11/4/19

بلراج کومل اور رسالہ ’شاہراہ‘ مضمون نگار: نوشاد منظر



بلراج کومل اور رسالہ ’شاہراہ‘
نوشاد منظر

رسالہ’ شاہراہ‘ کا پہلا شمارہ جنوری، فروری1949 میں منظرعام پر آیا۔ اس وقت تک ترقی پسند تحریک کا زور مدھم پڑگیا تھا مگر شاہراہ نے اپنے ابتدائی شمارے سے ہی ترقی پسند نظریات کو فروغ دینا شروع کردیا۔شاہراہ کے ابتدائی شماروں پر’ترقی پسندوں کا دو ماہی ترجمان‘ درج ہوتا تھا، جس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ رسالہ شاہراہ کا اصل مقصد ترقی پسند نظریات کی ترویج و اشاعت تھا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ’شاہراہ‘ میں جن تخلیق کاروں کی تحریریں شائع ہوا کرتی تھیں، کچھ عرصے بعد ان میں سے بعض لوگوں کی شناخت جدید ادیب و ناقد کی بن گئی۔ ’شاہراہ‘ نے یوں تو تمام مکتب فکر کے لکھنے والوں کے لیے ایک موقع فراہم کیا مگر کچھ شعرا بعد کے دنوں میں جس طرح سامنے آئے اسے روایتی طور پر ترقی پسند نہیں کہا جاسکتا ہے، اس لحاظ سے بھی ’شاہراہ‘ کو ایک امتیاز حاصل ہے کہ اس نے اپنا بنیادی ترقی پسندانہ مزاج قائم رکھتے ہوئے نظریاتی سطح پر ایک ایسی فضا قائم رکھی جو بعد میں جدیدیت کے طور پر خود کو پیش کرنے والوں کے لیے تربیت گاہ ثابت ہوئی۔ ’شاہراہ‘ میں شائع ہونے والے ایسے شعرا میں ایک اہم نام بلراج کومل کا ہے۔
میری اس تحریر کا مقصد اس حقیقت کو سمجھنا ہے کہ بلراج کومل جن کا تعلق جدیدیت سے تھا انھوں نے ترقی پسند تحریک کے کتنے اثرات قبول کیے،یہ سوال اس لیے اہم ہے کیونکہ بلراج کومل کی نظمیں ابتدائی دنوں میں شاہراہ جیسے ترقی پسند رسالے میں کثرت سے شائع ہوئیں۔ بلراج کومل کی 16 نظمیں رسالہ شاہراہ میں شائع ہوئیں جن میں’بیداری تک‘، ’راستے پر‘، ’سوچتے سوچتے‘، ’کونپلیں‘، ’درمیانہ طبقہ‘،’ تیسری جنگ‘،’کھنڈر اور پھول‘، ’معصومیت کے نام‘،’یہ لوگ‘ اور’یہ زرد بچے‘وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
نظم’ کونپلیں ‘کی اشاعت رسالہ شاہراہ کے مارچ اپریل 1950 کے شمارے میں ہوئی۔ ہیئت کے لحاظ سے یہ آزاد نظم ہے۔ نظم کا ابتدائی حصہ ملاحظہ کریں:
چشم اظہار ہیں/مسکراتے ہوئے سبز میدان ہیں
جن میں ننھے گھروندے چمکتی ہوئی دھوپ میں ہنس رہے ہیں،
آنگنوں میں شگوفوں کی مانند کھلتے ہوئے،
نرم معصوم بچے،/تالیاں پیٹتے ہیں،
کھیل میں منہمک ہیں
حسن کے لہلہاتے ہوئے قہقہوں کی چٹک
ناز برسارہی ہے،
دور کھیتوں میں دھیمی، شگفتہ ہوائیں سرکنے لگی ہیں
نظم کے مطالعے سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ متکلم کسی نئی چیز کے آغاز کی طرف اشارہ کررہا ہے۔ ’چشم اظہار‘کا ٹکڑا ایک خاص سماجی صورت حال کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ جیساکہ میں نے اوپر عرض کیا کہ اس نظم کی اشاعت 1950 میں ہوئی تھی، یہ وہی وقت ہے جب ترقی پسند ادبی تحریک کا زور مدھم پڑنا شروع ہوگیا تھا۔ نظم کا مطالعہ اس پس منظر میں کیا جاسکتا ہے۔ ظاہر ہے مسکراتے ہوئے سبز میدان ننھے گھروندے دھوپ میں چمک رہے ہیں اور معصوم بچے تالیاں بجارہے ہیں۔ گھروندے اور بچے کا آپس میں ایک گہرا تعلق ہے۔ چھوٹے معصوم بچے مٹی سے گھروندے بناکر کھیلتے ہیں۔ اب دیکھیے کہ گھروندے کی اہمیت کیا ہے، مٹی کا بنا ہوا یہ چھوٹا سا مکان بچوں کا ایک کھیل ہے۔ نئی شاعری میں لفظ ’ گھروندے‘ کو بچوں کے کھیل سے زیادہ بے ثباتی کے طور پر دیکھا گیا ہے۔ متکلم کا اشارہ ان ادیبوں ودانشوروں کی طرف بھی ہوسکتا ہے جو معصوم بچے تو ہرگز نہیں تھے لیکن جب ان لوگوں نے ادب میں ایک نئے رجحان کو فروغ دینے کی کوشش کی توعام طور پرلوگوں نے اسے بچوں کے گھروندے کی طرح ایک کھیل کے طور پر دیکھا اور کوئی خاص توجہ نہیں دی۔نظم کا ایک ٹکڑا ملاحظہ کیجیے:
چند دہقاں
دھیمے دھیمے کوئی گیت گاتے ہوئے
اپنے بیلوں کی طرار سی جوڑیاں ہانکتے
دھیرے دھیرے چلے جارہے ہیں،
اور آکاش کی نیلگوں خامشی میں بڑے ناز سے
کچھ پرندے قطاروں میں اڑتے ہوئے،
جانے کس کھوج میں جارہے ہیں۔۔۔،
شاعری میں دہقان، کسان اور بیل وغیرہ ایک خاص فکر کی طرف اشارہ کرتے ہیں مگر چند دہقان دھیمے دھیمے کوئی گیت گاتے کہاں جارہے ہیں؟ اور یہ گیت کیا ہے؟خوشی کا گیت یا غم کا؟ اور پرندے قطار بند کس چیز کی تلاش میں سر گرداں ہیں؟کیا متکلم نے تقسیم کے بعد رونما ہونے والی صورت کی طرف اشارہ کرنا چاہا ہے؟اور پرندوں کی قطار سے کیا مراد ہے؟یہ وہ مہاجر بھی ہوسکتے ہیں جو ہجرت پر مجبور ہوئے۔متکلم کا اشارہ ادب میں آرہی تبدیلی کی طرف بھی ہوسکتا ہے۔پرندوں کا کسی شے کی تلاش میں اڑنا دراصل ان دانشوروں کی طرف اشارہ بھی ہوسکتا ہے جو ترقی پسند تحریک کی شدت پسندی سے ناراض ہوکر نئے رجحان کی طرف مائل ہوئے۔ نظم کا آخری ٹکڑا ملاحظہ کریں جس سے میری بات کو تقویت ملتی ہے:
ہائے ہم ان مناظر کو ایک اجنبی آنکھ سے،
کس لیے گھورتے ہیں،/جب کہ تخلیق کی کونپلیں
پھوٹ نکلی ہیں دھرتی سے ہنستی ہوئی
اور اٹھتے ہوئے وقت کے ساز سے
نغمگی کی پھوار یں برسنے لگی ہیں!!!
’کونپلیں‘ کی تعبیر ہر قاری اپنے طور پر کرسکتا ہے،لیکن تخلیق کی کونپلیں بنیادی طور پر ایک ایسے معاشرے کی جانب اشارہ ہے جس کے تخلیقی سوتے خشک نہیں ہوتے۔علی سردار جعفری نے اپنی ایک اہم نظم ’ میرا سفر‘میں ’ کونپلیں‘ کا لفظ اسی سیاق میں استعمال کیا ہے:
لیکن میں یہاں پھر آؤں گا/بچوں کے دہن سے بولوں گا
چڑیوں کی زباں سے گاؤں گا/جب بیج ہنسیں گے دھرتی میں
اور کونپلیں اپنی انگلی سے/مٹی کی تہوں کو چھیڑیں گی
میں پتی پتی، کلی کلی/اپنی آنکھیں پھر کھولوں گا
بلراج کومل کے یہاں تخلیق کی کونپلیں پھوٹ چکی ہیں اور لوگ اسے حیرت و استعجاب سے دیکھ رہے ہیں۔ متکلم کا اصرار ہے کہ نئے رجحان کو حیرت سے دیکھنے کے بجائے اس کا استقبال کیا جانا چاہیے کیونکہ تخلیق کی کونپلیں نکل چکی ہیں۔ علی سردار جعفری کے یہاں ’ کونپلیں‘مستقبل سے وابستہ ہے۔ دونوں نظموں میں حال اور مستقبل کا خوب صورت امتزاج نظر آتا ہے۔
بلراج کومل کی نظم ’معصومیت کے نام‘ دسمبر 1950 میں شائع ہوئی، مگر نظم کے اختتام پر 1946 درج ہے۔ ممکن ہے کہ نظم 1946 میں لکھی گئی ہو اور 1950 میں شائع ہوئی ہو۔ نظم ’معصومیت کے نام‘میں متکلم خوبصورت زندگی کا خواب دیکھتا ہے۔ اسے اپنے ارد گرد بس خوشیاں نظر آتی ہیں دور دور تک غم کا شائبہ تک نہیں۔ وہ آنے والے دن کے لیے پر امید نظر آتا ہے۔مگر خواب پایۂ تکمیل تک پہنچنے کے بعدبکھرتا نظر آتا ہے۔ دراصل نظم میں اس خواب کی طر ف اشارہ کیا گیا ہے جو مجاہدین وطن نے بھی دیکھا تھامگر آزادی کے بعد خواب کی تعبیر تقسیم لے کر آئی:
وہ شب مجھے یا دہے کہ جب میں نے خواب دیکھا تھا روشنی کا 
وہ کیسی دنیا تھی جس میں کرنیں تھیں الفتوں کی،چہار سو گیت ناچتے تھے،
حسین مکھڑوں پہ مسکراہٹ سجی ہوئی تھی 
کہ جیسے ہستی غموں کے سایوں سے دور اک وادیِ نگاریں میں آگئی ہو،
وہ پھول بھی یاد ہیں مجھے جو ہوا کے جھونکوں میں جھومتے تھے،
فضا میں مستی رچی ہوئی تھی 
گگن سے موتی برس رہے تھے 
زمین دلہن بنی ہوئی تھی 
(نظم’معصومیت کے نام‘:بلراج کومل۔دسمبر 1950)
یہ وہی خواب ہے جس کے بارے میں فیض احمد فیض نے کہا تھا:
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
بلراج کومل کے یہاں بھی اسی خواب کی طرف اشارہ ملتا ہے جو مجاہدین آزادی اور محبان وطن نے دیکھا تھا،یعنی آزادی، مساوات اور خوشحالی وغیرہ۔مگر نظم جیسے جیسے آگے بڑھتی ہے خواب بکھرتا نظر آتا ہے۔خواب دیکھنے والا خواب کی دنیا سے نکل کر حقیقت کی دنیا میں آتا ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ دنیا میں کس قدر بے چینی اور خوں ریزی ہے۔ متکلم حالات سے حوصلہ شکن ضرور ہے مگر نظم اس مصرعے پر ختم ہوتی ہے :
تمھاری خاطر مرا تخیل جواں رہے گا !!!
اگست 1950کے شمارے میں ’’تیسری جنگ‘‘ کے عنوان سے بلراج کومل کی نظم شائع ہوئی تھی۔نظم کا پہلا حصہ جنگ سے پیدا ہونے والی صورت حال کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ چند مصرعے ملاحظہ کریں:
سہمے سہمے حزیں دھندلکے میں
کون اس وقت چیخ اٹھا ہے
دور تک گونجتی ہے تنہائی
کس مصیبت نے لی ہے انگڑائی
عجیب بپھری ہوئی سی آوازیں
ایکا ایکی کہاں سے ابھری ہیں
ہر گھڑی شور بڑھتا جاتا ہے
بحرتشویش چڑھتا جاتا ہے
اس نظم کی اشاعت 1950 میں ہوئی مگر اس کا پس منظر تقسیم ہند ہے اور متکلم نے اسی مناسبت سے اس کا عنوان تیسری جنگ رکھا ہے، پہلی دوجنگ عظیم دو مختلف ملکوں اور قوموں کے درمیان ہوئی تھی اور اس کی نوعیت مختلف تھی مگر تقسیم ہند ایک پردردسانحہ تھا۔اس بند میں متکلم نے اس سانحے کو مصیبت سے تشبیہ دی ہے۔ متکلم اس صورت حال سے بہت خوفزدہ ہے۔ تقسیم ہند کے بعد جو سب سے بڑا مسئلہ لوگوں کو درپیش تھا وہ شناخت کا مسئلہ تھا لہٰذا متکلم کہتا ہے کہ دور دور تک صرف تنہائیاں ہی تنہائیاں ہیں:
ٹھہرو، تھم جاؤ، غور سے دیکھو
دور تک چیختی فضاؤں میں
ہڈیاں، لاشیں، ان گنت روحیں
تیرتی ہیں بھنور کی صورت میں
اور پھیلاؤ، پتلیاں اپنی
عین ممکن ہے دیکھ پاؤ تم
صورتیں اپنے ان عزیزوں کی
جن کی ہستی بھنور نے ہتیالی
تقسیم ہند کے بعدرونما ہوئے فساد کی خوفناک تصویر بلراج کومل نے اس شدت کے ساتھ بیان کی ہے کہ سارا منظر آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔ اس فساد میں ہزاروں جانیں گئیں، بچے یتیم ہوگئے، عورتیں بیوہ ہوگئیں اور چاروں طرف خون کی ندیاں بہتی نظر آنے لگیں اور یہ سارے واقعات مذہب کے نام پر پیش آئے تھے۔ ہندو مسلم صدیوں سے آپس میں اتحاد وامن کے ساتھ زندگی گزار رہے تھے، مگر ان کو سیاست نے ایک دوسرے کا دشمن بنادیا تھا، بلراج کومل نے اپنی اس نظم میں اس طرف بھی اشارہ کیا ہے۔چند مصرعے دیکھیے:
دیکھو پہچانو، ان بہاروں کو
جن کی گودی میں کھیل کھیلے تھے
تم نے الفت کی لہلہاہٹ کے
گرم ہونٹوں کی کپکپاہٹ کے
دیکھو پہچانواس تقسیم کو
چوم لیتے تھے جس کو شفقت سے
جس کو جھولا جھلایا کرتے تھے
میٹھی باتیں سنایا کرتے تھے
متکلم عوام کو رشتوں کے تقدس کی یاد دلاتا ہے، متکلم کا اشارہ تقسیم ہند سے قبل کے ماحول کی طرف ہے جب مذہبی تفریق کے بغیر لوگ ساتھ رہتے تھے۔متکلم ماضی کے اتحاد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ان مسکراہٹوں کو یاد کرو جسے دیکھ کر تم ان بچوں کو چوم لیتے تھے اور بناکسی تفریق کے بچوں کو جھولا جھلایا کرتے تھے۔ دراصل نظم کے اس حصے میں متکلم عوام کو محبت کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ نظم کے اگلے حصے میں متکلم اپنی زمین سے محبت کی طرف اشارہ کرتا ہے:
دیکھو، پہچانوں، مامتا اپنی
جس کی یادیں بھی ٹھنڈی ٹھنڈی ہیں
جس کی چھاؤں میں نیند آتی تھی
اور کتنا سکون پاتی تھی/دیکھو پہچانو، سبز کھیتوں کو
جن میں اُگتی تھی مست شادابی
لہلہاتے تھے خواب جھونکوں میں
رقص کرتی تھیں ہر برس روحیں
دیکھو پہچانو، ان ہواؤں کو
جن کی دھڑکن سے گیت رِستے تھے
کتنے پیغام لایا کرتی تھیں
پیار کے گیت گایا کرتی تھیں
نظم کے اس حصے میں متکلم ان لوگوں کو مخاطب کرتا ہے جو تقسیم ہند کے بعد ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔ متکلم کہتا ہے دیکھو سبز کھیتوں کی شادابی، ہواؤں کے جھونکوں کو جو محبت کے نغمے گنگناتے تھے اور مامتا کی ان ٹھنڈی چھاؤں کو جو ہمیشہ سکون بخشتی تھے، ان کو چھوڑ کر کہیں مت جاؤ۔ان ہی باتوں کی طرف اشارہ مولانا ابو الکلام آزاد نے جامع مسجد کی اپنی ایک تاریخی تقریر میں بھی کیا تھاکہ اپنے آباو اجداد کی سرزمین چھوڑ کر مت جاؤ۔بلراج کومل کی نظم میں بھی اسی خیال کا اظہار کیا گیا ہے۔ بلراج کومل کی مذکورہ نظم کے پہلے حصے میں متکلم مجموعی طور پر اتحاد کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے محبت اور اخوت پر زور دیتا ہے مگر نظم کا دوسرا حصہ تقسیم ہند کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کی طرف اشارہ کرتا ہے:
دیکھو اب ہم تڑپ کے لپکیں گے
پھاند جائیں گے موت کا دریا
قہر بن کر فلک سے ٹوٹیں گے
موت کے خالقوں سے پوچھیں گے
کس طرح لپلپاتے شعلوں میں، 
جسم کا گوشت بھونا جاتا ہے؟
تڑتڑاہٹ کو خوف آتا ہے!
ہڈیاں کیسے پیسی جاتی ہیں؟
ہچکیاں کیسے موت بنتی ہیں؟
کس طرح شہر راکھ ہوتے ہیں؟
بھوک کیسے جو ان ہوتی ہے؟
کس طرح کھیت روندے جاتے ہیں؟
انقلابات کیسے آتے ہیں؟
میرے پیارے اس اشک شوئی سے
کس نے راہِ نجات پائی ہے؟
ہم ہی ظلمات کو نچوڑیں گے!
دست سفاک کو مروڑیں گے
بلراج کومل کی نظم تیسری جنگ کا دوسرا حصہ ترقی پسندی کی اس شدت پسند روایت میں ایک اضافہ ہے جس میں امیروں کے خون سے ہولی کھیلنے کی بات کہی گئی تھی۔ بلراج کومل نے اپنی نظم میں ان امیروں اور سرمایہ دار طبقوں کو ہدف ملامت تو نہیں بنایا مگر انھوں نے ان سیاستدانوں کی ذہنیت پر تنقید کی ہے جن کی وجہ سے ایک ملک کے دو ٹکڑے ہوگئے۔ نظم کا متکلم ان تمام واقعات سے دل برداشتہ ہے مگر حالات سے نبردآزما ہونے کے لیے پوری طرح تیار ہے۔ وہ عوام کے دلوں میں نفرت پھیلانے والوں کے لیے شعلہ بھڑکا رہا ہے، لہٰذا وہ عوام کو جنگ کرنے کی تلقین کرتے ہوئے کہتا ہے دیکھو اب ہم ظلم پر قہربن کر ٹوٹیں گے اور لاوا بن کر زمین سے پھوٹیں گے، یہاں تک کہ اگر موت بھی ہمارا مقدر بنی تو ہم پیچھے ہٹنے والوں میں سے نہیں۔ دراصل متکلم ان موت کے سوداگروں کو اس خوف کا احساس دلانا چاہتا ہے جو خود اس نے پیدا کیا ہے، لہٰذا وہ دیکھو ہڈیوں کے ٹوٹنے اور جسم کے جلنے پر کیسی تکلیف ہوتی ہے، کس طرح آدمی تڑپ تڑپ کر مرجاتا ہے، بھوک کی تکلیف کیا ہوتی ہے۔نظم کا اختتام امید پر ہوتا ہے کہ ظلمت بھری راتیں اور ظالم سب کا خاتمہ جلد ہوگا۔ تقریباً تمام ترقی پسند نظم کا اختتام اسی کیفیت کے ساتھ ہوتا ہے۔
’شاہراہ‘ کے جون 1950 کے شمارے میں بلراج کومل کی نظم ’سوچتے سوچتے!‘ شائع ہوئی تھی۔ نظم کے عنوان سے بڑی حد تک موضوع کو سمجھا جاسکتا ہے۔ نظم کا متکلم ایک ایسا شخص ہے جو ماضی کے دریچوں سے اپنی زندگی کی بازیافت میں مصروف ہے۔مگر نظم ’سوچتے سوچتے!‘ کے متکلم کا انداز خود کلامی کا ہے:
کتنی ویراں ہیں رات کی آنکھیں
سہمی سہمی خموش پلکوں میں
بہتی گھڑیوں کی یاد آئی ہے
مردہ غم نے حیات پائی ہے
گزرے ہوئے پل کو متکلم مردہ غم کے حیات پانے سے تشبیہ دیتا ہے۔ کتنی ویراں ہیں رات کی آنکھیں، ایک تو ویرانی اور اس پر رات کی ویرانی۔گویا رات کی اس ویرانی کو دیکھ کر ماضی کی یاد کچھ اس طرح تازہ ہوگئی جیسے کسی مردہ جسم میں زندگی آجائے ٹھیک اسی طرح ماضی کی یاد نے میرے زخم کو ہرا کردیا ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے یہ زخم ابھی ہی لگے ہوں۔نظم کا ایک بند دیکھیے:
پیڑ رہ رہ کے کپکپاتے ہیں
اور تنکوں کی نرم شفقت میں
ننھے ننھے پرندے سوتے ہیں
ایسے لمحے عجیب ہوتے ہیں
اس بند میں ’پیڑ‘ کے کپکپانے کا ذکر ہے۔ یہ پیڑ ہی اس بند کی جان ہے، یہ پیڑ کسی تہذیب کسی روایت اور کسی تحریک کا استعارہ بھی ہوسکتاہے، مگر یہاں یہ پیڑ دراصل ایک عظیم تحریک کے خاتمے اور نئے رجحان کے آغاز کی طرف اشارہ کررہا ہے، شاعر نے خوبصورتی کے ساتھ ان دونوں تحریک کے باہمی رشتے کو پیش کیا ہے، وہ ترقی پسند تحریک کی خامیوں اور خوبیوں کا ذکر کرنے کے بجائے اس تحریک کے مقاصد کو ایک پیڑ سے تشبیہ دیتا ہے۔ ایک بند اور دیکھیے:
ایک دریچے کے پاس دو آنکھیں
اپنی پلکوں میں آئینے تھامے
پہروں سنسان راہ تکتی ہیں
تنہا تنہا خموش جلتی ہیں
اس نظم میں متکلم اپنی شناخت میں سرگرداں نظر آتا ہے، شاعر کی ذہنی کشمکش بھی ہمیں نظر آتی ہے، وہ اپنی بیتی ہوئی زندگی پر ماتم کرتا ہے، وہ خود کو تنہا اور اکیلا بھی محسوس کرتا ہے،یہی وہ تنہائی ہے جو اسے اپنی شناخت کے کھو جانے کا احساس دلاتی ہے۔
بلراج کومل کی ایک نظم ’’ یہ لوگ‘‘ بھی شاہراہ میں شائع ہوئی تھی۔ ان کا خیال ہے کہ ترقی پسند تحریک نے اپنی ذمے داری پوری کرلی ہے اور اب اس کی جگہ نئی تحریک اور رجحان کی ضرورت ہے۔مگر کچھ لوگ ابھی بھی اس سچائی کو قبول کرنا نہیں چاہتے۔نظم کا ایک بند دیکھیے:
محفل کی تمازت میں بڑے ناز سے بیٹھے
یہ لوگ کسی زلف کو سلجھاتے رہے تھے
اک میں بھی تھا خاموش پریشان وہاں پر
ہر لمحہ مری نظروں نے محفل کو ٹٹولا
شاید کہیں مل جائے کوئی ننھا شرارہ
اک نقطہ جہاں رکتی ہے مقصد کی نگاہ
یہ لوگ، مرے دوست مسرت کے بھکاری
باتوں کے سوا ان میں کوئی بات نہیں تھی۔
بلراج کومل کی مذکورہ نظم ’ یہ لوگ‘ کے مطالعے سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بلراج کومل ترقی پسندوں سے کس قدر بیزار ہوگئے تھے۔ان کا خیال تھا کہ ترقی پسندوں کے پاس اب کوئی ادبی نقطہ نہیں بلکہ ان کے پاس محض باتیں ہیں جن پرسب خوش ہوتے رہتے ہیں۔ ایک بند اور ملاحظہ کریں:
چپ چاپ مرے اٹھ کے چلے آنے پہ دل نے
احساس کے کانوں میں دھڑک کر یہ کہاتھا
یہ لوگ پریشانیِ تسکین کے مارے
ناکام تمناؤں کے تنکوں کو سنبھالے
خوابوں کے سمندر میں بھٹکتے ہیں مسلسل
گو تم بھی ہو ان میں سے مگر ان سے جدا ہو
گر آتے ہو ہر روز انھیں ملنے کی خاطر
یوں آؤ کہ محفل کو کوئی نقطہ سجھادو
تسکینِ دل و جاں کے نئے ڈھنگ سکھادو
بلراج کومل کا خیال ہے کہ ترقی پسند تحریک کی جگہ نئی تحریک یا رجحان کو فروغ دیا جانا چاہیے،یہ وہی دور ہے جب جدیدیت اپنے لیے نئی راہ تلاش کر رہی تھی۔بلراج کومل اور ان کے ہم خیال ادیبوں کی تخلیقات نے جدیدیت کے لیے راہیں ہموار کیں۔نظم ’’ یہ لوگ‘‘ کے مطالعے سے بھی اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
بلراج کومل کی ایک نظم ’کھنڈر اور پھول‘ بھی شاہراہ کی زینت بنی۔ یہ ایک آزاد نظم ہے اور اس کا موضوع ماضی اور حال کی کشمکش ہے۔ اس زمانے کی بہت سی نظمیں ایسی ہیں جن کو ترقی پسند تحریک اور جدیدیت کے درمیان کی ایک کڑی کہا جاسکتا ہے۔ ان نظموں میں نہ تواجتماعیت نظر آتی ہے اور نہ ہی انفرادیت بلکہ ان کے مطالعے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کسی تناور درخت کی شاخ کے پیلے اور سوکھے پتوں کی جگہ نئی پتیاں نکل رہی ہوں، جس نے اس تناور درخت میں ایک نئی جان ڈال دی ہے۔ نظم ’’کھنڈر اور پھول‘‘ دد حصوں میں منقسم ہے، پہلے حصے میں متکلم اس بات کا اعلان کردیتا ہے کہ مکان جل چکا اب صرف کھنڈر اور بجھی ہوئی راکھ کی سسکیاں ہیں۔ نظم دیکھیے:
مکاں جل چکا ہے
کھنڈر ہے سیاہی ہے، بجھتی ہوئی راکھ کی سسکیاں ہیں
مری آنکھ پر نم ہے
چپ چاپ گم صم کھڑا ہوں یہاں میں
مرے آنسوؤں میں تصاویر ہیں
ماضی وحال کی/وقت کی منزلوں کی
مرے ذہن میں داستاں ہے
زمانے کے بننے بگڑنے کی
تعمیر وتخریب کی دھڑکنوں کی
مرے کان میں گونجتی ہیں وہ نرم اور شیریں صدائیں
جنھیں آگ نے اس مکاں کے کھنڈر میں فنا کردیا ہے
محبت کی تقدیس
معصوم شمعوں کے اشکوں کی گرمی
دھوئیں کی تڑپتی ہوئی دھاریاں
ان کا پیغام بن کر/فضاؤں میں شاید بھٹکنے لگی ہیں
یہ نظم ’کھنڈر اور پھول‘ کا پہلا حصہ ہے۔ مذکورہ نظم پوری طرح اس زمانے کی سماجی بلکہ سیاسی صورت حال کو پیش کرتی ہے۔ 1947 کے فسادکو بلراج کومل نے یقیناًاپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اوراسے محسوس بھی کیا ہوگا، انھوں نے اسی درد اور تکلیف کواپنی مذکورہ نظم میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ متکلم گم صم کھڑا اپنی آنکھوں سے مکان کو جلتے بلکہ کھنڈر بنتے ہوئے دیکھ رہا ہے۔ متکلم غمگین، آنکھوں میں آنسو لیے اپنی بربادی کا منظر دیکھ رہا ہے اور اس کے ذہن میں ہزاروں قسم کے سوالات ہیں جن کے جواب کا وہ متمنی ہے۔ اس کے کانوں میں اس معصوم بچوں کی صدا گونج رہی ہے۔ان تمام باتوں کے باوجود متکلم ناامید نہیں ہے، اسے امید ہے کہ حالات سازگار ہوں گے:
مری آنکھ پر نم ہے/پھر بھی میں خوش ہوں
مرے پاس خوابوں کی معصوم ٹھنڈک
ارادوں کے روشن ستاروں کی نرمی
ہواؤں میں بہتی ہوئی نغمگی ہے
میں یادوں کے ملبے پہ تخلیق کا پھول لے کر کھڑا ہوں
اس میں شک نہیں کہ ابتدا میں بلراج کومل ترقی پسند ادبی تحریک سے متاثر تھے ان نظموں کے مطالعے سے ایک ترقی پسندنظم گو کے طور پر وہ ہمارے سامنے آتے ہیں۔ آج ہم جس شاعر بلراج کومل کو جانتے ہیں ان کی بنیادی شناخت جدیدیت کی ہے لیکن بلراج کومل کے شعری سفر کے مطالعے میں ان کے ابتدائی رنگ سخن کو بھی دیکھنا ضروری ہے۔ اس میں شک نہیں کہ انھوں نے اپنی شاعری کے ذریعے جدیدیت کو فروغ دینے اور اس کی جڑوں کو مستحکم کرنے کی کوشش کی۔ جہاں تک رسالہ ’شاہراہ‘ کا تعلق ہے تو یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اس رسالے نے ترقی پسند فکر کو ازسرنو فروغ دینے کی کوشش کی، مگر اس بات سے بھی چشم پوشی نہیں کی جاسکتی کہ ’شاہراہ‘ نے نئے رجحانات کو فروغ دینے والی تخلیقات کو بھی اہتمام کے ساتھ شائع کیا، یہی وجہ ہے کہ ’شاہراہ‘ میں ایسے بہت سے تخلیق کاروں کی تخلیقات شائع ہوئیں جو بعدمیں جدیدیت کے علمبردار ہوئے۔ان میں ایک اہم نام بلراج کومل کا بھی ہے۔

Naushad Manzar, 
Research Scholar, 
Jamia Millia Islamia, New Delhi - 110025

ماہنامہ اردو دنیا، ستمبر2016





قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں