29/3/19

ہندوستان اور ازبکستان کے درمیان سماجی اور تہذیبی روابط مضمون نگار: ابوسعد اعجاز



ہندوستان اور ازبکستان کے درمیان سماجی اور تہذیبی روابط
ابوسعد اعجاز

بیسوی صدی کی آخری دہائی کے اوا ئل میں سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد وسط ایشیائی ممالک ایک عجیب و غریب آزمائش کے دورسے گزر رہے تھے۔ جدید دور کی نئی سرحدوں کے بیچ مختلف لسانی اور تہذیبی وراثت کے حامل ممالک کا وجودعمل میں آیا۔ان ممالک کی اہمیت مختلف وجوہ کی بنا پر مسلم تھی جو اپنے وجود کو منوانے کی صلاحیت کی تمام ترخوبیوں سے آراستہ تھے۔ وسط ایشیائی ممالک، خاص کر قزکستان، ازبکستان اور کرغستان میں بہت سی قدرتی معدنیات کا ذخیرہ موجود ہے۔
وسط ایشیا دنیا کی قدیم لسانی، تہذیبی آماجگاہ ہے۔ یہاں کی تہذیب نے دنیا پر اپنے نقوش چھوڑنے کے ساتھ ساتھ اپنے رنگ میں رنگنے کی کامیاب کوشش بھی کی ہے۔ اس خطے سے نہ جانے کتنے تاریخی قصے کہانیاں وابستہ ہیں۔ اسی سرزمین سے سگدینا تہذیب کا عروج ہوا، اسی سرزمین سے البیرونی (1048ھ۔1973) جیسا عالم، امام بخاری (810-870) جیسا مستند محدث، امام ابو حنیفہ جیسا جید فقیہ، ابن سینا)(980-1037)جیسا جدید میڈیکل سائنس کا موجد، موسیٰ الخوارزمی (780-850) جیسا ماہر حساب داں، الغ بیگ (1344-1449)جیسا ہئیت داں اور علی شیر نوائے (1441-1501)جیسا شاعر پیدا ہوا۔ البیرونی نے نہ صرف اپنے پڑوسی ممالک کی سیر وسیاحت کی،بلکہ وہاں کے مذہبی، سماجی، ثقافتی، تاریخی اور روایتی علوم پر تحقیق بھی کی اور ’ کتاب الہند‘ جیسی شہرۂ آفاق کتاب لکھ کر وسطی ایشیا میں ہندوستان کو متعارف کرایا۔
ازبکستان وسط ایشیائی ممالک سے چاروں طر ف سے گھرے ہونے کے ساتھ ساتھ ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ امو اور سیر دریا کے بیچ واقع یہ ملک تقریبا447 مربع کلومیٹر رقبے پر محیط ہے۔ اس خطے میں بہت سے مشہور شہر آباد ہیں جیسے بخارا، سمرقند، فرغنہ، خیوہ اور خوارزم وغیرہ۔ قدیم ریشمی شاہراہ اسی خطے سے ہوکر گزرتی ہے جس پر تجارتی قافلوں کے ساتھ ساتھ تہذیب و ثقافت کا سفر رواں دواں رہا۔ آج کا ازبکستان جس کے کرشمائی اور دلفریب مناظر کو سیاح کی نگاہیں دیکھ کر لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ ازبک پلاؤ اور سبز چائے سے خود کو محظوظ کرتی ہیں ۔
انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے شروعاتی دور میں ہندوستانیوں کی ایک بڑی تعداد وسط ایشیائی ممالک میں سکونت پذیر رہی ہے۔ایک اندازے کے مطابق سات سے آٹھ ہزار کے درمیان ہندوستانی وہاں آباد تھے جس میں غالب اکثریت سندھ، پنجاب اور ملتان کی تھی ان میں ہر مذہب کے لوگ پائے جاتے تھے۔
ہندوستان اور ازبکستان کے بیچ تہذیبی اور ثقافتی روایت صدیوں پرانی ہے۔ صدیاں گزرنے کے بعد بھی اس رشتے کا رنگ مدہم نہیں ہوا۔ سیاسی، تجارتی اور عصری دانشوری کی روایت کے آثار ہر جگہ ہمیں نظر آتے ہیں۔ ہندوستان اور وسط ایشیا میں نمایاں طور پر مذہب کو اولیت حاصل ہے جن میں بدھ مذہب اور صوفی ازم زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ بدھ مذہب جو انسانی قدروں کا پاسدار ہے، ہندوستان میں پیدا ہوا لیکن ہندوستان کے باہر پروان چڑھا۔ یہ مذہب اپنے پیروؤں کے ذریعہ مذہبی اصولوں اور اخلاقی قدروں کے ساتھ ساتھ ہندوستانی تہذیب وثقافت کے علاوہ یہاں کی زبانوں کو بھی اپنے ساتھ دنیا کے مختلف حصوں میں لے گیا۔ اس ضمن میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ بدھ مذہب کی تعلیمات نے ہندوستانی زبانوں، رسم الخط اور فلسفہ کو پروان چڑھانے میں اہم کردار اداکیا ہے۔
روایتی رشتوں کی بنیادیں آٹھویں صدی کے نصف اول میں عباسی خلافت کے وجود میں آنے کے ساتھ ساتھ شروع ہوئی ہیں۔ اس زمانے میں تجارتی اور تہذیبی رشتوں کو جلا ملی۔ دہلی سلطنت اور مغل شہنشاہ خاص کر التمش، محمد بن تغلق اور جلال الدین محمد اکبر نے اپنے زمانے میں علوم و فنون کے ماہر لوگوں کو اپنے دربار میں اعلیٰ مقام پر فائز کیا۔ انہیں زمانوں میں فارسی، سنسکرت اور ترکی زبانوں کے بہت سے کاموں کا ترجمہ ہوا۔ 
مغل فرمانروا اپنی سرحدوں کو مسلسل وسعت دینے کے ساتھ ساتھ اپنے عہد کے علوم و فنون کی ترقی سے کبھی غافل نہیں رہے۔ انہوں نے جہاں دنیا بھر کے علماء و دانشوروں سے استفادہ کیا وہیں وسط ایشیا کے علما ء و دانشوروں سے چشم پوشی نہیں کی،بلکہ ان کے علم سے بھی فائدہ اٹھایا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ان حکمرانوں کا نسبی تعلق بھی انہیں خطوں سے تھا۔ 
صوفی ازم زندگی گزارنے کا ایک روحانی تصور پیش کرتا ہے جس کے توسط سے ہم خدا تک رسائی حاصل کرتے ہیں۔ چشتیہ، سہروردیہ، قادریہ اور نقشبندیہ سلسلے صوفی ازم کے اہم سلسلے گردانے جاتے ہیں۔ ان تمام کا وجود کہیں نہ کہیں وسط ایشیائی ممالک میں ملتا ہے اور ہندوستان میں اس کو خندہ پیشانی کے ساتھ قبول کیا جا تا ہے۔ صوفی ازم مذاہب اور تہذیبوں کے بیچ ربط کا کام سرانجام دینے کے علاوہ امن اور بھائی چارگی کو فروغ دینے میں ایک امتیازی حیثیت کا حامل ہے۔ تمام صوفی امن کے پیغامبر ہونے کے ساتھ ساتھ روحانی اور اخلاقی قدروں کو پروان چڑھانے میں یقین رکھتے تھے۔ ان کی خانقاہیں تمام مذاہب کے ماننے والوں کے لیے یکساں طور پر کھلی رہتی ہیں۔ ہندوستان میں صوفی ازم کے ابتدائی نقوش وسط ایشیائی ممالک سے ملتے ہیں۔ خواجہ سید جلال الدین، حمیدالدین ناگوری، بختیار کاکی، فرید الدین گنج شکر، حضرت نظام الدین اولیا، بابا حاجی علی بخاری اور امیر خسرو کے اجداد کا تعلق ان ہی ممالک سے رہا ہے۔
ہندوستان میں بہت سی دستاویزی اصطلاحات بھی وسط ایشیائی زبانوں سے مستعار لی گئی ہیں۔ جیسے فرمان، فتح نامہ،مثال، تمغہ، حکم، منشور، نشان، مہراور ایلچی کے علاوہ بہت سے ہتھیاروں کے نام بھی ہم استعمال کرتے ہیں، جیسے توپ، توپچی، بندوق وغیرہ۔ مغلئی کھانے اپنے آپ میں ایک الگ قسم کا ذائقہ رکھتے ہیں جو ہندوستان میں مغل حکمرانوں کے مرہون منت ہیں۔ یہ طرز طباخی وسط ایشیا میں ترکو ں نے متعارف کرایااور اس کے بعد ہندوستانی سرحد میں داخل ہوئی۔ یہاں تک کہ ہندوستان نے ذائقہ کے ساتھ ساتھ ناموں تک کو اپنے یہاں رائج کر لیا، جیسے قورمہ، پلاؤ،قلفی، باقر خانی، حلوا، قیمہ، چائے، سموسہ وغیرہ۔ کھانوں کے علاوہ ہم مختلف سماجی ناموں کو بھی استعمال کرنے لگے جیسے دادا، بابا، باجی، آقا، آپا، خاتون وغیرہ۔
وسط ایشیا میں ہندوستان کے نامور شعرا اور مصنفوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اورآج بھی نئے ناموں کو وہاں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔بہت ساری نظموں اور کہانیوں کو ازبک میں اور وسط ایشیائی زبانوں کے ادب کا اردو میں ترجمہ کیا گیا۔ ہندوستانی مصنف جن کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ان میں مہاتما گاندھی،رابندرناتھ ٹیگور،جواہر لال نہرو،علی سردار جعفری،سجاد ظہیراور خواجہ احمد عباس قابل ذکر ہیں۔ ان کو وہا ں پسند کرنے کی کئی وجوہات تھیں ایک تو وہ دور اشتراکی نظام کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے تھے مزید یہ کہ ان میں سے بیشتر اشتراکی نظام کے پروردہ تھے۔اس فکر کے مفکر دنیا میں کہیں بھی ہوں اشتراکی نظام حکومت میں ان کی اہمیت تسلیم کی جاتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ 1947 میں ہندوستان آزاد ہونے کے ساتھ ہی ہندوستان کا جھکاؤ سوویت یونین کی طرف زیادہ تھا۔ 
ہندوستانی فلمیں صرف ہندوستان ہی میں ہی نہیں بلکہ ہندوستان کے باہر بھی اپنی پہچان بنانے میں کامیاب رہی ہیں۔ وسطی ایشیائی ممالک بھی اس کے سحر سے اچھوتے نہیں رہے۔ وسط ایشیائی ممالک خاص کر ازبکستان میں ہندوستانی فلموں اور نغموں کو بڑے شوق سے دیکھا اور سنا جاتاہے۔جس طرح سے ہندوستانی عوام اپنے محبوب سپر اسٹارز کو دل کے قریب رکھنے کے ساتھ ساتھ ان کے انداز کو اپناتے ہیں اسی طرح ازبکستان کی عوام بھی ان کو سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں۔ہماری فلموں کے بہت سے ایسے نام ہیں جن کی قدر ومنزلت دونوں ملکوں میں ایک جیسی ہے راج کپور، نرگس دت، سنیل دت، دلیپ کمار،سلمان خان، شاہ رخ خان،امیتابھ بچن، رانی مکھرجی اور عامر خان کے نام قابل ذکر ہیں۔ ازبکستان میں فلمی نغمہ ’ میرا جوتا ہے جاپانی‘ ہر خاص و عام کی زبان پر اپنی نغمگی کا احساس دلاتا ہے۔ آج بھی ازبکستان میں ہندوستانی فلموں کی نمائش بڑے پیمانے پر کی جاتی ہے اور وہاں کے سرکاری نیشنل چینل پر ہفتے میں کم از کم دو فلموں کی نمائش کا اہتمام کیا جاتاہے۔
ہر دور میں تہذ یبی و ثقافتی روابط کو ایک مضبوط ستون کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ تہذیب و ثقافت کے میدان خود اپنے آپ میں وسیع ا لنظری، رواداری، اخوت اور محبت کی شکل میں اجاگر ہو کر لوگوں کے سامنے مثال بنتے ہیں۔اس ضمن میں انسٹی ٹیوشن اور اکیڈمیاں ایک اہم کڑی سمجھی جاتی ہیں۔ 1955 میں ہندوستان نے ازبکستان میں اپنے کلچرل سنٹر کا افتتاح کیا جس کے تحت ازبکستان میں ہندوستان کی رنگا رنگی کو بروئے کار لانے یا ازبکستان میں ہندوستان کی لسانی، تہذیبی، ثقافتی اور تاریخی جہتوں کو پروان چڑھانے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ اس سنٹر نے ازبکستان میں مختلف تنظیموں کے ساتھ مل کر کام شروع کیا۔ اسی سنٹر کے تحت موسیقی اور رقص کے ساتھ ساتھ یوگا کی کلاسوں کا بھی اہتمام کیا گیا۔
ہندوستان کی آزادی کے بعد وسط ایشیائی ممالک کی جامعات میں ہندی اور اردو کی تعلیم کا مناسب انتظام تھا۔تاشقند یونیورسٹی اس لحاظ سے ایک منفرد مقام کی حامل ہے۔ اس کے علاوہ تاشقند یونیورسٹی میں شعبہ برائے انڈیا لوجی بھی قائم ہے۔ اس شعبے میں نہ صرف زبانوں کی تدریس بلکہ وہاں پر ہندوستانی تاریخ وثقافت کی بھی تعلیم دی جاتی ہے۔اس ضمن میں 1962 میں پہلی بار ڈاکٹر قمر رئیس کو اردو اور ڈاکٹر بھولے ناتھ تیواری کو ہندی کے ماہر کے طور پر تقرر کیا گیا تھا۔ آج شعبہ برائے مطالعات شمالی ایشیا تاشقند یونیورسٹی میں ہندوستانی زبانوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے، ساتھ ہی ہندوستان میں مختلف جامعات میں مطالعات برائے وسطی ایشیا کے شعبے اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں ان میں خاص کر جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شعبہ برائے بین الاقوامی مطالعات، جواہر لال نہرویونیورسٹی میں اسکول برائے بین الاقوامی مطالعہ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، ممبئی یونیورسٹی،جموں یونیورسٹی، کشمیر یونیورسٹی کے علاوہ بہت سارے سنٹر اپنے فرائض کو انجام دے رہے ہیں جس میں تاریخ وثقافت، سیاسی، معاشی،غرض شعبہ ہائے زندگی کے ہر پہلو پر تحقیق وتدریس کا کام انجام دیا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوتا بلکہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ازبک زبان میں سر ٹیفکیٹ اور ڈپلوما کا کورس بھی کرایا جاتا ہے۔ 
1965 کی ہندوستان اور پاکستان کی جنگ کے دوران سوویت یونین کی مداخلت کی وجہ سے موجودہ ازبکستان کے دارالخلافہ تاشقند میں ایک امن معاہدہ کے لیے دونوں ممالک کے رہنما تیار ہوئے جس میں ہندوستان کی جانب سے ا س وقت کے وزیر اعظم جناب لال بہادر شاستری اور پاکستان کی جانب سے جنرل یحییٰ نے امن معاہدہ پر دستخط کئے۔ اس امن معاہدہ کی وجہ سے تاشقند کوامن کا شہر اور بھائی چارگی کی علامت کے طور پہ دیکھا جانے لگا۔تاشقند سمجھوتے کے بعد ہندوستان اور ازبکستان کے بہت سے شعرا نے منظوم خراج عقیدت بھی پیش کیا جس کو ’ارمغان تاشقند ‘ کے نام سے شائع کیا گیا۔ 
سوویت یونین کے بکھراؤ کے بعد وسط ایشیائی ممالک میں لسانی،تہذیبی ا ور نسلی بنیاد پر الگ الگ ملک کا وجود عمل میں آیا۔ پوری دنیا نے اس خطے کو اپنی خارجہ پالیسی کے تحت اپنے سماجی، ثقافتی، سیاسی، معاشی رشتوں کو عملی جامہ پہنا نے کی کوشش کی۔ ہندوستان نے بھی اس عمل کو بروئے کار لانے کی کوشش کی اسی کی وجہ سے ازبکستان کے صدر کا پہلا بیرون ملک سفر ہندوستان کا تھا جس سے دونوں ممالک کے درمیان سفا ر تی، سیاسی، معاشی، ثقافتی، تہذیبی رشتوں کو جلا ملی اور آج بھی یہ رشتے اپنی کامیابی کی طرف گامزن ہیں۔ اسی کڑی میں انڈین کونسل فار کلچرل رلیشن کے تحت ہر سال ازبکستان کے طلبہ کو ہندوستان میں تعلیم حا صل کرنے کے لئے وظیفہ دیا جا تا ہے جس سے وہ طلبہ ہندوستانی جامعا ت میں اعلیٰ تعلیم حا صل کرنے کا سنہرا موقع پاتے ہیں۔2013-14 کے سیشن میں 14 طلبہ کو وظیفہ دیا گیا۔ ساتھ ہی ساتھICET کے تحت ٹکنیکل تعلیم کے لیے بھی وظیفہ کا انتظام ہے۔ ICET نے وظیفہ کی تعداد کو بڑھا کر 150 تک کردیا ہے۔ جس کا فائدہ وہاں کے طلبہ کو براہ راست مل رہا ہے۔
2003 میں ہندوستان اور ازبکستان کے ثقافتی رشتوں کو مضبوط کرنے کے مقصد کے تحت ایک دو طرفہ پرگرام کا انعقاد کیا گیااسی ضمن میں تاشقند میں ایک نمائش کا انعقاد کیا گیاجس میں ہندوستانی موسیقی اور اس کے ساز وساما ن کے علاوہ ہندوستان کی مشہور مدھوبنی پینٹنگ کی نمائش کی گئی جس کی وہاں کی عوام نے دل کھول کر پذیرائی کی۔ 2005 میں ہندوستانی موسیقی گروپ نے وہاں کے مشہور کلچرل میلے ’شرق‘ میں شرکت کی۔ ساتھ ہی ساتھ ازبکستان کی تہذیبی و ثقافتی وراثت کو پروان چڑھانے میں اہم کڑی اور عوامی اسٹیج کی نئی پہچان ’سگدینا‘ آرکیسٹرا کے ایک گروپ نے ہندوستان کے مختلف شہروں میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ 2013 میں ازبکستان کا ایک ڈانس گروپ، ہندوستان کے صوبہ ہریانہ کے سورج کنڈ میلے میں اپنے فن سے لوگوں کے دلوں میں اپنی چھاپ چھوڑنے میں کامیاب رہا۔
غرض وسط ایشیائی ممالک با لخصوص ازبکستان کی تہذیب و ثقافت،عادت واطوار وغیرہ ہندوستان کی تہذیب و ثقافت اور عادت و اطوار میں ایک حد تک یکسانیت پائی جاتی ہے اور یہی وہ چیزیں ہیں جو دونوں ملکوں کو ایک دوسرے سے قریب تو کرتی ہی ہیں اور ساتھ ہی ایک دوسرے کو سمجھنے میں مدد گار بھی ثابت ہوتی ہیں۔ اس کا اثر دونوں ملکوں کے درمیان بخوبی دیکھنے کو ملتا ہے اور آئندہ بھی اس کی مثالیں ملتی رہیں گی۔ 


Abu Sad Aijaz, 
Research Scholar, 
Academy of International Studies, 
Jamia Millia Islamia, New Delhi - 110025
Mob.: 9968401636, Email.:sad1984@gmail.com



ماہنامہ اردو دنیا، جون2016


قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں