29/3/19

جوگندرپال کا تخلیقی کمال مضمون نگار: اسلم جمشید پوری




جوگندرپال کا تخلیقی کمال
اسلم جمشید پوری

جوگندر پال کا شمار ان افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے جو آزادی کے آس پاس سے لکھ رہے ہیں اور جنھوں نے اُردو افسانے کے سفر میں بہت زیادہ نشیب و فراز دیکھے ہیں۔ کبھی اس نشیب و فراز کا حصّہ بنے اور کبھی خاموش تماشائی بنے رہے۔ ترقی پسند تحریک کا عروج، پال کے بھی شباب کا عہد تھا۔ لیکن ترقی پسند تحریک کے متوازی کچھ افسانہ نگار بالکل منفرد انداز میں افسانے تخلیق کررہے تھے اور اچھے افسانے لکھ رہے تھے، افسانہ نگاروں کے اسی گروہ میں جوگندر پال بھی شامل ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ ترقی پسند تحریک، برائے تحریک اور تشہیر ہوکر رہ گئی۔ ایسے میں وقت کے بطن سے جدیدیت کی تخلیق ہوئی۔ ایک لہر آئی اور سب کچھ بدل گیا۔ اُردو افسانے میں خارجیت سے داخلیت اور اجتماعیت سے انفرادیت کا سفر شروع ہوا۔ افسانے کی ساخت بھی متاثر ہوئی۔ بہت سے افسانہ نگاروں نے اثرات قبول کیے۔ جوگندر پال بھی اس سے متاثر ہوئے لیکن انھوں نے اسے کلی طور پر نہیں اپنایا۔ کچھ افسانوں میں یہ اثر نمایاں ہوا لیکن اپنا مخصوص انداز پھر بھی حاوی رہا۔ یہ عہد بھی گزر گیا۔ افسانے نے نئی کروٹ لی۔ جسے کچھ لوگ مابعد جدید افسانہ کہتے ہیں، کچھ ۷۰ء کے بعد کا افسانہ وغیرہ۔ پال یہاں بھی نئی نسل کی مناسب رہنمائی کے لیے آگے آئے اور جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے مابین پل کا کام انجام دیا۔
جوگندر پال کا پہلا افسانوی مجموعہ ’دھرتی کے لال‘ 1961 میں منظرِ عام پر آیا۔ پھر ’میں کیوں سوچوں؟‘ 1962 میں، ’رسائی‘ 1963 میں، ’مٹّی کے ادراک‘ 1971 میں ’لیکن‘ 1977 میں ’بے محاورہ‘ 1978 میں ’بے ارادہ‘ 1981 میں اور منی کہانیوں کے مجموعے ’سلوٹیں‘ اور ’کتھا نگر‘ بالترتیب 1975 اور 1986 میں شائع ہوئے۔
جوگندر پال نے اپنی ابتدائی زندگی کا بڑا حصّہ افریقہ میں گزارا۔ ان کے پہلے افسانوی مجموعے ’دھرتی کے لال‘ میں افریقہ کی زندگی اور وہاں کے لوگوں کے مسائل کو موضوع بناکر لکھے گئے کئی افسانے شامل ہیں۔ ’دھرتی کے لال‘ اور ’ملٹی ریشیل‘ اس ضمن کے نمائندے افسانے ہیں، اس میں افریقی زندگی کے نشیب و فراز کی بہترین عکاسی موجود ہے۔
’میں کیوں سوچوں‘ کے بیشتر افسانے آزادی کے بعدکے ماحول، انسانی اقدار کی شکست و ریخت، جاگیردارانہ نظام کے خاتمے کے اثرات اور فرد کی داخلی کیفیت کی ترجمانی کرتے ہیں۔ 1963 میں ’رسائی‘ کی اشاعت ہوئی۔ بعض افسانوں میں جدیدیت کی بوموجود تھی۔ تجرید، علامت اور ابہام جیسے اوصاف بھی در آئے تھے۔ ایسے افسانوں میں رسائی، بھوں بھاں، دوسری کایا کو شامل کیا جاسکتا ہے۔
جوگندر پال کا گہرا مشاہدہ اور عمیق مطالعہ انہیں جلد ہی جدیدیت کے اس سیلاب سے باہر نکال لایا۔ہجرت اور فسادات کے دیرپا اثرات، سماج میں ہونے والے معاشی، سیاسی اور سماجی تغیر اور وقت کے ساتھ ساتھ، پامال ہوتی اخلاقی قدروں نے انہیں متوجہ کیا۔ 1965 کی جنگ اور اس کے اثرات، زوال پذیر معاشرے کے شب و روز کا مشاہدہ انھوں نے کھلی آنکھوں سے کیا۔ پال کے عمیق مطالعے اور گہرے مشاہدے نے انہیں فکری سطح پر مفکّر بنا دیا۔ ایسا مفکر جو ظہور پذیر ہونے والے واقعات کو صرف سوچتا نہیں بلکہ ان میں ڈوب جاتا ہے۔ پال بھی زندگی کی اعلیٰ قدروں کی پامالی کا صرف نوحہ تحریر نہیں کرتے بلکہ اسے اپنے اندر شدت سے محسوس کرکے الفاظ کا پیکر عطا کرتے ہیں۔ ان کے بیشتر افسانے اس کرب کے مظہر ہیں۔ بازیافت، پھول، بابا، بستیاں اور ایک طویل کہانی کو مثال کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔
جیسے جیسے زندگی کی ترجیحات بدلتی گئیں، پال کے فکری رجحان میں بھی تبدیلی واقع ہوئی۔ نئی تہذیب، فلیٹ کلچر کے نام پر روایتی اقدار سے یکسر انحراف، خود کو خود مختار سمجھنا، برائیوں کو بُرا نہ سمجھنا، انسانیت کا دم توڑنا، یہ سب پال کو متاثر کرتا ہے اور ان کی کئی کہانیوں میں اس کا اظہار بھی ملتا ہے۔ وہ روایت اور اقدار کی پامالی پر آواز بلند تو کرتے ہیں لیکن نئی تہذیب کے مثبت پہلوؤں کو نظر انداز نہیں کرتے۔ اس زمرے میں ان کے افسانے بیک لین، خدارا، جوگن، تہیں وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔
’رامائن‘ جوگندر پال کا ایک مشہور افسانہ ہے۔ اس میں پال نے اساطیر کو موضوع بنایا ہے۔ ’رامائن‘ کے واقعات کو ہم عصر زندگی سے ملاتے ہوئے ہم عصر زندگی کے کرداروں کی نقاب کشائی کی ہے۔ دسہرہ کے موقع پر راون، میگھ ناد اورکنبھ کرن کے پتلے جلائے جاتے ہیں اور اس عمل کے پیچھے صرف ایک ہی ذہنیت کام کرتی ہے کہ ایسا کرکے ہم برائی کا خاتمہ کررہے ہیں اور اس میں وہ لوگ آگے آگے ہوتے ہیں جو خود برائی میں ملوث ہوتے ہیں۔ راون کا خاتمہ، رام نے اس وقت کیا تھا جب راون کے بھائی و بھیشن نے راون کی موت کا راز اسے بتادیا تھا۔ پال نے اپنی کہانی میں ان واقعات کے پس منظر میں دسہرہ کے موقع پر ہونے والی رام لیلاؤں میں سیتا اور رام کے کردار نبھانے والوں کی سچی تصویر کشی کی ہے۔ یہ رام بابو نام کے کلرک کی کہانی ہے۔ جو اپنی ذاتی زندگی میں شیطان صفت ہے اور ہر سال رام لیلا میں رام کا کردار ادا کرتا ہے۔ اس کی بیوی اس کی دوہری زندگی سے دکھی ہے، وہ اسے بُرا سمجھتی ہے اور اس حد تک بُرا خیال کرتی ہے کہ یہ بھی خواہش کرتی ہے۔
’’کاش میں کسی راکشس کے پلّے بندھی ہوتی۔ اس کے پلّے بندھنے پر تو میرے بھاگ ہی پھوٹ گئے۔‘‘ (رامائن)
دراصل پال نے کہانی کے ذریعہ یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ آج کی سیتا، رامائن والی سیتا نہیں۔ آج ان چھوٹی، بھولی بھالی، معصوم اور پاکیزہ سیتا جیسی لڑکی کا تصور ناممکن نہیں تو مضحکہ خیز ضرور ہے۔ آج کے رام بھی ان اوصاف سے خالی ہیں بلکہ آج کے رام اور سیتا اعمال کے لحاظ سے راون، کنبھ کرن اور و بھیشن سے کسی طرح کم نہیں ہیں۔ جوگندر پال کی کہانی، ’رامائن‘ الفاظ کی سطح پر انتہائی سادہ اور عام ہے لیکن کہانی اپنی تہوں میں مختلف معانی کے جواہر پارے رکھتی ہے۔ عصری سماج کی بہترین عکاسی کا نمونہ ہے۔
پال کے فکری رجحان نے عصری تہذیب کی روح کو قریب سے محسوس کرنے کے بعد اس سے تاثر لیا ہے۔ شہروں کی زندگی، خاص کر فلیٹ کلچر میں مہذب زندگی کی آڑ میں کیا کیا گل کھلتے ہیں، یہ وہ اپنی کہانی ’بیک لین‘ میں بڑی چابکدستی سے بیان کرتے ہیں۔ یہ کہانی دراصل سماج کی حقیقتوں کی آئینہ دار ہے۔ کہانی کا مرکزی کردار صیغۂ واحد متکلّم ہے جو کوڑا کرکٹ بیننے کا کام کرتا ہے، وہ روزانہ پاش کالونی کی پچھلی گلیوں میں رکھے کوڑے کے ڈبوں میں سے اپنے کام کی چیزیں چنتا ہے اور شام کو لاکر منّو کباڑیے کو دے دیتا ہے، جو اسے کچھ پیسے تھمادیتا ہے۔ کوڑے میں اسے سگریٹ کے ادھ جلے ٹکڑے، شراب کی بوتلیں، کھانا، پلاسٹک کا سامان وغیرہ مل جاتا ہے اور وہ اس سے اپنی زندگی بسر کررہا ہے۔ کہانی کار نے اپنے کردار کے ذریعہ اس بڑی کالونی کے گھروں میں جھانکنے کا کام کیا ہے اور ان گھروں کی زندگی کو پیش کیا ہے۔ ایک گھر میں دو بھائی ہیں۔ ایک ذرا پاگل سا ہے۔ دونوں ایک دوسرے کی بیویوں کا استعمال کرتے رہتے ہیں۔ ماں بیچاری مکان کے سب سے اوپری حصّے میں پڑی کھانے کی خاص کر کھیر کی رٹ لگائے ترستی رہتی ہے اور ان کے نوکر، کوڑے دان میں اتنا کھانا ڈال دیتے ہیں جس سے کئی آدمیوں کے پیٹ کی آگ بجھائی جاسکتی ہے لیکن دونوں بھائیوں کو اس کی فکر نہیں اور وہ اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہیں۔ ایک اور گھر کا حال یہ ہے کہ شوہر ادیب ہے، راتوں کو جاگ جاگ کر کاغذ سیاہ کرتا رہتا ہے اور عین اسی وقت اس کی بیوی اپنے نوکر کا بستر گرم کرتی ہے۔ ایک اور گھر کا حال کچھ اس طرح ہے کہ بیوی ہوٹلوں میں دھندہ کرتی ہے اور شوہر اس کے گھر آنے کا بے صبری سے انتظار کرتا ہے اور آنے پر اس کے بیگ پر جھپٹتا ہے، اسے صرف پیسے سے مطلب ہے۔
جوگندر پال نے اپنی فنکارانہ آنکھ سے سماج کے اعلیٰ طبقے کے سفید پوش لوگوں کے گھروں میں ہونے والے شرمناک افعال کی تصویر کشی کی ہے۔ طنز کے تیر کہانی کو گہرائی بخشتے ہیں:
’’تم بدمعاشوں کو خوب جانتا ہوں۔ خالی جھولا لٹکائے موقع کی تاک میں گھومتے پھرتے ہو۔‘‘ یہ بات اس کی جھوٹی بھی نہیں مگر سبھی لوگ یہی تو کرتے ہیں۔ ہر ایک اپنے دل میں جھولا لٹکائے اسی تاک میں مارے مارے پھرتارہتا ہے کیا معلوم، کیا کیا ہاتھ آجائے۔‘‘
’’بھاگ جاؤ، ورنہ خون پی جاؤں گا۔‘‘
’’میں یہ سوچتے ہوئے آگے ہولیا ہوں کہ ہزار غصّے کے باوجود جنگلی جانور بھی پئیں تو پانی ہی پیتے ہیں، پھر آدمی کیوں اپنا پارہ چڑھتے ہوئے آدمی کے لہو کا پیاسا ہوجاتا ہے؟‘‘
’’بابو (کتاّ) کو اس کا نام میرا ہی دیا ہوا ہے اور کچھ دینے کو میرے پاس ہے کیا؟ یہاں کے نوکروں اور کتّوں کو بابو کہہ کر بلاتا ہوں تو وہ بہت خوش ہوتے ہیں۔‘‘ (بیک لین)
پال کا یہ افسانہ سماجی حقیقت نگاری کا ایک بہترین نمونہ ہے۔ کہانی میں کردار نگاری بھی خوب ہے۔ کہانی کا مرکزی کردار پال کے فن کا زندہ جاوید ثبوت ہے۔ پال نے ’بیک لین‘ کے ذریعہ سماج کی بیماریوں کو آئینہ دکھایا ہے۔
جوگندر پال کے یہاں فنّی تغیر بھی ملتا ہے۔ انھوں نے منٹو کے ’سیاہ حاشیے‘ کے انداز پر مِنی کہانیوں (افسانچوں) کے دو مجموعے ’سلوٹیں‘اور ’کتھا نگر‘ دیے۔ ان چھوٹی چھوٹی کہانیوں میں کہانی پن کے علاوہ اسلوب کی ندرت بھی ہے اور کہیں کہیں طنز کا استعمال ان افسانچوں کو پر اثر بنا دیتا ہے۔ ایک افسانچہ’ بھوت‘ ملاحظہ ہو:
بھوت
’’چند بھوت حسبِ معمول اپنی اپنی قبر سے نکل کر چاندنی رات میں گپیں ہانکنے کے لیے کھلے میدان میں اکٹھا ہوکر بیٹھ گئے اور بحث کرنے لگے کہ کیا واقعی بھوت ہوتے ہیں۔
’’نہیں!‘‘ ایک نے ہنس کر کہا ’’سب من گھڑت باتیں ہیں‘‘ ایک اور بولا ’’کسی بھی بھوت کو علم نہیں ہوتا کہ وہی بھوت ہے۔‘‘
اسی اثنا میں ایک اور نے ایک جھاڑی کی طرف اشارہ کرکے خوف زدہ لہجے میں بولا ’’وہ دیکھو!‘‘ جھاڑی کے پیچھے ایک غریب آدمی بڑے انہماک سے لکڑیاں کاٹ رہا تھا۔
’’ہاں وہی۔۔۔‘‘
سارے بھوت بے اختیار چیخیں مارتے ہوئے اپنی اپنی قبر کی طرف دوڑے۔‘‘
اس چھوٹی سی کہانی میں قصّہ پن، حیرت و استعجاب Suspence، اختتام اور وحدت تاثر، سبھی کچھ موجود ہے۔ ساتھ ہی گہرا طنز بھی کہ انسان جس شے کو بھوت تصور کرتا ہے، وہ خود انسان کو بھوت سمجھتی ہے۔
جو گندر پال اردو کے کہنہ مشق ناول نگار اور افسا نہ نگار ہیں۔انھوں نے افسا نچے کو نہ صرف نام عطا کیا بلکہ اپنی کا وشوں سے مضبوط بنیاد یں بھی فراہم کیں۔جو گندر پال جب ادب میں دا خل ہو ئے تو نئی رو شنی سے معمور تھے۔ انگریزی کے استاد ہونے کے ساتھ ساتھ آپ نے غیر ممالک خصوصاً جنوبی افریقہ میں
خا صا وقت گذا را۔ ان کے افسا نے، ناول اور افسانچے ان کی با لیدہ نظر، نئی فکر اور فن پر مضبوط دسترس کے غماز ہیں۔۔انھوں نے’’ نہیں رحمن بابو‘‘ کے عنوان سے سینکڑوں افسانچے قلم بند کیے۔انہیں اردو افسا نچے کا سعادت حسن منٹو کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ ان کے دو افسانچے ملا حظہ کریں:
کچا پن
’’ بابا، تم بڑے میٹھے ہو‘‘
’’ یہی تو میری مشکل ہے بیٹا۔ ابھی ذرا کچا اور کھٹا ہو تا تو جھاڑ سے جڑا رہتا‘‘
یہ دو سطر کا افسا نچہ اپنے اندر مکمل کہانی لیے ہو ئے ہے۔ یہ علا متی افسا نچہ ہے۔ میٹھا ہونا، کئی طرف اشا رے کررہا ہے ۔یعنی پھل بہت میٹھا ہے اور جب کوئی پھل زیا دہ میٹھا ہو تا ہے تو وہ یا تو خود بخود ٹوٹ کر شاخ سے الگ ہو جاتا ہے یا پھر زمانے کے ذریعہ توڑ لیا جاتا ہے۔ اس کے بر عکس کچے اور کھٹے پھل مضبوطی سے پیڑ سے جڑے ہو تے ہیں۔ اسے نہ صرف پیڑ کے اندرون سے غذا حاصل ہوتی رہتی ہے بلکہ پیڑ کے مالک اور محافظ اس کی خاطر مدارت بھی کرتے رہے ہیں۔ اس کا ہر طرح کا خیال رکھا جاتا ہے۔یہی معاملہ بزرگوں کا بھی ہے۔آج کل اولا دیں اپنے والدین کو گھر سے نکال دیتی ہیں۔ پو را افسا نچہ سماج پر ایک گہرا طنز ہے۔
بے درد
’’آخر اس کا درد تھم گیا،
اور درد تھمتے ہی اسے چین آ گیا،
لیکن نہ تھمتا تو بے چا رہ مرنے سے بچ جاتا۔‘‘
’بے درد‘ نام کا یہ افسا نچہ جو گندر پال کے عمیق ذہن کی فکری غو طہ زنی ہے۔ افسا نچے میں کون بے درد ہے۔ بے درد یعنی ظالم، وہ جس نے اس کے درد کا علاج کردیا۔ یعنی اسے مار ڈا لا،لیکن بظا ہر تو وہ اس کا ہمدرد ہے کہ اس سے اس کا درد، دیکھا نہ گیا اور اس نے اسے مار کر ہمیشہ کے لیے درد سے نجات دلا دی۔ قاری یہ طے نہیں کر پاتا ہے کہ اسے درد سے نجات دینے والا اس کا ہمدرد ہے یا بے درد ۔ اس میں ایک پہلو اور ہے۔بے درد، یعنی ایسا شخص جس کے پاس درد نہ ہو۔ یعنی وہ صا حب درد، اب بے درد ہو گیا۔اسے ہمیشگی کا سکون عطا ہو گیا ہے۔ آپ کسی ایسے مریض کا تصور کریں جو بری طرح زخمی ہو، جس کی سانسیں اکھڑ رہی ہوں۔دوا کا اثر نہ ہو رہا ہو اور اس کی یہ حالت طوا لت اختیار کر گئی ہو۔ پھر کیا ہو تا ہے۔ پھر ہر کوئی اس کے دکھ درد کو دیکھ کر اس کی موت کی تمنا کرتا ہے۔ بے درد ایسے ہی کسی مریض کی حا لت کا بہترین ترجمان ہے۔
جوگندر پال نے شعور کی رو تکنیک کا بھی استعمال کیا ہے۔ بلکہ یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ ان کے زیادہ تر افسانوں میں اس تکنیک کی ہلکی سی چھاپ ضرور ملتی ہے۔ پال اس تکنیک میں آزادانہ تلازمۂ خیال سے کام لیتے ہیں۔ اس زمرے میں ان کے افسانے دریاؤں پیاس، بے محاورہ، باز دید اور سواریاں آتے ہیں۔ دریاؤں پیاس ان کا اس زمرے کا بہترین افسانہ ہے جس میں انھوں نے دو نسلوں کے درمیان فرق کو واضح کیا ہے۔ نئی پرانی نسلوں کے بیچ جو Generation Gap ہوتا ہے، اس کی بہترین عکاسی اس کہانی میں موجود ہے۔ دراصل پال نے اس کہانی میں دکھایا ہے کہ نسلوں کے مابین اسی Gap سے سماج انتشار کے دہانے پر پہنچ جاتا ہے۔
پال کے یہاں فکری اور فنّی تغیر آہستہ آہستہ آیا ہے اور کئی ایک کہانیوں میں یہ تغیر بلند آواز اختیار کرلیتا ہے۔ ان کے افسانوں کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے سے اندر اندر وابستہ نظر آتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے گویا ان کی تمام کہانیوں میں درد و کسک کی ایک لہر ہے جو کبھی اندر کبھی باہر اٹھتی، بیٹھتی رہتی ہے۔ وہ خود اپنی کہانیوں کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’میری مراد یہ نہیں کہ کہانی کار کے ارادے کو اپنی کہانی میں یکسر دخل نہیں ہوتا، ظاہر ہے کہ ساری بات تو وہی بناتا ہے مگر بات بنتی اُسی دم ہے جب وہ ارادے کو میک اپ کی طرح برتنے کی بجائے اسے کہانی کے تار و پود کا باطنی وسیلہ بنالے اور کہانی اپنے ہی عمل کی ٹوٹ پھوٹ سے بن بن کر اپنی فطری پہچان کے خطوط اختیار کرے۔‘‘ (پس لفظ۔ بے ارادہ)
پال کے گہرے مطالعے اور مشاہدے نے انہیں نہ صرف انسانیت کے درد وکرب کو محسوس کرنا سکھایا ہے بلکہ پال اسے کہانی میں ڈھالنے سے قبل اسے اوڑھتے، بچھاتے ہیں، اسے اپنے اندر اُتارتے ہیں پھر وہ خود کہانی بن جاتے ہیں۔ کسی کہانی کا ایک کردار بن جاتے ہیں اور اس طرح جو کہانی وجود میں آتی ہے وہ کہنے کو کہانی ہوتی ہے لیکن حقیقت ہوتی ہے، یہ پال کا کمال ہے۔
بیسویں صدی کے ساتھ ساتھ اُردو افسانے نے بھی ایک صدی پوری کرلی ہے۔ اس صدی کا جائزہ افسانے کے پس منظر میں لیا جائے تو میں کہنا چاہوں گا کہ بیسویں صدی نے ہمیں تحفہ میں جو چند افسانہ نگار عطا کیے ہیں ان میں جوگندر پال کا نام بھی شامل ہے۔پال صاحب اب ہمارے درمیان نہیں رہے،لیکن وہ اپنی تخلیقات کی شکل میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔

Aslam Jamshedpuri, 
Head, Dept of Urdu, 
Choudhary Charan Singh University,
 Main Road, Meerut - 200005 (UP)


ماہنامہ اردو دنیا، جون2016


قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں