10/4/19

سیدہ جعفر کی تنقید نگاری (1934تاجون2016) مضمون نگار: شاہ نواز فیاض



سیدہ جعفر کی تنقید نگاری
(1934تاجون2016) 

شاہ نواز فیاض
شمال اور دکن کے بیچ بہت فاصلہ رہا، ایک دوسرے کے نوادرات سے واقفیت بھی اس طرح سے نہیں تھی۔ شمالی ہند کے محققین اور ناقدین کے لیے اس راہ میں بہت سی دشواریاں بھی حائل تھیں۔ خاص طور پر دکن کے لسانی نظام سے عدم آگہی کی وجہ سے جنوبی ہند کی بہت سی مثنویوں کے مفاہیم تک رسائی مشکل تھی، دکنی ادب سے مکمل طور پر متعارف کرانے والوں میں بہت سے نام آئے ہیں۔ ان میں ایک نام سیدہ جعفر کا بھی ہے۔
پروفیسر سیدہ جعفر کا سب سے اہم کام’تاریخ ادب اردو1700تک ‘ بہ اشتراک گیان چند، اور اس کے بعد انھوں نے عہد میرسے ترقی پسند تحریک تک جو کام کیا ہے، وہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔انھوں نے دکنیات کے حوالے سے جو کچھ کیا ہے، اور جس تحقیق و جستجو سے کیا ہے، اس کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے بڑی محنت سے ایک ایک حصے کو جوڑ کر تاریخ ادب اردو کی قدامت کو واضح اور مدلل انداز میں پیش کیا ہے۔
پروفیسر سیدہ جعفر نے تحقیق و تنقید کے تعلق سے بہت سے کام کیے۔لیکن ان کا اصل میدان تحقیق ہی تھا۔ انھوں نے جس متن کی بھی تدوین کی ہے، اس کے طویل مقدمے سے واضح ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنی طرف سے تمام ماخذات کو دیکھ کر ہی قلم اٹھایا۔انھوں نے تنقید میں اپنی بصیرت اور شعور کا مکمل ثبوت دیا ہے۔ اس کو ان کتابوں تنقید اور انداز نظر اور فن کی جانچ میں بخوبی دیکھا جا سکتا ہے۔اس وقت ان کی یہی دونوں کتابیں پیش نظر ہیں۔انھوں نے تنقید کے تعلق سے اپنا نقطۂ نظر واضح کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’تنقید کے بارے میں میرا نقطۂ نظر یہ رہا ہے کہ وہی تنقید بھر پور اور وزن رکھنے والی ہو سکتی ہے جس میں اس پس منظر کا عطر کھنچ آئے جس میں کسی فن پارے کی تخلیق ہوئی ہو لیکن محض تاریخی پس منظر میں انسانی عمل اور رد عمل کے نتائج کا اظہار جامع تنقید نہیں۔اس پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہمیں اس فن پارے کے شعری محاسن اور فنی نکات پر بھی نظر رکھنی ہوگی اور اس کے ساتھ ہی ساتھ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ فنکار کی تخلیقات میں اس کی شخصیت کی مہک، اس کے نظریات کا اظہار اور اس کی ذات کی جلوہ گری کس طرح ہوئی ہے اور اس کے پیچھے فنکار کے نفسیاتی محرکات اور نجی تجربات زندگی کے گوناگوں اثرات کس طرح کار فرما ہیں۔‘‘
(فن کی جانچ: سیدہ جعفر،نیشنل فائن پرنٹنگ پریس چار کمان، حیدرآباد، 1965، ص، 3)
فن کی جانچ، سیدہ جعفر کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے۔ اس مجموعے میں کل بارہ مضامین شامل ہیں۔لیکن کچھ مضامین ایسے بھی ہیں، جو تحقیقی نوعیت کے ہیں۔اس ضمن میں ’تذکروں کی تنقیدی اہمیت‘ اور ’کچھ مضمون نگاری کے بارے میں‘ کو پیش کیا جا سکتا ہے۔آخرالذکر ان کے تحقیقی مقالہ ’اردو میں مضمون نگاری‘ کے تعلق سے ہے۔اس مضمون میں انھوں نے واضح کیا ہے کہ اردو کے پہلے مضمون نگار ماسٹر رام چندر تھے۔1846کے آس پاس ان کے مضامین منظر عام پر آئے۔سر سید احمد خاں اور ان کے رفقا(حالی، محسن الملک، چراغ علی اور وقارالملک) 1857کی ناکامی کے بعد اپنے مضامین کو ذہنی بیداری اور سماجی شعور کو عام کرنے کا ذریعہ بنایا۔اس تناظر میں دیکھا جائے تو اردو میں مضمون نگاری کا آغاز 1846کے آس پاس ہوا،سیدہ جعفر نے ماسٹر رام چندر کو اردو کا پہلا مضمون نگار ثابت کیا ہے۔سر سید اور ماسٹر رام چندر کے بیچ مضمون نگاری کا فاصلہ تقریباً دس سا ل کا ہے۔اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ ماسٹررام چندراردو کے پہلے مضمون نگار ہیں، لیکن سر سید اور ان کے رفقا نے اس کی توسیع میں بلاشبہ غیرمعمولی کردار ادا کیا۔البتہ جب زمانی فاصلہ اتنا کم ہو تو ایسے میں بہت سی باریکیوں سے آگاہی ہونی چاہیے، اس اعتبار سے دیکھا جائے تو سیدہ جعفر نے جس محنت اور تجزیے سے یہ ثابت کیا ہے کہ اردو کے پہلے مضمو ن نگار ماسٹر رام چندر ہیں، ان کی تحقیق ایک گرانقدر کارنامہ ہے۔یہ تبھی ممکن ہو سکاہے، جب انھوں نے ان مضامین کا تنقیدی جائزہ لیا ہوگا۔مذکورہ بالامضمون میں سیدہ جعفر نے سرسری تاریخ بیان کی ہے، جو ماسٹر رام چندر سے شروع ہوتی ہے اور آل احمد سرور پر ختم ہو جاتی ہے۔
’تذکروں کی تنقیدی اہمیت ‘ میں سیدہ جعفر نے لکھا ہے کہ جس طرح سے اردو نے دوسری اصناف ادب میں عربی اور فارسی روایات اور پیرایۂ بیان کو اپنایا ہے، اسی طرح سے ادبی جانچ پڑتال کی کسوٹیاں بھی عربی اور فارسی سے لی ہیں۔کیونکہ اردو میں تذکرہ نویسی کا رواج فارسی کے اثر سے ہوا ہے اور فارسی تذکروں کے تتبع میں اردو دانوں نے تذکرہ نویسی کا فن اختیار کیاہے۔سیدہ جعفر نے ایک طرح سے تذکرے کی روایت کو سرسری طور پر پیش کیا ہے۔اس کے بعد اردو تذکروں کا تنقیدی جائزہ لیا ہے؛ اور بتایا ہے کہ کس طرح سے ان تذکروں نے اردو تنقید کو فروغ دیاہے۔انھوں نے لکھا ہے:
’’تذکروں کی تنقیدی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ تذکرہ نویسی میں تنقید نگاری کا ہیولا بنتا ہوا نظر آتا ہے۔شعرا کے کلام پر رائے دینا اور انتخاب کلام پیش کرنا یا معاصر ین سے ان کا مقابلہ کرنا، یا فارسی شعرا سے اردو شعرا کا موازنہ کرنا، بغیر تنقیدی صلاحیت کے کیسے ممکن تھا۔تذکروں کا ایک تنقیدی پہلو یہ بھی تھا کہ میر، میر حسن، قائم، شیفتہ اور مصحفی وغیرہ نے جہاں ضرورت محسوس کی تھی کلام پر اصلاحیں بھی دی تھیں۔اصلا ح کلام دراصل فنی اور عملی تنقید ہی کا ایک پر تو ہے۔اصلاح ایک طرح سے اصولی تنقید اور عملی تنقید کا بڑا اچھا امتزاج ہوتا ہے۔ تذکروں میں جو اصلاحیں ملتی ہیں ان کی نوعیت زیادہ تر صوری اور لسانی ہے، لیکن معنوی پہلو بھی ان کے پیش نظررہا ہے۔‘‘ (ایضاً۔ص، 69-70)
تذکرہ نگاروں کے پیش نظر تنقید کرنا نہیں تھا، چونکہ جس وقت تذکرے لکھے گئے تھے، اس وقت تذکرہ نگاروں کا مقصد صرف شاعر کے حالات یا واقعات زندگی ، ماحول کا مختصر سا خاکہ اور نمونہ کلام درج کرنا تھا۔بعض تذکرہ نگاروں نے اتنی اچھی تنقید کا نمونہ پیش کیا ہے کہ اندازہ ہوتا ہے کہ ان تذکرہ نگاروں میں کس پائے کی تنقیدی صلاحیت موجود تھی، جہاں محاسن شعر کی کھلے دل سے تعریف کرتے تھے اور معائب پر بے لاگ تنقید بھی کرتے تھے۔البتہ اگر گروہ بندی حاوی نہ ہوتی تو ممکن تھا کہ اس سے اچھی بھی اپنی رائے کا اظہار کرتے۔
’اردو نثر میں مرقع نگاری‘میں سیدہ جعفر نے اس کی مختصر تاریخ بیان کی ہے۔اور بتایا ہے کہ مرقع نگاری یا خاکہ نگاری ابھی اپنی ابتدائی منزلوں میں ہے۔انھوں نے اس ضمن میں دریائے لطافت سے کچھ مثالیں بھی دی ہیں، لیکن یہ بھی واضح کیا ہے کہ انشاء نے دریائے لطافت میں میر غفر غینی، بی نورن، بھاڑا مل، مرزا صدرالدین اصفہانی اور ملا عبدالفرقان کے کرداروں کو جس طرح سے پیش کیا ہے، وہ خاکہ نگاری کے فن سے قریب تر ہے، لیکن تمام فنی خوبیوں کے باوجود مرقع نگاری کی تاریخ میں اپنا کوئی مقام نہیں پیدا کر سکا۔سیدہ جعفر کا یہ مضمون تقریباًنصف صدی پہلے لکھا گیا ہے، انھوں نے تذکروں سے بھی ایسے بہت سے حوالے دیے ہیں، جہاں خاکہ کی جھلک نمایاں ہے۔ مرقع نگاری کے تعلق سے لکھا ہے:
’’مرقع نگاری صنف ادب کی حیثیت سے چند انفرادی خدوخال اور خصوصیات کی حامل ہوتی ہے۔مرقع نگاری کسی خاص شخص کی سیرت کی دھوپ چھاؤں ، اس کے عادات و اطوار کے زیر وبم اور اس کے کردار کے سیاہ و سفید کی ایک ایسی تصویر پیش کرتا ہے جو اپنے اختصار اور ارتکاز کے باوجود اس شخصیت کے بہت سے اہم گوشوں کو بے نقاب کردیتی ہے۔‘‘
(تنقید اور انداز نظر:سیدہ جعفر،نسیم بک ڈپو، لکھنؤ1969،ص، 70)
مرقع نگار تذکرہ نگار سے اس لیے مختلف ہوتا ہے کہ تذکرہ نگار ہر واقعے کو منتخب کرتا ہے، جب کہ مرقع نگار وہ صرف چند واقعات کا انتخاب کرتا ہے۔اور انہی چند واقعات پر عمارت تعمیر کرتا ہے۔اردو میں مرقع نگاری یا خاکہ نگاری کی سب سے با قاعدہ اور کامیاب کوشش مرزا فرحت اللہ بیگ کے مضمون’نذیر احمد کی کہانی کچھ میری کچھ ان کی زبانی‘ میں دکھائی دیتی ہے۔مرزا فرحت اللہ کے مذکورہ بالا مضمون سے لے کر منٹو کے’گنجے فرشتے‘ تک کا اس مضمون میں سیدہ جعفر نے کہیں تفصیل اور کہیں اختصار سے ذکر کیا ہے۔اس طرح کے مضامین تحقیقی و تنقیدی نوعیت کے ہوتے ہیں، اس اعتبار سے کہا جا سکتا ہے کہ سیدہ جعفر نے اس مضمون کے ذریعے تحقیق و تنقید کابڑا خوبصورت امتزاج پیش کیا ہے۔
’نذیر احمد کے سماجی تصورات‘ میں سیدہ جعفر نے نذیر احمد کے ناولوں کے تعلق سے گفتگو کی ہے۔مضمون کے شروع میں انھوں نے نذیر احمد کی ابتدائی زندگی اور سیاسی اور سماجی حالات پر بھی روشنی ڈالی ہے۔چونکہ نذیر احمد نے اپنے معاشرے کی سیاسی، معاشرتی اورمعاشی و اخلاقی زندگی کا تجزیہ کیا ہے۔ اور جذباتی طور پر ان کوتاہیوں کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔انھوں نے بہت سی جگہوں پر ہندوستانی معاشرے پر طنز بھی کیا ہے۔چونکہ نذیر احمد کا خیال تھا کہ سماجی ترقی کے لیے عورتوں کو ان کا معاون ہونا پڑے گا۔اس وقت سماج میں عورتوں کی جو حالت تھی نذیر احمد اس سے مطمئن نہیں تھے ۔نذیر احمد اپنے زمانے کے نظام تعلیم سے بھی مطمئن نہیں تھے۔انھوں نے اپنے زمانے کے مدرسوں کی بد انتظامی پر بھی چوٹ کی ہے اور استاد کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔نذیر احمد کے ناولوں کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے ناولوں میں ہمیں ایک مخصوص طرز کا طبقاتی شعور ملتا ہے جس پر جاگیر داری تمدن کی خاصی گہری چھاپ نظر آتی ہے۔لڑکیوں کی تعلیم کے وہ حمایتی تھے۔وہ چاہتے تھے کہ لڑکیاں بھی تعلیم حاصل کریں اور سماج کی تشکیل نو میں اپنا کردار ادا کریں۔ اس تعلق سے سیدہ جعفر نے لکھا ہے:
’’نذیر احمد نے لڑکیوں کی تعلیم کی پر زور حمایت کی تھی۔وہ پہلے مصنف ہیں جنھوں نے اس ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے اردو نثر میں ’مراۃ العروس‘ جیسی مفید کتاب لڑکیوں کے لیے لکھی۔’بنات النعش‘ بھی اسی تصور کے تحت منظر عام پر آئی تھی۔ان دونوں ناولوں کے مطالعے سے نذیر احمد کے تعلیمی نظریات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔نذیر احمد عورتوں کی مناسب تعلیم اور تربیت پر بہت زور دیتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ جب تک عورتیں لکھنا پڑھنا نہ سیکھیں، جغرافیہ کی ابتدائی معلومات، تاریخ کے اہم واقعات اور حساب کتاب سے واقف نہ ہوں وہ گھر کے کاروبار کو بخوبی سنبھال نہیں سکتیں۔‘‘ (ایضا،ص، 100')
سیدہ جعفر کے درج بالا اقتباس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ متن کو بغور پڑھتی ہیں، اور مصنف کے عہد اور سیاسی ماحول کو سامنے رکھ کر متن کا مطالعہ اس بات کی طرف آمادہ کرتا ہے کہ منشائے مصنف واضح طور پر سامنے آجائے۔جس طرح سے سیدہ جعفر نے منشائے نذیر احمد کو بیان کیا ہے، یہ تبھی ممکن ہے جب متن کا بغور مطالعہ کیا جائے۔ سیدہ جعفر نے نذیر احمد کے سماجی تصورات پر بھر پور مضمون تحریر کیا، اور اپنی بے لاگ رائے دی۔انھوں نے نذیر احمد کی تعریف بھی کی ہے، اور جہاں انھیں لگا بے لاگ تنقید بھی کی ہے۔
’خواجہ حسن نظامی کی انشائیہ نگاری‘ میں سیدہ جعفر نے ابتدا میں خواجہ حسن نظامی کی نثرپرمجموعی گفتگو کی ہے، اس کے بعد ان کی انشائیہ نگاری پر گفتگو کی ہے۔انشائیہ اور خواجہ حسن نظامی کی انشائیہ کے تعلق سے سیدہ جعفر نے لکھا ہے:
’’انشائیہ کے لیے موضوع کی قید نہیں۔ہر موضوع خواہ وہ اخلاقی ہو یا مذہبی اور فلسفیانہ، ایک جادو نگار انشائیہ پرداز کے قلم سے مس ہو کر ادب کی ایک حسین یادگار بن سکتا ہے۔اس حقیقت کی سب سے اچھی تفسیر اگر اردو انشائیہ نگاروں میں ہم کو کہیں مل سکتی ہے تو وہ خواجہ حسن نظامی کی تحریریں ہیں۔انھوں نے انشائیہ کے فن کو ترقی دی اور اس کے اسلوب کو نکھار دیا۔حسن نظامی کے انشائیوں کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ان کے بظاہر بکھرے ہوئے موضوعات میں مقصدیت کا ایک لطیف رشتہ موجود ہوتا ہے اور ان میں ایک مخصوص سلسلۂ خیال کی جھلک پائی جاتی ہے۔‘‘(ایضاً، ص، 199)
سیدہ جعفر نے اپنے مخصوص انداز میں خواجہ حسن نظامی کی انشائیہ نگاری کا جائزہ لیا ہے۔ظاہر ہے کہ خواجہ حسن نظامی کی انشائیہ نگاری کے تعلق سے بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور آگے بھی لکھا جاتا رہے گا۔جب بھی انشائیہ کی تاریخ پر کچھ لکھا جائے گا، خواجہ حسن نظامی کا نام ضرور آئے گا۔ اسی طرح سے سیدہ جعفر نے حسرت کا تغزل، دکنی غزل گوئی، محروم کی نظم نگاری، صفی اورنگ آبادی اور مولانا آزاد کے مضامین جیسے عنوان کے تحت سیدہ جعفر نے مضامین لکھے ہیں۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا تنقیدی شعور کتنا پختہ اور غیر جانب دارانہ ہے۔انھوں نے جو بھی لکھا ہے، اس کی ا ہمیت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کہ انھوں نے متن کو علاقائی زاویۂ نگاہ سے نہیں ایک قاری کی نگاہ سے دیکھا ہے۔اور جو کچھ محسوس کیا اسے بے کم وکاست بیان کر دیا۔اردو تنقید کا ذکر ہو یا پھر تحقیق کا، سیدہ جعفر کا ذکر دونوں صورتوں میں ہوگا۔انھوں نے جو کچھ کیا ہے، علمی حلقوں میں اس کا اعتراف بھی کیا گیا ہے، اور آگے بھی لکھا جاتا رہے گا۔جب بھی دکن کے محققین یا ناقدین کا شمار کیا جائے گا ، سیدہ جعفر کا شمار ان اہم لوگوں میں ہوگا جنھوں نے اردو تحقیق و تنقید میں گرانقدر اضافہ کیا ہے۔ ان کی خدمات سے آنے والی نسلیں مستفید ہو تی رہیں گی۔

Dr.Shahnewaz Faiyaz
H.No.1262 Zubaida Building
Near Aoliya Masjid Ghaibi Nagar
Bhiwandi Thane M.H 421302
Mob.No.9891438766
sanjujmi@gmail.com

ماہنامہ اردو دنیا، اگست2016




قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں