6/3/19

رامائن کا منظوم اردو ترجمہ مضمون نگار:۔ نسیم احمد نسیم


رامائن کا منظوم اردو ترجمہ

نسیم احمد نسیم

ترجمہ نگاری ایک ایسا فن ہے جس کے بغیر دوسری زبانوں کے علوم و فنون سے استفادہ نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے ذریعے دوسری زبان کے ذخیرۂ علم سے آشنا ہوتی ہے۔ لیکن یہ کام اتنا آسان نہیں ہوتا جتنا کہ اکثر سمجھ لیاجاتاہے۔ اصل متن کی داخلی ساخت، آہنگ واسلوب اور لسانی مزاج کو ملحوظ رکھتے ہوئے اُسے کسی دوسری زبان کے قالب میں ڈھالنا بہت مشکل اور پیچیدہ عمل ہوتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ بعض ناقدین اسے ناممکن اور غیر فطری کا م تصور کرتے ہیں۔ اس ضمن میں جہاں ایک طرف ڈاکٹر سیموئل جانسن نے شاعری کے ترجمے کو ناممکن بتایا ہے تو دوسری طرف وکٹرہیوگو نثر میں ترجمہ کو ناقابلِ فہم اور ناممکن قرار دیتا ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ترجمہ نگاری کا فن سرے سے بیکار اور بے نتیجہ ہے۔ ایک ماہر اور مشّاق مترجم اصل متن کو اپنی زبان میں منتقل کرتے وقت اس میں ایک نئی روح ڈال دیتا ہے اور بعض اوقات اس کے ترجمے پر طبع زاد کا گمان ہوتا ہے۔ اِس کی متعدد مثالیں فورٹ ولیم کالج، دہلی کالج اور جامعہ عثمانیہ وغیرہ کے ذریعے کروائے گئے ترجموں میں مل جائیں گی۔ اور آج تو اِسے ایک مستقل فن کا درجہ حاصل ہوگیا ہے۔ اِس کام کا وقار بڑھاہے، اِسے دوسرے درجے کا نہیں بلکہ اول درجے کا کام مان لیا گیا ہے۔ وہ اس لئے کہ اردو کے دامن کو وسعت دینے اور دنیا کی تہذیب و ثقافت نیز عالمی سطح کے شہ پاروں سے متعارف کرانے میں اس کے کلیدی رول سے اب کسی طرح انکار نہیں کیا جاسکتا۔
جہاں تک نثر اور شاعری کے ترجمے کا معاملہ ہے تو سب جانتے ہیں کہ نثر سے زیادہ نظم کا ترجمہ مشکل ہے۔ شاعری کے ترجمے کے دوران اصل متن کے شعری مزاج و آہنگ کے ساتھ اُس کے پس منظر اور شعری روایت کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا پڑتا ہے۔ بعض اوقات مترجم کو اصل متن سے الگ کچھ ایسی اضافی چیزوں کو شامل کرنا پڑتا ہے جو اصل متن کی تفہیم کو آسان اور پرکشش بنانے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔ لفظ کی جگہ لفظ ٹانکنا مبتدیوں کا کام ہے۔ اصل ترجمہ نگار اپنی مہارت اور خلاقی سے نہ صرف اُسے اپنی زبان کا حصہ بنادیتا ہے بلکہ اُسے ایک بہترین فن پارے کے طور پر قارئین کے درمیان متعارف بھی کرادیتا ہے۔
درج بالا تمہید کے بعد اب ہم اُن منظوم ترجموں کے متعلق کچھ عرض کرنا چاہیں گے جن کا براہ راست تعلق شہرۂ آفاق مذہبی صحیفہ رامائن سے ہے۔ اہل علم جانتے ہیں کہ قدیم ہندوستان کی دورزمیہ تصانیف رامائن اور مہابھارت ہیں اور یہ دونوں سنسکرت میں موجود تاریخی صحیفے کا بھی درجہ رکھتی ہیں۔مہابھارت کی طرح رامائن کے بھی سو(100)سے زیادہ منظوم اردو ترجمے ہوچکے ہیں۔ اُن میں شنکردیال فرحت، بابولال نبودی، رام کرت، بابوبانکے بہاری لال، سری سکھ دیولال، ننکی چند اور اچھوچند لاہوری کے نام خاص ہیں، جنھوں نے رامائن کے عمدہ منظوم ترجمے پیش کیے۔ یہ ترجمے زیادہ تر منشی نولکشور اور تمنائی پریس لکھنؤ سے شائع ہوئے ہیں۔ اِن ترجموں کے زیادہ تر مطبوعہ نسخے خدابخش اور نیٹل پبلک لائبریری پٹنہ، رضا لائبریری رام پور اور الہ آباد یونیورسٹی لائبریری میں موجود ہیں۔ رامائن کے رچیتا مہرشی بالمیکی کو سب سے قدیم شاعر ماناجاتا ہے۔ بالمیکی نے رامائن کو ایک تاریخی واقعے کے طور پر تخلیق کیا ہے۔ اُن دونوں صحیفوں کا تقابلی مطالعہ پیش کرتے ہوئے عمادالحسن آزاد فاروقی نے لکھا ہے کہ:
’’مہابھارت کے برخلاف رامائن ایک شخصیت رام چند جی اور اُن سے متعلق لوگوں کے بارے میں ایک مستقل اور مربوط قصہ ہے۔ مہابھارت کے مقابلے میں رامائن زیادہ ترقی یافتہ، مہذب، شائستہ اور اخلاقی اصولوں پر معاشرے کی عکاسی کرتا ہے۔‘‘
اب آئیے رامائن کے کچھ اہم اردو ترجموں کے متعلق گفتگو کی جائے۔ اِس سلسلے میں سب سے پہلے شنکردیال فرحت کے منظوم ترجمے کا ذکر لازمی ہے۔ یہ منشی نولکشور پریس لکھنؤ سے 1846 میں شائع ہوا۔ مثنوی کے فارم میں موجود اس ترجمے کی بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ بہت ہی سہل اور رواں زبان اور اسلوب میں موجود ہے۔ اس کی ابتدا شری رام کیتعریف اور توصیف سے ہوتی ہے شاعر کے مطابق شری رام یگ پُرش تھے۔ انھیں ایشور نے اپنا نمائندہ بناکر دھرتی پر اتارا تھا تاکہ اُن کے ذریعے بلاتفریقِ من و تو سب کے ساتھ انصاف ہو، سب کا بھلاہو، سب کی اہمیت ایک جیسی ہو۔ یعنی ایک ایسا جمہوری نظام قائم ہو جس میں سب کو یکساں حقوق حاصل ہوں۔ واضح ہوکہ رام راجیہ کا تصور یہیں سے منظر عام پر آتا ہے۔
اب ملاحظہ فرمائیں اس مثنوی کے شروعاتی چند اشعار ؂
زباں پر ہر نفس کے رام کا نام
نمو رام و نمو رام و نمو رام
151151
سدا روشن چراغِ جان ہے اُن سے
فروغِ مشعل ایمان ہے اُن سے
151151
وہی گم ہے، وہی ہے آشکارا
وہی مردم کی عین آنکھوں کا تارا
151151
بیاں کیا پاک یا ناپاک سے ہو
صفت کیا خاک ، مشتِ خاک سے ہو
ان اشعار میں شنکردیال فرحت نے نہ صرف شری رام سے اپنی محبت اور عقیدت کا اظہار کیا ہے بلکہ ایسے اسلوب اور ایسی زبان کا استعمال کیا ہے جو عوام و خواص، دونوں میں یکساں طور پر مقبول ہے۔ لیکن فرحت کی کوششوں کے باوجود ان کے ترجمے کو خاطر خواہ شہرت حاصل نہ ہوسکی۔ ہندومِتھ کے مطابق جب شری رام اپنے چودہ برس کے بن باس کے بعد واپس آئے تو انھوں نے مہرشی بالمیکی کے آشرم کا رخ کیا اور بقیہ زندگی اُن کے قریب رہ کر گزاری۔ اُن کے صاحب زادے لَو اور کُش کو مہرشی بالمیکی نے ہی اس دور کے تقاضے کے تحت تعلیم و تربیت سے سنوارا۔ آج بھی بہار کے مغربی چمپارن اور نیپال کی سرحد پر جنگل میں بالمیکی آشرم کے آثار موجود ہیں جہاں لَو اور کش کی تعلیم و تربیت ہوئی اور اُن کی یادگاریں محفوظ کرلی گئیں۔ حالانکہ اِس واقعے کی کوئی تایخی صداقت نہیں ہے تاہم یہ اندازہ تو ضرور ہوجاتا ہے کہ مہرشی بالمیکی نے شری رام اور اُن کے اہل خانہ کو نہ صرف دیکھا تھا بلکہ اُن کو اپنا مقرب بھی رکھا تھا۔ اس لیے بالمیکی کے رامائن کو دوسرے تمام رامائنوں میں زیادہ معتبر اور اہم تصور کیا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ بالمیکی رامائن کے ترجمے اردو میں خصوصیت کے ساتھ الگ الگ شعری اصناف میں ہوئے۔ کہیں مکمل رامائن کے ترجمے ہوئے تو کہیں اس کے الگ الگ حصوں کو مختلف عنوانات کے تحت اردو میں منتقل کیا گیا۔
رامائن کے مترجمین میں ایک اور اہم تام دوارکا پرساد افق لکھنوی کا ہے۔ اُن کا منظوم ترجمہ نولکشور پریس سے سنہ 1804 میں شائع ہوا۔ اُس کے آغاز کے چند اشعار دیکھیں۔ اِن اشعار کے ذریعے افق نے شری رام کی شبیہ اجاگر کرنے کی بہترین کوشش کی ہے ؂
دل کو خواہش ہے کہ رگُھبرکا سراپا ہو بیان
کھینچتا ہے رام کی تصویر یوں مَلکِ روان
کان میں کنڈل ، مکٹ سر پر تلک زیبِ جبیں
مال بَے جنتی گلے میں ، ہاتھ میں تیرو کمان
بعد وہ صحرا میں باندھا جس کا جوڑا رام نے
موئے مشکیں وہ جو بڑھ بڑھ کر ہوئے موئے میان
ایک منظر اور ملاحظہ کریں جس میں شاعر نے شری رام کی تاجپوشی کے جشن کو شعری قالب میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے ؂
جب نویدِ آمد آمد سے ہوا دل شادمان 
پیشوائی کو بھرت راہی ہوئے عشرت کنان
دور چل کر جب نظر آئی سواری رام کی
سرزمینِ شہر نے پایا عروجِ آسمان
بھرت قدموں پر گرے زلفِ حسیناں کی طرح
پاؤں کے بوسے لیے بن کر حنائے بوستان
اور اب اخیر کے یہ اشعار ؂
تخت گردوں پر جو بیٹھا شاہِ اقلیم افق
رام نے رکھا سرِ اقدس پہ تاج زر فشان
تخت شاہی نے قدم چومے کھڑاؤں کی طرح
چترزر سورج سے بن کر سرپہ گھوما آسمان
ملک داری میں ہوئے مشغول راجہ رام چندر
عدل سے رہنے لگی ساری رعایا شادمان
وردِلب ، وردِ زباں ، وردِ دہن ہر نام ہو
ہویہ رامائن پسند خلق و مرغوب جہان
افق نے اپنے اس ترجمے میں شری رام کتھا کو اشعار کی شکل میں ڈھالنے کے دوران خاص طور پر یہ خیال رکھا ہے کہ قصے اور واقعات کو ترتیب کے ساتھ اِس طرح پیش کیا جائے کہ دلچسپی اخیر تک قائم رہے۔ یہاں کہانی پن کی خصوصیت اور شاعرانہ کشش و جاذبیت، دونوں نے مل کر ترجمے کو بہت کار آمد بنادیا ہے۔
معروف افسانہ نگار کشمیری لال ذاکر نے اپنے ایک مضمون ’رامائن اور اس کے ترجمے اردو میں‘ ایک اور مترجم سردار جسونت سنگھ کا ذکر کیا ہے۔ اُن کے مطابق جسونت سنگھ نے رامائن کا ایک ناٹک کے روپ میں ترجمہ کیا ہے اور اسٹیج کے تقاضے کے تحت اِسے صحت کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ اُس وقت کی تھیڑیکل کمپنیوں کے ذریعے غلط واقعات پیش کرنے پر قدغن لگے۔ واضح ہوکہ اس وقت بعض کمپنیاں نازیبا نکتہ چینی کرکے شری رام اور سیتا کے کردار کو مسخ کرنے کی کوشش میں ملوث تھیں۔ جسونت سنگھ نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ واقعات کی صحت کو بحال کیا تاکہ رام اور سیتا کے متعلق غلط اور لغو روایات کا سلسلہ دراز نہ ہو۔ دوسرے یہ کہ اُنھوں نے اپنے ڈرامائی ترجمے کو عوام میں مقبول اور محبوب بنانے کے لیے ہرنئے سین سے پہلے ایک گانے کو شامل کیا تاکہ آغاز میں ہی قاری یا ناظر کو اپنی گرفت میں لے سکیں۔
بطور مثال ایک گانے کا یہ حصہ دیکھیں ؂
پھر اَودھ پوری کے بھاگ کھلے
سیارام لکھن یہاں آئے ہیں
درشن رام دکھائے ہیں
دَھن دَھن سیتا جنک دُلاری
دَھن تیرا پتا ، دھنیہ مہتاری
سُکھ تج کر دُکھ پائے ہے
دھنیہ رام ، دھنیہ ان کی ماتا
دَھنیہ لکھن دھنیہ بھرت بھراتا
جاکے پش جگ چھائے ہیں
چَرنوں نین بچھائے ہیں
اس مقالے کے آغاز میں، میں نے عرض کیا ہے کہ رامائن کے اب تک ایک سو سے زیادہ منظوم ترجمے مختلف وقتوں میں الگ الگ انداز و اسلوب کے ساتھ منظر عام پر آچکے ہیں۔ یہاں ہم نے طوالت سے بچتے ہوئے صرف تین اہم ترجموں تک اپنے آپ کو محدود رکھا ہے۔ ان تینوں کے غائر مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اِن مترجمین نے نہ صرف شری رام کتھا کو اردو میں منتقل کرنے کا کارنامہ انجام دیا ہے بلکہ انھوں نے حتی المقدور ترجمے کے تقاضے پر کھرا اتر نے کی بھی بھرپور کوشش کی ہے۔ یہ بات ابتدا میں ہی واضح ہوچکی ہے کہ کوئی بھی ترجمہ تخلیق یا تحریر کا من و عن متبادل نہیں ہوسکتا، لیکن یہ عین ممکن ہے کہ بہت حدتک ہم اصل کے قریب پہنچنے میں کامیاب ہوجائیں۔ مختصر یہ کہ مذکورہ ترجمہ نگاروں نے بلاشک و شبہ اصل متن کے قریب پہنچنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ انھوں نے اپنی خلاقانہ قوت، طرزِبیان، اسلوب کی دلکشی اور زبان کی سلاست کے ذریعے اپنے ترجموں کو قابل قدر بنادیا ہے۔ یہ ترجمے و اقعاتی طور پر کامیاب تو ہیں ہی ساتھ ہی یہ فنی طور پر بھی پختہ اور معیاری ہیں۔



Dr. Naseem Ahmad Naseem
Bettiah (Bihar)




ماہنامہ اردو دنیا   شمارہ  مارچ 2019





قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

1 تبصرہ: