29/3/19

امیر خسرو کی موسیقی اور شاعری مضمون نگار: جعفر دانش


امیر خسرو کی موسیقی اور شاعری
جعفر دانش


انسانی تہذیب و تمدن کی تاریخ میں سیکڑوں نام ایسے افراد کے ملیں گے جنھوں نے اپنی ذاتی قابلیت کی مدد سے اپنا نام ہمیشہ کے لیے جریدۂ عالم پر ثبت کردیا۔ ایسے لوگوں کی مقبولیت کے اسباب کا تجزیہ کوئی آسان کام نہیں۔ یہ لوگ اپنے جذبۂ ایجاد کے بل پر اپنے ہم عصر انسانوں پر ہی نہیں بلکہ ہر زمانے کے آدمیوں پر فوقیت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ انگریزی کی ایک مثال ہے 
"Jack of All trades master of none" یعنی تنوع کمال کا منافی ہے‘‘۔لیکن یہ مثال اوسط درجے کی قابلیت رکھنے والوں پر صادق آتی ہے۔ صدیوں میں افلاک کی گردشِ دوام سے کوئی نہ کوئی جامع شخصیت پیدا ہوہی جاتی ہے جو اس عام قاعدے سے بالا تر ہوتی ہے۔ ایسے ہی خوش قسمت لوگوں میں سے ایک حضرت امیر خسرو بھی ہیں۔
حضرت امیر خسرو کے قبیلے کا نام ’ہزارۂ لاچیں‘ تھا۔ یہ قبیلہ ہنگامہ چنگیزی کے زمانے میں ’ماوراء النہر‘ سے ہجرت کرکے تیرھویں صدی عیسوی میں ہندوستان میں آکر مقیم ہوگیا۔ حضرت امیر خسرو کے والد کا نام ’امیر سیف الدین محمود‘ تھا جو بہت بڑے جنگجو تھے۔ اُس زمانے میں دہلی کے تخت پر شمس الدین التمش متمکن تھا جسے بہادر سپاہیوں کی ضرورت تھی۔تو امیر سیف الدین نے مع اپنے ساتھیوں کے بادشاہ کی ملازمت اختیار کرلی اور دہلی کے قریب ہی اک مقام پٹیالی میں مقیم ہوگئے۔ ہندوستان میں آنے کے بعد امیر سیف الدین نے عماد الملک کی بیٹی سے شادی کرلی اور اس شادی سے امیر خسرو پٹیالی میں پیدا ہوئے۔ ابھی اس ہونہار لڑکے کی عمر آٹھ سال ہی تھی کہ والد کا سایہ سر سے اُٹھ گیا۔ نانا عماد الملک ان کے سرپرست بنے۔ نانا کی نگرانی میں خسرو نے اُس زمانے کے تمام علوم و فنون میں دسترس حاصل کی۔
خسرو کا شمار عام طورپر شعرا کی صف میں ہوتا ہے۔ لیکن صرف وہ شاعر نہ تھے بلکہ کئی علوم و فنون میں یکتائے روزگار تھے۔ ایسے ہی فنِ موسیقی میں انھیں اس قدر مہارت حاصل تھی کہ اُس زمانے کے اُستاد بھی انھیں اپنا استاد مانتے تھے۔ موسیقی اور شاعری کا ہمیشہ ساتھ رہا ہے تاہم یہ ضروری نہیں کہ ہر شاعر موسیقی داں بھی ہو۔
میں اپنے اس مضمون میں خسرو کی شاعری اور موسیقی پر روشنی ڈالنے کی کوشش کروں گا۔ خسرو اپنے بچپن کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’اس کمسنی میں بھی جب میرے دودھ کے دانت ٹوٹ رہے تھے اشعار میرے منہ سے موتیوں کی طرح جھڑتے تھے۔‘‘ شاعری میں خسرو کا کوئی استاد نہیں تھا۔ انھوں نے استادی شاگردی کے قدیم سلسلے کا خود کو پابند نہیں کیا۔ برخلاف اس کے فنِ شعر میں مہارت حاصل کرنے کے لیے مشہور اساتذہ کے کلام کا ہمیشہ مطالعہ کرتے تھے۔ انہی استادوں کے نقشِ قدم پر چلنے کی کوشش کے سبب امیر خسرو کے کلام میں ان سب کا رنگ نمایاں طور پر جھلکتا ہے۔ امیر خسرو کا زیادہ تر کلام فارسی زبان میں ہے لیکن انھیں ترکی ، عربی، ہندی، سنسکرت اور ہندوستان کی اور کئی زبانوں پر بھی عبور حاصل تھا۔ سوائے شیخ سعدی کے (جو فارسی کے بہت بڑے شاعر تھے) اور کوئی فارسی شاعر ایسا نہیں گزرا جو خسرو کی طرح عوام میں مقبول ہو۔ ایران کے بڑے بڑے شعرا جوہندوستان کے کسی بھی شاعر کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ یہاں تک کہ غالب کو بھی جنھیں اپنے فارسی کلام پر بہت ناز تھا۔ خسر و کی منفرد ذات ہے جن کے شاعرانہ کمالات کا لوہا ایران کے ہر دور کے شاعروں نے مانا ہے۔ اور انھیں’ طوطئ ہند‘کے خطاب سے بھی نوازا ہے۔ خسروخود اپنے بارے میں کہتے ہیں کہ’’ میرے منہ سے اشعار اتنی جلدی نکلتے تھے کہ قلم میرا ساتھ نہیں دے سکتاتھا‘‘ خسرو کی غزلوں میں سوزو گداز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خسرو کا زمانے سے اب تک قوالی کی محفلوں میں قوال زیادہ تر خسرو کے کلام گاتے ہیں۔ جہانگیر بادشاہ نے اپنے روز نامچہ میں لکھا ہے کہ اس کے عہد کے مشہور ملاعلی احمد نے ایک دفعہ قوالوں کو خسرو کا یہ شعر پڑھتے ہوئے سنا:
ہر قوم راست راہی دینی و قبلہ گاہی
ما قبلہ راست کردیم برطرف کج کلا ہی
اور اُن پر ایسا اثر ہوا کہ وہ فوراً گرکر مرگئے۔ خسرو چونکہ خود موسیقی دان بھی تھے اس لیے وہ اپنی غزلوں کی بحریں اور الفاظ ایسے تلاش کرتے تھے جن کا تعلق موسیقی سے ہوتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی غزلوں میں ایک خاص روانی اور ترنم ہے۔
عوام الناس میں جو شہرت انھیں حاصل ہے وہ یاتو حضرت نظام الدین کے شاگرد کی حیثیت سے یا پھر ان کے ہندی کلام کی وجہ سے۔ اُس دور میں فارسی ہندوستان کی سرکاری زبان تھی اور ہندی ابھی ابتدائی دور سے گزر رہی تھی۔ اسی وجہ سے امیر خسرو نے اپنے ہندی کلام کو کبھی جمع نہیں کیا بلکہ دوستوں میں تقسیم کردیا۔ ان کے ہندی کلام سے جو کچھ ہم تک پہنچا ہے وہ یا تو بعض شوقیون کی بیاضوں کی بدولت یا زبانی روایت کے ذریعے ۔ ان کے کلام میں دو زبانوں یعنی فارسی اور ہندی کی آمیزش بھی پائی جاتی ہے۔ جیسے:
اری اری ہمہ بیاری اری
ماری ماری برہ کہ ماری اری
امیر خسرو کے دو ایسے دوھے جو عوام الناس میں انھیں مقبول کیے ہوئے ہیں وہ درجِ ذیل ہیں
خسرو رین سہاگ کی جاگی پی کے سنگ
تن میرومن پیو کو دودھؤ اک رنگ
گوری سوئے سیج پر اور مکھ پر ڈارے کیس
چل خسرو گھر آپنے رین بھی چودیس 
خسرو کی علمِ موسیقی میں مہارت کے متعلق کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔ کیوں کہ اپنی تصانیف میں خود خسرو نے اس کا ذکر نمایاں طور پر کیا ہے۔خسرو نے علمِ موسیقی میں ایسا کمال حاصل کیا تھا کہ انھیں ’نائک‘ کا لقب بھی ملا تھا۔ ایک قدیم سنسکرت کتاب ’مانک سوہل‘ جس کا فارسی میں ترجمہ اورنگ زیب کے زمانے میں ایک ’امیر فقیر اللہ‘ نامی شخص نے کیا تھا اور اس کا نام راگ درپن رکھا تھا۔ اس کتاب میں لکھا ہے کہ خسرو کے زمانے میں ایک جگت استاد نائک گوپال تھا جن کو نیچا دکھا کر خسرو نے نائک کا لقب حاصل کیا تھا۔ اس میں یہ بھی لکھا ہے کہ خسرو اپنے ساتھیوں کے ساتھ بادشاہ کے تخت کے نیچے چھپ کے بیٹھ کر گانا سنا کرتے تھے۔ جب خسرو کو گانے کی فرمائش ہوتی وہ وہی گانے جو نائک گوپال سے سنا کرتے تھے گادیتے تھے۔ راگ درپن کی یہ روایت زیادہ قابلِ اعتماد نہیں ہوسکتی بلکہ کسی کی من گھڑت معلوم ہوتی ہے۔ بادشاہ کے تخت کے نیچے چھپ کر بیٹھنا اور وہ بھی تنہا نہیں بلکہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایک عجیب مضحکہ خیز معلوم ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں خسرو کے زمانے کے کسی مورخ نے یا خود انھوں نے اس واقعہ کا ذکر نہیں کیا نہ ان کے زمانے کے کسی موسیقی داں کا نام نائک گوپال کہیں مذکور ہے۔ برخلاف اس کے اکبر کے عہد میں اس نام کے ایک استاد کا پتہ چلتا ہے۔ کچھ عجب نہیں کہ ’مانک سوہل‘ یا راگ درپن میں غلطی سے اسی ناٹک گوپال کو خسرو کا ہم عصر فرض کرلیا گیا ہو۔
خسرو کو موسیقی میں ایرانی اور ہندوستانی دونوں اصولوں میں مہارت حاصل تھی۔ فارسی راگ راگنیوں کے نام بکثرت اُن کی تصانیف میں موجود ہیں اور متعد جگہ ہندی راگوں کے بھی نام پائے جاتے ہیں۔ اب سوال پید اہوتاہے کہ خسرو نے ہندوستانی موسیقی میں کس حد تک تصرف کیا اور کیا نئی چیزیں پیدا کیں۔ عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ مشہور ہندوستانی ساز ستار کے موجد وہی تھے۔ یہ روایت اس لحاظ سے قرین قیاس بھی معلوم ہوتی ہے کہ خسرو کا زمانہ ہندوستانی اور ایرانی تہذیب کے باہمی اختلاط کا زمانہ تھا۔ ’ستار‘ وینا اور طنبور کے اصول اور ساخت کی ترکیب سے بنا ہے۔ وینا جو ہندوستانی ساز اور طنبور ایرانی ساز ہے تو اسی وجہ سے ستار کی ایجاد کا سہرا امیر خسرو کے سربندھا۔ لیکن اس کے ساتھ یہ روایت اس بنا پر کمزور بھی سمجھی جاسکتی ہے کہ امیر خسرو نے اس نام کے ساز کا ذکر کہیں نہیں کیا۔ جبکہ موسیقی کے دوسرے آلات کے نام اور اپنی تصنیف میں بیان کیے ہیں۔ 
ہندوستانی موسیقی میں امیر خسرو نے ایک ایسا انقلاب پید اکردیا تھا کہ وہ ایک نئے مسلک کے بانی سمجھے جاتے تھے۔ واجد علی شاہ اپنی کتاب صورت المبارک میں فرماتے ہیں خسرو نے ہندوستانی موسیقی میں ایک بڑا تغیر پیدا کرکے ایک نئے اسکول کی بنا قائم کی تھی۔ موسیقی کے ہزاروں سال کے پرانے اصول میں ترمیم و اصلاح کرکے اسے جدت بخشی تھی۔ صورت المبارک میں خسرو کی کچھ ایجادوں کی تفصیل دی گئی ہے۔ اسی تفصیل کو میں بھی یہاں درج کرتا ہوں۔ ترانہ، چھند، قول، پربند، گیت قلبانہ، نقش اور نگار خسرو کی ایجاد کردہ ہیں۔ کہتے ہیں چھوٹا خیال کے بھی وہی موجد تھے۔ راگ درپن کی روسے انھوں نے کچھ نئے راگوں اور تالوں کے بھی موجد تھے جو ذیل میں درج ہیں۔
راگوں میں
مجیر : یہ راگ غارا اور فارسی راگ سے مرکب ہے۔
ساز گوری :پوربی، گورا، کنگلی اور ایک فارسی راگ سے مرکب ہے۔
ایمن:ہنڈول اور بنیٹر میز سے مل کر بنا ہے۔
موافق:توڑی ، مالوی، دودگاہ وحسینی
عشاق :سارنگ اور بسنت اور نوا
زیلف:کھٹ راگ میں شہناز کو ملایا ہے
سرپردہ :سارنگ، بلاول، اور راست سے مرکب ہے
فرودست :کانہڑا، گوری، پوربی اور ایک فارسی راگ
فرغنہ :کنگلی اور گورا میں فرغانہ ملایا ہے
باخرز :دیسکار میں ایک فارسی راگ ملایا ہے۔
تالوں میں جھمرا، تریتال ، آڑا چار تا ل،پستو، سول فانک امیر خسرو کی ایجاد کردہ ہیں۔
امیر خسرو کی بات جہاں آتی ہے وہیں ان کے پیر و مرشد حضرت نظام الدین اولیاء کا ذکر ناگزیر ہوجاتا ہے۔ اس زمانے کے مشہور مورخ برنی کے بیان کے مطابق حضرت نظام الدین کا روحانی اثر بہت وسیع تھا۔ سبھی طبقے کے لوگ آپ کے ارادت مند تھے۔ یہاں تک بادشاہ بھی اپنی پریشانیوں کے وقت آپ کی خانقاہ میں حاضری دیتے تھے۔ خسرو بھی ان خوش قسمت لوگوں میں سے تھے ۔ جو حضرت نظام الدین کی بزرگی کے معترف اور ان کے فیضِ صحبت سے بہرہ مند تھے۔ حضرت نظام الدین خسرو کو بے حد عزیز رکھتے تھے۔ ایک روایت کے مطابق آپ فرماتے ہیں کہ ایک قبر میں دو آدمیوں کو دفن کی اجازت ہوتی تو میں چاہتا خسرو کو میرے ساتھ دفن کیا جائے۔ حضرت نظام الدین اولیا کے اقوال کو جمع کرکے خسرو نے ایک رسالہ ترتیب دیا تھا جس کا نام افضل الفواید ہے۔حضرت نظام الدین اولیاء کا جب انتقال ہوا اس وقت خسرو شاہی لشکر کے ساتھ جنگی مہم پر گئے تھے۔ جب دہلی میں آئے تو یہ اندوہناک خبر سن کر رنج و غم سے وارفتہ ہوگئے، کپڑے پھاڑ ڈالے اور منہ پر کالک مل کر ان کی قبر کی زیارت کو پہنچے وہاں آپ نے یہ دوھاپڑھا اور بے ہوش ہوکر گرگئے کہ
گوری سوئے سیج پر اور مکھ پر ڈارے کیس
چل خسرو گھر آپنے رین بھئی چودیس
اپنے پیر و مرشد کے انتقال کے بعد خسرو زیادہ عرصے تک زندہ نہیں رہے۔طبیعت افسردہ ہوچکی تھی۔ چنانچہ 18 شوال 725ھ کو وہ بھی اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے۔ خسرو کو حضرت نظام الدین اولیا کی قبر کی پائنتی میں دفن کیا گیا۔


Jafar Danish,
 Hosain Nagar, Via: Madhab Nagar
, Post: Haldidihi, Distt.: Bhadrak, Odissa - 756181
 (Odissa) Mob.: 9438320786
Email.jafardanish.jd@gmail.com


ماہنامہ اردو دنیا، جون2016




قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں