29/3/19

معاشرے کی بیداری میں ریڈیو کا رول مضمون نگار: افتخارالزماں



معاشرے کی بیداری میں ریڈیو کا رول
افتخارالزماں

موجودہ دور اطلاعات اور برقی نشریات کا ہے۔ ذرائع ترسیل و ابلاغ نے انسانی زندگی کو جس طرح متاثر کیا ہے اس نے پوری دنیا کو ایک چھوٹے سے گاؤں میں تبدیل کردیا ہے۔ اطلاعات و معلومات کی فراوانی کے سبب ایک طرف تو معاشرے حقیقت پسندی اور عقلیت کے حامل ہورہے ہیں تو دوسری طرف نظریات کی بوچھار نے ان کی قوتِ فیصلہ سلب کرلی ہے۔ ہماری تمام خواہشیں ذرائع ترسیل و ابلاغ کی محکوم ہوکر رہ گئی ہیں۔ ذرائع ترسیل و ابلاغ کی اسی اثرپزیری کو دھیان میں رکھیں تو معاشرے کی بیداری میں ریڈیو ایک بہت اہم رول ادا کرسکتا ہے۔ کیونکہ کسی بھی ملک کے معاشرے کی بیداری میں ریڈیو کا اہم رول ہوتا ہے اور میڈیا میں اگر ہم صرف ریڈیو کی بات کریں تو یہ رول خودبخود نمایاں ہوجاتا ہے۔ وہ اس لیے کہ ذرائع ابلاغ کے دوسرے وسیلوں کے مقابلے میں ریڈیو کے کئی فائدے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس کی آواز بہت ہی کم خرچ پر دنیا کے کونے کونے تک پہنچ سکتی ہے۔ 
اس میں استعمال ہونے والی ٹکنالوجی بھی اتنی پیچیدہ نہیں جتنی ٹیلی ویژن میں ضرورت ہے۔ اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ ریڈیو کی آواز سننے کے دوران ہم دوسرے کام بھی کرسکتے ہیں۔ ایک اور اہم بات یہ بھی ہے کہ ریڈیو کا فائدہ ناخواندہ لوگ بھی اٹھا سکتے ہیں۔ ان سب باتوں کی وجہ سے ہی پوری دنیا نے ریڈیو کی ایجاد کے بعد ذرائع ابلاغ کے اس وسیلے کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور سماج کو جدید بنانے کے لیے اس کا استعمال کیا۔ ہندوستان میں بھی ابتدا میں ریڈیو کا بھرپور استعمال کیا گیا جس سے سماجی بہبود کے کام کو کافی تقویت ملی۔ بنیادی طور پر ریڈیو نشریات کے تین مقاصد ہیں لوگوں کو تعلیم دینا، اطلاعات فراہم کرنا اور تفریح کا سامان کرنا۔ جہاں تک تعلیم دینے کی بات ہے یہ رسمی اور غیررسمی تعلیم دونوں کے لیے ریڈیو کافی مفید ہے۔ برطانیہ میں ریڈیو کے ذریعے تعلیم فراہم کرنے کا کام 1922 میں British Broad Casting Company قائم ہونے کے دو سال بعد شروع ہوا۔ یہی کمپنی بعد میں British Broad Casting Corporation یعنی BBC میں تبدیل ہوئی۔ امریکہ میں یہ کام1930 کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں شروع ہوا۔ ہندوستان میں اس کام کو انجام دینے میں کئی ادارے شامل ہوئے۔ چونکہ ہمارے ملک میں آل انڈیا ریڈیو یعنی آکاش وانی کی آواز تقریباً پوری آبادی تک پہنچ سکتی ہے۔ اس لیے اس کے پروگرام دور دور تک سنے جانے لگے۔ ان پروگراموں کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ رسمی تعلیم حاصل کرنے والے مختلف سطحوں کے طالب علموں کے لیے الگ الگ نشر کیے جاتے ہیں۔ اسکول Broad Castingکے تحت پرائمری اسکول، سکنڈری اسکول اور یونیورسٹیوں کے لیے پروگرام نشر کیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ بالغو ں کے لیے غیررسمی تعلیم بھی فراہم کی جاتی ہے۔ بچوں، نوجوانوں، اور خواتین کے لیے بھی خصوصی پروگرام نشر کیے جاتے ہیں۔ کئی اسٹیشنوں میں چھٹیوں کے دوران طالب علموں کو پیشہ ورانہ اداروں میں داخلے کے لیے بھی تعلیم دی جاتی ہے۔ ان میں انجینئرنگ، میڈیکل، زرعی اور Veterenary Sernica کے ادارے شامل ہیں۔ ایسے پروگرام بھی نشر کیے جاتے ہیں جن میں طالب علم اور دیگر لوگ براہ راست Studio میں بیٹھے ماہرین کے ساتھ ٹیلی فون کے ذریعے بات چیت کرسکتے ہیں اور اپنے سوالوں کے جواب حاصل کرسکتے ہیں۔ نوجوانوں کے لیے ایک علیحدہ چینل Yuv-Vani ہے۔ اردو سروس، نئی دہلی میں نئی نسل نئی روشنی پروگرام ہے جس کے ذریعے وہ اپنی صلاحیتوں کو فروغ دے سکتے ہیں۔ اندراگاندھی نیشنل اوپن یونیورسٹی بھی ریڈیو کی سہولیات کا استعمال کرکے Gyan-Vani FM چینل چلا رہی ہے۔ جو صرف طالب علموں کو تعلیم فراہم کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ اس وقت یہ پروگرام تقریباً 26 اسٹیشنوں سے نشر کیے جاتے ہیں۔ مزید 15اسٹیشن اس کے دائرے میں لانے کی تیاریاں ہورہی ہیں اور ان کا خاص مقصد شمال مشرقی ریاستوں اور انڈمان، نکوبار جزیروں کی طرف توجہ دینا ہے۔ اسکول جانے سے پہلے بچوں کے لیے بھی ایک پروگرام شروع کیا گیا ہے۔ اس کے ذریعے 3 سے 6 سال تک کے بچے اور آنگن باڑی میں پڑھنے والے سماج کے کمزور طبقوں سے تعلق رکھنے والے بچوں کی طرف خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ ریڈیو نے کئی ایسے سلسلے وار پروگرام نشر کیے ہیں جن کا تعلق مختلف سماج سے ہے اور اس میں سماجی برائیوں سے ان سے چھٹکارا پانے کے طریقے بتائے جاتے ہیں۔ ان میں شراب نوشی، کم عمر میں لڑکوں، اور لڑکیوں کی شادی، میاں بیوی کے درمیان گھریلو جھگڑے، خواتین کے مسئلے وغیرہ شامل ہیں۔
آلودگی کے موضوع پر سلسلے وار پروگرام اور زرعی تعلیم فراہم کرنے سے متعلق پروگرام کافی اہمیت کے حامل ہیں۔ FM ریڈیو شروع ہونے کے بعد ریڈیو کا رول اور زیادہ اہم ہوگیا ہے۔ جہاں تک اطلاعات فراہم کرنے کا تعلق ہے اس کے لیے آکاش وانی، خبروں کا شعبہ اپنی ذمے داری نبھا رہا ہے۔ اس کے تحت 277 اسٹیشنوں سے 23 زبانوں اور 146 ڈائیلیکٹ میں خبریں نشر کی جاتی ہیں۔ کاروبار کو فروغ دینے کے لیے آکاش وانی نے Commercial اسٹیشن بھی قائم کیے ہیں۔ جو اشتہارات کے ذریعے آکاش وانی کے لیے رقوم جمع کرتے ہیں۔ کسانوں کو زراعت سے متعلق ضروری اطلاعات فراہم کرنے کے لیے پروگرام نشر کیے جاتے ہیں۔ اس کے ذریعے انھیں بہتر کاشت کے لیے عمدہ طور طریقوں، اچھے بیج اور سینچائی وغیرہ کی جانکاری دی جاتی ہے۔ انھیں یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ کس موسم میں کس چیز کی کاشت مفید ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ موسم کی جانکاری اور پیشن گوئی سے انھیں باخبر رکھا جاتا ہے۔ قدرتی آفات کے وقت بھی ضروری اطلاعات فراہم کی جاتی ہیں۔ اس طرح جہاں پوری دنیا میں ریڈیو کا استعمال سماجی بہبود کے لیے کیا گیا وہیں ہندوستان میں بھی ریڈیو کا استعمال اس مقصد کے لیے کیا گیا۔تعلیم فراہم کرنے، لوگوں کو اطلاعات فراہم کرنے اور اُن کی تفریح کے علاوہ ریڈیو نے قومی یکجہتی کو مضبوط کرنے کے لیے بھی نمایاں کام کیا ہے۔ ریڈیو لوگوں میں یکجہتی کا احساس دلانے کا ایک اہم ذریعہ ثابت ہوا ہے۔ چونکہ اس کی آواز ہر علاقے میں سنی جاتی ہے اس لیے یہ مقامی زبانوں میں پروگرام نشر کرکے لوگوں کے بہت قریب آسکتا ہے اور انھیں قومی مفاد کے لیے چھوٹے چھوٹے اختلافات بھُلا کر ایک دوسرے سے میل جول کے ساتھ رہنے کی ترغیب دے سکتا ہے اور آل انڈیا ریڈیو یہ ذمے داری بحسن و خوبی نبھا رہا ہے۔
ریڈیو کی اسی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے عالمی یوم ریڈیو یعنی World Radio Day بھی منایا جانے لگا ہے اور 13 فروری کا دن عالمی یوم ریڈیو کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یہ تجویز 2010 میں اقوام متحدہ میں پیش کی گئی جس کے بعد اس پر کافی غور و خوض ہوا اور یہ طے پایا کہ 13 فروری کا دن اس کے لیے مقرر کیا جائے۔ چنانچہ پہلا عالمی یوم ریڈیو World Radio Day، 2012 میں منایا گیا۔ جب دنیا بھر کے ریڈیو اسٹیشنوں سے خصوصی پروگرام نشر کیے گئے۔ 13 فروری کا دن اس لیے مقرر کیا گیا کیونکہ اس دن اقوام متحدہ کی طرف سے 1946 میں UN ریڈیو اسٹیشن شروع ہوا تھا۔ UNESCOکے اس فیصلے کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھی بعد میں تائید کی۔ ویسے پہلا پبلک ریڈیو براڈ کاسٹنگ 13 جنوری 1910 میں تجرباتی طور پر منعقد ہوا تھا جو 20 کلومیٹر دور ایک سمندری جہاز میں سنا گیا۔ اس سے پہلے بھی وائرلیس براڈ کاسٹنگ کے تجربے ہوئے جو زیادہ کامیاب نہیں ہوسکے۔ اقوام متحدہ کے فیصلے میں دنیا کی بڑی بڑی براڈ کاسٹنگ تنظیمیں شامل تھیں۔
ریڈیو پر Short wave نشریات شروع میں بہت محدود تھے۔ مگر 1933 میں جرمن میں ہٹلر کے اقتدار میں آنے کے بعد اس کی اہمیت کا احساس سب سے پہلے ہٹلر کو ہی ہوا۔ اُس وقت ریڈیو جرمنی سے یہ پروگرام صرف 2 گھنٹوں کے لیے نشر ہوا کرتے تھے۔ مگر ہٹلر نے اسے 18 گھنٹے تک اور بعد میں 24 گھنٹوں تک بڑھا دیا۔ اُس نے اس کے ذریعے پروپیگنڈا کے پروگرام نشر کرنا شروع کیے جو امریکہ، روس اور دوسرے دور دراز ملکوں میں سنے جاتے تھے۔ ان نشریات کے ذریعے لوگوں کی سوچ پر اثرانداز کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس طرح سے ہٹلر نے ریڈیو کا پورا فائدہ اٹھایا۔ آج ریڈیو FM اور Digital سطح تک پہنچ چکا ہے اور اس کا براڈ کاسٹنگ معیار بھی کافی بہتر ہوا ہے۔ اس سے کروڑوں کی تعداد میں بے زبان لوگوں کو زبان مل گئی ہے۔ خواتین اور نوجوان اپنی پسند کے پروگرام سنتے ہیں اور سماج اور ملک کی ترقی کے کام میں شامل ہورہے ہیں۔ اتنا ہی نہیں ہنگامی حالات میں ریڈیو، اطلاعات فراہم کرنے کا ایک اہم ذریعہ ثابت ہوا ہے۔ آندھی طوفان،سیلاب، زلزلہ اور دیگر قدرتی تباہی کے وقت ریڈیو اطلاعات دینے کا کافی اہم ذریعہ ہے۔ چنانچہ ناگہانی آفتوں کے امکان سے لوگوں کو خبردار کرنے کے لیے بھی ریڈیو کا رول کافی اہم رہا ہے۔ عالمی یوم ریڈیو پر ہر سال ریڈیو پروگراموں کے لیے ایک موضوع چنا جاتا ہے جس پر سال کے دوران خصوصی پروگرام بنائے اور نشر کیے جاتے ہیں۔ 2014 کا موضوع ’’مرد اور خواتین کوبرابر کا درجہ دینا ہے۔‘‘ یقیناًیہ ایک نیک قدم ہے۔ ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ خواتین ہر شعبے میں ایک نمایاں رول ادا کرسکیں مگر اس کے لیے ہمیں ایک سازگار ماحول تیار کرنا ہوگا۔ اس سلسلے میں ریڈیو کا استعمال کافی مفید ہوسکتا ہے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ اب کمیونٹی ریڈیو پر خصوصی توجہ دی جانے لگی ہے اور کمیونٹی ریڈیو کے ذریعے خبریں بھی نشر کیے جانے کی تجویز پر سنجیدگی سے غور کیا جارہا ہے۔ گویا دھیرے دھیرے ہم ریڈیو کی اہمیت کو سمجھنے لگے ہیں اور اُمید کرتے ہیں کہ یہ عمل مستقبل میں بھی جاری رہے گا۔
ریڈیو ہماری زندگی کا ایک اہم حصہ ہے اور اسے فروغ دینا بہت ضروری ہے۔ کیونکہ اس انقلابی دور میں ریڈیو کو بھلایا نہیں جاسکتا۔ ہمیں ریڈیو کی خوب صورتی کو تسلیم کرنا ہوگا، اس کے کرشمے کو سمجھنا ہوگا اور اس کی طاقت کو استعمال کرنا ہوگا تاکہ عام لوگ اس کا بھرپور فائدہ اٹھا سکیں۔ جوں جوں ریڈیو کے میڈیم میں جدید ٹکنالوجی کا زیادہ سے زیادہ استعمال ہوگا ریڈیو اور زیادہ مفید بنتا جائے گا۔ اس لیے اس میڈیم کا مستقبل بھی کافی روشن ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس کی اہمیت کو سمجھیں اور اسے اپنی حکمتِ عملی میں وہ مقام دیں جس کا یہ حقدار ہے۔


Iftekharuz Zaman.,
 Natioanl Channel, All India Radio,
 Toda Pur, Delhi - 110012

ماہنامہ اردو دنیا، مئی 2016




قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں