11/4/19

آلودگی کنٹرول میں خواتین کا کردار مضمون نگار: شمیم احمد صدیقی




آلودگی کنٹرول میں خواتین کا کردار
شمیم احمد صدیقی
خالق کائنات نے اپنی اشر ف ترین مخلوق یعنی انسان کو دنیا میں وجود بخشنے سے بہت پہلے اُس کی مختلف ضروریات کی کفالت کے لیے وافر مقدار میں تمام چیزیں پھیلا دی تھیں۔مزید یہ کہ انسانوں کے استعمال کے بعد اُن چیزوں میں آئی کمی یا نقص کو دور کرنے کا بھی بڑا جامع نظام قائم کیا تھا۔ مثلاً انسان کی غذائی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے سیکڑوں قسم کی سبزیاں،پھل اور اناج نیز دودھ اور گوشت دینے والے جانور پیدا کیے اور ان کی آئندہ افزائش کا انتظام بھی کیا۔ پانی انسانی زندگی کی بقا کے لیے لازمی شے ہے۔ چنانچہ خالقِ ارض وسما نے کرۂ ارض کے 71% فی صد حصے پر پانی پھیلا رکھا ہے جس کا ایک بڑا حصّہ نمکین بنا کر سمندر اور جھیلوں کی شکل میں محفوظ کر دیا جس کو آسانی سے استعمال میں لاکر ضائع نہیں کیا جا سکتا نیز خاصا حصّہ گلیشیر اور زیر زمین صاف ستھرے پانی کی شکل میں، جو پینے کے لیے اور نہانے دھونے کے لیے استعمال میں آتا ہے، محفوظ کر دیا۔ اتنا ہی نہیں استعمال شدہ پانی کو دوبارہ قابلِ استعمال بنانے نیز سمندر اور جھیلوں کے کھاری پانی کو قابلِ استعمال بنانے کے لیے بادلوں اور بارش کا نظام بھی قائم کیا۔ سواری اور باربرداری کے لیے نیز زمین کوقابلِ کاشت بنانے کے لیے مختلف قسم کے چو پائے، ہاتھی، اونٹ، گھوڑا، بیل، خچر وغیرہ مہیّا کیے۔انسان اور اس کے خادم جانوروں کے سانس لینے کے لیے آکسیجن شامل کی ہوئی ہوا کو تمام عالم میں پھیلا دیا اور سانس لینے کے بعد خارج ہوئی کاربن ڈائی آکسائڈکو دوبارہ آکسیجن میں تبدیل کرنے کے لیے بے شمار قدرتی فیکٹریوں کوپیڑ پودوں کی شکل میں پیدا کیا۔ ہمارے گرد و پیش کی یہ تمام چیزیں جب تک فطری انداز میں رہیں تمام دنیا کا نظام معمول کے مطابق یعنی چُست اور دُرست رہا اور انسان اپنی ضروریات کو بخوبی پورا کرتا رہا۔ لیکن سائنس وٹکنالاجی کے فروغ کے ذریعے جو نئی نئی ایجادات ہوئیں انھوں نے انسانی فکر اور طرز حیات پر ایسے منفی اثرات مرتب کیے کہ انسان نے محنت اور جفاکشی سے جی چرانا شروع کر دیا۔سہولت پسندی وعیش پرستی اور بناوٹی و نمائشی چیزوں کی طمع نے قدرت کے نظام میں دخل اندازی پر ابھارا جس کے نتیجے میں پورا ماحول متاثر ہوا اور پانی،ہوا اور مٹّی جن پر تمام جانداروں کی زندگی کا انحصار ہے، پراگند گی کا شکار ہوتی گئیں۔ظاہر ہے کہ جب ان ضروری اشیا میں بگاڑ پیدا ہوا جن پر زندگی کا دار و مدار ہے تو بشمول انسان تمام جانداروں کی صحت متاثر ہوئی اور نازک جانداروں کا و جود ہی دنیا سے ختم ہونے لگا۔چنانچہ گزشتہ چند دہائیوں میں سیکڑوں نباتات اور نازک قسم کے حیوانات دنیا سے نا پید ہو گئے ہیں۔فی الوقت اس کائنات کی اشرف ترین مخلوق یعنی حضرتِ انسان اس قدر پریشانیوں کا شکار ہے کہ بہت سی جگہوں پر اس کو پینے کے لیے صاف ستھرا پانی بھی بمشکل دستیاب ہو پاتا ہے اور اس کو قیمتاً خریدناپڑ رہا ہے۔
ہم اپنے اصل موضوع پر آنے سے قبل اُن عوامل کا مختصر جائزہ پیش کر رہے ہیں جن کی بنا پر انسان نے اس کرۂ ارض پر اپنی زندگی کو اجیرن بنا کر رکھ دیا۔ جب تک انسانوں کی بیشتر تعداد گاؤں دیہات کے کچے مکانات میں رہتی تھی جن کی چھت بنانے کے لیے قدرت کے مہیا کردہ بانس، بلّی اور پھوس وغیرہ ہی درکار تھے، اُس وقت تک پختہ تعمیرات میں استعمال ہونے والے لوہے اور سیمنٹ کو فراہم کرانے کے لیے ان اشیا کے کارخانے قائم کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ اسی طرح جب تک انسان کنواں بنا کر ڈول اور رسّی سے پانی کو نیچے سے اوپر لاکر استعمال کرتا تھا اس وقت تک نہ تو اس کو ہینڈپمپ تیار کرنے کے لیے اور نہ ہی ٹیوب ویل کا موٹر بنانے کے لیے کسی کارخانے کو وجود میں لانے کی ضرورت تھی۔ جب تک انسان اپنی سواری اور بار برداری کے لیے قدرتی سواریوں یعنی جانوروں کو استعمال میں لاتا رہا اس وقت تک اس کو سائیکل،موٹر سائیکل اور کاریابس بنا نے کے لیے کسی کار خانے کی بنیاد ڈالنے کی ضرورت نہ تھی۔جب تک انسان نے قدرت کی مہیا کی ہوئی کپاس اور بھیڑ کی اون سے تیار کیے گئے ریشے اور کپڑوں پر اکتفا کی اس وقت تک اس کو مصنوعی دھا گے اور اون تیار کرنے کے لیے کسی کار خانہ لگانے کے لیے زمین گھیرنے کی ضرورت نہ تھی۔ جب تک ہماری عورتوں نے قدرت کے بنائے ہوئے رنگوں ہلدی، رتن جوت، زعفران وغیرہ سے اپنے کھانوں کو دلکش اور دیدہ زیب بنانے پر اکتفا کی تھی اور اپنی آرائش و زیبائش کے لیے آنولہ،شکاکائی، ملتانی مٹّی بیسن، مہندی،لیمو،عرقِ گلاب اور بالچھڑ جیسی قدرتی چیزوں پر اکتفاکی تھی اس وقت تک ہم کوکیمیاوی رنگ، شیمپو، نیل پالش، لپ اسٹک، ہیئر ڈائی وغیرہ کو بنانے کے لیے کوئی کارخانہ لگانے کی ضرورت نہ تھی۔ جب تک ہم اپنی قابل کاشت زمینوں میں فصل اُگا نے کے لیے انسان و جانوروں کے فضلات اور گھاس پھوس سے تیار کی ہوئی کھاد کو استعمال کرتے رہے اس وقت تک ہم کو کیمیاوی کھاد کے کار خانوں کو قائم کرنے کی ضرورت پیش نہ آئی تھی۔ جب تک ہم نے سادگی اور مجاہد انہ زندگی اختیار کر رکھی تھی اس وقت تک ہم کو ریفریجریٹر اور ایر کنڈیشنر کی ضرورت نہ پیش آئی تھی اور اُن میں استعمال ہونے والی فلوروہائیڈ روکاربن گیسوں کے رساؤ کے نتیجے میں ہماری فضا میں مو جود اوزون کی پرت کو کوئی نقصان نہ پہنچا تھا۔الغرض زندگی کو زائد سے زائد پر تعیش بنا نے اور نمائشی چیزوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی فکر نے لاتعداد کار خانوں کو وجود بخشا جن کو قائم کر نے کے لیے بہت سے جنگلوں کا صفایا کر نا پڑا اور جن سے خارج ہوئی زیریلی گیسوں اور زہریلے سیّال مادّوں نے ہوا، پانی اور مٹی سب کو آلودہ کر دیا۔ آج ہم نہ صرف صاف ستھرے پانی کی کمی کو جھیلنے پر مجبور ہیں بلکہ آلودہ ہوا میں سانس لینے اور آلودہ مٹی میں پیدا ہوئی اجناس کھانے کے لیے مجبور ہیں۔فصلوں کو کیڑوں مکوڑوں اور جر ثوموں سے بچانے کے لیے زہریلے کیمیاوی سیال کے چھڑکاؤ کی وجہ سے آج تمام اناج، سبزیاں اور پھل وغیرہ بھی آلود گی زدہ ہی دستیاب ہوتے ہیں جبکہ قدرت نے ہم کونیم کی شکل میں لا جواب جراثیم کش اور کرِم کش قدرتی ہتھیار دستیاب کرایا تھا۔ ہم نے قدرتی فیکٹریوں میں تیار ہونے والی جڑی بوٹیوں کی ادویات کے ذریعے علاج معالجہ کو ترک کر کے کیمیاوی مادوں سے تیار ایلو پیتھک دواؤں کو تر جیح دی تو ان ادویات کی تیاری کے لیے فیکٹریاں بھی قائم کر نا پڑیں نیز ایلو پیتھک دواؤں کے اندھا دُھند استعمال سے مختلف قسم کے نئے عوارض سے بھی الجھنا پڑا۔ ہوا اور پانی کی آلودگی نے نئے قسم کے وائرس،بیکٹیریا وغیرہ کوجنم دیا جن کی بنا پر ہیپاٹائٹس بی اور سی، ایڈس، سوائن فلو، ایبولا جیسی نئی نئی خطرناک بیماریوں سے دوچار ہونا پڑا۔الغرض محنت اور جفا کشی کی زندگی کو ترک کرنے اور عیش پرستی اور نمائشی چمکدار چیزوں کو اپنا نے کے غیر دانشمندانہ اقدام نے ہی انسان کی زندگی کو بے حد مشکلات میں مبتلا کر دیا ہے۔اب ہر جگہ ماحولیات کو سدھار نے، آلود گی کو کنٹرول کرنے اور قدرتی وسائل کے اندھا دھند استعمال پر روک لگا نے کی فکر یں کی جا رہی ہیں۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ آلود گی کنٹرول یا ماحول کو سدھا ر نے کے کام میں خواتین کس قدر مدد گار ہو سکتی ہیں اور اس کا طریقۂ کار کیا ہوگا۔ اس سلسلے میں پہلی بات تو یہ غرض کر نا ہے کہ دنیا کی مجموعی آبادی میں عورتوں کا تناسب مردوں سے قدرے زیادہ ہی ہے اور بچوں کی تعداد عورتوں سے بھی زائد ہے لہٰذا اگر ہم اپنی عورتوں کو ماحولیات کی ضروری تعلیم دے کر اُن کو پراگندگی سے بچاؤ پر آمادہ کریں اور وہ ابتدأ ہی سے یہی باتیں اپنے بچوں کو ذہن نشین کرانے لگیں توہم اپنی آبادی کے بڑے حصّے کو ماحول سدھار کے اہم کام پر لگا سکتے ہیں۔اس لیے ہم کو مُلکی سطح پر تعلیمی پالیسیاں مرتب کر نے والے اربابِ حل وعقد کو متوجہ کر کے کم از کم ثانوی تعلیم کے نصاب میں یعنی درجہ چھ تا دس تک کے نصاب میں ماحولیات پر مبنی تعلیم کو لازمی مضمون کے طور پر داخل کرانا ہوگا۔اسکولی نصاب میں ماحولیات کی لازمی تعلیم کے علاوہ اُن خواتین کو بھی جو پختہ عمر کو پہنچ چکی ہیں یعنی اُن کی عمر روایتی تعلیم کی نہیں رہی،اُن کو مختلف ذرائع ابلاغ کے ذریعے پر اگندگی سے متعلق اہم امور کی واقفیت کراکر ماحول سدھار کے کام پر آمادہ کرنے کی حتی الامکان کو شش کرنا پڑے گی تاکہ وہ خود بھی ماحول سدھار پر کمر بستہ ہوں اور اپنے بچوں کو بھی ضروری ہدایات دیتی رہیں۔ ہم بڑی عمر کی خواتین کو متوجہ کرنے کے لیے چند امور اور تجاویز ذیل میں پیش کر رہے ہیں تاکہ خواتین کو اُن کے اپنا نے کی تر غیب دی جائے۔
(1) جسمانی صفائی ستھرائی، کپڑوں اور بر تنوں وغیرہ کی دھلائی میں پانی کا کم سے کم استعمال کرنا۔واشنگ مشین سے نکلے ہوئے پانی کو فرش کی دھلائی یا چھڑکاؤ کے کام میں استعمال میں لانا۔سبزیاں دھونے کے بعد پانی کو نالی میں بہانے کے بجائے گملوں یا کیاریوں میں ڈالنے کا اہتمام کرنا۔
(2) اگر موٹر کے ذریعے پانی کو کسی ٹنکی میں اسٹور کر نا ہے تو اس بات پر توجہ دینا کہ ٹنکی بھر تے ہی موٹر کا سوئچ فوراً آف کر دیا جائے اور پانی بہتانہ رہے۔ اسی طرح کوئی ٹونٹی واشر خراب ہونے یا چوڑیاں مر جانے کی بنا پر ٹپک رہی ہو تو اس کو جلد سے جلد تبدیل کر نے کا اہتمام کرنا۔
(3) نیا مکان تعمیر کراتے وقت اس طرح کا صحن رکھنا کہ بارش کا پانی بہہ کر ضائع نہ ہو بلکہ زائد سے زائد پانی زمین میں جذب ہو جائے۔ مکان کی چھت کو ڈھال دار رکھ کر بارش کے پانی کو زمین کے نیچے پہنچانے کا اہتمام کرنا۔
(4) غذاؤں کو خوش رنگ بنانے اور ہولی ونو روز جیسے تیوہار منانے کے لیے کیمیاوی رنگوں کے استعمال کے بجائے قدرتی رنگوں کا استعمال کر نا مثلاً غذاؤں کو رنگین بنانے کے لیے ہلدی، رتن جوت، زعفران یالاکھ ڈائی (Lac dye) جیسے رنگین مادوں کا استعمال اور ہولی کھیلنے کے لیے ٹیسو کے پھول کا محلول استعمال کرنا۔
(5) جسمانی آرائش وزیبائش کے لیے نیل پالش،لپ اسٹک، ہیئرڈائی،فیشیل شمیو جیسی چیزوں کے استعمال سے گریز کرنا۔ آنولہ، ہلدی ایلوا،شکاکائی، بیسن، لیمو، عرقِ گلاب، شہد،پپیتا،کھیرا،ٹماٹر، سرسوں کی کھلی وغیرہ کا زائد سے زائد استعمال کرنا۔ نیم کے پھولوں سے تیار کیا گیا کا جل آنکھوں کی زیبائش کے ساتھ امراض چشم میں بھی مفید ہوتا ہے۔
(6) جس قدر ممکن ہوا یندھن کے طور پر پتھر کے کوئلے، مٹی کے تیل اور گوبر کے اپلوں کو استعمال میں نہ لایا جائے کیونکہ ان سے خارج ہونے والا دھواں ماحول کو بیحد پراگندہ کرتا ہے۔اگر گو بر کی خاصی مقدار دستیاب ہے تو اس کو انسانی فضلہ کے ساتھ ملا کر بایوگیس (Biogas)بنا کر روشنی پیدا کرنے اور کھانا پکا نے میں استعمال کیا جائے۔سرکار کی جانب سے کم قیمت پر بایوگیس پلانٹ مہیا کرائے جاتے ہیں۔ ایندھن کی بچت کے لیے کوشش کی جائے کہ شمسی توانائی (Solar energy) سے بجلی بنا کر اس کو استعمال میں لایا جائے۔
(7) بجلی کی بچت کے لیے نئی طرز کے ایل ای ڈی (LED) بلبوں کو زیادہ سے زیادہ استعمال میں لایا جائے۔ 
(8) مچھروں اوردیگر کیڑے مکوڑوں کو بھگا نے یا مارنے کے لٹے زہر یلے کیمیاوی محلول کی جگہ نیم کی پتیوں اور نمکولیوں کے جوس کو پانی میں ملا کر چھڑکاؤ کیا جائے۔
(9) لیپ ٹاپ، موبائل فون اور ٹی وی جیسے الکٹرانک آلات کا استعمال کم سے کم اور انتہائی ضرورت کے وقت ہی کیا جائے کیو نکہ اُن آلات سے نکلنے والی برقی مقنا طیسی لہریں (electro magnetic rays) دماغ، آنکھ اور اعضائے رئیسہ کے لیے انتہائی مضر ہوتی ہیں۔
(10) پلا سٹک کے کیری بیگ، کپ،پلیٹ، گلاس وغیرہ کے استعمال سے انتہائی گریز کیا جائے۔ان کی تیاری میں جو کیمیکل مادّے استعمال ہوتے ہیں وہ ان اشیا کے ساتھ تھوڑے بہت لگے رہ جاتے ہیں اور اُن میں رکھی گئی اشیائے خوردنی میں شامل ہو کر ہمارے جسمانی نظام کو بیحد متاثر کر تے ہیں۔
(11) اگر گھر میں تھو ڑی سی بھی کچی زمین دستیاب ہے تو نیم کا درخت لگانے کا اہتمام کیا جائے ورنہ گملوں میں ایلوا، تلسی،جرام کش،پودینہ، سدا بہار یا دیگر دوائی پودوں کو اگانے کا اہتمام کیا جائے۔ ان کی دوائی افادیت سے واقفیت حاصل کر کے بوقت ضرورت استعمال میں لائیں۔ ایو پیتھک دوائیں صرف ناگزیر (Emergency) حالات میں ہی استعمال کی جائیں۔
(12) قصبات اور دیہات کے مکانات عموماً بڑے ہوتے ہیں اور اُن میں صحن بھی خاصے بڑے ہوتے ہیں۔ ایسے مکانات میں بکری، مرغی،بطخ پالنے کا اہتمام کیا جائے تاکہ ضرورت کے وقت تازہ دودھ اور صاف ستھرا گوشت اور انڈا دستیاب ہو سکے۔
(13) صحن کا کچھ حصہ کچّا ہو تو اس میں دوتیں گڑھے کھود لیے جائیں۔ کسی ایک گڑھے میں روزمرّہ اکٹھا ہوئے جانوروں کے فضلات، استعمال شدہ چائے کی پتی، سبزیوں کے چھلکے اور پتے وغیرہ ڈالے جائیں اور اوپر سے تھوڑی مٹی ڈالی جائے۔ ایک گڑھا بھر جانے کے بعد یہی عمل دوسرے گڑھے میں کیا جائے۔ چھ ماہ بعد پہلے گڑھے میں تیار ہو چکی کھاد کو گملوں اور کیا ریوں میں استعمال کیا جائے۔
(14) تیوہا ر اور شادی بیاہ کے موقعوں پر آتش بازی اور پٹاخوں وغیرہ کے استعمال سے بچا جائے۔ یہ ہوا کو بے حد پراگندہ کرتے ہیں اور صوتی آلودگی کا بھی سبب بنتے ہیں۔ آتش بازی کے سازو سامان کبھی کبھارآگ لگنے کا ذریعہ بھی بن جاتے ہیں۔
(15) پہننے، اوڑھنے اوربچھانے کے لیے سوتی کپڑوں کو ہی زیادہ سے زیادہ استعمال میں لایا جائے۔ کھادی کے استعمال کو فروغ دیا جائے۔
(16) ایک دو کلو میٹر فاصلہ طے کر نے کے لیے پیدل چلنا ہی بہتر ہے۔ جو لوگ پیدل چلنے کے عادی ہوتے ہیں وہ بڑھاپے میں بھی صحت مند رہتے ہیں۔ اسکوٹر اور موٹر کی سواری کم فاصلوں کے لیے استعمال نہ کی جائے۔ ایندھن کا استعمال کم ہوگا تو فضائی آلودگی بھی کم ہوگی۔
ہم کو یقین ہے کہ اگر مندر جہ بالا باتوں کو احسن طریقے سے گھر یلو عورتوں کو سمجھایا جائے اور وہ ان پر خود عمل کرنے کے ساتھ اپنی اولادوں کو بھی اپنے نقشِ قدم پر چلنے کی ترغیب دیتی رہیں تو اُن کے ذریعے ماحول کی پراگندی کو بڑی حد تک کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔

Dr. Shamim Ahmad Siddiqui, 
C-2, Naseem Manzil, Madh Ganj, Police Chowki
Seetapur Road, Lucknow - 226020 (UP)

ماہنامہ اردو دنیا، ستمبر2016





قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں