10/4/19

کَنَّڑا اور اردو کا ادبی رشتہ مضمون نگار: اقبال النساء


کَنَّڑا اور اردو کا ادبی رشتہ
اقبال النساء

کنڑا اور اردو ریاستِ کرناٹک کی دو بڑی زبانیں ہیں۔ کنڑا کوئی ڈیڑھ ہزار سال سے اس خطے کی صوبائی زبان ہے۔ اس صوبے میں اردو کا عمل دخل کوئی سات سو برس پہلے شروع ہوا جس کا سرا علاء الدین خلجی کے سپہ سالار ملک کافور کی دکن کی فتوحات 1311 سے ملایا جاسکتا ہے۔ دکن میں بہمنی حکمت کے قیام کے بعد اس کے باقاعدہ پھلنے پھولنے کے امکانات بڑھے، بہمنی اور عادل شاہی سلاطین کے کوئی پانچ سو سالہ دورِ حکومت میں اردو اپنی ترقی کی معراج پر پہنچ گئی۔ اس کے بعد 1686 میں دکن کی اسلامی حکومتوں کا خاتمہ ہونے تک دونوں زبانوں میں لسانی سطح پرلین دین جاری رہا۔ چونکہ اردو ایک آریائی زبان ہے اور کنڑا دراویڈی، اس لیے دونوں میں لسانی اشتراک نہ ہونے کے باعث لین دین صرفی سطح پر زیادہ اور نحوی سطح پر بہت کم ہوا۔ اس وقت تک حکومت کے انتظامی، مالگذاری اور عدالتی امور میں فارسی کے اثر سے کئی ایسی اصطلاحات اور الفاظ کنڑا میں شامل ہوگئے جو اردو کے ذخیرۂ الفاظ میں مشترک تھے۔ فارسی کا عمل دخل ختم ہوجانے کے بعد بھی کنڑا میں یہ ذخیر ہ برقرار رہ گیا اور اب اس زبان کا اٹوٹ حصہ بن چکا ہے۔ اس کے کچھ عرصے بعد 1751 سے 1799 تک حیدر علی اور ٹیپو سلطان کی حکومت کا ایک مختصر دور آیا۔ فارسی اس حکومت کی بھی دفتری زبان تھی۔ چنانچہ عادل شاہی دو رکے لسانی اثرات اس عہد میں مستحکم ہوگئے۔ یہ سارا عمل انتظامی اور عوامی سطح پر ہوتا رہالیکن دونوں زبانوں میں باضابطہ ادبی لین دین کے آثار بیسویں صدی کے ربع اوّل سے پہلے ظہور نہیں پاسکے۔
دو پڑوسی زبانوں کا کوئی پانچ صدیوں تک ادبی اجنبیت کے ساتھ بسر کرنا حیرت انگیز سا معلوم ہوتا ہے لیکن یہ جزیرہ بسری کرناٹک کے ادب کی ایک حقیقت ہے۔ اس کی ایک بدیہی وجہ کم ازکم کرناٹک میں دونوں زبانوں کا عقائد اساس ہونا بھی ہے۔ میں اس کی تاریخی وجوہات کا تجزیہ کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھوں گی۔ اس وقت میرے پیش نظر وہ عرصہ ہے جس میں دونوں زبانوں میں ادبی رشتہ قائم ہوا، دونو ں کے درمیان ادبی لین دین کا باب کھلا اور جس کی صحت مند روایت خاصی توانا ہوچلی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ کنڑا میں جدید دور کا آغاز تمام تر مغربی اثرات کا زائیدہ ہے اور وہ 1920 کے بعد ظاہر ہونے شروع ہوئے۔ اردو میں ولی سے آج تک ادبی روایت کا تسلسل باقی ہے۔ لیکن کنڑا میں بیسویں صدی کے تیسرے دہے سے جو ادب پیدا ہوا، اس میں قدیم ادبی روایت سے استفادے اور تسلسل کا سراغ نہیں ملتا۔ مغرب کے ادبی اسالیب و افکار کی وجہ سے اس ادب پر قدیم ادب کا کوئی اثر نہیں دکھائی دیتا جس میں دھرم، عقیدے اور بھگتی کو بنیادی اہمیت حاصل تھی۔ کنڑا کا جدید ادب اپنی سرشت میں انسان اساس ہوگیا ہے۔ اردو کی ادبی روایت پہلے ہی سے انسان اساس رہی ہے اور مغربی اثرات نے اس رویے کو مزید مستحکم کرنے میں مدد دی۔ دونوں زبانوں کے اس نودریافت مشترک عنصر نے باہمی اخذ و اشتراک اور لین دین کے کھلے امکانات پیدا کردیے۔ لیکن صدیوں کی اجنبیت راتوں رات یگانگت میں تبدیل نہیں ہوسکتی تھی۔ اس جنبیت کو ختم کرنے کرنے لیے کہیں تو پہل ہونی تھی۔ کنڑا ادب پر پہلی دستک دینے میں پہل نامور افسانہ نگار ممتاز شیریں نے کی۔ انھوں نے بیسوی صدی کی چوتھی دہائی میں کنڑا کے اولین افسانہ نگار سرینواس کے دو افسانوں کا اردو ترجمہ ’وہ عورت‘ اور ’دہی والی‘ کے نام سے شائع کیا۔ یہ کرناٹک میں اردو برادری کے لیے کنڑا ادب کا پہلا تعارف تھا۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کے بعد کچھ عرصے تک کسی نے کنڑا ادب کو اردو میں منتقل کرنے کی طرف خاص توجہ نہیں دی۔ دوسری کو شش بنگلور میں قائم ایک ادبی ادارے مجلسِ ادب کی طرف سے ہوئی جس کے اراکین میں محمود ایاز، سید منظور احمد، مظہر امید، مجیب احمد اور محمود سعید شامل تھے۔ انھوں نے اردو اور جنوبی ہند کی زبانوں کے ادب پر 1958 میں ’جنوبی ہند کا بہترین ادب‘ کے نام سے ایک کتاب شائع کی جس میں جنوب کی اہم زبانوں کنڑا، تامل، ملیالم اور تلگو کے نمائندہ افسانوں اور نظموں کے تراجم شائع کیے۔ اس انتخاب میں کنڑا کے مشہور افسانہ نگار نرنجن کے ایک مضمون کا ترجمہ محمود شریف نے ’کنڑا ادب کے تین دور‘ کے نام شامل کیا جس سے پہلی بار کنڑا کی ادبی تاریخ سے ابتدائی شناسائی ہوئی۔
اس کے بعد عرصۂ دراز تک اکا دُکا انفرادی کوششیں ہوتی رہیں جن سے کنڑا ادب کا کوئی قابل ذکر اثر مرتب نہیں ہوسکا۔ 1994 میں اردو اکادمی کی صدارت کے دوران محمود ایاز، خلیل مامون اور عزیز اللہ بیگ کی مشترکہ کوششوں کے نتیجے میں اردو اور کنڑا ادب کو قریب لانے کے لیے ایک یادگار تین روزہ ورکشاپ کاانعقاد کیا گیا جس میں ریاست کے اردو اور کنڑا ادیبوں کو پہلی بار بڑے پیمانے پر ایک دوسرے سے ملنے، تبادلۂ خیال کرنے اور ایک دوسرے کے اشتراک سے باہمی ترجمے کرنے کا وقیع کام انجام دیا گیا۔ اس کے نتیجے میں اردو میں کنڑا ادب اور کنڑا میں اردو ساہتیہ کے نام سے دو ضخیم مجموعے شائع ہوئے جن میں اردو اور کنڑ کے بہترین افسانوں اور نظموں کو اردو اور کنڑا میں منتقل کیا گیا تھا۔ ان کتابوں کے ذریعے عہد حاضر میں اردو اور کنڑا کے فکشن اور شاعری سے بالراست واقفیت کا موقع نکل آیا اور دونوں زبانوں کے ادیب و شاعر ایک دوسرے سے متعارف بھی ہوئے اور قریب بھی آئے۔ کنڑا میںآج بھی اردو ساہتیہ ایک حوالے کی کتاب تسلیم کی جاتی ہے۔
انفرادی کوششیں جاری رہیں جن میں ساہتیہ اکادمی کے انعام یافتہ مترجم ماہر منصور کا نام قابل ذکر ہے۔ انھوں نے 1960 سے ہی کنڑا ادب کے نمائندہ کارناموں کو اردو میں منتقل کرنا شروع کردیا تھا۔ کنڑا اور اردو کے درمیان باہمی تفہیم و تحسین کے سلسلے میں ماہر منصور کی خدمات بڑی وقعت رکھتی ہیں۔ انھوں نے 2008 میں کنڑا کی سب سے اہم ادبی وراثت یعنی وچنوں کا پہلا مجموعہ ’شرنوں کے منتخب وچن‘ کے نام سے شائع کیا۔ ابھی حال ہی میں انھوں نے بسوا کمیٹی کی ایما پر دستیاب اکیس ہزار وچنوں میں سے ڈھائی ہزار وچنوں کا ردو ترجمہ شائع کیا جو واقعی ایک عظیم کارنامہ ہے۔ اس ضخیم کتاب کی اشاعت میں حکومت کی مکمل سرپرستی حاصل ہے۔ بارہ سو صفحات کے اس ضخیم انتخاب میں بسوا، الّما پربھو، اکا مہادیوی، چنا بسونّا سمیت ایک سو تہتر وچن نگاروں کے وچن شامل ہیں۔ بسوا سمیتی کے صدر وچنی ادب کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’’اس عظیم دھرتی کو تباہی سے بچانے کے مقصد سے شَرَن (یعنی روحانی رہنما) روئے زمین پر تشریف لائے۔ انھوں نے آفاق گیر اصولوں کو اپنا کر اپنے زریں فرمودات تحریری صورت میں پیش کیے جنھیں کنڑا زبان کا نور کہا جاتا ہے۔‘‘ وچن ذات پات، اونچ نیچ، حصولِ دولت اور اسی طرح کی منفی اقدار کے ترک کی تعلیم دیتے ہیں اور ایک خالقِ کائنات سے محبت اور روحانی ترفع کی ترغیب دیتے ہیں۔ کنڑا معاشرے میں وچن صدیوں سے عوام و خواص کی روزمرہ زندگی کا ناگزیر حصہ ہیں اور ان کی زندگیوں میں ذہنی کشادگی، اخلاق اور رواداری کے ضامن بن گئے ہیں۔ اس صنف اور اس کے اثرات سے واقفیت کنڑا اور اردو کے درمیان احساسِ یگانگت کو فروغ دینے کا بہت بڑا وسیلہ ثابت ہوسکتی ہے۔
ماہر منصور نے کنڑا ناولوں، افسانوں، ڈراموں اور نظموں کے تراجم بھی وافر مقدار میں کیے ہیں۔ انھوں نے دلت زندگی پر مبنی ویونور مہادیوا کے ناولچے و ڈالا لاکا ترجمہ ’مٹھی میں بندریت‘ کے نام سے کیا ہے۔ کنڑا ادب کی دیوقامت شخصیت بی وی کارنت کے شہرہ آفاق ناول چومنا دُڈی کا ترجمہ ’چوما کا ڈھول‘ اردو اکادمی نے شائع کیا ہے۔ گیان پیٹھ ایوارڈ یافتہ ادیب چندر شیکھر کمبار کے ڈرامے ’سری سمپگے‘ کا ترجمہ اسی عنوان سے کیا جس پر انھیں ترجمے کے لیے ساہتیہ اکادمی کا انعام ملا ہے۔ کنڑا کے ادیبوں پر ان کے مضامین اور انٹرویو بھی برابر شائع ہوتے رہتے ہیں۔ انھوں نے ایک اور گیان پیٹھ ایوارڈ یافتہ شاعر دارابیندرے پر جنھوں نے کنڑا شاعری کو ایک نیا موڑ دیا،ایک تعارفی مضمون اور ایک تفصیلی انٹرویو چندر شیکھر کمبار کا بھی شائع کیا ہے۔ وہ ایسی خدمات میں آج بھی سرگرمی سے مصروف ہیں۔
ممتاز شاعر حمیدالماس بھی زمانے تک کنڑا کے شہ پاروں کو اردو میں منتقل کرنے میں مصروف رہے۔ بسوا کے 108 وچنوں کا پہلا ترجمہ انھیں نے ’1975 میں ’فرمودات‘ کے نام سے کیا تھا۔ دو سال بعد ان کی دوسری کتاب شب گرد شائع ہوئی جس میں کنڑا شاعری کے مختصر جائزے کے ساتھ پینتالیس نظموں کا ترجمہ ہے۔ 1986 میں کنڑا ادب اور کلچر کے بارے میں ایک تعارفی کتاب ’سرِ دہلیز‘ شائع کی۔ حمید الماس نے ساہتیہ اکادمی کے لیے کنڑا کے دو مشہور ادیبوں پنجے منگیش راؤ اور بسویشور کے مونوگراف کا بھی ترجمہ کیا۔ 1997 میں کنڑا کے بانی افسانہ نگار ماستی کے افسانوں کا ایک مجموعہ ماستی کی کہانیاں کے نام سے ساہتیہ اکادمی سے شائع کیا۔ حمید الماس نے کنڑا اور اردو کو قریب لانے میں ناقابل فراموش خدمات انجام دیں۔
ان کے علاوہ بھی کنڑا سے اردو میں ترجموں کا کام کئی گوشوں سے برابر ہورہا ہے۔ ایم بی غنی اکمل آلدوری نے2000 میں ’سروگنیہ کے سووچن‘ کے عنوان سے سروگنیہ کے وچنوں کا منظوم اردو ترجمہ شائع کیا۔ اس کے فوراً بعد انھوں نے عہدِ حاضر کے ممتاز کنڑا شاعر اور دانشور سدیاپُرانک کے وچنوں کا بھی ترجمہ ’صداقوالِ سدیاپرانک‘ کے نام سے شائع کیا۔ان کتابوں پر انھیں مٹھوں نے اعزازات سے بھی نوازا اور انعامات بھی عطا کیے۔ مشہور شاعر ڈی وی گنڈپّا کے وچنوں کا ترجمہ بھی انھوں نے ’شہد کی بوندیں‘ کے نام سے کیا ہے۔ کرناٹک کے مشہور شاعر شادباگلکوٹی نے اکّا مہادیوی کے وچنوں کا ’وچنانجلی‘ کے عنوان سے ترجمہ کیا۔ ساغر کرناٹکی نے کنک داس کے کیرتنوں یعنی نظموں کا ’بے تاب لمحے‘ کے نام سے ترجمہ کیا۔ یہ دونوں ترجمے کرناٹک اردو اکادمی سے شائع ہوئے ہیں۔ محمد شہاب الدین روشن نے ایس ایل بھیرپّا کا ناول ومشاور کشا شجرۂ نسب کے نام سے اردو میں منتقل کیا ہے۔ م ن سعید نے گریش کارناڈ کے ڈرامے ’ٹیپو سلطان کے خواب‘ کا اردو ترجمہ شائع کردیا ہے اور کچھ افسانے بھی ترجمہ کیے ہیں۔ نیشنل بک ٹرسٹ نے ماستی کے ناول ’چک ویر راجندرا‘ ، میر جی انا رائے کے ناول ’درد کے رشتے‘ اور شانتی ناتھ دیسائی کے ناول’ مکتی‘ کے اردو ترجمے شائع کیے ہیں۔ ساہتیہ اکادمی کے سلسلے عصری ہندوستانی کہانیاں میں بھی کنڑا کے افسانوں کے ترجمے شائع ہوئے ہیں۔ پروفیسر میر محمود حسین نے ساہتیہ اکادمی کی ایما پر آر ایس موگلی کی مختصر کتاب کنڑا ادب کی تاریخ کا اردو ترجمہ کیا تھا۔ یہ کتاب دستیاب ہے اور جامعیت کے ساتھ کنڑا ادب کی تاریخ سے روشناس کراتی ہے۔ لیکن جیساکہ ادبی تاریخوں کے ساتھ ہوتا ہے، اس میں گذشتہ پچاس سال کے عرصے میں ہونے والے ادبی رجحانات اور ترقیوں کا احوال شامل نہیں ہے۔ اس عرصے میں کنڑا ادب نے قدم نہیں بڑھائے بلکہ اڑانیں بھر لی ہیں۔ اس وقت ہندوستانی زبانوں میں سب سے زیادہ یعنی آٹھ بار گیان پیٹھ ایوارڈ حاصل کرنے والی زبان کنڑا ہے۔
اوپر مذکور ادیبوں کے علاوہ ساجد حمید، پروفیسر عبدالمجید خاں، انور داغ، ابوتراب خطائی ضامن وغیرہ کنڑا ادب کی نگارشات کو وقتاً فوقتاً اردو میں پیش کرتے رہتے ہیں جن سے کنڑا ادب اور اس کے رجحانات کا علم ہوتا رہتا ہے۔ اس جائزہ سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ کرناٹک کے ادیب و شاعر صوبائی زبان کنڑا کے ادب کی تحسین شناسی اور اس کی تفہیم واشاعت میں کس قدر سرگرم ہیں۔
اردو اور کنڑا کے لین دین کا دوسرا پہلوکنڑا میں اردو ادب سے شناسائی کا ہے۔ اس سلسلے میں بھی کافی پیش رفت ہوئی ہے۔ عارفانہ اور فلسفیانہ رباعیوں کے خالق راگھویندر راؤ جذب عالمپوری نے اس سمت پہلی بار توجہ کی۔ ان کی مادری زبان کنڑا تھی لیکن ان کی تعلیم اردو میں ہوئی تھی۔ حمید الماس لکھتے ہیں کہ ’’سب سے پہلے انھوں نے ہی کنڑا میں اردو زبان اور ادب کی تاریخ اردو ساہتیہ چرتر کے نام سے لکھی۔ یہ کتاب میسور یونیورسٹی کے شعبۂ کنڑا سے شائع ہوئی تھی۔ اسی کتاب کے توسط سے پہلی بار میر، غالب، حالی، اقبال اور پریم چند سے واقف ہوئے۔ نرسنگ راؤمانوی کرنے اقبال اور غالب کی چند نظموں اور غزلوں کا ترجمہ کنڑا میں کیا تھا اور یہ تراجم کنڑا ساہتیہ پریشد سے شائع ہوئے ہیں۔‘‘ یہ کام بہت پہلے بیسویں صدی کی پانچویں دہائی میں ہوا تھا۔ یہ دونوں کتابیں اب ناپید ہیں۔
اردو اکادمی کی طرف سے منعقدہ سہ روزہ ورکشاپ اور اس میں تیار کی گئی کتاب اردو ساہتیہ کا ذکر کیا جاچکا ہے۔ ساہتیہ اکادمی نے محمد حسن کی کتاب نظیر اکبرآبادی کا کنڑا ترجمہ شائع کیا ہے۔ پروفیسر محمد صبغت اللہ نے محمدحسن کے ہی مشہور ڈرامے ’ضحاک‘ کو کنڑا میں منتقل کیا ہے۔ امراؤ جان ادا کا ترجمہ بھی شانتارسا نے کیا تھا جو نیشنل بک ٹرسٹ سے چھپ چکاہے لیکن اب دستیاب نہیں۔ ڈاکٹر عصمت النساء نے جاوید اقبال کی کتاب ’زندہ رود‘ کا ترجمہ ایک ضخیم کتاب کی صورت میں شائع کیا ہے جو اہل کنڑا کے لیے علامہ اقبال کے حالات اور کلام کا بہت اچھا تعارف ہے۔ پروفیسر شاہ مدار عقیل نے امجد حیدر آبادی کی سو رباعیوں کا خوب صورت ترجمہ کنڑا میں پیش کیا ہے۔ پروفیسر عبدالمجید خاں نے ابراہیم عادل شاہ ثانی کی کتاب کتاب نورس مرتبہ ڈاکٹر نذیر احمد کوکنڑا میں منتقل کیا ہے۔ نعیم سرکوڈا نے منٹو کے افسانوں کا ایک مجموعہ کنڑا میں چھاپا ہے۔
کنڑا میں دو ایک دہوں پہلے غزل پر طبع آزمائی شروع ہوئی۔ غزلیں لکھی جارہی ہیں لیکن چونکہ اس صنف کے بارے میں کنڑا میں تشفی بخش معلومات دستیاب نہیں ہیں، اس لیے کنڑا غزل اپنا کوئی خاص مقام بنا نہیں سکی ہے بلکہ وہ غزل کے لوازمات سے بھی بے بہرہ ہے۔ اہل کنڑا کو اس صنف میں غضب کی دلچسپی ہے۔ اگر انھیں اس سمت میں مناسب رہنمائی فراہم کی گئی تو کنڑا میں نہ صرف غزل کی مقبولیت کے تمام امکانات ہیں بلکہ اسی وسیلے سے اردو غزل سے بھی ان کی دلچسپی بہت بڑھ سکتی ہے۔ کنڑا میں اس و قت ایسے ادبا اور شعرا کی تعداد خاصی ہے جن کی مادری زبان اردو ہے۔ وہ اردو تحریر و تقریر پر قابل ذکر قدرت نہیں رکھتے لیکن کنڑا ادب کے ممتاز لکھنے والے شمار ہوتے ہیں۔ ان کے تعاون سے کنڑا میں اردو ادب کے مناسب تعارف کا کام کیا جاسکتا ہے۔
اس جائزے سے اندازہ ہوگا کہ اردو کے شعر و ادب کا نمائندہ حصہ ابھی تک کنڑا میں متعارف نہیں کیا جاسکا ہے۔ کنڑا کا ادبی حلقہ اردو کے انگریزی تراجم سے کسی حد تک واقف ہے اور اردو ادب کی قدر و قیمت پہنچانتا ہے الیکن ان کی اپنی زبان میں اردو ادب کا تعارف افسوس ناک حد تک تشنہ ہے۔ اس کی وجہ سے دونوں زبانوں کے درمیان ایک انجانی سی خلیج ابھی باقی ہے جس کی وجہ سے اردو اور کنڑا کے درمیان شکوک و شبہات اور غلط فہمیاں پیدا ہوتی رہتی ہیں۔ کنڑا میں اردو ادب کی سچی اور بڑے پیمانے پر اشاعت اور وقفے وقفے سے دونوں زبانوں کے شاعروں اور ادیبوں کے درمیان مکالمہ اس خلیج کو پاٹنے کے لیے ناگزیر ہے اور اس سمت سنجیدگی سے توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔

Dr. Iqbalunnisa, 
Dept., of Studies in Urdu
Social Science Block
Gnana Bharti, Bangalore University
Bangalore - 560056 (Karnataka)

ماہنامہ اردو دنیا، اگست2016




قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں