10/4/19

رسائل اور خواتین کی خدمات مضمون نگار:۔ مہرین قادر حسین


رسائل اور خواتین کی خدمات
مہرین قادر حسین
اردو میں صحافت کی عمر کوئی دو سو برس کے عرصے پر محیط ہے۔مگر جہاں تک خاتون صحافی یا خاتون کی صحافت کا تعلق ہے تو آزادی ہند تک اس میدان میں چند ہی ایسے رسالے شائع ہوتے تھے جن میں خواتین قلم کاروں کی تحریریں شائع ہوا کرتی تھیں۔دراصل اس کی وجہ اس زمانے کی سماجی اور مذہبی بندشیں تھیں۔اس زمانے کا ایک رسالہ’ معلم نسواں‘ تھا۔ اس رسالے کو محب حسین نے 1892 میں جاری کیا۔ اس رسالے کی خوبی یہ تھی کہ اس میں عورتوں اور لڑکیوں کی تربیت کی مناسبت سے مضامین شامل کیے جاتے تھے۔ اس رسالے میں عورتوں کی تعلیم، ان کے پردہ، لباس اور اسلام میں عورتوں کا مقام و مرتبہ کے حوالے سے مضامین شائع ہوتے تھے، حالانکہ اس رسالے میں شائع مواد میں اعتدال کی کمی محسوس کی جاتی ہے باوجود اس کے اپنے عہد کا یہ ایک اہم رسالہ تھا۔
آزادی سے قبل جو چند رسالے شائع ہوا کرتے تھے ان میں رسالہ عصمت کا نام سر فہرست ہے۔ اس رسالے کو مصور غم علامہ راشد الخیری نے1908 میں جاری کیا۔مولانا نے اس رسالے کی ادارت بھی کی۔ خواتین کو علم کی رغبت دلانے، ان کی تربیت کرنے اور ان کے اندر علمی و ادبی صلاحیتیں پیدا کرنے کی غرض سے علامہ راشد الخیری نے خواتین کے فرضی نام سے اس رسالے میں مضامین تحریر کیے۔ اس رسالے میں مدیر کی ذمے داری مولانا رازق الخیری نے سنبھالی اور اس نے اس رسالے کے معیار کو بلند کرنے کی ہر ممکنہ کوشش کی۔بعد میں مولانا کی بیگم اور معروف ادیبہ آمنہ نازلی نے بھی ادارت کی ذمے داری سنبھالی۔ 1980 تک یہ رسالہ پوری آب و تاب کے ساتھ شائع ہوتا رہا مگر اس کے بعد اس رسالے کا سراغ نہیں ملتا۔
رسالہ’ النساء ‘کا نام اہمیت کا حامل ہے۔ رسالہ النساء کا پہلا شمارہ 1919میں محترمہ صغرا ہمایوں مرزا کی ادارت میں شائع ہوا۔ یہ خواتین کا رسالہ تھا جس میں زیادہ ترخواتین کے مضامین شائع ہوا کرتے تھے۔ اس رسالے کی مدیرہ ایک اصلاحی اور انقلابی مزاج کی خاتون تھیں۔مدیرہ نے ایسے مضامین شائع کیے جن میں عورتوں کی تعلیم، ان کی تربیت پر زور دیا گیا ہو۔
رسالہ ’ عکس‘ محمودہ یاسمین کی ادارت میں گوشہ محل سے 1952 میں میں شائع ہوا۔ اس رسالے کی ایک اہم خوبی یہ تھی کہ مدیرہ چونکہ ایک اچھی افسانہ نگار تھیں لہٰذا انھوں نے اس رسالے کو افسانے کے لیے وقف کردیا۔ اس زمانے کی افسانہ نگار خواتین کی تخلیقات اس رسالے میں شائع ہوا کرتی تھیں۔
ان رسالوں کے علاوہ بھی خواتین کی تحریریں دوسرے رسالوں میں شائع ہوا کرتی تھیں بالخصوص ان کی تخلیقات۔ہاں اتنا ضرور ہے کہ آزادی سے قبل خواتین کی تحریریں کم شائع ہوئیں۔مگر آزادی کے بعد حالات بالکل بدل گئے اور دوسری تمام اصناف اور میدان کی طرح ہندوستانی خواتین نے صحافت میں بھی اپنی موجودگی درج کرائی۔ایسے کئی رسالے ہیں جن میں خواتین کی تحریروں کو ترجیح کے ساتھ شائع کیا جاتا تھا مگر تمام رسالوں پر گفتگو کا یہ موقعہ نہیں اس لیے میں نے اپنے مطالعہ کے لیے تین رسالوں ’خاتون دکن‘، ’روشنی‘، اور’روشی‘ کا انتخاب کیا ہے۔
رسالہ ’خاتون ‘دکن کا پہلا شمارہ نومبر 1962 میں منظر عام پر آیا، اس اہم رسالے کی مدیر اعلی محترمہ صالحہ الطاف تھیں، جو خود ایک اچھی افسانہ نگار تھیں۔ یہ رسالہ ترقی پسند مزاج کا حامل رسالہ تھا باوجود اس کے اس نے کلاسیکی سرمایے سے نظریں نہیں چرائیں بلکہ۔اس رسالے میں خواتین کے ساتھ ساتھ مرد قلمکار کی تحریریں بھی شائع ہوتی تھی۔معین احسن جذبی، یوسف حسین خان، سید حرمت الاکرام،سیدہ جعفر، خدیجہ مستور اور فضا ابن فیضی جیسے اہم لکھنے والوں کی تحریریں شائع ہوا کرتی تھیں۔
رسالہ خاتون دکن میں ’نقش اول ‘ کے عنوان سے اداریے شائع ہوا کرتے تھے جن میں اردو زبان و ادب کے مسائل پر روشنی ڈالی جاتی تھی۔ایک اداریہ ملاحظہ ہو:
’’جو زبان ہندوستان کی تہذیب کی آئینہ دار ہے جس زبان نے اپنے اور پرائے کے احساس کو مٹایا، جس زبان میں ہندوستان کے دل کی دھڑکنیں شامل ہیں، جس زبان نے اندھیروں میں روشنی کا پیغام دیا۔ آج اس زبان کو تسلیم کرنے میں تامل سے کام لیا جارہا ہے۔اردو زبان کی بے بسی پر صرف اظہار ہمدردی کرنا اردو کے حق میں سخت نا انصافی ہے۔ جس زبان میں زندگی کے آثار نمایاں ہیں وہ زبان کبھی ختم نہیں ہوسکتی۔ اردو زبان حالات کی بے راہ روی کے باوجود اپنا احساس دلاتی رہے گی۔‘‘
خاتون دکن کی مدیرہ کے نزدیک اردو زبان کو اس کا جائز حق دلانا ایک اہم مسئلہ ضرور تھا مگر انھوں نے اس کے لیے سیاسی اور سماجی مسائل سے آنکھیں نہیں چرائیں۔ انھوں نے جشن جمہوریہ کے موقعے پر جو اداریہ تحریر کیا وہ بے حد اہم ہے۔ اس اداریے میں انھوں نے یوم جمہوریہ کو ’خواب کی عملی تعبیر‘کے دن سے تعبیر کیا ہے۔انھوں نے جنگ آزادی میں جان و مال کی قربانی دینے والے عظیم وطن پرستوں کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔
رسالہ ’خاتون دکن‘میں خدیجہ مستور کا ایک مضمون شائع ہوا تھا جس کا عنوان ’بیٹی‘ تھا۔اس مضمون میں انھوں نے لڑکے اور لڑکی کے درمیان ہونے والے فرق کو سماج کے لیے نقصاندہ بتایا ہے، ان کا خیال ہے کہ بیٹا ہو یا بیٹی والدین کو چاہیے کہ دونوں کی تعلیم و تربیت کا یکساں طور پر خیال رکھیں۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمارے سماج میں بیٹا اور بیٹی میں فرق کیا جاتا ہے والدین بیٹی کو تعلیم دلانے کے بجائے ان کو امور خانہ داری میں لگا دیتے ہیں۔ والدین کے اس رویے سے لڑکیوں کے اندر احساس کمتری پیداہوجاتا ہے جس سے کئی طرح کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
رسالہ خاتون میں سنجیدہ موضوعات پر تو مضامین ملتے ہی ہیں ساتھ ہی انشاےئے اور طنز و مزاح بھی اس رسالے کی زینت بنتے رہے۔خود مدیرہ صالحہ الطاف طنز و مزاح کے گرتے معیار سے پریشان تھیں اور ان اس کو بہتر بنانے کی کوشش میں لگی رہتی تھیں،یہی وجہ ہے کہ اس رسالے میں طنز و مزاح پر کئی اچھے مضامین شائع ہوئے۔ مجتبی حسین، سرورجمال، احسن علی مرزا اور پروین سرور وغیرہ کی تحریروں نے بھی طنز و مزاح کو ایک نئی سمت دینے کی کوشش کی۔
رسالہ ’خاتون دکن‘ میں افسانے اور ڈرامے بھی کثرت سے شائع ہوا کرتے تھے۔ جن افسانہ نگاروں کی کہانیاں اس رسالے میں شائع ہوئیں ان میں علی عباس حسینی، کیدار شرما، زین العابدین، سلمیٰ شاکر اور طاہرہ صدیقی کے نام اہمیت کے حامل ہیں۔ قرۃ العین حیدر کا ناولٹ’کار من‘ بھی اسی رسالے میں شائع ہوا تھا۔ 
جہاں تک شاعری کا تعلق ہے تو رسالہ ’ خاتون دکن‘ میں نظمیں، غزلیں، قطعات، رباعیات شائع ہوا کرتی تھی۔ شعری تخلیقات کے حوالے سے اس رسالے کو اس زمانے کے شعرا کا پورا تعاون حاصل تھا۔شاذ تمکنت، شہریار، مظفر حنفی، قیس رام پوری، غلام مرتضٰی راہی، اور حسرت جے پوری کی شعری تخلیقات اس رسالے میں شامل ہوئیں۔
خاتون دکن کی ایک اہم خوبی یہ تھی کہ اس رسالے میں شائع ہونے والے مواد کو صنف کے اعتبار سے الگ الگ نام دیا جاتا تھا، مثلاً اداریے کے لیے جہاں ’نقش اول‘ کا عنوان تھا وہیں تخلیقات کے لیے’سوز و ساز‘، تبصروں کے لیے ’سرگزشت دل‘ مستقل کالم کے لیے ’عکس جمیل‘ اور قارئین کے خطوط اور ان کی آرا کے لیے ’آواز جرس‘کا عنوان ملتا ہے۔
رسالہ ’خاتون دکن‘ بنیادی طور پر خواتین کا رسالہ تھا جو خواتین کے لیے وقف تھا اس میں شائع ہونے والی تحریروں کی اہم خوبی یہ تھی کہ اس میں خواتین کی ترجیحات اور دلچسپیوں کا خیال رکھا جاتا تھا۔
رسالہ ’قلم کار‘ احمدی بیگم کی ادارت میں نکلنے والا ایک اہم رسالہ تھا۔یہ رسالہ مغل اکادمی حیدر آباد سے شائع ہوتا تھا بلکہ یہ رسالہ اکادمی کا ترجمان تھا۔اس رسالے کی مجلس مشاورت میں ابو ظفر،عبدالواحد، رفیعہ سلطانہ، جہاں بانو نقوی اور سید مہدی حسین وغیرہ شامل تھے۔رسالہ’ قلم کار‘ کا اداریہ ’سوجھ بوجھ، کے عنوان سے شائع ہوتا تھا۔یہ ایک کلاسیکی اقدار کے ساتھ ساتھ ترقی پسند فکر کا ترجمان رسالہ تھا۔کسی بھی رسالے کا مزاج اس کے اداریے سے پتہ چلتا ہے۔ اس رسالے کے اداریے کا مطالعہ کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس رسالے کا ایک مقصد ترقی پسند تحریک کی صحت مند ترویج و اشاعت کے ساتھ ساتھ اردو زبان و ادب کی صورت حال کو مزید بہتر بنانے اور استحکام بخشنے کی کوشش کرنا تھا۔ ایک اداریہ ملاحظہ کریں:
’’اس وقت صورت حال یہ ہے کہ وہ لوگ بھی جن کی مادری زبان اردو ہے اپنی زبان سے اغماض برت رہے ہیں بعض ارباب نظر کے اندازے کے مطابق اردو زبان جاننے والوں کا دائرہ تنگ ہوتا جارہا ہے کیونکہ نئی نسل کی تعلیم انگریزی، ہندی یا تیلگو زبانوں میں ہورہی ہے،یہ واقعی ایک حزنیہ ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ نئی نسل کو اردو زبان میں تعلیم دلانے پر راغب کرنے کی مہم چلائی جائے۔‘‘
احمدی بیگم نے جس جانب اشارہ کیا ہے صورت حال آج بھی ویسی ہی بنی ہوئی ہے۔ کسی بھی زبان کے زوال کی وجہ اس کے قارئین کا فقدان ہے۔ اور قاری کی تعداد بڑھانے کے لیے سب سے اہم ہے اسکول میں اردو کی تعلیم دی جائے، جب تک بچے اس زبان کو نہیں سیکھتے تب تک اس زبان کو کیا کسی بھی زبان کو وقار نہیں مل سکتا۔اس لیے اردو زبان کی موجودہ صورت حال کو بدلنے کے لیے بچوں کو ابتدائی تعلیم میں دوسرے مضامین کے ساتھ اردو کی تعلیم کو بھی شامل کرنا ہوگا۔رسالہ ’قلم کار‘ نے ہمیشہ ایسے موضوعات کو اپنے رسالے میں جگہ دی جن سے صحت مند ادب کو فروغ ملے۔اس رسالے پر گفتگو کرتے ہوئے اس کے دو خصوصی نمبرات کا ذکر کیے بغیر گفتگو مکمل نہیں ہوسکتی۔ اس رسالے نے اکتوبر، نومبر 1964 میں شخصیت اور فن طنز و مزاح و انشائیہ نقد و نظر شائع کیا جب کہ دسمبر، جنوری 1966’افسانہ نمبر‘ شائع ہوا۔اس رسالے میں شائع ہونے والے قابل ذکر قلم کاروں میں کوثر چاند پوری، خواجہ احمد فاروقی، راجہ مہدی علی خاں، مغنی تبسم، طالب رزاقی، اکرام جاوید، فضا ابن فیضی،نیاز فتح پوری، سید مہدی حسین وغیرہ اہم ہیں۔ اس رسالے میں گرچہ خواتین کے مسائل کو ترجیح کے ساتھ شائع نہیں کیا گیا مگر جیسا میں نے پہلے عرض کیا میرے پیش نظروہ رسائل تھے جن میں خواتین کے مسئلے یا ان کی تحریروں کو ترجیح دی جاتی تھی ساتھ ہی میرے پیش نظر وہ رسالے بھی ہیں جن کی ادارت خاتون نے کی تھی اس حوالے سے رسالہ قلم کار اہم ہے۔
خواتین کی نمائندگی کرنے والا ایک اہم رسالہ ’روشنی‘ تھا۔یہ رسالہ ہاجرہ بیگم کی ادارت میں دہلی سے شائع ہوتا تھا۔اس رسالے کے سر ورق پر ’انجمن خواتین ہند کا ماہنامہ رسالہ‘ درج ہوتا تھا۔اس جملے سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس رسالے کا اصل اور بنیادی مقصد عورتوں کے اندر حقوق کے تئیں بیداری پیدا کرنااور ان کو با اختیار بنانے کا تھا، شاید یہی وجہ ہے کہ اس رسالے میں شامل بیشتر تحریروں کا تعلق خواتین کے مسائل سے ہوتا تھا۔ہاجرہ بیگم نے اپنے ایک اداریے میں لکھا ہے کہ خواتین کو سیاست میں عملی حصہ لینا چاہیے کیونکہ یہی وقت کی ضرورت ہے۔رسالہ روشنی نے عورتوں کے اندر سماجی اور معاشرتی بیداری کے ساتھ ساتھ سیاسی بیداری کو بھی وقت کی اہم ضرورت سمجھا۔اور اپنے مقاصد کی حصولیابی کے لیے ایسے مضامین شائع کیے جن میں مرد اور عورت کے درمیان پیدا ہوئے سماجی، سیاسی اور معاشرتی فرق کو مٹایا جاسکے اسے کم کیا جاسکے۔اس رسالے نے عالمی پیمانے پر خواتین کے مسائل کو اپنے رسالے میں جگہ دی یہی وجہ ہے انڈونیشیا کی خواتین تحریک بلکہ بین الاقوامی سطح پر ہورہی تحریکوں کے متعلق مضامین کو اپنے صفحات پر جگہ دی۔ 
بیسویں صدی میں شائع ہونے والا ایک اہم رسالہ ’روشی‘ تھا۔ اس رسالے کی ادارت رونق جہاں زیدی کے ہاتھوں میں تھی۔ یہ ایک ادبی نوعیت کا رسالہ تھا،جس میں ادبی مضامین کے علاوہ تمام اصناف ادب اور شاعری کو جگہ دی جاتی تھی مگر رسالے کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ مدیرہ کے پیش نظر افسانے کی ترویج و اشاعت اہم مسئلہ تھا،یہی وجہ ہے کہ تقریبا تمام ہی شمارے میں7 سے 8 افسانے شائع ہوا کرتے تھے۔
رسالہ ’روشی‘ کی نوعیت گرچہ ایک ادبی رسالے کی تھی مگراس رسالے نے سماجی، معاشی اور سیاسی مسائل کو بھی اپنے صفحات پر خصوصیت کے ساتھ شائع کیا۔ مارچ 1973 کا ایک اداریہ ملاحظہ کریں:
’’اگر ہمیں ملک سے تعصب، تنگ نظری اور فرقہ پرستی کا قلع قمع کرنا ہے تو ہمیں عقلی سطح پر نیچے اتر کر دلوں اور جذبات کے ذریعے کام کرنا ہوگا۔اور ہندو مسلمانوں میں باہمی میل ملاپ کی فضا استوار کرنے کے لیے کلچر اور زبان کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی کوشش کرنی ہوگی کیونکہ یہ مسلمہ ہے کہ کلچر کا ہتھیار ایسا قومی ہتھیار ہے جس نے دنیا کی قوموں کی تقدیریں بدل دیں اور جس کا توڑ آج تک نہیں پیدا ہوسکا۔‘‘
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اتحاد کی اپنی ایک اہمیت ہے۔ جس قوم یا ملک میں اتحاد نہ ہو وہ برباد اور نیست و نابود ہوجاتے ہیں۔ہندوستان کی تقسیم کے بعد یہاں کی فضا بالکل بدل گئی، یہاں ایک ایسا طقہ پیدا ہوا جو اپنے سیاسی مفاد کے لیے مذہب کے نام پر منافرت پھیلانے کا کام کیا، جس سے ملک و قوم کی ترقی میں رکاوٹ پیدا ہوگئی۔آج بھی صورت حال جوں کی توں بنی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہندو مسلم اتحاد کی اہمیت و افادیت کو سمجھیں اورایک دوسرے کے کلچر کو محبت کی نظر سے دیکھیں انھیں اپنائیں۔ رسالہ روشی کے ذمے داران نے وقت کی ضرورت کے پیش نظرادبی اور خواتین کے مسائل کے ساتھ ساتھ قومی یکجہتی پر بھی زور دیا ہے۔ رسالہ روشی کا ڈاکٹر ذاکر حسین نمبر قابل ذکر ہے۔یہ شمارہ مئی تا جون 1973میں شائع ہوا۔ اس شمارے میں رشید احمد صدیقی، ڈاکٹر عابد حسین، پروفیسر مجیب، آل احمد سرور، ڈاکٹر سلامت اللہ اور عابد رضا بیدار جیسی علمی شخصیات کے مضامین شامل تھے۔اس کے علاوہ غلام ربانی تاباں، عرش ملسیانی، جگن ناتھ آزاد، شہریار اور نازش پرتاپ گڑھی جیسے شعرا ئے کرام کی نظمیں شائع ہوئیں جس میں شعرا نے ڈاکٹر ذاکر حسین کو خراج عقیدت پیش کیا تھا۔
مجموعی طور پر خواتین کے مسائل پر بیسویں صدی میں کئی اہم رسالے منظرِ عام پر آئے، ظاہر ہے تمام رسالوں پر تفصیلی گفتگو کرنے کا یہ موقعہ نہیں۔میں نے چند رسالوں کے حوالے سے اردو صحافت میں خواتین کی شمولیت کے ساتھ ساتھ ان کی ترجیحات کو جاننے کی کوشش کی ہے۔یہ رسالے دراصل حقوق نسواں میں کافی معاون ثابت ہوئے۔ تانیثیت کی ابتدائی شکل بھی کہیں نہ کہیں ان رسالوں میں نظر آتی ہے۔ معاصر عہد میں بھی کئی خواتین اپنی تحریروں سے صحافتی خدمات انجام دے رہی ہیں۔

Mehreen Caderhoossen, 
(Part Time lecturer, Urdu Dept. Mahatma Gandhi Institute, Moka, Mauritius), 
PostalAddress: Kallychurn Lane, Saint Paul
Phoenix, Mauritius 
Ph.: 0023059318023
Email.: angeltash00@gmail.com

ماہنامہ اردو دنیا، جولائی2016



قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں