16/4/19

عزیز لکھنوی کی قصیدہ نگاری مضمون نگار: حسن رضا کمیلی



عزیز لکھنوی کی قصیدہ نگاری
حسن رضا کمیلی
عزیز لکھنوی کا اردو شعر و ادب میں ایک اہم مقام ہے۔ آج کی اردو نسل انھیں حافظے میں محض جوش ملیح آبادی کے استاد کے طور پر جگہ دیتی ہے۔
مرزا محمد ہادی ان کا نام اور عزیز تخلص تھا۔ 5 ربیع الاوّل 1300 ھ مطابق 1882 کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام محمد علی ہے جو اپنے زمانے میں فضل و کمال کے اعتبار سے ایک مرتبہ رکھتے تھے۔ خاندان میں علمی مذاق کئی پشتوں سے ثابت ہے چنانچہ عزیز نے بھی اس سنت خاندانی کو قائم رکھا اور پھر متعدد استادوں سے جن میں مولوی محمدحسین، پیارے مرزا، شمس العلما مولوی عبدالحمید وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں، تحصیل علم کی۔ ان بزرگوں سے صرف و نحو، فقہ و اصول، ادبیات، کتب معقول اور درسیات فارسی پڑھی اس لیے شاعری کے ساتھ ساتھ علمی فضل و کمال کے جوہر بھی رکھتے تھے۔ 
عزیز کو لکھنؤ کے قدیم رنگ تغزل کی آخری یادگار قرار دیا گیا ہے۔ وہ میر و غالب کی پیروی کرتے ہیں۔ لیکن ان کا اپنا خاص رنگ ہر جگہ نمایاں رہتا ہے۔ ان کی زبان لکھنؤ کی اصلاح شدہ مستند ٹکسالی زبان ہے۔ عزیز کے یہاں غالب اور میر کی ہم رنگی پر ابواللیث 1 صدیقی نے سیر حاصل بحث کی ہے۔ موصوف کے مطابق عزیز کے قصیدوں میں سودا اور ذوق کا سا زور اور طنطنہ موجود ہے لیکن ان کی زبان ان دونوں سے زیادہ صاف اور رواں ہے۔ عزیز کی قادرالکلامی یہ ہے کہ انھوں نے رنگ تغزل کو جو حقیقتاً قصیدے کا نقص ہے قصیدے کی خوبی بنا کر حسن کو دوبالا کردیا ہے۔
عزیز کے قصیدوں کی تشبیب سے متعلق ابواللیث صدیقی نے بہت مختصر اور جامع انداز میں اظہار خیال کیا ہے:
’’عزیز کی تشبیبیں عموماً تین انداز رکھتی ہیں۔ (1)تو بہاریہ ہیں (2) یا تغزل کا رنگ ہے (3) یا مکالمہ یا اپنے علم و فضل کا اظہار ہے۔2
’صحیفۂ ولا‘ عزیز کے قصیدوں کا مجموعہ ہے جس میں پچاس سے زیادہ قصیدے ہیں۔ لیکن علی جواد زیدی3 کے مطابق مختلف اخبارات اور رسائل میں چھپنے والے قصیدوں اور دوسرے غیرمطبوعہ قصیدوں کو ملا کر عزیز نے تقریباً پچہتر قصیدے کہے ہیں۔ انھوں نے اپنی زبان کو درباری مدح سے آلودہ نہیں کیا اور صرف ائمہ طاہرین کی مدح سرائی کی ہے۔
عزیز کے قصائد کی دنیا وسیع اور دلکش ہے۔ وہ عموماً رواں بحروں کو منتخب کرتے ہیں اور سنگلاخ زمینوں میں ان کے چند ہی قصائد ہیں۔ گریز و مدح سے زیادہ ان کا زور تشبیبوں پر ہوتا ہے جن میں علمی اصطلاحات اور تلمیحات کا وسیع خزانہ ہے ۔ ان کی تشبیبوں میں حسن و عشق، رندی و مستی، مناظر فطرت، درس اخلاق وغیرہ مضامین بکثرت موجود ہیں۔
جن قصیدوں کی تشبیب میں عزیز نے گلشن و بہار کے مرقعے پیش کیے ہیں ان میں سادگی و سلاست ہونے کے باوجود کہیں کہیں فارسی کا گہرا رنگ نظر آتا ہے۔ خصوصاً ’قوت نامیہ‘ کی کرشمہ سازیوں میں خاصا مبالغہ ہے۔ عزیز نے ’قصیدہ غزل طور‘ کے نظریے کو بڑی چابک دستی سے برتا ہے ۔ قصیدۂ معراجیہ کی تشبیب میں ذرا اس رنگ کی گلکاریاں دیکھیے:
توڑی اثر نالہ نے جب مہرِ لب ضبط
کس شوق سے کھلنے لگا طومار شکایات
کام آہی گیا گریۂ بیتابیِ فرقت
اک عمر سے نکلے ہی نہ تھے دل کے بخارات
اللہ رے وہ بے خودی شوق کا عالم
کوشش تھی کہ ہوجائے کہیں تم سے ملاقات
مذکورہ اشعار میں تغزل کی شیرینی میر حسن کے قصیدوں کی تشبیب کی یاد دلاتی ہے۔ اگر اس طرح کے اشعار کو سامنے رکھا جائے تو بآسانی ثابت کیا جاسکتا ہے کہ میر حسن اور میر تقی میر کی طرح عزیز کے یہاں بھی خیال اور بیان کی چستی حاوی ہے۔ لیکن عزیز کے یہاں تشبیب کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ وہ علو مضامین، خوشنما الفاظ اور جدید تراکیب سے سودا و ذوق کے ہم پلہ نظر آتے ہیں۔
اسی قصیدے میں غزلیہ اشعار کے بعد عاشق و معشوق میں سوال و جواب کا سلسلہ شرو ع ہوتا ہے۔ مکالمہ کے اس انداز نے دلچسپی اور جاذبیت میں اضافہ کیا ہے:
تجھ کو اثر جذبۂ عاشق کی قسم ہے
اب دے مرے ان چند سوالوں کے جوابات
کیا عشق کی تقدیر میں ہے ذلت و خواری
کیا شان نہیں ہے مری شایان مراعات
میں نے یہ کہا ہوگا ستم مجھ پہ کہاں تک
فرمایا کہ جب تک رہیں تجھ پر یہ عنایات
میں نے یہ کہا آئے ہو مقتل میں تہی دست
فرمایا کہ کافی ہیں مرے چند اشارات
میں نے کہا زندہ ہیں شہیدانِ محبت
فرمایا تجھے قتل کروں گا پئے اثبات
عزیز کی ان عاشقانہ تشبیبوں میں بہت معنویت اور گہرائی ہے۔ ان کی فکر رسا انھیں اس منزل تک لے جاتی ہے جہاں یہ راز افشا ہوجاتا ہے کہ حسن و عشق ایک ہی دریا کے گوہر ہیں اور ان میں ایک اتحاد معنوی پایا جاتا ہے:
غبار اس کا ابھی تک ڈھونڈتا پھرتا ہے لیلیٰ کو
الٰہی کیا تعلق تھا دل مجنوں کو لیلیٰ سے
وہ محوِ بے خودی تھے دیکھتے کچھ ہوش ہی کب تھا
عبث ہے پرسش انداز حسنِ یار موسیٰ سے
بہار آنے پہ جب کوئی کلی کھلتی ہے لالے کی
شکستِ قلب مجنوں کی صدا آتی ہے صحرا سے
جمال شاہد وحدت نے باندھی ہے ہوا ایسی
اڑا جاتا ہے دل بن بن کے ہر اک ذرہ صحرا سے
ہے حسن و عشق میں اک اتحاد معنوی باہم
برآمد دونوں یہ گوہر ہوئے ہیں ایک دریا سے
وہ اس عشق حقیقی کے متلاشی ہیں جو ہر عاشق کی قوت ارادی کا سرچشمہ ہے اور اسے ہر آزمائش میں ثابت قدم رکھتا ہے۔ دیکھیے دعائیہ تشبیب کے یہ اشعار جو نظم طباطبائی کی زمین میں ہیں:
مجھے اس بحر عشقِ سرمدی کا ایک قطرہ دے
کہ جس نے انبیاء کے چشمۂ دل میں جگہ پائی
بوقت ذبح اسمٰعیل جس نے دلدہی کی تھی
خلیل اللہ کو دے دے کے تعلیم شکیبائی
یہی تھا باعث چاکِ قمیصِ حضرت یوسف
اِسی نے تھی گواہی پاک دامانی پہ دلوائی
بھلا یوں بے ستوں کیا تیشۂ فرہاد سے کٹتا
اسی نے بازوؤں میں کوہکن کے دی توانائی
مناظر فطرت کے بیان اور موسم کی کیفیات میں بھی ان کا اپنا رنگ نمایاں رہتا ہے۔ دیکھیے یہ بہاریہ تشبیب:
بہارِ برشگال آئی کہاں ہے ساقیِ مہ روٗ
جگا دے آج کی شب تو ذرا چلتا ہوا جادو
گھٹائیں ہر طرف امڈی ہوئی برسات کی راتیں
معاذ اللہ پھر اس پر دل اسیرِ حلقۂ گیسو
برستا ہے لگاتار آج پانی بھرگئے جل تھل
ستم ہے اب بھی پیمانہ ہمارا گر نہ ہو مملو
بہار آ آ کے جوش باطنی کو تیز کرتی ہے
مری آنکھوں سے ٹپ ٹپ گر رہے ہیں متصل آنسو
نوید فصلِ گل سے ہوگئیں روحیں طرب آگیں
رگوں میں خونِ تازہ دوڑنے پھرنے لگا ہر سو
قصیدہ حسن و عشق در لغت کی تشبیب میں بہار کی منظرکشی ہے۔ سودا اور ذوق کی تقلید کی کامیاب کوشش ہے مگر اس پرانی ڈگر پر چلتے ہوئے بھی عزیز نے اپنی انفرادیت کے نشان چھوڑے ہیں:
گھنے بال اس طرف سنبل نے کھولے بہر آرائش
گلابی مد بھری آنکھ اس طرف نرگس نے دکھلائی
نگار سبزہ نے مہد زمیں پر کروٹیں بدلیں
ادھر آغوش میں گلشن کے لی بیلوں نے انگڑائی
جماہی آئی پھولوں کو ادھر ذکر صراحی سے
ادھر غنچوں نے شاحوں پر ہر اک پور اپنی چٹکائی
نسیم عطر بیز گل نے کھولا باب مے خانہ
جہاں تک ہوسکا ساقی نے پی اور خوب پلوائی
سرور افزا چمن میں جم گھٹا ہے مہ جبینوں کا
کہیں معشوق تبریزی کہیں ترکان یغمائی
گرمی کی حدت و شدت کے بیان میں قصیدہ خورشید جہاں تاب کے یہ چند متفر ق اشعار دیکھیے۔کیا نقشہ کھینچا ہے۔ یہاں عزیز، انیس و دبیر کے مرثیوں کی منظرنگاری سے متاثر دکھائی دیتے ہیں۔ آسمان و زمین تپ رہے ہیں اور عشاق کی حالت نہ پوچھیے باطن میں آتش عشق ہے اور خارج میں حدت آفتاب:
دیکھیے تو نفسِ گرم کی آتش خیزی
مثل شعلہ کے زباں کو ہے ذہن میں حرکت
جاتے ہیں آتشِ یاقوت کے شعلے تا چرخ
تفتگی سے یہ معاون کے ہوئی کیفیت
آتشِ عشق نے عشاق کو بس پھونک دیا
تھی ادھر حسن ادھر مہر مبیں کی حدت
درس اخلاق کو بہت سے شعرا نے تشبیب کا موضوع بنایا ہے۔ عزیز نے بھی اپنی تشبیبوں میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیا ہے۔ ’آئینہ عبرت‘ اور ’انقلاب ہستی‘ کی تشبیبوں میں دنیا کی بے ثباتی، اس کا جائے عبرت ہونا، سراب ہونا بیان کیا ہے اور فریب ہستی میں نہ آکر فکر آخرت کرنے اور عمل صالح بجا لانے کی تلقین کی گئی ہے۔ کبھی وہ گور غریباں کا نقشہ کھینچ کر اہلِ ایمان کو دنیوی لذتوں سے احتراز کرنے کا درس دیتے ہیں۔ پند و نصیحت پر مبنی یہ اشعار انقلاب ہستی سے نقل کیے جارہے ہیں:
ہوشیار و باخبر اے سرخوش عہد شباب
تا کجا نظارۂ نیرنگیِ دارالخراب
کیا بساطِ خاک پر بستر نہ ہوگا ایک دن
میں نے مانا تو ہے زیر خیمۂ زریں طناب
تیری اس کی ایک منزل ایک بستر ہوگا کل
کیوں فقیروں سے ہے اے منعم تجھے آج اجتناب
خود پرستی سرکشی غفلت رعونت حرص و آز
نفس کو صحبت سے ان کی چاہیے ہے اجتناب
قصیدہ موسوم بہ شمع حرم میں انھوں نے مختلف مذاہب کے علما کا مناظرہ قلمبند کیا ہے۔ اس کی عالمانہ فضا عزیز کے علم و فضل کا بین ثبوت ہے:
روایت سے کوئی برہانِ ملّی پیش کرتا ہے
درایت سے کوئی لاتا ہے استدلال دعوے پر
وہ کہتا ہے خلا ممکن ہے کہیے کیوں محال اس کو
دکھاتا ہے یہ اک سربند شیشہ قطعِ حجت پر
وہ کہتا ہے نظام عہد فیثاغورس اعلیٰ ہے
ارسطو اور بطلیموس تو ناداں تھے سرتاسر
’برق تجلی‘ میں وہ ایک صوفی بزرگ معلوم ہوتے ہیں جو علم و عرفان میں یدطولیٰ رکھتا ہو:
الٰہیات کے پڑھنے سے اے غافل نتیجہ کیا
نہیں ہے دل ترا جب جلوہ گاہِ نورِ عرفانی
کتاب النفس افلاطون اگر پڑھ لی تو کیا حاصل
حقیقت نفس امّارہ کی جب اپنے نہ پہچانی
دم لغزش یدِ بیضائے دل سے لے مدد سالک
نہیں ہے دل ترا جب جلوہ گاہِ نورِ عرفانی
فنا فی العشق ہو جا جب کہیں یہ عقدہ حل ہوگا
ترا مافی الضمیر نفس ہے وہ راز پنہانی
لکھنویت کے اثرات:
لکھنویت کی اہم خصوصیت سراپا نگاری ہے۔ عزیز معشوق کا سراپا بیان کرتے ہوئے متعلقات محبوب کی تعریف بھی کرنے لگتے ہیں جو لکھنوی دبستان کا خاصہ ہے۔
غالب کی غزل کی زمین میں یہ اشعار اور بعض دیگر اشعار بھی دیکھیے۔ جن کی تشبیبوں میں لکھنویت کے آثار نمایاں ہیں:
دود پیما میں نے چند آہیں جو کی تھیں ہجر میں
وہ جواب گنبد گردونِ گرداں ہوگئیں
اُف جوانی میں کسی بدمست کی انگڑائیاں
باعث خمیازۂ چاک گریباں ہوگئیں
نہ سمجھو خال مشکیں اے حسینو اپنے عارض پر
دل شب آگیا ہے دیکھ کر انداز دلداری
ہزاروں دے دیے دشنام اپنے جذبۂ دل کو
رقیب رو سیہ کے گھراگر وہ ہوگیا مدعو
عزیز کے یہاں گریز میں برجستگی اور بے تکلفی ہے۔ گریزوں میں ربط اور حسین پیوندکاری ان کی فنکارانہ صلاحیت کو ظاہر کرتی ہے۔ زیادہ تر وہ تشبیب کے بعد ساقی نامے سے گریز کرتے ہیں۔ جب وہ حضرت رسول خدا اور حضرت علی کی مدح ایک ساتھ کرتے ہیں تو انھیں دوہری مدح کی خاطر دوہری گریزوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ مختصر گریز کی ایک مثال دیکھیے:
پکارتے ہیں خراباتیان مے خانہ
تجھی کو یا اسداللہ حیدر کرار
ان کے قصیدوں میں مدح کے بھی اچھے نمونے ملتے ہیں۔ بے جا مبالغہ آرائی سے وہ دامن بچاتے ہیں۔ اکثر صاف ستھری زبان میں سادگی کے ساتھ اپنے مافی الضمیر کو ادا کرتے ہیں۔ البتہ بعض جگہوں میں عربی و فارسی کے ادق الفاظ و اصطلاحات کی بھرمار ملتی ہے۔ 
قصیدہ فتح الباب در تہنیت فتح خیبر میں مدح کا انداز دیکھیے:
شعلہ ہوئیں دیواریں خیبر سے دھواں اٹھا
بجلی جو ادھر چمکی شمشیر دو پیکر کی
وہ تیغ زباں آور وہ تیغ ظفر پیکر
وہ تیغ قضا گستر جو ملک ہے حیدر کی
مذکورہ اشعار میں عزیز نے حضرت علی کی ذوالفقار کی تعریف میں بڑے جوش و خروش اور طنطنے کا ثبوت دیا ہے۔
عزیز کو فکر عقبیٰ بے چین رکھتی ہے۔ انھیں صلۂ دنیا نہیں آخرت میں سرخروئی درکار ہے۔ لہٰذا وہ خلوص و عقیدت میں ڈوب کر دعا کرتے ہیں۔ یہ مختصر دعا کبھی اپنی ذات کے لیے ہوتی ہے اور کبھی قوم و ملک کے لیے۔ وہ اپنے ممدوحین کے اعلیٰ مراتب سے بخوبی واقف ہیں۔ لہٰذا یہ احساس بھی انھیں ستاتا ہے کہ ان سے حق ادا نہ ہوسکا:
خدا ہے تیرا معترف رسول تیرے جانثار
ادا ہو حقِ مدح کیا غلام کے غلام سے
حواشی
.1 لکھنؤ کا دبستان شاعری: ڈاکٹر ابواللیث صدیقی، ص 797، مکتبہ علم و فن، مٹیامحل دہلی، 1965
.2 ایضاً، ص 806
.3 قصیدہ نگاران اترپردیش: علی جوادزیدی، ص 198، اترپردیش اردو اکادمی، پہلا ایڈیشن، 1978

Dr. Syed Hasan Kumaili., 
32-D, Babul Ilm Lane,
 Noor Nagar Extn., New Delhi - 25

ماہنامہ اردو دنیا، نومبر2016




قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں