10/4/19

دورِجاہلی کا روشن خیال قصیدہ گو شاعر زُہیر بن ابی سلمیٰ مضمون نگار: یوسف رامپوری



دورِجاہلی کا روشن خیال قصیدہ گو شاعر

زہیر بن ابی سلمی

یوسف رامپوری

دورِجاہلی میں عربی شاعری کو جو عروج وکمال حاصل ہوا، وہ کسی اور دور میں نہیں ہوسکا۔ بعد کے ادوار کے شعراتو مختلف النوع وسائل کی دستیابی کے باوجود اُس دور کے شعرا سے آگے نہ بڑھ سکے۔ مہلہل بن ربیعہ، الشنفری، المرقش الاکبر، تابط شرّا، علقمہ الفحل جیسے شعرا نے عربی شاعری کے میدان کو وسعت بخشی۔ اصحاب المعلقات میں امرؤ القیس، نابغہ الذبیانی، طرفہ بن العبد، عمرو بن کلثوم، حارث بن حلّزہ، لبید بن ربیعہ اور عنترہ بن شداد العبسی کے قصائد نے عوام وخواص سب پر اپنی سحرانگیزی کا سکہ کچھ یوں جمایا کہ انھیں روئے زمین پر سب سے مقدس مقام خانہ کعبہ میں آویزاں ہونے کا شرف حاصل ہوگیا۔ ان کے علاوہ اصحاب المجمہرات، اصحاب المنتقیات اور صعالیک شعرانے بھی شاعری کے میدان میں خوب جوہر دکھائے لیکن اِن تمام شعرا کے کلام پر جاہلی مزاج ورنگ غالب رہا، اس لیے نہ صرف مستشرقینِ یورپ بلکہ خود بہت سے عرب ناقدین نے بھی موضوعات ومضامین کے اعتبار سے دورِ جاہلی کی عرب شاعری کے محدودہونے کی شکایت کی۔ امداد امام اثر نے تو یہاں تک لکھ دیا کہ ’’شعرائے عرب کے خیالات ایک تنگ دائرے کے اندر واقع نظر آتے ہیں۔‘‘1 لیکن امداد امام اثر کا یہ قول زہیر بن ابی سلمی کے کلام پر ہر گز صادق نہیں آتا۔کیونکہ اس کی شاعری وسیع النظری اور روشن خیالی سے عبارت تھی۔ وہ ایک ایساجاہلی شاعر تھا جس نے اپنی شاعری میں نہ صرف دورِجاہلی کی نمائندگی کی بلکہ عربی شاعری کونت نئے مضامین اورخیالات سے بھی مالامال کردیا۔
زہیربن ابی سلمیٰ کا شماراصحاب المعلقات میں ہونے کے ساتھ امرؤ القیس اور نابغہ الذبیانی کے ساتھ طبقۂ اولی میں بھی ہوتا ہے۔یعنی دور جاہلی کے وہ تین شاعر جن کوشاعری میں سب سے اونچامقام حاصل ہوا، ان میں سے ایک زہیر بن ابی سلمیٰ ہے۔بعض ادبا ومحققین نے زہیر کو سب سے بڑا عرب شاعر قرار دیاہے ۔جیساکہ احنف بن قیس نے شاعروں میں سب سے بڑا شاعر زہیر کوبتایاہے ۔جاہلی عرب شعرامیں زہیر کے ممتاز ومنفرد ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ موضوعات کا جو تنوع زہیر کے یہاں ملتا ہے ، کسی اور کے یہاں نظر نہیں آتا۔یہاں تک کہ عرب کے شہرۂ آفاق شاعرامرؤ القیس کے یہاں بھی موضوعات کی وسعت کا فقدان ہے بلکہ اس کی شاعری چند موضوعات ومحدودخیالات کے گرد چکر کاٹتی ہوئی دکھائی دیتی ہے مگر زہیر بن ابی سلمیٰ کی شاعری میں موضوعات اورمختلف مضامین کی کثرت ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس کے ایسے اشعارخاصی تعداد میں موجود ہیں جو پندرہ سوسال قبل کے نہیں ،بیسویں اور اکیسویں صدی کے نظر آتے ہیں۔کیوں کہ ان میں بھرپور روشن خیالی،انسانیت اورامن پسندی موجود ہے۔
زہیر کا پورا نام زہیر بن ابی سلمیٰ ربیعہ بن ریاح المزنی ہے۔اس کا خاندان غطفان کے علاقے میں آباد تھا جہاں قتل وغارت گری کا بازار گرم رہتا تھا،قبیلہ عبس اور ذبیان کے درمیان طویل مدت سے جاری خونیں معرکہ آرائی میں بہت سے لوگ ہلاک ہوچکے تھے۔ دوسری طرف یہ علاقہ شعروشاعری سے آبادتھا، خاص طورسے زہیرکا خاندان شعروادب کا گہوارہ بنا ہوا تھا۔اس کے والد،خالو،بہنیں اور دونوں بیٹے کعب اور بُحیر مشہور شاعر تھے۔علاقے اور خاندان میں شاعری کے عام رواج اور ماحول کی وجہ سے زہیر کو بھی شاعری سے بہت کم عمر ہی میں دلچسپی ہوگئی تھی۔وہ اکثر اپنے خالو بشامہ بن الغدیر کی صحبت میں رہتا تھا جو اپنے زمانے کے بڑے فلسفی ، شاعر، امیر،دانا اور دانشور خیال کیے جاتے تھے۔احمد حسن زیات نے بشامہ بن الغدیر کو زہیرکے باپ کا ماموں بتاتے ہوئے زہیر پراس کی شخصیت کے اثرات کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے :
’’زہیر ...نے اپنے باپ کے رشتہ داروں (بنوغطفان) میں تربیت پائی اور ایک زمانہ تک بشامہ بن غدیر اپنے باپ کے ماموں کی صحبت میں رہا جو صاحب فراش مریض تھا۔اس کے کوئی اولاد نہ تھی، وہ نہایت دانشمند شخص تھا۔اصابتِ رائے،بلندپایہ شاعری اور کثرت مال کی وجہ سے وہ ناموری حاصل کرچکاتھا، چنانچہ زہیر نے شاعری میں اس کی خوشہ چینی کی، اس کے علم وحکمت سے متاثر ہوا جس کا بین ثبوت اس کی شاعری کے وہ جواہر حکمت بہم پہونچاتے ہیں جن سے اس نے اپنی شاعری کو مرصع کیا۔‘‘2
زہیر نے اپنے سوتیلے باپ اوس بن حجر سے بھی استفادہ کیا۔وہ بھی اپنے زمانے کا بلند پایہ شاعرتھا۔گویا کہ گھریلو ماحول نے زہیر بن ابی سلمیٰ کی شاعرانہ صلاحیت کو نکھارا، زہیر خود بھی ذہین وبُردبارتھا،لیکن اپنی خداداد ذہانت اورخاندانی ماحول کے باوجودوہ اچھے اشعار کہنے کے لیے زبردست محنت کرتا تھا۔وہ اشعار کہہ کر ان پر نظرثانی کرتا،اصلاح وترمیم اور کاٹ چھانٹ کرتا، جب اشعار بہتر سے بہترین ہوجاتے تو وہ ان کو لوگوں کے سامنے سناتا۔بقول احمد حسن زیات’’وہ ایک قصیدہ چار مہینے میں نظم کرتا،پھر چار مہینے تک اسے کاٹ چھانٹ کردرست کرتارہتا،اس کے بعد چار مہینے تک اساتذۂ فن کے سامنے اسے پیش کرتااور عوام میں ایک برس سے قبل اسے پیش نہیں کرتا تھا۔‘‘3 اس طرح اس کے اشعار فنی خامیوں ، غرابتِ الفاظ ، تعقیدِلفظی و معنوی اور غلطیوں سے پاک ہوجاتے۔
زہیر بن ابی سلمیٰ کی شاعری کا چرچا اسی وقت سے پھیلنا شروع ہوگیا تھا جب سے اس نے شاعری کے میدان میں قدم رکھا ،پھرجیسے جیسے وقت آگے بڑھتا رہا، اس کی شاعری کی مقبولیت زینے چڑھتی گئی ۔زہیربن ابی سلمیٰ نے بہت سے قصائد لکھے لیکن وہ اپنے قصائد میں جھوٹی یا مبالغہ آرائی پر مبنی مدح کا قائل نہ تھا ۔وہ تعریف میں وہی کہا کرتا جو ممدوح میں موجود ہوتا۔جس خصوصیت وخوبی کا ممدوح حامل نہ ہوتا ، زہیر ہر گز اس کا ذکر نہ کرتا تھا۔شاعرکے فرض منصبی کے بارے میں حالی کی مندرجہ ذیل رائے زہیر کے مدحیہ کلام پر صدفی صدصادق آتی ہے:
’’شاعر کا یہ فرض ہونا چاہیے کہ اچھوں کی خوبیوں کو چمکائے ،ان کے ہنروفضائل عالم میں روشن کرے اور ان کے اخلاق کی خوشبوؤں سے موجودہ اور آئندہ دونوں نسلوں کے دماغ کو معطرکرنے کا سامان مہیا کرجائے۔‘‘4
زہیر نے اپنے مدحیہ قصائد میں سب سے زیادہ مدح ہرم بن سنان اور الحارث بن عوف کی کی ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان دونوں کی کوششوں سے عبس اور ذبیان کے قبائل کے درمیان چالیس سال سے جاری لڑائی کا خاتمہ ہوگیا۔عبس اور ذبیان کے قبیلوں کے درمیان یہ جنگ اتنی شدید تھی کہ دونوں جانب سے بہت سے لوگ مارے جاچکے تھے اور یہ سلسلہ دن بہ دن شدت اختیار کرتا جارہا تھا۔اس مارکاٹ اور قتل وغارت گری کو روکنے کے لیے ہرم بن سنان اور الحارث بن عوف نے صلح کی مخلصانہ جدوجہد کی اور مقتولین کے خون بہا کے طورپر اپنے پاس سے تین ہزار اونٹ دیے جس کے باعث لڑائی بند ہوگئی۔ زہیر بن ابی سلمیٰ فطرتاً نیک وبااخلاق اور صلح پسند شخص تھا، وہ ان دونوں کی پُر امن کوششوں سے متاثر ہوا اور ان کی شان میں اپنا مشہور میمیہ قصیدہ کہا۔ اس کے علاوہ زہیر نے وقتاً فوقتاً ان کے لیے اور بھی مدحیہ اشعار کہے۔ ہرم بن سنان کو بھی زہیر سے بڑی محبت تھی اور وہ اس کے فن کانہ صرف مداح تھابلکہ اس کو خوب نوازتابھی تھا۔اس نے قسم کھائی تھی کہ جب زہیر اس کی تعریف یا سوال کرے گایا اس کو سلام کرے گا یا دعادے گا، تو وہ اس کو ایک غلام،لونڈی یا گھوڑا ضرور بخشے گا۔ہرم بن سنان نے زہیر کو اتنا دیا کہ زہیر کو خود شرم آنے لگی اور وہ اس کی مدح یا سلام سے پرہیز کرنے لگا۔زہیر نے ہرم بن سنان اور الحارث بن عوف کے لیے جو مدحیہ اشعار کہے ان میں سے چند یہ ہیں: 
’’میں اس گھر کی قسم کھاتاہوں جس کے گرد لوگ طواف کرتے ہیں جس کوقریش اور جرہم کے لوگوں نے تعمیر کیا۔ میں قسم کھاکر کہتا ہوں کہ تم دونوں اچھے سردار ثابت ہوئے، خداتم کو ہر حال میں نرمی اور ضعف ، سختی اور قوت میں عزت کے ساتھ رکھے۔تم دونوں نے قبیلہ عبس اور ذبیان کی خبرگیری اور ان کا تدارک کیا بعد اس کے کہ وہ باہم متصادم ہوکر فنا ہوگئے تھے اور انھوں نے اخیر دم تک لڑنے کا فیصلہ کیا تھا اور تم دونوں نے ( سوچاتھاکہ) اگر ہم مال دے کر اور اچھی بات کہہ کر صلح کرائیں گے تو ہم لوگ صحیح سلامت رہیں گے اور بچ جائیں گے۔‘‘5
ان اشعار میں زہیر نے مدح ضرور کی ہے لیکن اس میں نہ کذب گوئی سے کام لیا اور نہ مبالغہ آرائی سے بلکہ حقیقتِ واقعہ کو گویا بے کم وکاست بیان کردیا ہے۔زہیر بن ابی سُلمیٰ کے قصائد کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں ان لوگوں کی تعریف کی گئی ہے جو صلح پسند ،سنجیدہ اور انسانی اقدار کے حاملین تھے۔ جب کہ دورجاہلی کے دوسرے شعراحریف قبائل کے افراد کوقتل کرنے پر اور جنگوں میں اپنی شمولیت پر فخر کرتے نظر آتے ہیں ،یہاں تک کہ اپنے قصائد میں معرکہ وجدال ،شراب ومستی اور آوارگی کی باتیں بھی خوب چٹخارے لے لے کر بیان کرتے ہیں ۔ امرؤالقیس کے یہاں تو معاملہ بندی اس حد تک ملتی ہے کہ وہ ابتذال اور پورنوگرافی کے دائرے میں داخل ہوجاتی ہے۔ زہیر بن ابی سلمی جاہلی شعرا کے برعکس قتل وغارت گری اور لوٹ مارکو پسند نہ کرتا ،اپنی بہادری کے گُن نہ گاتا اور نہ ہی اپنے قبیلے وخاندان کے ایسے کارناموں کا ذکر کرتا ۔ اس کے نزدیک صلح جوئی ایسی بہادری سے زیادہ بہتر تھی جو تباہی وہلاکت کا باعث بنتی ہو، اس لیے وہ عبس اور ذبیان کے مابین مصالحت پر بہت خوش ہوا اور اس کے بعد آئندہ کے لیے بھی اس بات کا آرزومند نظر آیا کہ وہ دونوں قبائل پھر کبھی باہم دست وگریباں نہ ہوں۔چنانچہ کہتا ہے :
ألااَبلغ الاَ خلافَ عنی رسالۃً
وَذبیان ہل اَقْسَمْتُم کل مقسم
فَلَا تَکْتُمُنَّ اللّٰہ ما فی نُفُوسِکُمْ
لِےَخفی ومَہما ےُکْتم اللّہ ےَعْلم6
’’اے مخاطب تو اس بات کو سن کہ میری حانب سے بنی اسد بن خزیمہ ، بنی غطفان اور ذبیان کو یہ پیغام پہنچادے کہ تم نے رضامندی پر سخت اور مکمل قسم کھائی ہے۔ لہٰذا اب وعدہ خلافی نہ کرنا، جب تم نے قسمیں کھالی ہیں تو خدا سے ہرگز مت چھپانا جو کچھ تمھارے دلوں میں ہے وہ کب اس پر چھپارہے گا اور جو کچھ تم خدا سے چھپانا چاہوگے وہ اس کو جان لے گا۔گویا کہ شاعر کہہ رہا ہے کہ قسمیں کھانے اور عہد کرنے کے بعد کبھی ان کو توڑنے کا خیال بھی ذہن ودل میں نہ لانا۔‘‘
زہیر بن ابی سلمی کا ایسے دورمیں امن پسند ہونا یقیناًحیرت ناک امر ہے جب کہ پورے عرب میں جنگ لوگوں کا شغلِ محبوب بنی ہوئی تھی۔ میدان جنگ میں جو شخص جس قدر بہادری کا مظاہرہ کرتا ، اسی قدر اس کو سراہا جاتااور اس کی عزت کی جاتی۔ شاعر بھی اپنے زمانے کے ماحول سے متاثر ہوکر ایسے اشعار کہتے جن میں وہ اپنے قبائل کی یہاں تک کہ خود اپنی بھی بہادری کا فخریہ اظہار کرتے ۔اس طرح کے اشعار کے توسط سے وہ نہ صرف اپنے قبائل میں منظورِ نظر بن جاتے بلکہ دور دور تک ان کی واہ واہی ہونے لگتی اور ان کے کلام کو پڑھااور سنا جانے لگتامگر زہیر نے اپنی شہرت ومقبولیت کے لیے اِس جاہلی طریقے کو پسند نہ کیا بلکہ اس نے معرکہ آرائی کی مخالفت کی اور میدانِ کارزار میں جوہر دکھانے یا جنگ کی آگ بھڑکانے والوں کے مقابلے میں ایسے لوگوں کی تعریف کی جو جنگ سے بیزاری اختیارکرتے اور صلح وامن کی باتیں کرتے۔قتل وغارت گری کے خلاف اور امن وامان کی تائید میں زہیر کے یہ اشعار ملاحظہ کیجیے:
’’ لڑائی کے خاتمے کے بعد اگر تم لڑائی کو برانگیختہ کروگے تو تم لڑائی کو بری حالت میں اٹھاؤگے۔یعنی تمھیں اس کے باعث تکلیف اٹھانی پڑے گی اور جب تم لڑائی بھڑکاؤگے تو وہ بھڑک اٹھے گی۔پھر وہ لڑائی تم کو اس طرح پیس ڈالے گی جس طرح چکی اپنے نیچے کے چمڑے کی کھال پر دانہ کا آٹا پیستی ہے‘‘7
زہیر بن ابی سلمیٰ کی شاعری میں حکمت وفلسفے کا بیان بھی ملتا ہے ۔ اس نے پوری توجہ کے ساتھ دنیا کی بے ثباتی اور فنا وبقا کی باتیں کی ہیں۔اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس زمانے کے دوسرے شعرانے اس طرح کے موضوعات سے مکمل طورپر بے اعتنائی برتی ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ بعض دوسرے شعراکے یہاں بھی فخرو حماسہ، شراب وشباب اورمدح وتغزل کے ساتھ دوسرے مضامین بھی نظم ہوئے ہیں لیکن جس قدر سنجیدگی ومتانت کے ساتھ روشن خیالی پرمبنی مضامین کو زہیر نے اپنے قصائد کی زینت بنایا ہے ،اس میدان میں دورِجاہلی کا کوئی دوسراشاعر اس کے برابر کھڑا ہوا نظرنہیں آتا۔درجِ ذیل اشعارحکمت ودانشمندی سے پُرہیں :
’’اگر کسی شخص میں کوئی بری عادت ہے اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ لوگوں کو اس کا علم نہیں تو یہ غلط ہے ۔کیوں کہ ایسی عادتیں لاکھ چھپائی جائیں ایک نہ ایک دن کھل کر رہتی ہیں۔اکثر لوگ جب تک چپ رہتے ہیں بڑے بھلے مانس دکھائی دیتے ہیں لیکن ان کی حقیقت کا علم اس وقت ہوتا ہے جب وہ بولتے ہیں۔‘‘8
مندرجہ ذیل شعر میں جو زہیر کے معلقہ کا آخری شعر ہے ، بڑے پتے کی بات کہی گئی ہے :
سألنَا فَاَعْطَےْتُم وَعُدْنا فَعُدتُم
ومن أکثر التَّسال یوما سَےُحْرَمِ
’’جب ہم نے سوال کیا ، تو تم نے دیا، ہم نے پھر مانگا ، تم نے پھر دیا اور جو بہت سوال کرے گا ایک دن وہ جلد محروم اور ناامید کیاجائے گا ۔یعنی بار بار کا سوال انسان کو بے وقعت اور رسوا کردیتا ہے۔‘‘
زہیر نے اپنی شاعری میں زندگی کے گہرے تجربات کو شامل کرکے اسے اور زیادہ وقیع ومفید بنادیا۔جیسے جیسے اس کی عمر بڑھتی گئی اس کی شاعری سنجیدہ اور تجربات ومشاہدات کا مرقع بنتی گئی ۔دراصل زمانے کے نشیب وفراز، لوگوں کے حالات وکوائف پراس کی گہری نظرتھی۔اس کی ایک خوبی یہ تھی کہ وہ زمانے کی سچائیوں سے منہ نہ موڑتا تھا اورمحض خیالات وتصورات میں جینے کا عادی نہ تھا۔موت برحق ہے، وہ اس کو دل سے مانتا ،اس کا خیال تھا کہ بڑھاپے میں انسان کو سنجیدہ وبردبار ہوجانا چاہئے، اسے اعشیٰ کی طرح بڑھاپے میں بھی عیش ومستی پسند نہ تھی۔کیوں کہ بڑھاپے کا وقت تو تکلیف دہ ہوتا ہے۔ ذیل کے اشعار میں وہ بڑھاپے کی زندگی کی سچائی کو اس طرح پیش کرتا ہے :
سَءِمْتُ تَکالیفَ الْحَیاۃِ وَمَن ےَعِیش
ثَمانِین حَولاً لا أبالکَ ےَسْأمِ
وَاَعلَم ما فِی الیومِ وَالأمْسِ قبلَہٗ
وَلٰکِنَّنِی عَن عِلم مَافِی غَدعَمِ9
’’میں زندگی کی تکلیفوں سے اکتا گیا ہوں اور جو میری طرح اسّی برس تک جیے گا، تمھارے باپ کی جان کی قسم وہ ضرور اکتاجائے گا۔میں آج اور کل گذشتہ کے علم سے واقف ہوں مگر جو آئندہ ہوگا اس سے میں غافل اور بے خبر ہوں۔‘‘فنا وبقا کے بارے میں زہیر کہتا ہے :
’’کاش میں جو کچھ دیکھ رہا ہوں ، لوگ بھی دیکھ لیتے اور جس حقیقت کا انکشاف میرے اوپر ہوا ہے، ان کے اوپر بھی ہوجاتا ، میرے اوپر یہ راز منکشف ہوا ہے کہ لوگ اور ان کا مال ومتاع سب ایک دن فنا ہوجائے گا مگر زمانے کوکبھی فنا نہیں ۔اللہ بس باقی سب ہوس۔‘‘10
زہیر نے اپنے قصائد کے ذریعے لوگوں کو غفلت کے دائرے سے باہر نکالنے کی کوشش کی اور انھیں ان کی زندگی کی حقیقت یاد دلائی ۔ اس نے کہا کہ آخر ایک دن انسان کو مرکھپ جانا ہے، کیسے بھی کوئی جتن کرلے ، اس سے بچنے کی کتنی ہی تدابیر اختیار کرلے مگر وہ موت کے چنگلوں سے اپنے آپ کو نہیں بچا سکتا تو پھر چندروزہ زندگی پر اترانا کیا اور اپنی طاقت کے نشے میں مدہوش ہوکر کسی کو ستانے ، کسی پر حملہ آور ہونے یا بے جا عیش وعشرت کے کیا معنی؟ اشعاردیکھیے :
رَأیتُ المَناےَاخَبط عشوآء من تصِب
تُمِتْہُ وَمن تُخطئ یعمَّرفیہرمِ
وَمن ہابَ اسبابَ المَنایاےَنَلْنَہُ
وَاِن ےَرْق اَسبابَ السَّماءِ بِسُلّمِ
میں موتوں کو اندھی اونٹی کی طرح دیکھتا ہوں کہ جس کو وہ پالیتی ہیں اسے ختم کردیتی ہیں اور جس کو نہیں مارتیں وہ جیتا ہے مگر بوڑھا ہوجاتا ہے۔جو شخص موتوں کے راستے سے ڈرتا ہے ، وہ ان کو ضرور پکڑلیں گی چاہے وہ آسمان کے کناروں پر سیڑھی لگاکر چڑھ جائے۔11
ایسے ہی اشعار کے سبب کہا جاتا ہے کہ زہیر کی شاعری فضول باتوں سے پاک ہے۔کلام میں نامانوس اور بھدے الفاظ بھی زہیر استعمال نہیں کرتا۔تعقیدِ لفظی اور معنوی سے وہ اپنے قصائد کو دور رکھتا ہے۔ معانی ومفاہیم کی وضاحت کے لیے وہ منتخب اور معیاری الفاظ لاتا ہے۔اس کی شاعری کی ان خصوصیات کی وجہ سے خلیفۂ ثانی حضرت عمربن الخطاب اس کی شاعری کو پسند کرتے اور دوسرے شعرا پر اس کو فضیلت دیتے تھے۔ مندرجہ ذیل واقعہ سے اس کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے:
’’ حضرت بن عباسؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمرؓ بن الخطاب نے کہا کہ کیا تم شاعروں کے شاعر کے کلام کی روایت کرتے ہو۔میں نے کہا وہ کون؟ تو بولے کہ وہ جو کہتا ہے’’ولوان حمدًا...‘‘میں نے کہا وہ تو زہیر ہے تو آپ نے فرمایا کہ ہاں وہ شاعروں کا شاعر ہے۔میں نے کہا وہ کیسے ؟ تو فرمایاکہ چوں کہ وہ کلام میں تعقید نہیں کرتا تھا اور نہ ایک مفہوم کو دوسرے میں گڈ مڈ کرتا تھا اور اس کے علاوہ نامانوس اور بھدے الفاظ سے پرہیز کرتا تھا اور آدمی کی سچی اور صحیح تعریف کرتا تھا۔‘‘12
دورِجاہلی کے شعرا میں کوئی ایسا شاعر نظرنہیں آتا جس کے اشعار لفظی ومعنوی دونوں اعتبار سے اتنے اعلیٰ ہوں جتنے کہ زہیر کے اشعار ہیں ۔ اس میں شک نہیں کہ امرؤالقیس ، نابغہ الذبیانی اور اعشیٰ جیسے جاہلی شعرا کے یہاں قصائد کی زبان کا اپنا نرالا انداز ہے مگر معنوی اعتبار سے یہ شاعر زہیر بن ابی سلمی کو نہیں پہنچتے۔ا مرؤالقیس کے یہاں تو الفاظ وتشبیہات میں ثقالت بھی پائی جاتی ہے لیکن زہیر کی شاعری اس عیب سے پاک ہے۔
زہیرکے قصائد میں سب سے اعلیٰ ،اہم اور نمائندہ قصیدہ وہی ہے جسے معلقات میں شمولیت کا شرف حاصل ہوا۔بعض لوگوں نے اس معلقہ کے اشعار کی تعداد59 لکھی ہے مگر یہ درست نہیں ،صحیح تعداد64 ہے۔13 زہیر نے معلقہ کا آغاز جاہلی ریت کے مطابق کیا ہے یعنی محبوبہ کے اجڑے مکان پر شاعر پہنچتا ہے ،اس کے مکان کے نشانات تلاش کرتا ہے، ان سے تکلم کرتا ہے اور پرانی یادوں کو آہ وحسرت کے ساتھ تازہ کرتا ہے ، لیکن شاعر کا کمال یہ ہے کہ وہ تشبیب کے ان اشعار میں نادرتشبیہات اور خوبصورت الفاظ استعمال کرکے ان میں بلاکی تاثیر ونغمگیت پیداکردیتا ہے۔ان اشعار میں جمالیات او رتغزل کا رنگ چوکھا نظرآتا ہے۔وہ کہتا ہے:
’’اے میرے دوست تو غور سے دیکھ کیا تجھے کجاوہ نشین عورتیں نظر آتی ہیں جنھوں نے بلند جرثم تالاب کے اوپر کوچ کیا۔میں ان کے دیکھنے کا آرزو مند ہوں اور وہ وادی سوبان کی سخت اور اونچی زمین پر چڑھتے ہوئے اس طرح گزریں کہ قنان پہاڑ ایک طرف ان کے کولہوں کے مقابل بائیں جانب رہ گیا ،اس حال میں کہ ان پر نرم ونازک بدن والوں کا ناز وانداز تھا۔یعنی وہ بہت نازک بدن تھیں اور ان ہودہ نشینوں میں ہنسی اوردل لگی چل رہی تھی، وہ منظر دیکھنے کے قابل خوبصورت تھا اور کمال فراست رکھنے والوں کے لیے بھلا معلوم ہوتا تھا۔‘‘14
ان اشعارمیں زہیر بن ابی سلمی نابغہ، اعشی، طرفہ، حارث بن حلّزہ، عمر وبن کلثوم اور دوسرے جاہلی شعرا کے رنگ میں نظر آتاہے ۔گویا لکیرپرلکیر کھینچنے کاکام کرتا ہے۔ان اشعار کے سبب زہیر کی الگ شناخت قائم نہیں ہوتی مگر جب وہ تشبیب کے بعد گریز کرتے ہوئے ہرم بن سنان اور الحارث کی شان میں مدحیہ اشعارکا سلسلہ چھیڑتا ہے تو وہ ان سے الگ راہ پر جاپڑتا ہے۔دس اشعار میں ان کی صلح جوئی کی کوششوں کو بیان کرتا ہے اور جنگ کی ہولناکیوں کا نقشہ کھینچتا ہے تاکہ نہ صرف متعلقہ قبیلے بلکہ سارے جزیرۃ العرب کے خاندان وافراد تشدد اور جنگ سے بازآجائیں اور امن کے راستے پرچل پڑیں۔ اس قصیدے میں پندرہ سے زائد اشعار میں زہیر نے حکمت وفلسفے اور مشاہدات وتجربات کوبیان کیا ہے۔اس قصیدے کے حوالے سے عبدالاحد نے زہیر کی شاعری ،اس کی اہمیت اور انفرادیت پر یوں روشنی ڈالی ہے :
’’اس کے قصیدے میں نصیحت واخلاق کی باتیں بھری ہیں۔ہر بیت میں سنجیدگی وپند کی مہک ہے۔اس کے اشعار قَلّ وَدَلَّ کے مصداق ہیں۔فن شاعری میں سرقہ وانتحال کو غایت درجہ مذموم جانتا تھا۔نسخ ومسخ وسلخ تینوں سے از حد نفرت کرتا تھا۔الفاظ اس کے سادہ اور عام فہم اور معانی دلچسپ ودقیق ہیں۔کلام اس کا وحشی وسخیف الفاظ سے پاک ہے۔حضرت ابوبکرؓ کے نزدیک یہ تمام شعرا پر فضیلت رکھتا تھا لہذا وہ اسے ’’شاعرالشعراء‘‘ کہتے تھے۔جو جو خوبیاں اوروں کے قصائد میں ہیں وہ سب اس کے قصیدے میں موجود ہیں لیکن جو دو ایک زائد خوبیاں اس کے قصیدے میں ہیں وہ کسی دیگر شاعرجاہلی کے کلام میں نہیں پائی جاتیں...خوف خدا اور فکرعاقبت میں زندگی بسرکرنے کو عین راحت سمجھتا تھا۔قیامت اور عدالت کی خبربڑی سنجیدگی سے دیتا ہے۔اس نے 631ء میں وفات پائی۔‘‘15
زہیر خدا اور آخرت کی باتیں کرکے غالباً عوام الناس کو یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کویوں ہی ضائع نہ کریں،وقت کو غنیمت جانیں،اس کا صحیح استعمال کریں، اچھے کام کریں،کسی کو اذیت نہ پہنچائیں، ایک دوسرے کے لیے معاون ثابت ہوں اور جاہلیت کے اندھیروں سے نکل کر روشنی کی طرف آئیں ۔
حواشی:
(1) کاشف الحقائق، ص:174، ناشر قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، دوسراایڈیشن 1998
(2) تاریخ ادب عربی، ص:42، ترجمہ وتلخیص: ڈاکٹر سید طفیل مدنی، ایوان کمپنی الہ آباد، دوسرا ایڈیشن1985
(3) ایضاً ٍ ٍ
(4) مقدمہ شعروشاعری، ص227،ایجوکیشنل ہاؤس علی گڑھ2011
(5) شرح القصائد العشر، ص 165-16، ڈاکٹر فخرالدین فباوہ، ناشر المکتب العربےۃ لحلب،1969
(6) شرح المعلقات السبع، ص 82-83، از احمد بن حسین،مکتبۃ القاہر، 1967
(7) شرح القصائد العشر، ص174، فخرالدین فباوہ ، المکتبۃ العربےۃ لحلب 1969
(8) التوضیحات، سبع المعلقات، قصیدہ، زہیر بن ابی سلمیٰ
(9) شرح القصائد العشر،ص190-91
(10) عربی ادب کی تاریخ ، جلد اول ص 215، از حلیم ندوی
(11) شرح المعلقات السبع، ص 89-90
(12) عربی ادب کی تاریخ ، جلداول، ص212، از حلیم ندوی
(13) التوضیحات، سبع المعلقات ص: 62
(14) ایضاً قصیدہ زہیر بن ابی سلمیٰ، شعر7 تا9
(15) عربی ادب کی تاریخ، حصہ اول:75-76،از : عبدالاحد، سنہ اشاعت1909،مطبع مجتبائی دہلی

Mohammad yusuf, 
Research Scholar,
 University of Delhi, Delhi - 110007

ماہنامہ اردو دنیا، اگست2016




قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں