتاہے۔ ملک کے سیاسی حالات تیزی سے بدل رہے تھے۔ 1857 کی ناکام بغاوت اور ترقی پسندتحریک کے اثرات و نفوذ نے ان کی شخصیت اور فکر کونئی سمت عطا کی تھی۔ لہٰذا محنت کشوں اور دبے کچلے لوگوں کی زندگی کی صدائے بازگشت ان کی شاعری میں محسوس کی جاسکتی ہے۔ معاشرتی حالات اور مسائل سے انھوں نے اغماض نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ انقلاب، حریت، وطنیت اور انسانیت کاجذبہ ان کی شاعری کااختصاص و امتیاز بن گیاہے۔
ساز وآہنگ، امروز اور’ شعر انقلاب‘ ان کے قابل ذکراور اہم شعری مجموعے ہیں۔ تاج محل، تاج شاہی محبت کی ٹھوکروں میں، نورجہاں کا مقبرہ اور’برسات‘ سیماب اکبرآبادی کی معرکہ آرا نظمیں ہیں، لیکن جذبۂ وطنیت سے سرشار اس انقلابی شاعر کوہم نے یکسر فراموش کردیاہے۔

Prof. Aslam Azaad
2, Professor's Bungalow
Patna۔800006
M. 09431063199


ماہنامہ اردو دنیا   شمارہ  مارچ 2019





قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں