29/3/19

موسیقی اور ہماری زندگی مضمون نگار:۔ اختر آزاد



موسیقی اور ہماری زندگی
اختر آزاد

انسان ارتقائی دور میں جیسے جیسے تہذیب کی منزلوں سے آگے بڑھتارہا، سنگ تراشی، رقص، مصوری، موسیقی اور دوسرے فنون لطیفہ بھی ساتھ ساتھ سفر کرتے رہے۔ آج ’فنون لطیفہ ‘ہماری زندگی کا ایک حصہ ہے اور اس کا ایک اہم جْز ’موسیقی ‘ہے،جسے اپنی زندگی سے اگر الگ کر دیں تو سماجی توازن بگڑ جائے گا۔
سُر کی پُر مغز زبان’ موسیقی‘ ہے۔ یعنی ایک ایسی زبان جو ساز کی سنگت میں آ کر کائنات کو اپنے حصار میں محصور کر لے اورفطری طور پر اس کا مثبت یا منفی اثر اس طرح پڑے کہ زندگی کے نگار خانے میں ہلچل مچ جائے... سُر تال سے سجے الفاظ جب نغموں میں ڈھل کرہماری سماعت سے ٹکراتے ہیں اور دماغ کے تار وں پر انگلی پھیرتے ہوئے روح سے ہم کلام ہوتے ہیں تواس کیفیت سے گزرتے ہوئے کبھی ہماری آنکھیں بھیگ جاتی ہیں اورکبھی خوشیوں کی قوس وقزح چہرے پہ اپنا نقش چھوڑ جاتی ہے۔
موسیقی کی بنیاد جہاں’ ترنُّم ‘ہے وہیں شاعری کی روح’ علم عروض ‘ہے۔ ایک بہترین موسیقی کے لیے دونوں کے درمیان آہنگ کا ہونا ضروری ہے۔جسے نہایت ہی فنکاری کے ساتھ ایک دوسرے میں اس طرح پرو یا جائے کہ دونوں کا حُسن دوبالا ہو جائے۔ کبھی کبھی کمزور شاعری کو بہترین موسیقی اپنے دم پر سامع کے لیے ایسی صدا بند کرتی ہے کہ وہ اس کے سحر میں ڈوب جاتا ہے۔
مولانارومی جیسے عظیم شاعرنے ہی اپنی مثنوی کا آغاز کسی حمد، نعت سے نہ کر کے ایک ایسے شعر سے کیا ہے جس میں بانسری کی گونج سُنائی دیتی ہے۔ شعر دیکھیے:
بشو از نے چون حکایت میکند
وز جدائی ہا شکایت میکند
(بانسری کو سنو جب وہ اپنی کہانی سناتی ہے، اور جدائیوں کا رونا روتی ہے)
آئیے اب اصل موضوع کی طرف چلتے ہیں۔ موسیقی انسانی گلے سے پیدا ہونے والا وہ سُر تال ہے جوہماری روز مرہ کی زندگی کے تقریباً تمام شعبہ جات میں اپنا اثر رکھتی ہے۔ لیکن یہ انسان کی اپنی ذہنیت پر منحصر ہے۔وقت، موسم، واقعہ،حادثہ، خوشی، غم یہ ساری چیزیں انسانی ذہن کو مہمیز کرتی ہیں۔ حالات کے پیش نظر موسیقی انسان کی پسند کا حصہ بنتی ہے۔
جہاں بچے کی پیدائش پر خوشیاں منائی جاتی ہیں، وہیں موت کے بعد گاجے باجے کے ساتھ ارتھی لے جانے کی روایت ہمارے ہندوستانی سماج میں موجود ہے۔ پیدائش اور موت کے درمیان بے شمار ایسے لمحات خوشیوں کے آتے ہیں جسے ہم رقص و سرود سے مناتے ہیں۔ اگر موسیقی کا تڑکا نہ ہو تو گویا ہم نے خوشیاں منائی ہی نہیں۔ بڑے بڑے لاؤڈِسپیکر کا استعمال دور دراز تک اپنی خوشیاں پہنچانے کے لیے کیے جاتے ہیں۔ 
بیش ترلوگ تہوار کے موقع پر موسیقی سے لطف اندوز ہونا پسند کرتے ہیں۔کچھ لوگ ہلکی موسیقی سے تو کچھ تیزآواز کو ترجیح دیتے ہیں۔ شادی میں ہلدی کے گیت گا کرعورتیں ماحول کو خوشگوار بناتی ہیں۔ بارات میں ڈسکو پر نوجوانوں کے پاؤں تھرکتے ہیں۔ دلہن کے گھر پہنچتے ہی ’دل والے دُلہنیا لے جائیں گے‘ جیسے گیت اپنا جادو بکھیرتے ہیں،وہیں ’بابل کی دعائیں لیتی جا، جا تجھ کوسکھی سنسار ملے‘ جیسے نغموں کے بغیر ہندوستانی دُلہن کی رخصتی ہی ممکن نہیں۔
سر فروشی کی تمنّا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
پندرہ اگست اورچھبّیس جنوری جیسے قومی تہواروں پرجب ایسے نغمے اور ترانے فضاؤں میں رقص کرتے ہیں تو لوگ حبّ الوطنی کے جذبے سے سرشار شہیدوں کی قربانیوں کو یاد کرتے ہیں۔آنکھیں نم ہوتی ہیں اور ساتھ ساتھ آزادی کا جشن بھی جاری رہتا ہے:
اے میرے وطن کے لوگو! ذرا آنکھ میں بھر لو پانی 
جو شہید ہوئے ہیں ان کی ذرا یاد کرو قربانی 
جوانوں کے اندر جوش وولولہ پیدا کرنے کے لیے علامہ اقبال کا قومی گیت ’ترانۂ ہندی‘ ’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘کی دھُن چاروں طرف گونجتی ہے۔ مقبولیت میںآج تک کوئی گیت اس کی برابری نہیں کرسکا۔یہاں تک کہ جب خلا میں پہلی بار ہندوستان کی نمائندگی کرنے والے راکیش شرما سوویت راکٹ Soyuz T-11 سے 02 اپریل 1984 کو پہنچے اور سات دن تک رہے تواس وقت کی وزیر اعظم آنجہانی اندرا گاندھی نے پوچھا تھا۔’’تمھیں بھارت ورش کیسا لگ رہا ہے۔‘‘ خلا سے بے ساختہ ان کی زبان سے یہی نکلا تھا۔ ’’سارے جہاں سے اچھاّ......‘‘اس واقعہ کا جب بھی ذکر آتا ہے اردو والوں کا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے..... قومی اوربین الاقوامی سطح پر جو بھی پروگرام ہوتے ہیں اس میں قومی ترانہ ’جن گن من‘ہماری شان میں اضافہ کرتا ہے۔ 
دوران سفر موسیقی سے لطف اندوز ہونا لوگوں کی فطرت میں شامل ہے تاکہ پریشانی موسیقی میں تحلیل ہو کر کافور ہو جائے اور ان کا سفر آسان سے آسان تر ہوجائے۔ لیکن یہ منحصر ہے کہ سفر کیسا ہے؟ اس کی مناسبت سے لوگ ویسی ہی تیّاریاں کرتے ہیں۔ آج تو موبائل اور پین ڈرائیوکا زمانہ ہے۔ لوگ اپنی پسند کے اتنے سارے نغمے محفوظ کر لیتے ہیں کہ سفر جیسا بھی ہو،موسیقی ان کی تھکان کو زائل کر کے تازگی بخشتی رہتی ہے۔ کچھ لوگ موسیقی کے اتنے عادی ہوتے ہیں کہ صبح سویرے ضروریات سے فارغ ہوتے ہی میوزک آن کر دیتے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں جن کی سماعت میں میٹھے بول کے رس جب تک ٹپ ٹپ ٹپ نہ ٹپکے، نیند کی دیوی مہربان ہی نہیں ہوتی۔ 
اس نفسیات سے جڑے لوگوں کے لیے جب تک میوزک چلتا رہتا ہے۔ طمانیت سے بھر پور نظر آتے ہیں۔ لطف اندوز بھی ہوتے ہیں اور دوسرے کام کو نپٹاتے بھی رہتے ہیں۔ لیکن جیسے ہی بجلی گئی، رفتار میں کمی آ جاتی ہے۔ کام میں دل نہیں لگتا۔ جیسے کوئی اہم شے اس کے وجود سے کٹ کر الگ ہوگئی ہو۔ حرکات وسکنات میں بھی تبدیلیاں رونُما ہو نے لگتی ہیں۔ لیکن بجلی واپس آتے ہی ایک بار پھر موسیقی کمرے میں جادو بکھیرنا شروع کر دیتی ہے۔ جسم میں توانائی لوٹ آتی ہے اور کام کرنے کی رفتار پہلے کی طرح تیز ہو جاتی ہے..... ایسا کچھ طالب علموں کے ساتھ بھی دیکھا گیاہے کہ جب تک میوزک سسٹم آن ہے تب تک وہ دلجمعی کے ساتھ اپنے نوٹس بناتے ہیں لیکن جیسے ہی موسیقی کا رشتہ ٹوٹا ایک بے چینی سی دکھائی دینے لگتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ تعلیم کے دوران موسیقی طالب علموں کے لیے مضر ہے لیکن کچھ کے لیے یہی مدھر سُر دلچسپی کا سبب بھی بنتا ہے۔ 
موسیقی سے قوت حافظہ پر بھی اثر پڑتا ہے۔ اوائل عمری میں طالب علموں کے ادراک و وجدان کو موسیقی جِلا بخشتی ہے۔آج پوری دنیا کمپیوٹر ایج میں داخل ہو چکی ہے۔لوگ کمپیوٹر پر کام بھی کرتے ہیں اور ہلکی موسیقی بھی سنتے ہیں۔ دیر تک کام کرنے والوں کے لیے موسیقی ایک طرح سے توانائی کے حصول کا کام کرتی ہے۔
یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جب انسان تنہا ہوتا ہے تو موسیقی کا سہارا لیتا ہے۔ جب سنسان راہوں پر چلتا ہے اور ڈر رہا ہوتا ہے تو وہ ہم سفر کے طور پر موسیقی سے دوستی کرلیتا ہے، گنگنانا شروع کر دیتا ہے تاکہ خوف پر غالب ہوسکے۔ کھانے کے درمیان بھی لوگ مدھم سرمیں موسیقی سننا پسند کرتے ہیں۔ غمگین اور ذہنی طور پر پریشان شخص خود کو باہر نکالنے کے لیے موسیقی کا سہارا لیتا ہے۔
کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کے لیے بھی ’چک دے انڈیا‘ جیسے گیت توانائی کا کام کرتے ہیں۔ انسانیت کا درس دینے کے لیے بھی ’ ہندو بنے گا نا مسلمان بنے گا، انسان کی اولاد ہے انسان بنے گا‘ جیسے گیتوں نے قومی بھائی چارے کے پیغام کو عام کیاہے۔بڑے بڑے مفکر، دانشور، سیاست داں اپنی تقاریر میں جان ڈالنے کے لیے کچھ ایسے اشعار کا استعمال کرتے ہیں جو سننے والے پر فوری طور پر اثر انگیز ہوتے ہیں۔زندگی کے اسیج پر کھیلا جانے والا کوئی بھی ڈرامہ ہو اس کی کامیابی کی ایک ضمانت موسیقی بھی ہے۔ 
میوزک انٹلی جنس (جارجیاٹیک) کے ڈائرکٹر پراگ کورڈیا ان دنوں ایک ایسی چیز کی تلاش میں سرگرداں ہیں کہ’’سائنسی مسائل اور ریاضی کو حل کرنے کے لیے موسیقی کس طرح معاون ثابت ہو سکتی ہے‘‘۔ ان کا یہ بھی سوچنا ہے کہ جب موسیقی غنائی تجربات، قلب و ذہن کو جلا بخش رہی ہیں تو پھر سائنس اور ٹیکنالوجی پر بھی اس کے مثبت اثرات پڑیں گے۔
ایک دلچسپ بات جو مجھے یہاں گوش گذار کرنی ہے کہ بہت سارے ڈاکٹر علاج کے لیے موسیقی کا سہارا لیتے ہیں۔ 
موسیقی ابتدائی دور سے معاشرے میں روشن فکر پیدا کرنے میں معاون رہی ہے، یہ آرٹ اور ادب کی طرح ہمارے کلچر کا حصہ بھی ہے۔ یہ کلچراپنے سینے میں کائنات کی طرح پھیلاؤ رکھتا ہے۔ اس سے معاشرتی اقدار کو سنوارنے کا کام بھی لیاجا تا ہے۔موسیقی کا نہ کوئی وطن ہوتا ہے اور نہ ہی سرحد:
پنچھی، ندیاں، پون کے جھونکے
کوئی سرحد نہ انھیں روکے
موسیقی سرحدوں کی بندشوں کو نہیں مانتی۔ہواؤں کے دوش پر سفرکرتی ہے۔ ایسے وقت میں بھی جب ملکوں کے درمیان ماحول کشیدہ ہو۔ لیکن فن کے پرستاروں کو اس سے کوئی مطلب نہیں ہوتا۔(یہ الگ بات ہے کہ کبھی کبھی کوئی نازیبا حرکت وقتی طور پر کسی فنکار کے پیروں میں بیڑیاں باندھ دیتی ہے) جنگ کے میدان میں حریف اپنے پسندیدہ فنکاروں کے نغمے سنتے ہیں۔اس لیے یہ کہا جاتا ہے کہ فن کار کبھی ایک ملک کا نہیں ہوتا۔
آج لَے اور سُر کے بغیرہم زندگی کا تصور ہی نہیں کر سکتے۔یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا میں موسیقی ایک انڈسٹری کا درجہ رکھتی ہے۔ بے شمار لوگ اس فن کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔کوئی لکھتا ہے۔کوئی ساز تیار کرتا ہے اور اس کے بعدکوئی اسے اپنی آواز کے جادو میں ڈھال کر لوگوں کی روح میں اُتارنے کی کوشش کرتا ہے۔ موسیقی نے آج کتنے گھروں میں زندگی کا چراغ روشن کر رکھا ہے۔کتنے لوگوں کو روزی روٹی سے جوڑ رکھا ہے۔ اس کا اندازہ آپ کو تب ہو گا جب آپ اس کے متعلق ریسرچ کرنے بیٹھیں گے۔
لوری موسیقی ہے۔ رونا موسیقی کا ہی ایک حصہ ہے۔ نیند کے خراٹے میں بھی موسیقی ہے۔پہاڑوں سے گرتے ہوئے پانی میں موسیقی۔ بارش کی رِم جھِم میں موسیقی۔ہوا کی سرسراہٹ میں موسیقی۔بادل کی گڑگڑہٹ میں موسیقی۔سوکھے پتّوں کی چرچراہٹ میں موسیقی۔ پرندوں کی پھڑپھڑاہٹ میں موسیقی۔ چڑیوں کی چہچہاہٹ میں موسیقی۔ہونٹوں کی تھرتھراہٹ میں موسیقی۔چوڑیوں کی کھنک میں موسیقی۔پائل کی چھم چھم میں موسیقی۔سمندر کی لہروں میں موسیقی۔آنکھوں کی جھیل سی گہرائی میں موسیقی۔ کتابوں کے اوراق میں موسیقی۔ پنکھے کی رفتار میں موسیقی۔جلتی آگ سے اُٹھتی چنگاریوں میں موسیقی۔ ٹرین کی چھُک چھُک میں موسیقی۔ گھڑی کی ٹِک ٹِک میں موسیقی۔ہوائی جہاز کی اُڑان میں موسیقی۔پھولوں پر منڈلاتے بھنوروں کی گنگُناہٹ میں موسیقی۔کمپیوٹر کے کی بورڈ پر رقص کرتی انگلیوں میں موسیقی۔قلم کی صر صر میں موسیقی۔کبوتر کی غٹرغوں میں موسیقی۔ کوئل کی کوک میں موسیقی۔شیر کی دہاڑ میں موسیقی۔سائل کی فریاد میں موسیقی۔ گھائل کی آہ میں موسیقی۔حسن کی انگڑائی میں موسیقی۔موسیقی کہاں نہیں ہے... ؟ یہاں تک کہ دو نفوس کے درمیان سانسوں کی بے ہنگم آمدو رفت میں بھی موسیقی اپنا جلوہ دکھاتی ہے جس کے نتیجے میں افزائش نسل کا کاروبار پروان چڑھتا ہے۔یعنی زندگی کے ہر رنگ میں موسیقی ہے۔ کائنات کے ذرّے ذرّے میں موسیقی ہے۔اگر یہ نہ ہو تو ہماری زندگی بے لطف اوربے کیف ہو کر رہ جائے گی۔


Dr. Akhtar Azad, 
House No-38, Road No.:1
Azad Nagar Mango, Jamshedpur - 832110
Mob.: 9572683122, dr.akhtarazad@gmail.com 




ماہنامہ اردو دنیا، جون2016


قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں