ماہنامہ ’معارف‘ کے سو برس
عمیر منظر
شبلی کے علمی اور ادبی کارناموں کی بازگشت ایک صدی سے جاری ہے۔ان کارناموں میں ایک کارنامہ ’دارالمصنّفین‘ کا قیام بھی ہے۔عمر کی آخری منزل میں اس ادارے کے قیام کی کوششیں تیز کیں حالانکہ تصنیف و تالیف کے لیے ادارے کے قیام کا خیال ان کے ذہن میں پہلے پہل مارچ 1910 میں اس وقت آیا تھاجب علمی و ادبی کارناموں کے سبب انھیں سرکاری خطاب سے سرفراز کیا گیا۔ اگست 1910 میں نواب مزمل اللہ خاں نے اس خوشی میں تصنیفات شبلی کی یادگار میں ایک کمرہ دارالعلوم ندوۃ العلما میں بنوانے کی خواہش ظاہر کی،جس پر شبلی نے نواب صاحب کو ایک خط میں لکھا ’’ہماری تصنیفات کی خیرکیا وقعت لیکن ہم چاہتے ہیں کہ دارالعلوم میں ایک کمرہ دارالمصنّفین کے نام سے تعمیر کیا جائے‘‘۔یہ ساری چیزیں ابھی خیال ہی میں تھیں کہ ندوہ کے حالات تبدیل ہوتے گئے یہاں تک کہ شبلی کو وہاں سے مستعفی ہونا پڑا،جس کے بعد اعظم گڑھ میں انھوں نے دارالمصنّفین کے نام سے ایک ادارہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔مگر اس کی تکمیل سے پہلے ہی 18نومبر 1914کو علامہ شبلی نے اس دنیا کو خیر باد کہا۔ علامہ کے انتقال کے بعد ان کے شاگردوں نے ’اخوان الصفا‘کے نام سے ایک جماعت بنائی اور اسی جماعت نے دارالمصنّفین کی تعمیر و ترقی کا بیڑا اٹھایا۔اس جماعت میں مولانا حمید الدین فراہی،مولانا سید سلیمان ندوی، مولانا عبدالسلام ندوی،مولوی مسعود علی ندوی، مولوی شبلی متکلم ندوی شامل تھے۔دارالمصنّفین کے پاس سترہ بیگہہ زمین ہے جو علامہ شبلی نعمانی اور ان کے قریبی رشتہ داروں کی تھیں اپنی زندگی میں ہی علامہ نے زمین کی رجسٹری کے کاغذات تیار کرلیے تھے۔مگر زمین کی رجسٹری جولائی 1915 میں مکمل ہوئی
اس کے تقریباً ایک سال بعد ادارے کے علمی ترجمان کے طوپر ’معارف کا اجراعمل میں آیا۔پہلے شمارے میں سید سلیمان ندوی نے معارف کے مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا :
’’فلسفہ حال کے اصول اور اس کا معتد بہ حصہ پبلک میں لایا جائے۔عقائد اسلام کو دلائل عقلی سے ثابت کیا جائے،علوم قدیمہ کو جدید طرز پر ازسر نوترتیب دیا جائے،علوم اسلامی کی تاریخ لکھی جائے اور بتایا جائے کہ اصل حصہ کہا ں تک تھا اور مسلمانوں نے اس پر کیا اضافہ کیا، علوم مذہبی کی تدوین اور اس کے عہد بہ عہد کی ترقیوں کی تاریخ ترتیب دی جائے،اکابر سلف کی سوانح عمریاں لکھی جائیں، جن میں زیادہ تر ان کے مجتہدات اور ایجادات سے بحث ہو،عربی زبان کی نادر الفن اور کم یاب کتابوں پر ریویو لکھاجائے اور دیکھا جائے کہ ان خزانوں میں ہمارے اسلاف نے کیا کیا زرو جواہر امانت رکھے ہیں اور سب سے آخر لیکن سب سے اول یہ کہ قرآن مجید سے متعلق،عقلی،ادبی،تاریخی،تمدنی اور اخلاقی مباحث جو پیدا ہوگئے ہیں، ان پر محققانہ مضامین شائع کیے جائیں۔‘‘
(ماہنامہ معارف جولائی 1916 ص 5)
جولائی 1916 میں ماہنامہ معارف کا پہلا شمارہ منظر عام پر آیا اور اس قت سے لے کر آج تک تواتر کے ساتھ یہ رسالہ نکل رہا ہے۔علمی و ادبی مضامین و موضوعات کے ساتھ ساتھ حالات حاضرہ،انتقاد وتقریظ اور مطبوعات جدیدہ مذاق عام کی رعایت سے رکھے گئے ہیں۔تحقیقی و تنقیدی مضامین کے علاوہ کچھ مستقل موضوعات /عناوین تھے جسے ماہنامہ معارف نے قائم کیا۔ان مستقل عناوین میں ردو بدل بھی ہوتا رہا ہے۔ان میں آثار علمیہ،اخبار علمیہ،ادبیات، شذرات،باب المراسلہ والمناظرہ،تلخیص و تبصرہ، تقریظ، مباحث حاضرہ،مترجمات،مسائل و فتویٰ، معارف کی ڈاک،مطبوعات جدیدہ اور وفیات شامل ہیں۔ سید سلیمان ندوی نے ان مستقل عناوین کا تفصیلی تعارف جون 1943 کے شذرات میں کیا ہے۔اور اسے انھوں نے معارف کی اولیات میں شمار کیا ہے۔
معارف کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر اردو زبان وادب کے اہم لکھنے والوں کا قلمی تعاون حاصل رہا ہے اور ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔اس کے قلم کاروں میں اکبرالہ آبادی، علامہ اقبال، ابو اللیث صدیقی، عبدالماجد دریابادی، احمد میاں اختر جوناگڑھی،خواجہ احمد فاروقی،حافظ احمد علی خاں شوق، پروفیسر اکبر حیدری کشمیری، ڈاکٹر غلام مصطفی خاں، امتیاز علی خاں عرشی، ڈاکٹر امیر حسن عابدی، پروفیسر نذیر احمد، تمکین کاظمی،جعفر علی خاں اثر، مولوی حامدحسن قادری، حبیب الرحمن خاں شروانی،خلیق احمد نظامی،ڈاکٹر محمد حمید اللہ، ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی،پروفیسر محمد سلیم،شاد عظیم آبادی، شبیر احمد خاں غوری،ڈاکٹر شرف الدین اصلاحی، کبیر احمد جائسی، عابد رضا بیدار،مولانا مجیب اللہ ندوی، ضیاء الدین برنی، پروفیسر خواجہ عبدالحمید،ڈاکٹر عطش درانی، صوفی غلام مصطفی تبسم، کالی داس گپتا رضا، کلب علی خاں، ڈاکٹر مختارالدین احمد آرزو، مالک رام، ڈاکٹر معین الدین عقیل،مولانا مناظر احسن گیلانی،نصیر الدین ہاشمی،نجیب اشرف ندوی،ڈاکٹر نورالحسن ہاشمی،سید وقار عظیم،پروفیسر الطاف احمد اعظمی، ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی کے نام شامل ہیں۔
قرآن و حدیث اور اسلامیات و تاریخ کے موضوعات کے ساتھ ساتھ اردو زبان و ادب پر اتنا کچھ لکھا گیا ہے کہ اس کے بیان کے لیے ایک دفتر درکار ہوگا۔یہاں قرآن و حدیث اور تاریخ و ثقافت کے موضوعات کے بجائے صرف معارف کی اردو سے متعلق خدمات کو پیش کیا جارہا ہے۔مرزا غالب اور علامہ اقبال کی شخصیت اور ان کے فن پر یہاں بے شمار مضامین شائع ہوچکے ہیں صرف غالب اور اقبال سے متعلق کتابوں کے تبصرے ہی جمع کردیے جائیں تو الگ الگ کتاب بن جائے گی۔ان فن کاروں کی شخصیت اور ان کے علمی کمالات پر بیشمار مقالات شائع ہوئے۔چونکہ’ماہنامہ معارف‘ دارالمصنفین شبلی اکیڈمی کا ترجمان ہے جس سے یہ خیال آتا ہے اس میں علامہ شبلی نعما نی کی شخصیت اور فن پر بہت زیادہ لکھا گیا ہوگا مگر یہ جان کر حیرت ہوگی غالب اور علامہ اقبال کے مقابلے میں شبلی پربہت کم لکھا گیا۔اس کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ شبلی کی وفات کے سو برس مکمل ہونے کے بعد معارف کا خصوصی شمارہ (شبلی نمبر۔جنوری 2015) شائع کیا گیا۔یہ بات بھی باعث حیرت ہے کہ جس وقت علامہ شبلی کے خلاف بعض قلم کاروں نے مورچے سنبھال رکھے تھے نہ صرف’ معارف‘ بلکہ دارالمصنّفین کے قلم کاروں نے بھی اس کا کوئی جواب نہیں دیا اور وہ مصنوعی فضا جو شبلی کے خلاف تیار کی گئی تھی خود بخود بیٹھ گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ علم و ادب کی دنیا شبلی کے علمی اور ادبی کمالات سے روشن ہے۔معارف کی سوسالہ تاریخ میں صرف تین خصوصی نمبر شائع ہوئے۔ سب سے پہلے سید سلیمان ندوی نمبر اس کے بعد مولانا حبیب الرحمن خاں شروانی نمبر اور سب سے آخر میں شبلی نمبر۔
’ماہنامہ معارف ‘کا ایک وقیع علمی سرمایہ،شذرات اور علمی مقالات کے علاوہ تبصرے،مکتوبات اور وفیات کی شکل میں موجود ہے۔وفیات دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں کس تنوع اور ذہنی کشادگی کے ساتھ مختلف الخیال ادیبوں، شاعروں اور اہم قومی و ملی شخصیات کی وفات پر انھیں خراج تحسین پیش کیا جاتا رہاہے۔اور یہ روایت آج بھی اسی طرح برقرار ہے۔
معارف کے تبصرے اپنی گوناگوں خصوصیات کے سبب مقبول رہے ہیں۔ اگراس میں شائع ہونے والے تبصروں کو ہی جمع کردیا جائے تو ایک ضخیم کتاب تیار ہوسکتی ہے۔ان تبصروں کی فہرست اور اس کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ مبصرین نے صرف تعارف پر اکتفا نہیں کیا بلکہ کتاب کی خوبیوں اور کمیوں دونوں سے آگاہ کیا۔معارف کے تبصرۂ کتب والے کالم سے چندجدید و قدیم کتابوں کے نام درج کیے جارہے ہیں ان سے معارف کے تنوع اوررنگارنگی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ دیوان حسرت از مولانا حسرت موہانی(مئی 1918)۔صبح زندگی، شام زندگی از راشد الخیری دہلوی(اگست 1918)۔ انتخاب کلام میر مولوی عبدالحق (ستمبر 1918) گنجینہ از مولوی احمد علی شوق (ستمبر1919)مینائے سخن ازمنشی امیر احمد مینائی (مارچ 1921)کلیات شیفتہ و حسرتی مرتبہ حاجی محمد اسحاق (جون 1922)دہلی کی جاں کنی ازخواجہ حسن نظامی (جولائی 1922)خیالستان ازسید سجاد حیدر یلدرم (اگست 1922)طاہرہ از عبدالحلیم شرر (مارچ 1924) مثنوی خواب و خیال از میر اثر (اپریل 1927) ارباب نثر اردو از سید محمد (اپریل 1927)دانہ و دوام از راجیندر سنگھ بیدی (جنوری 1941)سنگ وخشت از کنہیا لال کپور (نومبر 1924)ہندستانی لسانیات کا خاکہ از سید احتشام حسین (جولائی 1948)وضع اصطلاحات از وحید الدین سلیم (ستمبر1954)میر کی آپ بیتی از نثار احمد فاروقی (اپریل 1955عمدہ منتخبہ یعنی تذکرہ سروراز میر محمد خاں بہادر سرور (مئی 1962)اردو میں ترقی پسندادبی تحریک از خلیل الرحمن اعظمی (ستمبر1972)سعادت یار خاں رنگیں از ڈاکٹر حسن آرزو(اگست 1987)۔
ہزاروں سے زائد کتابوں پر تبصروں سے معارف کے ادبی رویے کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔فہرست کتاب سے یہ باور کیاجاسکتاہے کہ علم و تحقیق کو فروغ دینے میں اس رسالے کو خاص اہمیت حاصل ہے۔اور یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس میں موضوعاتی یاشخصی اعتبار سے خویش و بیگانے کا کوئی لحاظ نہیں تھا۔ جو بھی کتابیں آئیں ان پر تبصرہ کیا گیا ۔
ادبیات کے باب میں شعری حصہ خاصا وقیع ہے۔ حمد و نعت اور غزلوں کے علاوہ نظمیں بھی شائع ہوتی تھیں۔ چند ابتدائی شماروں میں کلاسیکی اردو شاعری سے انتخاب بھی شامل کیا گیا۔جنوری 1917 میں میر تقی میر کے مسلسل اشعار بہ عنوان ’قید مکاں سے آزادی ‘‘درج کیے گئے ہیں۔فروری 1917 میں اس سلسلے کے تحت آصف الدولہ، راسخ عظیم آبادی،محمد رفیع سودا، مومن خاں مومن اور عبدالکریم سوز کا کلام شائع کیا گیا ہے۔ اپریل 1917 میں بھی کلاسیکی شاعری کا انتخاب شامل ہے۔ جون1917 کے شمارے میں ’مناظرہ شاعری‘کے تحت شیفتہ کی مشہور غزل جس کا مطلع ہے ’اٹھ صبح ہوئی مرغ چمن نغمہ سرا دیکھ‘‘ کی زمین میں محمدعلی جوہر،مسٹر ناظر،اور سید سلیمان ندوی کی غزلیں شامل ہیں۔
علمی اور تحقیقی شان کے ساتھ ساتھ مذاق عام کے تحت بھی جو کچھ شائع کیاگیا ایک صدی بعد غور کرنے پر راز کھلتا ہے کہ یہ تحریریں بھی علمی اورادبی جلوہ نمائی سے معمور ہیں۔اور اس کی حیثیت کسی وقیع علمی سرمایے سے کم نہیں ہے۔
معارف،اہم اور نایاب کتابوں کی تلاش اور اطلاع کا ذریعہ بھی بنا۔نسخۂ حمیدیہ سب سے پہلے مولانا عبدالسلام ندوی کے ہاتھ لگا تھا اس کی اطلاع معارف کے شذرات (ستمبر 1918) میں سید سلیمان ندوی اس طرح دیتے ہیں :
’’ہمارے دوست مولانا عبدالسلام صاحب ندوی، شعر الہند کی خاطر آج کل کتب خانوں کی خاک چھان رہے ہیں۔اسی سلسلے میں وہ بھوپال بھی پہنچے،وہاں کے کتب خانہ حمیدیہ میں انھیں ایک اَنمول جواہر ملا،یعنی مرزا غالب کا ایک مکمل اردو دیوان بلاحذف و انتخاب،جو موجودہ دیوان سے ضخامت میں دونا ہے،نہایت عمدہ مطلا نسخہ ہے،کسی خوش خط کے ہاتھ وہ پڑا تھا،اس نے ان غزلوں کا مطبوعہ غزلوں سے مقابلہ کرکے اختلاف نسخ بھی لکھ دیا ہے۔‘‘(نمبر 3،جلد 3 ص:116)
میر اثر کی مثنوی خواب و خیال تک رسائی کی اطلاع بھی معارف کے شذرات(اپریل 1917) سے ہی ادبی دنیا کو حاصل ہوتی ہے۔سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں :
’’حضرت خواجہ میر درد کے چھوٹے بھائی میر اثر دہلوی، اپنے زمانے کے مشہور شاعر تھے، تصوف کو بے تکلف سہل و رواں اردو غزلوں میں ادا کرنا انھی دونوں بھائیوں پر ختم تھا،ان کی مثنوی خواب وخیال اردو زبان کا ایک اَنمول سرمایہ ہے،سال تصنیف ۱۱۵۲ھ ہے۔یہ مثنوی کم یاب ہے۔شمس العلما محمد حسین آزاد،آب حیات میں ایک دو فقرہ سے زیادہ اس پر نہ لکھ سکے،شاید یہ مثنوی انھیں ہاتھ نہ آئی،مولانا حالی بھی مقدمۂ دیوان میں اپنا نہ دیکھنا ظاہر کرتے ہیں،ہم اپنے دوست مولوی بشیر الحق صاحب سب انسپکٹر سون برسا کے ممنون ہیں کہ ان کی وساطت سے یہ مثنوی مستعار ہمیں ہاتھ آسکی۔‘‘
(نمبر دس جلد اول ص:3-4)
شذرات (دسمبر 1918)میں ہی ایک اہم قلمی نسخے کے بارے میں یہ اطلاع دی گئی ہے :
’’پٹنہ کے کتب خانۂ مشرقی میں اردو نظم کی ایک قدیم کتاب ہے،محمد امان قادری گورکھ پوری مصنف کا نام ہے،سال تصنیف 1170ھ ہے۔یعنی اس کی تصنیف پر 167برس گذرچکے ہیں،حنفی فقہ کے مسائل اس میں منظوم ہوئے ہیں۔سات ابواب پر عبادات و معاملات وغیرہ کے عنوانات سے اشعار ہیں،اس نظم کی خاص خصوصیت یہ ہے کہ بحر ایسی اختیار کی گئی ہے جو ہندی رامائن سے ماخوذ ہے،جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اردو شاعری پر ہندی نے کس حد تک اثر کیا تھا۔‘‘(نمبر6جلد 3ص:283)
اگست 1922کے شذرات میں سید صاحب لکھتے ہیں:
’’مولانا حبیب الرحمن خاں شروانی صدر الصدور دولت آصفیہ حیدرآباد دکن کے کتب خانے میں سودا کے دیوان کا ایک نادرنسخہ بہم پہنچا ہے،علاوہ خوش خطی اور دیگر اوصاف ندرت کے ایک خاص بات اس میں یہ ہے کہ نسخہ عین اس وقت پاےۂ تکمیل کو پہنچ رہا تھا، جب نادر شاہ اپنی قہار فوجیں لیے ہوئے دلی کے دروازے پر کھڑا تھا، کاتب نے کتاب کے آخر میں لکھا ہے کہ یہ سطریں جس وقت لکھی جارہی ہیں نادر شاہ کی فوجیں شہر میں داخل ہورہی ہیں۔کیا یہ علمی یک سوئی کی عجیب وغریب مثال نہیں ہے کہ جب شہر اضطراب اور بے چینی کی کروٹیں لے رہا تھا ایک سودازدۂ علم،دیون سودا کی کتابت میں مصروف تھا،یہ ذوق فن ہر بوالہوس کو کہاں نصیب۔‘‘
(نمبر2 جلد نمبر10 ص 85)
معارف کا دامن تخلیقی نثر سے خالی رہا ہے البتہ گزشتہ ایک صدی کے دوران اردو زبان کی سرگرمیوں اور اردو ہندی تنازع پر جو کچھ معارف نے لکھا اور جو موقف اختیار کیا اسے تاریخی اہمیت کا حامل قرار دیا جاسکتا ہے۔ معارف کے مرتبین(مدیر) نے اردو زبان سے متعلق کسی بھی زیادتی کو برداشت نہیں کیا اور جہاں کہیں اردو کے حق میں فضا سازگار ہوئی ہے تو اس پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔ 1916 سے لے کر آج تک اردو زبان کے بارے میں حکومتوں کا کیا رویہ رہا ہے اور برادران وطن اس زبان کے بارے میں کیاکہتے اور لکھتے رہے ہیں، اس کی ایک واضح تصویر شذرات میں دیکھی جاسکتی ہے۔ سید صاحب شذرات (نومبر 1920)میں لکھتے ہیں :
’’بیسویں صدی کا پہلا سال (1901) تھا کہ اردو ہندی نے دو رقیب پہلوانوں کی حیثیت سے سرکاری محکموں کے دنگل میں قدم رکھا۔اس دنگل کے جگت استاد میکڈانل صاحب کی نیت جو کچھ ہو مگر اس میں شک نہیں کہ ان کا داؤ پیچ دونوں حریفوں کو دست و گریباں کرنے میں نہایت کامیاب ہوا۔اس وقت سے اِس وقت تک اردو ہندی کے جھگڑوں نے ہماری بزم ادب کو مکدر اور بدمزہ کررکھا ہے۔‘‘(نمبر 5 جلد ص323)
اپریل 1931 میں ہندستانی اکادمی کے تحت الہ آباد میں اردو ہندی ادبی کانفرنس ہوئی۔اس جلسے میں مشترک ہندستانی زبان کے لیے کوشش کا آغاز ہوا۔اس کے بعد بہت دنوں تک معارف کے شذرات میں ایسی اردو لکھنے کی تلقین کی گئی جو عام فہم اور سادہ ہو اور یہ کوشش کی گئی کہ ایک مشترک زبان بنائی جائے اور اس کو ترقی دی جائے۔ اکتوبر 1937کے شذرات میں سید سلیمان ندوی نے لکھا کہ :
’’خوشی کی بات ہے کہ ہمارے ملک کی موجودہ فضا ایک مشترک دیسی زبان کے لیے جس کا پسندیدہ نام ہندستانی پڑرہا ہے،بہت سازگار ہورہی ہے۔‘‘
(نمبر4جلد 40ص242)
انگریزوں نے اردو ہندی تنازع کی جو بنیاد رکھی تھی وہ رفتہ رفتہ مستحکم ہوتی چلی گئی البتہ اس دوران معارف نے اردو ہندی تنازع کو ختم کرنے کے لیے بہت کوشش کی۔انھوں نے جہاں ایک طرف قلم کاروں کو یہ توجہ دلائی کہ آسان اور سادہ زبان لکھی جائے۔وہ اردو میں بے جا عربی اور فارسی کے الفاظ کے استعمال کے جہاں مخالف تھے وہیں ان کو یہ بات بھی ناپسند تھی کہ ہندی کو سنسکرت آمیز کردیا جائے۔
شذرات میں اردو کے نفاذ اور ذریعہ تعلیم پر خاص طور پر زور دیا گیا ایک طرف جہاں یہ کہا گیا کہ ’’اردو کے ذریعے سے تعلیم دینے کا وقت آگیا ہے۔وہیں معارف کی پالیسی یہ رہی ہے کہ زبانوں کے ٹکراؤ کے بجائے اسے ایک ایسی جہت سے پیش کیا جائے کہ کوئی اپنے حق سے محروم نہ رہے۔جنوری 1933کے شذرات کی یہ سطریں ملاحظہ فرمائیں :
’’ہندی کو ہندوؤں کی ملکی زبان بنانے کی جو کوشش ملک میں ہورہی ہے وہ قابل قدر ہے۔راجپوتانہ اورالور اور بالآخر گجراتی بولی والی ریاست بڑودہ میں ہندی کو سرکاری زبان کا منصب مل رہا ہے لیکن ضرورت ہے کہ اس کے ساتھ اردو کو بھی زندہ رہنے دیا جائے۔صوبۂ متوسط کی تعلیمات سے سناجارہا ہے کہ اردو کو شہر بدرکیا جارہا ہے۔اگر یہ صحیح ہے تو حقیقت میں یہی وہ باتیں ہیں جو ہندستان کی دو قوموں کو بار بار لڑنے پر آمادہ کرتی ہیں۔‘‘(نمبر1جلد 31،ص3-4)
یقینامعارف زبان و ادب کا ایک وقیع علمی خزانہ اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ایک صدی بعدمختلف حوالوں سے اس پر غور کیا جاسکتا ہے اور اس کے تجزیے اور مطالعے سے دیکھا جاسکتا ہے کہ اس علمی اور ادبی رسالے نے جہاں ایک طرف علم و تحقیق کی دنیا کو روشن کیا وہیں زبان اور اس کے مسائل پر پوری وضاحت اور جامعیت کے ساتھ اپنا موقف پیش کیا۔
معارف نے ابتدا سے ہی تحقیقی موضوعات کو خاص اہمیت دی۔ایک صدی کے دوران بیشمار تحقیقی مقالات شائع ہوئے جن کا تعلق شاعروں اور ادیبو ں سے متعلق مختلف تحقیقات سے تھا اور اسی طرح تذکروں سے متعلق بہت سے تحقیقی مقالات شائع ہوئے۔معارف کو بعض ادبی اولیات کا شرف بھی حاصل ہے مثلاکتابوں اور نادر قلمی نسخوں کی اطلاع یا ادیبوں اور شاعروں سے متعلق بعض اطلاعات وغیرہ۔ایک صدی کا چند صفحات میں احاطہ کرنا ناممکن ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دارالمصنّفین کو مختلف مسائل سے دوچار ہونا پڑا ان میں سب سے اہم مسئلہ مالی وسائل کی فراہمی کا تھا۔اس سے وابستہ رفقا نے شبلی کی اس علمی یادگار کو تناور درخت بنانے میں کوئی دقیقہ باقی نہیں رکھا اور آج ایک صدی بعد بھی ’معارف‘ کے علمی مشمولات کو دیکھ کر اس کی تصدیق کی جاسکتی ہے۔معارف کے موجودہ مدیراور شبلی اکیڈمی کے ڈائرکٹر پروفیسر اشتیاق احمدظلی کی کوششوں سے ایک بار اس ادارے کو نئی زندگی ملی ہے۔
Asst Prof. Dept of Urdu, Maulana Azad National Urdu University,
Lucknow Campus, Lucknow (UP)
Mob.: 8004050865
ماہنامہ اردو دنیا، اگست2016
قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں