29/3/19

راشد کی فکری اور فنی جہات اور نوآبادیاتی مضمرات مضمون نگار: ابو الکلام قاسمی



راشد کی فکری اور فنی جہات اور نوآبادیاتی مضمرات
ابو الکلام قاسمی

گذشتہ نصف صدی میں اردو شاعری کی ہیئتی تنقید کی افراط کے باوجود نئی یا پرانی شاعری کے بارے میں گفتگو، ڈکشن یا اسلوب سے شروع کی جائے یا پھر موضوع اور مضمون کا سرا پکڑکر شعری ڈکشن کے اسرار کی دریافت کی کوشش کی جائے، بات گھوم پھرکر پہنچتی ہے بہرحال موضوع کے انتخاب اور فکری مضمرات تک۔ ن.م.راشد اس اعتبار سے خوش نصیب شاعروں میں ہیں کہ ان کو ہیئت اور اسلوب کے مجدد کے طورپر بھی قبول کیا گیا اور جنسیت زدگی اور فراریت کے ابتدائی الزامات کے باوجود فکری اور موضوعاتی اعتبار سے انھیں ایک بالغ نظر بلکہ دانش ور شاعر کا مقام بھی دیا گیا۔ جس نے اپنی ذات اور نفسیات کی کامیاب عقدہ کشائی کے ساتھ گردوپیش کے معاشرتی اور بسااوقات عالمی سطح کے آفاقی مسائل سے بھی گہرا سروکار رکھا۔ انھوں نے بالعموم معاشرتی اور نیم سیاسی نوعیت کے مسائل تک کو جذبے اور احساس کی سطح پر لاکر اس حدتک غیرذاتی بنانے کی کوشش کی کہ ان میں ایک تعمیم کی کیفیت بھی پیدا ہوئی اور خود ان کے سیاسی اور معاشرتی موقف کی نشان دہی کوئی مشکل بات بھی نہ رہی۔
راشد کی شاعری کا دورِ عروج ترقی پسند تحریک کا بھی دورِ عروج تھا۔ اس لیے اس دور میں اگر اظہار کے نئے اسالیب کی تلاش اور قدرے ابہام آمیز لہجے کو تنقید کا ہدف بنایا گیا تو یہ کوئی حیرت کی بات نہ تھی۔ اس وقت بھی اگر وقتی رجحان کی تقلیدکے بجائے راشد کی نظموں کی ہمدردانہ تفہیم کی کوشش کی جاتی تو ان کی شاعری کی سماجی اور معاشرتی قدر وقیمت کی کماحقہ داد دی جاسکتی تھی۔ چوں کہ محض خطیبانہ لب و لہجہ، لفظوں کا اسرافِ بے جا اور اکہرا اسلوب بیان، راشد کے مزاج سے میل نہیں کھاتا تھا اس لیے ان کے بعض معاصر نقادوں نے بھی ان کے موضوعات کو جنسی رویے اور فراریت کا نام دینے کی کوشش کی اور ان کے ڈکشن کو ابہام زدہ قرار دے کر سنجیدہ مطالعے کا موضوع نہیں بنایا۔ بعد کے زمانے میں راشد سے متعلق دوسری نثری تحریروں کے سامنے آنے اور خود ان کے خطوط کی اشاعت کے نتیجے میں یہ حقیقت لوگوں سے مخفی نہیں رہی کہ راشد اپنی شروع کی نظموں میں ابہام کے غیرشعوری عمل دخل سے خود بھی عرصے تک اُلجھتے رہے اور اس وقت تک ان کی اُلجھن دور نہیں ہوئی جب تک ان کے نہایت باخبر اور دانش ور دوست آغاعبدالحمید کے خط سے یہ اطلاع نہ مل گئی کہ مغرب میں ایمپسن کے کتابچے ’ابہام کی سات قسمیں‘ کی اشاعت کے بعد اب ابہام کو علی العموم معتوب قرار نہیں دیا جاتا اور یہ کہ اگر ابہام ناگزیر طورپر تخلیقی عمل کی سریت کا زائیدہ ہے تو اس نوع کی شاعری کے معنوی امکانات میں مزید اضافہ ہوجاتاہے۔
اس ضمن میں شاید اس وضاحت کی چنداں ضرورت نہیں کہ راشد کے لیے اپنی افتادطبع اور فکری سطح کے باعث اپنے ذاتی احساس اور تجربے کو تعمیمی بنانا اور اسے عام تجربے سے ہم آہنگ کرنا ایک بڑا مسئلہ تھا۔ اس پر مستزاد یہ کہ فارسی میں گہرا درک رکھنے کے باعث فارسی تراکیب کا استعمال اور اس کے ساتھ ہی ہنداسلامی تلمیحات اور کبھی کبھی دیومالا اور اساطیر کو اپنے بہتر اور بھرپور اظہار کا وسیلہ بنانے میں راشد یک گونہ اطمینان محسوس کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض نقادوں نے انھیں لسانی اور فکری اعتبار سے خواص پسند شاعر کا نام بھی دیا۔ ڈاکٹر آفتاب احمد نے ان کی اس صفت کا ذکر لسانی نقطۂ نظر سے کیا ہے جب کہ خلیل الرحمن اعظمی نے ان کو دانش ورانہ زاویۂ نظر کے باعث خواص پسند بتایاہے۔ ڈاکٹر آفتاب احمد نے لکھا کہ:
’’زبان کی دنیا میں وہ خواص پسند واقع ہواہے۔ لہٰذا اس کے انتخاب الفاظ کا دائرہ محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ اسے فقط وہی الفاظ خوش آتے ہیں جن کے رنگوں میں شوخی اور چمک دمک اور جن کی آوازوں میں گہرائی اور گونج پائی جاتی ہے۔‘‘
جب کہ خلیل الرحمن اعظمی کا خیال تھاکہ:
’’راشد اِن معنوں میں عوام کا نہیں بلکہ خواص کا شاعر ہے اور اس کی شاعری سے لطف اندوزی کے لیے بھی ایک دانش ورانہ مزاج کی ضرورت ہے۔‘‘
ظاہرہے کہ ان دونوں رایوں میں راشد کی حدود کا ذکر تو ضرور ملتاہے مگر ان کے سہارے راشد کی اسلوبیاتی اور موضوعاتی تفہیم کا سلسلہ بھی آگے بڑھایا جاسکتاہے۔ تاہم دیکھنے کی بات یہ ہے کہ موضوع اور ہیئت میں اس امتیازی طریق کار کے باعث راشد کی نظم گوئی نے اردو نظم کے اس وقت تک رائج لہجے کو کن تبدیلیوں سے آشنا کیا۔ اردو نظم کے صنفی ارتقا پر نظر رکھنے والوں سے یہ بات مخفی نہیں کہ اس وقت تک حالی اور آزاد کی تحریک نظم کے باوجود مغربی انداز کی نظم نگاری کے اسالیب اردو کو میسّر نہیں آسکے تھے۔ آزادنظم یا تو نظم کی ضمنی اصناف مثلاً رومانی، مدحیہ، مثنویانہ یا قطعاتی خانوں میں تقسیم کی جاسکتی تھی یا پھر موضوعاتی ارتقا کے طورپر جن نظموں کا چلن عام ہوسکا تھا وہ ماسوا اقبال کی نظم کے، غزل کے اسالیب اور لب ولہجے کی توسیع کے علاوہ اور کچھ نہ تھی۔ پھر یہ کہ جب نظم کی ہیئت کی مغربی معیاربندی اقبال تک کی نظموں میں پوری طرح روبہ عمل نہیں آسکی تھی تو دوسرے کسی شاعر سے اور کیا توقع وابستہ کی جاسکتی تھی۔ اس پوری صورت حال میں کفایت لفظی، تہہ داری اور خیال کے ارتقا کے صنفی شعور کے ساتھ سامنے آنے والی راشد کی نظمیں نہ صرف یہ کہ عام اردو نظموں سے مختلف تھیں، خود حلقۂ اربابِ ذوق کے نظم نگاروں سے بھی ممتازتھیں۔ راشد کی اس انفرادیت میں ان کی زبان کا آہنگ اور فارسی تراکیب کا دبدبہ بھی، جیساکہ ذکر کیا گیا، کوئی کم اہم رول ادا نہیں کرتا، جس کے باعث ان کے لہجے میں بلندآہنگی اور کسی حدتک اسلوبیاتی شکوہ کو بہ خوبی محسوس کیا جاسکتا تھا۔ تاہم اس حقیقت سے بھی انکار مشکل ہے کہ محض زبان اور اسلوب کے خارجی ڈھانچے نے ان کا آہنگ بلند نہیں کیا تھا۔ ان کی بلندآہنگی اور لہجے کی تہہ داری میں ان کی فکری سطح اور دانش ورانہ طمطراق کا کردار بھی کسی طرح کم نظر نہیں آتا۔
راشد کی شاعری کے وہ موضوعات، جو ان کے دانش ورانہ اندازِفکر کی تشکیل کرتے ہیں ان میں ممتاز حیثیت ان کی مشرقیت کو حاصل ہے۔ یوں تو بعض نقادوں نے ان کی مشرقیت کو علامہ اقبال کے تصور مشرق کے تسلسل کے طورپر دیکھنے کی کوشش کی ہے جس سے پوری طرح انکار تو نہیں کیا جاسکتا، مگر راشد کی فکر کے سیاق و سباق میں ان کی مشرقیت کے مضمرات اقبال کے ملّی اور تہذیبی حوالوں سے کہیں زیادہ دوررَس معلوم ہوتے ہیں۔ مشرقی قوموں پر مغرب کی سیاسی بالادستی اور اس نوآبادیاتی تناظر میں اگر اردو شاعروں کے فکری رویوں کا تعین کرنے کی کوشش کی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ بعض شرائط کے ساتھ اکبرالٰہ آبادی اور علامہ اقبال کے بعد ن.م.راشد کے علاوہ اردو کا کوئی اور نمائندہ شاعر ایسا نظر نہیں آتا جو نوآبادیاتی تسلط اور اس کے زیراثر پروان چڑھنے والی منفی فکر پر اپنے ردّعمل کا واضح اور غیرمبہم اظہار کا حوصلہ رکھتا ہو۔ اکبرالٰہ آبادی چوں کہ خطِ مستقیم کے شاعر ہیں اس لیے ان کے مابعد نوآبادیاتی نقطۂ نظر میں کوئی بڑی گہرائی نہیں تلاش کی جاسکتی۔ جب کہ اقبال کی مشرق پسندی زیادہ تر مذہبی، ملّی اور تہذیبی اعتبار سے اپنی معنویت قائم کرتی ہے۔ راشد چوں کہ ایک غیرمشروط ذہن کے بیدارمغز شاعر ہیں، اس لیے ان کی مشرقیت نہ تو محض تہذیب پسندی کا شاخسانہ ہے اور نہ مشرق کے حوالے سے اخلاقی روایت اور اقدار پرستی کا۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ بیسویں صدی کے شعری افق پر روایت شکنی اور غیررجعت پسندانہ رویہ اختیار کرنے کے معاملے میں راشد اس حدتک آزاد ، روشن خیال اور خودکفیل ہیں کہ وہ اپنے پیروں سے دقیانوسیت کی ہرزنجیر کو کاٹ پھینکنے کے در پے رہتے ہیں... تو سوال یہ ہے کہ راشد کی مشرقیت کیاہے؟ اور ان کے یہاں کس مشرق کی بازیافت کی کوشش ملتی ہے؟ اس سوال کا جواب نہ تو تہذیبی حوالے سے دیا جاسکتا ہے نہ روایتی حوالے سے اور نہ مذہبی یا اخلاقی حوالے سے۔ ان کی ساری مشرق پسندی محکومیت کے شدیداحساس اور سیاسی یا معاشرتی کے ساتھ ذاتی آزادی کی زائیدہ ہے۔ اس نقطۂ نظر کے اظہار میں انھوں نے اپنی بیش تر نظموں میں کہیں مرکزی طورپر اور کہیں ضمنی انداز میں مشرق کی محکومی اور غلامی کو بالواسطہ اور بلاواسطہ انداز میں زیرِبحث لانے کی کوشش کی ہے۔ ایران میں اجنبی، میں شامل متعدد نظموں میں تو انھوں نے اس کرب کو نہایت موثر انداز میں اس طرح پیش کیاہے کہ عالمی سطح پر برتی جانے والی تفریق اور مغربی طاقتوں سے سراسیمہ مشرق کی پوری تصویر اُبھرکر سامنے آجاتی ہے۔ اس سلسلے میں پہلے ان کی مختلف نظموں کے بعض مصرعوں کو سامنے رکھا جائے تو ان کے رویے سے شناسائی ہوجاتی ہے:
عمرگزری ہے غلامی میں مری/ اس سے اب تک مری پرواز میں کوتاہی ہے/ (سپاہی)
شکر کر، اے جاں کہ میں/ ہوں درِافرنگ کا ادنیٰ غلام/ صدرِاعظم یعنی دریوزہ گر اعظم نہیں/ (شرابی)
بندگی سے اس درودیوار کی/ ہوچکی ہیں خواہشیں بے سوزورنگ و ناتواں/ (رقص)
اس روحِ شب گرد کا/ اک کنایہ ہے شاید/ یہ ہجرت گزینوں کا بکھرا ہوا قافلہ بھی/
جو دست ستمگر سے مغرب کی، مشرق کی پنہائیوں میں/ بھٹکتا ہوا پھررہا ہے/ (دست ستم گر)
تیرے بستر پہ مری جان کبھی/ آرزوئیں ترے سینے کے کہستانوں میں/ ظلم سہتے ہوئے حبشی کی طرح رینگتی ہیں/ (بیکراں رات کے سناٹے میں)
ان مثالوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ابتدا کی تین مثالوں کی طرح نوآبادیاتی حکمرانوں پر ان کے طنز کی کاٹ کتنی گہری ہوجاتی ہے جب کہ موخر الذکر دو نظموں کے مصرعوں میں ان کا لہجہ بہت سدھا سدھایا، تہہ دار اور علامتی طنز کی مثال پیش کرتاہے۔ تاہم راشد کی نظموں میں جو مابعد نوآبادیاتی رویہ دیکھنے کو ملتاہے اس کی منطق ایسی سیدھی سادی بھی نہیں کہ اسے تنقید کے کسی ایک فارمولے کا مصداق قرار دے دیا جائے۔ اس لیے کہ ان کی نظموں میں مشرق کا نمایاں ترین حوالہ تو یقیناًنوآبادیاتی ردّعمل کو سامنے لاتاہے مگر اس کے ساتھ ہی راشد کو مشرق میں جس نوع کا تہذیبی اضمحلال نظر آتاہے اسے وہ محض محکومی کا ہی نتیجہ نہیں قرار دیتے۔ وہ مشرقی لوگوں کے توہم پرستانہ ذہن، خوش عقیدگی اور فکری تجدد پسندی سے انکار کو بھی اس اضمحلال اور زوال کے اسباب میں شمار کرتے ہیں۔
راشد کے پہلے مجموعے ’ماورا‘ میں شامل نظم ’شاعر درماندہ‘ کو اس اعتبار سے اہمیت حاصل ہے مشرق و مغرب کی آویزش کے ابتدائی نشانات اسی نظم میں ملتے ہیں۔ جن میں محبوب کی عافیت کوشی کے مقابلے میں نظم کے واحدمتکلم کا سارا المیہ افرنگ کی دریوزہ گری اور محکومی کے لفظوں میں سمٹ آیاہے۔ اس نظم سے راشد کی اس ہنرمندی کا بھی پتہ چلتاہے کہ انھوں نے اپنے احساس اور تجربے کی تہہ داری اور پیچیدگی کو خودساختہ لفظی تراکیب کے وسیلے سے منتقل کرنے میں کیسی ریاضت کا ثبوت دیاہے۔ وہ اس نظم میں مشرق کی محکومیت کا سارا الزام محض افرنگ کی دریوزہ گری پر عائد کرکے کسی اکہرے یا مطلق فیصلے تک پہنچنے کے بجائے اپنے آباواجداد کی عافیت پسندی کو بھی نکبت و ادبار کا سبب قرار دیتے ہیں:
زندگی تیرے لیے بستر سنجاب و سمور/ اورمیرے لیے افرنگ کی دریوزہ گری/ عافیت کوشیِ آبا کے طفیل/ میں ہوں درماندہ و بے چارہ ادیب/ خستۂ فکر معاش/ پارۂ نان جویں کے لیے محتاج ہیں ہم/ میں، مرے دوست، مرے سیکڑوں اربابِ وطن/ یعنی افرنگ کے گلزاروں کے پھول/ 
ان مصرعوں میں تقابلی انداز کے ساتھ خود احتسابی اور طنز کی آمیزش نے راشد کے لہجے کو ان کے موقف سے پوری طرح ہم آہنگ کردیاہے۔ شاعر کی درماندگی کیوں کر اس کے وطن اور ارباب وطن کے ساتھ مربوط ہوکر نوآبادیاتی جبر کا ردّعمل بنی ہے اور کس طرح محبت ایک ایسی رفاقت کا مثالی تصور بن جاتی ہے جو دو اناؤں کے اتصال کے وسیلے سے جہاں سوزی اور صورت حال کی تبدیلی کی خواہش پر منتج ہوتی ہے۔ اس کا نہایت اثرانگیز اور فنی اظہار اس نقطۂ عروج کے ساتھ ہوتاہے:
تو مسرت ہے مری، تو مری بیداری ہے/ مجھے آغوش میں لے/ دو انا، مل کے جہاں سوز بنیں/ اور جس عہد کی ہے تجھ کو دعاؤں میں تلاش/ آپ ہی آپ ہویدا ہوجائے/
شاعر درماندہ، کے برخلاف راشد کی نظم ’انتقام‘ زیادہ شدت کے ساتھ غلامی کے احساس پر مرکوز ہے۔ اس سبب سے اس کے بعد مصرعوں میں راشد کا سا رکھ رکھاؤ برقرار نہیں رہ پاتا، تاہم نظم کے تمام مصرعے نظم کے بنیادی تصور کو آگے بڑھانے میں ناگزیر رول ادا کرتے ہیں۔ اس نظم میں یاد اور نسیان کو گڈمڈ کرکے تاریخی بتوں اور مجسّموں کے حوالے سے انتقام کی شدت کو نمایاں کیا گیاہے:
اجلی اجلی اونچی اونچی دیواروں پہ عکس/ ان فرنگی حاکموں کی یادگار/ جن کی تلواروں نے رکھا تھا یہاں/ سنگ بنیاد فرنگ/ (انتقام)
یوں تو قدرے برہنہ گفتاری کے باعث ’انتقام‘ کا مثبت اور منفی حوالہ کثرت سے آتا رہاہے۔ مگر موضوع کی مماثلت کے باوجود راشد کی نظم ’اجنبی عورت‘ زیادہ قرار واقعی نقطۂ نظر کو ظاہر کرتی ہے۔ ظاہر ہے کہ موقف کی غیرضروری وضاحت نے اس نظم میں اکہراپن ضرور پیدا کیا ہے مگر شاعر کے سماجی زاویۂ نظر کا اظہار ’اجنبی عورت‘ میں خاصے غیرمبہم انداز میں ہواہے۔ تاہم جو چیز اس نظم کو اظہار کی راست تکنیک کے باوجود ہمہ گیر بناتی ہے وہ اس نظم کا وہ دائرۂ کار ہے جو زیادہ وسیع ہے اور اس سے مترشح ہونے والا انسانی سروکار نسبتاً زیادہ ہمہ جہت اور پھیلا ہواہے:
ایشیا کے دورافتادہ شبستانوں میں بھی/ میرے خوابوں کا کوئی رومان نہیں/ کاش اک دیوار ظلم/ میرے، ان کے درمیان حائل نہ ہو.... ارض مشرق! ایک مبہم خوف سے لرزاں ہوں میں/ آج ہم کو جن تمناؤں کی حرمت کے سبب/ دشمنوں کا سامنا مغرب کے میدانوں میں ہے/ ان کا مشرق میں نشاں تک بھی نہیں/ (اجنبی عورت)
نوآبادیاتی پس منظر میں مشرق و مغرب کی آویزش کا معاملہ راشد کی نظموں میں محض تسلط یا محکوم قوموں کے لیے اپنے ماضیِ قریب کی نفی کے طورپر زیرِبحث نہیں آتا بلکہ اس سے بڑا یا ایک نوع کا آفاقی پس منظر تیار کرتا ہے۔ جس میں انسانوں کے مابین رنگ، نسل یا قومیت کی بنیاد پر تفریق قائم کرنے کی ذمے داری بھی نوآبادیاتی طریق کار پر عائد ہوتی ہے۔ اسی لیے ان کو یہ کہنے میں کوئی تکلف نہیں ہوتاکہ مشرقی اقوام کے درمیان تفریق تک کا احساس بھی مغرب کا ہی پیداکردہ ہے، اس طرح مغرب ہی اس تفریق کا بنیاد گزار ہے۔
اس ضمن میں اگر ’ایران میں اجنبی‘ میں بعض نظموں کو سامنے رکھا جائے تو پتہ چلتاہے کہ ایران کے حوالے سے مشرق و مغرب کی آویزش کے احساس میں شدت اور اس کا فن کارانہ اظہار نسبتاً زیادہ موثر طریقے پر ہواہے۔ ’زنجیر‘ اسی نوع کی ایک نظم ہے جس میں زنجیر کی علامت دراصل زنجیر کی جنبش، یا پابہ زنجیر آدمی کے عدم اطمینان یا باغیانہ ارتعاش کو نشان زد کرتی ہے:
گوشۂ زنجیر میں/ اک نئی جنبش ہویدا ہوچلی/ سنگ خارا ہی سہی، خار مغیلاں ہی سہی/ دشمن جاں دشمن جاں ہی سہی/ ...ہرجگہ پھر سینۂ نخچیر میں/ اک نیا ارماں، نئی امید پیدا ہوچلی/
راشد کی تکنیک کی یہ خصوصیت ان کی متعدد نظموں میں نشان زد کی جاسکتی ہے کہ اگر وہ بعض الفاظ یا علامات کو نظم کے آغاز میں ابہام زدہ انداز میں سامنے لاتے ہیں تو اس کی کمک یا تفہیم کی خاطر کوئی نہ کوئی معاون لفظ یا فقرہ نظم کے آخری مصرعوں تک کہیں نہ کہیں ضرور سامنے آجاتاہے۔ اس نظم میں بھی گوشۂ زنجیر کی جنبش لازمی طورپر زنجیر کے توڑنے کا اشارہ تو نہیں معلوم ہوتا مگر آخری مصرعوں میں جب زنجیر کی گرہ کھلتی ہے تو یہ فقرے پوری نظم کو زیادہ بلندپایہ اور روشن بنا دیتے ہیں:
شکر ہے دنبالۂ زنجیر میں/ ایک نئی جنبش، نئی لرز ش ہویدا ہوچلی/ پردۂ شب گیر میں اپنے سلاسل توڑکر/ چار سو پھیلے ہوئے ظلمات کو اب چیر جاؤ/ اور اس ہنگام بادآور کو/ حیلۂ شب خوں بناؤ۔
اس نظم کے مرکزی موضوع کو زیادہ مستحکم اور فنی طورپر اثرانگیز بنانے کی خاطر راشد نے ریشم کے کیڑے کی علامت کا استعمال بھی کیاہے۔ اس کیڑے کا حبس، اس کا اپنے بنائے ہوئے خول میں محبوس ہوجانا، اس کے لعاب سے ریشم کے تارہائے سیم وزر کا بنایا جانا اور اس کے استعمال سے خود مشرق اور اقوام مشرق کا محروم رہنا، ساری چیزیں اس مرکب علامت کے دائرۂ کار میں شامل ہوجاتی ہیں اور محکومی، حبس اور استحصال کے احساس کو زنجیر کی علامت کے متوازی کے طورپر شدت سے دوچار کردیتی ہیں:
حجلۂ سیمیں سے تو بھی پیلۂ ریشم نکل/ وہ حسیں اور دورافتادہ فرنگی عورتیں/ تو نے جن کے حسن روزافزوں کی زینت کے لیے/ سالہا بے دست و پا ہوکر بُنے ہیں تارہائے سیم و زر/ ان کے مردوں کے لیے بھی، آج اک سنگین جال/ ہوسکے تو اپنے پیکر سے نکال۔ (زنجیر)
اس موضوع کے اظہار کی مزید فن کارانہ اور واضح صورت ’ایران میں اجنبی‘ میں ہی شامل نظم ’من و سلویٰ‘ سے سامنے آتی ہے جو ایران کے المیے سے شروع ہوکر بالآخر نوآبادیاتی جبر و تسلط کے حوالے سے ہندوستان سمیت علی الاطلاق سارے مشرق کو اپنا موضوع بنالیتی ہے۔ یہ طویل نظم جس کے ابتدائی مصرعے ہی موضوع کی عالم گیریت کا احساس دلا دیتے ہیں کچھ اس طرح ہیں:
خدائے برتر/ یہ دارپوشِ بزرگ کی سرز میں/ یہ نوشیروانِ عادل کی دادگاہیں/ تصوف و حکمت و ادب کے نگارخانے/ یہ کیوں سیہ پوش دشمنوں کے وجود سے/ آج پھر اُبلتے ہوئے سے ناسور بن رہے ہیں/ یہ شہر اپنا وطن نہیں ہے/ مگر فرنگی کی رہزنی نے/ اسی سے ناچار ہم کو وابستہ کردیا ہے/ ہم اس کی تہذیب کی بلندی کی چھپکلی بن کے رہ گئے ہیں/ 
ان مصرعوں میں دشمنوں کی سیہ پوشی، ابلتے ہوئے ناسور اور تہذیب کی بلندی کی چھپکلی، جیسے طنزیہ اور علامتی پیکر تہذیب اور روایت کی پامالی کے حوالے سے بھی نوآبادیاتی صورت حال کا نقشہ کھینچتے ہیں اور پورے ارض مشرق کے عمومی اور یکساں مسائل کا کرب ناک اظہار بھی بن جاتے ہیں جن کا سبب راشد کے مابعدنوآبادیاتی ردّعمل کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ اس نظم میں محکوم قوموں اور افراد میں نوآبادیاتی حکمرانوں کی لَے میں لَے ملانے والوں کو بھی زیرِبحث لایا گیاہے (مرے بہت سے رفیق/ اپنی اداس، بیکار زندگی کے/ دراز و تاریک فاصلوں میں/ کبھی کبھی بھیڑیوں کی مانند/ آنکلتے ہیں) اور حکمرانوں کی بخشش کے طفیل ان کے غالب نقطۂ نظر کو پیش کرنے میں یہ تک محسوس نہیں کرتے کہ وہ کیوں کر اپنے ماضی اپنے وطن اور اپنی تہذیب کی نفی کا ارتکاب کررہے ہیں (اس آرزو میں/ کہ ان کی بخشش سے/ پارۂ نان، من و سلویٰ کا روپ بھرلے/
یہ نظم اپنے اختتام تک پہنچتے پہنچتے ایک مکمل المیہ بن جاتی ہے جو ظاہر ہے کہ راشد کے قائم کردہ بڑے سیاق و سباق کے طفیل پورے مشرق کا المیہ ہے جس میں دنیا کی کثیر محکوم آبادی کو شامل محسوس کیا جاسکتا ہے:
یہ سنگدل اپنی بزدلی سے/ فرنگیوں کی محبت ناروا کی زنجیر میں بندھے ہیں/ انہی کے دم سے یہ شہر اُبلتا ہوا سا ناسور بن رہاہے/ محبت ناروا نہیں ہے، بس ایک زنجیر/ ایک ہی آ ہنی کمند عظیم/ پھیلی ہوئی ہے/ مشرق کے اک کنارے سے دوسرے تک/ مرے وطن سے ترے وطن تک/ بس ایک ہی تار عنکبوت کاجال ہے کہ جس میں/ ہم ایشیائی اسیر ہوکر تڑپ رہے ہیں/بس ایک ہی درد لا دوا میں/ اور اپنے آلام جاں گزا کے/ اس اشتراکِ گراں بہانے بھی/ ہم کو ایک دوسرے سے/ قریب ہونے نہیں دیاہے۔ (من و سلویٰ)
کم و بیش اسی شدت اور تواتر کے ساتھ راشد کی نظموں ’تیل کے سوداگر‘ اور ’طلسم ازل‘ میں راشد نے نوآبادیاتی طریق کار اور طرزفکر پر اپنے ردّعمل کا شاعرانہ، اکثر تہہ دار اور کبھی کبھی شدید طنزیہ انداز میں اظہار کیاہے اور اس طرح اپنی شاعری کے غالب حصے میں نوآبادیاتی مضمرات کی نقاب کشائی کی ہے۔

Abul Kalam Qasmi, Professor, Dept. of Urdu, 
Aligarh Muslim University
Aligarh - 202002 (UP)




ماہنامہ اردو دنیا، جون2016




قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں