16/4/19

احمد ندیم قاسمی کے افسانوں میں دیہات مضمون نگار: رضوان بن علاء الدین



احمد ندیم قاسمی کے افسانوں میں دیہات

رضوان بن علاء الدین
احمد ندیم قاسمی ان افسانہ نگاروں میں نمایاں ہیں جنھوں نے دیہی معاشرت کو اپنے افسانوں کا محور و مرکز بنایا اور دیہی کرداروں کو مرکزیت عطا کرکے ان کے جذبات، احساسات اور زندگی کے تضادات کی بہترین عکاسی کی۔ وہ دیہی ماحول اور مناظر کے بہترین مصور تھے۔ اس دیہات نگاری نے انھیں امتیاز و انفراد بھی عطا کیا۔
انھوں نے اپنے افسانوں کی اساس گاؤں کے پس منظر میں انسانی زندگی کے ان المیوں پر رکھی ہے جن کا تعلق معاشی ناہمواریوں سے ہے۔ سید وقار عظیم ان کی دیہات نگاری کو سراہتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’فطرت نے انھیں دیہاتی زندگی کا مصور اور ترجمان بنا کر بھیجا ہے۔ اور انھیں فطرت کے سونپے ہوئے کام اورمنصب پر قائم رہنا چاہیے۔ یہیں آکر ان کا تخیل، ان کا شاعرانہ طرز اپنی پوری رعنائی اختیار کرتا ہے۔ 1
احمد ندیم کے افسانوی کردار غریب، سادہ لوح، ملنسار، خوش اخلاق، مہمان نواز اور معصوم ہیں۔ انھوں نے اپنے افسانوں میں زیادہ تر اس ماحول کی عکاسی کی ہے جس کی انھیں پوری واقفیت ہے اور جس سے ان کا براہ راست تعلق ہے۔ 
افسانہ نگار اس فضا میں سانس لینے والے زمینداروں، کسانوں، کھیت، کھلیانوں، ان کے کنوؤں اور چشموں اور جانوروں تک سے ایسی دلچسپی اور ہمدردی رکھتا ہے جو پریم چند کے علاوہ کسی اور کے یہاں نظر نہیں آتی۔ یہی ان افسانوں کی کامیابی وکامرانی کا راز ہے اور حقیقت سے قریب تر ہونا ان کے گہرے مشاہدے کی دلیل ہے۔ 
ان کے افسانوں میں دیہات کے معصوم اور سادہ لوح لوگ اپنی غیر مصنوعی حرکات وسکنات کے ساتھ دکھائی دیتے ہیں۔ ان میں اُپلے تھوپنے والی، کہیں کہیں بھیڑ بکریاں چرانے والے نوجوان بھی ہیں۔ دیہاتی افراد کی محبت، رسم ورواج، قتل وغارت، توہم پرستی، تاریک اورکریہہ پہلوؤں کو بے نقاب کرنا ان کا مقصد حیات تھا۔ ’طلوع وغروب‘ میں لکھتے ہیں:
’’میں نے پھٹے ہوئے ہونٹوں سے آہوں کے دھوئیں اٹھتے دیکھے ہیں۔ میں نے موت کی چڑیلوں کو تیرہ نصیب مریضوں کے سرہانے، دانت کچکچاتے اور انگلیاں چٹخاتے دیکھا ہے۔ میں نے زندگی کی نعش کو گلتے سڑتے ہوئے دیکھا ہے۔ میں نے گرد آلود پلکوں میں اٹکے ہوئے دھندلے آنسوؤں کو۔۔۔غریبوں کی روتی اور بلکتی ہوئی اولاد کو نہایت قریب سے دیکھا ہے جس کی دھجیوں سے بدبو آتی ہے۔‘‘2
قاسمی کے افسانے دیہاتی زندگی کے ہر پہلو کو بے نقاب کرتے ہوئے صداقت پر مبنی تصویریں پیش کرتے ہیں۔ غربت، بھوک، توہم پرستی، بیماری، ناخواندگی، بے روزگاری، نچلے طبقوں کا استحصال، امیروں کی عیاری، آسودہ اور باوسائل افراد کا جارحانہ اور جابرانہ رویہ اجڑے گھروں اور ان کے باسیوں کی مفلوک الحالی اور خانہ ویرانی یہ تمام مسائل سبھی دیہی باشندوں کے ہیں۔ قاسمی کا فطری میلان دیہی زندگی کی طرف زیادہ تھا۔ انھوں نے دیہاتی بود وباش کو اپنی تحریروں میں پیش کرکے زندگی کے مختلف پہلوؤں کی نقاب کشائی کی ہے قاسمی نے اپنے افسانوں میں مقامی طرز معاشرت کی عکاسی اتنے دلکش اور دلچسپ انداز سے کی ہے کہ مختلف ادبی نظریات سے تعلق رکھنے والے نقاد بھی ان کی تعریف و توصیف بیان کیے بغیر نہیں رہ سکے۔ ڈاکٹر سہیل احمد لکھتے ہیں:
’’قاسمی صاحب کی ابتدائی کہانیاں اپنی ادبی زندگی کے آغاز میں ہمارے شعور میں روشنیاں سی بکھیرتی ہیں۔ دیہات کی پگڈنڈیوں، ٹیلوں پر چاند کا غبار، ریت اور بگولے، اونٹ اور ساربان ، اس ماحول میں انسانی معاشرت کے تضادات، جوانی کے جذبے، محبتوں کے کھیل، پھر ان رومانی فضاؤں پر اچانک مایوسیوں کی یلغار، جنگ اور طبقاتی تضاد کے یہ تمام عناصر جناب قاسمی صاحب کی جذباتی اور شاعرانہ نثر میں ڈھل کر جی کو لبھاتے تھے۔ قاسمی صاحب کے ہاں دیہات کا صرف رومانی روپ نہیں تھا۔ وہ اس فردوس میں جلتے ہوئے گھر دیکھتے تھے۔ ان کی واقعیت نگاری اور قوت مشاہدہ اثر انگیز تھی۔ انھوں نے پنجاب کے ایک خاص علاقائی ماحول کو زبان دی۔ اس علاقے کے کرداروں کو اردو ادب کا حصہ بنایا۔ پریم چند سے شروع ہونے والی دیہات نگاری کو نئی نہج پر ڈالا۔ ان کی اس حیثیت سے میرے جیسے لوگوں کو بھی جن کی ترجیحات مختلف ہیں، انکار نہیں۔‘‘ 3
قاسمی کے افسانوں میں دیہی زندگی کی تلخیاں کوٹ کوٹ کر بھری پڑی ہیں۔ لیکن شہر میں سکونت کے لحاظ سے جن حالات اور واقعات نے انھیں متاثر کیا ہے اس کا بھی عکس ان کے افسانوں میں ملتا ہے۔ قاسمی کے افسانوں میں اکثر و بیشتر شہر کی عورت بے وفا اور خلوص ومحبت سے عاری ہے۔ ان کے افسانوں میں شہری زندگی پر مشتمل افسانے غربت، فریب، جھوٹی شان و شوکت، ریاکاری اور تصنع سے بھرپور ہیں۔ قاسمی اپنے افسانوں میں شہروں کی مصنوعی زندگی، بے وفائی، خود غرضی کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہیں۔’گرداب‘ کے دیباچہ میں لکھتے ہیں:
’’معاً مجھے خیال آیا کہ دیہات کی معصوم فضاؤں سے نکل کر جدید تہذیب وتمدن کے ان گہرپاروں کو بھی دیکھوں جو گڑ گڑاتی ہوئی مشینوں اور گاڑھے بدبودار دھوئیں میں لپٹے ہوئے ابھرے اور پھیلے جارہے ہیں۔۔۔ یہاں کے مسائل الگ ہیں۔ ماحول الگ تھا۔ لوگوں کی ذہنیت الگ تھی، یہاں پتلونوں کی جمی ہوئی لکیروں اور بالوں کے متناسب لہروں کے تذکرے تھے، تصنع تھا، تکلف تھا، ریاکاری تھی اور ان کے مصفا چہروں کے پیچھے سماج کا پلیگ تعفن پھیلا رہا تھا اور لباس حریر کے نیچے زخمی روحیں بلک رہی تھیں۔‘‘ 4
قاسمی نے جہاں دیہاتی افراد کی سادہ لوحی، معصومیت اور سادگی کو پیش کیا ہے۔ وہیں شہری افراد کی مصنوعی زندگی، اور جدید تہذیب وتمدن کو اپنے افسانوں میں بدرجۂ اتم موضوع بنایا ہے۔ قاسمی شہری کہانیوں کے حوالے سے لکھتے ہیں:
’’شہری متوسط زندگی کے بارے میں بھی میں نے کہانیاں لکھیں اور بعض اونچے طبقے کے دوست تھے تو ان کے ساتھ دو تین بار یوں کہیے کہ جو نام نہاد اعلیٰ سطح کی سوسائٹی تھی، اس میں بھی شرکت کی۔ اس کا عکس میرے افسانوں میں موجود ہے۔‘‘ 5
افسانہ ’کفارہ‘ کا پیرو اپنا آبائی مکان فروخت کرکے سفید بیلوں کی جوڑی اور ایک ہل خریدتا ہے۔ اور یہ کوشش کرتاہے کہ اپنی بنجر زمین کو زیر کاشت لائیں۔ لیکن جیسے ہی یہ پتہ چلتا ہے کہ پیرو اپنی زمین پر ہل چلا رہا ہے۔ ہل چلانے کی پاداش میں پیرو کو پولیس بری طرح لہو لہان کردیتی ہے۔ اور دونوں بیل بھی ضبط کر لیتی ہے۔ اسی طرح افسانہ ’’اصول کی بات‘‘ کا عبد اﷲ کسی جرم میں اپنے گھر اور کھیت سے بے دخل کردیا جاتا ہے۔ تو وہ کچھ دنوں کے بعد اپنی بیوی اور جوان بیٹی کے ساتھ جاگیردار کی خدمت میں حاضر ہوتاہے۔ جب عبد اﷲ کو بطور مزارع رکھنے کی امید نظر آتی ہے تو وہ سکون کا سانس لیتا ہے۔ لیکن یہ ہو نہیں پاتا ہے تھوڑی دیر کے بعد زمین دار کا دلال دروازے پر آکر دستک دیتا ہے۔
’’وہ بنگلی والی زمین سرکار نے تمھارے نام کردی تھی منشی سے بھی کہہ دیا تھا اور یہ بھی انتظام کردیاتھا کہ صبح کو تم بیلوں کی ایک جوڑی بھی پسند کرلو مگراب معاملہ کچھ بگڑ گیا ہے۔ تم سے کچھ ہوسکتا ہے تو کرلو۔ میں تمھیں لے چلتا ہوں ڈیوڑھی میں۔ یوں کرو کہ تمھاری بیٹی ہے نا ماکھاں، اس کو سمجھا دو۔ کیا سمجھا دوں؟ وہ کیا کرے گی؟ عبداﷲ نے پوچھا اور سائیں بولا:
ارے چاچا! اس کو سمجھا دونا۔ اس سے کہہ دونا مان جائے آدھی رات ہونے کو آئی ہے اور وہ اب تک نہیں مانی ہے۔ نہ وہ مانتی ہے۔ نہ اس کی ماں اسے مناتی ہے۔ اب اگر تم بھی نہ منا سکو تو سرکار کہتے ہیں کہ اپنی راہ لو۔ اصول کی بات ہے۔‘‘ 6
اس افسانے میں جاگیردار ایک غریب اور تنگ دست انسان کی عزت نفس کو مجروح کرتا ہے۔ اور عنفوان شباب کے سادہ حسن کو تاراج کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جاگیردار کی بے دخلی محکومی اور عیاریوں کے باوجود عبد اﷲ اپنی بیوی اور بیٹی کی عزت بچانے میں کامیاب ہوجاتاہے۔ جاگیردار اپنی گھٹیا اور نازیبا خواہش پوری نہ ہونے پر اس کی سزا کھیت کھلیان کی تباہی و بربادی یا علاقے سے بے دخل کرنے کی صورت میں دیتا ہے۔ 
سماجی حقیقت نگاری، غریبوں کے مسائل اور مشکلات، ظلم و نا انصافی، احساس ذلت، عزت نفس کو بری طرح جھنجھوڑنا اور مجروح کرنا جاگیردار اور با وسائل طبقے کا ظلم وجبر وغیرہ قاسمی کے افسانوں میں جا بہ جا موجود ہے۔ قاسمی نے طبقاتی تضاد کو حقیقی رنگ میں ابھارا ہے۔ جہاں زمیندار بلند و بااثر ہے وہیں مزارع کو کیڑوں اورمکوڑوں اور جانوروں کی طرح مسلا جاتاہے اور معاشرے میں اس کو کوئی حیثیت نہیں دی جاتی ہے۔
بقول انور سدید:
’’زمیندار جب ظلم کرتا ہے تواس کی غصیلی آواز ہفت آسمان تک جاتی ہے اور مزارع جب ظلم سہتا ہے تو اس کی صدائے درد سے بھی آسمان پھٹنے لگتا ہے۔‘‘ 7
اسی طرح افسانہ’’ بے گناہ‘‘ کا رحمان یتیم اور مسکین بے روزگار نوجوان تھا۔ جیسے ہی شفقت پدری سے محروم ہوا۔ ذیل دار کے ظلم وستم نے مرتے دم تک اس کا پیچھا نہ چھوڑا۔ غریب اور مفلوک الحال رحمو دو وقت کی روٹی بھی نہیں کھا سکتا تھا۔ وہ زمین کا لگان کس طرح ادا کرسکتا تھا۔ ذیل دار رحمو کے گھر آکر کہتا ہے:
’’میں تم جیسے بھکاریوں کے کان کھینچ لیا کرتا ہوں۔ پانچ روپے ابھی ابھی پیدا کرو ورنہ میں گاؤں کے سارے چوکیداروں کو بلواکر تمھارا بھرکس نکلوا دوں گا۔‘‘ 8
چند دن مہلت مانگنے کی پاداش میں اسے جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ اس کے کھلیان کو بری طرح تہس نہس کر دیا جاتا ہے۔ اور اس کے گھر کو آگ کے حوالے کردیا جاتا ہے۔ حتی کہ جیل میں ہی اپنا دن گزارتے گزارتے رحمو اس دنیا سے رخصت ہوجاتاہے۔ جب تک زندہ رہا ذیل دار کا ظلم وستم سہتا رہا۔ ذیل دار کے اپنے دشمنوں کے متعلق جذبات ایسے خطرناک اور زہر آلود ہیں کہ رونگٹے گھڑے ہوجاتے ہیں۔
قاسمی نے کسانوں کی قابل رحم زندگی کو نہایت جرأت مندانہ انداز میں بیان کیا ہے۔ وہ غریب طبقے سے محبت اور ہمدردی رکھتے ہیں متوسط طبقے کی سفید پوشی اور امیر طبقے کی منافقت کو واضح کردیتے ہیں۔ وہ اپنے افسانوں کا مرکزی کردار دیہاتوں کے مفلس افراد کو بناتے ہیں جن کو شدید محنت و مشقت کے باوجود دو و قت کی روٹی بھی ٹھیک سے میسر نہیں ہوتی ہے۔ ان کی ڈھارس بندھانا اور ان کے زخموں پر مرہم رکھنا اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں۔ 
بگولے کا افسانہ ’طلائی مہر‘ کی بوڑھی بیوہ لوگوں کا اناج پیستی تھی۔ لیکن سخت محنت اور مشقت کے باوجود اپنا پیٹ تک نہیں بھر پاتی تھی۔ بالآخریہ بوڑھی بیوہ اناج پیستے پیستے چکی کے پاٹوں میں سر رکھ کر اس دنیا سے رخصت ہوگئی۔ یہ افسانہ دکھ درد اور بیکسی کی ایک تلخ حقیقت ہے۔ یہ ایک ایسی کہانی ہے جہاں قاری کا کلیجہ منھ کو آ جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ کچھ دیکھنے محسوس کرنے اور سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔
اسی طرح افسانہ ’جلسہ‘ میں بوڑھا غریب آدمی ذیل دار رئیس خانہ کا مزارع تھا۔ اس کی زمین میں کاشتکاری کرتا تھا۔ مولوی صاحب جب بھی گاؤں آتے ذیل دار ان کے لیے چندہ اکٹھا کرتا تھا۔ اور ان کی خوب خاطر مدارات کرتا تھا۔ غریب بوڑھا چندہ ادا نہیں کرسکا۔ ذیل دار نے کڑکتے ہوئے کہا وہ چندہ لیے بغیر سکون سے نہیں بیٹھے گا۔ چنانچہ اس نے بوڑھے سے چندہ اس شکل میں لیا کہ جب رات کو بوڑھے کی آنکھ کھلی تو بستر سے اس کی اکلوتی جوان بیٹی غائب تھی چارو نا چار وہ ذیل دار کے گھر کی طرف بھاگا وہاں اس نے دیکھا کہ ذیل دار کمرے کے باہر لاٹھی لیے ہوئے بیٹھا ہے۔ ذیل دار سے اس نے پوچھا میری بیٹی کہاں ہے اس نے کہا وہ مولوی صاحب کے پاس اپنی جوانی لٹا کر تیرا چندہ ادا کر رہی ہے۔ بوڑھے نے غصے میں بے قابو ہوکر چیخنا اور چلانا چاہا مگر ذیل دار کی لٹھی سیدھی اس کے دماغ پر پڑی اور بے دم ہوکر بوڑھا زمین پر گر پڑا۔ یقیناً زندگی میں مفلسی ایک بڑا دکھ ہے جس کے ہاتھوں بے بس اور نا تواں افراد اپنی عزت کو بھی داؤ پر لگا دیتے ہیں:
’’ایک بوڑھا اپنی کنواری بیٹی کا رات بھر غائب رہنا صرف اس لیے برداشت کرلیتا ہے کہ صبح سویرے اس کی ڈبڈباتی آنکھوں والی لڑکی اس کی ہتھیلی پر چونی یا اٹھنی رکھ دیتی ہے۔‘‘ 9
اسی طرح افسانہ ’رئیس خانہ‘ کی کہانی فضلو اور مریاں کے کرداروں کے ارد گرد گردش کرتی ہے۔ صحت افزا پہاڑی کے مسافر خانے میں فضلو ملازم ہے اور مریاں اس مسافر خانے کی صفائی وستھرائی کرتی ہے۔ دونوں کی زندگی غربت زدہ ہونے کے باوجود اطمینان بخش تھی۔ فضلو یوسف کی باتوں میں آکر ہر روز دس روپے کے عوض ایک عورت کا انتظام کرتا ہے یوسف اپنی جنسی پیاس بجھانے کے بجائے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈک پہونچاتا ہے۔ تو فضلو اپنی بیوی مریاں کو اس مقصد کے لیے بہت منت وسماجت کے بعد تیار کر لیتا ہے۔ وہ عیاش شہری رات بھر مریاں کے جسم سے کھیلتا رہتا ہے۔ کیوں کہ یہ مکار اور فریبی مریاں سے اپنی جنسی بھوک مٹانا چاہتا تھا۔ جب مریاں نے فضلو کو اپنی گزشتہ رات کی کہانی سنائی تو فضلو پر اس حقیقت کا ادراک ہوا کہ اس کی غربت ہی اسے فریب دینے کا باعث بنی۔ اس افسانے میں قاسمی کی حقیقت نگاری، فنی پختگی اور دیہاتی منظر کو سراہتے ہوئے ڈاکٹر اسلم جمشیدپوری اپنے مضمون ’’رئیس خانہ‘‘ پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’’’رئیس خانہ‘‘ ہمارے سماج کا آئینہ ہے جس میں سماج کا چہرہ بالکل واضح طور پر نظر آرہا ہے۔ اس کے کردار ہمارے سماج کے کردار ہیں۔ یہ کردار نہ صرف آزادی سے قبل کے سماج کے کردار ہیں بلکہ ہر عہد کے، ہر ملک کے کردار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ افسانہ عصری حسیت سے بھی معمور نظر آتا ہے اور اپنے اثرات اور دائرہ اثر کی بنا پر آفاقی حسیت کا حامل ہے۔ احمد ندیم قاسمی نے ایک ’’رئیس خانہ‘‘ ہی لکھا ہوتا تو بھی اردو ادب میں زندہ رہتے لیکن قاسمی نے ایسے کئی معرکۃ الآرا افسانے اردو کودیے ہیں۔‘‘ 10
ہمارے معاشرے میں مریاں کی طرح ہزاروں لاچار معصوم بے بس مفلس عورتیں بھینٹ چڑھتی ہیں اور ہزاروں فضلو امیر مکار عیاش لوگوں کے ہاتھوں اپنی عزت گنوا بیٹھتے ہیں۔
قاسمی ان افسانوں کے ذریعے معاشی، تہذیبی اور عصری حالات و واقعات کے ساتھ اپنا نقطۂ نظر پیش کرتے ہیں۔ وہ زندگی کے تلخ حقائق اور زندگی کی صداقتوں کو جاندار اور دلکش بنا کر پیش کرتے ہیں۔ وہ ایک ایسا ماحول چاہتے ہیں جہاں ہر سو محبت ہی محبت ہو۔ اور ایسے دور کے خواہشمند ہیں جہاں ہر طرف امن و آشتی کا پہرہ ہو۔ کوئی جاگیردار کسی مفلوک الحال مزارع کا حق نہ لوٹے کوئی اعلیٰ طبقے کا فرد کسی ادنیٰ طبقے کے فرد کو کیڑے مکوڑوں کی طرح کچلنے کی کوشش نہ کرے۔
آخرمیں ہم کہہ سکتے ہیں کہ قاسمی نے اپنے افسانوں میں حالات کی ستم ظریفی معاشی جبر، ظلم وستم، سماجی قوانین اور نا انصافیوں پر مبنی نظام حقیقت کو پیش کیا ہے۔ قاسمی انسان کی تذلیل و تحقیر کے سامنے خاموش تماشائی بن کر نہیں رہنا چاہتے وہ ہمیں افلاس زدہ بستیوں اور گھرانوں سے پر زور متعارف کراتے ہیں جو انتہائی بے بسی اور لاچارگی میں سسک سسک کر زندگی گزارنے پر مجبورہوتے ہیں۔ بھوک اور غربت ان کی آرزوؤں اور تمناؤں کو کچل کر رکھ دیتی ہے۔ان مظلوموں کی حمایت میں قاسمی ہر وقت کھڑے نظر آتے ہیں اور ظلم کے خلاف سینہ سپر رہتے ہیں۔ یہی وہ درد وکسک اور احساس ہے جس کی ترجمانی قاسمی کے دل سے اٹھنے والی لہریں کرتی ہیں۔
احمد ندیم قاسمی نے دیہی زندگی کی سفاک حقیقتوں کو جس طور پر پیش کیا ہے اس کی مثال کم ملتی ہے۔ وہ اپنے گہرے مشاہدے کی وجہ سے دیہی زندگی، معاشرت اور عادات و اطوار کو اپنے افسانوں کا حصہ بنانے میں بہت کامیاب رہے ہیں۔
استفادات:
(1) سید وقار عظیم ، نیا افسانہ، ص 172
(2) احمد ندیم قاسمی دیباچہ مشمولہ طلوع وغروب، ص12
(3) احمد ندیم قاسمی کی افسانہ نگاری از غلام حسین درک، غیر مطبوعہ مقالہ، ایم، اے اردو، اورینٹل کالج، پنجاب یونیورسٹی لاہور 1988، ص287
(4) احمد ندیم قاسمی دیباچہ سیلاب وگرداب، لاہور، گلوب پبلشرز 1943
(5) قاسمی سے انٹر ویو مشمولہ ندیم نامہ، مرتبہ اسلم فرخی، کراچی، ادارہ تصنیف وتالیف، 2006، ص 151
(6) احمد ندیم قاسمی، گھر سے گھر تک، ص64,63
(7) انور سدید، اردو افسانے میں دیہات کی پیشکش، ص65
(8) احمد ندیم قاسمی ، چوپال، ص19,20
(9) احمد ندیم قاسمی بگولے، ص23
(10) ڈاکٹر اسلم جمشید پوری، اردو افسانہ تعبیر و تنقید، ص123

Rizwan Bin Alauddin, 
132-E, Brahmaputra Hostel,
 JNU, New Delhi-110067
rizwanalauddin1985@gmail.com

ماہنامہ اردو دنیا، نومبر2016





قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

1 تبصرہ:

  1. بہت اچھی کوشش ہے۔ لیکن اردو کونسل جیسے ادارے کے لیے مناسب نہیں کہ وہ بلاگ سے کام چلائے۔ آپ کے یہاں وکی پیڈیا ہے جو کبھی اردو کونسل ہی کی طرف سے شروع کیا گیا تھا۔ یہ مضامین وہیں پوسٹ ہوتے تو زیادہ بہتر تھا۔

    جواب دیںحذف کریں