11/4/19

اختر حسین رائے پوری: ترقی پسند تنقید کے پیش رو مضمون نگار: مخمور صدری




اختر حسین رائے پوری:
 ترقی پسند تنقید کے پیش رو

مخمور صدری
اختر حسین رائے پوری (1912-1992)کاشمار انجمن ترقی پسندمصنّفین کے معماروں میں ہوتا ہے۔ وہ ترقی پسندتحریک کے پہلے باضابطہ نقاد ہیں۔ اردو میں اشتراکی تنقیدکاآغازبھی ان ہی کے ذریعے ہوا۔ ان کے ادبی کارناموں کا دائرہ بھی بہت وسیع ہے۔ وہ ایک افسانہ نگار، تنقیدنگار، مبصر، لغت نویس اور مترجم تھے۔ اخترحسین رائے پوری کے ادبی سفرکاآغاز ہندی افسانہ ’پراجت‘ (1928) سے ہواتھا۔ان کی اردوتخلیقات میں افسانہ نگاری کواولیت حاصل ہے۔ ان کے دو افسانوی مجموعے ’محبت اور نفرت‘ (1938) اور ’زندگی کامیلہ‘ (1956)منظرعام پر آئے۔ تنقیدمیں ’ادب اور انقلاب‘ (1943) ’سنگ میل‘(1949) ’روشن مینار‘ (1956) اور خودنوشت ’گردِراہ‘(1984) کوبڑی اہمیت حاصل ہے۔
اخترحسین رائے پوری کواردو، ہندی، فارسی، بنگالی، گجراتی اورسنسکرت کے علاوہ انگریزی اورفرانسیسی پر بھی عبور حاصل تھا۔ انھوں نے1939میں کالی داس کی ’شکنتلا‘ کا ترجمہ سنسکرت سے اورقاضی نذرالاسلام کی نظموں کا ترجمہ1940میں’ بنگلہ سے ’پیام شباب‘کے نام سے کیا۔ (جورسالہ ’نگار‘ میں شائع ہوئے تھے۔) عزیز احمد کے تعاون سے فرانس کے مستشرق گارساں دتاسی کے سالانہ جائزوں کا ترجمہ بھی کیا۔ پرل ایس بک کے ناول ’گڈارتھ‘ کا ترجمہ ’پیاری زمین‘ (1941)کے نام سے کیا۔ روسی مصنف میکسم گورکی کی آپ بیتی کا ترجمہ ’میرابچپن‘ (1941) ’روٹی کی تلاش‘ (1943) ’جوانی کے دن‘ (1945)ان کے اہم تراجم ہیں۔
اخترحسین رائے پوری کا شمار ایسے ادیبوں میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنے عہدنوجوانی میں ہی ہندوستان کی فرسودہ روایات کے خلاف علم بغاوت بلندکیا۔ جب ان کا مضمون ’ادب اور زندگی‘ شائع ہوا تو ترقی پسندنقطہ نظر کا بنیادی مضمون تسلیم کیاگیا۔سجادظہیرنے اسی مضمون کی وجہ سے اخترحسین رائے پوری کواردو کی ترقی پسند تحریک کے بانیوں میں شمارکیالیکن اپنی منصبی ودفتری ذمے داریوں کی وجہ سے انجمن سے اخترکا گہرا تعلق کبھی نہیں رہا۔ سجاد ظہیر نے بھی اختر کی انجمن ترقی پسندمصنّفین سے لاتعلقی کے حوالے سے ملال کا اظہارکیاتھاکہ ’’وہ بھی اب بڑے ادیبوں کے زمرے میں آ گئے ہیں۔ کچھ نجی مالی مشکلات اور کچھ دنیامیں ترقی کرنے کی خواہش انھیں ترقی پسند ادب کی مشکل ذمے داریوں سے دورکھینچتی جارہی ہے۔‘‘1
یہی نہیں بلکہ آل انڈیاریڈیوکی ملازمت قبول کرنے پر سجاد ظہیرنے سخت ناراضگی کااظہاربھی کیا تھا۔ حقیقت تویہ ہے کہ اس انجمن کی حیدرآباددکن میں شاخ اخترحسین رائے پوری نے ہی قائم کی تھی۔ اس کااجلاس بھی ان کے گھرپرمنعقد ہواتھا اور صدارت مسز سروجنی نائیڈو نے کی تھی۔ 1946میں انجمن کی دہلی شاخ کے صدر بھی منتخب ہوئے۔ پھر پاکستان منتقل ہو گئے۔ قیام پاکستان کے بعد جب انجمن ترقی پسندمصنّفین سے سعادت حسن منٹو، محمد حسن عسکری اور ممتاز شیریں جیسے ادیبوں کو راندہ درگاہ کیاگیا تو ان میں اخترحسین رائے پوری کانام بھی شامل تھا۔ لاہور ترقی پسند کانفرنس میں انھیں شرکت کی دعوت نہیں ملی۔ انجمن کایہ متنازعہ اجلاس احمدندیم قاسمی کے رہائش کدہ پرہو اتھا اور وہ اس انجمن کے سکریٹری جنرل تھے۔ لیکن جب1986میں انجمن ترقی پسندمصنّفین کی گولڈن جوبلی کراچی میں منائی گئی تواس کے ایک جلسے کی صدارت اخترحسین رائے پوری نے کی لیکن احمدندیم قاسمی کوشرکت کی دعوت ہی نہیں دی گئی۔ انھیں لندن اورلکھنؤکے گولڈن جوبلی جلسوں میں بھی مدعو کرنے سے گریزکیاگیا۔یہ ساری باتیں میں نے اس لیے پیش کی ہیں کہ ترقی پسندتحریک کے بعض ادباء ڈھلمل یقین تھے لیکن ڈاکٹراخترحسین رائے پوری کے نظریات، ان کے گہرے مطالعے اورذاتی سوچ کانتیجہ تھے۔ان کااجتہادی زاویہ ان کی فطرت اورکردارکاحصہ تھا اور ادب کے تمام حلقوں میں وہ ہمیشہ عزت ووقارکی نظرسے دیکھے گئے۔وہ کسی مخصوص نظریات سے بندھے ہوئے نہیں تھے۔ طاہرمسعودکودیے گئے ایک انٹرویو میں اخترحسین نے کہاتھاکہ ’’درحقیقت میں نے کبھی خودکوترقی پسندنہیں کہا اور نہ ہی کبھی اس کالیبل لگایا۔‘‘2
ترقی پسندادبی تحریک کے آغاز(1936)سے ایک سال قبل اخترحسین رائے پوری نے ہندی میں ایک مضمون ’ساہتیہ اورکرانتی‘ کے عنوان سے ہندی کے ماہنامے وشوامتر، کلکتہ، اپریل 1933 میں لکھا تھا۔ پھر ’ادب اورزندگی‘ کے عنوان سے انھوں نے ایک طویل معرکتہ الآرامضمون تحریر کیا۔ جس کومولوی عبدالحق نے اپنے رسالہ ’اردو‘، اورنگ آباد، جولائی 1935میں شائع کیا۔ مولوی عبدالحق نے نہ صرف یہ کہ اس مضمون کورسالہ ’اردو‘ میں اہتمام کے ساتھ جگہ دی بلکہ اس کی زائد کاپیاں بنوا کر نئے سرورق کے ساتھ اسے کتابی صورت میں اسی سال انجمن ترقی اردوسے شائع کیاجسے اپنے زمانے کی ’بوطیقا‘ سمجھا جاتا تھا۔ اس میں شک نہیں کہ یہ ادب میں پہلی انقلاب آفریں کوشش تھی۔3اس کی اشاعت سے ادبی حلقوں میں ایک، ہلچل مچ گئی اور اس دور کے نوجوانوں کے لیے وہ ایک تنقیدی صحیفہ بن گیا۔4 اس مضمون میں’’ انھوں نے ادبی مسائل کا نئے نقطہ نظر سے مطالعہ کیا تھا اور قدیم اردو ادب کی خامیوں اور کوتاہیوں پر کڑی نکتہ چینی کی تھی۔‘‘5 پروفیسر صادق لکھتے ہیں:
’’اختر حسین رائے پوری کا ایک مضمون ’ساہتیہ اور کرانتی‘ کلکتہ سے شائع ہونے والے ایک ہندی ماہنامہ ’وشوامتر‘ کے اپریل 1933 کے شمارے میں شائع ہوا۔ اس مضمون کا ترجمہ معمولی تبدیلیوں کے ساتھ ’ادب اور زندگی‘ کے عنوان سے رسالہ ’اردو‘ کے جولائی 1935کے شمارے میں شائع ہوا جو کہ نئے اور پرانے لکھنے والوں میں بحث کا موضوع بن گیا تھا۔ اس مضمون میں روایتی اور تقلیدی ادب کی بے بصری اور بے بضاعتی کو اجاگر کرتے ہوئے نئی جہتوں کی نشاندہی کی گئی تھی۔‘‘6
مجنوں گورکھپوری کامضمون ’ادب اورزندگی‘ 1938 کی تحریر ہے۔ اس لحاظ سے ادب اورزندگی کے موضوع پر اور ترقی پسندی کے باب میں اختر حسین رائے پوری کی حیثیت پیش روکی ہے۔ان کا اولین مقالہ ’ادب اور زندگی‘ ترقی پسندتنقیدکانقطہ آغازہے۔ سجادظہیرنے بھی اس بات کوتسلیم کیاہے کہ ’’1936 یا اس سے کچھ پہلے اختر حسین رائے پوری نے اپنا مشہور مضمون ’ادب اور زندگی‘ لکھا، جو انجمن ترقی اردو (ہند) کے سہ ماہی رسالے ’اردو‘ میں شائع ہوا۔ میرے خیال میں یہ ہماری زبان میں پہلا مضمون ہے جس میں مبسوط اور مدلل طریقے سے نئے ترقی پسند ادب کی تخلیق کی ضرورت بتائی گئی ہے۔ اس اہم مضمون کے مصنف کی حیثیت سے اختر حسین رائے پوری کو اردو کے ترقی پسند ادب کی تحریک کے بانیوں میں اولیت حاصل ہے۔‘‘7
اس وقت تک اردو میں سائنٹفک یامارکسی تنقیدنگاری کی بنیادنہیں پڑی تھی۔ اخترحسین رائے پوری کایہ مقالہ ’ادب اور زندگی‘ اردو کا پہلامقالہ تھا۔جس میں ادب وفن کااقتصادی بنیادپرجائزہ لیاگیاتھا اور شعر و ادب کی بالکل نئی تعبیرپیش کی گئی تھی... اس لحاظ سے ان کے مقالے کی تاریخی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ اس عہدکی اردو تنقید کے پس منظرمیں اس مقالے کودیکھیے توآپ کواردوادب میںیہ بالکل نئی آوازاورایک انقلابی اندازفکرنظرآئے گا۔8
1943میں جب ان کی کتاب ’ادب اورانقلاب‘ شائع ہوئی تھی تو ناشرنے یہ دعویٰ کیاتھا کہ خواجہ حالی کے ’مقدمہ شعروشاعری ‘کے بعدکسی تحریرنے اردوکے شعبہ تنقیدکواس حدتک متاثر نہیں کیا۔ ’ادب اورزندگی‘ کی اشاعت کے بعداس موضوع پربے شمار مضامین شائع ہوئے اوراس تحریک نے انجمن ترقی پسندمصنّفین کی صورت منظم شکل اختیارکرلی۔ یہ امرناقابل تردیدہے کہ یہ سب اسی حرف اول کی مختلف تفسیریں ہیں۔
اخترحسین رائے پوری نے ادب اورزندگی کے موضوع کوسب سے پہلے اردوداں طبقے سے روشناس کرایا اور ساہتیہ پریشد، ناگپورکے اجلاس کے ذریعے انجمن ترقی پسندمصنّفین کی پہلی کانفرنس منعقدہ لکھنؤ 1936سے پہلے ترقی پسندی کی تحریک چلائی۔ کیونکہ بھارتیہ ساہتیہ پریشد کا ناگپور اجلاس اپریل 1936 میں لکھنؤکانفرنس سے کچھ دن پہلے ہوا تھا۔ اس لحاظ سے اخترحسین رائے پوری کوہندی اور اردو زبانوں میں ترقی پسند ادب کا پہلا مجتہد قرار دیا جاتا ہے۔
اخترحسین رائے پوری کا مضمون ’ادب اورزندگی‘ ان کے تنقیدی مضامین کے مجموعے ’ ادب اور انقلاب‘ میں شامل ہے۔ اس مجموعے میں وہ اعلان نامہ بھی ہے جوساہتیہ پریشدناگپورکے اجلاس24؍25 اپریل 1936 میں پیش کیا گیا تھا۔ بھارتیہ پریشدناگپوراپریل 1936 کے اعلان نامے اورانجمن ترقی پسندمصنّفین کے پہلے مینی فیسٹو (اجلاس لکھنؤ10؍اپریل 1936) کچھ زیادہ مختلف نہیں تھے۔ 
اختر حسین رائے پوری کی طرف سے پیش کردہ اس مینی فیسٹو پر ان کے علاوہ جواہر لال نہرو، پریم چند، اچاریہ نریندر دیو اور مولوی عبدالحق کے دستخط تھے۔ اس مینی فیسٹو سے ہم کو ہرگز نہیں سمجھنا چاہیے کہ انجمن ترقی پسند مصنّفین کے مینی فیسٹو کو مدنظر رکھ کر تیار کیا گیا تھا۔ بلکہ ا س سے یہ واضح ہوتا ہے کہ لندن ، لکھنؤ (پہلی کانفرنس) میں انجمن ترقی پسند مصنّفین کے قیام سے پہلے ہی ہندستانی ادیبوں اور دانشوروں میں اس کی ضرورت کومحسوس کیا جانے لگا تھا۔ مختلف شواہد سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ لندن میں انجمن ترقی پسند مصنّفین کے قیام سے پہلے ہی ہندوستان میں اس کی تشکیل ہوچکی تھی۔ جبکہ ’’عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ انجمن ترقی پسند مصنّفین کا قیام پہلے پہل لندن میں عمل میں آیا لیکن احمد علی نے اپنے ایک مضمون ’تحریک ترقی پسند مصنّفین اور تخلیقی مصنف‘ میں اس حقیقت کا اظہار کیا ہے کہ لندن میں انجمن ترقی پسند مصنّفین کے قیام سے پہلے 1933 میں ہند وستان میں اس کی بنیاد رکھی جاچکی تھی۔ 9
احمد علی کا یہ بیان اپنی جگہ اہم ہے اس لیے کہ وہ ترقی پسند تحریک کے بانیوں میں سے تھے۔ ’’لیکن ترقی پسند مصنّفین کا جوتصور سجاد ظہیر کے ذہن میں تھا وہ اس سے بہت مختلف تھا۔ سجاد ظہیر ترقی پسند مصنّفین کی ایک ایسی کل ہند انجمن قائم کرنا چاہتے تھے جس کی ترویج ہندوستان کی مختلف زبانوں میں ہو اور یہ کل ہند انجمن، ترقی پسندوں کے اس بین الاقوامی مرکز سے ملحق ہو جو کہ پیرس میں قائم کیا گیا تھا۔ ظاہر ہے کہ دونوں کے راستے مقاصد اور دائرہ کار مختلف تھے۔‘‘10
بھارتیہ پریشدکے اس اعلان نامے میں جن اغراض ومقاصدکو سامنے رکھاگیاہے ، تقریباًانجمن ترقی پسند مصنّفین نے اپنے پہلے مینی فیسٹو(پہلی کانفرنس لکھنؤ 10؍اپریل 1936)میں انہی خیالات کااظہارکیاتھاان میں سے کچھ یہ ہیں:
’’ہماراادب ایک گونہ فراریت کا شکار رہا ہے اور زندگی کے حقائق سے گریزکرکے کھوکھلی رومانیت اوربے بنیادتصورپرستی میں پناہ ڈھونڈھ رہاہے جس کے باعث اس کی رگوں میں نیاخون آنابندہوگیاہے..... ہندوستانی ادیبوں کافرض ہے کہ وہ ہندوستانی زندگی میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا بھرپور اظہارکریں۔‘‘11
اگر ہم دونوں کے اعلان ناموں کا موازنہ کریں تو دونوں کے اغراض و مقاصدمیں زیادہ فرق نظرنہیںآئے گا۔ دونوں کے منشوروں کالب و لہجہ ایک جیسا ہے۔ کیونکہ دونوں ادب کوزندگی کاترجمان مانتے ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ اس اعلان نامہ کی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ یہ جس اجلاس میں پڑھا گیا تھا اس میں ہندوستان کی مختلف زبانوں کے ادیب ملک کے گوشے گوشے سے اکٹھا ہوئے تھے۔ اس لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ترقی پسندخیالات کواختر حسین رائے پوری کی وجہ سے صرف اردوہی میں نہیں بلکہ ملک کی دیگرزبانوں میں بھی فروغ پانے کاموقع ملا۔ 
اختر حسین رائے پوری نے اپنے تنقیدی مضامین کے ذریعے ا نقلابی ادب کے تصورکو اردو ادب میں واضح طورپرپیش کیا۔ اپنے مضامین سے ترقی پسندتحریک اوراس کی نشوونماکے لیے زمین تیارکی۔ انھوں نے اپنے وقت کے تاریخی تقاضوں کے پیش نظر ادب میں ایک نئی فکری جہت کی نشاندہی کی اور وہ جہت تھی زندگی کے سماجی اور تاریخی حقائق کی روشنی میں ادب وفن کو پرکھنے کی کوشش۔ یوں توادب کی افادیت اور اس کے سماجی وتاریخی کردار پر سب سے پہلے سرسیداوران کے ناموررفقانے توجہ دلائی تھی۔ مولانا حالی کی کتاب ’مقدمہ شعر و شاعری‘ (1893) اسی نقطہ نظرکی ترجمان ہے اور اردو ادب وتنقیدپراس کے اثرات بھی مرتب ہوئے لیکن اخترحسین رائے پوری نے جس وقت لکھناشروع کیا اس دور میں عبدالرحمان بجنوری، نیازفتح پوری اورمجنوں گورکھپوری کے تاثراتی اور رومانی اثرات ارودتنقیدپرحاوی تھے۔ اخترحسین رائے پوری نے اس تاثراتی اوررومانی حصار کوتوڑنے کی سعی کی ہے۔ 
دراصل اردو ادب میں یہی پہلا مضمون ہے ’’جس میں ادب سے متعلق مارکسی طرز فکر کے مطابق خیالات پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔اس مضمون میں لینن، ٹالسٹائی، گورکی اور رومین رولاں وغیرہ کی تحریروں کے حوالے ہیں اور ان کی روشنی میں ادب اور سماجی زندگی کے رشتے پر نظر ڈالی گئی ہے۔12پہلی بار ادیب کی سماجی ذمے داری اور ادب وفن کے افادی ہونے کی نوعیت کو واضح کیا گیا نیز ادیب کے فکری شعور اور اس کے آس پاس کے سماجی ماحول کے درمیان پائے جانے والے گہرے تعلق پر اس انداز سے بحث کی گئی کہ حقیقت پسند ی کی طرف مائل تخلیقی ادب کو پرکھنے کے لیے اپنے وقت کا سب سے اہم فکری پیمانہ یہی مضمون ثابت ہوا۔انھوں نے لکھاہے کہ:
’’تخلیقی ادب، معاشی زندگی کاشعبہ ہے۔ادب زندگی کاآئینہ دار ہے۔ ادب اپنے گردوپیش سے متاثر ہوتا ہے کسی ادیب کی روح کوسمجھنے کے لیے اس فضاکو سمجھنا ضروری ہے جس میں اس نے پرورش پائی۔ ادب ماضی، حال، مستقبل میں رشتہ جوڑتاہے۔ رنگ ونسل اورملک و قوم کی بندشوں کو توڑکربنی نوع انسان کووحدت کا پیغام سناتا ہے.... ادب زندگی سے عبارت ہے نہ کہ زندگی ادب سے.... اب تک ہماراادب زندگی کی بے ثباتی اور انسان کی بے چارگی کانوحہ پڑھتا آیا ہے.... ادب ایک سماجی فریضہ ہے۔ادب کی تخلیق میں دوطاقتیں کام کرتی ہیں۔ (1) ماحول (2) شخصیت۔ 13 
اخترحسین رائے پوری نے اس مضمون میں مارکسی نقطہ نظرسے اردو کے قدیم ادبی سرمائے پرسخت تنقیدکی اور ماضی کے اعلیٰ تخلیقی کارناموں کو رجعت پرستی کا شکار قرار دیا۔ جبکہ مارکسی نظریہ ماضی کے ادب، روایات اور ماضی کے اقدار کو یکسر ہی فراموش نہیں کرتا اور نہ ہی خارج از بحث بتلاتا ہے۔ اگرچہ’’مارکس نے ادبی، سیاسی وسماجی ارتقا کا انحصار معاشی ارتقا پر رکھا تھا۔ ساتھ ہی اس نے بعض دوسرے محرکات کی اہمیت کا اعتراف بھی کیا تھا جو ان کے ارتقا میں معاون ہوتے ہیں لیکن اختر حسین رائے پوری نے اس کے نظریات کو ادب پر منطبق کرتے وقت صرف اقتصادی ومعاشی اثرات کو ہی اہمیت دی جس کی وجہ سے ان کے یہاں ایک قسم کا انتہا پسندانہ مارکسی نظریہ ملتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تنقیدوں میں ادبی اصولوں کے بجائے سماجی ضرورتوں پر زیادہ زور نظر آتا ہے۔‘‘14
اختر حسین رائے پوری نے اپنی نظری اوراطلاقی دونوں تنقیدات میں مارکسی اصولوں کو ہی پیش نظر رکھا ہے۔ اسی نقطہ نظر سے انھوں نے ہندستان کے قدیم وجدید ادب کا معاشی تجزیہ کیاہے۔ سنسکرت، ہندی، بنگالی، گجراتی اور متعدد زبانوں کے ادب کو طبقاتی کشمکش کے آئینے میں دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ خاص طور پر اردو کے کلاسیکی ادب کے جائزے میں تھوڑا تجاوز کرگئے ہیں۔ انھوں نے کلاسیکی ادب کوجاگیردارانہ عہدکازائیدہ قرار دیا۔ اس کی وجہ ان کے نزدیک یہ ہے کہ کلاسیکی شعروادب میں سماجی زندگی کی کشمکش، زندگی کے مسائل اورماحول کوجگہ نہیں دی گئی ہے۔ اس لیے انھوں نے ٹیگور کو فراری اور اقبال کو فسطائیت کا نمائندہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔انھوں نے کلاسیکی ادب میں موجود قابل قدر اور عمدہ عناصر کو بھی نظر انداز کردیاہے۔ لیکن جن باتوں کی طرف انھوں نے اشارہ کیا ہے وہ کافی اہم ہیں۔ مثلاً ادب میں عصری آگہی کے فقدان پر ان کے یہ خیالات ملاحظہ ہوں:
’’ تمام ہندوستانی شعراء زندگی سے کتنے بے خبر اور بے پروا تھے۔ ان کے جذبات کتنے اوچھے اور احساسات کتنے بے حقیقت تھے اس کا اندازہ لگانے کے لیے چشم عبرت کی ضرورت ہے۔ پلاسی کی لڑائی کتنا بڑا قومی سانحہ تھا۔ پانی پت کی تیسری لڑائی ہندو طاقت کے لیے موت تھی۔ ٹیپو سلطان کی شکست مسلمانوں اور ہندوستانیوں کے تنزل کا اعلان تھا اور ان سب سے اہم 1857کاسانحہ تو ہندوستانی سماج کی بربادی کا پیش خیمہ تھا۔ کتنے شاعروں نے ان خونچکاں واقعات کو نظم کیا۔ کتنے نوحے لکھے گئے۔ کہاں تھے وہ رجز گو مرثیہ خواں جن کی جادو بیانی سے محرم کی ہر محفل ماتم کدہ بن جاتی تھی۔ کسی بڑے شاعر نے پلاسی کی لڑائی پر ایک نوحہ نہ لکھا۔ واقعات 1857 پر داغ کا شہرآشوب اور غالب کے خطوط پڑھیے اور سر پیٹ لیجیے کہ جب پورے ملک کی قسمت کا فیصلہ ہورہا تھا۔ یہ حضرات اپنی روٹیوں کے سوا اور کچھ نہ سوچ سکتے تھے۔ اور سوچتے تھے تو ایسے بزدلانا اور رجعت پسندانہ طریقوں سے جو زندگی اور شاعری کے لیے باعث ننگ ہے۔‘‘15
ایک دوسرے مضمون میں یوں رقمطراز ہیں:
’’ہماری کرم خوردہ شاعری اور ادب کے نمونوں کو لوگ میوزیم میں رکھیں گے اور انھیں اسی حیرت سے دیکھا کریں گے جس طرح آج ہم زمانہ قدیم کی ممیوں کو دیکھا کرتے ہیں۔‘‘16
اخترحسین رائے پوری نے دیگر مضمون میں بھی اس بات کا بغیر کسی پس وپیش کے اظہار کیاہے کہ اردو شاعری میں درد اور نظیر جیسے معدودے چند لوگوں کو چھوڑ کر باقی سب لوگ وظیفہ خور تھے۔ درد دنیا سے بیگانہ اور میر تقی میر اپنی ناکامیوں کی وجہ سے زندگی سے بیزارنظرآتے ہیں۔ ان کا خیال تھاکہ ان وجوہ کی بنا پر یہ دونوں شاعر زندگی کے لیے ضروری جذبات سے اجتناب برتتے ہیں۔ افسردگی، رہبانیت اور حزنیت کا ایک لامتناہی سلسلہ وہ اردو شاعری میں دیکھتے ہیں۔ انھوں نے قدیم دور میں صرف نظیر ہی کو صحیح معنوں میں شاعر قرار دیاہے اور کہا کہ اگرچہ نظیر کے یہاں حسن بیان کی کمی اور عامیانہ جذبات کی زیادتی ضرور ہے جس کی وجہ اس کی آوارہ اور خانہ بدوش زندگی ہے لیکن پورے اردو ادب میں وہی ایسا شاعر ہے جو عوام کے ساتھ رہتا ہے۔انھیں سمجھتا ہے اور ان کے تاثرات کوانہی کی زبان میں بیان کرتا ہے۔ نظیر اکبر آبادی کو پہلی بار ا س انداز نظر سے اختر حسین رائے پوری نے ہی دریافت کیاتھا۔ اسی طرح وہ رابندر ناتھ ٹیگور اور نذرالاسلام پر بھی تنقیدی نگاہ ڈالتے ہیں اور ان کی شاعری کے حسن وقبح کا ژرف نگاہی سے جائزہ لیتے ہیں۔ وہ ٹیگور میں اصلاح، عدم تشدد اور تصوف کی تبلیغ کو مستحسن نہیں سمجھتے تاہم ان کا خیال ہے کہ ٹیگور کے کلام کا بڑا حصہ زمان ومکان سے بالاتر ہے۔ اقبال کو فسطائیت کا ترجمان سمجھتے ہیں۔ ان کاکہناہے کہ اقبال نے اپنی شاعری میں قوم کے صرف ایک خاص طبقے کو ہی مخاطب کیاہے۔ یہ طبقہ نوجوانوں کا ہے۔ تاریخ اسلام کا ماضی انھیں بہت روشن اورشاندار معلوم ہوتا ہے۔ انھوں نے اقبال کے متعلق لکھاہے کہ
’’... اقبال اسلامی فاشسٹ ہے اور اس کا ردعمل ڈاکٹر پر مانند اور ڈاکٹر مونجے کے ہندوفاشزم کی صورت میں ظہور پذیر ہورہا ہے۔ جن کے نزدیک ویدک عہد کی تہذیب انسانیت کی معراج ہے اور ذات پات کی تقسیم تقسیم عمل کا بہترین نمونہ ہے۔‘‘17
اختر حسین رائے پوری کی کتاب ’ادب اور انقلاب‘ کے مطالعے سے صاف پتہ چلتا ہے کہ وہ ادب کو اشتراکی اصولوں کی تبلیغ کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ انھوں نے اس کا اظہار کھلم کھلا تو نہیں کیا ہے۔ لیکن ان کی تحریروں میں اس کے اشارے ضرور ملتے یں۔ مثلاً ایک جگہ انھوں نے لکھا ہے کہ ’’ادب کا فرض اولین یہ ہے کہ دنیا سے قوم، وطن ، رنگ ، نسل اور طبقہ ومذہب کی تفریق کو مٹانے کی تلقین کرے اور اس جماعت کی ترجما نی ہو جو اس نصب العین کو پیش نظر رکھ کر عملی اقدام کررہی ہے۔18 ان کے یہاں اس طرح کا انتہا پسندانہ رجحان عام طور پر ملتا ہے۔غرض کہ اخترحسین رائے پوری ارد ومیں مارکسی تنقید کے نقش اول ہیں۔انھوں نے اردو تنقید میں ایک نئی منزل کی نشاندہی کی ہے جس کو ایک اجتہادی کوشش سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ انھوں نے ترقی پسند نظریات کو عام کرنے کی سب سے پہلے شعوری کوشش کی۔ انھیں اپنی اس کوشش میں زیادہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی لیکن اتنا ضرور ہے کہ اردو ادب میں ان کی تنقیدی نگارشات سے فکروفن کے نئے مسائل بحث کے لیے پیدا ہوئے۔ ادیبوں اور دانشوروں کو ایسے موضوعات پر سوچنا سکھایا جن پر ان سے پہلے کسی نے بھی کچھ نہیں سوچا تھا۔ ان کا انداز بیان شگفتہ اور جاندار ہوتا ہے اور وہ اپنے نظریات ثابت کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ اس بنا پر انھیں ان ناقدین کی صف اول میں جگہ دیتے ہیں جنھوں نے اردو زبان میں ترقی پسند تنقید کو رواج دیا اور اردو ادب کونئی قدروں سے روشناس کیا۔
حواشی
.1 سجادظہیر، روشنائی، ص171، سیما پبلی کیشنز ، دہلی1985
.2 طاہرمسعود، یہ صورت گرکچھ خوابوں کے ، ص84، مکتبہ تخلیق ادب، کراچی، 1985
.3 شارب ردولوی، تنقیدی مباحث، ص 40، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی 1995
.4 خلیل الرحمن اعظمی، اردو میں ترقی پسند ادبی تحریک، ص 289، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ 1996
.5 ایضاً، ص35
.6 ڈاکٹر صادق، ترقی پسند تحریک اور اردو افسانہ، 61-62، اردو مجلس ، بازار چتلی قبر، دہلی۔1981
.7 سجاد ظہیر، روشنائی، ص 168، سیما پبلی کیشنز ، دہلی۔1985
.8 شہزادمنظر، اخترحسین رائے پوری کاتصورادب، ص817مشمولہ ادبیات، شمارہ، 27تا1994/30
.9 ڈاکٹر صادق، ترقی پسند تحریک اور اردو افسانہ ، 62-63، ارد ومجلس، چتلی قبر ، دہلی1981
.10 ایضاً ، ص63
.11 سردارجعفری، ترقی پسندادب، ص24، انجمن ترقی اردوہند، علی گڑھ1957
.12 خلیل الرحمن اعظمی، اردو میں ترقی پسند ادبی تحریک، ص 289، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ1996
.13 اخترحسین رائے پوری، ادب اورانقلاب، ص81 ، 74 ، 15 ، 13، 11ادارہ اشاعت اردو، حیدرآباد۔ 1943
.14 شارب ردولوی، جدید اردو تنقید :اصول ونظریات، ص361-362، اتر پردیش اردو اکادمی لکھنؤ1994
.15 اخترحسین رائے پوری، ادب اورانقلاب، ص 51ادارہ اشاعت اردو، حیدرآباد۔ 1943
.16 ایضاً، ص257
.17 ایضاً، ص62
.18 ایضاً، ص 23

Dr. Makhmoor Sadri
R-81, Second Floor, Near Hari Masjid
Jogabai Extn, Batla House, Jamia Nagar
Okhla, New Delhi-25

ماہنامہ اردو دنیا، ستمبر2016




قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں